علم الکلام کی اہمیت و افادیت : آخری قسط

علم الکلام کی اہمیت و افادیت : آخری قسط

علم الکلام کی اہمیت و افادیت : آخری قسط

مصنف: مفتی میاں عابد علی ماتریدی مارچ 2021

علم الکلام کے دو اہم مکاتبِ فکر ماتریدیہ اور اشاعرہ کا مختصر تعارف:

علم الکلام کے میدان میں اہل السنۃ و الجماعۃ کے ہاں دو ہستیاں بےحد محترم اور عزیز ہیں- جنہیں اس فن کا امام تسلیم کیا جاتا ہے- جن میں سے ایک شافعی مسلک کے امام ہیں یعنی امام ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری اور دوسرے حنفی مسلک کے امام ہیں یعنی ابو منصور الماتریدی -گویا یہ دونوں بزرگ سنی علم الکلام کےقطبین اور مسلَم امام ہیں اور ان دو کی آراء کی اتباع کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے علماء نے ہدایت پانے اور فساد و گمراہی سے اپنے عقیدے کو محفوظ کر لینے کا وسیلہ قرار دیا ہے-

ماتریدی مکتبہ فکرکا تعارف

بانئ ماتریدی مکتبہ فکر:

علم الکلام میں ماتریدی مکتبہ فکر کے بانی امام ابو منصور محمد بن محمد بن محمود ماتریدی الحنفی ہیں-جن کی ولادت238ھ سمر قند کے علاقے ماترید میں ہوئی؛اور وفات333ھ سمرقند میں ہوئی-

ماتریدی مکتبہ فکر کے مراحل:

ماتریدیہ علم الکلام میں ایک اہل سنت مکتبہ فکر ہے جو امام ابو منصور ماتریدی کی طرف منسوب ہے- انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے ابتدائی طور پر معتزلی اور جہمیوں کے مقابلے میں عقلی اور کلامی دلائل پر زیادہ انحصار کیا-

ابتدائی مرحلہ: (تاسیسی مرحلہ)

آپ نے اپنے مسلک کی تاسیس میں بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا ہے- ان میں محمد بن مقاتل رازی، ابو نصر عیاض، ابوبکر احمد بن اسحاق الجوزجانی، نصیر بن یحییٰ بلخیؒ قابلِ ذکر ہیں-[1]

اس مرحلہ میں معتزلہ کے ساتھ ان کے بہت ہی زیادہ مناظرے ہوئے- یہ مرحلہ ابو منصور ماتریدی پر قائم تھا- انہیں عقل کو مقدم کرنے والوں کا سرخیل سمجھا جاتا ہے، گمراہ فرقے عقلی و منطقی استدلال کو ہتھیار بنا کر سادہ لوح مسلمانوں کا شکار کرتے تھے، امام ماتریدی نے ان گمراہوں کے ہتھیار انہی کی طرف موڑ دیئے یعنی عقل و منطق کی طاقت سے ان کا دامِ فریب توڑ ڈالا اور اہل سنت و جماعت کے عقائد کو عقل و منطق کے پیمانوں پہ ایک محفوظ منہج عطا کیا -

تقوینی مرحلہ:

اس دور میں ماتریدی فکرپھل پھول رہی تھی چونکہ اس کی بنیادیں ڈل چکی تھیں اور اس پر عمارت کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوچکا تھا- یہ دور ابو منصور ماتریدی کے شاگردوں اور بعد میں ان سے متاثر ہونےوالےلوگوں کا تھا- اس دور میں ماتریدیہ مستقل ایک کلامی مکتب فکر بن چکا تھا-اس مرحلے میں ابو منصور الماتریدی نےبہت سے شاگردوں کی تربیت کی جن میں سے چند اہم نام ابو القاسم حکیم سمرقندی، علی رستغفنی، ابو محمد عبدالکریم بزوری، احمد عیاضؒ قابل ذکر ہیں- یہ مکتبہ فکر ابتدائی طور پر سمرقند میں ظہور پذیر ہوا اور اپنے شیخ اور امام کے افکار نشر کرنے شروع کیےاور ان کا دفاع بھی کیا، اس کیلیے انہوں نے تصانیف بھی لکھیں- ماتریدی فروع میں امام اعظم ابو حنفیہ کے مقلد تھے اس لئے ماتریدی عقائد زیادہ انہی علاقوں میں پھیلے جہاں فقہی مذہب امام اعظم کا تھا -

تالیفات کا مرحلہ:

 (جمع الدلائل و الاصول و القواعد)

اس مرحلہ میں تالیفات کثرت سے ہوئیں اور ماتریدی عقائد کیلئے دلائل جمع کیے گئے - اس لیے مذہب کی بنیاد کیلئے گذشتہ تمام مراحل سے زیادہ اہم مرحلہ یہی ہے- اس مرحلہ میں کئی قابل ذکر علماء کا کردار ہے- چند یہ ہیں:

امام عمر النسفی:

آپ کا مکمل نام عمر بن محمد بن احمد بن اسمٰعیل بن محمد بن لقمان نسفی المعروف بہ مفتی الثقلین - ابو حفص آپ کی کنیت اور نجم الدین آپ کا لقب ہے- آپ کی ولادت 412 ھ/ 1068ء نسف میں ہوئی اور اس علاقے کی نسبت سے نسفی کہلائے- امام فاضل، اصولی متکلم، مقبر، محدث، فقیہ، حافظ، متفن، لغوی، نحوی، ادیب، عارف مذہب تھے اور بسبب کثرت حفظ اور مقبولیت خواص و عوام کے آئمہ مشہورین میں سے ہوئے- آپ نے فقہ صدر الاسلام ابی الیسر محمد بزدوی سے حاصل کی- آپ جن و انس کو جانتے تھے اس لئے لوگ آپ کو ’’مفتی ثقلین‘‘ کہتے تھے- آپ نے تقریبا100کتابیں لکھیں جس میں فقہ، حدیث تفسیر، شروط و لغت وغیرہ ہیں- آپ نے سمرقند 537ھ یا بعض کے نزدیک 538ھ میں وفات پائی-[2]

ابو حفص عمر بن محمد نسفی حنفی ماتریدیؒ کا سب سے معروف کام مختصر رسالہ ’عقائد النسفیہ‘ ہے جسے عقائد ماتریدیہ کا سب سے جامع و اجمع متن/ ٹیکسٹ مانا جاتا ہے- ضخامت میں تو یہ صرف اڑھائی صفحات پہ مشتمل ہے مگر اس کا ایک ایک حرف ہزار ہزار الجھنوں کو حل کرتا ہے - اس کی متعدد شروحات لکھی جاچکی ہیں- یہ کتاب آج بھی مدارسِ دینیّہ کے نصاب کا لازمی حصہ ہے- اس کی سب سے مشہور شرح امام سعد الدین تفتازانی (متوفیٰ: 791ھ) ؒ کی ’’شرح عقائد النسفیہ‘‘ ہے- [3]

ابو المعین النسفی:

آپ کا مکمل نام میمون بن محمد بن محمد بن معتمد بن محمد بن محمد بن مکمول بن الفضل - آپ کی کنیت ابو المعین ہے-

آپ کی ولادت 418ھ یا 438ھ میں نسف، ماوراءالنہر کے علاقے میں ہوئی- آپ ماتریدیہ کے عظیم اکابرین میں سے تھے-رئیس اہل السنۃ و الجماعۃ، سیف الحق، سیف الدین، لسان المتکلمین، امام الزاھد، العالم الباری یہ آپ کے القابات میں سے کچھ ہیں-

ابو منصور ماتریدی کے بعد مشہور ہونے والے علماء الماتریدیہ میں سے ایک ہیں- آپ فکر ماتریدیہ کے بہت بڑے محافظ تھے- آپ نے مذہب الماتریدیہ کو مضبوط و مستحکم کرنے میں شروحات و تفصیلات کے ذریعے اضافہ کیا- آپ ماتریدیہ کا دفاع کرتے ہوئے معتزلۃ، جہمیہ، کرامیۃ، باطنیۃ وغیرہ کے نظریات کا جواب دیتے تھے-’رفیع الدین الشروانی، طبقات اصحاب الامام الاعظم ابی حنیفۃ‘ کے الطبقۃ السادسۃ میں لکھتے ہیں کہ ابو المعین النسفی کی اہم کتابیں تبصرۃ الادلۃاوربحر الکلام ہیں- آپ کی وفات 508ھ میں ہوئی-[4]

نظریات و عقائد:

ماتریدیہ کے ہاں اصولِ دین (عقائد)کی ماخذ کے اعتماد سے دو قسمیں ہیں:

1-الٰہیات (عقلیات):

یہ وہ مسائل ہیں جن کو ثابت کرنے کیلئے عقل بنیادی ماخذ ہے اور نصوص صریحہ عقل کے تابع ہیں، اس زمرے میں توحید کے تمام مسائل اور صفات الٰہیہ شامل ہیں-

2-شرعیات (سمعیات):

یہ وہ مسائل ہیں جن کے امکان کے بارے میں عقل کے ذریعے جزی فیصلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کو ثابت یا رد کرنے کیلئے عقل کو کوئی چارہ نہیں جیسے:نبوت، عذابِ قبر، احوالِ آخرت-یاد رہے! کچھ ماتریدی نبوت کو بھی عقلیات میں شامل کرتے ہیں- عقلیات و سمعیات کی تقسیم اس فکر پر ہے کہ عقائد ایسے اصولوں پر مبنی ہیں جن کا عقل سے ادراک ناممکن ہے اور نہ ہی نصوص بذاتہٖ خود ثابت کرسکتی ہیں بلکہ عقلی دلیل سے ثابت ہونے والے امور کیلیے تائید کا کام کرتی ہیں- ماتریدیہ کے ہاں توحید کا مفہوم یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کو ذات میں ایک سمجھا جائے، اس کا کوئی ہمسر کوئی حصہ دار اور کوئی شبیہ نہیں- وہ اپنی صفات میں یکتا ہے اور اپنے افعال میں اکیلا ہے-ماتریدی اللہ تعالیٰ کی آٹھ صفات کے قائل ہیں، اگرچہ ان کی تفصیلات میں کچھ اختلاف ہے- وہ آٹھ یہ ہیں: حیات، قدرت، علم، ارادہ ، سماعت، بصارت، کلام اور تخلیق-

قابلِ ذکر ہےکہ اہل سنت کے کلامی مکاتبِ فکر میں اہل سنت کی ایک بڑی تعداد بالخصوص مذہب حنفی کے پیروکار امام ماتریدی کی اتباع کرتے ہیں-

اشعری مکتبہ فکرکا تعارف

علم الکلام میں اشعری مکتبہ فکر کے بانی امام ابو الحسن علی بن اسماعیل الاشعریؒ ہیں جن کی ولادت260 ھ بصرہ میں اور وفات 324 ھ بغداد میں ہوئی- ابتداً آپ معتزلہ سے بھی وابستہ رہے ، لیکن جب ان کی صریح گمراہیاں آپ پہ عیاں ہوئیں تو آپ ہی وہ رجلِ رشید بنے جنہوں نے عقلی و منطقی دلائل و براہین سے عقیدۂ حق کی حفاظت فرمائی -

ابتدائی مرحلہ:

اشعریہ علم الکلام میں اہل سنت کا ایک مکتبہ فکر ہے،جو امام ابو الحسن الاشعری کی طرف منسوب ہے- انہوں نے اسلامی عقائد اور دینی حقائق ثابت کرنے کیلئے ابتدائی طور پر معتزلہ، اسماعلیہ اور اخوان الصفاء کے باطل عقائد کا قلع قمع کیا-

تقوینی مرحلہ:

امام ابوالحسن اشعری کے کلامی مکتبہ فکر میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں- ان کی فکر کو ابتدائی دور میں علمائے اہل سنت کی طرف سے خاص توجہ نہیں ملی- ابوبکر باقلانی (متوفٰی: 403ھ) پہلے شخص ہیں جو ابو الحسن اشعری کے بعد اٹھے- انہوں نے آپ کے نظریات کی ترویج کی ان کے ساتھ اشعری فکر کے فروغ میں سب سے بڑا کردار امام الحرمین الجوینی (متوفیٰ:478ھ) نے ادا کیا- جوینی نے مجموعی طور پر 30 برس اشعری مکتب کی ترویج میں گزار دیئے اور چونکہ وہ سرکاری طور پرشیخ الاسلام اور امام مکہ و مدینہ بھی تھے چنانچہ ان کے نظریات کو پورے عالم اسلام میں احترام کے ساتھ پذیرائی ملی-جوینی نے اشعری کے افکار کو زیادہ عقلی اور استدلالی رنگ میں رنگ دیا - امام فخرالدین رازی (متوفیٰ: 696ھ) نے اشعری مکتبہ فکر کا دفاع و تحفظ کیا اور اس کو استحکام بخشا، ابن سینا کی فلسفی آراء کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے اصولوں میں تشکیک کردی- دوسری طرف سے امام ابو حامد محمد الغزالی جو امام الحرمین الجوینی کے شاگر تھے-جب آپ تصوف کی طرف مائل ہوئے اور اشعری مکتبہ فکرکی عرفانی تفسیر پیش کی- انہوں نے اپنی اہم کتاب ’احیاء العلوم‘ کے ذریعے تصوف اور تسنن کے درمیان مستحکم رشتہ استوار کیا-

اشاعرہ اور ماتریدیہ میں بنیادی اختلاف:

اشاعرہ اور ماتریدیہ دونوں ہی اہل السنۃ کے بر حق مکاتبِ فکر ہیں اِ ن میں سے جس بھی عقیدہ پہ فکر و نظر کے ساتھ کار بند ہوا جائے درست ہے- اشاعرہ کے ہاں ماتریدیہ کی قبولیت کی سب سے بڑی مثال حجۃ الاسلام امام غزالی اور ان کے استاد امام الحرمین الجوینی کا ماتریدی متکلم امام ابو زید عیسیٰ الدبوسی الحنفی سے جابجا استفادہ کرنا ہے اور دوسری طرف متوسطین و متاخرین ماتریدیہ کا اشعری روایت کے متکلمین امام غزالی اور امام فخر الدین رازی سے استفادہ کرنا ہے - اِس لئے کہ ان دونوں برحق مکاتب کی مثال بھی فقہی مکاتب کے احترام جیسی ہے جیسے چاروں فقہی مذاہبِ اہلسنت ایک دوسرے کو بر حق تسلیم کرتے اور ایک دوسرے کے اکابر کا احترام کرتے ہیں ، ان میں بھی ایسا ہی ہے -

جہاں تک آپس میں اصولی اختلافات کی بات ہے تو ان دونوں کے درمیان بہت سے ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف لفظی ہے اور کچھ ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف اگرچہ معنوی ہے لیکن معنوی اصلی نہیں معنوی فرعی ہے- ان اختلافات کے حوالےسے بہت ہی جامع کتاب امام ابن کمال پاشا (جو کہ سلطان سلیم اول عثمانی اور سلطان سلیمان قانونی کے عہد میں خلافت عثمانیہ کے شیخ الاسلام رہے)  کا رسالہ ہے ’’اختلاف مابین الاشاعرہ والماتریدیہ‘‘ - اس رسالہ کا انگریزی ، فارسی، ترکش ، رشیئن اور کئی زبانوں میں ترجمہ موجود ہے -

علم الکلام کے گمراہ فرقے

معتزلہ :

معتزلہ ایک فکری عقیدے کا حامل گمراہ فرقہ تھا -اس کی حیثیت وہی ہے جو خوارج کی ہےاس فرقہ کا بانی واصل بن عطاء الغزال تھا جو حضرت امام حسن بصریؒ کی علمی مجالس میں بیٹھا کرتا تھا- دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ وجود میں آیا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا- ان لوگوں کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہو جانے کی بنا پر معتزلہ کہا جاتا ہے- معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، اس زمانہ میں ایک سوال نے زور و شور سے سر اٹھایا اور اسی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا-وہ سوال یہ تھا کہ کیا گناہ کبیرہ کا مرتکب مسلمان ہے یا نہیں؟ حضرت امام حسن بصریؒ ابھی خاموش تھے-آپ کے جواب سے قبل واصل بن عطاء آپ کی مخالفت کرتے ہوئے بول پڑا کہ میں کہتا ہوں کے گناہ کبیرہ کا مرتکب علی الاطلاق مسلمان نہیں ہے-بلکہ وہ کفر اور ایمان کی درمیانی منزل میں ہے ( یعنی نہ مومن نہ کافر) اس اختلاف کے بعد واصل بن عطاء یہ کہہ کر اٹھا اور مسجد کے ایک ستون کے پاس جا کر حضرت حسن بصریؒ کے اصحاب کے سامنے اپنا جواب دوہرانے لگا-یہ دیکھ کر حضرت حسن بصری نے فرمایا (اعتزلنا واصل) واصل بن عطاء ہم سے کنارہ کش ہو جا-بس اسی بنا پر اس کے اور اس کے گمراہ ٹولے کا نام معتزلہ (یعنی اہلِ حق سے کنارہ کش) پڑ گیا-

جہمیہ:

اس فرقے کا بانی جہم بن صفوان تھا ان کا عقیدہ تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے نہ اس میں قدرت پائی جاتی ہے نہ ارادہ اور نہ اختیار-ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ نے انسان کو جبرا گناہو ں پر لگا رکھا ہے- ایمان کے بارے میں اس کا عقیدہ تھا کہ ایمان صرف معرفت کا نام ہے جو یہودی نبی (ﷺ) کے اوصاف سے با خبر ہیں وہ مومن ہیں یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا منکر تھا- یہ کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو ان اوصاف سے متصف نہیں کیا جا سکتا جن کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے- ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کرنا توحید ہے- جنت و دوزخ میں لوگوں کو داخل کر کے فنا کر دیا جائے گااس کے بعد فقط اللہ کی ذات باقی رہے گی-[5]

امام اہلسنت اعلیٰ حضرت احمد رضا خان قادریؒ نے سوالاتِ خوارج کے جواب میں حرمِ بیت اللہ میں بیٹھ کے تصنیف شدہ کتاب ’’الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ‘‘ کے آغاز میں چار گمراہ فرقوں کا تعارف بڑی جامعیت و اختصار کے ساتھ کروایا ہے- ان چار میں (قدریّہ، جبریّہ ، خوارج اور مرجیئہ)  ہیں، آیئے ان چار کو امامِ اہلسنت کے الفاظ میں جانتے ہیں :

قدریہ:

ان میں قدریہ فرقہ مشہور ہے (یہ لوگ اپنے آپ کو اپنے افعال کا خالق جانتے تھے) وہ اس آیۃ کریمہ پر ایمان لائے:

’’وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ‘‘[6]

’’ہم نے ان پر ظلم نہ کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں‘‘-

مگروہ اس آیت کریمہ سے منکر رہے:

’’وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘[7]

’’اللہ تعالیٰ تمہارا بھی خالق ہے اور تمہارے اعمال کا بھی‘‘-

جبریّہ:

ایسے ہی ایک فرقہ جبریہ ہے یہ لوگ انسان کو پتھر کی طرح مجبور محض جانتے تھے- وہ اس آیۃ کریمہ پر ایمان لائے تھے:

 ’’وَمَا تَشَاءُوْنَ إِلا أَنْ يَشَاءَ اللهُ‘‘[8]

’’تم کیاچاہو مگر یہ کہ چاہے اللہ جو مالک ہے سارے جہاں کا‘‘-

جبریہ اس آیۃ کریمہ کے منکر ہیں:

 ’’ذلِكَ جَزَيْناهُمْ بِبَغْيِهِمْ وَ إِنَّا لَصٰدِقُوْنَ‘‘[9]

ہم نے ان کی سر کشی کا بدلہ دیا بیشک ہم ضرور سچے ہیں-

خوارج:

خارجی لوگ گناہ کبیرہ کرنے والے کو بھی کافر کہتے ہیں- وہ اس آیت کریمہ پر ایمان  رکھتے ہیں

 ’’وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيْمٍ؁ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّيْنِ‘‘[10]

’’بے شک فاجر لوگ ضرور جہنم میں جائیں گے وہ قیامت کے دن اس میں جائیں گے‘‘-

پھر یہ لوگ اس آیۃ کریمہ کا انکار کرتے ہیں:

’’اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ‘‘[11]

’’بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشتا مگر اس کے علاوہ جتنے گناہ ہیں جسے چاہے بخش دیتا ہے‘‘-

مرجیہ:

فرقہ مرجیہ کا عقیدہ ہے کہ مسلمان کوئی بھی گناہ کر لے اسے نقصان نہیں ہوتا- وہ اس  آیۃ کریمہ پر ایمان لاتے ہیں

’’لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ط اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاطاِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘ [12]

’’اللہ کی رحمت سے ناامیدنہ ہونا بے شک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے وہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘-

مگر یہ لوگ اس آیۃ کریمہ سے انکار کرتے ہیں:

’’مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ‘‘[13]

’’جو شخص برا کام کرے گا اسے بدلہ دیا جائے گا‘‘-

اس قسم کی ہزاروں مثالیں ہیں جو مختلف مذاہب اور فرقوں کے بارے میں پیش کی جا سکتی ہیں- علم کلام کی کتابوں میں ایسی دلیلیں کثرت سے ملتی ہیں-[14]

علم الکلام کی بنیادی کتب :

علم الکلام اور متکلمین کے حالات میں عربی زبان میں دوسری صدی ہجری سے لے کر آج (1442ھ) تک عقائد اہلسنت ماتریدیہ و اشاعرہ کے موضوع پر بہت سے کتابیں مختلف زبانوں اور مختلف بلاد و اَماکن میں لکھی گئی ہیں جن کا شمار کرنا بہت مشکل و دشوار ہے ، اُن میں سے چند ایک معروف ترین کتب کی فہرست ذیل میں دی جاتی ہے -

  1. العقیدة الطحاویة: حضرت امام جعفر ابو طحاوی حنفی (متوفیٰ: 321ھ)
  2. کتاب التوحید: امام ابو منصور ماتریدی سمرقندی (متوفیٰ: 333ھ)
  3. تاویلات اہل السنۃ:امام ابو منصور ماتریدی
  4. تبصرة الادلة فی اصول الدین علی طریقة ابی منصور ماتریدی: سیف الحق والدین امام ابو المعین میمون نسفی( متوفیٰ:508ھ) ان ہی کی ’بحرالکلام‘ اور ’’التمہید لقواعد التوحید‘‘ بھی بڑی عمدہ کتابیں ہیں -
  5. العقائد النسفیة: امام العقائد نجم الدین ابو حفص عمر بن محمد نسفی (متوفیٰ:573 ھ )
  6. شرح عقائد النسفیہ:علامہ سعد الدین تفتازانی
  7. النبراس شرح شرح العقائد:علامہ عبدالعزیز بن احمد حامد قریشی افغانی پرھاروی (متوفیٰ:1239ھ)
  8. قصیدة بدءالامالی: امام سراج الدین امام الحرمین علی بن عثمان الأوشی (متوفیٰ:599ھ)
  9. شرح قصیدة بدءالامالی: ملا علی قاری الھروی (متوفیٰ:1014ھ)
  10. ملل و نحل: امام محمد بن عبدالکریم شہرستانی (متوفیٰ: 548ھ)

11.  تہافة الفلاسفہ: امام ابوحامد الغزالی

علامہ اقبال اور علم الکلام:

ایک مسلمان فلسفی ہونے کے ناطے علم الکلام علامہ صاحب کا محبوب موضوع ہے لیکن وہ اس علم کو عہد حاضر سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے تھے وہ متکلمین کے جمود پسند رویہ کے خلاف تھے -اقبال کے نزدیک اسلام کی اساسی قوت ان کا نظریہ توحید ہے اسی نظریہ سے ’’لا قیصر و لا کسریٰ‘‘ کے نعرے طلوع ہوئے اور اسی نظریہ سے اسلامی تہذیب کے تمام روشن پہلو پھوٹے، لیکن زوالِ امت اس لئے شروع ہوا کہ توحید کو علم الکلام کا مسئلہ بنا کر بحث و تکرار اور مناظروں میں تو خوب اجاگر ہورہا ہے لیکن اس سے شبابِ امت کے سینوں میں آتشِ ایمان اور غلبۂ حق کی آرزو نہیں بھڑکائی جا رہی :

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے، فقط اک مسئلہء علم کلام

اسی طرح اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں علم الکلام پہ تبصرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:

طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام!

اقبال اہل مشرق کی فکر و نظر اور طبع سے آگاہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اہل مشرق کی دو صفیں ایک اہل تصوف ہیں اور دوسرے علمائے ظاہر ہیں جو بالترتیب قوالی اور علم الکلام کے خمار میں ہیں-اہل مشرق میں قوالی کو صوفیانہ نظام میں بڑا عمل دخل رہا ہے اور اسے پیغام و روحانیت کو پروان چڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے-دوسری طرف علم الکلام جو کہ توحید باری تعالیٰ کی درست تفہیم اور معرفتِ الٰہیہ کا سبب تھا لیکن آج کےدور میں ایک طرف قوالی کی اصل روح ناپید ہو چکی ہےدوسری طرف علم الکلام جس کا تعلق نظریات اور عقائد کی تشکیل،تکمیل اورجانچ پرکھ کرنا تھا محض لغوی اور لایعنی مسائل پر بحث کرنے اور ان کو ثابت کرنے کیلیے دلیلوں کے گورک دھندے میں الجھا ہوا ہے- بالفاظِ دیگر فلسفہ تو ہے مگر تلقینِ غزالی کہیں نہیں ، اذان تو ہے مگر روحِ بلالی کہیں نہیں ، قوّال تو ہیں مگر ’’حال‘‘ نہیں ، علم الکلام تو ہے مگر ’’لا قیصر و لا کسریٰ‘‘ کا نعرہ اور غلبۂ حق کی آرزو نہیں ہے -

حرف آخر:

علم الکلام ایک نہایت مفید و بامقصد و پاکیزہ علم ہے جس میں صحیح اسلامی عقائد کو عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا جاتا ہے- توحید کا عقیدہ حق اور باطل کے درمیان بنیادی فرق کے طور جانا جاتا ہے جسے مسلمان قوم اپنا سرمایہ سمجھتی ہے اس لئے اس بارے مختلف علوم و فنون کے متنوع سوالات و اعتراضات کا تسلی بخش جواب اور ہدایت کی تلاش کا ایک ذریعہ یہ شاخِ علم ہے-بعض کے نزدیک علم الکلام کا مقصد جہالت، باطل نظریات و عقائد کاعلمی،عقلی اور منطقی دلائل سے ردّ و ابطال کرنا اور اسلام کے صحیح و برحق تصورات و نظریات کو علمی، عقلی و منطقی دلائل کے ساتھ واضح کرنا ہے - علم الکلام آج بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ امام غزالی و باقلانی اور امام نسفی و سرخسیؒ کے ادوار میں تھا مگر تساہل و جمودِ فکر کے سبب بازارِ علم میں اس جنسِ نایاب کے قدر دان و خریدار بہت کم رہ گئے ہیں - بقولِ اقبال:

’’آں قدح بشکست و آں ساقی نماند‘‘

’’وہ جام ٹوٹ چکا ہے اور وہ ساقی باقی نہیں رہا‘‘

بقولِ غالب:

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

٭٭٭


[1]( الفوائد البھیۃ : ص :170فی تراجم الحنفیۃ مولف محمد عبد الحی الکنوی الھندی ابو الحسنات الناشر مطبعۃ دارالسعادۃ بجوار محافظۃ مصر)

[2](حدائق الحنفیۃ، ص:245، مولف مولوی فقیر محمد جہلمی مکتبہ ربیعہ سلام مارکیٹ بنیوری ٹاؤن کراچی)

[3](توضیح عقائد نسفی اردو، ص:4،مولف عبدالحلیم شرر لمکتبۃ العلمیہ-،15 لیک روڈ لاہور)

[4](الفرق الکلامیۃ الاسلامیۃ، ص:331،مولف علی عبدالفتاح المغربی مکتبۃ رھبۃ للطباعۃ والنشر 2009)

[5](خزائن التعریفات، محمد انس رضا قادری، ص: 124،والضحیٰ پبلیکیشنز لاہور)

[6](النحل:118)

[7](الصٰفٰت:96)

[8](الدھر:30)

[9](الانعام:146)

[10](الانفطار:14-15)

[11] (النساء:116)

[12] (الزمر:53)

[13] (النساء:123)

[14]((الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ،- اعلیٰحضرت امام احمد رضا خان قادریؒ، ص 47)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر