ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

سُن فریاد پِیراں دیا پِیرا میری عرض سُنیں کَن دَھر کے ھو
بَیڑا اَڑیا میرا وچ کَپراندے جِتھے مَچھ نہ بَہنْدے ڈر کے ھو
شاہِ جیلانی مَحبوب سُبحانی میری خبر لَیو جھَٹ کر کے ھو
پِیر جِنہاندے مِیراں باھوؒ اوہی کدھی لگدے تر کے ھو

Listen to my plea O Sheikh of the Sheikhs my plea carefully heed Hoo

My ship struck in such whirlpool where alligators dare go indeed Hoo

O king of Gillan! O beloved of Glorious! heed my plea swiftly for sure Hoo

Whose Sheikh is Gillani ‘Bahoo’ he will swim to seashore Hoo  

Sun faryad peera’N diya peera meri arz sunee kan dhar kay Hoo

BeRaa aRya mera wich kapra’N day jithay mach nah banhday Dar kay Hoo

Shah e Jilani mehboob subhani meri khabar layo jhaT kar kay Hoo

Peer jinha’N day Meera’N Bahoo oohi kadhi lagday tar kay Hoo

تشریح :

پیرِ من محی بود آں نیک نام

 

ہم عجم ہم عرب وہندی شد غلام[1]

’’میرے پیر محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی قدس اللہ سرّہٗ ہیں جو بہت نیک نام ہیں اور عربی و عجمی وہندی سب اُن کے غلام ہیں‘‘ -

مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کے محبین ومقربین کو یاد کرنا صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)کی سنت ہے جیساکہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)جنگوں میں یہ نعرہ لگاتے ’’یامحمداہ ‘‘(ﷺ)! [2]-حضرت سلطان باھُو ؒنے   ابیات کی طرح اپنی تعلیمات میں مختلف مقامات پہ سیدناشیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ)کی بارگاہ ِ اقدس میں مناجات کی ہیں جیساکہ آپ نے ایک مقام پہ ارشادفرمایا:

’’(اے شاہِ جیلان(رضی اللہ عنہ)! آپ کی دستگیری و د ل پذیری میری جائے پناہ ہے، براہ ِلطف و کرم مجھے گردابِ ِپریشانی سے رہائی دلا دیں ، میرا جگر زخمی ہے، اندرون خستہ حال ہے،دل آ پ کے لطف و کرم کا منتظر ہے، اِنتہائی احسان فرما کر میرا علاج فرمائیں اور دوا دیں-آپ کے مجھ جیسےہزاروں غلام دنیا میں موجودہیں لیکن میرے لئے آپ کے آستان کے سوا ا ور کوئی جائے پناہ نہیں، آپ کی مرضی ہے کہ پناہ دے دیں یا دھتکار دیں میرے پاس درد و غم و شدت کے سوا کچھ بھی نہیں، مجھے سینکڑوں قسم کی پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے براہ ِکرم مجھے اِن مصائب سے نجات دلا دیں  - مَیں آپ کے در کا سوالی ہوں، آپ کے سوا میری دستگیری کرنے والا کوئی غم خوار نہیں ہے، مجھ پر نگاہِ رحمت فرمائیں کہ آپ مختارِ سبحانی ہیں- یہ عاجز بندہ آپ کے کوچہ میں آن گرا ہے، عجب نہیں کہ اِس ذرے کو خورشید بنا دیا جائے‘‘ -[3]

بلاشبہ سیدنا الشیخ عبدالقادرجیلانی(رضی اللہ عنہ)کی ذاتِ اقدس روحانیت کے اس مقام پہ فائز ہے جس کے بارے میں صرف کوئی سوچ ہی سکتاہے جیساکہ آپؒ نے خود اپنے بارے میں ارشادفرمایا : ’’ میرا یہ قدم کل اؤلیاء اللہ کی گردنوں پر ہے‘‘-[4] سلطان العارفینؒ نےجس انداز میں آپؒ کی باگاہِ اقدس میں مناجات کی ہیں اورجس طریق سے آپؒ کی شان بیان فرمائی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے-آپؒ کی شان میں مرقوم مختلف اقتباسات میں سے صرف  پانچ اقتباسات  پہ اکتفاکرنے کی سعادت حاصل کروں  گا-

’’حضرت پیر دستگیر (رضی اللہ عنہ) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چار یاروں کے دوست،اہل ِسنت وجماعت اور نائب ِمحمد رسول اللہ (ﷺ) ہیں اور ظاہر باطن میں ایسے طاعت گزار ہیں کہ ایک لمحہ کے لئے بھی بندگی ٔخدا سے فارغ نہیں ہوتے‘‘-[5]

’’( اے غوث ِربانی !) کیسی عالیشان سُلطانی ہے آپ کی-حقیقت آپ سے روشن ہوئی، طریقت آپ سے گلشن بنی،آپ آسمانِ شریعت کے چاند اور نورانی خورشید ہیں، گلشن ِصوفیا کے سرو ہیں، بزمِ مصطفےٰ (ﷺ)کی شمع ہیں، حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے محبوب ہیں-اے دل!  تُو اُن کا مرید ہو جا تا کہ تجھ پر اُن کا لطف و کرم مزید بڑھے اور تُودیکھے کہ وہ کتنے اوصافِ حمیدہ کے مالک ہیں-پہلے اپنی زبان کو آب ِکوثر سے دھو کر پاک کر لے اور پھر محی الدین قدس سرّہ العزیزکا نام لے‘‘- [6]

’’میرے پیر شاہ محی الدین دنیا و آخرت دونوں جہان میں زندہ جان ہیں - وہ میری جان ہیں بلکہ نزدیک از جان ہیں  جو مرید اپنے پیر کو اپنی جان سے عزیز تر و قریب تر نہیں جانتا اُسے مرید نہیں کہا جا سکتا‘‘- [7]

’’تُو جان لے کہ جب کوئی اُن کی زندگی میں حضرت شاہ محی الدین کا نام وضو کے بغیر زبان پر لاتا تواُس کا سر گردن سے اُڑ جاتا تھا، یہ ایک آزمائش تھی کیونکہ آپ سر سے قدم تک انوارِ قربِ الٰہی میں ڈوبے ہوئے تھے اور ابتداء سے انتہاء تک فقر کا بارِگرانی اُٹھائے ہوئے تھے‘‘-[8]

باھُوا سگِ درگاہِ میراں فخر تر

 

غوث و قطب زیرِ مرکب بار بر؎

’’اے باھُو! درگاہِ میراںؒ کا کتا ہونا بھی بڑے فخر کی بات ہے کہ زمانے بھر کے غوث و قطب حضرت میراںؒ کی سواری بننے پر فخرمحسوس کرتے ہیں‘‘ -[9]

4:اس بیت مبارک کے آخر میں آپؒ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک  آپؒ کےمرید کودونوں جہانوں میں سرخرو فرماتا ہے ،اس  کا اظہار آپ (قدس اللہ سرّہٗ)  نے اپنی تعلیمات میں بھی فرمایا ہے جیساکہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’اے باھُو! شاہ ِجیلانؒ  کا نام لینے والے شخص کو بھلا آتش ِ دوزخ اورضررِ شیطان کا کیا خوف؟‘‘[10]   ’’اسی چیز کا اظہار  حضور شہنشاہ ِ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی زبان اقدس سے  فرماتے ہوئے ارشادفرمایا :’’ میرا مرید نہیں مرے گا مگر کامل ایمان کے ساتھ‘‘-[11] اس کی وجہ بیان  کرتے ہوئے سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں :کیونکہ مرتے وقت اللہ تعالیٰ کی توفیق اور حضرت شاہ محی الدین قدس سرہ العزیز کی رفاقت سے بے شک اُس کی زبان پر کلمہ طیب  ’’  لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ جاری ہو جاتاہے‘‘-[12]


[1](نور الھدیٰ)

[2](روح البیان زیرآیت: القمر:55)

[3]( کلیدالتوحید(کلاں)

[4]( نورالھدٰی)

[5]( کلیدالتوحید(کلاں)

[6](ایضاً)

[7]( محک الفقر(کلاں)

[8](نور الھدیٰ)

[9]( کلیدالتوحید(کلاں)

[10](ایضاً)

[11](نور الھدیٰ)

[12](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر