فوڈ سیکورٹی کی تعریف 1996ء کی ورلڈ فوڈ سمٹ میں کچھ اس طرح سے تجویز کی گئی:
’’فوڈ سیکورٹی ایک ایسی صورت حال ہے جس میں تمام لوگوں کو، ہر وقت، جتنی ضرورت ہو، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک تک جسمانی، سماجی اور اقتصادی طور پر رسائی حاصل ہو جو ان کی ایک فعال اور صحت مند زندگی کی غذائی ضروریات اور خوراک کی ترجیحات کو پورا کرتی ہو‘‘-
فوڈ سیکورٹی قومی سلامتی کا وہ لازمی جزو ہے جو قوم کی صحت اور سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے- یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست کے تمام اہم امور مثلاً سماجی، اقتصادی اور دفاعی بہترین طریقے سے چل سکتے ہیں- فوڈ سیکورٹی خود انحصاری کو بڑھاتی ہے- خوراک کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار ریاست کو کمزوریوں اور خطرات سے دو چار کرتا ہے-دنیا بھر میں 840 ملین سے زیادہ افراد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں- غذا کی کمی طاقت اور ذہانت کو کمزور کر تی ہے اور معصوم جانوں خاص طور پر بچوں کی تباہی کا باعث بنتی ہے-قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے، پچھلی دہائی میں بعض ممالک دوسرے ممالک میں فصلیں اگانےاور مویشی پالنے کے لئے لاکھوں ایکڑ اراضی لیز پر لے رہے ہیں، جسے ’’لینڈ گریب‘‘ کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے- یہ ’’ زرعی نوآبادیات‘‘اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں انسانی تاریخ میں استحصال کے ایک نئے باب کے اضافہ کے ساتھ پھیل رہا ہے -
پاکستان اور فوڈ سیکورٹی چیلنجز
ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے، وسائل کی کمی اور مسلسل کئی سالوں سے سماجی، اقتصادی اور سیاسی محاذوں پر مسائل کا شکارہونے کی وجہ سے پاکستان کو بھی فوڈ سیکورٹی کے چیلنجز کا سامنا ہے- پاکستان نے گزشتہ چند دہائیوں میں خوراک کی پیداوار میں نمایاں ترقی کی ہے- پاکستان اس وقت گندم کی پیداوار میں آٹھویں، چاول میں دسویں، گنے کی پیداوار میں پانچویں اور دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے- اس کے باوجود،آبادی میں اضافے، تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی، کم قوت خرید، قیمتوں میں زیادہ اتار چڑھاؤ اور خوراک کی تقسیم کے غیر مؤثر نظام کی وجہ سے فوڈ سیکورٹی اب بھی ایک اہم چیلنج ہے-
پچھلی دو دہائیوں میں، پاکستان کو بہت سے قدرتی جھٹکوں اور خود ساختہ بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں 2005ء میں تباہ کن زلزلہ، 2010، 2011 اور 2014 کے سیلاب، شہری مراکز میں سیکورٹی کے مسائل، توانائی کا بحران، عسکریت پسندانہ سرگرمیوں اور فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 30 لاکھ سے زائد افراد کا بے گھر ہونا، معاشی سرگرمیوں کی سست روی اور آئی ایم ایف کی اسٹینڈ بائی سہولت کے تحت عام سبسڈیز کو ترک کرنا وغیرہ شامل ہیں- ان تمام بحرانوں نے پاکستان میں ایک عام گھرانے کی فوڈ سیکورٹی کی سطح کو بری طرح متاثر کیا ہے -
اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے بحران میں پاکستان کا شمار بھی صف اول کے ممالک میں آتا ہے- ایسے طبقات خاص طور پر زیادہ متاثر ہوتے ہیں جن کی قوت خرید پہلے ہی کم تھی-گلوبل فوڈ سیکیورٹی انڈیکس 2022ء میں پاکستان 84 نمبر پر جبکہ انڈیا 68 نمبر پر ہے- پاکستان کی تقریباً 68 فیصد آبادی بنیادی طور پر اس طرح غذائی ایڈجسٹمنٹ کی متحمل نہیں ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنی کوئی ترجیحات بنا سکیں- غذائیت سے بھرپور خوراک تک گھرانوں کی بڑی تعداد کی محدود رسائی مشکل ہو رہی ہے- پاکستان میں غذائی قلت کا مجموعی پھیلاؤ تقریباً 18 فیصد عوام تک ہے جس میں 50 فیصد سے زائد 5 سال سے کم عمر کے بچے رکی ہوئی نشونما (stunted growth) کا شکار ہیں- وزارت صحت اور یونیسیف کے نیشنل نیوٹریشنل سروے 2018ء کے مطابق، ملک کے 37 فیصد گھرا نے ’’غذائی عدم تحفظ‘‘ کاشکار ہیں- 18 فیصد ’’شدیدغذائی عدم تحفظ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں - پاکستان کے زمینی اور پانی کے وسائل پر دباؤ مسلسل زیادہ ہوتا جا رہا ہے- پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط زرعی شعبہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے-
حضور (ﷺ) کی ذات اقدس اور فوڈ سیکورٹی
حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات اقدس میں تمام محاسن علی وجہ الکمال مجتمع ہیں - فضیلت نبوت و رسالت، رؤیت و قرب رب تعالیٰ، شفاعت، مقام محمود، عرب و عجم کی طرف بعثت، کوثر، ذکر کی بلندی اور آپ کو ایسا علم عطا فرمانا کہ اس کو سوائے اس علم کے عطا کرنے والے اور اس سے فضیلت دینے والے (خدا) کے کوئی احاطہ نہیں کر سکتا-الله پاک نے متعدد مقامات پر حضور نبی کریم (ﷺ) کا ’’نور اور روشن چراغ“ نام رکھا ہے- چنانچہ فرمایا: ’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب‘‘-
زیر نظر مضمون میں فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے نبی پاک (ﷺ) کا جامع، خوبصورت اور مکمّل نقطۂ نظرپیش کرنے کی سعی کی گئی ہے- مسلمان دنیا کی آبادی کے تقریباً پانچویں حصے کی نمائندگی کرتے ہیں اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام مسلمانوں اور دنیا کی آبادی کے لیے فوڈ سیکورٹی کے موجودہ اور آنے والے وقت کے مسائل کو کیسے حل کرسکتا ہے-
فوڈ سیکورٹی، جملہ حیات ارضی، اور رحمت للعالمین
حضور پاک (ﷺ) کی فوڈ سیکورٹی پیراڈائم توحید، نیابت اور امانت کے تصورات سے پیوستہ ہے- فطرت کے مقاصد انسان کی بنیادی ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں- تمام مخلوقات کی حیات اسی سے وابستہ ہے-الله پاک سورہ اَلْحِجْر میں یاد دلاتے ہیں: ’’اور تمہارے لیے اس میں زندگی گزارنے کے سامان بنائے اور وہ جاندار بنائے جنہیں تم رزق نہیں دیتے‘‘- فطرت میں حیرت انگیز حیاتیاتی تنوع تمام مخلوقات کی حیات کا ضامن ہے- اسی لیے نبی پاک (ﷺ) کو ’’تمام مخلوقات کیلئے رحمت‘‘ قرار دے کر تمام مسلمانوں پر بھی یہی ذمہ داری عائد کی کہ وہ بھی تمام مخلوقات کے لیے اسی طرح رحمت کا باعث بنیں - زمین کی جملہ حیات اور حقیقی انسانی فلاح کو ممکن بنانا مسلمان کا مقصد حیات ہے- تب ہی مسلم دنیا اس حقیت کی کامل عکاسی کر سکتی ہے جو قرآن مجید آقا پاک (ﷺ) کے بارے میں فرماتا ہے:
’’اور ہم نے آپ(ﷺ) تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا‘‘ -[1]
فوڈ سیکورٹی کے تین قطب
فوڈ کی سیکورٹی ایک تین کونوں والی مثلث سے وابستہ ہے جس کا ایک سرا فرد، دوسرا ریاست اور تیسرا ارضی حیاتیاتی تنوع ہے-
فرد کو الله پاک نے نیابت کے تاج سے نوازا ہے اور اس کی تخلیق کی اپنے کلام میں جا بجا تحسین فرمائی ہے - انسان کو الله پاک نے عظیم امانت عطا فرمائی ہے - تمام مخلوقات ارضی کی محافظت اس امانت کا حصّہ ہے - قرآن مجید کی نظر میں اس جہاں کے تمام وسائل اللہ پاک کی ملکیت ہیں جو انسان کو امانت کے طور پر عطا فرمائے گئے ہیں-آپ (ﷺ) نے قدرتی وسائل کی قدر دانی اور تحفّظ کی تعلیم دی ہے-آپ (ﷺ)قدرتی وسائل کے استعمال کے دانشمندانہ اور پائیدار استعمال، ذمہ دارانہ رویے اورتمام حیات ارضی کی سرپرستی پر زور دیتے ہیں- موجودہ فوڈ سیکورٹی اور ماحولیاتی بحران درحقیقت اس امانت کی حفاظت میں ناکامی کی عکاسی کرتا ہے، اس طرح قدرت اس بات کا واضح اشارہ دیتی ہے کہ ایک خاص معاشرے نے الله پاک کے تئیں اپنی ذمہ داری کو کتنی اچھی طرح سے نبھایا ہے-
فوڈ سیکورٹی کا دوسرا سرا ریاست سے جڑا ہوا ہے- قرآن مجید صرف قوانین و اقدار عطا کرتا ہے، خود ان کو نافذ نہیں کرتا- انصاف اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانا ریاست کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے- آقا کریم (ﷺ)نے فرمایا:
”جس کو کسی قوم کی ذمہ داری سونپی گئی ہو لیکن وہ اخلاص کے ساتھ اس پر عمل نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا‘‘- [2]
سورۂ یوسف فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے پیشگی مؤثر منصوبہ بندی کے لئے رہنمائی فرماتی ہے- یہ آیات فوڈ سیکورٹی کے اچھے انتظام کی اہمیت اور ممکنہ خوراک کے بحران سے پہلے فعال حکمت عملی وضع کرنے کے بارے میں اسباق فراہم کرتی ہیں اور وضاحت فرماتی ہیں کہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خوراک کو یقینی بنانا حکومت کی زیادہ ذمہ داری ہے-
فوڈ سیکورٹی اپنی مثلث بائیوڈائیورسٹی پر مکمّل کرتی ہے- تمام ارضی بائیوڈائیورسٹی توازن اور ہم آہنگی کا شاہکار ہے- یہ توازن اور ہم آہنگی حقیقت میں فوڈ سیکورٹی کی ضامن ہے - حضور نبی کریم (ﷺ) نے سکھایا کہ انسانوں کو الله پاک کی تخلیق، جو توازن اور ہم آہنگی کا شاہکار ہے، پر غور و فکر کرکے اس کی حکمتوں کو سمجھنا چاہئے- آپ (ﷺ)فرد کو یہ تعلیم فرماتے ہیں کہ دوسرے تمام جاندار ہماری طرح قومیں ہیں-جس کا تذکرہ الله پاک نے سورہ انعام میں اس طرح فرمایا:
’’اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں کہ اپنے دونوں بازؤں سے اڑتے ہیں ان میں کوئی قسم ایسی نہیں جو کہ تمہاری طرح کے گروہ نہ ہوں-ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی -پھر سب اپنے پروردگار کے پاس جمع کئے جائیں گے ‘‘-[3]
حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیات مبارکہ ہم سے متقاضی ہے کہ ہم تمام جانداروں کے لیے ذمہ دار ہیں- وہ لوگوں کی طرح ہیں اس لیے ان کا بلا حاجت قتل ان کی نسل کشی کے مترادف ہے- خوراک سمیت اللہ پاک کی تمام نعمتیں تمام مخلوقات کو بلا تفریق دی جاتی ہیں، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں- قرآن کریم میں بیشتر مقامات پراللہ پاک فرماتے ہیں کہ انسانوں سمیت تمام مخلوقات کا رزق اس کے ذمّہ کرم پر ہے-
تعلیماتِ رسول الله(ﷺ) کا حتمی مقصد: جہان کے لئے رحمت بننا
رسول الله(ﷺ) کی تعلیمات کا حتمی مقصد بنی نوع انسان کے لیے رحمت بننا ہے- یہی وہ بنیادی مقصد ہے جس کے لیے پیغمبر اسلام (ﷺ) کو اس دنیا میں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے- اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک ناگزیر طریقہ یہ ہے کہ زمین پر رہنے والے تمام لوگوں کی حقیقی فلاح و بہبود کو فروغ دیا جائے، قطع نظر ان کی نسل، رنگ، عمر، جنس یا قومیت کے- انسانی خودی کی نمود حضور (ﷺ) کی شریعت کے بنیادی مقاصد کا محور و مرکز ہے، جس مقصد کے لیے بنیادی انسانی ضروریات کا پورا کرنا انتہائی اہم ہے تاکہ انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ خدا کے خلیفہ کے طور پر اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کر سکیں- ان ضروریات کی تکمیل کو یقینی بنانے سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کی اخلاقی، جسمانی، فکری اور تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے اور اس طرح پائیدار بہبود کو یقینی بنایا جا سکتا ہے-
فقہاء نے بنیادی انسانی ضروریات کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: ضروریات (necessities)، حاجات (comforts) اور تحسینیات (refinements)- ان میں وہ تمام چیزیں اور خدمات شامل ہیں جو کسی خاص ضرورت کو پوراکریں، کسی مشکل کو کم کریں اور ذہنی سکون اور خوشی فراہم کر کے انسانی فلاح و بہبود میں حقیقی تبدیلی لا سکیں- شریعت رہنمائی فرماتی ہے کہ ضروریات کی تکمیل فرد کی اپنی کوشش سے ہونی چاہیے- اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے روزی کمانا ہر مسلمان کا ذاتی فریضہ ہے- لہٰذا یہ ایک مسلم معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری (فرض کفایہ) ہے کہ وہ معیشت کو اس طرح سے چلائے کہ ہر ایک کو اپنی صلاحیت اور کوشش کے مطابق ایمانداری سے زندگی گزارنے کا مناسب موقع ملے- آمدنی میں حد سے زیادہ تفاوت کچھ لوگوں کو معاشرےمیں نیچے لے جاتی ہے - عدم مساوات کو کم کرنے کیلیے مؤثر تدابیر کا فقدان اخوت کے ان جذبات کو فروغ دینے کی بجائے تباہ کرنے کا باعث بنتا ہے جسے اسلام فروغ دینا چاہتا ہے- لہٰذا، اسلام غربت کو دور کرنے اور ہر ایک کی ضروریات کو پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے- غربت اسلامی تعلیمات میں پیوست انسانی وقار کے ہدف سے متصادم ہے- تاہم، غربت کا خاتمہ بنی نوع انسان کے اختیار میں تمام وسائل کے مؤثر اور منصفانہ استعمال کے بغیر ممکن نہیں ہے- یہ تمام وسائل الله پاک کی طرف سے امانت ہیں اور ان کا استعمال اس طرح ذمہ داری سے کیا جائے کہ تمام انسانیّت کی ضروریات پوری ہوں-
فوڈ سیکورٹی اینڈ اسلامک انسٹیٹیوشن آف چیر یٹی
اسلام میں روزمرہ کے معمولات میں فوڈ سیکورٹی کو بہت اہمیت اور وزن حاصل ہے- سورہ الماعون میں ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے:’’کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے-اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں دیتا ‘‘- اس حق کو بلند ترین سطح پر لے جاتے ہوئے اسلام نے سماجی تحفظ کو زکوٰۃ کی صورت میں اسلام کا تیسرا ستون بنایا اور خیرات کو ایک باقاعدہ نظام کی صورت دی جو کہ خیرات، صدقہ اور زکوٰۃ پر مشتمل ہے- ہنگامی تحفظ فراہم کرنے کا بنیادی انحصار زکوٰۃ پر ہے- جو مسلمان اس کی ادائیگی سے انکار کرے وہ فاسق ہے- زکوٰۃ کی شرح شریعت خود طے کرتی ہے- زکوٰۃ دینے والا مستحق پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ صرف اپنی ذمہ داری پوری کرتا ہے- ریاست خود زکوٰۃ جمع کرکے اپنے کارکنوں کے ذریعے غرباء کو ادا کر سکتی ہے- کچھ دیتے اور بانٹتے ہوئے اصل ضرورت مندوں کی تلاش کی ذمہ داری دینے والے پر ہے - مسلمانوں کی طرف سے بانٹنا اور دینا اللہ کا قرض ہے اور اللہ تعالیٰ عمل کرنے والوں کو اس کا بدلہ کئی طرح سے عنایت فرماتا ہے- دینے والا اپنے رزق میں سے وہ حصہ دے گا جو اسے سب سے زیادہ پسند ہو-
حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ :
’’ایک آدمی نے رسول اللہ (ﷺ) سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ تو کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو‘‘- [4]
’’سب سے زیادہ محبوب کھانا آپ (ﷺ) کے نزدیک وہ ہے جو مل کر کھایا جائے یعنی اس کھانے پر زیادہ ہاتھ پڑیں‘‘- [5]
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا، رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے ایک تو اس پر جسے اللہ نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا اور دوسرا آدمی وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا‘‘-[6]
انسان سے فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے مطلوبہ اقدار
انواع و اقسام کی تمام حیات الله پاک نے ہی پیدا فرمائی ہے اور اس کو انسانیت کو ایک امانت کے طور پر سپرد کیا ہے- اس طرح اس تمام حیات کی اچھی سرپرستی تعلیمات مصطفےٰ (ﷺ) کی روشنی میں انسان کے ذمہ آتی ہے- الله پاک نے انسانوں کو زمین پر اپنے نمائندے کے طور پر مقرر فرمایا ہے اور یہ انسانیت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی مخلوق کا تحفّظ کرے - انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ دانائی اور حکمت سے زندگی کے تمام تر مسائل کو سمجھے اور ترقی کرنے کیلیے مطلوبہ سائنسی علم و حکمت حاصل کرے[7]- تمام حیات ایک کمیونٹی کی مثل ہے [8]اور انسان کو اس توازن میں خلل نہیں ڈالنا چاہیے-
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے کوئی ایسی زمین آباد کی، جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حقدار ہے‘‘-[9]
رحمت دو عالم (ﷺ) کا یہ فرمان مبارک زمین کی دیکھ بھال اور اس کی ہریالی کو محفوظ رکھنے کیلیے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے اور صحیح اور دانشمندانہ استعمال کی تعلیم دیتا ہے-
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) سےمروی ہے کہ رسول (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے‘‘-[10]
آپ (ﷺ) نے درخت لگانے، بیج پھیلانےاور خشک مٹی کو پانی دینے جیسے افعال کو صدقے کا درجہ عطا فرمایا- یہ اعلیٰ ماحولیاتی نظریات آپ کی ذات اطہر میں ایک عظیم سائنسدان اور ماہر ماحولیات کی عکاسی کرتے ہیں- مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ تمام وسائل بشمول خوراک کے ایک توازن سے اپنے استعمال میں لائے- خوراک کے حوالے سے کاشت اور مٹی کے انتخاب سے لے کر؛ خالص خوراک کے ذخیرہ کرنے ؛ اور اس کا سمجھداری سے استعمال کرنے تک، اس کے تمام مراحل میں بہترین معیار کو یقینی بنانا چاہیے-مسلمان کی یہ شان ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے- رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان مبارک کے مطابق :
’’وہ شخص کامل مومن نہیں جو رات کو پیٹ بھر کر سوئے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا ہو اور اسے اس کی خبر نہ ہو‘‘-[11]
جب بھی آپ (ﷺ) نے کسی کو ضرورت مند پایا، خواہ وہ کم حیثیّت یا غریب کیوں نہ ہو، آپ (ﷺ) اپنی یا اپنے گھر والوں کی بجائے پہلے اس کی ضرورت کو ترجیح دیتے- اسی سبب آپ (ﷺ) نے کل کے لیے کبھی کچھ نہیں بچایا-
مسلمان جب اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں گے تو سب کے لیے رزق میسر ہوگا اور معاشرے کی ضروریات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت آئے گی-تعلیماتِ مصطفےٰ (ﷺ) قدرتی ماحول کی حالت کو انسان کے اعمال سے جوڑتی ہیں - اگر اعمال اچھے ہوں گے تو قدرتی ماحول کی حالت بھی ٹھیک ہو گی- سورہ الاعراف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کیے پر گرفتار کیا‘‘-
انسان کو الله پاک کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر گزار ہونا چاہیے- الله پاک سورہ الاعراف میں مزید فرماتے ہیں:
’’اور بیشک ہم نے تمہیں زمین میں جماؤ دیا اور تمہارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے بہت ہی کم شکر کرتے ہو‘‘-
فوڈ سیکورٹی آج انسان کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے- خاتم الانبیاء حضرت محمّد (ﷺ) کی مبارک زندگی میں ہماری ہر مشکل کا حل موجود ہے - فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے ہمیں تعلیماتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے بہترین رہنمائی مل سکتی ہے-انسانی خوراک کے تحفّظ کا دار و مدار فرد، ریاست، اور بائیوڈائیورسٹی میں ہے- فرد اپنے آپ کو الله پاک کا نائب تصوّر کرتے ہوئے مخلوقات ارضی کی نگہبانی کرے- اپنے اس مقام و مرتبے جس کی قران مجید نے تحسین فرمائی ہے کی حفاظت کرتے ہوئے انسانیّت کی فلاح کیلئے اپنی طرف سے ممکن حصّہ ڈالے- ایک طرف، فوڈ سیکورٹی اور اس کی ہم آہنگی کی بنیادی ذمہ داری ریاستی قیادت کے کندھوں پر آتی ہے- دوسری طرف ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی روزی بشمول خوراک کے حصول کیلیے کام کرے- اس لیے خوراک کی پیداوار، پروسیسنگ، تقسیم، ذخیرہ اندوزی اور دیگر متعلقہ کاموں میں تمام مسلمانوں کوایمان داری سے حصّہ لینا چاہئے-
پیغمبرِ اسلام (ﷺ) کی متعدد احادیث مبارکہ زمین کی ملکیت اور زرعی پیداوار کی منصفانہ تقسیم کی اہمیت سے متعلق ہیں- کاشتکاری زیادہ مؤثر طریقے سے کی جائے-رحمت دو عالم (ﷺ) نے زمین، جنگلات اور حیوانات کے تحفظ کے لیے پروٹیکٹڈ ایریاز قائم فرمائے - مدینہ منوّرہ کے جنوب میں آپ (ﷺ) نے 12 میل کے دائرے میں ایک پروٹیکٹڈ ایریا قائم فرمایا جہاں سے درختوں اور پودوں کا کاٹنا اور مخصوص اوقات میں شکار کو ممنوع قرار دیا- ان محفوظ علاقوں کا قیام ماحولیاتی تحفظ، زرعی زمینوں اور قدرتی وسائل کے پائیدار استعمال اور انتظام کے لیے فرمایا گیا-
آج اس امر کی ضرورت ہے کہ آقا پاک (ﷺ) کی اس بصیرت سے رہنمائی لیتے ہوئے ہماری ریاستیں نایاب بائیو ڈائیورسٹی کو محفوظ بنانے کے اقدامات کریں- شجر کاری کے حوالے سے مصطفےٰ کریم (ﷺ) کے فرمان مبارک”قیامت کے دن بھی جس کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو تو وہ اسے لگا لے“[12] سے ہمیں روشنی لینی چاہے -
دنیا کی تقریباً 39 فیصد زمین کو انسان مویشیوں، فصلوں اور شہری علاقوں کیلئے استعمال کرتا ہے- باقی ماندہ 61 فیصد زمین اس طرح کے استعمال کے لئے موزوں نہیں ہے- نبی پاک (ﷺ) کا فرمان مبار ک ہے:
’’ میرے لیے تمام زمین میں نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے کی اجازت ہے - اس لیے میری امت کے جس آدمی کی نماز کا وقت (جہاں بھی) آ جائے اسے (وہیں) نماز پڑھ لینی چاہیے‘‘-[13]
ان الفاظ کے ساتھ آپ (ﷺ)نے زمین کی مقدس نوعیت واضح فرمائی ہے - ہوا اور پانی کی طرح زمین اور مٹی ہر قسم کی بقا کے لیے ضروری ہیں- اللہ تعالیٰ نے زمین کو ہمارے اور دیگر جانداروں کے لیے رزق اور روزی کا ذریعہ بنایا ہے- لیکن دوسرے قدرتی ماحول کی طرح زمین بھی تنزلی کا شکار ہو رہی ہے- زمین کی سطح کا تقریباً %73 حصہ انسانی سرگرمیوں سے بہت زیادہ تنزلی کا شکار ہے- زرعی علاقوں میں کل زرعی اراضی کا تقریباً 69 فیصد شدید متاثر ہو چکا ہے- اس صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے - آپ (ﷺ)نے نہ صرف زرخیز زمینوں کے پائیدار استعمال کی حوصلہ افزائی کی بلکہ غیر استعمال شدہ زمین کے مفید استعمال کی بھی تعلیم دی- ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں رسول اللہ (ﷺ) کھجور کے باغات اور درخت لگانے کا اہتمام فرماتے تھے- آپ(ﷺ)نے درخت لگانے کی تحسین فرمائی ہے اور اسے صدقہ جاریہ قرار دیا- آقا کریم (ﷺ) نے وسائل کو انسانوں میں آپس میں بانٹ کر استعمال کرنے کی تعلیم دی ہے- زکوٰۃ، صدقات اور خیرات سے کمزوروں اور پیچھے رہ جانے والوں کی مدد کی تلقین فرمائی -
٭٭٭
[1](الانبیاء:107)
[2])(صحیح بخاری، رقم الحدیث:7151)
[3](الانعام:38)
[4])(صحیح بخاری، رقم الحدیث:6236)
[5](الشفاء للقاضی عیاض مالکی)
[6])(صحیح بخاری، رقم الحدیث:5025)
[7](السجدہ:27، التوبہ:122)
[8](الانعام:36)
[9])(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2335)
[10])(صحیح بخاری، رقم الحدیث:2320)
[11]( الأدب المفرد، رقم الحدیث : 112)
[12](الأدب المفرد، رقم الحدیث: 479)
[13](صحيح بخاری، کتاب الصلاۃ )