زراعت سے متعلق استعارے: ابیات باھوؒ کی روشنی میں

زراعت سے متعلق استعارے: ابیات باھوؒ کی روشنی میں

زراعت سے متعلق استعارے: ابیات باھوؒ کی روشنی میں

مصنف: وقار حسن جنوری 2022

ہم آج ٹیکنالوجی کے عہد میں زندگی بسر کر رہے ہیں-اس عہد میں دنیا پر ٹیکنالوجی کا راج ہے-روزمرہ زندگی سے لے کر ذرائع معاش تک ٹیکنالوجی ہماری ضرورت ہے-اس لیے آج ہمارے زبان و ادب اور روزمرہ میں عمومی طور پر ٹیکنالوجی سے متعلق استعارات،تشبیہات وغیرہ استعمال ہوتی ہیں-جس کی سادہ سی مثال ہے کہ آج ہم کسی ذہین فطین کو کمپیوٹر سے تشبیہ دیتے ہیں یا اس کیلئے کمپیوٹر کا استعارہ استعمال کرتے ہیں-اس طرح صنعتی دور میں بھی صنعت سے متعلق اور زرعی دور میں زراعت سے متعلق تشبیہات اور استعارات کا استعمال ہوتا آیا ہے-

لغت میں لفظ استعارہ کا لفظی مطلب ’’مانگ لینا‘‘، ’’ادھار لینا‘‘ کے ہیں-جبکہ اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ علمِ بیا ن کی اصطلاح میں مجاز کی ایک قسم جس میں کسی لفظ کے مجازی اور حقیقی معنی کے درمیان تشبیہ کا علاقہ ہواور بغیر حرف ِتشبیہ کے حقیقی معنی کو مجازی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے-آسان الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ کسی لفظ کے اصل معنی کی بجائے اس کے مجازی معنی لینا -جیسا کہ بہادر انسان کو شیر اور بزدل انسان کو گیدڑ کَہ کر پکارنا-صوفیائے کرام نےہر عہد میں اپنی تعلیمات کے ذریعے بنی نوع انسان کی راہنمائی کی ہے اور انسان اور رحمان کے تعلق کو مختلف طریقوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے-ان کے مطابق معرفت کے اسرار و رموز کے تشبیہات و استعارات دیکھنے کو ملتے ہیں-عارفانہ شاعری ہمیں ہر عارف کے ہاں استعارات کا استعمال ہوتا نظر آتا ہے-اس ضمن میں ڈاکٹر خالد سہیل لکھتے ہیں:

’’ہم جب عارفانہ شاعری کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ شاعر اپنے خیالات،نظریات اور تجربات کے اظہار کے لیے استعارے استعمال کرتے ہیں‘‘-(عارفانہ شاعری کے استعارے)

حضرت سلطان باھوؒ کا شمار بر صغیر پاک و ہند کے معروف صو فیاء میں ہوتا ہے - بالخصوص ان کے پنجابی ابیات کو جو شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے-انہوں نے اس عہد کی معروف زبانوں پنجابی اور فارسی میں کتب تحریر کیں-یہ ہر صوفی کا مشرب رہا ہے کہ وہ مخلوق خدا تک بات پہنچانے کے لیے ان کی زبان میں بات کرتا ہے-حضرت سلطان باھو ؒ کا تعلق کیونکہ زرعی معاشرے سے تھا، اس لیے ان کے پنجابی کلام میں زرعی معاشرے سے متعلق بے شمار استعارات و تشبیہات دیکھنے کو ملتی ہیں-اس تحریر میں ہم ان استعارات کو دیکھنے کی کو شش کریں گے جو سلطان العارفین نے اپنے ابیات میں استعمال کیے اور ان کا تعلق براہ راست زراعت اور زرعی معاشرے سے ہے-اس ضمن میں ان کا پہلا بیت ہی ایک خوبصورت استعارہ رکھتا ہے-آپؒ فرماتے ہیں:

الف اَللہ چَنْبے دِی بُوٹی میرے مَن وِچ مُرشد لَائی ھو

اس مصرعے میں ’’چنبے دی بوٹی‘‘ استعارہ ہے -چنبے کی بوٹی کا مطلب چنبلی کا پھول ہے- لیکن پنجابی زبان میں چنبا ہاتھ کو بھی کہتے ہیں-یہاں حضرت سلطان باھو ؒ کی مراد ’’اسم اللہ ذات‘‘ہےکہ اللہ تعالی کا اسم ذات’’اللہ‘‘ چنبیلی کے پھول کی مثل ہے جس کی خوشبو بے مثل ہے-اگر چنبہ سے مراد ہاتھ لیا جائے تو بھی اگر ہاتھ ہر غور کیا جائے تو ہاتھ بھی اسم ذات ’’اللہ‘‘کی شکل رکھتا ہے-

رَاہ فقر دا مشکل باھوؒ گھر ما نہ سیرا رِدّھا ھو

مندرجہ بالا مصرعے میں ’’سیرا ردھا‘‘استعارہ ہے-سیرا ایک قسم کا گندم کا حلوہ ہے جو پانی اور دودھ دونوں میں بنایا جا سکتا ہے اور بہت لذیذ ہوتا ہے-آپؒ فرماتے ہیں کہ فقر کا راستہ مشکل ترین ہے یہ ایسا نہیں کہ جیسے ماں کا پکایا ہو ا لذیذ حلوہ ہو-

جِنہاں تَرک دُنیاں دی کیتی باھوؒ لَیْسن باغ بہاراں ھو

اس مصرعہ میں ’’باغ بہاراں‘‘ بطور استعارہ ہے-عام معنی میں باغ بہاراں سے مراد عشرت ہے-لیکن یہاں استعاراتی انداز میں کہا گیا ہے کہ ان کو جنت القرب میں جگہ نصیب ہو گی-یعنی کہ تجلیّاتِ انوار نصیب ہو نگی جس نے اس دنیا کی لذتو ں کو ترک کیا ان کا دل انوار و تجلیات سے روشن ہو جائے گا-جیسا کہ ایک اور بیت میں فرماتے ہیں:

ایہہ تن ربّ سچیّ دا حُجرا دِل کھِڑیا باغ بَہاراں ھو

مندرجہ ذیل بیت زراعت کے استعاروں سے بھرا ہوا ہے-زرعی معاشرے میں ویرانی، جنگل، پانی اور دریاؤں کو خاص اہمیت حاصل ہے-

اوجھَڑ جھَل تے مَارو بَیلا جتھے جالن آئی ھو
جِس کَدھی نوں ڈَھاہ ہمیشہ اوہ ڈَھٹھی کل ڈھائی ھو
نَیں جنہاندی وَہے سِراندی اوہ سُکھ نہیں سوندے رَاہی ھو
رَیت تے پانی  جِتھے ہون  اِکٹھے باھوؒ اُتھے بنی نہیں بَجھدی کائی ھو

یہ پورا بیت انسان کے وجود سے متعلق ہے-جس میں انسان کی روح اور اس کے دشمنان دنیا،نفس اور شیطان کا تذکرہ ہے- پہلے مصرعے میں ’’اوجھڑ جھل تے مارو بیلا‘‘ استعارے ہیں -ان سے مراد یہ دنیا کی زندگی ہے جو انسانی روح کے لیے جنگل کی مثل ہے-یہاں وہ گزر اوقات کرنے آئی ہے- لیکن اس جنگل میں اسے ہر طرح کے خطرات کا سامنا ہے- دوسرے مصرعے میں ’’کدھی‘‘ اور ’’ڈھاہ‘‘ دونوں استعارے ہیں-’’کدھی‘‘ کنارے کو کہتے ہیں اور ’’ڈھاہ‘‘ گرنے کو کہتے ہیں-یعنی دریا، نہر یا کسی ندی کے کنارے کو پانی ڈھاہ لگاتاہےتو وہ گر جاتی ہے-اس طرح انسان کی زندگی ’’کدھی‘‘ کی مثل اور اس کو متواتر ڈھاہ لگی ہوئی ہے-یہ آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور ایک دن انسان کی یہ زندگی ختم ہو جائے گی-تیسرے مصرعہ میں ’’نیں‘‘ استعارہ ہے-’’نیں‘‘ کا مطلب ندی یا دریا کے ہیں-آپؒ فرماتے ہیں جن کے سرہانے دریا بہہ رہا ہو وہ کبھی بھی سکون کی نیند نہیں سوتے ان کو ہر وقت دریا کا خطرہ رہتا ہے-اس طرح انسان بھی زندگی میں پرسکوں نہیں ہونا چاہیے بلکہ محتاط رہے-کیونکہ جس طرح دریا نقصان پہنچاتے ہیں انسان کے دشمن نفس اور شیطان بھی اس کے ساتھ ہیں آخری مصرعہ بڑا دلچسپ اور عمیق مفہوم رکھتا ہے-اس مصرعہ میں ’’ریت تے پانی‘‘ اور ’’بنی‘‘ استعارے ہیں ’’بنی‘‘ بند کو کہتے ہیں اور ریت سے کبھی بند نہیں باندھا جا تا- آپؒ فرماتے ہیں کہ ریت اور پانی اگر اکٹھے ہوں گے تو کبھی بھی بند نہیں باندھا جا سکتا-یعنی دین اور دنیا دونوں کو نہیں رکھا جا سکتا بلکہ ان میں سے ایک کو چننا ضروری ہے-اگر دین کو رکھنا ہے تو پھر دل سے دنیا کی محبت ختم کرنی ہوگی-ان کو اس زندگی میں تینوں دشمنوں یعنی دنیا کی محبت،نفس امارہ اور شیطان سے خطرات کا سامنا ہے-ان سے بچنا ضروری ہے-جیسا کہ ایک جگہ فرماتے ہیں:

اوجھڑ جھل تے مارُو بیلے اِتھے دم دم خوف شیہاں دا ھو

مندرجہ ذیل بیت میں بھی خالص زرعی معاشرے سے متعلق استعارات کو استعمال کیا گیا ہے-

آپ نہ طالب ہَین کہیں دے لوکاں نوں طالب کردے ھو
چَانْون کھَیپاں کردے سیپاں اللہ دے قہر توں ناہیں ڈردے ھو

اس بیت کے دوسرے مصرعے میں ’’چاون کھیپاں‘‘ اور کردے ’’سیپاں‘‘ دونوں استعارے ہیں-’’کھیپاں‘‘ کا مطلب مقررہ معاوضہ لینا ہے اور سیپاں ’’سیپی‘‘ کی جمع ہے-’’سیپی‘‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو مخصوص معاوضے کی بنیاد پر کام کرے-زرعی معاشرے میں مختلف کام کرنے والے جن میں حجام،کمہار،بڑھئی اور لوہار وغیرہ کو ’’سیپی ‘‘کہا جاتا ہے-یہ لوگ مخصوص معاوضے پر زمیندار گھرانوں کے کام کرتے ہیں-یہاں سلطان العارفین نام نہاد جھوٹے پیروں کو مخاطب ہیں کہ وہ خود تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے طالب ہیں نہیں جبکہ لوگوں کو اللہ کی طلب کا درس دیتے ہیں-جبکہ ان کا کام سیپوں والا ہےکہ ان کے معاوضے قائم کر رکھے ہیں اور سالانہ یا ماہانہ کی بنیاد پر سادہ لوح لوگوں سے مال بٹورتے ہیں-

عِشق عقل وچ مَنزل بھاری سئے کوہاندے پَاڑے ھو

اس مصرعے میں ’’پاڑے‘‘ استعارہ ہے-پاڑے سے مراد فاصلہ ہے-زمین میں جب ہل چلایا جاتا ہےتو وہ ہل مکمل زمین میں چلایا جاتا ہے-اس میں کوئی حصہ خالی نہیں چھوڑا جاتا-اگر ہل کی ایک لائن اور دوسری لائن کے درمیان فاصلہ رہ جائے تو اسے ’’پاڑہ‘‘ کہتے ہیں-آپؒ فرما رہے ہیں کہ عشق اور عقل کی منزل الگ الگ ہے-ان دونوں میں سو سوکوس کے فاصلے ہیں-

پَنجے مَہر پَنجے پَٹواری حاصِل کِت وَل بھَرئیے ھو

’’مہر‘‘، ’’پٹواری‘‘ اور ’’حاصل‘‘ تینوں الفاظ خالص زرعی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں-مہر سردار کو کہتے ہیں-پٹواری جو زمینوں کے لین دین اور مالیات کے لیے سرکاری ملازم ہوتا ہے اسے کہتے ہیں-جبکہ ’’حاصل‘‘ وہ معاوضہ ہوتا ہے جو ہر 6 ماہ بعد یا سالانہ زمیندار ٹیکس کی صورت میں ادا کرتا ہے-آپؒ کی یہاں مراد پنج تن پاک کی ذاتِ قدسیہ ہیں کہ پانچوں ہستیاں ایک ہی ہیں ہم حاصل کہاں ادا کریں-جیساکہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

اوہ بے پَرواہ درگاہ ہے باھوؒ اوتھے رو رو حاصِل بھَرئیے ھو

ایک اور مصرعہ ملاحظہ ہو:

دَین   لَگیاں گَل گھوٹو آوی لَین  لَگیاں جھَٹ شیہاں ھو

اس مصرعہ میں ’’گل گھوٹو‘‘ استعارہ ہے- یہ ایک بیماری ہے جو جانوروں کو لگتی ہے اور مر جاتے ہیں-یہاں اس کو مجازی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے کہ کچھ بخیل لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو مال دیتے وقت گل گھوٹو جیسی بیماری لگ جاتی ہے اور مال لیتے وقت ان کی کیفیت شیروں کی سی ہوتی ہے-

جاگ بنا دُدھ جمدے ناہیں باھوؒ بھانویں لال ہونون کَڑھ کَڑھ کے ھو

اس مصرعہ میں ’’جاگ‘‘، ’’دودھ‘‘ اور ’’کڑھنا‘‘ استعارے ہیں-جن کا تعلق زرعی معاشرے سے ہے-دودھ سے دہی،مکھن ،لسی اور گھی نکالنے کے لیے جو عمل کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دودھ کو اُبالا جاتا ہے پھر اس کو اسی دودھ سے بنی لسی کی جاگ لگائی جاتی ہے-پھر وہ دودھ جم جاتا ہے-یعنی دہی کی صورت اختیار کر لیتا ہے- یہاں جاگ سے مراد ’’اسم اللہ ذات‘‘ ،دودھ سے مراد ’’وجودِ انسانی‘‘ اور کڑھنا سے مراد  ’’ظاہری عبادت ‘‘ ہے-آپؒ فرماتے ہیں کہ بغیر مرشد کامل کی صحبت اور تصورِ اسم اللہ ذات کے ذکر کے معرفت الٰہی نصیب نہیں ہوتی-اگر کوئی ظاہری عبادت کر  کر کے دودھ کی طرح اُبل کر سرخ بھی ہو جائے اس وقت تک معرفت الٰہی حاصل نہیں کر سکتا جب تک اس کے وجود کو اسم اللہ ذات کی جاگ نہیں لگتی-جیساکہ ایک اور جگہ پر فرمایا:

کی ہویا جے راتیں جاگیوں جے مُرشد جاگ نہ لائی ھو

مندرجہ ذیل بیت بھی مندرجہ بالا بیت سے نسبت رکھتا ہے-

دُودّھ تے دَہی ہر کوئی رِڑکے عاشق بھَا رِڑکیندے ھو
تَن چَٹُورا مَن مَندھانی، آہِیں نال ہَلیندے ھوب

یہاں پر بھی ’’چٹورا‘‘ اور ’’مندھانی‘‘ استعارے ہیں-چٹورا اس برتن کو کہتے ہیں جس میں دودھ سے مکھن نکالا جاتا ہے اور ’’مندھانی‘‘ وہ آلہ ہے جس سے دودھ کو مکھن نکالنے کے لیے ہلایا جاتا ہے- آپؒ انسان کے ظاہری وجود کو چٹورا یعنی وہ برتن اور باطنی وجود یعنی قلب کو مندھانی قرار دے رہے ہیں ،کیونکہ دل سے ہی ذکرِ الٰہی کیا جاتا ہے-

ذاتی نال نہ ذاتی رلیا سو کم ذات سڈیوے ھو

اس مصرعہ میں ’کم ذات‘ استعارہ ہے-زرعی معاشرے کی خامی ہے کہ وہاں درزی،موچی،لوہار اور ترکھان وغیرہ کو کمی یعنی کم ذات کہا جاتا ہے-لیکن سلطان العارفین فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ کمی نہیں ہیں بلکہ کمی او کم ذات وہ ہے جو ذات ِ الٰہی سے دور ہے-جس کو ابھی ذاتِ الٰہی کا قرب نصیب نہیں ہوا چاہے اس کا معاشرتی سٹیٹس کچھ بھی ہو وہ کم ذات ہے-

تُمّے تَربوز مُول نہ ہوندے توڑے توڑ مَکّے لے جائیے ھو

اس مصرعے میں ’’تمے‘‘ اور ’’تربوز‘‘ استعارے ہیں-’’تما‘‘ انتہا درجہ کاکڑوا ہو تا ہے جبکہ تربوز میٹھا ہوتا ہے- آپ ان دونوں سے دو طرح کے انسان مراد لے رہے ہیں کہ بد خصلت انسان کو اگر خانہ کعبہ میں بھی لے جایا جائے وہ بدلتا نہیں اس کی فطرت وہی رہتی ہے-  ایک اور بیت میں فرماتے ہیں:

مَیں قُربان تِنہاں تُوں باھوؒ جِنہاں کھُوہ پَریم دے جُتے ھو

’’کھوہ‘‘ پنجابی میں کنویں کو کہتے ہیں-کنویں میں سے پانی نکالنے کے لیے جو ڈول یا ’’لوٹے‘‘استعمال ہوتے ہیں ان کو ایک لوہے کے چکر پر ایک دوسرے کے ساتھ ایسے جوڑا جاتا ہے کہ وہ ایک چَین بن جاتی ہے-پھر کنویں میں وہ چین چلتی رہتی ہے اور ان برتنوں کے ذریعے سے پانی نکلتا رہتا ہے- یہاں پر سلطان العارفینؒ ’’کھوہ پریم دے‘‘ سے مراد انسان کے سانس لے رہے ہیں کہ انسان کے سانس کا تعلق اس کے دل سے ہے اور انسان کے دل میں معرفت الٰہی کا خزانہ ہے-جس کو سانسوں کے ذکر سے حاصل کیا جا سکتا ہے-ایک سانس اندر جاتا ہے اور ایک باہر آتا ہے،یوں ذکرِ اللہ جاری رہتا ہے-آپؒ فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں پر قربان ہو جاؤں جو اس طرح سانسوں سے ذکر اللہ کرتے ہیں-

حضرت سلطان باھوؒ کے پنجابی ابیات میں زرعی معاشرے سے متعلق بہت سے استعارے موجود ہیں-جن کے ذریعے آپؒ نے معرفت الٰہی کے اسرار و ر موز کو بیان کیا ہے-آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خود اپنی علاقائی زبانوں سے واقفیت حاصل کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی ان سے شناسا کریں تاکہ ہم اپنے اس قیمتی ثقافتی سرمائے کو سنبھال سکیں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر