کلمہ طیب : تعلیمات صوفیا کی روشنی میں (قسط۳)

کلمہ طیب : تعلیمات صوفیا کی روشنی میں (قسط۳)

کلمہ طیب : تعلیمات صوفیا کی روشنی میں (قسط۳)

مصنف: لئیق احمد فروری 2022

’’جان لے کہ تمام مخلوق اور توحید کی کوئی چیز بھی آیات قرآن سے باہر نہیں نہ بحروبر کی کوئی چیز اور نہ خشکی و تری کی کوئی چیز-فرمانِ حق تعالیٰ ہے:’’اللہ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں،اس کے سوال کوئی نہیں جانتا جو کچھ خشکی میں ہے اور جو کچھ تری میں ہے-جب کوئی پتا گرتا ہے تو وہ اسے بھی جانتا ہے اور زمین کے اندر تاریکی میں پڑا ہوا دانہ بھی اس کے علم میں ہے اور خشکی اور تری کی ہر چیز کتاب مبین میں درج ہے- اللہ تعالیٰ کے حکم سے قرآن مجید کی ہر آیت میں کامل حکمت و معرفت و جمعیت و عنایت و ولایت پائی جاتی ہے لیکن اس تک رسائی کسی کامل عارف باللہ ہی کو نصیب ہوتی ہے ایک بے معرفت و ناقص و خام آدمی آیات قرآن کی ان نعمتوں سے بے خبر ہی رہتا ہے-فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ’’اور رسول اللہ (ﷺ) ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھتے ہیں انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کا علم سکھاتے ہیں اور بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے-آیات قرآن کے ان تمام مراتب تمام احوال اور تمام ارکان ایمان کا تعلق ایک تو کلہ طیب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے صحیح زبان اقرار سے ہے اور دوسرے ذکر و تسبیح کے ذریعے تصدیق قلب سے ہے‘‘-[1]

’’اگر توکلمہ طيب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کو ترتیب سے پڑھے تو تیری نظر میں وہ برکت آئے گی کہ اگر تو پتھر یادیوار یا خاک پرتوجہ کرے گا تو وہ سونا چاندی بن جائیں گے‘‘-[2]

’’حاضراتِ تصوّر کلمہ طیّب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘سے ذکر پاکئ عبہر کھلتا ہے جو طالب الله کو دونوں جہان کی خوش بختی عطا کر کے ہر مطلب بہم پہنچاتا ہے‘‘-[3]

کلید کلمہ طیبہ :

صوفیاء کرام کے ہاں کلمہ طیبہ کی کلید کو وضاحت سے یوں بیان کیا جاتا ہے:

’’مرشدِ کامل صاحبِ ذوق طالب اللہ کو شروع ہی میں مشاہدۂ دل کے مرتبے پر پہنچا دیتا ہے اور مرشدِ ناقص اُسے رات دن چلہ و ریاضت میں مشغول رکھتا ہے-یہ مرشدِ کامل ہی کی شان ہے کہ وہ تصّورِ اسم اللہ ذات سے میدانِ دل کھول کر طالب اللہ کو دکھا دیتا ہے-ایسی فتوحات کی چابی کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ہے‘‘-[4]

 آپؒ کے مطابق یہ علم دیدار کا درجہ بھی ہے -فرمان مبارک ہے:

’’یہ کلید علم دیدار ہے-جو حاضرات اسم اللہ ذات اور کلمہ طیب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ سے نصیب ہوتا ہے-ہر علم علوم کے دقیق اور حقیقی نکات سات قسم کی آیات قرآنی سے معلوم ہوسکتے ہیں-وہ آیات وعدہ وعید امر بالمعروف،نہی عن المنکر،قصص الانبیاء اور ناسخ و منسوخ ہیں-یہ رسالہ (دیدار بخش خورد) قرآن مجید کی (گویا تفسیر ہے جو کوئی قرآن مجید کا منکر ہے-وہ شیطان ملعون ہے‘‘-[5]

’’جمعیت جمالیت کی راہ کرم و اخلاص و توفیق و رفاقت و برکتِ مجلس محمدی (ﷺ) اور حاضراتِ تصورِ اسم الله ذات اور نص و حدیث واسمِ اعظم و آیاتِ قرآن کی برکت اور کلمہ طیّب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی چابی سے دل کا قفل کھل جانے پر کھلتی ہےاور بے شک یہی راہ صراط مستقیم ہے‘‘-[6]

’’رحمتِ الٰہی کے باعث ان میں سے ہر مرتبہ نگاہِ الٰہی میں منظور ہے اس لئے ان مراتب کا فقیر مجلس محمدی (ﷺ) میں ہر وقت حاضر رہتا ہے-یہ تمام مراتب حاضرات تصور اسم الله ذات، اسم اعظم، برکت و خاصیت نص و حدیث، تلاوتِ آیاتِ قرآن اور کلیدکلمہ طیبات’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘سے حاصل ہوتے ہے کیونکہ جب کلید کلمہ طیبات’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ سے دل کا قفل کھلتا ہے تو بے شک ذات و صفات کے تمام مقامات منکشف ہو جاتے ہیں ‘‘-[7]

’’بے شک یہ تمام مراتب حاضرات تصور اسم اللہ ذات ، تصور اسم محمد سرور کائنات (ﷺ) اور کلیدِ کلمہ طیبات ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘سے کھلتے ہیں جو کوئی اس میں شک کرے وہ ملعون و زندیق ہے ‘‘-[8]

کلمہ طیبہ اور خرطوم نفس و شیطان سے نجات:

انسان کی حقیقی سعادت یہی ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کرے اور خود کو شیطان کے وار سے بچاؤ کے لیے کلمہ طیبہ کو ڈھال بنا لے-صوفیاء کاملین نے ہمیشہ نفس کی اصلاح کی تعلیم اور شیطان سے بچنے کی تلقین کی- آپؒ فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھیے کہ حضور نبی کریم (ﷺ)کو الله تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لئے پیدا فرمایا-شیطانِ لعین کی کیا مجال کہ وہ خود کو ہادی کہلوائے؟شیطان تو اسم اللہ ذات،اسم محمد (ﷺ) ،کلمہ طیّب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘تلاوتِ قرآن، بیانِ مسائلِ فقہ، تفسیر قرآن، رحمتِ الٰہی کہ نگاہِ عارفاں اور ذکر لاحول سے اِس طرح دُور بھاگتا ہے جس طرح کافر دین اسلام سے‘‘-[9]

’’نفس کیا چیز ہے اور اس کے خصائل کیا ہیں؟ نفس ایک سانپ کی طرح ہے اور وہ کفار کی خصلت رکھتا ہے (لہٰذا اس کو پکڑنے کے لئے ) پہلے جادو اور منتر سیکھنا چاہیے- اس کے بعد اس پر ہاتھ ڈالنا چاہیے تاکہ وہ قید میں آئے اور اس کو زیر کیا جائے - چنانچہ لوگوں نے سانپ سے پوچھا کہ تُو (افسون پڑھنے سے) اپنے سوراخ سے باہر کیوں آ جاتا ہے؟ سانپ نے کہا جو شخص میرے دروازے (سوراخ ) پر آکر اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو میں خدا کے نام پر اپنے سر کو اس پر قربان کرتا ہوں - نفس کی مثال بھی سانپ کی ہے اور آدمی کا وجود مثل سوراخ کے ہے اور اسم اللہ کا ذکر اس کیلیے افسون ہے اور نفس کی خصلت کفار جیسی ہے اور نفس کافر ہے اور یہ مسلمان نہیں ہوتا- مگر شریعت اور کلمہ طیب سے اور وہ یہ ہے:’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘(ﷺ)اسلام حق ہے اور کفر باطل ہے‘‘-[10]

’’نور کا ذکر آگ سے بھی زیادہ سخت ہے جو سرد نہیں ہوتا اور شیطان اس سے جل جاتا ہے اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی برکت سے بھاگ جاتا ہے اور یہ بھی فضل الٰہی سے اور مرشد کامل کی عطا سے ہمیشہ ہوتا ہے‘‘-[11]

’’شیطان تین قسم کے آدمیوں کے وجود میں داخل نہیں ہوسکتا-(1)اُس شخص کے وجود میں جو نورِ ایمان کی صورت میں تصدیق دل کے ساتھ کلمہ طیب پڑھتا ہے اور زبان سے’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کا ورد کرتا ہے کیونکہ کلمہ طیب کے نور کی آگ سے شیطان جل جاتاہے اِس لئے وہ دور بھاگتا ہے-(2)اُس شخص کے وجود میں جس کے دل پر تصورِ اسم اللہ ذات موجود ہے-(3)اُس شخص کے وجود میں جو ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِّیِ الْعَظِیْم‘‘کا ورد کرتا ہے‘‘-[12]

’’ابیات:(1) ’’ لوگوں کی جان اور نجات لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ہے اور کلیدِ باغ و بہارِ جنت لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ ہے- (2) جو شخص لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ کا ورد کرتا ہے شیطان لعین اور آتش دوزخ کا کیا خطرہ؟ (3)اس وقت بھی دورامان لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ تھا کہ جب ملائکہ تھے نا یہ عالم تھا اور نہ یہ نیلا آسمان تھا ‘‘-[13]

’’اے طالب صادق! تو جان لے کہ واقعی یہ مجلس محمدی (ﷺ) ہے کیونکہ کلمۂ طیب اور ذکر الٰہی کی آواز سے شیطان اور اس کے ہم مجلس اس طرح بھاگتے ہیں، جس طرح کافر کلمہ سے‘‘- [14]

’’کلمہ طیبات’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘اور تصور اسم اللہ ذات کی تاثیر نفس کو اس طرح کھا جاتی ہے جس طرح کے آگ لکڑی کو‘‘-[15]

’’جان لے کے اگر کوئی شخص خواب یا مراقبے کی حالت میں تجھے نیکی یا برائی کا حکم دے یا دینی و دنیوی مہمات سر کرنے کی اجازت دے یا اس سے منع کرے اور اس وقت وہ اپنی زبان سے کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘پڑھے یا درود شریف پڑھے یا لا حول ولا قوۃ اللہ باللہ العلی العظیم پڑھے یا فاتحہ پڑھے تو بیشک وہ انبیاء و اصحاب و کبار و مجتہدین و اولیاء و فقرأ و درویشان باطن صفا کی ارواح میں سے ہے لیکن اگر وہ ان صفات سے متصف نہیں تو بیشک وہ جن ہے یا شیطان‘‘-[16]

خزائن معرفت:

حضور سلطان العارفینؒ خزائن معرفت کو نہایت عمدہ انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:

’’جس عارف باللہ کو معرفت الٰہی حاصل ہو، اس کے سات مراتب ہیں:

اوّل: لَا اِلٰہَ کی نفی-

دوسرا: اِلَّا اللہ کا اثبات-

تیسرا: مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہِ (ﷺ) کو باتصدیق پڑھنا-

چوتھا: قرآنی آیات کا پڑھنا-

پانچواں: ورد وظائف اور دعائے سیفی کا پڑھنا-

چھٹا: اسم اللہ اعظم معظّم و مکرّم باری تعالیٰ اسماء الحسنیٰ کا پڑھنا-

ساتواں: اسم اللہ ذات کی وحدانیت میں غرق ہونا-

یہ سات خزانے ہیں اور ہر ایک خزانے سے ستّر ستّر خزانے کھلتے ہیں‘‘- [17]

’’جان لے کہ دل گھر کی مثل ہے، ایک نوری گھر جو ہمیشہ نگاہ الٰہی میں منظور رہتا ہے دل کے اس گھر میں نور معرفت کے سات خزانے بھرے ہوئے ہیں، ایک خزانہ ایمان ہے، دوسرا خزانہ علم ہے، تیسرا خزانہ تصدیق ہے، چوتھا خزانہ توفیق ہے، پانچواں خزانہ محبت ہے، چھٹا خزانہ فقر ہے اور ساتواں خزانہ معرفت تو حید الٰہی ہے- ان خزائن کی حفاظت کے لئے خانہ دل کے اردگرد سات قلعے ہیں جن میں نور الٰہی کےستر لشکر تعینات ہیں جو ہر امر پر غالب ہیں- اطراف دل کے ان سات قلعوں کو اگر سات دن آراستہ رکھا جائے تو زندگی و موت کی ہر حالت میں لشکر خطرات شیطانی، وہمات ہوائے نفسانی اور حادثات وسوسہ دنیائے پریشانی سے نجات مل جاتی ہے اور بندہ دنیا و آخرت میں اللہ کی امان میں آجاتا ہے- یہ مراتب ہیں اہل مشاہدۂ اہل حضور عارف باللہ فنافی اللہ فقیر کے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قلعے سات تصور ہیں جنہیں ایک ہفتے تک کیا جاتا ہے،پہلا قلعہ تصور اسم اللہ ہے- دُوسرا تصور اسم للّہ ہے-تیسرا قلعہ تصور اسم لہ ہے، چوتھا قلعہ تصور اسم ھو ہے، پانچواں قلعہ تصور اسم محمد (ﷺ) ہے- چھٹا قلعہ تصور کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ہے اور ساتواں قلعہ تصور اسم فقر ہے-

مرشد کامل کو چا ہے کہ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی چابی سے طالب کے وجود سے خزائن اللہ کو کھول کر تمام لعل و جواہر دکھادے یا پھر طلسم کدۂ وجود میں نفس کے شیر و سانپ کو تصور اسم اللہ ذات کی آگ سے جلا ڈالے اورطالب کے وجودسے تمام خزائن اللہ نکال لائے‘‘- [18]

تصفیہ باطن بذریعہ کلمہ طیبہ

’’اگرچہ مردہ دل آدمی توریت و انجیل و زبور اور قرآنی تفسیر کا علم پڑھتا رہے اس کا دل زندہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی عمر برباد، روح پریشان اور نفس شاد رہتا ہے- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’ہر چیز کی صفائی کے لیے کوئی نہ کوئی چیز ہے اور دل کی صفائی کے لیے ذکر اللہ ہے:’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘-[19]

شریعت محمدی ()اور اسرار و برکات نور

ہر مراتب از شریعت یا فتم
پیشوائے خو د شریعت سا ختم

آپؒ کی تعلیمات شریعت مطہرہ کی پابندی اور احکام شریعت کی پاسداری کی تاکید کرتی ہے اور اسی کی برکت سے مشاہدات و تجلیات سے مزید مقامات و مراتب تک رسائی فراہم کرتی ہے-اس طرح نفوس انسانیہ اپنی استعداد وفیضان کے لحاظ سے مختلف مراتب اور درجات پر ہوتے ہیں -

’’جو کوئی اللہ تعالیٰ کو خواب یا مراقبے میں دیکھ لیتا ہے وہ مجذوب ہوجاتا ہے یا بیدار و ہوشیار ہو کر توحید ربوبیت کے نور کا مشاہدہ کرتا ہے جس سے اس کے وجود میں اتنی تپش پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ جل کر مرجاتا ہے یا پھر اس کی زبان پر مہر سکوت لگ جاتی ہے اور وہ خاموشی اختیار کر لیتا ہے یا پھر رات دن سجدہ ریز رہتا ہے،لباسِ شریعت میں ملبوس ہو کر احکامِ شریعت کی پابندی میں کوشاں رہتا ہے اور اس صورت بے مثل کو کسی صورت کی مثل قرار نہیں دیتا- ایسے واصل باللہ عارف کو دورانِ رویت و مشاہدہ حضوری اس قدر نعمتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے جو کسی کے وہم و گمان میں نہیں آسکتی- یہ مراتب بھی حاضراتِ اسم اللہ ذات اور کلیدِ کلمہ طیبات’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ سے حاصل ہوتے ہیں‘‘-[20]

’’جان لے کہ جب قلب و روح کو زندگی حاصل ہوجاتی ہے اور نفس مرجاتا ہے تو جسم یہاں ہوتا ہے اور جان لامکان میں ہوتی ہے جہاں اسرارِ نورِ وحدانیت کا مشاہدہ اور حضوری قدرتِ سبحان کا استغراق حاصل رہتا ہے-مراتبِ عظمیٰ و سعادتِ کبریٰ کی یہ عطا پہلے ہی روز حاضراتِ اسم اللہ ذات و برکتِ شریعت اور اسم اعظم و نص و حدیث اور آیاتِ قرآن و کلیدِ کلمۂ طیبات’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘سے کھل جاتی ہے- تحقیق کی رو سے طریقت یہی ہے جو اس میں شک کرے وہ منافق و زندیق ہے‘‘-[21]

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’جب فقر کامل ہو جائے تو اللہ ہی اللہ ہوتا ہے‘‘- تجلیات نور الٰہی کی یہ تمام عین بعین حق نما و برحق مراتب کلمات طیبات’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی چابی سے کھلتے ہیں، جو کوئی اس میں شک کرے وہ کافر و زندیق ہے بلکہ کلمہ طیبات اور حاضرات اسم اللہ ذات سے تو ’’وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْـمَآءَ كُلَّهَا‘‘ کا علم ’’عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ‘‘کا علم اور ’’عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ‘‘ کا علم منکشف ہوتا ہے جسے ذاکر کا وجود شرک و بدعت و گمراہی سے پاک ہوجاتا ہے اور وہ لباسِ شریعت پہن کر امربالمعروف کی اشاعت اور دریائے معرفت نوش کرتا ہے‘‘-[22]

’’صلحِ کل تو دونوں جہان کے اٹھارہ ہزار عالم کی چابی ہے اور وہ چابی کلمہ طیب’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ہے- آیات قرآن و احادیث کے عین مطابق حاضرات اسم اللہ ذات کی مدد سے کلمہ طیب کی یہ چابی جب کسی کے ہاتھ میں آتی ہے تو شریعت محمدی (ﷺ) کی برکت سے دونوں جہان اس کے اختیار میں آ جاتے ہیں کیونکہ صلحِ کل رفیقِ الٰہی، غرق فنا فی اللہ اور صاحبِ توفیق ہوتا ہے - یہ اہل بدعت زندیق لوگ صلحِ کل نہیں ہوتے‘‘- [23]

فلسفہ لا سے الا اللہ :

صوفیاء کرام نے مخلوق خدا کو ’لا‘ کے مقام سے ’الا‘ کی منزلِ تعمیر کی جانب راستہ دکھایا اور نفی اور جمود سے اثبات اور حرکت کی جانب گامزن کیا-

حضور سلطان العارفینؒ فرماتے ہیں کہ:

’’لَآ‘کی صورت دو دھاری تلوار کی سی ہے جونفس کو قتل کر دیتی ہے - لَآ نفس کی نفی کر کے اسے نیست و نابود کر دیتا ہے سب سے پہلے لَآ سے نفس کی مطلق نفی ہو جاتی ہے اور وہ اِلٰهَ تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر اِلَّااللّٰہُ کی معرفت کھل جاتی ہے اور اِلَّااللّٰہُ اس پر ثابت ہو جاتا ہے- جب اِلَّااللّٰہُ کا اثبات اس پر ثابت ہو جاتا ہے اور وہ اثبات میں آجاتا ہے تو مُحَمَّدُرَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار اسے جمعیت ایمان بخش دیتا ہے اور روح ایمان سے متفق ہوکر اسے اپنا رفیق بنا لیتی ہے- نفس کی موت تصدیق سے ہے- جس سے تصدیق حاصل نہیں وہ منافق ہے - مسلمان ہونے کی شرط زبان سے کلمہ طیبہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰهِ کا اقرار ہے -جو آدمی زبان سے کلمہ طیبہ کا اقرار نہیں کرتا وہ کافر ہے ‘‘-[24]

’’شرک و کفر و زندقہ سے نجات کا ذریعہ یہ ہے کہ تحقیق و تصدیق کامل کے ساتھ کلمہ طیب لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰهِ کا اقرار کیا جائے - جان لے کے کلمہ طیب کے شروع میں لَآ اس لیے رکھا گیا ہے کہ لَآ کی صورت قینچی کی سی ہے اور لَآکی یہ قینچی گناہوں کو اس طرح کاٹتی ہے جس طرح کے لوہے کی قینچی کپڑے کو‘‘- [25]

کلمہ طیبہ اور مشاہدات و تجلیات الٰہی

’’پس معلوم ہوا کہ اگر کامل فقیر سو جائے تو خواب میں بھی نور ذات کے مشاہدہ میں بے حجاب مستغرق رہے اگر بیدار ہوگا، تو بھی فانی النفس اور باقی الرّوح ہوکر دیدار کی طرف متوجّہ ہوگا اور جب کلمۂ طیّبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلَ اللہِ (ﷺ)کے ذکر سے لقا و دیدار سے مشرّف ہوگا اور جب آیات قرآنی اور احادیث شریفہ کی تلاوت کرے گا تو مشاہدات ذات میں حضوری دیدار باشعور دیکھے گا اور دیدار کے مراتب اُسے معلوم ہوں گے جن کی مثال بیان نہیں ہوسکتی‘‘- [26]

’’جو کوئی فقر کے اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اس پر کلمہ طيب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کے چوبیس حروف سے چوبیس ہزارتجلیات نازل ہوتی ہیں جن کا تعلق سر میں مغز و دماغ میں ہوتا ہے - دفتر فقر میں ایسے فقیر کو مالک الملکی فقیر کہتے ہیں‘‘-[27]

’’جان لے کہ تصّورِ اسمِ اللہ ذات سے قلب جب جنبش میں آتا ہے اورصاحب قلب اپنےدل پر اسمِ اللہ ذات کو واضح طور پر لکھا ہوا دیکھتا ہے تو اسمِ اللہ ذات کے ہر ایک حرف سے نورِ آفتاب کی طرح روشن نور کا شعلہ اُبھرتا ہے جو اطرافِ دل کو منور کر دیتا ہے اور قلب سر سے قدم تک تجلیاتِ نورِ ذات سے جگمگا اُٹھتا ہے اور زبانِ قلب پر یَا اَللّٰهُ، یاَ اَللّٰهُ، لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِکا ورد جاری ہو جاتا ہے‘‘-[28]

کلمہ پاک اور اسم اعظم :

حضرت سلطان باھو (قدس سرہ العزیز) کی تعلیمات میں ظاہر اور باطن کی پاکیزگی کیلئے جتنے اوراد وظائف ملتےہیں ان میں سب سے زیادہ اسم اعظم اور کلمہ پاک لاالہ اللہ محمد رسول اللہ(ﷺ) کا تذکرہ موجود ہے- کلمہ پاک میں اسم اعظم موجود ہے اور اسی متعلق آپؒ فرماتے ہیں:

’’اسم اعظم اور جملہ انسانی علوم ایک ہی اسم میں آجاتے ہیں اور ایک ہی اسم سے نکلتے ہیں-وہ ایک اسم ہے اسم اللہ ذات کہ کلمہ طیّب کا شرف اسم اعظم ’’اللہُ‘‘، ’’للہِ‘‘، ’’لہٗ‘‘، ’’ھو‘‘سے ہے-[29]

اسم اعظم کی برکت سے کلمہ پاک تمام علوم کا منبع ہے- حضرت سلطان باھوؒ اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’ظاہر و باطن کے تمام علوم کل و جز کے تمام علوم، توریت، انجیل، زبور اورقر آن کے تمام علوم، احادیث نبوی و قدسی کے تمام علوم معرفت و اسرار الٰہی کے تمام علوم، مشاہدۂ طبقات و اٹھارہ ہزار عالم کی طیر سیر کے تمام علوم اور چھوٹے بڑے تمام سفلی و علوی علوم کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی تہہ میں پائے جاتے ہیں-[30]

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’جان لے کہ چاروں کتابیں توریت،انجیل، زبور اور فرقانِ حمید کل مخلوقاتِ جن و اِنس و فرشتہ اور جملہ طبقاتِ ذات و صفات اسمِ الله ذات اور کلمہ طیباتّ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ‘‘کی تہہ میں ہیں‘‘-[31]

مومن کی نشانی:

جب بندہ زبان سے کلمہ پاک کا اقرار کر لیتا ہے تو وہ مسلمان ہوجاتا ہے پھر جب اس کا دل شہادت دیتا ہے اور وہ تصدیق ِ قلبی سے کلمہ پاک پڑھتا ہے تو وہ ایمان کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے- اس کے دل میں خشیت اور محبت آجاتی ہیں-آپؒ مومن کے دل کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’بیت:’’اے باھو! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہر مومن کے دل پر لکھا ہوا ہے اور محمد رسول اللہ ہر اہل بہشت کی زبان پر لکھا ہوا ہے-اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس‘‘-[32]

کلمہ پاک اور فقر:

حضور رسالتِ مآب (ﷺ) نے فقر کی دولت پر فخر فرمایا ہے اور اہل اللہ کے ہاں فقر سے مراد ذاتِ الٰہی لی جاتی ہے اور اللہ والوں کو فقیر کہہ کر پکارا جاتا ہے- حضرت سلطان صاحب نے کلمہ پاک کو فقر سے تشبیہ دیتے ہوئے اپنی تعلیمات میں ارشاد فرمایا:

’’فقر کی تین اقسام ہیں: اول فقر فنا لاالہ نفی- فقر بقا  الا اللہ اثبات- فقر منتہیٰ ہے اور وہ ہے محمد رسول اللہ (ﷺ) جو ہمارے رہنما ہیں-[33]

جاری ہے


[1](کلید التوحید کلاں،ص:536-537)

[2](کلید التوحید کلاں،ص:301-302)

[3]( کلید التوحید کلاں،ص:30-31)

[4]( شمس العارفین، باب دوم)

[5]( دیدارِ بخش خورد،ص:16-19)

[6](کلید التوحید کلاں:ص،102-103)

[7](کلید التوحید کلاں،ص:184-185)

[8](کلید التوحید کلاں ،ص: 426-427)

[9]( کلیدالتوحید کلاں،ص:96-97)

[10](عین الفقر،ص:128-129)

[11]( تیغ برہنہ، ص:42-43)

[12]( کلید التّوحید خورد،ص:67-70)

[13]( کلید التوحید کلاں،ص: 43-44)

[14]( مفتاح العارفین،ص:76-77)

[15](کلیدالتوحید کلاں، ص:138-139)

[16]( کلید التوحید کلاں ،ص: 384-387)

[17]( کلید جنت، ص:126-127)

[18]( کلید التوحید کلاں ،ص: 280-281)

[19](کلید التوحید کلاں،ص:462-463)

[20]( کلید التوحید کلاں،ص:456-459)

[21]( کلید التوحید کلاں،ص:136-137)

[22]( کلید التوحید کلاں ،ص: 414-415)

[23]( کلید التوحید کلاں ،ص: 418-419)

[24](کلید التوحید کلاں،ص:440-441)

[25](کلید توحید کلاں،ص: 438-439)

[26]( قربِ دیدار، ص: 42-43)

[27]( اسرار القادری، ص:118-119)

[28](شمس العارفین، باب دوم)

[29]( عقل بیدار،ص:192-193)

[30](محک الفقر کلاں،ص:482)

[31]( نورالہدیٰ:ص،340-341)

[32]( عین الفقر،ص:370)

[33](عین الفقر،ص: 162-163)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر