ابتدائیہ:
واقعۂ کربلا کو عمومی طور پر تاریخی تناظر میں بیان کیا جاتا ہے اور اس تناظر میں بھی توجہ خصوصاً اس کے ظلم، نا انصافی اور جنگی پہلو بیان کرنے پر مرکوز ہوتی ہے- تاہم محققانہ بصیرت کا تقاضا ہے کہ اس کو ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل اور عہد حاضر سے اس کے ربط کے تناظر میں بھی پرکھا جائے- ضرورت اس امر کی ہے کہ اس واقعہ کو عقل و خرد، شعور و آگہی ، معاشرتی ارتقا، تہذیبی تسلسل اور نظریاتی افق سے جوڑ کر دیکھا جائےتاکہ امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے نئے زاویوں کو دریافت کرنے میں مدد مل سکے-
فیصلہ سازی میں آزادی:
لیڈر شپ کی تھیوریز میں جو اوصاف مثالی سمجھے جاتے ہیں ان کا عملی مظاہرہ آپؓ نے جن نامصائب حالات میں پیش کیا ان کا اظہار شائد ہی دوبارہ کہیں ہوسکے مثلاً ہمدردی اور احساس - قائد کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمدردی اور احساس کا مظاہرہ کرنا چاہیے-
“One of the Most Compelling aspects of Imam Hussain’s Leadership was his deep Empathy for his followers”.[1]
کسی قائد کے لیے اس سے زیادہ کمزور اور نازک ترین صورتِ حال کیا ہو سکتی ہے جس میں آپؓ نے اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کے جانے کی مکمل آزادی دے دی – آپؓ کا یہ عمل جدید لیڈر شپ کے تصورات میں بطور ہدایات کے موجود ہے جسے Empowerment in Adversity کہتے ہیں- آپؓ نے اپنے ساتھیوں پراپنا فیصلہ لاگو کرنے کی بجائے ان کو با اختیار کیا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا راستہ چن لیں- ایسے سنگین حالات میں بھی اپنے ساتھیوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دینا آپؓ کی اعلیٰ ترین لیڈر شپ کے وصف کو ظاہر کرتا ہے - جدید علوم میں بیان کردہ ’’فیصلے کے اختیار میں آزادی‘‘کے اس تصور کی انسانی نفسیات اور معاشرے پر اثرات کی تفصیل کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہےکہ:
- فیصلہ سازی میں آزادی کو سماجی تبدیلی (Social Change) کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے-
- یہ معاشرتی ترقی کا باعث بنتا ہے-
- یہ احساسِ ذمہ داری پیدا کرتا ہے-
- یہ خودشناسی کے عمل کےلیے ضروری قرار دیا جاتا ہے-
- یہ اختیار انسان کو حق کی تلاش کی راہ میں سفر میں مدد گار ہو سکتا ہے-
- ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے پہ آمادہ کرتا ہے -
- یہ آزادی باہمی اعتماد اور تعاون کی فضاء قائم کرنے میں مدد دیتا ہے -[2]
قیادت کا اخلاقی تصور:
اسی طرح مؤقفِ امام حسین () کو قیادت کے اخلاقی تصور کے تحت دیکھیں تو آپؓ کا قیام خالصتاً اخلاقی اصولوں کو برقرار رکھنے کی خاطر تھا – آپؓ کے فیصلے اخلاقیات کے اصولوں کی تعریف کے عین مطابق تھے – قیادت کی کسی بھی تھیوری کا مطالعہ کریں تو اس میں بیان کردہ اوصاف کا اظہار امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے طرز عمل میں نظر آئے گا - جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے-
- اصولی موقف
- اخلاقی اصولوں پر مشتمل دستور العمل
- دوررس نتائج کو ترجیح دینا
- موقف کی شفافیت اور ابہام سے مبرا ہونا
- دباؤ میں حوصلے کا مظاہرہ کرنا
- مخالفین کے ساتھ اخلاقیات کے اصولوں کے مطابق برتاؤ کرنا
- عوام اور خاندان میں توازن قائم رکھنا
- حکمتِ عملی کے تحت دوررس نتائج مرتب کرنے والے فیصلے کرنا
- با مثال قیادت کرنا یعنی خود پیش پیش ہونا
- جذبۂ قربانی [3]
شعور و آگہی کےتناظر میں:
انسانی معاشرے میں جب بھی نئے تہذیبی، نظریاتی اور شعوری سوال جنم لیتےہیں تو اس دور کے راہنما ، مفکرین اور اہلِ علم ان کا جواب پیش کر تے ہیں اور یوں شعوری ارتقاء کا سفر طے کرواکر اجتماعی شعور کی سمت کو درست رکھتے ہیں- بلاشبہ امام پاکؓ نے اپنے دور میں مزاحمت محض کسی چھوٹی وجہ سے نہیں کی بلکہ آپؓ کا مقصد شعوری،فکری اور نظریاتی سفر کی سمت کو درست رکھنا تھا- اگر سوال یہ اٹھایا جائے کہ حکمرانی کو چیلنج کرنے کا شعوری ارتقا ءسے کیا تعلق ہے؟ تو فکرِ امام پاکؓ کی بصیرت کا مقصد یہ تھا کہ اسلامی معاشرے میں کسی غلط نظیر کی داغ بیل نہ پڑ سکے- اس فکر کو موجودہ دور کے ’’Situational Awareness‘‘ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے جو کہ لیڈر شپ کے لیے لازمی وصف تصور کیا جاتا ہے- وہ دور اسلامی معاشرے اور ریاستی اصولوں کے تشکیل کا دور تھا- فکرِ اسلام کے وضع ہونے کے بعد اس فکر کے تحت عملی طور پر وسیع نظام نے تشکیل پانا تھا اور ابتداء میں یہ غلط نظیر قائم ہو جاتی تو مستقبل میں ظالم، جابر اور آمر کے لیے اپنی حکمرانی کی دلیلیں اسلامی تاریخ میں سے ہی مل جاتیں- یہ آپؓ کا واقعیاتی شعور تھا جس نے ریاستی اصولوں کومجروح ہونے سے بچایا – آپؓ نے جدوجہد اور قربانی کے ذریعے سے اس تشکیلی دور میں غلط روش کا Anti-thesis پیش کیا- یوں آپؓ نے عوامی -ریاستی تعلق کے قابل العمل پہلو کو اجاگر کر کے اجتماعی انسانی شعور کو ارتقائی منازل طے کروا ئیں-
معاشرتی ارتقاء اور تہذیبی تسلسل کے تناظر میں:
امام عالی مقام () کی جانب سے یہ قربانی نہ دی جاتی تو معاشرتی ضابطوں اور اقدار کو نقصان پہنچتا اور اسلامی تمدن و معاشرت کی بنیادی ساخت کو خطرہ لاحق ہو جاتا- یوں ہی غلط روایات کو قبول کرنے کی رسم پڑ جاتی تو تہذیب و تمدن پہ اس کے منفی اثرات پڑتے - ا س طرز پر طاقت کے زور پر نااہل حکمرانیوں کی روش پڑنے دیتے تو اخلاقیات کا معیار تباہ ہو جاتا- ایسے ہی حق تلفی اور ظلم کو پنپنے دیتے تو بنیادی انسانی حقوق کے تذکرے میں ظلم و جبر کی گنجائش پیدا ہوجاتی - یوں ہی بلا جواز اور غیر قانونی حکمرانی کو تسلیم کرلیتے تو مستقبل میں سیاسیات کے معیارات بدل جاتے-لہذا آپؓ نے محض یزید کی بیعت سے انکار نہیں کیا بلکہ در حقیقت آنے والے دور کی سیاست، تمدن، جمہوریت،سماج اور بنیادی انسانی حقوق کے اصولوں کو بچایا ، اپنے اور خانوادہءِ نبوت کے خونِ مبارک کی قیمت سے ان میں پیدا ہونے والے ابہام کو ختم کیا- آپؓ نے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کا نظرانہ پیش کر کے دراصل ان بنیادی معاشرتی اصولوں کو حیاتِ نو بخشی-
قانونی تناظر:
آپؓ کے عمل اور قربانی نے آنے والے دور میں قانونی (Legitimate) حکومت کے معیارات کو بھی واضح کیا اور شاید تاریخِ انسانی میں پہلی بار عوامی سطح پر Defacto (بالفعل،بلاجواز یا غیر قانونی) اورDejure (بالحق،قانونی یا جائز) حکومت کا شعور فراہم کیا کہ آیا کوئی حکومت Dejureہے یا Defacto ہے- اگر معاشرہ کسی Defacto حکومت کو تبدیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتا تو اس کو ایک Dejure حکومت بھی نہ مانیں بلکہ ایسا کہیں کہ یہ ایک نا حق، غیر اخلاقی اور غیر قانونی حکمرانی ہے- کیونکہ ایسا کرنے سے کم ازکم آپ اپنے سیاسی اور قانونی حق اور دعوے سے دستبرداری کا اعلان نہیں کرتے جبکہ اس کو تسلیم کرنا اس کو جائز قرار دینے کے مترادف ہے- اس طرح آپؓ نے جمہوری اقدارمیں جدت لا کر علمِ احتجاج بلند کرنے کا طریقہ سیکھا دیا-
آج کے دور میں حقوق و فرائض کے حوالے سے کچھ اصول ایسے ہیں جن پر اہلِ علم میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے جس کے تحت آپ کا کوئی عمل یا اختیار اس وقت تک آپ کا حق نہیں کہلاتا جب تک کہ کوئی Competent Authority اس کو تسلیم نہ کرے - یعنی کوئی حق خود ساختہ طور پر اس وقت تک Declare نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ کوئی مجاز اور اہل مقتدرہ اس کو تسلیم نہ کرلیں- مثال کے طور پہ کسی قانونی حق کے لیے ضروری ہے کہ ملک کا قانونی نظام (Competent Authority) اس کو تسلیم کرلے تب وہ آپ کا قانونی حق کہلائے گا-اسی طرح کوئی اخلاقی یا معاشرتی حق اسی صورت میں آپ کا حق تصور کیا جائے گا جب تسلیم شدہ معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کا معیار (Competent Authority) اس کو تسلیم کرلے - بعین اسی صورت حقِ حکمرانی کے لیے لازم ہے کہ متعلقہ جگہ کا آئین ، سیاسی اقدار ، جمہوریت،نظریات یا مذہبی اصول اسے تسلیم کریں -
چاروں سنی فقہوں کے مروجہ طبقاتِ صحابہ میں آپؓ کے مقام کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ آپؓ کا مقام مذہبی اور روحانی حلقہ اثر (Spiritual & Religious Domain) میں بذات خود Competent Authority سے کم نہ تھا- یزید کا آپؓ کی بیعت پر اصرار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سند ِ حکمرانی کے لیے آپؓ کے اہل اور مقتدر حیثیت کا قائل تھا- اگر امام پاکؓ کو مذہبی اور روحانی حلقہ اثر میں اتھارٹی تسلیم نہ کیا جاتا تو ان سے سند حاصل کرنے کی اہمیت بھی نہ ہوتی - یزید جانتا تھا کہ مجاز اتھارٹی کون ہیں؟ اور کس کا میری حکمرانی کو تسلیم کرنا ضروری ہے ؟آپؓ نے دراصل مذہبی اور روحانی حلقہ اثر کی ”مقتدر حیثیت“ کے بھرم کو سلامت رکھا اور اس اتھارٹی کے وقار کو اپنا آپ قربان کر کے پامال ہونے سے بچایا - جدید دور کے نظامِ حکومت میں Check and Balance کا ایک مؤثر تصور موجود ہے جس کے تحت عدلیہ اور مقننہ ، انتظامیہ پر Check & Balance رکھتی ہے اور اگر ان کا یہ کردار سمجھوتے کا شکار ہو جائے تو عدلیہ اور مقننہ کا ادارہ بذاتِ خود اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے - اسی طرح اس وقت کے روحانی اور مذہبی شحصیات نے یہ Check and balance کا کردار ادا کرنا تھا-آپؓ نے یہ کردار بخوبی نبھا کر نہ صرف اسلامی حکومت کے تصور کو تباہی سے بچایا بلکہ مجاز اتھارٹی یعنی ”مذہبی و روحانی مقتدر حیثیت“ کے تصور اور اس کی قدر و منزلت کو برقرار رکھا –
نظریاتی تناظر میں:
یزید حال کو دیکھتا رہا اور امام پاکؓ کی نظر اس دنیا کے اعتبار سے قیامت تک آنے والی اُمت کے مستقبل پر تھی اور اس مستقبل میں بننے والی تاریخ پر تھی – اور دوسرے اعتبار سے آپؓ کی نظر قیامت کے بعد میدانِ حشر اور میزانِ حق پر تھی- آپؓ کی چاہت عارضی اور ادنی ٰ مقاصد کی بجائے اعلیٰ مقاصد کا حصول تھا جس کے تحت دو جہانوں کی فلاح مقصود تھی- اگر آپؓ کا مقصد صرف حصول ِ اقتدار ہوتا تو ایسے میں حکمت عملی مختلف ہوتی اور یوں خود کو اور پورے خاندان کو ہرگز قربان نہ کرتے- تب تقاضا یہ ہوتا کہ سمجھوتہ کر لیتے، وقتی کنارہ کشی اختیار کر لیتے،صحیح وقت کا انتظار کرتے اور سب کچھ ایسے ہرگز نا گنواتے- ایسی عظیم قربانی تب دی جاتی ہے جب نظر کسی بڑے مقصد پر ہو -آپؓ کی نظر اپنے اقدامات کے مستقبل میں اثرات اور نتیجہ پر تھی- اس کو Futuristic approachکہتے ہیں- جس کے تحت وقتی نفع اور نقصان کی بجائے دوررس حکمتِ عملی کو مدِنظر رکھ کر فیصلے لیے جاتے ہیں- مثلاً ایک نقطہ ٔنظر یہ ہے کہ اگر کسی موجودہ فائدے کی خاطر یا کسی ممکنہ نقصان سے بچنے کیلئے ایمان، غیرت، حمیت، نظریات، عزت، عقائد اور اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑے تو نظریہ ضرورت کے تحت کر لیا جائے کیونکہ فائدے کا حصول یا کسی پیشگی نقصان سے احتراز برتا جا سکتا ہے – آپؓ نے ا س کے برعکس موجودہ نفع و نقصان کی بنا پر فیصلےلینے کی بجائے ان اعلیٰ اقدار پر پڑنے والے موجودہ اور ممکنہ اثرات کے تناظر میں فیصلوں کا انتخاب کیا- جن کی بدولت اجتماعی کردار میں ان اعلیٰ اقدار کی حوصلہ افزائی اور نشوونما کو پیشِ نظر رکھا گیا-آپؓ اس راستے پر غیر ارادی طور پر نہیں پہنچے کہ محض حالات کے نا موافق منظر نامہ ،دشمن کی منصوبہ سازی یا اپنوں کے مکروفریب کے نتیجے میں اس صورتِ حال سے دو چار ہوئے بلکہ Strategic Thinking کے نظریہ کے مطابق بڑی حکمت عملی کو مدنظر رکھ کر ارادی طور پر اس راستے کا انتخاب فرمایا- آپؓ کا مقصد فکر ِاسلام ، اخلاقی اقدار،معاشرتی نظم و ضبط، تمدنی روایات اور خصوصاً خلافت کےبطور ادارہ تحفظ کو یقینی بناناتھا- یہی معززین زمانہ کی راہ و روش ہوتی ہے کہ اپنے دور کے فکری تخریب، سیاسی منافقت اور نظریاتی مکاری کا نہ صرف ادراک رکھیں بلکہ ضرورت پڑنے پر عملی جدوجہد اور قربانی کے ذریعے تاریخ کے حقائق کو درست رکھیں- آپؓ کے لیے آسان تھا کہ خاموش رہتے لیکن آپؓ کی دور اندیشی نے حالات کی سنگینی کو بھانپ لیا تھا کہ مسئلہ صرف سیاسی اختلافات کا نہیں بلکہ ا س کا تعلق نظریاتی و فکری انحطاط اور اسلامی قدروں کے پامال ہونے سے ہے - یہ آپؓ کی قائدانہ صلاحیتوں میں سے دور اندیشی کا کمال تھا کہ اس معرکہ کو میدانِ کربلا سے نوعِ انسانی کے شعور میں لے جا کر اس کے ذریعے حق اور باطل کے استعارے وضع کر دیے- امام پاکؓ اس کو محض برتری اور پسپائی کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے اسے جدید دور میں پائے جانے والے 5th Generation warکے تصور کے طور پر دیکھ رہے تھے جہاں آپؓ نے بیانیہ کی فتح کو ذاتی قربانی پر ترجیح دی- آپؓ جانتے تھے کہ آپؓ کے بیانیہ کی شکست کی صورت میں اسلامی اقدار خصوصاً تصور خلافت کے اصول بگڑ جاتے-
حکمرانی یا راہنمائی؟
ممکن ہے کوئی قائد، حکمران بن جائے لیکن یہ لازم نہیں کہ ہر حکمران، راہنما کہلائے- حکمرانی اور راہنمائی واضع طور پر دو الگ الگ تصورات ہیں- حکمرانی حسب ضابطہ دستور کے مطابق ایک رسمی منصب ہے جبکہ راہنما کے لیے مسند اور اقتدار لازم نہیں-حکمرانی تک کیسے بھی پہنچا جا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر کوئی بھی راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے- تاریخِ انسانی شاہد ہے کہ متعدد بار تو یہ راستہ ذلت و رسوائی کی پستیوں سے گزر کر اپنی ذات کو جانوروں سے بھی بدتر مقام پر پہنچا کر، اخلاقیات کے معیارات کو تہہ و بالا کر کے، روایات اور ضابطوں کو پیروں تلے روند کے حکمرانی تک پہنچتا ہے- اس کے برعکس راہنما زور زبردستی اور دھونس دھاندلی سے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ وہ اپنے کردار، اخلاق، نظریہ، بصیرت اور دور اندیشی سے یہ مقام حاصل کر لیتا ہے-حکمران محض اپنے اقتدار کے مرہون منت ہی منظر نامہ پر رہ سکتا ہے جبکہ راہنما اپنے افکار و نظریات اور مقاصد و اصولوں کے ذریعے امر ہو جاتا ہے-دونوں حلقوں کے مطمع نظر اور سوچ کے زاویے مختلف ہوتے ہیں اورامام عالی مقام(رضی اللہ عنہ) نے دونوں کے طرز فکر اور ذہنی کیفیت کو آشکار کیا- جیسا کہ آپؓ نے بطور راہنما کے فکری،نظریاتی اور شعوری سرحدوں پر فتح کو میدانِ کربلا کی ظاہری جنگی فتح پر ترجیح دی-
دیکھا جائے تو یہ معرکہ کربلا ایک عظیم راہنما اور ایک جابر حکمران کے مابین تھا جہاں یزید کہاں جیتا؟ بظاہر اس کی تلوار برتری لے گئی لیکن اس برتری کو امام پاکؓ کی شانِ استقامت مات دے گئی- کیا وہ میدان کربلا میں غالب رہا؟ درحقیقت غلبہ تو امام پاکؓ کے جذبۂ شہادت نے حاصل کیا- یزیدی جبر کا مقصد آپؓ کی استقامت کو ہرانا اور آپؓ کے جذبہ شہادت کو ماند کرنا تھا - تو کس نے کس کو ہرایا؟ یزید کا مقصد بیعت کے ذریعے آپؓ کو مطیع کرنا تھا جبکہ امام پاکؓ کا مقصد جبر کا جھوٹا خول توڑنا تھا-آپؓ نے کلمہ حق کا حق ادا کر دیا اور وہ بیعت حاصل نہ کر سکا - یزید کا مقصد ایک غلیظ بیانیہ کی تشہیر تھا جبکہ ذہنوں نے امام پاکؓ کے سچے بیانیے کو قبول کیا- وہ امام پاکؓ کو خوف کے ذریعے توڑنا چاہتا تھا تو یہاں آپؓ کی ثابت قدمی نے اس کے عزائم کو شکست دی - اگر یزید نے عددی برتری کی بنا پر حاوی ہونا چاہا تو آپؓ نے قربانی کا انتخاب کر کے اس کی یہ مراد بھی پوری نہ ہونے دی -اگر وہ میدان میں خوف کو بطور ہتھیا ر لایا تو اس کے مقابلے میں آپؓ کا اطمینان جیتا- اس نے چاہا کے آپؓ کا سر مبارک جھکائے تو آپؓ نے وہ سر مبارک بارگاہ ذولجلال میں پیش کر دیا-راہنما کی سوچ جیت گئی اورحکمران درحقیقت آپؓ سے متعلق اپنی ایک بھی آرزو پوری نہ کر سکا اور نہ ہی آپؓ نے اس کو اپنے کسی ایک مقصد میں کامیاب ہونے دیا-پس آپؓ نے بطور راہنما یہ ثابت کیا کہ عزائم، مقاصد، مطلوبہ نتائج مرتب کرنے کی کوشش اور ممکنہ اثرات قائم کرنے کی خواہش میں کامیابی محض حصول اقتدار کے مرہون منت نہیں ہیں -
اختتامیہ:
عقل انسانی اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو معرکہ کربلا کا مطالعہ ہمیشہ سے مسلم تہذیب کو نِت نئے اندازِ فکر دیتا آیا ہے کہ یہ قربانی کی لازوال داستان اپنے اندر لامحدود اخلاقی، قانونی، سماجی، معاشرتی، سیاسی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق اسباق سموئے ہوئے ہے- معاشرتی ارتقا اور تہذیبی تسلسل پر حضرت امام حسینؓ کی قائدانہ صلاحیتوں کا اثر واضح ہے جہاں آپؓ کے مدبرانہ نقطہ نظر نے ایک طرف اسلامی تمدنی روایات کے تسلسل کو قائم رکھنے میں مدد فراہم کی اور اس کے تہذیبی اقدار کو آلودہ ہونے سے بچایا ، تو دوسری جانب آپؓ کے طرز فکر کی بدولت معاشرے کے تشکیلی سفر میں وہ اصول میسر آئے ہیں جو اس کی ساخت کو برقرار رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں- یہ قدریں نتیجتاً وہ معیارات فراہم کرتی ہیں جو نظریاتی سمت کو درست رکھنے میں ہمیشہ مدد فراہم کرتی رہیں گی-
یقیناً امام عالی مقام (رضی اللہ عنہ) نے حکمران اور راہنما کے فرق کو ظاہر کر کے عقل و خرد کے میدان میں ان تصورات سے متعلق مضبوط دلائل فراہم کیے اور جابرانہ ذہنیت کی شناخت اور اس کے اثرات کا فہم عطاء کیا- اس کے ساتھ ساتھ شعوری ترقی کے اعتبار سے وہ پیمانے بھی وضع کر دیے جن کی بدولت آنے والے دور میں ان قدروں کے اصل حقدار کا ادراک بھی ممکن ہوا اور قیامت تک ہوتا رہے گا- ساتھ ہی ساتھ قانونی اور اخلاقی معیارات کی وہ اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں جو شعوری اور غیر شعوری دونوں سطح پہ رہتی دنیا تک انسانیات کی رہنمائی کرتی رہیں گی-
٭٭٭
[1]Empathy and Leadership: Lessons from the Events of Karbala for Modern Human Resource Management
(www.linkedin.com)23-05-2025
[2]Courageous decisions in Karbala: Hussain Ibn e Ali’s Gift of Freedom of Decision Making (Humera Ambareen)
[3]Empathy and Leadership: Lessons from the Events of Karbala for Modern Human Resource Management
(www.linkedin.com)23-05-2025