آزادی ہمیشہ سے انسان کی بنیادی ضرورت رہی ہے- اپنے آغاز سے آج تک انسان غلامی کے خلاف جدوجہد کرتا آیا ہے- قدیم زمانے میں غلامی کا تصور جسمانی تسلط اور جبر پر مبنی تھا؛ جہاں ایک انسان دوسرے کو اپنی ملکیت سمجھتا تھا- لیکن وقت کے ساتھ صنعتی انقلاب، نو آبادیاتی نظام، اشتراکی استبدادیّت اور جدید سرمایہ دارانہ ڈھانچے نے غلامی کو نئی شکلیں دے دیں- اب انسان کی زنجیریں جسم پر نہیں بلکہ ذہن پر پڑتی ہیں- عصر حاضر میں انسان نے بظاہر ترقی کرتے ہوئے خلاؤں کو فتح کیا ، ایجادات کا جال بچھایا اور معلومات کا ایک ایسا سیلاب جاری کیا جو سیکنڈوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچتا ہے- اس تمام تر ترقی کے باوجود انسان ایک ایسی غیر محسوس غلامی میں جکڑا جا چکا ہے جسے ہم ’’ڈیجیٹل غلامی‘‘ کہہ سکتے ہیں-یہ وہ غلامی ہے ،جو آزادی کے لبادے میں لپٹی ہوئی اِنسان کی فکری، اخلاقی اور روحانی آزادی پر گہرا اثر ڈالتی ہے- یہ غلامی تلواروں ، زنجیروں یا بیڑیوں کی مرہون منت نہیں، بلکہ سکرینوں، الگوردھم، ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کے جال کی اسیر ہے- دور جدید کا تضاد یہ بھی ہے کہ عالمگیریت نے جہاں دُنیا کو جوڑنے کا کام کیا ہے وہیں اس نے تقسیم بھی کیا ہے- یہ رجحان میڈیا کے بڑھتے ہوئے، پیچیدہ اور ہجوم زدہ منظر نامے سے مزید واضع ہوتا ہے-
ڈیجیٹل غلامی محض ایک تکنیکی اصطلاح نہیں، بلکہ ایک فکری و سماجی المیہ ہے- آج کا انسان جب سوشل میڈیا پہ ایک پوسٹ پر لائیک، کمنٹ اور شئیر کے انتظار میں بے چین ہوتا ہے تو اپنی نجی زندگی کے قیمتی لمحات پر سمجھوتا کرتے ہوئے سچائی اور جھوٹ میں فرق کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے- یہ نادیدہ نظام اُس کی سوچ، رائے اور رویوں کو چُپکے سے اپنے قابو میں کر لیتا ہے جس کا اندازہ وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے- یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا پیغام ِحریؔت ایک بار پھر روشنی بن کر سامنے آتا ہے- جس میں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے صرف سیاسی نظام کے خلاف نہیں بلکہ ایک ایسے ذہنی، فکری اور اخلاقی جبر کے خلاف علم بلند کیا جو انسان کو بے ضمیر، بے شعور اور بے عمل بناتا ہے- فکؔرِ حسینؓ ہمیں عمل اور قربانی کی طرف رجوع کرنے پر زور دیتی ہےتا کہ ہم اس نئی غلامی کے خلاف فکری ہتھیار حاصل کر سکیں-
جدید دور میں ڈیجیٹل غلامی کے اثرات :
ڈیجیٹل غلامی ایک ایسا تصور ہے جس میں انسان اپنی مرضی اور شعور کے بغیر ایک ایسے نظام کا حصہ بن جاتا ہے جو اس کی ہر حرکت، ہر ترجیح اور ہر سوچ کو متاثر کرتا ہے- ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں انسان کو آسانیاں دی ہیں، وہیں اُسے اَیسے جال میں بھی پھنسایا ہے جس سے نکلنا اِنتہائی مشکل ہے- سوشل میڈیا، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا کلچر اور ایپلیکیشنز کی دُنیا ہمیں اس حد تک قابو میں کر چُکی ہے کہ ہماری آزاد مرضی محض ایک فریب معلوم ہوتی ہے- یہ ایک نئی طرز کی غلامی ہے جو بظاہر سہولتوں، آزادی اظہار اور عالمی روابط کے نام پر انسان کو ایک ایسے نظام میں جکڑ رہی ہے جہاں اس کی آزادی، شناخت اور خود مختاری رفتہ رفتہ مٹتی جا رہی ہے- انسان ’خودی‘ اور ’فکر حقیقی‘کی بجائے اپنی پہچان کو ویوز، لائک، کمنٹ، شیئر اور فالورز میں تلاش کرتا ہے، جس کے تناظر میں نوجوان ایک ایسی مصنوعی دُنیا میں جینے کی خواہش کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں- یہ ایک اَیسی دُنیا ہے جس میں انسان دوسروں کی توثیق پر جیتے ہوئے ڈیجیٹل اعشاریوں کو کامیابی، خوشی اور راحت سے منسوب کرتا ہے-
ملیحہ لودھی اپنے ایک آرٹیکل ’’Digital Dangers‘‘ میں نکولس کار کی کتاب :
“Superbloom: How Technologies of Connection Tear Us Apart”
کا ذکر کرتی ہیں جس میں وہ معلومات و مواصلاتی ٹیکنالوجی پر روشنی ڈالتے ہوئے سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں- کار ، لکھتے ہیں کہ معلومات و پیغامات نے جہاں ذہنوں کو وسعت دیتے ہوئے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہیں اس نے غیر متوقع اور غیر ارادی نتائج کو بھی جنم دیا ہے- کار، اپنی ایک دوسری کتاب ’’The Shallows‘‘ میں انٹرنیٹ کے ہمارے ذہنوں پر اثرات کے متعلق لکھتے ہیں کہ؛ اس کا بے جا اور غیر ضروری استعمال مطالعہ کرنے، غور و فکر کی صلاحیت، منظم تشخیص و تحقیق اور سمجھ بوجھ کو متاثر کرتا ہے- وہ مزید لکھتے ہیں کہ: علم کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی بجائے یہ خود ایک رُکاوٹ بن جاتا ہے جبکہ اس کے استعمال کرنے والوں میں ہر معاملے میں شارٹ کٹ کا رُجحان اور سطحی سوچ پیدا ہوتی ہے- کار، نے سوشل میڈیا اور ان کے چلانے والی کمپنیوں کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے لکھا کہ! حقائق اور سچ کو فروغ دینے کی بجائے، سوشل میڈیا جھوٹ اور دُشمنی کو بڑھاتا ہے- مزید یہ کہ، ڈیجیٹل میڈیا انتہا پسند نظریات، قطبیت، جنون اور طاقت کے عدم توازن کو جنم دیتا ہے- اسی طرح برطانوی ماہر اقتصادیات نورینا ہرٹز اپنی کتاب ’’The Lonely Planet‘‘ میں مواصلاتی ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کو ’’ تنہائی کی عالمی وبا‘‘ قرار دیتی ہیں-[1]
اِس ڈیجیٹل اور مصنوعی دنیا میں، ہمارا مقام، عادتیں، گفتگو اور حتٰی کہ خیالات بھی ٹریک کئے جاتے ہیں- Surveillance Capitalism کا نظام ہمیں بغیر کسی جبر کے اپنے قابو میں لے چُکا ہے-مصنوعی ذہانت نا صرف ہماری پسند و ناپسند کو متاثر کرتی ہے بلکہ ہماری سیاسی و سماجی سوچ پر بھی اثر ڈالتے ہوئے ہمیں مخصوص راہوں پر گامزن کرتی ہے- اِس ڈیجیٹل ورلڈ میں اب صارف صرف خریدار نہیں، بلکہ خود ایک پروڈکٹ بن چُکا ہےجِس کے جذبات، عادات اور ترجیحات سب منڈی میں بکتی ہیں-
اقوام متحدہ کی ’’تجارت اور ترقی‘‘ پر 2024 ء کی ایک کانفرنس (UNCTAD) کی رپورٹ کے مطابق:
’’ 2016 ء سے 2022 ء کے درمیان ای کامرس میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی مالیت 27 ٹریلین ڈالر بنتی ہے- اسی رپورٹ کے مطابق، 2010ء کے بعد سالانہ سمارٹ فون کی ترسیل دوگنی ہوتے ہوئے 2023ء میں 1.2 ارب یونٹس تک پہنچ چُکی ہے- مزید برآں! اس رپورٹ میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ، 2023ء سے 2029 ء کے درمیان انٹرنیٹ آف تھنگز (IoT) کی تعداد متوقع طور پر 39 ارب تک پہنچ جائے گی‘‘-[2]
اِس ڈیجیٹل عالمی منڈی میں کسی انسان کا ڈیٹا بھی محفوظ نہیں ، بلکہ ڈیجیٹل سپیس کے استعمال کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے جدید طریقے سے انسانی رویوں کی پیش گوئی کر کے ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے- جس کے تناظر میں مخصوص نتائج حاصل کئے جاتے ہیں، جو کہ غلامی ہی کی ایک جدید شکل ہے- معلومات کی بھرمار نے انسان کے لئے یہ مشکل بنا دیا ہے کہ وہ حق و باطل، سچ اور جھوٹ، علم اور جہالت میں فرق کر سکے- اِس ڈیجٹیلائزڈ ورلڈ میں انسان خود کو آزاد سمجھتے ہوئے دوسروں کی مرضی کے مطابق ایک خاموش غلام کی حیثیت سے جیتا ہے- انسانی تشخص کا یہ بحران، معاشرۂ انسانی کے لئے زہر قاتل تصور کیا جا سکتا ہےجہاں جھوٹ کو اِس خوبصورت انداز سے بار بار دہرایا جاتا ہے کہ سچ معلوم ہوتا ہے؛ جو کہ آج کا ’’میڈیا ماڈل‘‘ ہے-
یزیدی فکر اور اس کا تسلسل:
یزید مَحض ایک غاصب حکمران ہی نہیں بلکہ ایک آمرانہ نظریے اور استبدادی طرزِ فکر کا نام ہے- وہ فکر جو طاقت کو سچ، جبر کو قانون اور منافقت کو حکمت عملی قرار دیتی ہے- آج دور جدید میں یزیدی فکر کسی خاص طبقے، قوم یا گروہ تک محدود نہیں ، بلکہ ہر وہ نظام، ادارہ یا سوچ جو انسان کی آزادی کو محدود کرے وہ بھی ’’یزیدی‘‘افکار کی عکاس ہے- ڈیجیٹل سرمایہ دارانہ نظام ، جو انسان کو صارف سے مصنوعہ (پروڈکٹ) بناتا ہے اسی یزیدی فکر کی جدید شکل ہے- جو اس کے استعمال کرنے والوں کے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور ہر طرح کے دیگر فیصلوں پر اختیار رکھتا ہے- یہی وہ فکر ہے جو انسان سے قوت فیصلہ چھین کر ، بے اختیار، بے یقین اور بے ایمان کر دیتی ہے- اس فکر کے حاملین، ملک و ملت میں انتشار، غیر یقینی اور فساد کو ہوا دیتے ہیں، جس کا بہترین ذریعہ یہ ڈیجیٹل میڈیا ہے- بھائی چارے، مساوات اور حب الوطنی سے عاری یہ نظام مذہبی اور طبقاتی تقسیم کے ساتھ علمی، فکری اور عقلی گراوٹ کا بھی شاخسانہ ثابت ہوتا ہے-اس وقت نوجوان نسل سب سے زیادہ ڈیجیٹل دُنیا سے جُڑی ہوئی ہے - اُن کے خیالات، رُجحانات، خواب اور حتٰی کہ ان کی خودی، سب کچھ میڈیا کے ذریعے تشکیل پاتا ہے- یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں فِکر حُسینؓ کو تعلیم و تربیت اور سوشل ڈسکورس کا حصہ بنانا ہو گا- کیونکہ کربلا صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی فکری و اخلاقی جدوجہد ہے- حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے کسی شخصی دُشمنی کے تحت یزید سے اِختلاف نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسے نظام کی مخالفت کی تھی جو ظلم، فریب، مفاد پرستی اور جبر پر قائم کیا گیا-
حسینی ؓ فکر میں آزادی کا اطلاق:
حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) نے کربلا میں جو چراغ جلایا، وہ صرف 61 ھ کیلئے مخصوص نہیں تھا بلکہ وہ ہر دور کی تاریکیوں کو اجالوں میں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے- آج جب انسان ڈیجیٹل غلامی کا شکار ہے، تو ضروری ہے اُسی فکر کی طرف لوٹا جائے- ٹیکنالوجی بذات خود نہ اچھی ہے نہ بُری، یہ صرف ایک آلہ ہے جو اگر خودی پر غالب آ جائے تو غلامی پیدا کرتا ہے- جیسا کہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
’’فرنگی تہذیب میں اگرچہ ہر چیز ہے، مگر دلِ بیدار نہیں‘‘-
حسینیؓ آزادی صرف سیاسی یا ظاہری سطح پر آزادی نہیں، بلکہ وہ ایک فکری، روحانی اور اخلاقی آزادی کی علامت ہے- فکرِ حسینؓ ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ اگر کوئی نظام تمہیں حق گوئی، صلح رحمی، بھائی چارے، رحم دلی اور ضمیر پر قائم رہنے سے روکے تو اس کے خلاف قیام کرو، چاہے تم اکیلے ہی کیوں نا ہو-جیسا کہ آپ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
’’میں بے شک شہادت کو سعادت شمار کرتا ہوں اور ظالموں میں زندگی بسر کرنا مجھے ناپسندیدہ ہے‘‘-[3]
آپ(رضی اللہ عنہ) کا یہ فرمان عزت و وقار سے جینے کی ترغیب دیتا ہے- ڈیجیٹل غلامی کی صورت میں اگر انسان خود مختار نہ رہے تو یہ روحانی و فکری ذِلت کے مترادف ہے- حسینیؓ آزادی انسان کو ظاہری و باطنی غلامیوں سے آزادی کا درس دیتی ہے- حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ) نے ہمیں حق اور باطل میں فرق کرنے کی فکردی ، جو بصیرت اور شعور عطا کرتی ہے- جیسا کہ آپ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
’’بے شک دنیا تبدیل ہوگئی ہے اور اچھی حالت سے نکل کر بری حالت کی طرف چلی گئی ہےاوردنیا کی اچھائی نے پیٹھ پھیرلی ہے‘‘-[4]
حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) یہاں معاشرتی برائیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آزاد فکر اور غیریت ِ انسانی کو جگانے پر زور دے رہے ہیں، جو کہ دور جدید کا تقاضا بھی ہے۔حکومتیں اور بر سرِ اقتدار لوگ جو اظہارِ رائے، معلومات تک رسائی یا پرائیویسی پر قدغن لگائیں ، وہ انسان کی حقیقی آزادی کی دُشمن ہیں- فِکر حُسینؓ ، غافلوں کو جھنجوڑ کر یہ پکارتی ہے کہ ڈیجیٹل بے حسی سے بیدار ہونا ہو گا- ہمیں ٹیکنالوجی کا غلام بنے بغیر اس کے حاکم بن کر اسے خیر کے کاموں میں استعمال کرنا ہو گا- اگرچہ یہ راستہ انتہائی مشکل، کٹھن، دُشواراور آزمائشوں کا ہے، مگر یہی ’’حُسینی راستہ‘‘ ہے-
امام حسین(رضی اللہ عنہ) کی فِکر آزادی سے اگر ہم نتیجہ احذ کریں تو درج ذیل نکات نکل کر سامنے آتے ہیں :
- شعور کو بیدار کریں-
- ٹیکنالوجی کو اپنا خدمت گزار بنائیں، آقا نہیں-
- حق گوئی، عدل اور آزادی کے اصولوں پر قائم رہیں-
- ’کربلا‘ صرف تاریخ نہیں، بلکہ ہر دور کی آزمائش ہے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوں-
- دجالی قوتوں کا ڈت کر مقابلہ کریں-
- مصنوعی ذہانت کی تخلیق کو سمجھیں-
- نفرت زدہ تقسیم اور تفریق کا انکار کریں-
- غیر حق کا انکار کریں-
- خود ی اور فکر حقیقی کو اجاگر کریں-
- جذبات کو قابو میں رکھیں-
- شیطانی خصائل کو رد کریں-
- اوصافِ حقیقی کا مظہر بنیں-
- اپنے عمل سے ذِمہ دار شہری ، اُمتی اور انسان ہونے کا ثبوت دیں-
- میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتیں-
- گالم گلوچ نہ کریں ، نہ ہی کسی کی کردار کشی کا حصہ بنیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیجیٹل غلامی کے اس دور میں پیغام کربلا کی ازسر نو تفہیم کی جائے جو انسان کو اپنے ضمیر، عقل اور حق پرقائم رہنے کی جرأت فراہم کرتی ہے- حضرت اما م حسین (رضی اللہ عنہ) کی یہ فکر ہر قسم کی غلامی کے خلاف اعلان ِ بغاوت ہے، چاہے وہ جسمانی ہو یا ڈیجیٹل-جیسا کہ آپ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
’’رہنمائے قوم وہی شخص ہو سکتا ہے جو قرآن پر عمل کرے ،عدل کو اپنائے، حق کا طرف دار ہو، اللہ عزوجل کی ذاتِ اقدس پر توکل رکھے‘‘-[5]
جدید انسان اگر حسینی ؓ فکر کو اپنا لے، تو نہ صرف ڈیجیٹل غلامی سے نجات پا سکتا ہے بلکہ ایک ایسی دُنیا کی تعمیر کر سکتا ہے جو علم، عدل، انصاف، قربانی، بھائی چارے، شعور اور آزادی پر قائم ہو- دلِ بیدار، فکر بیدار اور ضمیرِ زندہ- یہی وہ عناصر ہیں جو حسینیؓ درس کا مرکز ہیں-
٭٭٭
[1]Digital dangers - Newspaper - DAWN.COM
[2]Digital economy booms: UN - Business - DAWN.COM
[3](المعجم الکبیر للطبرانی، باب: الحسين بن علی بن أبی طالب)
[5](تاريخ الرسل والملوك للطبری،باب: ذكر الخبر عن مراسله الكوفيين الحسين علیہ الصلٰوۃ والسلام)