سلطان الاولیاءحضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحبؒ

سلطان الاولیاءحضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحبؒ

سلطان الاولیاءحضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز صاحبؒ

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی اپریل 2019

تیرا جلال و جمال مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل وجمیل تو بھی جلیل وجمیل

اللہ پاک اس بات پہ قادر ہے کہ وہ ایک شخص میں پوری کائنات کو جمع فرما دے یعنی تمام فضائل و کمال فرد واحد میں جمع فرما دے- امام بیضاوی ؒ ایک قول نقل فرماتے ہیں  :

’’لَيْسَ مِنَ اللهِ بِمُسْتَنْكِرٍ أَنْ يَّجْمَعَ الْعَالَمَ فِيْ وَاحِدٍ‘‘[1]

’’اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ (فرد) واحد میں پورے عالم کو جمع فرما دے‘‘-

جیسا کہ اللہ پاک نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِلہِ حَنِیْفًا‘‘[2]

’’بے شک ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ذات میں) ایک اُمت تھے‘‘-

یعنی اللہ تعالیٰ کے بڑے فرمانبردار، ہر باطل سے کنارہ کش  تھے- اللہ پاک اپنی مخلوق میں سے بعض ایسے افراد کا انتخاب فرماتا ہے جو تمام صفات ِ محمودہ کا جامع ہوتے ہیں اور صحیح معنوں میں ’’فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً‘‘ اور ’’لِلنَّاسِ اِمَامًا‘‘ کا مصداق ہوتے ہیں- اللہ پاک کے ہاں ان کا یہ مقام ومرتبہ ہوتا ہے کہ ان کی تعظیم و توقیر اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ ہوتی ہے -

حضور نبی کریم،شفیع المذنبین سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ)  اللہ تعالیٰ کے حبیب اور قرب کےسب اسے اعلیٰ مقام پہ فائز ہیں جس کے لئے اللہ پاک نے آپ (ﷺ) کی اطاعت و اتباع کو ہمارے لیے لازم فرمایا ہے- آپ (ﷺ)نے اپنی اُمت کے لیے ’’فقر‘‘ کو پسند فرمایا ہے- اُمّتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے وہ لوگ جنہوں نے فقر میں محنت کی، اسے حاصل کیا، اس میں کمال پایا اُنہیں عُرفِ عام میں فقراء کہا جاتا ہے- اُن کے سینے اس دولتِ فقت کی برکت سے منور و روشن رہتے ہیں-فقراء کی اُمّت میں موجودگی اِس امت کے ’’اُمتِ بر حق‘‘ ہونے کی دلیل ہے ، کوئی زمانہ ان صاحبانِ فقر ہستیوں سے خالی نہیں ہوتا- ہر زمانے میں، ہر خطے میں یہ لوگ محبت ِ الٰہی اور عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کی شمعیں روشن کرتے رہتے ہیں اور مخلوق میں طاعت و تقویٰ کی خوشبو بکھیرتے رہتے ہیں-

انہی فقراء ہستیوں میں سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ کی ذاتِ گرامی ہے، جن پہ اللہ تعالیٰ نے فقر کی ایسی دولت عطا کر دی کہ صدیاں بیتنے کے باوجود بھی اُن کے فیض کا دریا متلاشیانِ حق کو سیراب کر رہا ہے-حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ کے خانوادہ میں فقر میں ریاضت و محنت ہمیشہ سے اس خانوادے کا طُرّۂ امتیاز رہی ہے-آپ کے خانوادے کی ایک عظیم شخصیّت شہبازِ عارفاں حضرت سُلطان محمد عبد العزیزؒ ہیں جن میں فقر کا آفتاب پوری آب و تاب سے چمکتا رہا-

سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیر (قدس اللہ سرّہٗ) کی ولادت با سعادت معروف روایات کے مطابق 1909ء میں دربار حضرت سخی سلطان باھوؒ ضلع جھنگ میں ہوئی-سلطان محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) کا سلسلہ نسب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان محمد باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) سے آٹھویں پُشت میں ملتا ہے جو درج ذیل ہیں-

’’حضرت سُلطان محمد عبد العزیز حضرت سلطان فتح محمد بن حضرت سلطان غلام رسول بن حضرت سلطان غلام میراں بن حضرت سلطان ولی محمد بن حضرت سلطان نور محمد بن حضرت سلطان محمد حسین بن حضرت سلطان ولی محمد بن سلطان الفقر سُلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ ‘‘-

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کا تعلق قبیلہ اعوان سے ہے- آپؒ اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے تھے اور فقہ میں امام اعظم ابو حنیفہؒ کے پیروکار تھے یعنی حنفی المذہب تھے- آپؒ عطائے رسول اور  بشارتِ رسول (ﷺ) ہیں جیساکہ روایت میں ہے کہ آپؒ کے والدِ ماجدحضرت سخی سلطان فتح محمدصاحبؒ کی بہت عرصہ تک اولاد نہ ہوئی ، حتیٰ کہ بڑھاپے نے آن لیا ، لیکن ایک دن آپ کے ایک مرید کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے باطنی طور پہ فرمایا کہ جاؤ اپنے مرشد (سلطان فتح محمدؒ) کو بتاؤ کہ رسول (ﷺ) کی کچہری مبارک سے انہیں دو بیٹوں کی خوشخبری ہے-بڑا فرزند ناف بریدہ ہوگا، جاؤ اپنے مرشد کو مبارک دے آو[3]- بڑا بیٹا جب پیدا ہوا تو وہ بشارت کے مطابق ناف بریدہ تھے، اُن کا نام ’’سُلطان محمد عبد العزیز‘‘ رکھا گیا-آپ جب پیدا ہوئے تو آپ آنکھ نہیں کھول رہے تھے، ایک دو دن انتظار کے باوجود بھی جب آپ نے آنکھ نہ کھولی تو گھر میں پریشانی پیدا ہو گئی، اُس وقت حضرت سُلطان باھُو کے خانوادہ و خلفا میں پیر سیّد بہادر علی شاہ المشہدی رحمۃ اللہ علیہ کے کمالاتِ باطنی سے ہر کوئی آگاہ تھا ، اُس نومولود کو پیر صاحب کی خدمت میں لے جایا گیا کہ اس بچے کو دَم فرما دیں-حضرت پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دم رکھنے کیلئے جیسے ہی اُنہی گود میں اٹھایا تو اس نورانی بچے نے آنکھیں کھول دیں اور پہلی نظر حضرت پیر بہادر علی شاہ صاحب کے چہرے پہ ڈالی-یہیں اُس نورانی بچے کی دولتِ فقر کا نصیبہ لکھا تھا- [4]

حضرت سُلطان عبد العزیزؒ عشقِ مصطفے ٰ (ﷺ)  اور خلق ِ محمدی (ﷺ) کے پیکر تھے- آپؒ کے منور چہرہ مبارک کو کوئی ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھ سکتا- آپؒ کی سیرت و صورت مبارکہ اس قدر جامع اور دلکش تھی کہ آپؒ  سے ایک مرتبہ بھی شرفِ ملاقات کرنے والامتاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور قرب میں بیٹھنے والے ہراہلِ ایما ن کی یہ دلی خواہش ہوتی تھی کہ اس کو بار بار یہ شرف حاصل ہوتا رہے- بقول ِ شاعر:

ایک دن ان کے کوچے سے گزرا تھا مَیں
پھر یہی روز کا مشغلہ بن گیا

اللہ پاک کے برگزیدہ بندے چاہے وہ جتنی بھی بھیڑ میں موجود ہوں؛ وہ اپنے کردار، گفتار، رفتار الغرض! تقریباً تمام معمولاتِ زندگی میں عام لوگوں سے منفرد نظر آتے ہیں اور اُن کی انفرادیت میں ایک جاذبیت اور کشش ہوتی ہے- اسی انفرادیت کے تناظر میں جب ہم سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز (قدس اللہ سرّہٗ) کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپؒ جہاں ہمیں طالبانِ مولیٰ کی صف میں منفرد نظر آتے ہیں، وہاں مقام ِ مرشدیت میں بھی منفرد و یگانہ نظر آتے ہیں- ہم اگر آپؒ کی انفرادی خصوصیات کا تذکرہ کرنا چاہیں تو بقول علامہ اقبال’’قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن‘‘-یعنی اس ہستی پاک کی خصوصیات کو بیان کرنے کے لئے کئی کتب درکار ہیں-ہم صرف یہاں آپؒ کی ذات مبارک کا طالب کی حیثیت سے ذکر کر کے اپنے قلوب و اذہان کو معطر کرنے کی کوشش کرتے ہیں -

آپؒ کی پوری زندگی مبارک شریعت، طریقت، معرفت،حقیقت ہرحوالے سے قابلِ رشک ہے لیکن جب بطورِ طالب آپؒ کی ذات مبارک کو دیکھتے ہیں تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے- ہمیں آپؒ کی ذا ت میں حضور تاجدارِ کائنات حضرت محمدمصطفےٰ(ﷺ) کی وہ سنت مبارک نظر آتی ہے کہ اللہ پاک جہاں اپنی راہ میں تمام انسانوں سے جان، مال، عزت،آبرو الغرض!  اپنی پیاری سی پیاری چیز قربان کرنے کا حکم فرما رہا ہے وہاں اپنے محبوب پاک (ﷺ) کے متعلق ارشاد فرماتا ہے کہ :

’’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ‘‘[5]

’’کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے‘‘-

ایک اور مقام پہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا ‘‘[6]

’’رات میں قیام فرماسوا کچھ رات کے‘‘-

مزید ارشادفرمایا:

’’اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا‘‘[7]

’’بے شک دن میں تو تم کو بہت سے کام ہیں‘‘-

ان تمام مذکورہ آیات اور دیگر مقامات پہ اس قسم کی آیات مبارکہ سے جو چیز ہمیں سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ اے محبوب کریم!(ﷺ) رات کوتھوڑا قیام فرمایا کرو اور اپنی جان و آرام کا بھی خیال رکھو-یہی چیز ہمیں آپؒ کی زندگی مبارک میں بھی نظر آتی ہے کہ آپؒ اپنے مرشد کریم کو اللہ پاک کی رضا کے حصول کے لیے اتنا خوش کرتے ہیں کہ مرشد کریم کو آپؒ کا مشقت میں پڑنا گراں گزرتا ہے-  در اصل یہ سبق ہراس طالب کے لیے ہے جو سلوک کی منازل طے کرنے کا متمنی ہے-یعنی وہ آپؒ کی نقشِ قدم پہ چلتے ہوئے اپنے مرشد کو اتنا راضی کرے تاکہ وہ مرشد کے دل میں اس قدر مقام پیدا کر لے کہ مرشد نہ صرف ظاہری طور پہ اس کی صحت وآرام کا خیال رکھے بلکہ اس کے جملہ معمولات ِ حیات کا خیال رکھے-

اب ہم تعلقِ مرشد،محبتِ مرشد کے حوالے چندروایات پیش کرتے ہیں:

1-’’جب کبھی آپ ؒاپنے مرشد کریم کے پاس حاضری اور ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے تو ادبا ً سواری کے بغیر پیدل تشریف لے جاتے-آپ ؒ ایک مرتبہ اپنے مرشد کریم کے پاس حسو والی تشریف لائے- آپ ؒ  کو جب معلوم ہوا  کہ مرشد کریم ٹینڈر والا تشریف لے گئے ہیں تو آپ ؒ ٹینڈر والا تشریف لے گئے،وہاں جا کے معلوم ہوا کہ حضور پیر صاحب ؒ تلمبہ تشریف لے گئے ہیں تو ٹینڈر والا میں مریدین نے آپؒسے اصرارکیا کہ آپؒ یہاں آرام فرمائیں لیکن اپنے مرشد کریم کے عشق میں آپ ؒاس قدر بے چین تھے کہ ایک لمحہ آرام نہ فرمایا-پھر آپ ؒ تلمبہ کی طرف روانہ ہوگئے-یہ سارا سفر جو آپ ؒ نے پیدل فرمایا وہ تقریباً 100 کلو میڑتھا-اس دوران آپ ؒ کے پاؤں مبارک پہ آبلے ابھر آئے-سلطان محمد بہادر علی شاہ (قدس اللہ سرّہٗ) کو طالبِ صادق کی تمام کیفیات بذریعہ کشف معلوم ہوئیں تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے نہ صرف آپؒ کے آرام کا بندوبست فرمایا بلکہ مرہم پٹی کا بندوبست بھی فرمایا- آئندہ آپ ؒ کو گھوڑے پر سواری کے بغیر سفر سے منع فرمایا- ان کیفیات کو دیکھ کر عام بندے کیلیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ مرید و مرشد میں سے طالب کون ہے اور مطلوب کون؟ ‘‘ [8]

2 :’’ سید سلطان محمد بہادر علی شاہ ؒ حضرت سخی سُلطان محمد باھُو ؒ کے فیض یافتگان میں سے ہونے کے ناطے آپ ؒ سے بہت زیادہ شفقت فرماتے اور کسی بھی طرح کی ذاتی خِدمت کا کام نہ کرنے دیتے- مگر آپ ؒ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی کہ حضور پیر صاحب ؒ کے ڈیرے کے انفرادی کام وہ خود سر انجام دیں یہاں تک کہ گھوڑیوں کے چارہ کے طور پر استعمال ہونے والے بھوسہ کو آپ ؒ رات کو اٹھ کر خود صاف فرماتے اور چھان کر رکھ دیتے- لوگوں میں یہ مشہور ہوگیا کہ حضور پیر صاحبؒ کی گھوڑیوں کا بھوسہ جنات چھانتے اور صاف کرتے ہیں- چنددنوں کے بعد پہرے دار نے حضور پیر صاحب ؒ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا کہ حضرت سُلطان محمد عبد العزیز صاحب رات کو اُٹھ کر حضور پیر صاحب کی گھوڑیوں کا بھوسہ صاف فرماتے ہیں  جس پرحضور پیر صاحبؒ نے آپؒ کو اس کام سے منع فرمادیا ‘‘- [9]

آپ ؒ کے دل و دماغ اور روح میں اپنے مرشد کریم کی الفت و یاد سمائی ہوئی تھی-آپؒ اپنے مرشد کریم  کے دیدار کے لیے ہمہ وقت مشتاق رہتے تھے جیسا کہ آپ ؒ نے فرمایا :

اج ملے سوہنا پیر مینوں اکھیں ویکھن کارن بے قرار ہویاں
سوہنا پیر ویکھن تاں قرار پاون اے تاں ہر دم وچ انتظار ہویاں
سلطان بہادر شاہ دی صورت ویکھن کارن ہر وقت طرف دربار ہویاں
سلطان عزیز دا یار بہادر شاہ ہویا اکھیں اس جہان کنوں بیزار ہویاں [10]

یہاں ایک واقعہ کا ذکر کرنا مناسب ہوگا جس سے ہر ذی شعور آپ ؒکی عظمت وشان کا اندازہ لگا سکتا ہے- جس کا ذکر سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیر ؒ نے خوداپنی زبان مبارک سے ایک محفل میں فرمایا جس میں ملک نورحیات خان صاحب موجود تھے- ملک صاحب نےاپنے مرشدکریم کی زبانی ا س واقعہ کو رقم کیاکہ آپ ؒ نے بیان فرمایا :

’’میں بستی سمندری میں جہاں حضرت سلطان باھو ؒ  کا پرانا مزارمبارک تھا؛ اپنی رہائش گاہ پرموجود تھا-بستی سمندری دریا کے کنارے پر واقع ہے- ان دنوں بارشوں کی وجہ سے دریا میں طغیانی تھی میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ اگر سیلاب کی وجہ سے ہمارے رہائشی مکان گر جائیں تو اچھا ہے تاکہ آئندہ اپنے مکانات حضرت سلطان باھُو ؒ کے نئے مزارمبارک کے نزدیک تعمیرکریں گے چنانچہ میں ان ہی خیالات میں گھر جاکر اپنے کمرے میں سو گیا - رات کو سیلاب کا پانی ہمارے مکانات کے گرد بنائے ہوئے حفاظتی بندتک چڑھ گیا اور مکانات منہدم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا-میرے خادمین نے فوراً میرے ایک غلام کو تلاش کیا جوبھائی کے نام سے مشہور تھا اور اسے پانی کے خطر ناک حدتک چڑھ آنے کی اطلاع دی -وہ فورًا آیا اور اس حفاظتی بندپہ کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ کے اشارے سے پانی کو واپس ہونے کا حکم دیا تو سیلاب کا پانی اترنا شروع ہو گیا- یہ واقعہ سناتے ہوئے آپ ؒ نے مزید فرمایا کہ میرا یہ غلام (خاص مراقبوں کے ذریعے ) اکثر راتوں کو حضرت خواجہ خضر (علیہ السلام) کی مجلس میں ان سے ہم صحبت ہوتا ہے اُن کے ساتھ رفاقت (اور اُن کی عطا ) کی وجہ سے یہ دریاؤں کے پانی پر اپناحکم چلانے کا اختیار رکھتا ہے‘‘-[11]

اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جن کا غلا م اتنی طاقت رکھتا ہو کہ وہ دریاؤں کا رخ موڑ دے اس کے مرشد ذیشان کی عظمت کا کیاعالم ہوگا؟

آپ ؒ کی ذات مبارک بلاشبہ شش جہات ہیرے کی مثل ہے جس کو جس زاویے سے بھی دیکھیں اس کی چمک دل و دماغ کو منور کرتی ہے- آپ ؒکی ذات مبارک کو جب ہم بطورِ طالبِ مولیٰ دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتےہیں کہ بلاشبہ آپ ؒ اپنے مرشدکریم کے ہاں مقام ِ نازپہ فائز نظر آتے ہیں-جب ہم آپ ؒ ذات مبارک کو بطورِمُرشد دیکھتے ہیں تو اس سے آگے مزید کلام کرنے کی حاجت نہیں رہتی کہ ’’سلطان الفقر‘‘ جیسی اقلیم فقر کی بے تاج بادشاہ ہستی آپ ؒ کے دامن سے فیض یاب ہوتی اور آپ ؒکی غلامی پہ فخر کرتی نظر آتی ہے-اس طرح آپ ؒ والدکے روپ میں بھی منفرد نظر آتے ہیں کیونکہ آپ ؒ کے چاروں صاحبزادگان شریعت، طریقت، معرفت اورحقیقت کے  مظہرِ کامل نظر آتے ہیں -

آپ ؒ فقر میں ایک اعلیٰ و ممتاز مقام رکھتے تھے - گھڑسواری اورنیزہ بازی میں بھی آپ ؒ نے اعلیٰ روایات قائم فرمائیں- اس طرح آپ ؒ باطنی میدانوں میں طالبانِ مولیٰ کو نفس کے منہ زور گھوڑے پر شاہسواری کے ایسے گر سکھائے کہ دنیا انگشت بدنداں ہے-

آپؒ وقت کی بہت زیادہ قدر فرماتے تھے وقت کی لمحہ بھر کی بھی کمی بیشی طبیعت مبارک پر گراں لگتی تھی- آپ ؒ صبح سحر کو وضو تازہ فرماتے ، تہجد کی نماز ادا فرماکر وظائف پڑھتےاور نماز فجر کی آمد تک اس میں منہمک رہتے- صبح کی نماز کی ادائیگی کے بعد تصور اسم اللہ ذات میں مشغول رہتے، چائے نوش فرمانا بھی صبح کے معمول میں شامل تھا-آپ ؒ پیدل سیر کو پسند فرماتے- اوقات کی قدر دانی کے ساتھ دینی (نماز باجماعت، روزہ، تراویح وغیرہ ) کے معمولات کی بجا آوری کسی کرامت سے کم نہیں-ایک عام قاری بھی ان واقعات سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ جن کی ولادت بشارتِ رسول (ﷺ) ہو، پیدائشی ناف بریدہ ہوں، پہلی نگاہ مرشد اکمل کے چہرہ ٔانورپہ پڑے اور جن کو بچپن میں ہی امانتِ فقر عطاکردی جائے اس کے مقام ومرتبے کا اندازہ کون لگاسکتاہے ؟

آپ ؒ کی زندگی مبارک جہدِمسلسل سے عبارت ہے آپ ؒ کی شبانہ روز کاوشوں کےعینی شاھد لوگ اس وقت بھی موجود ہیں-سلسلہ قادریہ کے اس نیرتاباں اور ماہتابِ ذیشان کا وصال مبارک معمولی علالت کے بعد 13 اپریل 1982ء  (7 جمادی الثانی 1401ھ) کو میو ہسپتال لاہور میں حالتِ نماز ہی میں ہوا-آپ ؒ کا مزار مبارک حضرت سلطان العارفین سخی سلطان حق باھُو ؒکے دربارپرانوار سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے مرجع خلائق ہے- سالانہ میلادِ مصطفے ٰ (ﷺ) 12 ،13 اپریل آپ ؒ کے وصال مبارک کی مناسبت سے انعقاد پذیر ہوتا ہے -

چونکہ ہردور میں ایسی ہستی کامل موجود رہتی ہے جس کا سینہ مبارک فقرِ محمدی (ﷺ) سے معطر و منور ہوتا ہے- الحمد للہ آج وہ ہستی پاک جانشین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین، سجادہ نشین دربار عالیہ سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز صاحب ؒکی صورت میں ہمارے درمیان جلوہ فرما ہے اور اپنی نگاہ ِ ناز سے ہرخاص و عام کو مئے عشق سے سیراب فرما رہے ہیں-

اللہ پاک گلشن عزیزیہ کو تاقیامت سرسبزوشاداب رکھے اور ہم سب کو اس کی خوشبو سے اپنے قلوب و اذہان کو معطر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے -

آن عقل کجا کہ در کمالِ تو رسد
داں روح کجا کہ در جلالِ تو رسد
گیرم کہ تو پردہ بر گرفتی ز جمال
آن دیدہ کجا کہ در جمالِ تو رسد[12]

’’وہ عقل کہاں جو تیرے کمال تک پہنچ سکے اور وہ روح کہاں جس کی رسائی تیرے جلال تک ہو،میں نے ماناکہ تُونےاپنے جمال سے پردہ ہٹادیاہے، مگر وہ آنکھ کہاں جس کی پہنچ تیرے جمال تک ہو‘‘-

٭٭٭


[1](تفسیرالبیضاوی،زیرآیت:النحل:120)

[2](النحل:120)

[3](ماہنامہ مرآۃالعارفین:اپریل،2015،ص:12)

[4]( ماہنامہ مرآۃ العارفین،2015،ص:6،7)

[5](الشعراء:3)

[6](المزمل:3)

[7](المزمل:7)

[8](ماہنامہ مرآۃالعارفین:اپریل،2015،ص:8)

[9](ایضاً)

[10](مفتاح اللقاء)

[11]( ماہنامہ مرآۃ العارفین،اپریل ،2013،ص:37،38)

[12]( فوائدالفواد،بائیسویں مجلس)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر