رسالہ

رسالہ

وہ لفظ جو کسی شعبۂ علم میں کچھ خاص اور جداگانہ معانی کے ساتھ مروج ہو یعنی جس کا کوئی خاص معنی کسی علم یا فن وغیرہ کے ماہرین نے مقرر کر لیا ہوتاکہ انہیں سمجھانے کی غرض سے مستعمل ٹھہرایا جائے اسے ’اِصطلِاح‘ کہا جاتا ہے-

کسی بھی علم کے حصول سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ اس علم یا فن کی بنیادی اصطلاحات اور ان کی تعریفات سے آشنائی حاصل کرلی جائے تاکہ اصطلاحات کی رُو معلوم ہونے کے بعد قاری کے مطالعہ اور فہم میں ابہام کی گنجائش باقی نہ رہے- مثلاً اردو ادب میں اخبار کا معنی ”خبریں“ ہے لیکن اصطلاحاً اخبار ان صفحات یا پرچہ کو کہا جاتا ہے جن پر خبریں مندرج ہوں- بعین اسی طرح ماہرینِ علم پہلے سے مروجہ الفاظ کو بطور اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو فنی اور تکنیکی بنیادوں پر استوار کی جاتی ہیں -مثال کے طور پر انگریزی زبان کا لفظ”ماس“ بمعنی ”عوام“کے استعمال ہوتا ہے لیکن شعبۂ علومِ کیمیاء میں اس کا مطلب ”کسی شے میں مادہ کی تعداد“اور شعبۂ علومِ حیاتیات میں”جسم میں بننے والی گانٹھ “کے ہیں-

زیرِ مطالعہ مقالہ میدانِ تصوف سے تعلق رکھتا ہےاور علمِ تصوف بھی باقی شعبہ ہائے فنون کی طرح اپنے اندر منفرد اصطلاحات سموئے ہوئے ہے جن سے آگاہی اتنی ہی ضروری ہے جتنی دوسرے علوم کے مطالعے سے قبل ان میں مروجہ اصطلاحات سے واقفیت-اولیائے کاملین کا وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں عوام الناس کی رہنمائی کے لئے تصنیفات و تالیفات رقم کیں اور اُن میں مخصوص اصطلاحات کاسہارا بھی لیا-

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان محمد باھوؒ نے میدانِ تصوف میں 140 تصانیف کا شاہکار پیش فرمایاہے جن میں سے 31 کتب منظر عام پر موجود ہیں- ان میں 2 کتب منظوم اور 29 کتب نثری صورت میں ہیں- جب قاری آپؒ کی تصنیفات کا عمیق مطالعہ کرتا ہے تو اسے یہ چیز بخوبی باور ہوجاتی ہے کہ تقریباً ہر تصنیفِ لطیف میں آپ قدس سرہ العزیز نے طالبانِ مولیٰ کو سمجھانے کی غرض سے اصطلاحات کے استعمال کے ساتھ ساتھ ان کی درجہ بندی بھی فرمائی ہے- نہ صرف یہ بلکہ ان اصطلاحات کی اقسام، درجات یہاں تک کہ ان کے مختلف مقامات کو بھی بڑی وضاحت کےساتھ بیان فرمایا ہے- جو اس مخصوص موضوع یا مضمون کی تفہیم و تعلیم میں وسعت و کشادگی کا باعث بنتی ہے اور مطلوبہ اصطلاح کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے-

آپ قدس سرہ العزیز نے یوں تو کافی اصطلاحات اور ان کی اقسام ، مراتب اور درجات کو بیان فرمایا ہے لیکن سب سے زیادہ جن اصطلاحات کی درجہ بندی فرمائی ہے اُن میں ”علم“، ”فقر“، ”ذکر“، ”فقیر“، ”عارف“، ”مراقبہ“، ”قلب“ وغیرہ شامل ہیں-آپ قدس سرہ العزیز نے اپنی تصانیف مبارکہ میں مختلف مقامات پر ”علم“  کے موضوع کو اقسام، مراتب، درجات، تعریفات وغیرہ کی ترتیب کے پیش نظر  بہت طوالت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اورتقریباً  ہر جگہ ایک منفرد جہت کو بیان کیا ہے-اسی طرح دیگر اصطلاحات کی درجہ بندی  اور اقسام بھی جابجا ملتی ہیں-

ناچیز نے زیر نظر مقالہ میں آپ کی تعلیمات میں بیان ہونے والی تمام اصطلاحات کی اقسام کوجمع کیا ہے جس کیلئے ناچیز نے صرف ان 28 کتب سے استفادہ کیا ہے جن تصانیف کا ترجمہ فارسی متن کے ساتھ ’’سید امیر خان صاحب‘‘ یا ’’کے بی نسیم صاحب‘‘ نے کیا ہے-

فقیر :

  1. فقير چار قسم کے ہوتے ہیں:صاحب بطن، صاحب وطن (جو وطن ابتدا میں تھا وہی وطن انتہا میں ہے) صاحب معنی اور صاحب متن- نیز فقیروں کی چار قسمیں یہ بھی ہیں یعنی صاحب حیرت حیران، صاحب جرم گریان، صاحب عشق جان بریان، صاحب شوق ذاکر قلب در وحدت وجد جریان- [1]
  2. فقیر تین قسم کے ہوتے ہیں:ایک وہ جو صاحب آیات ہیں ، جو عالم بھی ہیں اور عامل بھی- یہ بھی فقیری کی لڑی میں کامل ہیں-دوسرے فقیر صاحب نفی اثبات ، چنانچہ انہیں ذکر و فکر سے راحت حاصل ہوتی ہے- تیسرے فقیر فنا فی اللہ ذات ہیں- جنہیں لازوال مراتب حاصل ہیں- [2]
  3. فقیر چھ قسم کا ہوتا ہے:اول فقیر توفیقی،دوم فقیر طریقی، سوم فقیر تحقیقی، چہارم فقیر زندیقی، پنجم فقیر تفریقی، ششم فقیر حقیقی - [3]

فقر:

  1. فقر تین قسم کا ہے- ایک نشست، دوسرے برخاست، تیسرے تماشا- اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے- فقر الٰہی بھید ہے اور یہ تینوں ہی بمنزلہ قدرت ہیں- [4]
  2. فقر دو قسم کا ہے:ایک یہ کہ اس پر طبقات و مقامات اور کشف و کرامات کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے اور دوسرا تجلیات یا ذات و صفات کا راستہ اس پر بلند اور ارفع کردیا جاتا ہے- [5]
  3. جان لے کہ فقر کئی قسم کا ہے مثلاً فقرِ تحقیقی، فقرِ حقیقی، فقرِ دریائے عمیقی، فقر توفیقی، فقرِ بحق رفیقی، فقرِ کئی طبقاتِ طریقی اور فقر اہلِ شرب ترک الصلوٰۃ بے عمل جاہل مخالفِ شرع اہلِ بدعت زندیقی- [6]

علم:

  1. علم دو قسم کا ہے:ایک علم رحمانی ہےجس کی تعلیم ترک دنیا ہے اسے اہل طاعت حاصل کرتے ہیں-دوسرا علم شیطانی ہے جس کی تعلیم حرص و حسد و کبر اور حب دنیا ہے،اسے اہل بدعت حاصل کرتے ہیں- [7]
  2. واضح رہے کہ علم تین قسم کا ہے:1- علم بصری،  2- علم دلیلی اور 3-علم عقلی- علم بصری کے حجاب کو اپنے آپ سے دور کرنا عین ثواب ہے- [8]
  3. علم دو قسم کا ہے-ایک تکبر اور نفسانی خواہشات پیدا کرنے والا علم، یہ علم شیطانی ہے-دوسرا علم رحمانی ہے جو دل میں رحم پیدا کرتا ہے انسان کو با عمل بناتا ہے اور دین میں استقلال بخشتا ہے- [9]

عارف:

  1. عارف کی چند قسمیں ہیں: عارف شریعت اور ہے، عارف طریقت اور ہے، عارف حقیقت اور ہے- [10]
  2. عارف تین قسم کے ہوتے ہیں:1- عارفِ علم، 2-عارفِ طبقات اور 3-عارف ذات- حدیث:’’جس نے اللہ کو پہچان لیا تو پھر اس کو مخلوق کے ساتھ میل جول میں کوئی لذت حاصل نہیں ہوتی‘‘-[11]
  3. عارف پانچ قسم کے ہوتے ہیں، عارفِ ازل، عارفِ ابد، عارفِ دنیا، عارفِ عقبٰی، یہ چاروں عارف خام ہیں کہ اہلِ مراتب و طبقات ہیں- پانچواں عارف باللہ ہے جو فقر کے مرتبہ کمال پر فائز ہوتا ہے- [12]

مراقبہ:

  1. مراقبہ کئی قسم کا ہے مثلاً مراقبہ ذکر فکر، مرتبہ حضور مذکور، مراقبہ فنا فی الشیخ، مراقبہ فنا فی اللہ، مراقبہ فنا فی ھو، مراقبہ فنا فی فقر، مراقبہ فنا فی اسم محمد (ﷺ)، مراقبہ فنا فی نفس ننانوے اسمائے باری تعالیٰ، مراقبہ چشم واز، مراقبہ شہباز اور مراقبہ دغا باز - [13]
  2. مراقبے کی دس اقسام ہیں:(1) مراقبہ سفر ازل کی سیر،  (2) مراقبہ سفر ابد کی سیر، (3) مراقبہ سیر سفر فی الارض، (4) سفر آسمان کی سیر کا مراقبہ، (5) حضرت محمد (ﷺ) کی مجلس میں مشرف ہونے کے سفر کی سیر کا مراقبہ، (6) ہر انبیاء کی صحبت کا مراقبہ، (7) غالب الاولیاء (یعنی جناب حضرت محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی (﷫) کی مجلس کا مراقبہ، (8) ہر مومن مسلمان سے مصافحہ اور ملاقات کا مراقبہ، (9) قلب و نفس اور روح کے تماشے کے سفر کی سیر کا مراقبہ یعنی مراقبہ وجودیہ اور  (10) مراقبہ وجودیہ، یہ سیر سفر تماشاہی، قلب، نفس و روح توفیق باری تعالیٰ کا مراقبہ ہے- [14]

دعوت:

  1. دعوت کئی قسم کی ہے مثلاً دعوتِ جز، دعوتِ کل، دعوتِ ذکر، دعوتِ فکر،دعوتِ تجلیاتِ نور اللہ،دعوتِ منتہی فقیر ولی اللہ- [15]
  2. دعوت کی چار قسمیں ہیں: (1)دعوت قفل کامل، (2) دعوت کلید مکمل، (3) دعوت توحید اکمل کمال باقرب اللہ وصال لازوال اور (4) دعوت جامع النور غرق فنا فی اللہ روشن ضمیر - [16]

توجہ:

  1. جان لے کہ توجہ تین قسم کی ہے: (1)توجۂ مخنث یعنی توجۂ دنیا جو حصول دنیا کی خاطر کی جائے، (2)توجۂ مؤنث جو حصول عقبیٰ کی خاطر کی جائے اور (3) توجۂ مرد مذکر طالب مولا جو طلب مولا کی خاطر کی جائے - [17]
  2. توجہ تین قسم کی ہے: (1) توجہ مخنث جو دنیا کی خاطر طالب دنیا کی توجہ ہے،(2) توجہ مؤنث جو نغمائے عقبیٰ کی خاطر طالب عقبیٰ کی توجہ ہے اور (3)توجہ مرد مذکر جو طالب مولیٰ کی توجہ برائے طلب مولا واعلیٰ واولیٰ ہے - [18]

ذکر:

  1. اقسامِ ذکر: (1)ذکر نفی، (2)ذکر اثبات،(3)ذکر تصور اسم اللہ ذات، (4) ذاکر نجات، (5) ذکر حیات، (6) ذکر درجات، (7) ذکر خفی، (8) ذکر اَنا، (9) ذکر یخفیٰ،  (10)ذکر معرفت، (11) ذکر معروف (12)ذکر مشاہدہ، (13) ذکر قرب، (14) ذکر خون جگر نوش کرنا، (15) ذکر فضیلت جوش، (16)ذکر وجدانی، (17)ذکر سلطانی، (18) ذکر لا مکانی، (19)ذکر قربانی، (20) ذکر نفس فانی، (21) ذکر جہر، (22) ذکر حامل، (23) ذکر سودا، (24) ذکر سویدا، (25) ذکر رو شن ضمیر، (26) ذکر بر نفس امیر، (27) ذکر سے قرآن و حدیث اور تفسیر کا علم منکشف ہوتا ہے-(28)ذکر لازوال، ذکر وصال اور ذکر نیک خصلت، (29)ذکر سے ماضی، حال اور مستقبل کے حقائق رجعت اور خلل کے بغیر حاصل ہوتے ہیں [19]
  2. جان لے کہ ذکر چار ہیں: (1) ذکرِ زبان، (2)ذکرِ قلب،  (3) ذکرِ روح اور (4) ذکرِ سرّ- [20]

قلب:

  1. اسرار العارفین میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا فرمان ہے:  ”قلب کی تین قسمیں ہیں،قلبِ سلیم،قلبِ منیب اور قلبِ شہید- قلبِ سلیم وہ ہے کہ جس میں ”اللہ“ کے سوا اور کچھ نہ ہو، قلبِ منیب وہ ہے جو ہر وقت طاعتِ الٰہی میں مشغول رہے اور قلبِ شہید وہ ہے جو معرفتِ الٰہی سے معمور ہو-[21]
  2. ایک تو قلبِ قاری ہے اور ایک قلبِ اسرارِباری ہے- صاحبِ قلب کا کام یہ ہے کہ وہ ہر وقت مطالعۂ قلب میں مشغول رہے کہ قلب معرفتِ احدیت و صمدیت اور صراطِ مستقیم کی کامل محرمیت کا نام ہے- [22]
  3. قلب کی تین قسمیں اور نام ہیں: (1)قلبِ منیب، (2)قلبِ شہید اور(3)قلبِ سلیم- [23]

دل:

  1. دل کی بھی تین قسمیں ہیں:اول یہود و نصارٰی کا دل، دوسرا مومن کا دل جو عنایتِ علوم اور مقصود پر لگا ہوا ہوتا ہے اور تیسرا منافق کا دل ، جو مردود ہوتا ہے - [24]
  2. دل بھی تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک دل پہاڑ کی مثل ہوتا ہے جو اپنی جگہ سے ہرگز نہیں ہلتا، یہ عاشقوں کا دل ہے- دوسرا دل درخت کی مثل ہے جو اپنی جڑ پر ثابت رہتا ہے اور تیسرا دل پتوں کی مثل ہے جنہیں ہَوا الٹتی پلٹتی رہتی ہے مگر وہ منتشر نہیں ہوتے- [25]

مرشد:

  1. مرشد دو قسم کا ہوتا ہے: ایک ریاضت نما، دوسرا عاشق صاحبِ عطاء، عشق ایک لطیفہ ہے جو غیب سے دل میں پیدا ہوتا ہے- [26]
  2. مرشد دو قسم کے ہیں:پہلی قسم  مردک،دوسری قسم  مرد-مردک کون ہے ؟ اور مرد کسے کہتے ہیں ؟مردک (مرشد) وہ ہے، جوشب و روز مجاہدہ کرائے اور دشمن خدا یعنی نفس اور شیطان سے جنگ کرائے-مرد مرشد غازی وہ ہے  جو تصور اسم اللہ ذات کی تلوار سے اس دائرہ وجودیہ سے دشمنوں یعنی نفس و شیطان کے سر فوراً جدا کرے اور (اس طرح) اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے بے کھٹکے ہو جائے- یعنی فنا فی اللہ ہو جائے- [27]

دم:

  1. جان لے کہ دم کئی قسم کے ہیں- دمِ حیوانی، دمِ انسانی، دمِ روحی، دمِ نفسی، دمِ قلبی، دمِ کافی، دمِ منافق، دمِ کاذب، دمِ فاسق، دمِ مومن، دمِ مسلمان اور اولیاء اللہ کا دم-(ان میں سے) ہر ایک دم ہےلیکن ان میں فرق ہے (عام لوگ تو سانس کے اندر باہر آنے کو دم کہتے ہیں) وہ آدمی جو منہ سے آواز نہ نکال سکا یا پھر مردہ لوگوں کا دم کہاں چلا جاتا ہے،یا پھرشور و غل کی آواز کس کو سپرد کی گئی- [28]
  2. دم بھی چار قسم کا ہوتا ہے:اول  دمِ کفار جو طلبِ دنیا میں بے قرار ہوتا ہے-دوم : منافق کا دم جو عداوت کی طلب میں سرگرم ہوتا ہے-سوم : مومن کا دم ، جو طلبِ موت میں ہوتا ہے اور نفس و خلق سے فرار اختیار کرتا ہے-چہارم: طالب العلم کا دم، جو عقبیٰ کو طے کرنے اور اپنے نفس کے عیوب کی شناخت میں مشغول ہوتا ہے- خلق کی رجوعات ، جو محض گرانباری ہے اور بخیل کا دم بمنزلہ ہوا ہے اور ہوا میں آخر کوئی خوشی نہیں ہوتی- [29]

نفس:

  1. نفس دو قسم کا ہے جس طرح کہ آدمی کا وجود دو قسم کا ہوتا ہے یعنی وجود لطیف اور وجود کثیف -وجود کثیف ان لوگوں کا ہےجن کا نفس امارہ یا لوامہ یا ملہمہ ہے-امارہ راہزن شیطان کا نام ہے اس کا تابع لوامہ ہے اور لوامہ کا تابع ملہمہ ہے -ان تینوں کا ایک دوسرے سے اتفاق ہے-وجود لطیف ان لوگوں کا ہے جن کا نفس مطمئنہ ہے- [30]
  2. آدمی کے وجود میں جو نفسانیت ہے، اس کی تین قسمیں ہیں- چنانچہ جس کسی کا نفس کافر ہے، اس کی خصلت کافروں اور اہلِ زنار کی سی ہے، وہ دنیا اور کافروں ہی سے اخلاص رکھتا ہے- یہ نفسِ امارہ راہزن ہے اور جس کے نفس میں منافقت کی خو ہے، اس کا اخلاص منافقوں سے ہے- اس  کا نفس لوامہ ہے اور جس کے نفس میں اہلِ دنیا جیسی خو ہو، وہ بہت بڑا ظالم ہے- اسے نفسِ ملہمہ کہتے ہیں اور جس کے نفس کی دوستی علمِ شریعت، عالم، عامل، فقرائے کامل، اہلِ ترس اور خدا پرست کے ساتھ ہو اور ذکرِ الٰہی میں غرق و استغراق کے ساتھ مست رہتا ہو-ادائے حقِ عبودیت اور ربوبیت میں کامل ہو،اس نفس کو نفسِ مطمئنہ کہتے ہیں- [31]

سلک سلوک:

  1. جان لے کہ سلک سلوکِ معرفتِ الٰہی تین قسم کا ہے، ایک کلمہ طیب ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے ذکر کا سلک سلوک ہے خواہ وہ ذکر خفیہ ہو یا جہر ہو،دوسرا سلک سلوکِ مذکور ہے مثلاً تلاوتِ قرآن مجید، ورد وظائف، نوافل اور نماز روزہ وغیرہ،تیسرا وہ انتہائی سلک سلوک ہے جو طالب اللہ کو ایک ہی دم میں مجلس محمدی (ﷺ) میں پہنچا کر وحدانیتِ خداوندی میں غرق کردیتا ہے- [32]
  2. جان لے کہ فقر کا سلک سلوک دو قسم کا ہے- ایک مجاہدہ ریاضت، خلوت، چلہ کشی، نوافل ، صوم صلوٰۃ کی پابندی، جس سے 12 سال کی مدت میں وجود کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے، یہ شریعت کا مقام ہے، جو زبانی تسبیح خوانی اور زمین و آسمان کی سیر سے تعلق رکھتا ہے- [33]

سالک:

  1. سالک دو قسم کے ہوتے ہیں:1سالک مجذوب، 2-سالک محبوب  -[34]

کشف:

  1. کشف بھی دس قسم کا ہے، کشفِ زمینی،کشفِ آسمانی، کشفِ نفسانی، کشفِ شیطانی، کشفِ حیرانی، کشفِ روحانی، کشفِ مراتب مطلق فانی، کشفِ خاص الخاص رحمانی، کشفِ قلوب اور کشفِ قبور- منتہی کامل کشف غرق مع اللہ حضوری کا ہے- [35]
  2. کشف بھی چار قسم کا ہوتا ہے ، ایک کشفِ قلبی ہے جس کا تعلق قلب سے ہے اس لیے دعا مانگی جاتی ہے: الٰہی میرے قلب کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ- دوسرا کشفِ روحانی ہے جس کا تعلق غرق و فنا سے ہے یعنی  ’مرنے سے پہلے مر جاؤ‘ تیسرا کشفِ نفسانی ہے جو ذائقہ و ہوا سے تعلق رکھتا ہے یعنی وہ کثرت ریاضت اور اَنا پرستی سے متعلق ہے اور چوتھا کشفِ شیطانی ہے جو معصیت و طمع اور ترقی عزت و جاہ سے تعلق رکھتا ہے- خبردار! عقل سے کام لے- اگر تو آئے تو دروازہ کھلا ہے ، نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے- [36]

الہام:

  1. جان لے کہ الہام کی کئی قسمیں ہیں مثلاً خدا کی طرف سے الہام، پیغمبروں کی طرف سے الہام، ارواح انبیاء و اولیاء کی طرف سے الہام، ذکر فکر اور صفائی دل سے پیدا ہونے والا الہام- اسی طرح الہام نفس ، الہام روح ، الہام سر ( جو ذکر خفیہ کے ذریعے مقام اسرار سے ہوتا ہے ) ، الہام شیطان، الہام جنونیت جن و دیو اور الہام ملائکہ وغیرہ- [37]
  2. الہام بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں لیکن اصلی الہام وہ ہے جو شہ رگ سے قریب تر ہو اور ہر خبر و ہر حقیقت کی پوری شرح و تفصیل مہیا کرتا ہو- ایک الہام شیطانی و انسانی ہوتا ہے جس سے مطلب دنیا حاصل ہوتے ہیں- وہ استدراج ہے اور خام و ناتمام ہے کہ اُس کا تعلق جِنّات سے ہے- ایک الہام روحانی ہے جو صفائے قلب اور روحانی جسم سے حاصل ہوتا ہے- ایک الہام سرّ نہانی ہے اور ایک الہام قدرتِ سبحانی ہے- یہ خاص الخاص الہام ہے- [38]

قادری طریقہ:

  1. ’’یاد رہے کہ قادری طریقہ بھی دو قسم کا ہے، ایک قادری زاہدی طریقہ ہے جس میں طالب عوام کی نگاہ میں صاحبِ  مجاہدہ و صاحبِ ریاضت ہوتا ہے جو ذکرِ جہر سے دل پر ضربیں لگاتا ہے، غوروفکر سے نفس کا محاسبہ کرتا ہے، ورد و وظائف میں مشغول رہتا ہے، رات قیام میں گزارتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے لیکن باطن کے مشاہدہ سے بے خبر صاحبِ حال و صاحبِ قال بنا رہتا ہے- دوسرا قادری سروری طریقہ ہے جس میں طالب قرب و وصال اور مشاہدۂ دیدار سے مشرف ہو کر شوریدہ حال رہتا ہے اور ایک ہی نظر سے طالب اللہ کو معیتِ حق تعالیٰ میں پہنچا دیتا ہے‘‘- [39]
  2. قادری طریقہ دو قسم کا ہے:(1)سروری قادری (2) زاہدی قادری- [40]

حجاب:

  1. حجابات دو قسم کے ہیں: (1)حجاباتِ عام (2)حجاباتِ خاص-ان میں سے حجاباتِ عام تین ہیں: (1) نفس (2) دنیا (3) شیطان- حجاباتِ خاص بھی تین ہیں: (1) طاعت  (2) ثواب (3)درجات- [41]
  2. حجابات بھی دو قسم کے ہوتے ہیں،حجاباتِ ظاہری اور حجاباتِ باطنی-حجاباتِ ظاہری کی اِبتدا اخذِ علم ہے اور انتہا ترکِ علم ہے حجاباتِ باطنی کی اِبتدا اہتمام ذکر ہے اور انتہا ترکِ ذکر ہے-محض علم و ذکر کرکے زار پر آدمی محرم دل عارف باللہ نہیں بن سکتا- [42]

مقام:

  1. پس مقامات تین ہیں: (1) مقامِ خوف نفس، جو شخص مقامِ خوفِ نفس میں داخل ہوجاتا ہے وہ گناہوں سے توبہ کر لیتا ہے اور پڑھتا ہے ’’رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا‘‘ (ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا)- (2) مقامِ رجا، جب کوئی مقامِ رجا میں آجاتا ہے تو طاعت و بندگی کی طرف رجوع کر لیتا ہے جس سے اُس کی روح کو حلاوت نصیب ہوتی ہے کہ مقامِ رجا روزِ ازل ہی سے روح کا مقام ہے- (3) مقامِ قلب یہ مقامِ نفس و روح کے درمیان ہے- جب کوئی اس طرف متوجہ ہو کر مقام قلب میں غرق ہو جاتا ہے تو اُس کا قالب قلب میں ڈھل جاتا ہے، اُس کے ہفت اندام لباسِ نور میں ملبوس ہو جاتے ہیں- [43]

قفل:

  1. آدمی کے وجود میں سات قسم کے قفل ہوتے ہیں: چنانچہ قفل زبان، قفل قلب، قفل روح، قفل سر، قفل خفی قفل یخفی اور قفل توفیق الٰہی- انہیں اسرار الانوار ہدایت کہتے ہیں- اسی طرح سات قفل سات طبقات زمین کے ہیں اور سات قفل سات آسمانوں کے ہیں- ان کے علاوہ قفل عرش، قفل لوح، قفل قلم، قفل لوح محفوظ اور قفل کرسی بھی ہیں- نیز قفل مقام ازل، قفل مقام ابد،قفل مقام دنیا، قفل مقام عقبیٰ، قفل مقام معرفت و توحید و نیز قفل مقام تجرید، قفل مقام تفرید، قفل مقام ناسوت، قفل مقام ملکوت، قفل مقام جبروت، قفل مقام لاھوت، قفل مقام لا مکان الا اللہ اور قفل دوام مشرف حضوری مجلس محمد (ﷺ) ہیں- جان لے کہ یہ جملہ اکتالیس قفل اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان حائل حجابات و پردے ہیں- مرشد کامل وہ ہے جو کلید اسم اللہ ذات یا کلید نص و حدیث یا کلید نناوے اسمائے باری تعالیٰ یا کلید کلمہ طیبات لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں سے کسی ایک چابی کو مذکورہ بالا جس قفل میں بھی ڈالے تو اسے ایک ہی دم میں اور ایک ہی قدم پر کھول کر دکھا دے- مرد مرشد کامل صاحب نظر ناظر وہ ہے جو ایک ہی نظر میں طالبان مولیٰ کو اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور کرادے اور مجلس محمدی(ﷺ) کی حضوری سے مشرف کر کے لا یحتاج کر دے- [44]

مراتب:

  1. یاد رہے کہ مراتب دو قسم کے ہیں: ایک حاضرات اسم اللہ ذات سے حاصل ہوتے ہیں- دوسرے ورد و ظائف رسم رسوم سے حاصل ہوتے ہیں- پس معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ تصور اسم اللہ ذات توحید کا ہےجس کی ابتداء و انتہا معرفت توحید فنا فی اللہ با خدا ہے؛ یہ فقرائے عارف باللہ کو نصیب ہوتا ہے- دوسرا مرتبہ وہ ہے کہ جس کی ابتداء و انتہا حرص و ہوس سے عبارت ہے، اس کی پہچان اسی طرح ہوتی ہے کہ اس مرتبے پر بندہ رات دن لوح محفوظ کا مطالعہ کرتا ہے اور لوگوں کے احوال نیک و بد سے با خبر رہتا ہے- یہ درویشوں کا مرتبہ ہے- [45]
  2. مراتب دو قسم کے ہیں: (1) مراتب باطل مردار اور (2) مراتب حق برحق دیدار- [46]

غوث و قطب:

  1. غوث و قطب بھی دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک غوث و قطب وہ ہیں جنہیں ریاضت کے ذریعے مراتب طبقات حاصل ہوجاتے ہیں-دوسرے غوث و قطب وہ ہیں کہ جن پر اسرار ذات کھل جاتے ہیں-انہیں یہ مراتب تصور اسم اللہ ذات سے حاصل ہوتے ہیں- [47]

ہدایت:

  1. ہدایت سات قسم کی ہے: چار قسم کی ہدایت کا مجموعہ علم و عمل و فیض و تقویٰ میں ہےاور تین قسم کی ہدایت کا مجموعہ باطن میں نفس کی شناخت، ہوائے نفس سے خلاصی اور اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان میں ہے- [48]

عالم:

  1. عالم کئی قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ جو علم تفسیر کے علم ہوتے ہیں- ایک وہ جو محض علم میں مشہور ہوتے ہیں- ایک وہ جو رات دن علم دعوت کا مطالعہ کرتے ہیں اور ورد و وظائف و ذکر فکر مذکور میں مشغول رہتے ہیں- ایک وہ جو علم دنیا کے عالم ہوتے ہیں، ان کے دماغ میں طلب دنیا کی ہوا بھری رہتی ہے اور وہ معرفت خدا سے محروم ہو کر کبر و غرور میں مبتلا رہتے ہیں- ایک وہ جو علم فنا فی اللہ نور و علم دیدار کے عالم ہوتے ہیں اور ایک وہ جو علم حضورئ مجلس محمدی (ﷺ) کے عالم ہوتے ہیں- فقر کی بنیاد علم فقہ ہے اور علم فقہ کے عالم فقیہہ دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک فقیہہ وہ ہیں جو مسائل فقہ کی تاثیر سے اپنے نفس کو فنا کر لیتے ہیں- ایسے عالم فقیہہ عارف باللہ صاحب تقوٰی و اہل توفیق دیدار ہوتے ہیں جو دنیا مردار سے بے راز ہوتے ہیں- دوسرے فقہیہ وہ ہیں جن کے نفس فربہ ہوتے ہیں اور وہ خود پسندی میں گرفتار کبر و ہوا وریا کے قیدی ہوتے ہیں [49]
  2. محض علم ظاہر پڑھنے والا عالم خسارے میں رہتا ہے- تین علوم کے اندر تین عالم ہوتے ہیں: عالم نفس ، عالم قلب و عالم روح- [50]

تقویٰ:

  1. تقویٰ بھی دو قسم کا ہوتا ہے- چنانچہ ایک تقویٰ ظاہری ہے اور دوسرا تقویٰ باطنی ہے- پس تقویٰ ظاہری تو یہ ہے کہ خلقت کو دکھانے اور چرچے کیلئے اور نام و ناموس اور شہرت کیلئے ریاضت کی جائے اور باطنی یہ کے سوزش سے دل کباب ہو اور آتش ذکر سے جان کباب ہو، خلقت کے نزدیک عاجز اور خراب احوال، لیکن خلقت کے نزدیک بحر حضور حق میں غرق بے حجاب ہو- [51]

غرق:

  1. غرق کی چند قسمیں ہیں مثلاً نورِ اسمِ غرق جثۂ روحانی چنانچہ غرق از خود نسیانی، غرقِ روحانی، غرقِ قلبی فی امان اللہ امانی، غرقِ سلطانی، غرقِ قربانی، غرقِ فی ربانی، غرقِ لاھوت لا مکانی، غرقِ عین العیانی، غرقِ نورِ ایمانی، اور وہ غرق کہ جس میں کوئی حجاب و پردۂ ظلمانی باقی نہیں رہتا- [52]

استغراق:

  1. قرب اللہ حضوری کا استغراق تین قسم کا ہے،استغراقِ وصالِ قرب اللہ حضوری کا ابتدائی مرتبہ یہ ہے کہ ایک ہی حبس،ایک ہی مراقبہ اور ایک ہی دن کے استغراق میں 40 سال کا عرصہ بیت جاتا ہے-متوسطہ استغراق وصال یہ ہے کہ صاحبِ استغراق لب بستہ خاموش ہوکر قیل و قال سے رک جاتا ہے اور انتہائی استغراق یہ ہے کہ صاحبِ استغراق غرق فنافی اللہ بقا اللہ ہو کر ربوبیتِ نور ’’اللہ‘‘ کا مشاہدہ کرتا ہے اور عین بعین اُس بے مثل و بے مثال ذات کا جمال لازوال دیکھتا ہے-مردِ مرشد وہ ہے جو طالب اللہ پر ابتدا وانتہا ایک کردے تاکہ وہ مولیٰ کے سوا نفس و شیطان کو نہ جانے- اللہ بس ماسوی اللہ ہوس-جان لے کہ آدمی کو ظاہری ریاضتوں اور چِلوّں سے عزت و کرامت شرف و آدب اور شہرتِ نام و ناموس حامل ہوتی ہے جس سے نفس تو خوش ہوتا ہے لیکن روح عاجز و خوار ہوجاتی ہے- [53]

قبر:

  1. قبریں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں اور اُن میں روحانیوں کے مراتبِ نام و خطاب بھی اُن کے مراتب و مناصب و احوال کے مطابق ہوتے ہیں-  [54]

عقل:

  1. عقل دو قسم کی ہے: ایک عقل کل لازوال اور دوسری عقل جز موجب احوال- حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:حیوان او رانسان میں کوئی فرق نہیں سوائے علم کے[55]

کیمیا:

  1. کیمیا دو قسم کی ہے: ایک کیمیائے ہنر ہے اور دوسری کیمیائے اسم اللہ ذات ہے جو سونے چاندی سے بہتر ہے، اسے اپنے عمل و تصرف میں لانا فرض عین و ضروری ہے[56]

حضوری:

  1. جان لے کہ حضوری بھی دو قسم کی ہے- ایک حضوری تصورِ اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہوتی ہے- یہ قرب اللہ وصال کی لازوال حضوری ہے- دوسری تصورِ اسمِ اللہ ذات کے بغیر محض بدنی اعمال کے ذکر فکر و مراقبے سے حاصل ہوتی ہے- [57]

تصور:

  1. تصور کی تیس اقسام ہیں:تصور کی پہلی قسم کا نام غواصی ہے- تصور کی دوسری قسم کا نام غیاثی ہے- تصور کی تیسری قسم کا نام غوثی ہے- تصور کی چوتھی قسم کا نام قطبی ہے- تصور کی پانچویں قسم کا نام اخلاصی ہے- تصور کی چھٹی قسم کا نام حیاتی ہے- تصور کی ساتویں قسم کا نام مماتی ہے- تصور کی آٹھویں قسم کا نام توحیدی ہے- تصور کی نویں قسم کا نام تفریدی ہے- تصور کی دسویں قسم کا نام تجریدی ہے- تصور کی گیارہویں قسم کا نام دعوتی ہے- تصور کی بارہویں قسم کا نام توفیقی ہے- تصور کی تیرہویں قسم کا نام حقیقی ہے- تصور کی چودھویں قسم کا نام طریقی ہے- تصور کی پندرھویں قسم کا نام جامع الجمعیت ہے- تصور کی سولہویں قسم کا نام کلید ہے- تصور کی سترھویں قسم کا نام فکر ہے- تصور کی اٹھارویں قسم کا نام فنائے نفس ہے- تصور کی انیسویں قسم کا نام کُل ہے- تصور کی بیسویں قسم کا نام زائد ہے- تصور کی اکیسیوں قسم کا نام قلبی ہے- تصور کی بائیسویں قسم کا نام روحی ہے- تصور کی تئیسویں قسم کا نام سری ہے- تصور کی چوبیسویں قسم کا نام بقاءالبقاء ہے- تصور کی پچیسویں قسم کا نام فناءالفناء ہے- تصور کی چھبیسویں قسم کا نام فضلی ہے- تصور کی ستائیسویں قسم کا نام فیضی ہے- تصور کی اٹھائیسویں قسم کا نام ذاتی ہے- تصور کی انتیسویں قسم کا نام صفاتی ہے- (تیسویں لکھی ہوئی نہیں ہے) [58]

سوال:

  1. سوال چار قسم کے ہوتے ہیں یعنی سوال نفس، سوال قلب، سوال روح اور سوال سرّ- یہی وجہ ہے کہ فقیر پہلے مرتبۂ غنایت حاصل کر کے فقرِ اختیاری قبول کرتا ہے- [59]

باطن:

  1. یاد رکھیے کہ باطن دو قسم کا ہوتا ہے: باطن کی ایک صورت وہم وخیال کی ہے جو صاحبِ وہم و خیال کے پیش نظر رہتی ہے،وہ اُس سے جواب باصواب پاتا ہے اور احمق طالب اُسے باطن کی صحیح حضوری سمجھتا ہے اور وہ معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ راہزن و زوال پذیر صورتِ وہم ہے-باطن کی دوسری صورت اُس وہم کی ہے جس سے وہ بے حجاب قرب اللہ حضوری کے جواب باصواب پاتا ہے اور جب بھی وہ مجلس محمدی (ﷺ) کی حضوری کی طرف متوجہ ہوتا ہے اُسے قرب اللہ  وصال کی عنایات نصیب ہوتی ہیں- [60]

جمعیت:

  1. جمعیت تین قسم کی ہے: جمعیت نفس، جمعیت قلب و جمیعت روح- روح کی جمعیت مشاہدۂ معراج کی لذت سے ہے ، قلب کی جمعیت قرب خدا کی لذت سے ہے اور نفس کی جمعیت ہوائے شہوت کی لذت سے ہے- [61]

انوار:

  1. انوار کئی قسم کے ہیں-بعض تجلئ انوار میں کلمہ طیب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور سرّ ھو،ھو الحق لیس فی الدّارین الا ھو کی آواز آتی ہے اور تجلیٔ نار میں شرک و کفر اور معرفتِ پرودگار سے محروم بت پرست اہلِ زنار کافروں کی بہت سی صورتیں نظر آتی ہیں- [62]

حاضرات:

  1. حاضرات کئی طرح کے ہیں چنانچہ حاضرات ذات، حاضرات صفات، حاضرات حیات، حاضرات ممات، حاضرات نفسانی، جنات و موکلات  جسمانی، حاضرات دافع شیطانی، حاضرات مشاہدات طبقات قاب قوسین، جس میں دونوں علوم کی حکمت پوشیدہ ہےاور حاضرات نفس و قلب وروح و سر- [63]

حاجی:

  1. جان لے کہ حاجی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک کعبۂ جان و دل کے حاجی اور دوسرے کعبۂ آب و گل کے حاجی- کعبۂ آب و گل کو ابراہیم خلیل نے بنایا ہے اور کعبۂ جان و دل کو ربِّ جلیل نے بنایا ہے- [64]

مجاہد:

  1. واضح رہے کہ مجاہد دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک ظاہری دوسرے باطنی- ظاہر اہل ولایت کو نفس سے جہاد ہوتا ہے- صاحب معرفت معارف باللہ ہدایت کیلئے ہے، صاحب ہدایت کو نیند نہیں ہے اور نیند غفلت کا نام ہے- (پس) ان کو غفلت نہیں ہوتی- ان کا کھانا مجاہدہ اور ان کا سونا مشاہدہ ہے- [65]

شکم:

  1. شکم دو قسم کا ہوتا ہے- صاحب حضور اللہ والوں کا شکم نور سے پر ہوتا ہے اور اہل حرص وہوا کا آگ سے اور اہل نور اور اہل نار کے درمیان فرق ہے- چنانچہ طالب المولیٰ نور ہے اور طالب دنیا نار- [66]

لوگ/افراد:

  1. لوگ چار قسم کے ہیں:اول قسم : فقرا جن کا نفس مطمئنہ اور باطن صاف ہوتا ہے- ذکر خداوندی میں ہم جلیس ہوتے ہیں-دوسری قسم: علماء جو وارث انبیاء اور اہل حدیث ہیں-تیسری قسم: اہل دنیا جو چوں بے چگون سے بے خبر ہیں؛ ایسے لوگ اہل خبیث ہیں-چوتھی قسم: جاہل ، بد خصال ، خود پرست اہل ابلیس ہوتے ہیں- [67]

صاحبِ لفظ:

  1. واضح رہے کہ صاحب لفظ بھی تین قسم کے ہوتے ہیں: اول صاحب لفظ دنیا جیسے فرعون کہ اس نے دریائے نیل میں جو پہلے خشک تھا، پانی جاری کیا، جو ابدال آباد تک جاری رہے گا- ایسے لوگ صاحب استدراج ہوتے ہیں-دوسرے صاحب لفظ عقبی جیسے صاحب اطاعت-تیسرے صاحب لفظ طالب المولیٰ جو مولا اور اس کے ذکر کے بغیر زبان نہیں کھولتے اور مولا کے سوا ان کے دل میں کوئی خیال نہیں آتا اور صاحب کمال وہ شخص ہے، جس میں تینوں ایک ہو جائیں اور شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو- [68]

ریاضت:

  1. ریاضت کی دو اقسام ہیں:ایک نفس کی فنا کیلیے دوم نام و ناموس اور رجوعات کیلیے جس میں نفسانی خواہشات اور حال کی مستی حسن و عشق کی قیل و قال- سرود و سماع، دیوانگی، سر اور پاؤں ننگے رہنا، داڑھی کٹوانا آہیں بھرنا اور کپڑوں کو پھاڑنا ،شراب پینا، نماز کا ترک کرنا ہوتا ہے یہ تمام علامات خام مرشد اور نا تمام ادھورے طالب کی ہیں [69]

درویش:

  1. نقل ہے کہ درویش پانچ قسم کے ہوتے ہیں: (1) صاحبِ کشف القلوب جو ہر دل کی خبر رکھتے ہیں، (2) صاحبِ کشف القبور جو دونوں جہاں کی خبر رکھتے ہیں، (3)  اوتاد، (4)قطب جو ہر سات زمین و سات آسمان کی خبر رکھتے ہیں اور (5)غوث جو عرش اور عرش سے بالا ستر ہزار حجابات کی خبر رکھتے ہیں- [70]

تجلی:

  1. شرح فتح الابواب تجلیات و تحقیقات:تمام تجلیات 14 ہیں- ہر ایک تجلّی کے آثار، تاثیر اور وجود پہچانے جاتے ہیں-چنانچہ اعضاء جوارح، (1)تجلّی اسم اللہ، (2)تجلّی اسم محمّد (ﷺ)،  (3)تجلّی اسم ھُو،  (4)تجلّی اسم فقیر، (5)تجلّی قلب، (6)تجلّی روح،  (7)تجلّی ذکر جس سے نُور کا شعلہ دماغ اور سر میں پیدا ہوتا ہےاور ظاہری آنکھوں میں ہوتا ہے؛ اس کو سرّی تجلّی کہتے ہیں، (8)تجلّی نفس جو شیطان کی موافقت کے سبب طالب کے وجود سے راہزنی کی تجلّی پیدا ہوتی ہے، (9)تجلّی شیطان جو شرک سے پیدا ہوتی ہے، (10)تجلّی شمس جس سے رجوعات خلق پیدا ہوتی ہے، (11)تجلّی قمر جس کے قرب سے قمر جلالیّت پیدا ہوتی ہے، (12)تجلّی جن جس سے جمعیت میں دیوانگی پیدا ہوتی ہے، (13)تجلّی ملائک جس بیقراری، ترک توکّل و عبادت و تنہائی پیدا ہوتی ہے اور (14)تجلّی شیخ و مُرشد کامل جس سے جمیّعت، جمال، شوق، اشتیاق، مستی حال اور قرب وصال لازوال پیدا ہوتے ہیں- [71]

یقین:

  1. یقین کی تین اقسام ہیں اور تین مقام ہیں جب ہی تینوں یکجا ہو جاتے ہیں تو یقین کامل ہو جاتا ہے؛اور وہ تین اقسام یہ ہیں: (1) علم الیقین(2) عین الیقین (3) حق الیقین - [72]

راہِ معرفتِ الٰہی:

  1. راہِ معرفتِ الٰہی بھی تین قسم میں منقسم ہے:اول: ابتدائی علم الیقین، دوم: متوسط عین الیقین اور سوم : انتہائے حق الیقین- [73]

ولی:

  1. ولیوں کی تین قسمیں ہیں: 1-ولی دُنیا ظلّ اللہ، 2-ولی عقبیٰ زاہد عابد اور 3- اہل اللہ-اہل اللہ وہ ہے جو ظّلِ اللہ کی تمام اقسام سے تسکین دیتا ہے،کیو نکہ ظل اللہ کی جمعیت خلق خدا کو آ رام پہنچاتی ہے- [74]

انسان:

  1. انسان تین قسم کے ہیں:1-اہل حجاب محجوب،محض حیوانِ ناطق، 2-اہل جذب مجذوب، احمق مجنون اور 3-اہلِ محبت محبوب انسان جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا مرتبہ ہے- [75]

مشاہدہ:

  1. مشاہدہ 15 قسم کا ہے :14 قسم کا مشاہدہ ناسوت کے چودہ طبقات کا مشاہدہ ہے اور پندرھویں قسم کا مشاہدہ دونوں جہان سے بالاتر لاہوت لامکان کا مشاہدہ ہے -لاہو ت عین ذات کا مقام ہے جہاں پرفقط توحید باری تعالیٰ ہے-ہر ایک مقام کی شرح الگ الگ ہے- چنانچہ تسبیح زبان و نفس و قلب وروح و چاند و سورج و جن و فرشتےو شیطان و آگ و ہوا و پانی ومٹی و صورت شیخ کی مشاہدہ کی یہ14 اقسام ناسوتی ہیں جبکہ پندرہویں قسم کا مشاہدہ مقام فنا فی اللہ بقا باللہ ذات کامشاہدہ ہے جو سراسر توحید ہے - یہاں پر فقر کی تکمیل ہو جاتی ہے اور فرمایا گیا ہے ’’جب فقر کامل ہو تا ہے تو پھر اللہ ہی اللہ ہوتا ہے ‘‘-[76]

سوال:

  1. جان لے کہ سوال دو قسم کا ہے (1) طلب حرام کا سوال؛ یہ سوال حرام ہے- اس کیلئے حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’سوال کرنا حرام ہے‘‘-مطالبات شیطانی کیلئے سوال،ہوائے نفسانی کے لئے سوال،کھانے پینے خط دنیا فانی کے لیے سوال اور اس سے ملتے جلتے دیگر تمام سوال حرام ہیں- (2) طلب حلال کا سوال؛ یہ سوال حلال ہے جو سوال محبت الٰہی کی طلب میں اللہ تعالیٰ سے کیا جائے مطلق حلال ہےاگر یہ سوال حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہرگز نہ فرماتا:’’سوالی کو مت جھڑکو‘‘ فقیر کا سوال بھی ذکر اللہ ہے اور ذکر اللہ حلال ہے -[77]

عشق:

  1. عشق کی دو قسمیں ہیں ایک محمود (قابل تعریف) اور دوسرا یہود کا عشق-محمود عشق ربانی ہے-اللہ تعالیٰ کی محبت اور رسول اللہ (ﷺ) کی محبت-عشق یہود شیطانی ہےاور اس کی بنیاد زنا اور غنا ہے-جو بنیاد کو اکھاڑ دیتے ہیں اسی طرح حسن پرستی اور فسوق و فجور ہے- [78]

نماز:

  1. واضح رہے کہ نماز دو قسم کی ہوتی ہے- ایک مردہ دلوں کی جوخطرات و رسم و رسوم سے اداکی جاتی ہے، دوسری اہلِ دل کی جو حضوری قلب سے ادا کی جاتی ہے اور جس کا جواب باثواب ملتا ہے-چنانچہ حدیث میں آتا ہے: ’’نماز مومنوں کیلئے معراج ہے‘‘- وہ(اللہ تعالیٰ) زندہ اورسب کو تھامنے والا ہے- [79]

شوق:

  1.  شوق دو قسم کا ہے-شوق حق، جس سے روح جناب نبی اکرم (ﷺ) اور بندگی تک پہنچ جاتی ہے دوسرے شوق باطل جس سے نفس برسر بےحیا اور شرمندہ ہوتا ہے- [80]

خاموشی:

  1. خاموشی کی چار قسمیں ہیں: خاموشی کی پہلی قسم یہ ہے کہ متکبر اور ظالم اہل دنیا کے دکھلاوے کی خاموشی جو بوجہ تکبر  غریب اور مظلوم سے ہم کلام نہیں ہوتا-خاموشی کی دوسری قسم یہ ہے کہ اہل دکان اور بے باطن مشائخ کی خاموشی جو وہ اپنی عیب پوشی کیلئے از روئے مکر و فریب اختیار کرتے ہیں- خاموشی کی تیسری قسم یہ ہے کہ قلبی ذکر مومن کی خاموشی،کیونکہ وہ مراقبہ، ذکر اور فکر کے ذریعے اپنے دل ( کے لوتھڑے) کو کدورتوں اور ریا سے صاف کرتا ہے-خاموشی کی چوتھی قسم یہ ہے کہ عین العیان صاحب تصور کی خاموشی،کیونکہ وہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ معرفتِ الٰہی میں مستغرق رہتا ہے-[81]

لذت:

  1. اے جان عزیز! جاننا چاہئے کہ جہان میں چار لذتیں ہیں جن سے نفس کو توحظ حاصل ہوتا ہے- لیکن معرفت اور وصال کے لئے بمنزلہ حجاب کے ہیں- اوّل: نفس کا ذائقہ کی خاطر بڑے ذوق و شوق سے مختلف انواع و اقسام کے کھانے کھانا،دوم: عورت کی ہمبستری سے لذت اٹھانا کیونکہ شہوت نفس پر سوار ہوتی ہے- سوم: حکمرانی کی لذت، جو خلقت کیلیے وبال جان ہے- چہارم:  علم کے دائمی مطالعہ سے لذت کا حاصل ہونا جو لذت کمال ہے- یہ چاروں لذتیں نفس کو جان کے برابر عزیز اور لذیذ ہیں- لیکن جب پانچویں لذت معرفت الٰہی لقائے نور و ذات اور اسم اللہ ذات کے تصور کی لذت آتی ہے تو پہلی چاروں لذتیں بھول جاتی ہیں- ان چاروں لذتوں سے نفس ایسا بیزار متنقر ہو جاتا ہے جیسے بیمار کھانے سے-[82]

نقش:

  1. (نقش چار قسم کے ہیں) وہ نقش یہ ہے، تصور طریق، تصور رفیق،تصور تحقیق اور تصور دریائے عمیق- [83]

شیطان:

  1. شیطان دو قسم کے ہیں: ایک جن شیطان جو (عام) مشہور ہیں اور دوسرے نفسانی شیطان، کہ جیسے جاہل شیخ- [84]

وصال:

  1. وصال دو قسم کا ہے-ایک تجلٔی ِالہام ہے اور دوسرا تجلیٔ وصال میں کامل استغراق ہے جو مرشد طالبوں کو ان مراتب تک نہیں پہنچاتا اور انہیں غوث و قطب پر غالب نہیں کرتا وہ ناقص وناتمام ہے-کامل قادری شیر شہسوار کی مثل ہے بلکہ شیر بھی اس کے سامنے شرمندہ حال ہے لومڑی و گیدڑ اور کتے کی کیا مجال کہ شیر کے سامنے دم مارے- [85]

طالب:

  1. طالب دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک حضرت موسی کلیم اللہ ؑ کی طرح علمِ ظاہر کا نمائندہ ہوتا ہے جو کلیم اللہ تو ہوتا ہے مگر اُس کی نظر گناہ پر رہتی ہے- دوسرا خضرؑ کی طرح علمِ باطن کا نمائندہ ہوتا ہے جس کی نگاہ باطن کی صحیح راہ پر ہوتی ہے- [86]

عدل:

  1. عدل بھی دو قسم کا ہے: ایک عادل ظاہر ہے جو علم شریعت کے مطابق قاضی اور بادشاہ کی گردن پر لازم ہے اس کے متعلق حضور نبی کریم (ﷺ) کا فرمان ہے: ’’گھڑی بھر کا عدل دونوں جہاں کی عبادت سے افضل ہے‘‘-دوسرا عدل باطن ہے جو تفکر محاسبہ نفس ہے یہ عدل اہل اللہ کی گردن پر لازم ہے اس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:’’گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہاں کی عبادت سے افضل ہے‘‘-[87]

موت:

  1. موت تین قسم کی ہے:(1) دنیاوی موت، (2) اخروی موت اور(3) مولا کیلیے موت- جو شخص دنیا کی محبت کے لئے مر گیا، بس وہ منافق مرا - جو آخرت کی محبت میں مرا ، بس وہ زاہد ہوکر مرا اور جو مولا کی محبت میں مرا،  بس وہ عارف ہو کر مرا - [88]

نظر:

  1. نظر کی سات قسمیں ہیں- ہر ایک کو تاثیر وجودیہ سے معلوم کرنا چاہیے-(1) نظر اللہ ،(2) نظر محمد (ﷺ)، (3) نظر اصحاب ہدایت اللہ، (4)نظر فقیر ولی اللہ، (5)نظر نفس، (6) نظر دنیا اور (7) نظر شیطان مگر نظر مولیٰ سب سے اعلیٰ ہے- [89]

جذب:

  1. جذب بھی دو قسم کا ہے: ایک جذب جمالی اور دوسرا جذب جلالی- [90]

شرک:

  1. شرک کی چار اقسام ہیں: (1)اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو عبادت کی نیت سے سجدہ کرنا،(2) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی نذر ماننا،(3) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بوقت ذبح نام پکارنا اور(4) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا- [91]

آگ:

  1. بے شک بنی آدم کے جسم میں 9 قسم کی آگ ہے:1-شہوت کی آگ،  2-حرص و طمع کی آگ،  3- نظر کی آگ،  4- غفلت کی آگ،  5-جہالت کی آگ،  6- پیٹ کی آگ،  7-زبان کی آگ،  8- گناہ کی آگ  اور 9- فرج (شرمگاہ )کی آگ، ( آگ بجھانے کے اسباب) شہوت کی آگ روزہ ہی سے بجھتی ہے - حرص وطمع کی آگ موت یاد کرنے سے دور ہوتی ہے، نظر کی آگ دل کے ذکر سے دفع ہوتی ہے، غفلت کی آگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے فرو ہوتی ہے، جہالت کی آگ علم کی باتیں سننے سے دور ہوتی ہے، پیٹ کی آگ بجھانے کیلیے حلال کی روزی کھانا ضروری ہے، زبان کی آگ کے دفعیہ کیلئے قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے، گناہ اور معصیت کی آگ بجھانے کیلئے استغفار کرنا لازمی ہے اور شرمگاہ کی آگ حلال نکاح کرنے سے ہی دور ہوتی ہے - [92]

خواب:

  1. جان لے کہ خواب اور اہل خواب تین قسم کے ہوتے ہیں: (1)  ظالم جاہل مردہ دل اہل دنیا کے خواب محض خیال ہی ہوتے ہیں کہ ظلمت و گمراہی کی وجہ سے اُن کے دل سیاہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی نگاہ رحمت سے دور ہو جاتے ہیں -(2) علمائے تفسیر و احادیث کے خواب قال و اعمال احوال و کمال علم کے خواب ہوتے ہیں-(3) اگر کوئی کسی خوب صورت نو جوان کو سفید لباس میں دیکھتا ہے تو وہ ابھی ابتدائی درجے میں ہے اگر کسی روحانی مجلس میں لباس اور دوبال دیکھتا ہے تو وہ متوسط درجے میں ہے اور اگر وہ نورانی مجلس میں سفید ریش اور سرخ لباس کو دیکھتا ہے تو وہ منتہی درجے میں ہے- [93]

گوشت:

  1. دنیا میں گوشت چار قسم کے ہیں، اس لئے گوشت خوری لذتیں بھی چار ہیں، چناچہ فرمایا گیا ہے-ایک گوشت، گوشت کے ساتھ ہوتا ہے،ایک گوشت، گوشت کے اندر ہوتا ہے، ایک گوشت، گوشت کے اوپر ہوتا ہے اور ایک گوشت گوشت کھاتا ہے-[94]

قسمت:

  1. قسمت بھی چار قسم کی ہے- فقراء کی قسمت یہ ہے کہ جو کچھ کھاتے پیتے ہیں اُس سے ان کے وجود میں معرفتِ الٰہی کا نور پیدا ہوتا ہے،اِن کا رزق توکل کی راہ سے آتا ہے-توکل اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جس ذریعے سے بھی رزق پہنچاتا ہے وہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں [95]

فرض:

  1. جان لے کہ فرض دو قسم کا ہے، ایک فرضِ وقتی اور دوسرا فرضِ دائمی-فرضِ وقتی نماز و روزہ وحج و زکوٰۃ ہے اور فرضِ دائمی ذکر اللہ و مشاہدہِ معرفتِ الٰہی ہے-فرض ِدائمی کو غالب رکھ اور فرض ِوقتی کی نگہبانی کر اور اُس کی ادائیگی کیلئے ایک وقت سے دوسرے وقت تک انتظار کر- [96]

شاعر:

  1. شعراء کی بھی دو اقسام ہیں:ایک وہ شاعر ہیں جو غیر ماسویٰ اللہ سے ہٹ کرمحض واحد ذاتِ حق تعالیٰ کی توحید بیان کرتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدح کے بغیر زبان نہیں کھولتے- ایسے شعراء ذاتِ حق سے واقف ہوتے ہیں-اُن صاحبِ ہدایت شعراء کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:بےشک عرشِ الٰہی کے نیچے ایک خزانہ ہےجس کی چابی شعراء کی زبان ہے[97]

تفکر:

  1. تفکر بھی تین قسم کا ہے- مبتدی عالمِ عام کا تفکرسال بھر کی عبادت کے برابر ہے، متوسط عالمِ خاص کا تفکر ستر سال کی عبادت کے برابر ہےاور منتہی عالمِ خاص الخاص صاحبِ مشاہدۂ وصال کا تفکر جہان بھر کے تمام جنوں اور انسانوں کی مجموعی عبادت سے بڑھ کر ہے- [98]

جسم:

  1. جسم بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جسم ہے جوطاعت شعار ہو کر اشتغال اللہ (تصور اسم اللہ ذات) میں محورہتا ہے اور نہایت ہی شوق سے لاالہ الاالله کا ذکر جاری رہتا ہے یہ جسم سراسر نور ہے- دوسرا جسم وہ ہے جو مردہ دل ہو کر حرص دنیا اور بسیار خوری میں مبتلا رہتا ہے یہ جسم سراسر نار(آگ) ہے نور جنت ہے اور نار جہنم- [99]

توبہ:

  1. توبہ بھی تین قسم کی ہے اور اُس کے آثار و نشان بھی تین ہیں جو آدمی جہالت سے توبہ کرتا ہے اور اخلاص سے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اُس پر یکبارگی ابتدا سے انتہا تک سارا علم کھل جاتا ہے- جو عالم علم پر عمل کرتا ہے وہ ذکر فکر سے عبادتِ ربانی میں غرق ہوکر دنیا و اہلِ دنیا کی رغبت سے تائب ہوجاتا ہے اور اُس پر یک دم معرفتِ الٰہی واضح ہوجاتی ہے بلکہ اُسے مجلسِ محمدی (ﷺ)  کی دائمی حضوری بھی نصیب ہوجاتی ہے اور وہ صاحبِ نظر ناظر بھی بن جاتا ہے- جو آدمی پورے اخلاص اور تصدیقِ دل کے ساتھ فسق و فجور اور راہزنی سے توبہ کرلے اور نیت و توجہ سے تھوڑی سی مٹی اُٹھالے تو مٹی اُس کے ہاتھ میں سونا بن جائے گی- ایسی ہی توبہ مقبول ہوتی ہے اور اِس سے صاحبِ توبہ لایحتاج ہوجاتا ہے- ارے بھائی! یہ ساری برکت لقمۂ حلال کی ہے- [100]

قم:

  1. قُم بھی دو قسم کا ہے ایک قُم ’’باِذنِ اللّٰہِ‘‘ہے جس میں فقر تمام ہے اور دوسرا ’’قُم باِذنِی‘‘ ہے جو ناقص و خام و کفر تمام ہے،اس مقام سے خبردار رہو کہ اس مقام پر منصور نے ’’اَناَ الحَقُ‘‘ کہا حالانکہ وہ تمامیتِ فقر تک نہ پہنچ سکے اور اُنہیں سولی پر چڑھادیا گیا-دانا بن اور یادرکھ کہ چار جواہر کو وجود کے اندر جمع کردیا گیا اور کل و جز کے تمام دفاتر کی جمع بندی بھی صدق و عدل کے ساتھ خطرات سے پاک دل میں کردی گئی ہے-ابتداۓ جمعیت علم ہے اور تمامیتِ علم کے بیس جزوہیں-متوسط جمعیت حلم ہے جو صرف ایک جز ہے-جب علم کے بیس جز حلم کے ایک جزو میں آجاتے ہیں تو حلم کا تعلق حلیم سے قائم ہو جاتا ہے اور حلیم نام ہے اللہ کا- [101]

آدمی:

  1. ہاں! آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک صاحبِ الفاظ اور دوسرے صاحبِ راز-  [102]

بھوک:

  1. بھوک بھی تین قسم کی ہوتی ہے، ایک طلبِ مولیٰ کی بھوک ہے جس سے دل میں محبت و مؤدت اور مشاہدۂ ربوبیت پیدا ہوتا ہے-دوسری طلبِ عقبیٰ کی بھوک ہے جس کی خاطر دونوں جہان پریشان ہیں-پس تُو طلبِ مولیٰ اختیار کر تاکہ تجھے اذنِ کن عطا ہو-جب تو کنۂ کن تک پہنچ گیا تو تُو لایحتاج ہوجائے گا-جان لے کہ عارفانِ باللہ کے سامنے ہر رات خواب یا مراقبہ میں دنیا و عقبیٰ اپنی پوری زیب و زینت کے ساتھ پیش ہوتی ہیں لیکن یہ صفا کیش فقرأ دنیا کے سر پر جوتے مارتے ہیں اور عقبیٰ کی طرف دیکھتے ہی نہیں کہ یہ لوگ دیدارِ الٰہی کے مشتاق ہیں- [103]

چلہ:

  1. چلہ کی تین اقسام ہیں:اول چلہ زنانہ کہ ایک ہی روزہ سے بارہ سال گزار دے اور بعدازاں افطار کرے- چلہ مردانہ یہ ہے کہ ہر روز ایک پوری گائے کا گوشت بغیر دمچی، ہڈیوں اور کھال اور چالیس سیر گھی اور چالیس سیر آٹا روزانہ پکائے اور تمام کھائے- بارہ سال تک اسی طرح کرتا رہے، لیکن بول و براز اس کے وجود سے باہرنہ نکلے-[104]

مجذوب:

  1. مجذوب بھی دو قسم کے ہوتے ہیں- ایک سالک مجذوب ، دوسرے مجذوب سالک یہ دونوں ہی خام اور نامکمل ہیں-[105]

توفیق:

  1. توفیق بھی چار قسم کی ہے: (1) توفیق علم کہ جس کا تعلق انسانی شعور سے ہے،(2)توفیقِ تصورِ اسم اللہ ذات جو اہلِ حضور اؤلیاء اللہ کا نصیبہ ہے، (3)توفیقِ تصدیقِ دل جو ذکرِ قلبی سے حاصل ہونے والے مشاہدۂ انوارِ توحید اور شرفِ دیدارِ پروردگار سے نصیب ہوتی ہے اور جس سےباطن آباد رہتا ہے-(4)وہ توفیق کہ جس سے بذریعہ تصورنفس فنا ہوجاتا ہے اور بذریعہ تصرف روح بقا حاصل کرلیتی ہے اور طالب عارف باللہ ہوکر اللہ تعالیٰ کی نظر میں منظور ہوجاتا ہے- [106]

غنایت:

  1. غنایت پانچ قسم کی ہے-اُس شخص کو مطلق غنی کہتے ہیں جسے پانچ قسم کی غنایت اور پانچ قسم کے خزانوں پر تصرف حاصل ہواور وہ انہیں اپنے عمل میں رکھتا ہواور اُن سے ہر قسم کی نعمت و دولت حاصل کرتا رہتا ہو- ایسے شخص کو دونوں جہان کی زندگی حاصل ہوتی ہے- وہ کبھی نہیں مرتا کہ اُس نے خود کو خدا کے سپرد کر رکھا ہوتاہے- [107]

قاضی:

  1. قاضی دو قسم کے ہوتے ہیں-ایک قاضیٔ ظاہر اور ایک قاضیٔ باطن-آدمی کے وجود میں نفس و روح اپنے باہمی معاملات میں مدعی اور مدعی علیہ کی مانند ہوتے ہیں- ان دونوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے والاتوفیقِ الٰہی سے صفات القلب کا حامل حق شناس قاضی ہوتا ہے- [108]

گداگر:

  1. گداگر دو طرح کے ہوتے ہیں،ایک تووہ ہیں کہ جنہوں نے شہوت و ہوا کو ماررکھا ہےاور وہ مقربِ رحمٰن ہوچکے ہیں- یہ لوگ اتنے عظیم الشان مرتبے کے مالک ہیں کہ جس کی شرح بیان نہیں کی جاسکتی- اس قسم کے فقیروں کو فقرِ محمدی (ﷺ) حاصل ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوۃ و السلام کا فخر ہے- یہ لوگ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے ہم مجلس، ہم دم اور ہم قدم ہوتے ہیں-یہ نہ تو کسی سے آرام کا سوال کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے روپے پیسے کی امید رکھتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس فقر کی نورانیت کا سرمایہ ہوتا ہے- حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر کا نور مجھ سے ہے‘‘- ایسے فقیر راہِ خدا کے مشکل کشا راہنما ہوتے ہیں- دوسری قسم کے گداگر فقیر مطلق مردود ہیں، سر اور داڑھی منڈواتے ہیں، وہ بےحیا ہیں اور معرفتِ خدا سے محروم ہیں،اِسے فقرِ مکب(منہ کے بل گرانے والا فقر)کہتے ہیں کیونکہ ایسے فقیرشرع محمدی (ﷺ) اورقدمِ محمدی (ﷺ) کو اختیار نہیں کرتے- [109]

رزق:

  1. رزق دو قسم کا ہے: ایک رزقِ مملوک ہےاور دوسرا رزقِ مرزوق- زیادہ مال و زر جمع کرنا جمعیتِ نفس اور اعتبارِ خلق کی خاطر ہوتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک غنایت پہلے ہےاور ہدایت بعد میں لیکن تو سب سے پہلے دل کو سلیم بنا کر تسلیم و رضا اختیار کرتاکہ تجھے کنہ کن سے قربِ الٰہی کے مراتب حاصل ہوں- [110]

حرفِ آخر:

درج بالا تمام اصطلاحات کی درجہ بندی اور ان کی اقسام کو بیان کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ منہجِ سلطان باھُو قدس سرہ العزیز سے تعلق رکھنے والے تمام احباب کے مطالعے میں آپ قدس سرہ العزیز کی تعلیمات میں سے ایک منفرد پہلو کو واضح کیا جائے جس سے قارئین مستفید و مستفیض ہوسکیں-جبکہ آپ قدس سرہ العزیز کی علمی بصیرت اور زبانِ ادب میں آپؒ کی خدمات کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکے کہ میدانِ تصوف میں آپ سالک کی رہنمائی کیلئے کس قدر وسعتِ نظری سے کام لیتے ہیں جو کہ آپؒ کے علم و فہم کی بلندی اور ادراکِ مطالب کا ارتفاع بیان کرتا ہے-

٭٭٭


[1](عین الفقر ،ص: 339)

[2]( جامع الاسرار ،ص: 209)

[3](نورالہدیٰ ،ص :35-37)

[4](جامع الاسرار ،ص: 101)

[5](جامع الاسرار ،ص: 149)

[6](محک الفقر کلاں، ص: 343)

[7] (عین الفقر ، ص:167)

[8](جامع الاسرار، ص: 141)

[9](محک الفقر خورد،ص: 71)

[10](عین العارفین،ص:45)

[11](محکم الفقراء ص:27)

[12](محک الفقر کلاں،ص:517)

[13](عین الفقر ،ص: 205)

[14] (نور الہدیٰ خورد،ص:79)

[15] (محک الفقر کلاں،ص:259)

[16](قرب دیدار ،ص:141)

[17](اسرارالقادری، ص: 165)

[18](اسرار القادری، ص: 71)

[19](توفیق الہدایت ، ص: 89)

[20] (شمس العارفین، ص:81)

[21](محک الفقر کلاں،ص:233-235)

[22](محک الفقر کلاں،ص:233)

[23](کلید التوحید کلاں،  ص:535)

[24](جامع الاسرار ،ص: 185)

[25](عین الفقر، ص :267)

[26](عین الفقر، ص :267)

[27](توفیق الہدایت،ص: 125)

[28](فضل اللقاء،ص:31)

[29](جامع الاسرار ،ص: 187)

[30](عین الفقر، ص: 129)

[31](محبت الاسرار، ص:77-79)

[32](محک الفقر کلاں،ص:71)

[33](دیدار بخش خورد، ص:25-27)

[34](عین الفقر،  ص:37)

[35](محک الفقر کلاں،ص:437)

[36](محک الفقر کلاں ، ص: 583-585)

[37](محک الفقر کلاں ، ص: 581)

[38](محک الفقر کلاں،ص:451)

[39](محک الفقر کلاں،ص:361)

[40](کلید التوحید کلاں،ص: 217)

[41](کلید التوحید کلاں،ص:275)

[42](کلید التوحید کلاں،ص:275)

[43](شمس العارفین، ص:81-79)

[44](اسرار القادری، ص: 53)

[45](اسرار القادری، ص: 55)

[46](امیر الکونین ، ص: 273)

[47](محک الفقر کلاں ، ص: 373)

[48](اسرار القادری،ص:123)

[49](امیر الکونین ،ص: 277)

[50](امیر الکونین ، ص : 371)

[51](مفتاح العارفین،ص: 121)

[52](امیر الکونین،ص:133-135)

[53](محک الفقر کلاں،ص:337-339)

[54](امیر الکونین،ص:259)

[55](امیر الکونین،ص:83)

[56](امیر الکونین ، ص: 183)

[57](امیر الکونین،ص:73)

[58](قربِ دیدار،ص:99-101)

[59] (امیر الکو نین،ص:493)

[60](امیر الکونین،ص:491)

[61](امیر الکونین ، ص: 373)

[62](امیر الکونین،ص:295-297)

[63](عقل بیدار ،ص:339)

[64](محک الفقر کلاں:151)

[65](جامع الاسرار،ص: 139)

[66](جامع الاسرار،ص: 145)

[67](جامع الاسرار،ص: 137)

[68](جامع الاسرار ،ص: 175)

[69](نور الہدیٰ ،ص:21-23)

[70](شمس العارفین ،ص:95-93)

[71](نور الہدیٰ خورد،ص:89-91)

[72](کلید التوحید کلاں ،ص:555)

[73](مفتاح العارفین، ص: 45)

[74](عین العارفیں،ص:93)

[75](عین الفقر ،ص:327)

[76](عین الفقر ، ص:97)

[77](عین الفقر ، ص :293)

[78](محک الفقرخورد،ص: 123)

[79](فضل اللقاء،ص:69)

[80](فضل اللقاء،ص:103)

[81](قرب دیدار،ص: 91)

[82](قربِ دیدار،ص:82)

[83](کشف الاسرار،ص:27)

[84](کشف الاسرار،ص:37)

[85](کلیدالتوحید خورد،ص:26)

[86](محک الفقر کلاں، ص:433-435)

[87](مجالسۃ النبی خورد،ص:27)

[88](محک الفقر خورد،ص: 48)

[89](محک الفقر خورد،ص:27)

[90](محک الفقر خورد،ص:55)

[91](محک الفقر خورد،ص:63-65)

[92](محک الفقر خورد،ص:117)

[93](محک الفقر کلاں،ص:387-389)

[94](محک الفقر کلاں،ص:315)

[95](محک الفقر کلاں،ص:355)

[96](محک الفقر کلاں، ص: 29)

[97](محک الفقر کلاں،ص:195)

[98](نورالہدیٰ،ص:415)

[99](محک الفقر کلاں،ص:193)

[100](محک الفقر کلاں،ص:459)

[101](محک الفقر کلاں،ص:419)

[102](محک الفقر کلاں،ص:639)

[103](محک الفقر کلاں،ص:553)

[104](محکم الفقراء،ص:81)

[105](مفتاح العارفین، ص: 49)

[106](نورالہدیٰ کلاں،ص:385)

[107](نورالہدیٰ،ص:195)

[108](نورالہدیٰ،ص:169)

[109](نورالہدیٰ،ص:119)

[110](نورالہدیٰ،ص:87)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر