تحریکِ پاکستان میں اردوزبان کاحصہ

تحریکِ پاکستان میں اردوزبان کاحصہ

تحریکِ پاکستان میں اردوزبان کاحصہ

مصنف: وقار حسن اگست 2019

تحریکِ پاکستان برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی لازوال قربانیوں، بے مثال جذبے اور انمول جد و جہد کی داستان ہے-تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان ہر عہد میں اپنی الگ شناخت کے ساتھ اقوام ِعالم میں رہے-عروج و زوال اور شکست و ریخت کے کئی ادوار اور زمانے اس قوم نے دیکھے لیکن کبھی مایوسی یا قنوطیت مستقل طور پر مسلمانوں کو کلمتہ الحق کہنے سے نہ روک سکی-تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہر عہد میں مسلمان باقی مذاہب اور نظریات کے ماننے والوں سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود اپنی منفرد شناخت کے ساتھ رہے-برصغیر میں بھی مسلمانوں کو عروج کے بعد زوال کا سامنا کرنا پڑا-یہاں پر مسلمانوں کو بیک وقت جن دو دشمن قوتوں کا سامنا تھا ان میں ایک انگریز سامراج اور دوسرا ہندو سامراج تھا-1857ءکی جنگِ آزادی بظاہر مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی جس میں کامیابی نہ ہو سکی-مسلمانوں کی وسعتِ قلبی اور امن پرستی اس بات کی دلیل ہے کہ عرصہ دراز تک مسلمان ہندوؤں کے ساتھ مل کر برطانوی نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی کرتے رہے-لیکن وقت نے آخر کار ظاہر کردیا کہ ہندو مسلمانوں کے حمایتی نہیں بلکہ وہ تو فقط اپنی ’’اکھنڈ بھارت سوچ‘‘ کے تحت مسلمانوں کو استعمال کرتے رہے اور درحقیقت اس نے مسلمانوں کے ساتھ آستین کے سانپ کا سلوک برتا- انگریز تو پہلے ہی مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کے درپے تھے-اس ضمن میں اس نے کوئی حربہ نہ چھوڑا تھا ، انگریزوں کی مسلمان دشمنی صرف ہندوستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہ تھی بلکہ رومن ایمپائر کی شکست سے صلیبی جنگوں تک اور قسطنطنیہ سے لےکر اندلس تک پھیلی ہوئی تاریخ سے اثر و فروغ پاتی تھی -

1857ء کے بعد جب ہندوؤں کو واضح ہوا کہ وہ کبھی متحدہ ہندوستان پر اپنا راج قائم نہیں کر سکتے تو انہوں نے مکار سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریز سرکار کی قربت حاصل کر لی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف مزید اکسانا شروع کر دیا جس کا جواز وہ یہ پیش کرتے تھے کہ 1857ء کی بغاوت مسلمانوں نے کی تھی جو کہ سراسر ان کا من گھڑت جھوٹ تھا- ہندوؤں نے جلد ہی برطانوی راج کو مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے آمادہ کرلیااور دوسری طرف ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کی شناخت ختم ہو- ہندوؤں نے یہ جنگ ہر محاز پر لڑی-انہوں نے اقتصادی و معاشی،تہذیبی و ثقافتی،علمی و ادبی الغرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلا واسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کمر توڑ کوشش کی-اردو زبان جس کا ضمیر مسلمانوں کی آمد سے برصغیر کی بولیوں اور مسلمانوں کی زبانوں عربی ، تُرکی اور فارسی کے امتزاج سے تیار ہوا تھااور مسلمانوں کے عہد ِ حکومت میں ہی اس زبان نے پرورش پائی،اپنے ارتقائی سفر کو طے کیا اور مسلمانوں کے دورِ سلطنت میں ہی برصغیر کی مقبول ترین زبان بن کر ابھری اور مسلمانوں کی شناخت بن گئی-کیونکہ اس زبان میں کثیر تعداد عربی اور فارسی الفاظ کی تھی اور اس کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی کی طرز پر تھا-اس وجہ سے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے اس کو مسلمانوں کی زبان کَہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کو لاکھڑا کیا-تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ قیام ِ پاکستان کی بظاہر وجوہات میں اردو ہندی تنازعہ بھی ایک اہم اور بنیادی وجہ تھی-زبان ایک ثقافتی عنصر ہے-کسی قوم کی زبان اس کے مافی الضمیر کے اظہار اور اس کی تہذیب و ثقافت کی علمبردار ہوتی ہے- برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کی انیسویں اور بیسویں صدی میں زبان اردو ہی تھی-کیونکہ برطانوی سامراج کی آمد سے فارسی زبان کا خاتمہ ہو چکا تھا-اب مسلمان اپنی آواز جس میں زبان میں بلند کر رہے تھے وہ اردو ہی تھی جو عوام او ر خواص ہر دو میں مقبول تھی-

 اردو زبان کے ساتھ لگاؤ اور انس شروع ہی سے مسلمانوں میں موجود تھا- حضرت امیر خسرو،مسعود سعد سلمان سے لے کر ولی دکنی اور میر و غالب جیسے شاعر اسی زبان سے وابستہ تھے-اسی طرح مسلمانوں کے عربی اور فارسی علم و ادب کا اب اردو زبان میں ترجمہ ہو رہا تھا-اس سرمائے اور اپنی شناخت کی حفاظت مسلمانوں کا ملی اور قومی فریضہ تھا-دوسری طرف تنگ نظر ہندو سوچ اردو زبان کے خاتمے اور ہندی کو فوقیت دلانے سے دو قومی نظریے کے واضح ثبوت مہیا کر رہی تھی-

اردو زبان کے خلاف اس محاز آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا پھر الٰہ آباد میں ایک مجلس قائم کی گئی- رفتہ رفتہ اس کیلیے کمیٹیاں، مجلسیں اور سبھائیں مختلف ناموں سے قائم ہو گئیں-اس میدان میں بالخصوص تعلیم یافتہ ہندو طبقہ تھا-اس ضمن میں محمد علی چراغ اپنی کتاب اکابرینِ تحریک پاکستان میں رقمطراز ہیں:

’’سر انتونی میکڈانل نے متحدہ صوبہ جات کا گورنر بنتے ہی صوبہ بہار سے اردو کو ختم کرکے اس کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا-اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی- اردو چونکہ برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک طرح کی شناخت کا ذریعہ تھی اس لئے مسلمانوں نے اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنا شروع کیا‘‘-[1]

اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا وہ ’’اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام تھا-اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھا یا وہ ’’انجمنِ ترقیِ اُردُو" تھا جو جنوری 1902ء میں قائم ہوا-تحریک علی گڑھ سے وابستہ اہل قلم نے تحفظ ِ زبانِ اردو میں اہم کردار ادا کیا- اکابرینِ تحریک پاکستان نے اردو زبان کی حفاظت دو قومی نظریے کی شناخت کے طور پر کی-یہ تنازعہ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد تک رہا-لیکن آہستہ آہستہ ہندوؤں کو واضح ہو گیا کہ مسلمان برصغیر کی منفرد شناخت رکھنے والی قوم ہے ان کی تہذیب کو ثقافت کو کبھی پامال نہیں کیا جاسکتا-اس کے ساتھ اردو زبان لسانی اورقومی حوالہ سے مسلمانوں کی وہ شناخت بن چکی تھی جو قیامِ پاکستان تک دشمنوں کو چبھتی رہی-اردو ہندی تنازعہ کا تذکرہ  ’’بابائے اردو‘‘مولوی عبدالحق نے ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’بر عظیم میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد جو سب سے بڑا سانحہ ہوا وہ یہ ہے کہ اس ملک میں انہوں محکوم قوم کی زبان سنسکرت اور ہندی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا--- ہندو اردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی اور اس کے علاوہ اردو زبان ہندو سماج کی نمائندگی کرنے کی بجائے اسلامی معاشرت کی نمائندگی کرتی تھی-لہٰذا ہندوؤں نے اس کے مقابلے میں ہندی کو لا کھڑا کیا تھا-حالانکہ اس سے پیشتر برعظیم کی زبان اردو یا اردو کی کوئی مورد اور مفرس قسم ہی ایک عام زبان تھی-یہی وجہ ہے کہ ایک عہد تک اسی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کیلیے ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور چینیوں نے بھی کام کیا-پھر مسلمانوں میں عام لوگوں سے بڑھ کر صوفیاء کرام نے بھی اس مد میں اہم خدمات انجام دیں-اُردو کو قوت بخشی اور اسے بجا طور پر محفوظ کرنے کا فریضہ ادا کیا-1857ء کے بعد تو چونکہ اردو ہندی تنازعہ اردو اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بن گیا تھا-اس لیے واضح طور پر ہندوؤں کے لیے ہندی زبان اور مسلمانوں کے لیے اردو زبان ان کی دو سیاسی امتیازی نشان اور قومی علامتیں بن گئی تھیں‘‘-[2]

اُردو ہندی تنازعہ لسانی سے بڑھ کر اب سیاسی نوعیت حاصل کر چکا تھا-جہاں پر مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے وہاں اُردو زبان کا تحفظ لازمی جزو بن چکا تھا-بالآخر برصغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں انہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو دفاعِ اردو زبان کے لیے 4دہائیوں سے لڑ رہے تھے-جن میں نمائندہ نام نواب وقار الملک،نواب محسن الملک،مولانا  محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں-آریہ سماج تحریک جو دفاعِ ہندی اور مخالفتِ اردو میں پیش پیش تھی مسلم لیگ کے قیام کی بنیادی وجہ بنی-اس عہد کے برصغیر میں اردو کے علاوہ بھی بہت سی علاقائی زبانیں اور بولیاں بولی جا رہی تھیں- جن میں پنجابی، سرائیکی، پشتو، سندھی، بلوچی،ہندی اور بھاشا وغیرہ تھیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نمائندہ زبان ’’اُردو‘‘ ہی تھی-اُردو زبان کا تحریکِ پاکستان میں حصہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے-اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان اور دو قومی نظریہ لازم و ملزوم تھے تو بجا ہو گا-اس ضمن میں ڈاکٹر مجیب احمد اپنے ایک مقالہ میں رقم طراز ہیں:

’’قیامِ پاکستان سے قبل برصغیر کے طول و عرض کے خطے اور مختلف علاقائی زبانیں رکھنے کے باوجود الگ وطن کے لیے اُردو کو بحیثیت قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند نے تحریکِ پاکستان میں بھر پور حصہ لیا اور قیامِ پاکستان کو ممکن بنایا-تحریکِ پاکستان کے دوران الگ زبان ’’اردو‘‘ دو قومی نظریے کا ایک بڑا اور بنیادی حوالہ تھی‘‘-[3]

مسلم لیگ کے متعدد اجلاسوں میں اردو زبان کی ترقی، تحفظ اور اس کو قومی زبان تسلیم کرنے کے لیے قراردادیں منظور ہوئیں-مسلم لیگ کی 4دہائیوں پر مشتمل جدوجہد کا نتیجہ پاکستان ہے-تحریک پاکستان کے پورے سفر میں رابطہ کی زبان اردو رہی-عوام الناس تک مسلم لیگ کا پیغام زیادہ تر اردو زبان میں ہی پہنچتا تھا-قائد اعظم ؒ جو کہ اردو زبان سے زیادہ علاقہ نہ رکھتے تھے -آپؒ بھی اکثر اپنی تقاریر میں اردو زبان کو استعمال فرماتے تھے-ایک طرف حکومتِ برطانیہ تک پیغام رسانی کیلیے مسلم لیگ کی طرف سے اہم خبریں انگریزی زبان میں شائع ہوتی لیکن عوام الناس کے لیے ان کا اُردو ترجمہ بھی کیا جاتا تھا-جس کی واضح مثال قرار دادِ لاہور (قرار دادِ پاکستان) کی ہےجس کا متن انگریزی زبان میں تھا-لیکن عوام الناس کی سہولت کے لیے جلسہ کے دوران ہی مولانا ظفر علی خان نے قرارداد کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا-مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال سے لے کر بانیٔ پاکستان قائد اعظم تک تحریک پاکستان کا ہر فرد اردو زبان سے محبت کرتا تھا اور اس زبان کی ترقی اور تحفظ کے لیے برسرِ پیکار رہا-قرار دادِ پاکستان کا تاریخی جلسہ جس نے پاکستان کی دھندلی تصویر کو بالکل عیاں کر دیا تھا اس جلسہ کے سٹیج پر جو مسلمانوں کے لیے پیغام لکھا گیا تھا وہ بھی مصورِ پاکستان کا اردو زبان میں یہ شعر تھا:

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے

ایک طرف تحریک پاکستان میں عوامی رابطہ کی زبان اردو تھی اور تقاریر،جلسے اور ریلیوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ بھی اسی زبان میں ہو رہی تھی جبکہ دوسری طرف ادبی محاز پر بھی ہمارے شاعر اور ادیب اردو زبان میں نظریہ پاکستان کا تحفظ کر رہے تھے- معروف دانشور ڈاکٹر مُعین الدین عقیل لکھتے ہیں:

’’بر عظیم کے مسلمانوں میں اجتماعی روح پیدا کرنے،ان کے ملی اور قومی شعور کو بیدار کرنے، اسے تقویت دینے اور سیاسی انتشارات کی مختلف تباہیوں اور بربادیوں کے بعد ان کے مردہ دلوں کو حرارت سے آشنا کرنے میں اردو زبان و ادب نے جو اہم کردار ادا کیا،وہ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوا‘‘-[4]

’’انقلاب زندہ باد‘‘ سے ’’لےکر رہیں گے پاکستان،بن کے رہے گا پاکستان‘‘تک کے نعرے اردو زبان میں لگائے جاتے رہے اور اسلامیانِ ہند کی دھڑکنوں کا ترانہ ’’مُسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ بھی اُردو زبان میں گائے جاتے رہے - اُردو زبان کے ان شاعروں اور ادیبوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے قلم کے ذریعے کردار ادا کیا-ان میں سے بہت ہی اہم شخصیات اور ان کی خدمات ہیں جو انہوں نے اردو زبان میں دیں، کو بطور حوالہ دیا جاتا ہے-تحریکِ پاکستان میں اردو زبان کے جس شاعر کا سب سے اہم اور ناقابلِ فراموش کردار رہا وہ مصورِ پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ہیں-ان کی نظم و نثر نظریہ پاکستان کی عکاس اور محافظ ہے-بالخصوص آپؒ نے اپنی اردو شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کر کے نویدِ صبح کا پیغام دیا-مسلمانوں پر آنے والے کٹھن حالات بھی واحد امید کی آواز حکیم الامتؒ کی ہی تھی-

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

آپؒ نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں میں عشقِ مصطفےٰ  (ﷺ) کے جذبہ کو پیدا کیا اور ان کو اپنی حقیقت سے آگاہ ہونے کا درس دیا-آپؒ کا کلام فارسی میں بھی ہے لیکن جو پذیرائی آپ کے اردو کلام کو تحریک پاکستان کے دوران ملی وہ اپنی مثال آپ ہے-آپؒ کے اردو اشعار اور کلام کو ترنم کے ساتھ جلسوں میں پڑھا جاتا تھا-اس کے علاوہ نظریہ پاکستان کے مقررین آپؒ کے اشعار کے سہارے لوگوں کے جذبات اور حوصلوں کو بڑھاتے تھے-جس طرح مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت کے بنیاد گزار اردو زبان سے وابستہ شاعر اور ادیب تھے اسی طرح مسلمانوں کے لیے علیحدہ سلطنت کا پہلی بار مطالبہ بھی اردو زبان کے عظیم الشان شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے 1930ء میں کیا- علامہ اقبال کی فکر و ولولہ سے لبریز شاعری نے مسلمانانِ برعظیم کے اجتماعی سیاسی شعور کو جِلا بخشی-انہیں فکر و عمل کی نئی نئی راہیں دِکھائیں- علامہ اقبال کے انقلابی افکار نے مسلمانوں کو حریت پسندی اور آزادی  کا سبق دیا اور انہیں زندگی کا شعور بخشا ہے-

علامہ اقبالؒ کے بعد جس شاعر کا نام اس ضمن میں اہم ہے وہ رئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی ہیں؛ آپ تحریکِ پاکستان کے بڑے جوشیلے اور جذباتی جانثار تھے-آپ بیک وقت سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ اُردو زبان کے اعلیٰ پائے کے شاعر بھی تھے-انہوں نے اپنی شاعری میں برطانوی سامراج کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھاجس کی وجہ سے آپ کو کئی بار جیل بھی جانا پڑا-

ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کے طبیعت بھی
ہر چند ہے دل شیدا حریت کامل کا
منظور دعا لیکن ہے قید محبت بھی

شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافتی میدان میں بھی وہ سر گرمِ عمل رہے- وہ اردو زبان میں اپنا پرچہ ’’اردوئے معلیٰ‘‘ نکالتے تھے-جس میں حریت، حب الوطنی اور انگریز حکومت سے آزادی کے متعلق مضامین چھپتے تھے-آپ نے اردو نظم و نثر کے ذریعے نظریہ پاکستان کا پرچار بری جرأت اور بے باکی سے کیا-آپ مسلم لیگ کی طرف سے اسلامی دنیا اور مشرقی و مغربی یورپ میں بطور سفیر بھی گئے- مولانا ظفر علی خان نے بھی اردو شاعری اور صحافت کے ذریعے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا-آپ مسلم لیگ کے بنیاد گزاروں میں ہونے کے ساتھ ساتھ قائد اعظمؒ کے دستِ راست رہے-آپ پرجوش مقرر اور شعلہ بیان مقرر تھے-اس عہد کے سب سے زیادہ اشاعت والے اردو اخبار ’’زمیندار‘‘کو آپ کی سرپرستی حاصل تھی-اردو زبان میں شائع ہونے والا یہ اخبار تحریک پاکستان کے دوران مسلم عوام کی امنگوں اور امیدوں کا حقیقی ترجمان تھا-اس اخبار پر بھی انگریز حکومت نے پابندیاں عائد کیں اور مولانا ظفر علی خان کو جیل کی سزا بھی بھگتنا پڑی-لیکن ’’زمیندار‘‘ اخبار حصولِ پاکستان تک مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتا رہا- ’’زمیندار‘‘ پر پابندی کے دوران آپ سیاسی مقاصد کے لیے ’’ستارہ صبح‘‘کے نام سے بھی اخبار اردو زبان میں شائع کرتے رہے-اس کو بھی بہت پذیرائی حاصل ہوئی-آپ شعرو ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے-آپ کو نظم و نثر دونوں میں مہارت حاصل تھی-آپ کی اردو زبان میں لکھی گئی سیاسی اور اسلامی موضوعات شاعری نے مسلمانوں کے جذبی آزادی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا-مولانا کا مشہورِ زمانہ شعر آج بھی قوتِ ایمانی میں اضافے کا سبب بنتاہے:

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب ابھی

ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کانام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے-ان کی نظم ’’مد و جزر اسلام‘‘ جو مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے نے قومی حمیت کو بیدار کرنے اور اقدارِ اسلا می کو اپنا کر دوبارہ زندہ قوم بننے کا درس دیا-اس کے علاوہ آپ نے مشاہیرِ اسلام کی اردو زبان میں سوانح عمریاں لکھیں جو مسلمانوں کیلیے اپنے قائدین سے آگہی کا بہترین سبب بنیں-

مولانا امام احمد رضا خان بریلویؒ کی اُردو شاعری نے بھی اسلامی فکر کے نئے دریچے کھولے، ایسے ایسے گلہائے عقیدت نکھارے کہ مدحتِ مصطفےٰ (ﷺ) میں اہلِ ایمان کے قلوب گرما دیئے-عربی زبان کی نعت گوئی میں جو مقام صاحبِ قصیدہ ’’البردہ‘‘ امام بوصیریؒ کو نصیب ہوا، فارسی زبان میں امام عبد الرحمان جامیؒ کے فنِ سُخن کو عطا ہوا   اور زبانِ اُردو میں وہی مقام امام احمد رضا خان کے حصہ میں آیا-ان کا لکھا ہوا سلام پاک و ہند کے مسلمانوں کا مقبول ترین سلام بن گیا ، جسے بلا شُبہ اردو زبان کا ’’قصیدہ بردہ‘‘کہا جاتا ہے-

مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
شبِ اسریٰ کے دولہا پہ دائم درود
نوشہء بزمِ جنّت پہ لاکھوں سلام

جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

طوالت کے باعث تحریک پاکستان میں اہلِ اردو زبان کے کردار اور حصے کو فرداً فرداً زیرِ بحث لانا ممکن نہیں اس لیے اردو زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے ان مشاہیر کے نام درج کیے جاتے ہیں جنہوں نے اردو زبان کو ذریعہ اظہار بنا کر تحریک پاکستان میں اپنا کردار ادا کیا-

اردو شاعری کی طرح اردو نثر نے بھی تحریک پاکستان میں بے مثال حصہ ڈالا- اردو زبان کے جن ادیبوں نے نظریہ پاکستان کے پرچار کے لیے نثری تحریریں لکھیں ان میں عبد الحلیم شرر، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، عبد المجید سالک، مولوی عبد الحق اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے نام اہم ہیں-ان لوگوں نے مضامین، ناول، افسانہ، ڈراما اور کالم کے ذریعے مسلمانوں کو دو قومی نظریے اور ان کے درخشندہ ماضی سے آگہی بخشی-

تحریک پاکستان کے دوران صحافتی میدان میں بھی اردو زبان کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے- اردو زبان میں بے شمار اخبارات، رسائل اور جرائد شائع ہوتے رہے جو نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی تائید میں تھے- ان اخبارات اور رسائل میں تہذیب الاخلاق، آگرہ اخبار، ردِ عیسائیت، شمس الاخبار، ناصر الاخبار، احسن الاخبار، دلگداز، اتحاد، مہذب، پیسہ، وکیل، اردوئے معلیٰ، زمیندار، الہلال، ہمدرد، کامریڈ، ایمان، احسان، منشور، تنویر، نوائے وقت، سرحد، ملت، الاسلام، جمہور اور تنظیم کے نام قابل ذکر ہیں-اس ضمن میں ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:

’’یہ اخبارات ان لاتعداد اخبارات میں سے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تحریکیوں کو وسعت اور کامیابی سے ہمکنار کیا-ان میں قومی اور ملی شعور اجاگر کیا اور حصولِ پاکستان کی اہمیت اور ضرورت کی وضاحت کی‘‘-[5]

مذکورہ بالا تمام اخبارات اور رسائل و جرائد اردو زبان میں شائع ہوتے تھے-تحریک پاکستان میں اردو شاعری اور افسانوی و غیر افسانوی نثر کا حصہ اظہرمن الشمس ہے-

بانیٔ پاکستان قائدِ اعظمؒ بظاہر اردو زبان کا استعمال بہت کم کرتے تھے-وہ اپنی تقریر و تحریر کے لیے زیادہ انگریزی زبان کا استعمال کرتے تھے-لیکن ان کی بصیرت نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے اتحاد کیلیے ان کی مشترکہ زبان اردو ہی ہے اور یہ زبان ہی ان کے دل کی آواز ہے کہ اسی زبان میں وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنا پسند کرتے ہیں-قائدِ اعظمؒ کی صدارت میں مسلم لیگ کا پہلا اجلاس1916ء میں ہوا تو اس میں قرار داد پیش کی گئی کہ اردو زبان کو ملکی زبان تسلیم کیا جائے تو آپؒ کی صدارت میں یہ قرارداد منظور ہوئی-اسی طرح مسلم لیگ کے پچیسویں اجلاس میں جو لکھنو میں منعقد ہوا قائدِ اعظمؒ کے زیرِ نگرانی ایک بار پھر اردو کی حمایت میں قرارداد منظور کی گئی تھی-آپؒ اردو زبان میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور اس کو سیکھنے کی کوشش بھی کرتے رہے-

’’اب تک قائدِ اعظم انگریزی کے ذریعے اظہارِ خیال کرتے رہے تھے-حتیٰ کہ اردو کی حمایت میں انہوں نے جو آواز بھی اٹھائی وہ انگریزی ہی میں تھی-اس کی نمایاں وجہ یہ تھی کہ انہیں انگریزی زبان تو بخوبی آتی تھی، اردو تحریر و تقریر کی کماحقہ صلاحیت نہ تھی-لیکن وہ عظیم لیڈر تھے-وہ جانتے تھے کہ عوام کی زبان اردو ہے--- چنانچہ انہوں نے یہ زبان سیکھنے اور اس میں تقریر کرنے کا ملکہ پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی اور اس میں انہیں جو کامیابی ہوئی اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے چھبیسویں اجلاس میں جو دسمبر  1938ء میں پٹنہ میں ہوا-انہوں نے اپنی انگریزی تقریر کے فوراً بعد اردو زبان میں رواں اور پُر اثر تقریر کی اس اجلاس میں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر قائدِ اعظم کی آواز اردو زبان میں گونج اٹھی‘‘-[6]

قائد اعظمؒ اردو زبان کے ساتھ لگاؤ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان تسلیم کرتےتھے اسی لیے آپؒ نے اپنے مشہور 14 نکات میں بھی مسلمانوں کی زبان (اردو)  کے تحفظ کا مطالبہ کیا-انگریزی میں تقریر کرنے کا اصل مقصد انہوں نے اپنی 30 اکتوبر 1947ء کی ریڈیو پاکستان پر تقریر میں واضح فرما دیا:

’’اب تک میں نے انگریزی میں تقریر کی ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی نگاہیں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں اور آزادی کے بعد مختلف اقوام ِ عالم ہم میں دلچسپی لے رہی ہیں،لہٰذا میں نے انگریزی کا سہارا لیا تاکہ تمام دنیا کے لوگ ہماری بات سن سکیں‘‘-[7]

آپؒ کے اردو زبان سے لگاؤ کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ پاکستان میں مختلف علاقائی زبانوں کی موجودگی میں انہوں نے 3 لاکھ سے زائد کے مجمع کے سامنے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں واضح اعلان فرمایا:

’’مَیں آپ پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردو ہوگی‘‘-[8]

اُردو زبان کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے آپؒ نے ڈھاکہ میں ہی 24 مارچ 1948ء کو فرمایا:

’’ملک کے مختلف صوبوں کے مابین رابطہ پیدا کرنے کیلیے ایک اور صرف ایک ہی زبان قومی زبان قرار پائے گی اور وہ اُردو ہوگی‘‘-[9]

پاکستان کے لوگوں نے اپنے قائد کے فرمان کو تسلیم کیا تھا حالانکہ مشرقی پاکستان کے لوگ جہاں پر بنگالی زیادہ بولی جاتی تھی چند ایک شر پسند عناصر کے علاوہ سب نے محمد علی جناحؒ کی اس بات کا خیر مقدم کیا- مشرقی پاکستان کے لوگوں کی قائدِ اعظم اور مادرِ ملت سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ  1965ء کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے زیادہ برتری حاصل ہوئی تھی کہ ایوب خان کے مقابلہ میں مادرِ ملت کو 154 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہوئی-بانیٔ پاکستان کے ان فرمودات سے بھی اردو زبان کے تحریکِ پاکستان میں نمایاں حصہ کی تصدیق ہوتی ہےکہ جو زبان تحریک پاکستان میں ذریعہ ابلاغ اور مسلمانوں کی نمائندہ رہی بانیٔ پاکستان نے اسی کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کادرجہ دیا-

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کے تحفظ اور ترقی کے لیے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائیں اور آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 پر عمل کرتے ہوئے اردو کوپاکستان میں بطورسرکاری زبان لاگو کریں-

ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں

٭٭٭


[1]( محمد علی چراغ،اکابرینِ  تحریک پاکستان،لاہور:سنگ ِمیل پبلی کیشنز،ص :213)

[2]( ایضاً، ص: 373)

[3]( ڈاکٹر  مجیب احمد:قومی  زبان اردو اور  پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے منشورات-ایک تجزیاتی مطالعہ) (http://nlpd.gov.pk/ilmofun/2.php)

[4]( ڈاکٹر معین الدین عقیل،مسلمانوں کی جدو جہدِ آزادی،لاہور: مکتبہ تعمیرِ انسانیت،1984، ص :206)

[5]( ایضاً ،ص:205)

[6]( ڈاکٹر معین الدین عقیل،منتخباتِ اخبارِ اردو،اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،1988، ص:94)

[7](ایضاً)

[8](ایضاً، ص:95)

[9](ایضاً)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر