شیخ الاکبر ابن العربی اور اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم)

شیخ الاکبر ابن العربی اور اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم)

شیخ الاکبر ابن العربی اور اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم)

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری جولائی 2025

اہل بیت اطہار کا ہر معیوب چیز سے پاک ہونا :

شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی فتوحات مکیہ میں اہل بیت اطہار کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے حضور رسالت مآب (ﷺ) کو پاک فرمایا اور آپ کے اہل بیت کرام کی تطہیر فرمائی اور ان سے ہر رجس کو دور فرما دیا اور رجس وہ ہے جو انہیں معیوب کرتا ہے کیونکہ عربوں کے نزدیک رجس قذر کو کہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:

’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘[1]

’’اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے‘‘-[2]

اہل بیت کا عین طہارت ہونا :

شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں :

فما ظنك بأهل البيت في نفوسهم فهم المطهرون بل هم عين الطهارة،

اہل بیت کے نفوس کے بارے میں تیرا کیا گمان ہے؟ بلکہ وہ (اہل بیت)پاک ہیں  بلکہ عین طہارت ہیں

فهذه الآية تدل على أن الله قد شرك أهل البيت مع رسول الله، الله في قوله تعالى :

پس یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بیت کرام کو اپنے ارشاد میں رسول اللہ (ﷺ) کے ساتھ شریک کیا ہے-

’’لِّیَغْفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘[3]

’’تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے‘‘-[4]

اہل بیت غفران میں داخل ہیں:

شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی فتوحات مکیہ میں اسی آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں :

’’فدخل الشرفاء أولاد فاطمة كلهم ومن هو من أهل البيت مثل سلمان الفارسي إلى يوم القيامة في حكم هذه الآية من الغفران ، فهم المطهرون اختصاصاً من الله وعناية بهم لشرف محمد صلي الله وعناية الله به ، ولا يظهر حكم هذا الشرف لأهل البيت إلا في الدار الآخرة فإنهم يحشرون مغفوراً لهم ‘‘[5]

اس میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء(رضی اللہ عنہا) کی اولاد پاک سے قیامت تک تمام شرفاء سادات اس آیت کے حکم سے غفران میں داخل ہیں اور وہ جو حضرت سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کی مثل ہیں پس اہل بیت کرام اللہ تعالیٰ کے اختصاص و عنایت سے حضور رسالت مآب (ﷺ) کے شرف کے لئے پاک اور مطہر ہیں اور اہل بیت کیلئے اس شرف کا حکم دارِ آخرت میں ظاہر ہوگا اس لئے کہ وہ بخشے ہوئے اٹھائے جائیں گے-

اہل بیت کی عظمت اور شان کمال ہے:

شیخ ابن العربی اہل بیت پاک کی عظمت و رفعت کا ایک منفرد پہلو بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :

و ینبغی لکل مسلم مؤمن باللہ بما انزلہ ان یصدق اللہ تعالی فی قولہ ’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا

اور ہر مسلمان کا حق ہےکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کے نازل فرمودہ اس حکم کی تصدیق کرے، ’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘[6]

’’اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے‘‘-

اور مومن کو چاہیے کہ اہل بیت کرام سے صادر ہونے والے تمام امور میں یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے اور کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان کے ساتھ مذمت اور برائی کو ملائے اور اسے عیب لگا کر اس سے رخ پھیر لے جس کی طہارت اور اس کے گناہوں کو دور کرنے کی گواہی اللہ تعالیٰ نے دی ہو اور یہ اعزاز اس عمل کے ساتھ نہیں جو انہوں نے کیا اور نہ کسی کی خیر اوربھلائی کی بنا پر ہے جو انہوں نے کی ہے بلکہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عنایت نے سبقت کی ہے‘‘-[7]

کسی صورت ہی اہل بیت کی برائی بیان نہیں کر سکتے:

شیخ الاکبر فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں :

’’آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل بیت کی قدر و منزلت بیان ہو چکی ہے اس کے بعد مسلمانوں کو حق نہیں پہنچتا کہ ان سے واقع ہونے والے امور پر ان کی مذمت کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پاکیزہ فرما دیا ہے پس ان کی مذمت کرنے والے کو جان لینا چاہیے کہ یہ مذمت کرنا اسی کی طرف لوٹ آئے گا‘‘-[8]

اہل بیت کی محبت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا :

شیخ الاکبر فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں :

اگر آپ کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ محبت درست ہے تو آپ حضور (ﷺ) کے اہل بیت کرام سے محبت کریں گے اور ان سے اپنے حق میں صادر ہونے والے ہر اس امر کو جو آپ کی طبیعت اور غرض کے موافق نہیں خوبصورت دیکھیں گے اور ان سے جو کچھ آپ کے حق میں(یعنی آپ کے خلاف ) واقع ہوگا تو اسے نعمت خیال کریں گے، پس اس وقت آپ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کے لئے لطف و عنایت کیا ہے ؟ یہ اس لئے کہ آپ اہل بیت کرام سے محبت کرتے تھے نیز یہ کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں وہ آپ کو یاد کرتا ہے اور اس کے دل میں آپ کا خیال ہوتا ہے تو یہ حضور رسالت مآب (ﷺ) کے اہل بیت کرام ہیں جو آپ کو آپ کی محبت کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں-(تو اہل بیت پاک کا آپ کو یا د کرنا یہ نعمت الہی ہے )پس اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ وہ اپنی ان پاک ز بانوں کے ساتھ آپ کو یاد کرتے ہیں جن کی تطہیر اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے اور آپ کا علم اس طہارت اور پاکیزگی تک نہیں پہنچ سکتا‘‘-[9]

اہل بیت کی محبت کا نہ ہونا ایمان کی کمی کی دلیل ہے:

جب ہم آپ کو اس حالت کے مخالف دیکھتے ہیں ، باوجود اس کے کہ آپ اہل بیت کرام کے محتاج ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور رسالت مآب (ﷺ) کے حقوق کی ہدایت کی ہے کہ ہم تمہاری محبت کی کیسے توثیق کر دیں کہ جو تمہارے گمان میں میرے ساتھ شدید محبت اور میرے حقوق یا میری جانب کی رعایت کرنا ہے جب کہ تم اپنے نبی (ﷺ) کی اہل بیت کے حق میں اس صورت میں ہو جو تم میں واقع ہوتی ہے، (آپ کو معلوم ہے کہ یہ کس وجہ سے ہوتی ہے )

’’واللہ ما ذاک الا من نقص ایمانک و من مکراللہ بک واستدراجہ ایاک من حیث لا تعلم ‘‘[10]

خدا کی قسم! یہ تمہارے ایمان کی کمی ہے اور تم اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور استدراج کی گرفت میں ہو اور تمہیں اس کا علم نہیں-

"الاالمودۃ فی القربی"   کا تقاضا :

شیخ الاکبر محی الدین ابن العربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں :

’’اہل بیت کرام سے کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ تو جب ہمیں کسی کی بھی مذمت کا حق نہیں پہنچتا تو اہل بیت کی مذمت کیسے جائز ہو گی؟ جب ہم اپنے حقوق کے طلب کرنے پر اتر آتے ہیں اور اُن سے اس میں در گذر کر لیتے ہیں یعنی اس میں جو ہمیں جو تکلیف پہنچی تھی تو اس کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لئے عظیم قربت کی جگہ ہے کیونکہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ہم سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے امر سے کچھ مطالبہ نہیں فرمایا مگر اپنے اقربا کی محبت و مودت کی طلب اور اس میں صلہ رحمی کا راز ہے -

اور جو شخص اپنے نبی اکرم (ﷺ) کا وہ سوال قبول نہیں کرتا جس سوال کو پورا کرنے پر قادر ہے تو وہ کل قیامت کے دن کس منہ سے آپ سے ملاقات کرے گا یا آپ کی شفاعت کی اُمید رکھے گا ، اور جس نے حضور نبی اکرم (ﷺ) کی طلب کردہ اپنے قرابت داروں کی مؤدت کا حق ادا نہیں کیا ، تو وہ آپ کے اہل بیت کرام کی مؤدت کا حق کیسے ادا کرے گا ؟

اہل بیت کرام آپ (ﷺ)کے خاص اقرباء ہیں پھر آپ نے لفظِ مودت ارشاد فرمایا ہے اور یہ محبت پر ثابت قدم رہنا ہے کیونکہ جب کسی امر میں مودت ثابت ہوگی تو وہ ہر حال میں اس کے ساتھ ہوگی اور جب ہر حال میں مودت اس کے ساتھ ہوگی تو اہل بیت سے اپنے اس حق کا مواخذہ نہیں کر سکتا جو اس کے حق میں ان کی طرف سے طاری ہوا ہوگا اور وہ اپنے مطالبے کو محبت اور ذاتی ایثار کی وجہ سے چھوڑ دے گا‘‘-[11]

مسلمان کی ذمہ داری ؟

شیخ الاکبر ابن العربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں :

’’(ہر)مسلمان کا حق ہے کہ اس پر اہل بیت کرام کی طرف سے جو تمام امور اس کےجان و مال اور اہل و اقرباء کے سلسلہ میں طاری ہوں (یعنی اس کے خلاف واقع ہوں تو) ان تمام کو تسلیم و رضا اور صبر کے ساتھ قبول کرے اور ان کے ساتھ ہرگز ہرگز مذمت اور برائی کو ملحق نہ کرے‘‘-[12]

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو شخص اہل بیت کی محبت کی کمی کو ایمان کی کمی قرار دے ، جو اہل بیت کو عین الطھارت قرار دے  جو اہل بیت کی محبت کو اللہ تعالٰی کی نعمت قرار دے اورکسی کو اہل بیت کی برائی کرنے کی اجازت ہی نہ د ہے، جو اہل بیت کی محبت پر اللہ کا شکرادا کرنے کا حکم کرے اور جس کو اہل اللہ ،اللہ کی آیت قرار دیں- اس عظیم شخصیت کے فیض کا تسلسل قیامت تک رہے گا ، شیخ الاکبر محی الدین حضرت ابن عربی علیہ الرحمہ کی تعلیمات اُمت کیلئے ہدایت کا روشن چراغ ہیں جن سے دلوں کی ظلمت مٹتی ہے اور دل نورِ محبت و معرفت سے جگمگا اٹھتے ہیں -

٭٭٭


[1](الاحزاب:33)

[2](فتوحات مکیہ، ج:1، ص:298، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

[3](الفتح:2)

[4](فتوحات مکیہ، ج:1، ص:298، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

[5](ایضاً)

[6](الاحزاب:33)

[7](فتوحات مکیہ، ج:1، ص:298، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان)

[8](ایضاً، ص:299)

[9](ایضاً، ص:300)

[10](ایضاً)

[11]( الفتوحات المکیۃ ، ج : 1 ، ص : 299)

[12](ایضاً، ص:300)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر