الحافظ الکبیر ابوالحسن امام دار قطنیؒ

الحافظ الکبیر ابوالحسن امام دار قطنیؒ

الحافظ الکبیر ابوالحسن امام دار قطنیؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری فروری 2021

نام و نسب:

آپ کا نام علی، کنیت ابوالحسن ہے اور نسب نامہ یہ ہے: علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن نعمان بن دینار بن عبداللہ-[1]

ولادت و وطن:

امام دارقطنی 5 ذوالعقدہ سنہ 306 کو بغداد کے ایک محلہ ’’دار قطن‘‘میں پیدا ہوئے یہ محلہ کرخ اور نہر عیسی بن علی کے درمیان واقع ہے-[2] یہ محلہ متعدد اکابر کا مولدتھا لیکن بعد میں ویران ہوگیا علامہ سمعانیؒ کے بغداد تشریف لانے کے زمانے میں یہ اجڑ چکا تھا-

تحصیل علم:

امام دارقطنی کو علم و فن خصوصاً احادیث نبوی(ﷺ) سے غیر معمولی شغف تھا وہ نہایت کم سنی میں اس فن کی تحصیل میں مشغول ہو گئے تھے- ابو یوسف قواس کا بیان ہے کہ جب ہم بغوی کے پاس جاتے تھے تو امام دار قطنی بہت چھوٹے تھے ان کے ہاتھ میں روٹی اور سالن ہوتا تھا امام صاحب کے زمانہ میں بغداد علمی حیثیت سے نہایت ممتاز اور نامور علما و محدثین کامرکز تھا تو وہاں آپ نامور علما و محد ثین سے اکتساب علم کرتے رہے مگر پھر بھی اپنی علمی پیاس بجھانے کیلئے بغداد کے علاوہ کوفہ،  بصرہ، واسط، شام اور مصر وغیرہ جیسے متعدد مقامات پر تشریف لے گئے-[3]

اساتذہ:

آپ کو اپنے وقت کے نامور علما و محدثین سے اکتساب علم کرنے کا موقع ملا- جن حضرات سےآپ کو شرف تلمذ حاصل ہوا ان میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :

’’امام ابو القاسم بغوی، یحیی بن محمد، ابوبکر بن ابی داؤد محمد بن نیروز انماطی، ابو حامد محمد بن هارون حضرمی، علی بن عبداللہ، ابوعلی محمد بن سلیمان المالکی، محمد بن قاسم بن زکریا المحاربی، ابوبکر بن زیاد نیشاپوری، حسن بن علی البصری، یوسف بن یعقوب نیشاپوری، اسحاق بن محمد، جعفر بن ابی بکر، اسماعیل بن عباس الوراق، حسین بن اسماعیل المحاملی، محمد بن مخلد العطار، محمد بن ابراھیم بن حفص، محمد بن سھل، احمد بن عبد اللہ، احمد بن محمد بن ابی بکر الواسطی، اسماعیل صفار، ابو طاہر الذھلی، ابواحمد بن ناصحؒ-[4]

تلامذہ:

امام دارقطنی سے جن حضرات کو فیض یاب ہونے کا موقع ملا ہے ان میں اکابر علماء و محدثین اور آئمہ فن شامل ہیں ان میں سے چند شخصیات کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:

’’حافظ ابوعبداللہ الحاکم، حافظ عبد الغنی، تمام بن محمد الرازی، فقیہ ابوحامد اسفرائینی، ابو نصر بن الجندی، احمد بن حسن طبان ، ابو عبد الرحمٰن السلمی، ابو مسعود دمشقی، امام ابو نعیم اصبھانی، ابوبکر برقانی، قاضی ابو الطیب الطبری، عبدالعزیز بن علی ازجی، ابوالحسن بن السمسار دمشقی، ابو حازم بن فراء، ابو النعمان تراب بن عمر المصری، ابو الغنائم عبدالصمد بن مامون، محمد بن احمد بن محمد، حمزہ بن یوسف السھمیؒ  -[5]

حفظ وذکاوت:

امام دارقطنی کا حافظہ غیر معمولی اور بے نظیر تھا اصحاب سیر نے ان کو الحافظ الکبیر ِ، الحافظ المشہور، کان عالما حافظا جیسے القابات سے یاد کیا ہے- امام ذہبی نے ان کو حافظ الزمان کہا ہے- امام حاکم آپ کے حفظ و ضبط کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’صار اوحد اھل عصرہ فی الحفظ و الفھمم‘‘[6]

’’وہ اپنے زمانے میں حفظ و فہم میں منفرد ہوگئے‘‘-

علامہ ابن جوزی ان کے حفظ کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں:

’’انفرد باالحفظ من تاثیر حفظہ انہ املی علل المسند من حفظہ علی البرقانی‘‘[7]

’’وہ حفظ میں منفرد اور یگانہ تھے اور ان کے حفظ کی یہ تاثیر تھی کہ وہ امام برقانی کو علل حدیث زبانی املاء کرواتے تھے‘‘-

آپ صرف احادیث کے ہی حافظ نہ تھے بلکہ دوسرے علوم کا بھی ان کا سینہ مخزن تھا بعض شعراء کے دواوین ان کو ازبر تھے- قدیم عربوں کی طرح وہ تحریر و کتابت کی بجائے اکثر اپنے حافظہ ہی سے کام لیتے تھے- اپنے تلامذہ کو کتابیں زبانی املا کرواتے تھے- امام سمعانی آپ کے حفظ پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’کان احد الحفاظ المتقنین المکثرین و کان یضرب بہ المثل فی الحفظ‘‘[8]

’’وہ متقن مکثرین حفاظ میں سے ایک تھے اور ان کا حافظہ ضرب المثل تھا‘‘-

 قاضی ابو طیب طاہر طبری فرماتے ہیں :

’’کان الدار قطنی امیر المومنین فی الحدیث و ما رأیت حافظا ورد بغداد الا مضی الیہ وسلم لہ یعنی مسلم لہ التقدمۃ فی الحفظ و علوالمنزلۃ فی العلم‘‘[9]

’’امام دارقطنی امیر المومنین فی الحدیث تھے بغداد میں جو بھی حافظ حدیث آتا وہ آپ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا اور اس کے بعد اس کے لئے ان کی علمی بلند پائیگی اور حافظہ میں برتری اور تقدم کا اعتراف کرنا لازمی ہو جاتا تھا‘‘-

امام صاحب کے حفظ و ذہانت کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی نشست میں ایک ہی روایت کی بیس بیس سندیں برجستہ بیان کردیتے تھے امام ذہبی نے اس طرح کا ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس کو دیکھ کر امام دارقطنی کی بے پناہ ذہانت قوت حفظ اور غیر معمولی فہم و معرفت کے سامنے سرنگوں ہوجانا پڑتا ہے- شباب کےزمانے میں ایک روز وہ اسماعیل صفار کے درس میں شریک ہوئے وہ کچھ حدیثیں املا کروا رہے تھے امام دار قطنی کے پاس کوئی مجموعہ حدیث تھا- یہ بیک وقت اس کو نقل بھی کرتے جا رہے تھے اور امام صفار سے حدیثیں بھی سن رہے تھے اس پر کسی شریک مجلس نے ان کو ٹوکا اور کہا کہ تمہارا سماع صحیح اور معتبر نہیں ہو سکتا کیونکہ تم لکھنے میں مشغول ہو اور شیخ کی مرویات کو ٹھیک سے سمجھنے اور سننے کی کوشش نہیں کرتے امام دارقطنی نے جواب دیا کہ املاء کو سمجھنے میں میرا طریقہ آپ سے مختلف ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حضرت شیخ نے اب تک کتنی حدیثیں املا کرائی ہیں اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ اب تک اٹھارہ حدیثیں املاء کرائی ہیں شمار کرنے پر وہ واقعی اٹھارہ ہی نکلیں پھر آپ نے ایک ایک حدیث کو بے تکلف بیان کردیا اور اسناد و متون میں وہی ترتیب بھی قائم رکھی جو شیخ نے بیان کی تھی پورا مجمع اس حیرت انگیز ذہانت اور غیر معمولی حافظہ کو دیکھ کر دنگ رہ گیا-[10]

حدیث میں علمی مقام و مرتبہ:

امام دارقطنی کو اصل شہرت حدیث میں امتیاز کی بنا پر حاصل ہے ان کے حفظ و ضبط، ثقاہت و اتقان، روایت و درایت میں مہارت اور علل کی معرفت وغیرہ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے اس سے بھی ان کے حدیث میں کمال بلند پائیگی اور تبحر علمی کا پوری طرح اندازہ ہو جاتا ہے آئمہ فن اور نامور محدثین نے ان کے عظیم المرتبت اور صاحب کمال محدث ہونے کا اعتراف کیا ہے امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:

’’کان فرید عصرہ و امام وقتہ انتھی الیہ علم الاثر‘‘[11]

’’وہ اپنے زمانے کے منفرد اور امام وقت تھے اور ان پر احادیث و آثار کا علم ختم ہو گیا‘‘-

 امام بخاری کی طرح امام دارقطنی کو بھی ان کے زمانے میں امیرالمومنین فی الحدیث کا خطاب ملا تھا- اسی لیے قاضی ابو طیب الطبری فرماتے ہیں:

’’الدارقطنی امیر المومنین فی الحدیث‘‘[12]

امام دارقطنی امیرالمومنین فی الحدیث تھے-

آپ علم حدیث کے باب میں اس مقام پر فائز تھے کہ بڑے بڑے آئمہ فن بھی آپ کی شخصیت کو عدیم المثال قرار دیتے تھے- علامہ ابوذرھروی فرماتے ہیں کہ میں نے امام حاکم سے پوچھا:

’’ھل رایت مثل الدار قطنی فقال ھو لم یر مثل نفسہ فکیف انا‘‘[13]

’’کیا آپ نے امام دار قطنی کی مثل کوئی دیکھا ہے- تو امام حاکم نے فرمایا جب انہوں نے بذات خود اپنی مثل نہیں دیکھا تو میں کیسے دیکھ سکتا ہوں (یعنی میں نے ان کی مثل نہیں دیکھا)‘‘-

علامہ ابن خلکان آپ کے بارے ارشاد فرماتے ہیں :

’’وانفرد باالا مامة فی علم الحدیث فی دھرہ‘‘[14]

’’وہ اپنے زمانے میں علم حدیث کے منفرد امام تھے‘‘-

امام صاحب کے فن حدیث میں مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صحاح ستہ کے مصنفین کے بعد جن مصنفین کو معتبر اورجن کی تصنیفات کو مستند اور زیادہ پر منفعت خیال کیا جاتا ہے ان میں آپ کا نام بھی شامل ہے- علامہ ابن صلاح، امام نووی اور امام جلال الدین سیوطی نے اسی حیثیت سے ان کا ذکر و اعتراف کیا ہے-

عللِ حدیث اور

اسماء الرجال میں مہارت:

امام دارقطنی روایت کی طرح درایت کے بھی ماہر اور جرح و تعدیل کے فن کے امام تھے ان کا شمار مشہور نقادان حدیث میں کیا جاتا ہے ممتاز محدثین اور آئمہ فن نے ان کے اس کمال کا اعتراف کیا ہے رجال کی تمام معتبر و متداول کتابوں میں ان کے نقد وجرح کے اقوال موجود ہیں- خطیب بغدادی آپ کی اس فن میں مہارت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’انتھی الیہ علم الاثرو المعرفة بعلل الحدیث و اسماء الرجال و احوال الرواہ‘‘[15]

’’ان پر علم حدیث، علل حدیث، اسماء الرجال اور احوال رواہ کی معرفت کی انتہاء ہو گئی‘‘-

امام ذہبی فن حدیث میں آپ کے علمی کمال کو کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں:

’’وکان من بحورالعلم و من ائمة الدنیا انتھی الیہ الحفظ و معرفتہ علل الحدیث و رجالہ‘‘[16]

’’وہ علم کے سمندر اور امام الدنیا تھے آپ پر حفظ علل حدیث کے رجال کی معرفت کی انتہاہ ہوگئی‘‘-

 ان کے معاصرو شاگرد امام حاکم فرماتے ہیں کہ جب میں بغداد میں کچھ عرصہ قیام پذیر ہوا تو اکثر ان کی صحبتوں میں بیٹھنے کا موقع ملا واقعہ یہ ہے کہ میں نے ان کی جس قدر تعریفیں سنی تھیں ان سے بڑھ کر ان کو پایا- میں ان سے شیوخ رواة اور علل حدیث کے متعلق سوال کرتا تھا اوروہ ان کا جواب دیتے تھے میری شہادت ہے کہ روئے زمین پر ان کی کوئی نظیر موجود نہیں-[17]

حافظ ابن کثیرؒ نے نہایت شاندار الفاظ میں ان کی ناقدانہ بصیرت اور وسعت علمی کا تذکرہ کیا ہے فرماتے ہیں:

’’احسن النظر و التعلیل والانتقاد و امام دھرہ فی اسماء الرجال و صناعة التعلیل والجرح و التعدیل‘‘[18]

’’احادیث پر نظر اورعلل و انتقاد کے اعتبار سے وہ نہایت عمدہ تھے اپنے دور میں فن اسماء الرجال علل اور جرح و تعدیل کے امام تھے- مذکورہ فن میں ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ علل حدیث میں ان کی تصنیف کتاب العلل سب سے بہتر اور جامع خیال کی جاتی ہے‘‘-

فقہ و خلافیات:

امام دارقطنی نہ صرف علم حدیث میں نمایاں مقام رکھتے تھے بلکہ فقہ میں بھی ممتاز فقہاء کے مذاہب و مسالک کے نہایت واقف کار اور خلافیات کے بڑے ماہر تھے- ان کی سنن بھی اس پرشاہد ہے خطیب بغدادی فرماتے ہیں:

’’و منھا المعرفة بمذاھب الفقھاء فان کتاب السنن الذی صنفہ یدل علی انہ کان ممن اعتنی باالفقہ لانہ لا یقدرعلی جمع ما تضمن ذالک الکتاب الامن تقدمت معرفتہہ با الا ختلاف و الاحکام‘‘[19]

’’حدیث کے علاوہ مذاہب فقہاء کی معرفت میں بھی ان کا درجہ نہایت بلند ہے کتاب السنن کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو فقہ سے بڑا اعتناد و اشتغال تھا کیونکہ کتاب کے محتویات و مشمولات کو وہی شخص جمع اور مرتب کرسکتا ہے جس کو احکام و مسائل اور فقہاء کے اختلاف سے اچھی طرح واقفیت ہو‘‘-

اس فن کو انہوں نے ابوسعید اصطخری اور ایک روایت کے مطابق ان کے کسی خاص شاگرد سے حاصل کیا تھا-مؤرخین اور اصحاب سیر کا متفقہ بیان ہے:

’’وکان عار فا با ختلاف الفقہاء‘‘

 وہ اختلاف فقہاء کے عارف تھے-

فقہی مذہب:

اگرچہ امام دارقطنی شافعی المذہب تھے لیکن ان کا شمار اس مذہب کے صاحب وجوہ فقہاء میں ہوتا ہے صاحب وجوہ وہ فقہاہ کہلاتے ہیں جنہوں نے اپنے آئمہ کے مذاہب کی تکمیل اور ان سے منسوب مختلف روایتوں کے درمیان تطبیق و ترجیح اور ان کے وجوہ و علل واضح کیے ہیں اور جن مسائل کے متعلق ان کے آئمہ کی تصریحات موجود نہیں تھیں ان کو ان کے اصول و علل پر قیاس کر کے فتویٰ دیا ہے-

علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں:

’’کان عالما حافطا فقیھا علی مذھب الامام الشافعی‘‘[20]

’’وہ عالم حافظ اور امام شافعی کے مذہب کے فقیہ تھے‘‘-

امام یافعی آپ کی فقہی شان بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’قلت یعنی الامام المشہور صاحب الوجوہ فی المذھب‘‘[21]

’’میں کہتا ہوں امام المشہور یعنی امام دارقطنی مذہب شافعی میں صاحب الوجوہ تھے‘‘-

نحو، تفسیر ، قرأت و تجوید:

امام صاحب کو علم نحو، فن قرات و تجوید میں یدطولیٰ حاصل تھا اور ان کو تفسیری و قرآنی علوم سے بڑا شغف تھا- امام حاکم فرماتے ہیں:

’’ابوالحسن اماما فی القراء والنحویین‘‘[22]

’’آپ قراء اور نحویوں کے امام تھے‘‘-

 انہوں نے حروف و مخارج کی تصحیح و ادائیگی کا علم بچپن میں ابوبکر بن مجاہد سے سیکھا اور پھر محمد بن حسین نقاش طبری، احمد بن محمود دیباجی، ابوسعید قزاز وغیرہ ماہرین فن سے اس کی باقاعدہ تکمیل کی اور آخر عمر میں خود اس فن میں مرتبہ امامت و اجتہاد پر فائز ہوگئے- فن قرأت میں انہوں نے ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی اس میں قدیم قراء سے مختلف ایک نیا طرز انہوں نے ایجاد کیا تھا یہی طرز بعد میں مقبول ہوا اور لوگوں نے اسے اختیار کیا-

تصنیفات:

امام دارقطنی ایک عظیم محدث اور فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ مایہ ناز مصنف بھی تھے انہوں نے بے شمار کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو سب مفید بلند پایہ اور حسن تالیف کا نمونہ ہیں ان میں سے اکثر حدیث، اصول حدیث اور رجال کے موضوع پر ہیں مگر اب زیادہ تر نایاب ہیں  ذیل میں ان کی چند تصنیفات کاذکر کیا جاتا ہے:

v     سنن دارقطنی: یہ امام دارقطنی کی سب سے اہم اور شہرہ آفاق تصنیف ہے صحاح ستہ کے بعد جو کتابیں شہرت و قبول اور وثوق و اعتبار کے لحاظ سے ممتازاور اہم مانی جاتی ہیں ان میں سنن دارقطنی بھی ہے صحاح ستہ میں تمام صحیح حدیثوں کا حصر نہیں ان کے علاوہ جو کتابیں صحیح اور مستند حدیثوں کیلئے مشہور خیال کی جاتی ہیں ان میں سنن دار قطنی کا نام سر فہرست ہے- علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں صحیحین پر وہ صحیح اضافے مقبول ہیں جن کو امام ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن خریمہ اور امام دارقطنی وغیرہ میں سے کسی نے اپنی مشہور و معتبر کتاب میں بیان کیا ہو اور اس کی صحت کی تصریح کی ہو-[23]

سنن کی بعض خصوصیات:

v     امام دار قطنی کو کثرت و تعدد طرق میں بڑا کمال حاصل تھا سنن میں اسانیدو طرق کا انہوں نے اہتمام کیا ہے-

v     وہ فن جرح و تعدیل کے امام تھے علل اور رجال حدیث پر ان کی گہری نظر تھی اس لیے سنن نقد و جرح کے اقوال کا عمدہ اور مفید ذخیرہ ہے- امام دارقطنی نے حدیثوں کے اکثر طرق و اسانید بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر مفصل کلام کرکے ان کی قوت و ضعف کا فیصلہ کیا ہے اور حدیث کے درجہ و مرتبہ کا تعین، اس کے صحیح، مرفوع، مسند یا ضعیف، سقیم، موقوف، مرسل، غریب اور منکر ہونے کی تصریح بھی کردی ہے اور ایک قسم کی متعدد حدیثوں میں راجح اور اصح ما فی الباب کی نشاندہی بھی کی ہے-

v     امام دارقطنی فقہ و خلاف کے ماہر تھے اس لیے اس کتاب سے فقہی آراء و مذاہب اور اجتہادی مسائل بھی معلوم ہو جاتے ہیں-

v     راوی کے نام، کنیت، وطن، مسکن اور بعض مشکل و غریب الفاظ کی مختصر وضاحت اور تفسیری بحثیں بھی کی گئی ہیں-

v     سنن دار قطنی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ نامور آئمہ فن نے اس کے حواشی، تعلیقات اور زوائد تحریر کیے ہیں-

v     کتاب العلل: یہ کتاب اس موضوع پر متقدمین کی کتابوں کا نچوڑ ہے اور بڑی جامع ہے ابو عبداللہ حمید اندلسی کا بیان ہے کہ فنِ حدیث کی تین اہم چیزوں میں ایک العلل بھی ہے اور اس میں سب سے عمدہ کتاب امام دار قطنی کی ہے- حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس میں صحیح و غلط متصل، مرسل اوار منقطع و مفصل وغیرہ کی وضاحت کی گئی ہے اس کی ایک اہم خصوصیات یہ کہ اس میں علل کے طرق کی کثرت و تعدد کو جمع کیا گیا ہے یہ مسانید کی ترتیب پر ہے- امام دارقطنی نےاس کی املاء کروا ئی اور ان کے شاگرد ابوبکر برقانی نے اس کو جمع و ترتیب دیا تھا-

v     کتاب الضعفاء: یہ دراصل امام دارقطنی کے ان حواشی پر مشتمل ہے جو علامہ ابن حبان کی کتاب الضعفاء پر انہوں نے لکھے تھے اس میں ضعیف راویوں کا حال اور ان کی معرفت کا ذکر ہے رجال کی اکثر کتابوں میں امام دار قطنی کے جو اقوال درج ہیں وہ غالبا اسی سے ماخوذ ہیں- اس لحاظ سے یہ کتاب اہم ہے-

v     رسالہ قرآت: فن قرآت پر ایک مختصر اور جامع رسالہ ہے اس کے شروع میں اس فن کے اصول و ضوابط اور پھر فنی بحثیں تحریر کی گئی ہیں اس کی ترتیب و تبویب کو اتنا پسند کیا گیا کہ بعد کے مؤلفین نے اسی نہج پر اپنی کتابیں مرتب کیں-

v     کتاب الرؤیہ: یہ پانچ جزوں پر مشتمل ہے

v     کتاب الافراد

v     کتاب التصحیف فی الحدیث

v     المؤتلف و المختلف فی اسماء الرجال

v     الاربعین

v     کتاب الالزامات علی الصحیحین

v     کتاب التتبع لما خرج فی الصحیحین[24]

وفات:

مشہور روایت کے مطابق آپ کا وصال 8 ذوالقعدہ سنہ 385 ھ کو بغداد میں ہوا- مشہور فقیہ ابو حامد اسفرائنی نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور نامور صوفی بزرگ معروف کرخی کے مزار کے متصل باب الدیر میں سپرد خاک کردیا گیا-[25]

٭٭٭


[1](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:414)

[2](تذکرۃ الحفاظ، ج:3، ص:132)

[3](النجوم الذاہرہ، جز:4، ص:172)

[4](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:414)

[5](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:415)

[6](شذرات الذھب، جز:4، ص:453)

[7](المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، جز:14، ص: 379)

[8](الانساب للسمعانی، جز:5، ص:273)

[9](تاریخ بغداد، جز:13، ص:487)

[10](اکمال الاکمال، جز:1، ص:101)

[11](تاریخ بغداد، جز:13، ص:487)

[12](ایضاً)

[13](العبر، جز2، ص:167)

[14](وفیات الاعیان، جز:3، ص:297)

[15](تاریخ بغداد، جز:13، ص:)

[16](سیر اعلام النبلاء، ج:12، ص:414)

[17](طبقات الشافعیہ الکبرٰی للسبکی، جز:3، ص:463)

[18](البدایہ والنھایہ، جز:11، ص:362)

[19](تاریخ بغداد، جز:13، ص:487)

[20](وفیات الاعیان، جز:3، ص:297)

[21](مرأۃ الجنان و عبرۃ الیقظان، جز:2، ص:219)

[22](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:415)

[23](مقدمہ ابن صلاح)

[24](ھدیۃ العارفین، جز:1، ص:684)

[25](وفیات الاعیان، جز:3، ص:298)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر