برین چپ : Brain Chip

برین چپ : Brain Chip

اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر شے میں روح داخل کی چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان گو کہ انسان کی نظر میں کچھ اشیاء ساکن و منجمد اور بے شمار حرکت میں ہے لیکن درحقیقت روح سے آشنا ہے- اللہ تعالیٰ نے انسان کو دماغ عطا فرمایا جس سے وہ سوچتا ہے، سمجھتا ہے،پھر اُس پر عمل کرتا ہے انسانی جسم کا یہ حصہ نہایت ہی نازک اور پورے جسم کو کنڑول کیے ہوئے ہے جو وجود کے پیغامات سنتا اوراُس کے مطابق جوابات بھی دیتا ہے -

انسانی وجود میں دماغ کواس طرح اہمیت حاصل ہے جس طرح ایک ملک میں وزیراعظم کویا پھر ایک گھر میں سربراہ کو حاصل ہوتی ہے-ذہن /دماغ (Brain) وجود (Body) سےرابطے کا ایسا جالاہے جو ایک شخص کو سوچنے، سمجھنے، حرکت کرنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت دیتا ہے- ہمارے ذہن میں تقریباً86,000 نیورانز پائے جاتے ہیں جو جسم کی معلومات برین کو بھیجتے اور حاصل کرتے ہیں- نیورانز کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے تین اقسام عام ہیں-

  1. پہلی قسم کو ڈینڈرائٹ (Dendrite) کہتے ہیں جو شاخ دار ہوتی ہے اور سگنل کو حاصل کرتی ہے-
  2. دوسری قسم وجود کے سیل ہیں جس کو سوما (Soma) کہتے ہیں جو دماغ میں آنے والے سگنلز کو شمار کرتی ہے-
  3. تیسری قسم کو اوکسن (Axon) کہتے ہیں جو دماغ میں آنے والے سگنلز کو واپس بھیجتی ہے-

دماغ میں موجود نیورانز اوکسن اور ڈینڈرائٹ ایک کنکشن کے ذریعے جُڑے ہوتے ہیں جو سگنل کوجسم میں بھیجتے اور حاصل کرتےہیں جس کو ’’Synapse‘‘(معانقہ عموماً ایک نیوران کے ایکسون اور دوسرے کے ڈینڈرائیٹ کے درمیان بنتا ہے) کہتے ہیں-نیورانز الیکٹرک سگنلز کے ذریعےہماری بات چیت کو محفوظ بھی کر سکتے ہیں - نیورانز کے قریب الیکٹروڈز رکھنے سے عمل کی صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے جس سے بہت سے نیورانز ان خلیوں کی معلومات کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کیا جا سکتا ہے- دماغ میں نیورانز مطلوبہ حرکتوں کی نمائندگی کرکےحواسِ خمسہ کے بارے معلومات لے جاتے ہیں-

برین چِپ ، نیورالنک یا برین کمپیوٹر انٹر فیس:

برین چِپ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایسی چِپ جو جسم کے سب سے نازک اور اہم حصے سے منسلک ہوگی جسےدماغ کہتے ہیں جس کوانسان نے استعمال کرکےدنیا کے ہر شعبہ میں ترقی کی منازل حاصل کیں اب اُسی برین میں چُھپی ہوئی صلاحیتوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کرنے اور باڈی کا ذہن کے مطابق ساتھ نہ دینے کے پیش نظر ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دماغ میں مخفی صلاحیتوں کو محفوظ کیا جائے تاکہ اُس پر فورا ً یا بعد میں عمل کیا جا سکے- ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً 1 بلین یعنی کل آبادی کا 15 فیصد حصہ جسمانی اعضاء سے محروم پیدا ہوتا ہے اور ان کی شرح میں اضافہ مختلف حادثات اور مہلک بیماریوں کی وجہ سے بڑھ رہا ہے -اس شرح کو کم کرنے اوران کی زندگیوں کو کارآمد بنانے کیلئےایلون مسک (جوخلائی تحقیقاتی کمپنی سپیس ایکس اور ٹیسلاکے CEO)نے اپنی وہ تحقیق متعارف کروائی جو مستقبل میں بالخصوص معذور افراد کی زندگیوں میں حیرت انگیز تبدیلی رونما کرے گا- یہ ایجاد برین چِپ (Brain Chip) ہے جسے نیورا لنک (Neuralink)یا پھر کمپیوٹر انٹرفیس کا نام دیا گیا ہے-

ریسرچرز نے اپنی اس برین چپ کا عملی مظاہرہ دکھا کر دنیا کو حیران کیا-اُن کا کہنا تھا کہ اس چِپ کا سائز 4مربع ملی میٹر(ایک بڑے سکہ جتنا) ہےجس کاوزن نہ ہونے کے برابراور یہ بالوں کے نیچے اس طرح فٹ کیا جائے گاکہ نظر نہ آسکے گا-اس کی ڈیوائس کان کے ساتھ بلیوٹوتھ ہیڈفون کی طرح ایک آلے سے منسلک ہوگی جو چِپ کو سگنل فراہم کرے گی- یہ چھوٹے پروب (Tiny Probe) پر مشتمل تین ہزار سے زائد الیکٹروڈ انسانی بالوں سے زیادہ پتلے، لچکدار دھاگوں کی طرح جُڑے ہونگے جو ایک ہزار دماغی نیوران کی نگرانی کر سکیں گے -ایک اندازہ کے مطابق انسانی دماغ میں نیورانز کی کل تعداد 86 بلین سے 100 بلین تک ہے - ایک انسانی دماغ میں اس جیسی 4 چِپس نصب ہوسکیں گی جس کے سگنل کمپیوٹر کو منتقل کیے جاسکیں گے- اس چِپ سےانسان اپنی سوچ کے ذریعے کمپیوٹر کو آپریٹ کر سکے گا اور مزید یہ کہ ماؤس اور کی بورڈ چلانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی-چِپ سےدنیا بھر کی معلومات ڈاون لوڈ ہو سکے گی اور وہ دنیا کی جس زبان میں چاہےبات کر سکے گا -ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانوں پر بھی اس برین چِپ کے تجربات کیے جائیں گے جس کے ذریعے ڈیمینشیا (Dementia) ذہنی کیفیت کا درست نہ ہونا، پارکنسنز(Parkinson’s) بیماری ، ریڑھ کی ہڈی پرچوٹ، صدمات اور ڈپریشن وغیرہ کا بھی علاج کیا جا سکے گا- غرض یہ چِپ کچھ ایسے فیچرز کی حامل ہے کہ مستقبل کی دُنیا بدل کر رکھ دے گی -

جب یہ چِپ عام ہو گی تو زندگیوں میں کسی خاص ’زبان‘ کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی اور لوگ دوسری زبان بولنے والے شخص سے بآسانی بات کر سکیں گے- رپورٹ کے مطابق ایلون مسک اپنے دور میں طویل المیعاد مقاصد شروع کرنا چاہتا ہے جسے ماورائی ادراک (Superhuman Cognition) کہتے ہیں انسانی دماغ میں اس چپ کے استعمال سے سپر انٹیلی جنس کی نئی پرت پیدا ہو گی جس سے یہ چپ جزوی طور پر مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligense)  کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اوران کا مقابلہ کرسکےگی- انسانی نسل کی تباہی کو بچانے کیلئے ربوٹس کی طرح کے تجربات مشکلات پیدا کر سکتے ہیں- برین چِپ کے اس منصوبے پر کڑی تنقید بھی کی گئی اور اسے متنازعہ قرار دیا گیا-

اس برین چِپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس چپ سے فون یا کمپیوٹر کو اپنے دماغ سے کنڑول کیا جا سکے گا اور ہیکرز اس چِپ کو ہیک کرکے لوگوں کے دماغوں میں محفوظ راز چوری کر سکتے ہیں- اس طرح اہم حکومتی اور فوجی راز چوری ہونے سے دنیا ایک تباہی سے بھی دوچار ہو سکتی ہے- بہت سے سائنسدانوں کا اس بارے کہنا ہے کہ ناقدین کی تنقید اپنی جگہ بجا ہو سکتی ہے لیکن ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ انسان جب تک کسی چیز کے تجربہ سے گزر نہیں لیتا اس کا خوف اسے ستاتا رہتا ہے-ایسی ایجادات کے بارے ہمیشہ خوفناکیاں مشہور کی جاتی رہی ہیں لیکن اس امر کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ایسی ایجادات ہی کی بدولت آج سے سو برس قبل ناقابل علاج  سمجھے جانے والی بیماریوں کا  علاج ممکن ہو پا رہا ہے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر