سوئے ہوئے مشرق کا بیدار محافظ

سوئے ہوئے مشرق کا بیدار محافظ

سوئے ہوئے مشرق کا بیدار محافظ

مصنف: مفتی مہرمحمدساجداقبال مئی 2017

حریّت اور آزادی کہنے کو تو دو الفاظ ہیں مگر پانے کو خون کی قیمت مانگتے ہیں،اِن کی قدر بھی صرف وہی جانتے ہیں جو اپنے خون کے عوض انہیں خریدتے ہیں -جس کے ترازو کے ایک پلڑے میں قربانیوں کا سودا نہ ہو اس کے دوسرے پلڑے میں یہ دو لفظ نہیں رکھے جاتے-آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہیے مٹی کے اُن ذروں کو جو آزادی و حریت ِ مِلّی کی حفاظت میں قربان ہونے والوں کی قبر پہ پڑے ہوں-قابلِ فخر ہیں وہ باپ جن کی صُلب سے جانثارانِ اسلام پیدا ہوں،قابلِ صد رشک ہیں وہ مائیں جن کی آغوش میں شمعِ حریت کے پروانے پروان چڑھیں اور قابلِ صد مُبارک ہے وہ قوم جس کی صفیں پے بہ پے آزادی کےمتوالوں سے بھری رہیں-

آج ،جب ہر طرف مایوسیوں کا ڈیرہ ہو، ناامیدیوں کے چرچے ہوں اور دامنِ یقین ہاتھ سے چھوٹتا جا رہا ہو تو ایسے میں جب ہم پلٹ کر اپنی تاریخ میں جھانکتے ہیں تو ایسے ایسے شاہکار ملتے ہیں جن کے کردار اور عمل کی قوت ہمارے ناتوان ارادوں کو چٹانوں کی سی مضبوطی عطا کرتی ہے جن کی سیرت کی ایک ادنیٰ سے جھلک بھی ہمیں ایک نیا جذبہ،نیا جوش اور نیا ولولہ بخشتی ہے-اِس لئے آج ہم حریت و آزادیٔ اسلامیانِ ہند کے متوالے،مُجاہدِ اسلام،شیرِ میسور ، میر فتح علی ٹیپو سُلطان شہید (رحمتہ اللہ علیہ) کی سیرت کی ایک جھلک دیکھ کر اپنے عزم و ارادہ کو تقویت بخشیں گے-

خاندان ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ):

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کے پَر دادا ’’شیخ ولی محمد‘‘بیجا پور کے فرما روا محمد عادل شاہ کے عہد حکومت میں اپنے بیٹے محمد علی کے ساتھ دہلی سے گلبرگہ آئے-شیخ ولی محمد ایک دین دار اور صالح آدمی ہونے کی وجہ سے معروف روحانی شخصیت شاہ صدر الدین حسینی المعروف حضرت خواجہ گیسو دراز (رحمتہ اللہ علیہ)  کی درگاہ سے وابستہ ہو گئے اور انہیں گزر اوقات کے لیے وہاں سے وظیفہ ملنے لگا-شیخ ولی محمد نے درگاہ حضرت گیسودراز(رحمتہ اللہ علیہ) کے ایک خادم کی بیٹی سے اپنے بیٹے محمد علی کی شادی کی-شیخ ولی محمد کی وفات کے بعد محمد علی بیجا پور چلے گئے پھر بیجا پور سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ’’کولار‘‘چلے گئے وہاں کے حاکم شاہ محمد سے ان کی پہلے سے شناسائی تھی-حاکم نے خوش دلی سے اُن کا خیر مقدم کیا اور اپنی جائیداد کا مہتمم مقرر کیا-

شیخ محمدعلی کے چار بیٹے تھےمحمد الیاس،شیخ محمد،محمد امام اور فتح محمد-محمد علی کی وفات کے بعد فتح محمد نے ’’کولار‘‘کی سکونت ترک کر دی اور نواب سعداللہ خان والیٔ ارکوٹ کی ملازمت اختیار کر لی-نواب سعداللہ خان نے فتح محمد کو جمعدار بنادیا اور دو سو(۲۰۰)پیادوں اور پچاس (۵۰)سواروں کے دستے کی کمان اس کے سپرد کر دی-۱۷۲۱ء[1] میں فتح محمد کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام حیدر علی رکھا گیا -حیدر علی بچپن ہی سے زیادہ تر وقت شکار میں گزارتے تھے اور گھوڑ سواری وشمشیر زنی ان کا محبوب مشغلہ تھا -

ولادتِ شہید :

حیدر علی کی دوشادیاں تھیں دوسر ی شادی گورنر معین الدین خان کی بیٹی فاطمہ بیگم المعروف بہ فخر النساء سے ہوئی -جب طویل عرصہ اولاد نہ ہوئی تو  بیگم فخر النساء کےساتھ حیدر علی نے ارکوٹ میں مشہور ولی اللہ حضرت ٹیپو مستان کی درگاہ پر حاضر ی دی اور صالح اولاد  کی پیدائش کے لیے دعا کی-اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو (بمطابق ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء )  ایک بیٹا عطا فرمایا تو اس کا نام اپنے دادا فتح محمد خان کے نا م پر فتح علی رکھا اور پکارنے کےلئے کنیت اُس ولی کامل کے نام پہ ٹیپو مستان رکھی جسے بعد میں ’’ٹیپو سُلطان‘‘ کہا گیا -

علمی قابلیت :

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ) اپنے والد نواب حیدر علی کی ذاتی دلچسپی سے ایک عالم فاضل اور مدبر حکمران بنے ، اُنہیں تمام مروجہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ  فن کتابت ،حکمت،تجارت، تقابلِ ادیان، فوجی معاملات اور دیگر بے شمار ایسے امور میں ید طولیٰ حاصل تھا - ٹیپو سلطان مصنفینِ کتب کی بہت تکریم کرتے،علماء اور شعراء کی سر پرستی فرماتے اور خود بھی مختلف موضوعات پہ کتابوں کے مصنف تھے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کی اس علمی قابلیت کو سراہتے ہوئے انگریزی فوج کے کرنل کرک پیڑک لکھتے ہیں:

’’سلطان کی تحریر  دوسری تحریروں سے بالکل ممتاز ہوتی تھی  اس قدر مختصر اور پُر معنی ہوتی کہ ایک ایک لفظ سے کئی کئی معنی نکلتے تھے اس کی تحریر کا خاص وصف یہ تھا کہ ایک ہی نظر میں پہچانی جاتی تھی کہ یہ سلطان کے قلم سے نکلی ہے[2]-  

بقول مسٹر کیمبل:

سلطان نہایت آسانی سے نظم و نثر لکھتا تھا اور اس کے مضامین میں ایک خاص شان پائی جاتی تھی[3]-

اللہ پاک نے سُلطان شہید(رحمتہ اللہ علیہ)کو نہ صرف علمی قابلیت سے مالا مال کیا تھا بلکہ فروغ علم کے جذبے سے بھی مالا مال فرمایا تھا - ’’سرنگا پٹم‘‘ میں جا مع الامور کے نام سےقائم کردہ یونیورسٹی اسی چیز کا منہ بولتا ثبوت ہے-جس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ صنعتی فنون کی تعلیم بھی دی جاتی تھی-

اللہ پاک نے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کو مطالع کا وسیع ذوق عطا فرمایا تھا  جو کتاب آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے زیر مطالعہ رہتی  مطالعہ کر لینے کے بعد آپ(رحمتہ اللہ علیہ)اس کے اختتام پر اپنی مہر ثبت فرماتے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ)اپنی مجلد کتب کے چاروں کونوں پر اللہ(جلاجلالہ)،محمد(ﷺ)،فاطمہ(رضی اللہ عنہما)حسن و حسین(رضی اللہ عنہُ)اور خلفائے راشدین (رضوان اللہ علیہ اجمعین) کے اسماء مبارکہ منقش فرماتے-اسی طرح جلد کے اوپر’’سرکارِ خداداد‘‘اور نیچے ’’اللہ کافی‘‘رقم ہوتا-یہ چیز نہ صرف آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے ذوق مطالعہ کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول پاک (ﷺ) اور اللہ تعالیٰ کی محبوب ہستیوں کے ساتھ والہانہ محبت کو بھی ظاہر کرتی ہے کیونکہ یہی چیز میراثِ مسلمانی ہے جس سے آج  کےمسلمان نوجوانوں کے سینے خالی ہیں-آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کا بہت بڑا کتب خانہ تھا-جب انگریزوں نے ہندوستان میں قبضہ جما لیا تو انہوں نے تمام کُتب کو اپنے قبضہ میں لے کر انگلستان بھجوا دیا-

زہد وتقویٰ:

سُلطان شہید (رحمتہ اللہ علیہ) کا روزانہ کا معمول تھا  کہ بعد از نماز فجر طلوعِ آفتاب تک قرآن پاک کی تلاوت فرماتے اورآپ(رحمتہ اللہ علیہ) زندگی کا ہر سبق قرآن سے لیتے تھے،آپ کے سونے اور بیٹھنے والے  کمروں کی  دیواریں آیاتِ قرانی سے مزین ہوتیں،چھت پر بھی آیاتِ قرآنی کا نقش تھا اور یہ تمام آیاتِ قرآنی جہاد کے متعلق تھیں- نماز کی سختی سے پابندی کرتے -جب مسجد اعلیٰ کے افتتاح کے وقت سوال کیا گیا کہ پہلی نماز وہ پڑھائے گا جو صاحب ترتیب(یعنی جس  نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی)ہوتو سب لوگ جو حاضر تھے خاموش ہو گئے اور جب کوئی بھی صاحبِ ترتیب نہ نکلا تو ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ) نے آگے بڑھ کر کہا الحمداللہ!مَیں اپنے والد کی تربیت اور اساتذہ کے فیضان سے صاحب ِ ترتیب ہوں چنانچہ پہلی نماز کی امامت خودٹیپو  سلطان(رحمتہ اللہ علیہ)نے کرائی-

بقول مصنفِ’’ارمغانِ حیدری‘‘:-

’’شاہ غازی کے صاحبان سے ہم نے سنا ہے کہ سلطان اپنے روزِ شہادت تک کسی وقت، کسی حالت میں بے وضو نہیں رہےحتیٰ کہ کئی معرکوں میں بذات خود مجادلہ ومقاتلہ کا ارادہ کرتےتو اسلحہ باندھنے سے قبل وضوء سے فراغت پاتے-سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کی مبارک نصیحت یہ تھی کہ مسلمانوں کےطہارت میں رہنےسے قلب کی صفائی ہوتی ہے-  

سیرتِ ٹیپو سُلطان ’’نشانِ حیدری‘‘ کے مصنّف  لکھتے ہیں :

’’ٹیپو سلطان  (رحمتہ اللہ علیہ) اس قدر کامل الحیاء تھا کہ سوائے اس کے گھٹنوں اور کلائیوں کے اس کے جسم کو کبھی کسی نے برہنہ نہیں دیکھا یہاں تک کہ حمام میں بھی وہ اپنے تمام جسم کو چھپائے رکھتے-  

مذہبی رواداری:

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)ایک سچے مسلمان ہونے کے باوجود مذہبی متعصب نہیں تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے ’’مالابار‘‘ کو فتح کرلیا تو آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کو پتا چلاکہ  چند سپاہیوں نے ’’گروایور‘‘کے مندر پر تیل یا گھی چھڑک کرآگ لگانے کی کوشش کی تھی تو آپ  راتوں رات سفر کرکے ’’گروایور‘‘ کے مندر پر پہنچے،ان سپاہیوں کو سزا دی،پھر  مندر کی مرمت کروانے کا حکم دیا اور یہ فرمان جاری کیا کہ آئندہ اس شہر کی آمدنی سرکاری خزانے میں جمع کروانے کی بجائے اس مندر پر لگائی جائے-سلطنتِ خداداد کے  تقریباً ہر مندر میں آپ کی دی ہوئی چیزیں موجود تھیں کیونکہ آپ  کااپنی ہندو رعایا کے ساتھ نہایت ہی عمدہ اور بے تعصبانہ سلوک تھا -آپ کے بعض سیرت نگاروں نے اس کی ایک وجہ تو آپ کی دین داری لکھی ہے کہ دینِ حق کو سمجھنے والا سُنتِ مصطفوی (ﷺ) و سُنتِ فاروقی (رحمتہ اللہ علیہ) کے مطابق دیگر مذاہب کے ماننے والوں پہ زبردستی نہیں کرتا-اس کے علاوہ یہ وجہ بھی تھی کہ ریاست کی اکثریت ہندو تھی جنہیں دشمنانِ ٹیپو سُلطان ہمیشہ سُلطان کی اسلام پسندی کی وجہ سے بغاوت پہ اکساتے رہتے-آپ ہر مکتبِ فکر،مذہب کے علماء و فقراء او ر حتی کہ انگریزوں کے غیر مسلح عیسائی مبلغین کی بھی عزت کرتے  تھے،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے ہندو مندروں کے لیے نہایت فیاضی کے ساتھ جائیدادیں وقف کی تھیں،آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے  محلات کے قریب مندروں کی موجودگی آپ کی وسیع النظری اور رواداری کاکھلا ثبوت ہے-

سُلطان کے عہد و زمان کی مختصر ترین جھلک:

سلطان ٹیپو (رحمتہ اللہ علیہ)کے زمانہ پہ اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ وہ دور ایک بہت بڑا تاریخی موڑ تھا جس میں دُنیا کی تاریخ اور خاص کر ہندوستان کی تاریخ پہ بے پناہ مشکل وقت آیا اور اُس وقت اسے سنبھالنے والا کوئی نہ تھا اور سُلطان اِس میدان میں بالکل تنہا تھا-دور دور تک کوئی ان کا محرمِ راز نہ تھا جیسا کہ اقبال نے بھی سُلطان شہید کےلئے کہا ہے کہ’’مشرق اندر خواب و اُو بیدار بُود‘‘ کہ جب سارا مشرق غفلت کی گہری نیند سو رہا تھا اور مغربی سامراجی طاقتیں نو آبادیات بناتے ہوئے دُنیا کو غُلام کر رہی تھیں اُس وقت صرف سُلطان ٹیپو ہی وہ واحد ایشیائی حکمران تھا جو پوری کھلی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ و مقابلہ کر رہا تھا - ٹیپو سلطان کے پیدا ہونے سے صرف چار عشرے قبل سلطنتِ مغلیہ کا آخری عظیم حکمران اورنگزیب عالمگیر فوت ہوا اور یوں سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تھا - شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی (رحمتہ اللہ علیہ)کی دعوت پہ دہلی کو مرہٹوں کی یلغار سے بچانے کےلئے حضرت احمد شاہ ابدالی (رحمتہ اللہ علیہ) جہاد کر چکے تھے-بنگال میں میر جعفر غدار مردود کی ملت فروشانہ معاونت سے جوان سپہ سالار نواب سراج الدولہ شہید ہو چکے تھے اور بنگال و اڑیسہ وغیرہ انگریز کے قبضے میں جا چکے تھے-(نواب سراج الدولہ کے خلاف لڑنے والے انگریزی جرنیلوں خاص کر لارڈ کلائیو کی تباہ کاریوں اور سیاہ کاریوں پہ دیکھئے کارل مارکس کی کتاب ’’دی برٹش رول اِن اِنڈیا‘‘ ) -پرتگال،اٹلی،فرانس،برطانیہ،ہالینڈ،سپین اور دیگر یورپی طاقتیں ایشیا،شمالی و جنوبی امریکہ،افریقہ،کنیڈا و آسٹریلیا وغیرہ کو اپنی کالونیاں بنا رہے تھے-سلطان ٹیپو ہی کے زمانے میں فرانس میں مشہور ’’ڈکٹیٹر نپولین بونا پارٹ‘‘برسرِ اقتدار تھا جس کی سلطان شہید سے خط و کتابت بھی رہی-انقلابِ فرانس بھی اُسی زمانے میں آیا -اُدھر امریکہ جسے اُس وقت ’’نئی دُنیا‘‘ کہا جاتا تھا وہاں جارج واشنگٹن وغیرہ بھی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے ، نواب حیدر علی  اور ٹیپو سُلطان کی برطانیہ کے خلاف جد و جہدِ آزادی کے چرچے امریکہ کے برطانیہ مخالف لیڈروں میں بھی عام تھے جارج واشنگٹن وغیرہ تک ان دونوں باپ بیٹا کی جنگی کامیابیوں کی اطلاعات پہنچتی رہتی تھیں-اُنہیں برسوں میں یعنی ۱۷۷۶ء میں امریکہ کا ’’اعلانِ آزادی‘‘ ہوا -سلطان ٹیپو کی شہادت ۱۷۹۹ء میں ہوئی اس کے بعد برطانوی آندھی کے سامنے کوئی بڑی دیوار نہ رہی ، پنجاب وغیرہ کے نواح میں سکھوں کی یورش تھی مگر وہ بھی کمزور پڑگئے اور شہادتِ سلطان کے اٹھاون برس بعد ۱۸۵۷ ءکی جنگ ہوئی جس کے بعد تاجِ برطانیہ کُل برصغیر کا حکمران ہو گیا -

جنگی قابلیت:

آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے بچپن ہی سے فن حرب میں کمال پیدا کر لیا تھا،آپ اپنے والد محترم کےساتھ جنگوں میں شریک ہوا کرتے اور بہادری کے جوہر دکھا کر دادِ شجاعت  حاصل کرتے-برٹش انڈیا کے معروف بیورو کریٹ لیون بی باؤرنگ نے بھی اپنی کتاب (Haidar Ali, Tipu Sultan, and the Struggle with the Musalman Powers of the South  ) میں سلطان ٹیپو کی جنگی صلاحیتوں کو بہت کھل کر سراہا ہے-مثلاً ایک جگہ لیون بی باؤرنگ لکھتا ہے : 

’’سلطان وزارت کا کام کر سکتا تھا ،سپہ سالاری میں طاق تھا ،بہترین بحری کمانڈر  تھا اور (بحریہ سے متعلق) سب قسم کے تکنیکی حربوں اور منصوبہ بندی میں زبردست مہارت رکھتا تھا-اس کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ جس وقت اس نے جنگی بیڑا تیار کرنے کا حکم دیا  تو اس نے جہازوں کے نمونے بھیجےتاکہ ان نمونوں کے مطابق جہاز تیار کیے جائیں-جہازوں کے پیندوں کے لیے خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ تانبے کے بنائے جائیں - سُلطان نے بحری جہازوں کی لکڑی کے لئے ایک جنگل وقف کردیاتھا ‘‘-

جدت و اِیجادات :

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کو جدت و ایجادات کا خاص شوق تھا ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ)  نے مردم شماری کروائی، نیا سکہ  جاری کیا اور اُن سکوں کے نام پاک نسبتوں کی بناء پر  احمدی،صدیقی، فاروقی،حیدری اورامامی وغیرہ رکھے-دنیا میں  پہلامزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کے سر پرسجا-ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ) نے ہر ہر شہر،قصبہ اور قلعہ کے دروازوں پر پہریدار مقرر کئے جس مقام پرچوری ہو جاتی تھی تو وہاں کے پہریدار کو ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا-اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پہریدار کی تنخواہ  کاٹ کر اس چوری کی تلافی کی جاتی تھی-ٹیپوسلطان(رحمتہ اللہ علیہ)نے اپنی سلطنت میں ہتھیار سازی  کو بہت ترقی دی اور میدان جنگ میں پہلی مرتبہ لوہےکے بنے راکٹوں کا استعمال کیا - برصغیر میں جدید گھڑی سازی کا پہلا کارخانہ بھی سلطان نے لگوایا-اس کے علاوہ اپنی ذاتی سرپرستی اور نگرانی میں ایک ہفت روزہ (اخبار ) جاری کیا-اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے  ہوئے سپاہیوں کے نام اور ٹیپوسلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کی ہدایات شائع ہوتی تھیں-

شجاعت و تدبیر :

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کی بہادری اور شجاعت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہ دست بدست جنگ کو زیادہ محبوب رکھتے تھے اور صرف پندرہ (۱۵)برس کی عمر میں میدانِ جنگ میں داخل ہوئے اور بیک وقت انگریزوں،مرہٹوں اور نظامِ دکن سے بر سر پیکار ر ہے-یہ تینوں مل کر بھی ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کو عاجز نہ کر  سکے-انگریزوں کو  یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ ہم طاقت کے بل بوتے پر ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کے خلاف فتح حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ٹیپو سلطان انگریزوں کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار تھی اور ٹیپو سلطان کی وفادار فوج بھی آخری دم تک اپنے ملک ومذہب کے دشمن سپاہیوں کے خلاف ڈٹ کر لڑتی رہتی تھی-

غداروں کی کاریگری:

انگریزوں نے سازش کی کہ اگرسلطانی افواج کی وفاداری کو خرید لیا جائےتو پھر یہ ممکن ہےکہ میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل جائے اور ہم جنگ جیت جائیں -غداروں کی تلاش شروع ہوئی،انگریزوں نے کرنل ریڈ  کو متعین کیا اور سلطنت خداداد کی طرف بھیج دیا،کرنل ریڈ  نے سب سے پہلے ان لوگوں کو بھڑکایا اور خریدا جن کو ٹیپو سلطان نے غداری اور بے وفائی کی وجہ سے ان کے علاقوں سے نکال دیا تھا-کرنل ریڈ نے ان کو یقین دہانی کروائی  کہ اگر فتح ہو ئی تو تم کو دوبارہ تمہارے علاقوں میں بحال کردیا جائے گا-ان میں سر فہرست بنگلور کا راجہ کشن راؤ،پگڈنڈہ کا راجہ نائیک اوران کے علاوہ بہت سےمسلمان لوگ بھی بادشاہت کی لالچ میں انگریزوں کےفریب میں پھنس گئے-اس فریب میں ہندؤوں اور مسلمانوں نےانگریزوں کے ساتھ مل کر اپنا ضمیر و ایمان تک بیچ دیا جس کے نتیجہ میں ان کوکثیر تعداد میں دولت حاصل ہوئی اور انہوں نے ٹیپو سلطان کی فوج کی جاسوسی شروع کردی-

شہادتِ ٹیپو سُلطان :

جب میسور کی چوتھی جنگ سرنگا پٹم میں لڑی گئی تو اس جنگ میں ٹیپو سلطان کی فوج میں غدار پُرنیا پنڈت، غدار میر صادق اور غدار غلام علی جو کہ غدارِ اعظم،ملت فروش اور آزادی ہند کے دشمن  تھے اِنہوں نے دنیا کی محبت اور لالچ میں آکر انگریزوں کے ساتھ ساز باز کر کے ان کو سرنگا پٹم کے قلعہ کا نقشہ فراہم کیا-مزید جس تہہ خانے میں جنگی سامان  (راکٹ)وغیرہ پڑے تھے اس میں دریائے کاویری کا پانی چھڑوا کرراکٹ  ناکارہ کروا  دئیے جس کی وجہ سے شیرِ میسور ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کو شکست کا سامنا کرنا پڑا -اِنہی غداروں نے سُلطان کے سیکنڈ اِن کمانڈ سردار غازی خان کو بُلوا کر چپکے سے شہید کیا اور جرنیل سیّد غفار کے قتل پہ اندرونی دستے مقرر کئے-جب ایک ایک کر کے سب وفادار شہید ہوگئے تو آخر میں صرف سُلطان رَہ گئے تھے جنہیں کئی سپاہیوں نے بھیس بدل کر خفیہ راستوں سے نکل جانے کا مشورہ دیا  اور کئی دوستوں نے سرنڈر کا کہا کہ کم از کم جان تو بچ جائے گی-مگر حریت کا دلدادہ ، آزادی کا متوالہ ،  اسلام کا مجاہد،فاتح اعظم،شیرِمیسور  اپنی بےنظیر شجاعت اور نا قابلِ شکست ارادے کاثبوت دیتے ہوئے میدانِ جنگ میں جری و دلیر سپاہیوں کی طرح مردانہ وار لڑتا ہوا سرنگا پٹم کے قلعہ کے دروازے پر ۴ مئی ۱۷۹۹ء کوجام شہادت نوش فرما گیا -شہادت کے بعد لاشۂ شہید کی ہیبت و جلال کا یہ عالَم تھا کہ غداروں کے ذریعے فتح پانے والے بز دل انگریز جرنیل قریب نہ جا رہے تھے کہ یہ شخص تو ابھی زندہ لگتا ہے مرا ہوا شخص یوں تر و تازہ تو نہیں ہوتا-آخری وقت لڑتے ہوئے سُلطان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی اور دستہ ہاتھ میں رِہ گیا تھا ،جب لاشہ مبارک قبضے میں لیا گیا تو ہاتھ کی گرفت ٹوٹے ہوئے دستہ پہ اُسی طرح قائم تھی- انگریزی فوج کا وہ بندوقچی (Gunman) جس نے سُلطان شہید پہ آخری گولیاں چلائیں، اُس نے حالاتِ جنگ بیان کرتے ہوئے اپنے جرنیلوں کو بتایا کہ :

“I don’t know who he was, but he fought like a tiger”.

’’یعنی مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرے سامنے لڑنے والا کون ہے ،مگر وہ شیروں کی طرح لڑ رہا تھا ‘‘-

ٹیپو سلطان شہید(رحمتہ اللہ علیہ)کی شخصیت سے نہ صرف ہندو اور مسلمان متاثر تھے بلکہ  ایسٹ انڈیا کمپنی کے  گورنرجنرل ویلز لی نے ٹیپو سلطان کی شخصیت کو بھانپتے ہوئے کہا:

“I fear my friends that Tipu’s memory will live long after the world has ceased to remember you and me”.

’’میرے دوستو!مجھے ڈر ہے کہ ٹیپو کو یہ دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی جب کہ ہمیں اور تمہیں بھول جائے گی‘‘-

ہاں! مجھے خوف ہےکہ وہ ہندوستان کے دوسرے حکمرانوں کی طرح نہیں ہے مجھے اس سے خوف اس لئے ہے کہ اس نے دوسرے حکمرانوں کے لئے مثال قائم کردی ہے خوش قسمتی ہے کہ وہ لوگ بزدل اور ڈرپوک ہیں اور کوئی اس قابل نہیں کہ اس کی مثال کو مشعل راہ بنا سکے مگر آنے والے زمانے میں ایسی مثال ہماری حکومت کے لئے تباہ کن اثرات پیداکرسکے گی‘‘[4]-

علامہ محمد  اقبال  کا ٹیپو سلطان شہید کو خراج عقیدت :

علامہ محمد اقبال   (رحمتہ اللہ علیہ)نے اپنے کلام میں خوش نصیب افراد کو ملت کے مسلمانوں کے لئے بطور نمونہ پیش کیا ہے جس کے پیش کرنے کا مدعا  یہ تھا کہ اس ملت کے نوجوان ان کو اپنا رول ماڈل بنائیں اور اپنی زندگی کے شب وروز کو ان کے کردار واقوال سے روشن کریں-جن افراد کو آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے بطور رول ماڈل پیش فرمایا،ان میں سے ایک مردِ مجاہدفتح علی ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)ہیں-علامہ محمد اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)نے اپنے کلام میں ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کا جو مقام بیان فرمایاہے اس کو پڑھ کر عقل ِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے کہ  را ہ حق میں جان کی بازی لگانے والوں کا  مقام کتنا ارفع و اعلیٰ ہے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کو امام عالی مقام سید الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے جذبۂ حریت و شہادت کا وارث قرار دیاہے-

علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ)اپنے کلام میں جو بارہا ’’مرد مومن اور شاہین‘‘کے الفاظ اس ملت کے نوجوانوں کے لئے استعمال فرمائے ہیں اس کے عملی نمونہ پر ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ) کی شخصیت صادق آتی ہے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ)۱۹۲۹ء میں ٹیپو سلطان کے مزار مبارک  یعنی گنبد سلطانی پر حاضری دی،تلاوتِ قرآن مجید کے ساتھ اپنے اشک بہاتے ہوئےٹیپو سلطان شہید (رحمتہ اللہ علیہ)کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا:

آں شہیدانِ محبت را امام
نامش از خورشید و مہ تابندہ تر
از نگاہِ خواجۂ بدر و حنین

 

آبروے ہند و چین و روم و شام
خاک ِ قبرش از من و تو زندہ تر!
فقرِ سلطاں وارثِ جذبِ حسین ؓ[5]

’’یہ سلطان ٹیپو ہے جو شہداء کا امام اور ہندو و چین و روم وشام کی آبرو ہے-اس کا نام خورشید و ماہ سے زیادہ چمک رہا ہے اس کی قبر کی خاک ہم سے زیادہ زندہ ہے-خواجۂ بدر و حنین (ﷺ) کے فیض سے سلطان شہید کا فقر جذبِ حسین (رضی اللہ عنہ)کا وارث تھا‘‘-

تصویر کے دوسرے رُخ کے متعلق بھی علامہ نے کمال کی منظر کشی کی ہے اور بیان کیا ہے،غدارانِ دین و ملت حقدارانِ سقر و لعنت علمبردارانِ شیطانیت میر جعفر و میر صادق  کی اَروَاحِ خبیثہ و ذلیلہ  و رذیلہ و کاذبہ کا اپنے فارسی کلام میں یوں ذکر فرمایا ہے کہ:

جعفر از بنگال و صادق از دکن
دین او، آئین او سودا گری است
ملتے را ہر کجا غارت گر است
الاماں از روح جعفر الاماں

 

ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن!
عنتری اندر لباس حیدری است
اصل او از صادقے یا جعفر است
الاماں از جعفران ایں زماں![6]

’’رذیل رُوحیں جنہو ں نے ملک وملت سے غداری کی اور انہیں دوزخ نے بھی قبول نہ کیا -بنگال کا میر جعفر اور دکن کا صادق،یہ دونوں (غدار ) انسانیت، دین اور وطن کےلئے باعث شرم تھے-اس کا دین اور آئین سوداگری ہے یہ گویا حیدری لباس میں عنتری ہے-جہا ں کہیں بھی کسی ملت کا اگر کو ئی غارت گر (غد ار) ہے تو اس کی اصل کسی میر صادق یا کسی میر جعفر سے ہے -اللہ تعا لیٰ میر جعفر کی روح سے اپنی پنا ہ میں رکھے،آج کے دور کے میر جعفر وں (غد ار وں ) سے خد اکی پنا ہ ‘‘-

٭٭٭


[1](شاہ ولی اللہ کے بلانے پہ ہند میں آنے والے معروف سپہ سالار احمد شاہ ابدالی کا سنِّ ولادت بھی یہی تھا )

[2](ٹیپو سلطان از عبداللہ بٹ،ص:۳۳)

[3](ایضاً)

[4](شیر ہندوستان ٹیپو سلطان،ص:۱۸۷)

[5](جاوید نامہ)

[6](ایضاً)

حریّت اور آزادی کہنے کو تو دو الفاظ ہیں مگر پانے کو خون کی قیمت مانگتے ہیں،اِن کی قدر بھی صرف وہی جانتے ہیں جو اپنے خون کے عوض انہیں خریدتے ہیں -جس کے ترازو کے ایک پلڑے میں قربانیوں کا سودا نہ ہو اس کے دوسرے پلڑے میں یہ دو لفظ نہیں رکھے جاتے-آنکھوں کا سرمہ بنانا چاہیے مٹی کے اُن ذروں کو جو آزادی و حریت ِ مِلّی کی حفاظت میں قربان ہونے والوں کی قبر پہ پڑے ہوں-قابلِ فخر ہیں وہ باپ جن کی صُلب سے جانثارانِ اسلام پیدا ہوں،قابلِ صد رشک ہیں وہ مائیں جن کی آغوش میں شمعِ حریت کے پروانے پروان چڑھیں اور قابلِ صد مُبارک ہے وہ قوم جس کی صفیں پے بہ پے آزادی کےمتوالوں سے بھری رہیں-

آج ،جب ہر طرف مایوسیوں کا ڈیرہ ہو، ناامیدیوں کے چرچے ہوں اور دامنِ یقین ہاتھ سے چھوٹتا جا رہا ہو تو ایسے میں جب ہم پلٹ کر اپنی تاریخ میں جھانکتے ہیں تو ایسے ایسے شاہکار ملتے ہیں جن کے کردار اور عمل کی قوت ہمارے ناتوان ارادوں کو چٹانوں کی سی مضبوطی عطا کرتی ہے جن کی سیرت کی ایک ادنیٰ سے جھلک بھی ہمیں ایک نیا جذبہ،نیا جوش اور نیا ولولہ بخشتی ہے-اِس لئے آج ہم حریت و آزادیٔ اسلامیانِ ہند کے متوالے،مُجاہدِ اسلام،شیرِ میسور ، میر فتح علی ٹیپو سُلطان شہید (رحمتہ اللہ علیہ) کی سیرت کی ایک جھلک دیکھ کر اپنے عزم و ارادہ کو تقویت بخشیں گے-

خاندان ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ):

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کے پَر دادا ’’شیخ ولی محمد‘‘بیجا پور کے فرما روا محمد عادل شاہ کے عہد حکومت میں اپنے بیٹے محمد علی کے ساتھ دہلی سے گلبرگہ آئے-شیخ ولی محمد ایک دین دار اور صالح آدمی ہونے کی وجہ سے معروف روحانی شخصیت شاہ صدر الدین حسینی المعروف حضرت خواجہ گیسو دراز (رحمتہ اللہ علیہ)  کی درگاہ سے وابستہ ہو گئے اور انہیں گزر اوقات کے لیے وہاں سے وظیفہ ملنے لگا-شیخ ولی محمد نے درگاہ حضرت گیسودراز(رحمتہ اللہ علیہ) کے ایک خادم کی بیٹی سے اپنے بیٹے محمد علی کی شادی کی-شیخ ولی محمد کی وفات کے بعد محمد علی بیجا پور چلے گئے پھر بیجا پور سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ’’کولار‘‘چلے گئے وہاں کے حاکم شاہ محمد سے ان کی پہلے سے شناسائی تھی-حاکم نے خوش دلی سے اُن کا خیر مقدم کیا اور اپنی جائیداد کا مہتمم مقرر کیا-

شیخ محمدعلی کے چار بیٹے تھےمحمد الیاس،شیخ محمد،محمد امام اور فتح محمد-محمد علی کی وفات کے بعد فتح محمد نے ’’کولار‘‘کی سکونت ترک کر دی اور نواب سعداللہ خان والیٔ ارکوٹ کی ملازمت اختیار کر لی-نواب سعداللہ خان نے فتح محمد کو جمعدار بنادیا اور دو سو(۲۰۰)پیادوں اور پچاس (۵۰)سواروں کے دستے کی کمان اس کے سپرد کر دی-۱۷۲۱ء[1] میں فتح محمد کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام حیدر علی رکھا گیا -حیدر علی بچپن ہی سے زیادہ تر وقت شکار میں گزارتے تھے اور گھوڑ سواری وشمشیر زنی ان کا محبوب مشغلہ تھا -

ولادتِ شہید :

حیدر علی کی دوشادیاں تھیں دوسر ی شادی گورنر معین الدین خان کی بیٹی فاطمہ بیگم المعروف بہ فخر النساء سے ہوئی -جب طویل عرصہ اولاد نہ ہوئی تو  بیگم فخر النساء کےساتھ حیدر علی نے ارکوٹ میں مشہور ولی اللہ حضرت ٹیپو مستان کی درگاہ پر حاضر ی دی اور صالح اولاد  کی پیدائش کے لیے دعا کی-اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کو (بمطابق ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء )  ایک بیٹا عطا فرمایا تو اس کا نام اپنے دادا فتح محمد خان کے نا م پر فتح علی رکھا اور پکارنے کےلئے کنیت اُس ولی کامل کے نام پہ ٹیپو مستان رکھی جسے بعد میں ’’ٹیپو سُلطان‘‘ کہا گیا -

علمی قابلیت :

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ) اپنے والد نواب حیدر علی کی ذاتی دلچسپی سے ایک عالم فاضل اور مدبر حکمران بنے ، اُنہیں تمام مروجہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ  فن کتابت ،حکمت،تجارت، تقابلِ ادیان، فوجی معاملات اور دیگر بے شمار ایسے امور میں ید طولیٰ حاصل تھا - ٹیپو سلطان مصنفینِ کتب کی بہت تکریم کرتے،علماء اور شعراء کی سر پرستی فرماتے اور خود بھی مختلف موضوعات پہ کتابوں کے مصنف تھے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کی اس علمی قابلیت کو سراہتے ہوئے انگریزی فوج کے کرنل کرک پیڑک لکھتے ہیں:

’’سلطان کی تحریر  دوسری تحریروں سے بالکل ممتاز ہوتی تھی  اس قدر مختصر اور پُر معنی ہوتی کہ ایک ایک لفظ سے کئی کئی معنی نکلتے تھے اس کی تحریر کا خاص وصف یہ تھا کہ ایک ہی نظر میں پہچانی جاتی تھی کہ یہ سلطان کے قلم سے نکلی ہے[2]-  

بقول مسٹر کیمبل:

سلطان نہایت آسانی سے نظم و نثر لکھتا تھا اور اس کے مضامین میں ایک خاص شان پائی جاتی تھی[3]-

اللہ پاک نے سُلطان شہید  (رحمتہ اللہ علیہ)کو نہ صرف علمی قابلیت سے مالا مال کیا تھا بلکہ فروغ علم کے جذبے سے بھی مالا مال فرمایا تھا - ’’سرنگا پٹم‘‘ میں جا مع الامور کے نام سےقائم کردہ یونیورسٹی اسی چیز کا منہ بولتا ثبوت ہے-جس میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ صنعتی فنون کی تعلیم بھی دی جاتی تھی-

اللہ پاک نے آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کو مطالع کا وسیع ذوق عطا فرمایا تھا  جو کتاب آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے زیر مطالعہ رہتی  مطالعہ کر لینے کے بعد آپ(رحمتہ اللہ علیہ)اس کے اختتام پر اپنی مہر ثبت فرماتے-آپ (رحمتہ اللہ علیہ)اپنی مجلد کتب کے چاروں کونوں پر اللہ(﷯)،محمد(ﷺ)،فاطمہ(﷞)حسن و حسین(﷠)اور خلفائے راشدین (﷢) کے اسماء مبارکہ منقش فرماتے-اسی طرح جلد کے اوپر’’سرکارِ خداداد‘‘اور نیچے ’’اللہ کافی‘‘رقم ہوتا-یہ چیز نہ صرف آپ (رحمتہ اللہ علیہ)کے ذوق مطالعہ کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول پاک (ﷺ) اور اللہ تعالیٰ کی محبوب ہستیوں کے ساتھ والہانہ محبت کو بھی ظاہر کرتی ہے کیونکہ یہی چیز میراثِ مسلمانی ہے جس سے آج  کےمسلمان نوجوانوں کے سینے خالی ہیں-آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کا بہت بڑا کتب خانہ تھا-جب انگریزوں نے ہندوستان میں قبضہ جما لیا تو انہوں نے تمام کُتب کو اپنے قبضہ میں لے کر انگلستان بھجوا دیا-

زہد وتقویٰ:

سُلطان شہید (رحمتہ اللہ علیہ) کا روزانہ کا معمول تھا  کہ بعد از نماز فجر طلوعِ آفتاب تک قرآن پاک کی تلاوت فرماتے اورآپ(رحمتہ اللہ علیہ) زندگی کا ہر سبق قرآن سے لیتے تھے،آپ کے سونے اور بیٹھنے والے  کمروں کی  دیواریں آیاتِ قرانی سے مزین ہوتیں،چھت پر بھی آیاتِ قرآنی کا نقش تھا اور یہ تمام آیاتِ قرآنی جہاد کے متعلق تھیں- نماز کی سختی سے پابندی کرتے -جب مسجد اعلیٰ کے افتتاح کے وقت سوال کیا گیا کہ پہلی نماز وہ پڑھائے گا جو صاحب ترتیب(یعنی جس  نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی)ہوتو سب لوگ جو حاضر تھے خاموش ہو گئے اور جب کوئی بھی صاحبِ ترتیب نہ نکلا تو ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ) نے آگے بڑھ کر کہا الحمداللہ!مَیں اپنے والد کی تربیت اور اساتذہ کے فیضان سے صاحب ِ ترتیب ہوں چنانچہ پہلی نماز کی امامت خودٹیپو  سلطان(رحمتہ اللہ علیہ)نے کرائی-

بقول مصنفِ’’ارمغانِ حیدری‘‘:-

’’شاہ غازی کے صاحبان سے ہم نے سنا ہے کہ سلطان اپنے روزِ شہادت تک کسی وقت، کسی حالت میں بے وضو نہیں رہےحتیٰ کہ کئی معرکوں میں بذات خود مجادلہ ومقاتلہ کا ارادہ کرتےتو اسلحہ باندھنے سے قبل وضوء سے فراغت پاتے-سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کی مبارک نصیحت یہ تھی کہ مسلمانوں کےطہارت میں رہنےسے قلب کی صفائی ہوتی ہے-

سیرتِ ٹیپو سُلطان ’’نشانِ حیدری‘‘ کے مصنّف  لکھتے ہیں :

’’ٹیپو سلطان  (رحمتہ اللہ علیہ) اس قدر کامل الحیاء تھا کہ سوائے اس کے گھٹنوں اور کلائیوں کے اس کے جسم کو کبھی کسی نے برہنہ نہیں دیکھا یہاں تک کہ حمام میں بھی وہ اپنے تمام جسم کو چھپائے رکھتے-

مذہبی رواداری:

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)ایک سچے مسلمان ہونے کے باوجود مذہبی متعصب نہیں تھے اور اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے ’’مالابار‘‘ کو فتح کرلیا تو آپ(رحمتہ اللہ علیہ)کو پتا چلاکہ  چند سپاہیوں نے ’’گروایور‘‘کے مندر پر تیل یا گھی چھڑک کرآگ لگانے کی کوشش کی تھی تو آپ  راتوں رات سفر کرکے ’’گروایور‘‘ کے مندر پر پہنچے،ان سپاہیوں کو سزا دی،پھر  مندر کی مرمت کروانے کا حکم دیا اور یہ فرمان جاری کیا کہ آئندہ اس شہر کی آمدنی سرکاری خزانے میں جمع کروانے کی بجائے اس مندر پر لگائی جائے-سلطنتِ خداداد کے  تقریباً ہر مندر میں آپ کی دی ہوئی چیزیں موجود تھیں کیونکہ آپ  کااپنی ہندو رعایا کے ساتھ نہایت ہی عمدہ اور بے تعصبانہ سلوک تھا -آپ کے بعض سیرت نگاروں نے اس کی ایک وجہ تو آپ کی دین داری لکھی ہے کہ دینِ حق کو سمجھنے والا سُنتِ مصطفوی (ﷺ) و سُنتِ فاروقی (﷜) کے مطابق دیگر مذاہب کے ماننے والوں پہ زبردستی نہیں کرتا-اس کے علاوہ یہ وجہ بھی تھی کہ ریاست کی اکثریت ہندو تھی جنہیں دشمنانِ ٹیپو سُلطان ہمیشہ سُلطان کی اسلام پسندی کی وجہ سے بغاوت پہ اکساتے رہتے-آپ ہر مکتبِ فکر،مذہب کے علماء و فقراء او ر حتی کہ انگریزوں کے غیر مسلح عیسائی مبلغین کی بھی عزت کرتے  تھے،آپ (رحمتہ اللہ علیہ)نے ہندو مندروں کے لیے نہایت فیاضی کے ساتھ جائیدادیں وقف کی تھیں،آپ (رحمتہ اللہ علیہ) کے  محلات کے قریب مندروں کی موجودگی آپ کی وسیع النظری اور رواداری کاکھلا ثبوت ہے-

سُلطان کے عہد و زمان کی مختصر ترین جھلک:

سلطان ٹیپو (رحمتہ اللہ علیہ)کے زمانہ پہ اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ وہ دور ایک بہت بڑا تاریخی موڑ تھا جس میں دُنیا کی تاریخ اور خاص کر ہندوستان کی تاریخ پہ بے پناہ مشکل وقت آیا اور اُس وقت اسے سنبھالنے والا کوئی نہ تھا اور سُلطان اِس میدان میں بالکل تنہا تھا-دور دور تک کوئی ان کا محرمِ راز نہ تھا جیسا کہ اقبال نے بھی سُلطان شہید کےلئے کہا ہے کہ’’مشرق اندر خواب و اُو بیدار بُود‘‘ کہ جب سارا مشرق غفلت کی گہری نیند سو رہا تھا اور مغربی سامراجی طاقتیں نو آبادیات بناتے ہوئے دُنیا کو غُلام کر رہی تھیں اُس وقت صرف سُلطان ٹیپو ہی وہ واحد ایشیائی حکمران تھا جو پوری کھلی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ و مقابلہ کر رہا تھا - ٹیپو سلطان کے پیدا ہونے سے صرف چار عشرے قبل سلطنتِ مغلیہ کا آخری عظیم حکمران اورنگزیب عالمگیر فوت ہوا اور یوں سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تھا - شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی (رحمتہ اللہ علیہ)کی دعوت پہ دہلی کو مرہٹوں کی یلغار سے بچانے کےلئے حضرت احمد شاہ ابدالی (رحمتہ اللہ علیہ) جہاد کر چکے تھے-بنگال میں میر جعفر غدار مردود کی ملت فروشانہ معاونت سے جوان سپہ سالار نواب سراج الدولہ شہید ہو چکے تھے اور بنگال و اڑیسہ وغیرہ انگریز کے قبضے میں جا چکے تھے-(نواب سراج الدولہ کے خلاف لڑنے والے انگریزی جرنیلوں خاص کر لارڈ کلائیو کی تباہ کاریوں اور سیاہ کاریوں پہ دیکھئے کارل مارکس کی کتاب ’’دی برٹش رول اِن اِنڈیا‘‘ ) -پرتگال،اٹلی،فرانس،برطانیہ،ہالینڈ،سپین اور دیگر یورپی طاقتیں ایشیا،شمالی و جنوبی امریکہ،افریقہ،کنیڈا و آسٹریلیا وغیرہ کو اپنی کالونیاں بنا رہے تھے-سلطان ٹیپو ہی کے زمانے میں فرانس میں مشہور ’’ڈکٹیٹر نپولین بونا پارٹ‘‘برسرِ اقتدار تھا جس کی سلطان شہید سے خط و کتابت بھی رہی-انقلابِ فرانس بھی اُسی زمانے میں آیا -اُدھر امریکہ جسے اُس وقت ’’نئی دُنیا‘‘ کہا جاتا تھا وہاں جارج واشنگٹن وغیرہ بھی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے ، نواب حیدر علی  اور ٹیپو سُلطان کی برطانیہ کے خلاف جد و جہدِ آزادی کے چرچے امریکہ کے برطانیہ مخالف لیڈروں میں بھی عام تھے جارج واشنگٹن وغیرہ تک ان دونوں باپ بیٹا کی جنگی کامیابیوں کی اطلاعات پہنچتی رہتی تھیں-اُنہیں برسوں میں یعنی ۱۷۷۶ء میں امریکہ کا ’’اعلانِ آزادی‘‘ ہوا -سلطان ٹیپو کی شہادت ۱۷۹۹ء میں ہوئی اس کے بعد برطانوی آندھی کے سامنے کوئی بڑی دیوار نہ رہی ، پنجاب وغیرہ کے نواح میں سکھوں کی یورش تھی مگر وہ بھی کمزور پڑگئے اور شہادتِ سلطان کے اٹھاون برس بعد ۱۸۵۷ ءکی جنگ ہوئی جس کے بعد تاجِ برطانیہ کُل برصغیر کا حکمران ہو گیا -

جنگی قابلیت:

آپ(رحمتہ اللہ علیہ)نے بچپن ہی سے فن حرب میں کمال پیدا کر لیا تھا،آپ اپنے والد محترم کےساتھ جنگوں میں شریک ہوا کرتے اور بہادری کے جوہر دکھا کر دادِ شجاعت  حاصل کرتے-برٹش انڈیا کے معروف بیورو کریٹ لیون بی باؤرنگ نے بھی اپنی کتاب (Haidar Ali, Tipu Sultan, and the Struggle with the Musalman Powers of the South) میں سلطان ٹیپو کی جنگی صلاحیتوں کو بہت کھل کر سراہا ہے-مثلاً ایک جگہ لیون بی باؤرنگ لکھتا ہے : 

’’سلطان وزارت کا کام کر سکتا تھا ،سپہ سالاری میں طاق تھا ،بہترین بحری کمانڈر  تھا اور (بحریہ سے متعلق) سب قسم کے تکنیکی حربوں اور منصوبہ بندی میں زبردست مہارت رکھتا تھا-اس کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ جس وقت اس نے جنگی بیڑا تیار کرنے کا حکم دیا  تو اس نے جہازوں کے نمونے بھیجےتاکہ ان نمونوں کے مطابق جہاز تیار کیے جائیں-جہازوں کے پیندوں کے لیے خاص طور پر ہدایت کی تھی کہ تانبے کے بنائے جائیں - سُلطان نے بحری جہازوں کی لکڑی کے لئے ایک جنگل وقف کردیاتھا ‘‘-

جدت و اِیجادات :

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کو جدت و ایجادات کا خاص شوق تھا ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ)  نے مردم شماری کروائی، نیا سکہ  جاری کیا اور اُن سکوں کے نام پاک نسبتوں کی بناء پر  احمدی،صدیقی، فاروقی،حیدری اورامامی وغیرہ رکھے-دنیا میں  پہلامزائل ایجاد کرنے کا سہرا بھی آپ(رحمتہ اللہ علیہ) کے سر پرسجا-ٹیپو سلطان(رحمتہ اللہ علیہ) نے ہر ہر شہر،قصبہ اور قلعہ کے دروازوں پر پہریدار مقرر کئے جس مقام پرچوری ہو جاتی تھی تو وہاں کے پہریدار کو ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا-اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پہریدار کی تنخواہ  کاٹ کر اس چوری کی تلافی کی جاتی تھی-ٹیپوسلطان(رحمتہ اللہ علیہ)نے اپنی سلطنت میں ہتھیار سازی  کو بہت ترقی دی اور میدان جنگ میں پہلی مرتبہ لوہےکے بنے راکٹوں کا استعمال کیا - برصغیر میں جدید گھڑی سازی کا پہلا کارخانہ بھی سلطان نے لگوایا-اس کے علاوہ اپنی ذاتی سرپرستی اور نگرانی میں ایک ہفت روزہ (اخبار ) جاری کیا-اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے  ہوئے سپاہیوں کے نام اور ٹیپوسلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کی ہدایات شائع ہوتی تھیں-

شجاعت و تدبیر :

ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کی بہادری اور شجاعت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ وہ دست بدست جنگ کو زیادہ محبوب رکھتے تھے اور صرف پندرہ (۱۵)برس کی عمر میں میدانِ جنگ میں داخل ہوئے اور بیک وقت انگریزوں،مرہٹوں اور نظامِ دکن سے بر سر پیکار ر ہے-یہ تینوں مل کر بھی ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کو عاجز نہ کر  سکے-انگریزوں کو  یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی کہ ہم طاقت کے بل بوتے پر ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کے خلاف فتح حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ ٹیپو سلطان انگریزوں کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار تھی اور ٹیپو سلطان کی وفادار فوج بھی آخری دم تک اپنے ملک ومذہب کے دشمن سپاہیوں کے خلاف ڈٹ کر لڑتی رہتی تھی-

غداروں کی کاریگری:

انگریزوں نے سازش کی کہ اگرسلطانی افواج کی وفاداری کو خرید لیا جائےتو پھر یہ ممکن ہےکہ میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل جائے اور ہم جنگ جیت جائیں -غداروں کی تلاش شروع ہوئی،انگریزوں نے کرنل ریڈ  کو متعین کیا اور سلطنت خداداد کی طرف بھیج دیا،کرنل ریڈ  نے سب سے پہلے ان لوگوں کو بھڑکایا اور خریدا جن کو ٹیپو سلطان نے غداری اور بے وفائی کی وجہ سے ان کے علاقوں سے نکال دیا تھا-کرنل ریڈ نے ان کو یقین دہانی کروائی  کہ اگر فتح ہو ئی تو تم کو دوبارہ تمہارے علاقوں میں بحال کردیا جائے گا-ان میں سر فہرست بنگلور کا راجہ کشن راؤ،پگڈنڈہ کا راجہ نائیک اوران کے علاوہ بہت سےمسلمان لوگ بھی بادشاہت کی لالچ میں انگریزوں کےفریب میں پھنس گئے-اس فریب میں ہندؤوں اور مسلمانوں نےانگریزوں کے ساتھ مل کر اپنا ضمیر و ایمان تک بیچ دیا جس کے نتیجہ میں ان کوکثیر تعداد میں دولت حاصل ہوئی اور انہوں نے ٹیپو سلطان کی فوج کی جاسوسی شروع کردی-

شہادتِ ٹیپو سُلطان :

جب میسور کی چوتھی جنگ سرنگا پٹم میں لڑی گئی تو اس جنگ میں ٹیپو سلطان کی فوج میں غدار پُرنیا پنڈت، غدار میر صادق اور غدار غلام علی جو کہ غدارِ اعظم،ملت فروش اور آزادی ہند کے دشمن  تھے اِنہوں نے دنیا کی محبت اور لالچ میں آکر انگریزوں کے ساتھ ساز باز کر کے ان کو سرنگا پٹم کے قلعہ کا نقشہ فراہم کیا-مزید جس تہہ خانے میں جنگی سامان  (راکٹ)وغیرہ پڑے تھے اس میں دریائے کاویری کا پانی چھڑوا کرراکٹ  ناکارہ کروا  دئیے جس کی وجہ سے شیرِ میسور ٹیپو سلطان (رحمتہ اللہ علیہ)کو شکست کا سامنا کرنا پڑا -اِنہی غداروں نے سُلطان کے سیکنڈ اِن ک

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر