تاریخ اور تاریخی حوالے اپنی جگہ مسلّم تو ہوتے ہیں ، لیکن تاریخ چونکہ انسانوں نے لکھی ہے اس لئے اس سے اتفاق اور اختلاف کی گنجائش موجود ہوتی ہے- لیکن قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے، اس میں اختلاف نہیں کیا جا سکتا-لہذااہل بیت سے ہماری محبت و مودّت کا رشتہ محض تاریخی نوعیت کا نہیں بلکہ فی الاصل اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب نے استوار کیا ہے-
جس کو حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)سے محبت تاریخ یا شاعری کے حوالے سے ہے وہ اپنی جگہ بجا ہے-لیکن یاد رکھیں! ہمیں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)سے محبت قرآن کریم نے سکھائی ہے جو کہ آپ (رضی اللہ عنہ) سے محبت کا سب سے معتبر حوالہ ہے-یہاں پنجتن پاک کی نسبت سے پانچ آیات کریمہ برکت کیلئے پیش کرتا ہوں تاکہ معلوم ہو سکے کہ قرآن کریم کس کس مقام پہ مودتِ اہل بیت (رضی اللہ عنہھم) میں ناطق ہے-
پہلی آیت
قرآن مجید نے ہمیں ایک دعا سکھائی ہے جس کو ہم اپنی نماز کی ہر رکعت میں مانگتے ہیں:
’’ اِہْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘[1]
’’ہم کو سیدھے راستہ پر چلا‘‘-
علامہ ابو الحسن الماوَردی، (المتوفى: 450 ھ) تفسیر ’’اَلنُّكَتُ وَالْعُيُوْنِ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
علماء و محققین نے صراط مستقیم کی تفسیر میں مختلف اقوال ذکر کئے ہیں-مثلاً کتاب اللہ ، دین اسلام ، اسی طرح چار قول بیان فرمائے ہیں -اُن میں سے ایک قول یہ ہے کہ صراط مستقیم سے مراد :
’’هُوَ رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) وَ أَخْيَارُ أَهْلِ بَيْتِهٖ وَ أَصْحَابِهٖ وَهُوَ قَوْلُ الْحَسَنِ الْبَصَرِيِّ وَأَبِي الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيِّ‘‘
’’رسول اللہ (ﷺ) اور آپ (ﷺ)کے آل پاک کی نامور شخصیات اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنہھم) کی ذواتِ مبارک مراد ہیں -اور یہی قول امام حسن بصری اور حضرت ابو العالیہ الریاحیؒ کا ہے‘‘-
علامہ القاضی عياض مالکی (المتوفى: 544ھ) ’’الشفا بتعريف حقوق المصطفى (ﷺ) ‘‘، شارح صحیح بخاری علامہ أحمد بن محمد بن ابى بكر القسطلانی (المتوفى: 923ھ) ’’المواهب اللد نيہ ‘‘میں امام الماوَردِی کے درج بالا قول مبارک سے موافقت فرمائی ہے -
حج بیت اللہ کو جانا، اعمال صالح پر قائم ہو جانا، توبہ کی توفیق نصیب ہو جانا، اللہ پاک کی توحید میں کسی طرح کا شک اور وسوسہ نہ رہنا، اللہ کی راہ کے اندر زندگی میں استقامت اختیار کر لینا، کثرت سے ذکر اور توبہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونا، اس کی بارگاہ میں عجز و نیاز اور انکساری پیش کرنا یہ سب چیزیں صراط مستقیم میں آتی ہیں-مگر علماء محققین کے نزدیک صراط مستقیم کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ میرے مولا! مجھے حضور (ﷺ) اور آپ کے اہل بیت (رضی اللہ عنہھم)کی محبت عطا فرما -
دوسری آیت
یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ :
’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘[2]
’’ان لوگوں کا راستہ (دِکھا)جن پر تو نے انعام کیا‘‘-
محی السنہ، امام البغوی (المتوفى: 510ھ) ’’تفسیر البغوی‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ :
’’حضرت عبدالرحمن بن زید (رضی اللہ عنہ)سے پوچھا گیا کہ انعام یافتہ لوگوں سے کون مراد ہیں تو انہوں نے فرمایا:
رَسُوْلُ اللهِ (ﷺ) وَأَهْلُ بَيْتِهٖ
’’رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے اہل بیت (رضی اللہ عنہھم) ‘‘-
حضرت شہر بن حَوْ شَب (رضی اللہ عنہ)نے فرمایا کہ:
’’هُمْ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ (ﷺ) وَأَهْلُ بَيْتِهٖ‘‘
’’وہ رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ کرام اور آپ کے اہل بیت (رضی اللہ عنہھم) ہیں‘‘-
اندازہ لگائیں! جب مسلمان نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھتا ہے تو دو مرتبہ اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنہھم)سے اپنی نسبت اور توسل اختیار کرتا ہے-ایک ’’ اِہْدِ نَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ‘‘ اور دوسرا’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنعَمْتَ عَلَیْہِمْ‘‘ سے- لہٰذا از روئے قرآن حضور نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے اہل بیت اطہار حضرت علی المرتضیٰ، حضرت فاطمۃ الزہراء، امام حسن اور امام حسین (رضی اللہ عنہھم) سے نسبت اور ان کی غلامی اختیار کر کے ان کے پاک دامن سے وابستہ ہو جانا صراط مستقیم ہے اور ان کی پاکیزہ ذاتیں وہ انعام یافتہ لوگ ہیں جن کی پیروی کی دعا فاتحہ میں ہے -
تیسری آیت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی ‘‘[3]
’’اور بیشک میں بہت بخشنے والا ہوں اسے جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھا کام کیا پھر ہدایت پر رہا‘‘-
امام ابو جعفر ابن جریر الطبری (المتوفى: 310ھ) ’’تفسیر طبری‘‘، امام قرطبی (المتوفى : 671ھ) نے ’’تفسیر قرطبی‘‘، امام ابو الفرج ابن جوزی ’’تفسیر زاد المسیر‘‘ اور شيخ الإسلام، امام ابن حجر الہيتمی (المتوفى:974ھ) ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں اِس آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے ساتھ یہ قول بھی لکھتے ہیں کہ :
حضرت ثابت بُنانی (رضی اللہ عنہ) اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’ وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہْتَدٰی‘‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
إِلٰى وِلَايَةِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ (ﷺ)
پھرہدایت اہل بیت نبی (ﷺ) کی محبت میں پائی ہو -
یعنی جو ایمان لایا، جس نے توبہ کی، جس نے اعمال صالحہ اختیار کیے اور جس نے اہل بیت کے نقش قدم کی پیروی اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کا اعلان فرماتا ہے اور اس کو ہدایت کی سند عطا فرماتا ہے-
چوتھی آیت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْط وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ‘‘ [4]
’’اور جب ہم نے(بنی اسرائیل سے) فرمایا اس بستی میں جاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں ‘‘-
تفسیر خزائن العرفان میں ہے:
’’اِس بستی سے مراد : بیت المقدس ہے ، یا اریحا جو بیت المقدس کے قریب ہے-تو یہ دروازہ بنی اسرائیل کے لئے بمنزلہ کعبہ کے تھا کہ اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا سببِ کفارہءِ ذنوب قرار دیا گیا -
مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ مقامات متبرکہ جو رحمت الٰہی کے مورد ہوں، وہاں توبہ کرنا اور طاعت بجالانا ثمرات نیک اور سرعت ِقبول کا سبب ہوتا ہے- (یعنی جلدی قبول کا سبب ہوتا ہے)
اسی لئے صالحین کا دستور رہا ہے کہ انبیاء و اولیاء کے موالد ومزارات پر حاضر ہو کر استغفار و اطاعت بجالاتے ہیں عرس و زیارت میں بھی یہ فائدہ متصور ہے‘‘-
امام طبرانی نے ’’معجم الاوسط، معجم الکبیر، معجم الصغیر ‘‘ میں ایک روایت حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) اور ایک روایت حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے نقل کی ہے -
’’حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ میں نے آقا کریم (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيْكُمْ مَثَلُ بَابِ حِطَّةٍ فِيْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ مَنْ دَخَلَ غُفِرَ لَهٗ‘‘
’’میرے اہل بیت کی مثال سفینہ نوح کی طرح ہےجو اس میں سوار ہوا نجات پا گیااور جو پیچھے رہا وہ غرق ہوا-بے شک میری اہل بیت کی مثال تم میں بنی اسرائیل میں باب حطہ کی طرح ہے جو اس میں داخل ہوا اس کی بخشش کر دی گئی‘‘-
اس روایت کی وضاحت میں شیخ الاسلام امام ابن حجر الہيتمی (المتوفى: 974ھ)’’ الصواعق المحرقہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’وَ بِبَابِ حِطَّةٍ أَنَّ اللهَ تَعَالٰى جَعَلَ دَخُوْلَ ذٰلِكَ الْبَابِ الَّذِيْ هُوَ بَابُ أَرِيْحَاءَ أَوْ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ مَعَ التَّوَاضُعِ وَالْاِسْتِغْفَارِ سَبَبًا لِّلْمَغْفِرَةِ ‘‘
’’اور بے شک اللہ تعالیٰ نے باب حطہ اور یہی بابِ اریحا ہے اور بیت المقدس میں عاجزی اور استغفار کے ساتھ داخل ہونے کو بخشش کا سبب بنا دیا‘‘-
یعنی باب حطۃ بنی اسرائیل کیلئے تھا،جس میں گناہ گار اپنے گناہوں اور بدکاریوں کے ساتھ گزرتے تھے اور گناہوں سے پاک و صاف اور شفاف ہو کر نکلتے تھے –
اُمت محمدیہ (ﷺ)کے لئے باب حطہ کیا ہے ؟
شیخ الاسلام امام ابن حجر الہيتمی ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’وَجَعَلَ لِهٰذِهٖ الْأُمَّةِ مَوَدَّةَ أَهْلِ الْبَيْتِ سَبَبًا لَّهَا‘‘
’’اور اللہ تعالیٰ نے اس امت کیلئے اہل بیت کی مودت کو بخشش کا ذریعہ بنادیا اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنہھم) کی مودت اُمت محمدیہ (ﷺ) کیلئے باب حطہ ہے ‘‘-
جیساکہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِيْ فِيْكُمْ مَثَلُ بَابِ حِطَّةٍ فِيْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ مَنْ دَخَلَ غُفِرَ لَهٗ
بے شک میری اہل بیت کی مثال تم میں بنی اسرائیل میں باب حطہ کی طرح ہے جو اس میں داخل ہوا ، اس کی بخشش کر دی گئی -
ملا علی القاری ’’مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح‘‘میں اسی حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں :
’’فِيْكُمْ مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ‘‘، أَيْ فِيْ سَبَبِيَّةِ الْخَلَاصِ مِنَ الْهَلَاكِ إِلٰى النَّجَاةِ ’’مَنْ رَكِبَ نَجَا، وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ‘‘ فَكَذَا مَنِ الْتَزَمَ مَحَبَّتَهُمْ وَمُتَابَعَتَهُمْ نَجَا فِي الدَّارَيْنِ وَإِلَّا فَهَلَكَ فِيْهِمْ‘‘
’’فِيْكُمْ مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ‘‘ یعنی تمہارے لیے (اہل بیت کو) ہلاکت سے نجات کا سبب بنایا ، جو اس میں سوار ہوا نجات پا گیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوااسی طرح جس نے ان کی محبت اور ان کی متابعت کو لازم پکڑا وہ دارین میں نجات پا گیا -ورنہ وہ (ان کے حق مودت کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے )ہلاکت میں پڑا-
لہذا جو بھی اہل بیت (رضی اللہ عنہھم) کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا بلکہ اس کے اجر میں اضافہ بھی فرمائے گا-
پانچویں آیت
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰیط وَمَنْ یَّقْتَرِفْ حَسَنَۃً نَّزِدْ لَہٗ فِیْہَا حُسْنًاط اِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ‘‘[5]
’’آپ کہیے کہ میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا سوا ئےقرابت کی محبت کے، اور جو شخص نیکی کرے گا ہم اس نیکی کے حسن کو اور بڑھادیں گے، بیشک اللہ بہت بخشنے والا اور بہت قدر کرنے والا ہے‘‘-
رسول اللہ (ﷺ) فرما رہے ہیں کہ اے مومنو! میں نے تم تک قرآن کریم کے ذریعے جو ایمان، ہدایت، رحمت اور نجات پہنچائی ہے ان کے بدلہ میں مَیں تم سے کوئی صلہ یا اُجرت نہیں چاہتا -بلکہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ (ﷺ) کو حکم فرماتا ہے کہ اے میرے حبیب (ﷺ) آپ ان مومنوں کو حکم کریں کہ مَیں تم تک یہ سامانِ ہدایت اور نجات کے صلہ میں یہی چاہتا ہوں کہ تم سب میرے اہل بیت کی مودت اختیار کرو-
بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں جن میں آپ کے پاس کسی عمل کو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے-اسی طرح بعض اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ اگر پوری بستی یا معاشرے میں سے ایک فرد بھی وہ کام سر انجام دے دے تو پوری بستی کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے-لیکن یاد رکھیں! اہل بیت کی محبت فرض کفایہ نہیں ہے کہ کسی ایک نے کر لی تو بات پوری ہو جائے گی بلکہ اہل بیت کی مودت اختیار کرنا ہر شخص پر لازم ہے-یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے یہ واضح لکھا ہے کہ اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنہھم) کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے -
’’امام طبرانی ’’المعجم الاوسط ‘‘میں نقل کرتے ہیں کہ :
حضرت حسن بن علی (رضی اللہ عنہ)بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’اِلْزَمُوْا مَوَدَّتَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ‘‘
’’ہم اہل بیت کی محبت کو لازم پکڑو‘‘-
حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ ’’قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى‘‘نازل ہوئی توصحابہ کرام (رضی اللہ عنہھم)نے عرض کی:
’’يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ قَرَابَتُكَ هٰؤُلٓاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ:عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا‘‘[6]
’’یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کے قرابت داروں میں سے وہ کون ہیں جن کی مودت ہمارے اوپر واجب ہے-آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا حضرت علی، حضرت فاطمہ اور ان کے دو بیٹے(حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہھم)‘‘-
حضرت زید بن ارقم (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ (ﷺ) نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’وَ اَنَا تَارِکٌ فِیْکُمْ ثَقَلَیْنِ: اَوَّلُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیْہِ الْھُدٰی وَالنُّوْرُ فَخُذُوْا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوْا بِہٖ وَ اَھْلُ بَیْتِیْ اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہَ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ، اُذَکِّرُ کُمُ اللّٰہَ فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ‘‘[7]
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے اللہ کی کتاب کو پکڑو اور اسے مضبوطی سے تھام لو-اور (دوسری چیز) میرے اہلِ بیت ہیں- میں اپنے اہلِ بیت کے معاملہ میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں، ان کے معاملے میں خدا سے ڈرنا‘‘-
علامہ ابن حجر مکی ’’ الصواعق المحرقہ ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وَ فِیْ اَحَادِیْثِ اَلْحَثُّ عَلَی التَّمَسُّکِ بِاَھْلِ الْبَیْتِ اِشَارَۃٌ اِلٰی عَدْمِ اِنْقِطَاعِ مُتَاَھَّلٍ مِّنْھُمْ لِلتَّمَسُّکِ بِہٖ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ کَمَا اَنَّ الْکِتَابَ الْعَزِیْزَ کَذٰلِکَ‘‘
’’جن احادیث میں اہل بیت سے تمسک کی ترغیب دلائی گئی ہے ان میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ قیامت تک ان میں سے کسی کے ساتھ تمسک میں انقطاع نہیں کرنا -کیونکہ کتاب عزیز یہی کچھ بیان کرتی ہے ‘‘-
حیرانی اور تعجب ہوتا ہے کہ لوگ کس قدر غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں اور جو دل میں آتا ہے سوشل میڈیا پہ ایک طوفان جاری کر دیتے ہیں-حالانکہ قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور آئمہ کرام کے بیان کردہ واضح فضائل موجود ہیں-
امام احمد بن حنبل ’’فضائل صحابہ‘‘ میں نقل کرتے ہیں:
حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا :
’’مَنْ أَبْغَضَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَهُوَ مُنَافِقٌ‘‘
’’جس نے ہم اہلِ بیت کے ساتھ بغض رکھا وہ منافق ہے‘‘-
حضرت ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ)فرماتے ہیں:
إِنَّا كُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرُ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِىِّ بْنِ أَبِىْ طَالِبٍ‘‘[8]
’’بے شک ہم جماعت ِانصار، منافقین کو حضرت علی المرتضی ٰ (رضی اللہ عنہ) سے بغض کی وجہ سےپہچان لیتے تھے‘‘-
یعنی منافق کو پہچاننے کی کسوٹی ذکر علی ہوتا تھا-جب منافق کو پہچاننا ہوتا تو ذکرِ علی (رضی اللہ عنہ)شروع کر دیتے تھے -مومن کا چہرہ ہشاش بشاش ہوجاتا اور منافق کے چہرے پر بَل پڑ جاتے تھے-تو ہم پہچان جاتے تھے کہ یہ منافق ہے-
الغرض! اللہ پاک نے اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنہھم) کو سراپا ہدایت بنایا ہے -اس لئے اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنہھم) کی وابستگی سے ہدایت اور نجات نصیب ہوتی ہے اور اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنہھم) سے کنارہ کشی گمراہی پیدا کرتی ہے-یہی وجہ ہے کہ
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اہل بیت اطہار (رضی اللہ عنہھم) کی محبت و مودت کو وجوب و فرائض کا درجہ دیا گیاہے-
اس لئے یہ شعور ہونا چاہئے کہ اہل بیت (رضی اللہ عنہھم) کے نفوس قدسیہ امتِ محمدیہ (ﷺ) کے عام افراد کی طرح نہیں ہیں-یہ ہر قسم کی گمراہی سے پاک ہیں جس کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ :
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللہُ لِیُـذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘‘[9]
’’بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول (ﷺ)کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے ‘‘-
انہی نفوس قدسیہ کو زمین والوں کے لئے نجات دہندہ بنا دیا گیا ہے جیسا کہ امام احمد ابن حنبل نے سیدنا علی المرتضی (رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے کہ آقا کریم (ﷺ) نے فرمایا:
’’اَلنُّجُوْمُ أَمَانٌ لِّأَهْلِ السَّمَاءِ،إِذَا ذَهَبَتِ النُّجُوْمُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ، وَأَهْلُ بَيْتِيْ أَمَانٌ لِّأَهْلِ الْأَرْضِ، فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِيْ ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ‘‘[10]
’’ستارے اہل آسمان کیلئے امان ہیں-جب ستارے چلے گئے تو اہل آسمان بھی چلے جائیں گےاور میرے اہل بیت اہل زمین کے لیے امان ہیں جب میرے اہل بیت چلے گئے تو اہل زمین بھی چلے جائیں گے‘‘-
سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک محض کتابی علم سے ہدایت نہیں ملتی بلکہ رسول اللہ (ﷺ) سے قلبی ادب و احترام ہدایت کا ذریعہ ہے اور اسی ادب میں اہل بیت سے محبت کی جاتی ہے :-
جے کر دین علم وچ ہوندا تاں سرنیزے کیوں چڑھدے ھُو |
اللہ تعالیٰ ہمیں اہل بیت کی مودت و اتباع اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے-آمین!
٭٭٭
[1](الفاتحہ:5)
[2](الفاتحہ:6)
[3](طہ:82)
[4](البقرۃ:58)
[5](الشورٰی:23)
[6](العجم الکبیر/ مجمع الزوائد)
[7](صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
[8](سنن الترمذى، کتاب المناقب)
[9](الاحزاب:33)
[10](فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل)