مقدمہ پاکستان : گاندھی کا نظریہ قومیت اور قائداعظم کا نقطہ نظر سے

مقدمہ پاکستان : گاندھی کا نظریہ قومیت اور قائداعظم کا نقطہ نظر سے

مقدمہ پاکستان : گاندھی کا نظریہ قومیت اور قائداعظم کا نقطہ نظر سے

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ایڈووکیٹ اگست 2019

تحریکِ پاکستان و قائدِ تحریکِ پاکستان ایک ایسی حقیقت ہیں جنہیں افسانوی کہانی کے طور پر پیش کرنا محال ہے اور نہ ہی انہیں منظر کشی و منظر نگاری، خیال آرائی، شوکتِ الفاظ، مصرعوں کی تابانی، نکتہ سنجی، رائج الوقت شعری محاسن سے بیان کیا جا سکتا ہے-اسے صوت و آہنگ کی گھتیوں سے سُلجھانا تو در کنار بلکہ مذکورہ تحریک کے کارناموں اور کارکنوں کے جذبوں کو لفظوں کی مالا سے آج قوم کو آشنا کروانا بعید از قیاس ہی ہے-الغرض ! الفاظ و زبان سےنقشہ کھینچنا ناممکنات میں سے لگتا ہے- اسی بات کواقبالؒ ملت اسلامیہ کے معماروں کو شاندار ماضی یاد دلاتے ہوئےکچھ یوں فرماتے ہیں:

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا

منطقی ذہن،قانونی پیچیدگی، سیاسی معاملات اور ہندوانہ ذہنیت کو دوربین و دور اندیش قائد تحریکِ پاکستان،قائد اعظمؒ کامل طور پر سمجھتے تھے- قائد اعظم برصغیر کی سیاست کو کثیر الجہتی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے جس کی وجہ ان کا علمی مقام تو ہے ہی ساتھ میں انہیں برطانوی سیاست اور کانگریسی سیاست سے وابستہ لوگوں کا بھی قرب رہا- ان شخصیات میں دادا بھائی نوروجی اور کرشنا گوکھلے قابل ذکر ہیں-[1] کرشنا گوکھلے برصغیر میں بالعموم اور قائد اعظم کی زندگی میں بالخصوص بہت اہم ہیں- ان کی وجہ شہرت اور تعلق ہندوؤں اور مسلمانوں کے رہنما موہن داس کرم چند گاندھی اور قائد اعظم محمد علی جناح سے قریبی تعلق ہے- مذکورہ دونوں شخصیات کی زندگی کی مماثلت[2] تو نہیں بیان ہو سکتی کیونکہ الگ راستہ کے دونوں مسافر، ان کی نظریاتی طور پر تو زندگی الگ تھی ہی لیکن اگرتعلق ذاتی زندگی اور شخصی زندگی کا ہو تو وہاں بھی دونوں یکسر مختلف نظر آتے ہیں البتہ دونوں کا سیاسی رہنما  ایک تھا اور وہ کرشنا گوکھلے تھے- گوکھلے اصلاحات اور تبدیلی کے لئے آئینی و قانونی طریقہ کار کے قائل تھے جسے قائد اعظم نے تمام عمر اپنایا لیکن گاندھی جی اس کے متحمل نہ ہوئے-

قائد اعظمؒ جب ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے تو ہندوؤں کی سازشی پالیسیوں[3] کو بڑے قریب سے دیکھ چکے تھے-قائد اعظم کو یقین تھا کہ ہندو بنیہ کا کوئی بھی پلان مفادات سے خالی اور مسلم کمیونٹی کے حق میں نہیں ہوتا- جب دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ حالت جنگ میں تھا تو گاندھی جی نےسنہرہ موقع سمجھا کہ اس صورت حال میں انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کا کہنے اور ان کے انکار پر سول نافرمانی کی تحریک چلانا اس وقت بہت موزوں ہے- اگر مقصد میں کامیاب ہوگئے تو مسلمانوں کا دوقومی نظریہ ختم ہو جائے گا جبکہ حکومت انڈین نیشنل گانگریس کی ہوگی -[4] اگر یہ خواب پورا نہیں بھی ہوتا تو ایسی صورتحال میں ابھی حکومت برطانیہ کوئی سخت قدم نہیں اٹھائے گی کہ نیا خطرہ مول لے- چنانچہ کانگریس ورکنگ کمیٹی نے 14 جولائی 1942ء کو ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ (Quit India)  کی قرار داد منظور کرلی-

کانگریس کی اس غلط فہمی کا الٹا نتیجہ نکلا اور وائسرے کی ایگزیکٹو کونسل نے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے تمام ممبرز اور کانگریسی لیڈرز کو قید کرنے کا متفقہ فیصلہ سنایا جبکہ دوسری طرف چند دن بعد مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں لیگی رہنماؤں نے انگریزوں کے خلاف ہندوؤں کے ساتھ اتحاد میں شریک ہونے کو کہا جبکہ قائداعظم اپنے فیصلہ پر ڈٹے رہے کہ ہمیں برطانیہ کے خلاف اس جنگ میں شامل نہیں ہونا جس کے دور رس نتائج یہ نکلے کہ آل انڈیا مسلم لیگ مزید مضبوط ہوئی، عوامی رابطے بڑھے جبکہ دوسری طرف کانگریسی رہنما قید کاٹ رہے تھے اور حکومتِ برطانیہ سے دشمنی مول لے چکے تھے- یوں مسلم لیگ کے قائدین قائد اعظم کی بصیرت سےنہ صرف جیل سے باہر تھے بلکہ جنگ کے خاتمہ پر جب انتخابات کا انعقاد ہوا تو جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے مختص نشستوں میں سے بڑی تعداد جیت لی-

کانگریسی رہنماؤں میں چکروَتی راج گوپال اچاری[5] کو ’’Quit India‘‘ تحریک کی واضح مخالفت کے باعث قید نہ کیا گیا اور اس عرصہ میں انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس میں مفاہمتی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی اور وہ سمجھ گئے کہ مسلم لیگ تبھی کانگریس سے ہاتھ بڑھائے گی اگر انہیں مسلم اکثریتی علاقوں کے لئے حق خود ارادیت کا یقین دلایا جائے اور قرارداد لاہور کو تسلیم کر لیا جائے جس کے لئے انہوں نے ایک فارمولا مرتب کیا جسے ’’راج گوپال اچاری فارمولہ‘‘[6] سے موسوم کیا جاتا ہے-

بالآخر گوپال اچاری فارمولے کے تحت قائد اعظم محمد علی جناح اور موہن داس گاندھی کے درمیان 9 ستمبر سے 27 ستمبر 1944ء تک قائداعظم کی ممبئی رہائش گاہ مالا بار ہل میں اٹھارہ (18) دن مذاکرات ہوئے[7] جن میں چودہ (14) دن ملاقاتیں ہوئیں اور احتیاط کے پیش نظر دونوں لیڈرز کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ہر ملاقات کے بعد تمام گفتگو خطوط کی صورت میں ایکسچینج کی جائےگی-

مندرجہ بالا خطوط میں سے 15 ستمبر کی شام گاندھی جی کا خط غیر معمولی حیثیت کا حامل ہے جس میں موصوف قائد اعظمؒ کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپؒ نے کہا ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دو قومیں رہتی ہیں اور دونوں کے لئے انڈیا ہوم لینڈ ہے- مزید لکھتےہیں کہ اگر انڈیا اسلام کی آمد سے قبل ایک قوم تھا تو بہت سارے لوگوں کے عقیدہ اسلام[8] قبول کرنے کے باوجود بھی اسےایک قو م رہنا چاہیے- مزید کہتے ہیں کہ تم علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ کسی کو فتح کر کے نہیں کرتے بلکہ قبولِ اسلام [9] کی وجہ سے کرتے ہو- کیا دو قومیں ایک ہو جائیں گی اگر تمام ہندوستانی مسلمان ہوجائیں؟

اس خط کے جواب میں قائد نے اپنامشہور زمانہ بیان دیا کہ قومیت کی کوئی بھی تعریف کی جائے مسلمان اس پر پورا اترتے ہیں مزید---بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کے مطاق ہم ایک الگ قوم ہیں-

خطوط کا یہ سلسلہ ملاقاتوں کے ساتھ چلتا رہا حتی کہ 24 ستمبر کو گاندھی صاحب نے جناح کو ایک طویل خط لکھا جس میں کہا کہ وہ کانگریس کو مسلم لیگ کی 1940ء قرارداد قبول کرنے کے حوالے سے مندرجہ ذیل شرائط پر رضا مند ہیں-

گاندھی جی کہتے ہیں کہ انڈیا کو دو یا دو سے زیادہ قو میں تصور نہ کیا جائے بلکہ بہت سے افراد کا ایک ہی خاندان سمجھا جائے جس میں سے---کچھ مخصوص علاقوں میں موجود مسلمان --- باقی ہندوستان سے الگ [10]رہنا چاہتے ہیں-

گاندھی جی کی تمام شرائط کا جواب قائداعظم اپنے 25 ستمبر 1944ءکے خط میں دیتے ہیں- پہلی شرط کےحوالے سے فرماتےہیں کہ یہ مؤقف قرارداد(پاکستان ) لاہور کے مخالف [11]ہے-

دوسری شرط کےحوالےسےاسی خط میں ماتما گاندھی نے کہا کہ :

’’مسلم لیگ اور کانگریس کی منظوری سےایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں واقع ان ضلعوں؛ جو آپس میں ملحق ہیں اور جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے کی نشان دہی کرے گا- نشان دہی کے بعد ان علاقوں میں ضلعی سطحوں پر یہاں کے باشندوں سے بالغ رائے دہی یا کسی دیگر طریقہ سے رائے لی جائے گی جس پر قائد اعظمؒ صاحب نے فرمایا کہ گاندھی صاحب کا مطلب ہے طے شدہ حدود میں سےبھی مسلمان خود ارادیت کا حق استعمال نہیں کریں گے بلکہ وہاں کے باسیوں سے پوچھا جائےگا؟؟؟‘‘

گاندھی صاحب نے تیسری شرط یہ رکھی کہ اگر اکثریت نے ہندوستان سے الگ اور ایک خود مختار ریاست کے حق میں رائے دی تو جب برطانیہ مکمل اختیارات اور ذمہ داری ہندوستان کو سونپ دے گی تو پھر دو آزاد خود مختار ریاستیں قائم ہوسکیں گی-[12]

قائد اعظم نے اس شرط کے جواب میں گاندھی کو کہا کہ تم اس کا انکار کرتے ہو کہ مسلمان اکیلے اپنے حق خود ارادیت کو منوا نہیں سکتے-

جبکہ اپنی چوتھی اور آخری شرط میں گاندھی نے لکھا کہ اکثریت کے ہندوستان سے علیحدگی کی رضا مندی کی صورت میں خارجہ معاملات، دفاع، مالیات، رسل و رسائل اور دیگر ضروری شعبوں میں باہمی معاہدے طے ہوں گے -[13]

اس شرط پر قائد اعظم نے فرمایا کہ اگر یہ غیر معمولی معاملات کسی مرکزی حکومت کے ذریعہ طے ہونے ہیں تو اس کا اشارہ آپ نے نہیں کیا کہ کس قسم کی مشینری اور اتھارٹی ان معاملات کو چلائے گی؟ اور کیسے اور کس کے سامنے یہ اتھارٹی جوابدہ ہو گی؟ مزید اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں اگر انہی الفاظ کو بیا ن کروں توخوب ہوگا کیونکہ میرے الفاظ سے بیان نہ ہو پائے گی اس کی وسعت فکر و نگاہ، بصیرت و دور اندیشی- آپؒ رقم طراز ہیں کہ :

“According to the Lahore Resolution, as I have already explained to you, all these matters, which are the lifeblood of any state, cannot be delegated to any central authority or government. The matter of security of the two states and the natural and mutual obligations that may arise out of physical contiguity will be for the constitution making body of Pakistan and that of Hindustan, or other party concerned, to deal with on the footing of their being two independent states”.

قائد اعظمؒ کی اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی معاملات ہوں یا ایسے فرائض جو ریاست کے وجود سے منسلک ہوں جن سے ریاست کی سلامتی اور بقاء جُڑی ہو کسی کے اختیار و اعتبار میں نہیں دیے جا سکتے- آج ہمیں پاکستان کے حوالے سے ہر طرح کے معاملات طے کرتے ہوئے بانی قوم و وطن کی نصیحت نہیں بھولنی چاہیے-

قائد اور گاندھی کی اس گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ گاندھی کی چال یہ تھی کہ کسی بھی طرح پاکستان کو قومی تشخص کے مسئلہ کی بجائے مسلم لیگ کی سیاسی ضِد بازی ثابت کیا جا سکے جبکہ قائدِ اعظم کے نزدیک پاکستان ایک ’’الگ قوم کے قومی تشخص‘‘کا مسئلہ ہے-

قائد کی گاندھی سے کنورسیشن کا مختصر ترین خُلاصہ یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان اسلامیانِ ہند کی قومی شناخت کا پاسبان تھا ، ہے اور رہے گا، اسی نظریہ پہ یہ ملک حاصل کیا گیا تھا ، آج بھی اس کی بقا اِسی عظیم نظریہ میں ہے جس کی وکالت محمد علی جناح جیسے وکیل نے کی- نظریہ ہے تو مُلک ہے، نظریہ کا انکار قائد اعظم کی جد و جہد کے انکار کے مترادف ہے، نظریہ کا انکار نہ صرف پاکستان کی سالمیت کا انکار  ہے  بلکہ بذاتِ خود پاکستان کا انکار ہے-

٭٭٭


[1](قائد اعظم کے سیاسی زندگی میں دادا بھائی نوروجی اور گوپال کرشنا گوکھلے ایک بڑے کردار ہیں-گوکھلے نے ہی قائد اعظم کو ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر قرار دیا تھا -دادا بھائی نوروجی، ایک پارسی دانشور تھے جبکہ  1892ء اور 1895ء میں برطانوی دار العوام میں لبرل پارٹی کی نمائندگی کرتے رہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے رکن بننے والے پہلے ایشیائی تھے- قائداعظمؒ نے کچھ عرصہ دادا بھائی نوروجی کے ساتھ ان کے سیکریٹری کے طور پر کام کیاجبکہ گوکھلے چٹپون برہمن اور کانگرس کے سینئر رہنما اور سرونٹس آف انڈیا سوسائٹی کے بانی تھے-)

[2]( گاندھی جی متحدہ ہندوستانی قومیت کے قائل تھے اور عدم تشدد کی سیاست ان کا وطیرہ تھی- گاندھی جی کی اس طرز سیاست کی کھڑیاں ان کی زندگی کے ابتدائی 16 سال تک نیٹال جنوبی افریقہ میں رہنے سے ملائی جاسکتی ہیں یا نہیں جب وہاں وہ ہندوستانی باشندوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے یہ ایک تحقیق طلب سوال ہے-جبکہ قائد اعظم اصول کی سیاست اور قانون کی حکمران کے قائل تھے-ان کا ماننا تھاکہ غیر قانونی چیز کو قانون کا سہارا نہیں دیا جاسکتا یعنی غیر قانونی طریقہ سےقانون کی حکمرانی کامطالبہ نہیں ہوسکتا-موضوع کی مناسبت کے باعث گفتگو سے درگزر، ورنہ یہ گفتگو خود تحریر کی متمنی ہے-)

[3]( تفصیلات کے لئے قائد اعظم اور گاندھی کے مئی 1937ء سے جنوری 1940ءتک ہونےوالی خط و کتابت دیکھی جاسکتی ہے-)

[4]( یوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مفادات کانگریس راج کےرحم و کرم پر ہوں گے- انگریزوں کو بلیک میل کر کے مسلمانوں کو ہندو اکثریت کا ہمیشہ کے لئے غلام بنا لیا جائےگا-بالفاظ دیگر ہندوستان چھوڑ تحریک اقلیتوں کو بالعموم اور بالخصوص مسلمانوں کو نظر انداز کرکےآزادی حاصل کرناتھی-)

[5]( چکروتی راج گوپال اچاری (مدارس کے سابق وزیر اعظم اور تقسیم ہند کے بعدبھارت کے پہلے ہندوستانی گورنر جنرل)قبل از آزادی ہند اہم سیاسی راہنما مانے جاتے تھے-)

[6]( فارمولہ کے بغور مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور خود مختار ریاست حاصل کرنے کے لئے پہلے ہندوؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف لڑنا ہوگا پھر بیرونی طاقت کو نکالنے کے بعد وہ دونوں آپس کے مسائل حل کریں گے جس کا ایک مطلب مسلمان اقلیت کو ہمیشہ کے لئے ہندو اکثریت کے تابع کرنا تھا جبکہ دوسرا مقصد مسلمانوں کو ڈھال بنا کر ہندو اپنے حقوق کا دفاع چاہتے تھے- بعد میں اسی فارمولے کو گاندھی جی نے قائد اعظم کے ساتھ مذکرات میں اپنی شرائط کا حصہ بنایا جن کا ذیل میں ذکر کیا جائے گا-)

[7]( گاندھی اور قائد اعظم کے درمیان مذکرات،ملاقاتیں اور گفتگو بڑی طویل رہی ہیں جنہیں خط و کتابت، پریس اور سیاسی پلیٹ فارم پر مختلف سوالات و مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے دونوں بیان کرتے تھے-)

[8]( ہائے !تیری سادگی بھی اک فریب ہےمطلب گاندھی جی کےنزدیک عقیدہ تبدیل کرلینے سے معاشرتی زندگی تبدیل نہیں ہوتی جبکہ اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہونے کی بدولت ہر شعبہ زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے- ہاں جی! قبولِ اسلام سےہی رہن سہن اورسماجی رویہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے-)

[9](یعنی ایک طرح سے موصوف خودہی مان گئے کہ قبول اسلام ہی علیحدہ قوم کی بنیاد ہے مذہب  کے قبول کرنے سے ہی علیحدہ قوم جنم لیتی ہے مزید جبکہ قرآن مجید کی سورۃ تغابن اور سورۃ توبہ اسی موقف کی گواہی دیتی ہیں-)

[10]( یعنی اصل مسئلہ الگ ہونے سے نہیں بلکہ تشخص کا انکار تھا اور اقبال کے فلسفیانہ تصور قومیت کے نقطہ نظر کی مخالفت تھا- ہندوکُھلی آنکھوں سے نیند چاہتے تھے-)

[11]( تحریک پاکستان میں قرار داد لاہور کی اہمیت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو علامہ اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں مسلم قومیت کی فلسفیانہ تعبیر کی تھی، قرارداد لاہور اس خطبہ کی سیاسی کمٹمنٹ، تحریک پاکستان کی سمت کا تعین اور علمی صورت میں ڈھالنے کےلئےجوازتھی-)

[12]( گاندھی جی کی مسلمانوں سے یہ محبت بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچی اوریہ خواب بھی ادھورارہ گیا کہ برطانیہ برصغیرکو دو خطوں میں تقسیم نہ کرےتاکہ مسلمانوں کو ہندوؤں کا غلام بنایاجاسکے-)

[13](’’ کوا کبھی سفید ہونے نہیں لگا‘‘ جسےسلطان العارفین کی آفاقی فکر میں یوں سمجھا جاسکتا ہے:’’کوڑےکھوہ ناں مِٹھےہوندےباھوؒتوڑےسےمناں کھنڈپائیےھو‘‘- الغرض گاندھی جی کی مطلوبہ تمام شرائط پوری ہونے کے باوجود بھی علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے والے علاقےآزاد نہیں بلکہ خود مختار (Autonomous)ہوں گے- یعنی اس علاقہ کی قانونی حیثیت صوبہ یا ریاست کی ہوگی اور وفاق یا نیم وفاق کے سیٹ اپ کے ماتحت ہو گا-کہولوکابیل ہزار چکر کے بعد بھی وہیں کھڑا-)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر