دگردانائےرازآیدکہ ناید؟

دگردانائےرازآیدکہ ناید؟

دگردانائےرازآیدکہ ناید؟

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز جون 2019

کائنات میں ایسی عظیم شخصیات کا ظہور صدیوں بعد ہوتا ہے جن کی زندگی خدمتِ خلق، مساوات ِانسانی، دردِ انسانیت، عظمت و توقیر انسانی، حقوق انسانی کی علم برداری اور احترامِ آدمیت کے پرچار کیلئے وقف ہو- باالفاظ دیگر یوں کہ انہوں نے اپنی زندگی خدمتِ خلق کے لئے وقف کردی اور دوسروں کو اس عظیم فریضہ کی تلقین کرتے رہے کیونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھے کہ خوشنودی و رضائےالٰہی کاحصول اہلِ زمیں پر مہرباں ہونے اور ابنائے جنس کی بہبود و ترقی کیلئے تا دمِ مرگ کوشاں رہنے میں ہے- یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی شخصیات قوموں میں رُوح کی حیثیت رکھتی ہیں-

دنیائے اسلام میں ایسی ہی ایک عظیم شخصیت اور دانائے راز،حکیم الاُمت علامہ محمد اقبال کے نام سے معروف ہے جو اپنی سرِشت اور فکر و عمل میں ’’شکوہ تقدیر یزداں‘‘ کی بجائے قوتِ عمل و عش سے ’’خود تقدیرِ یزداں ہونے‘‘ کا قائل ہے اور جہادِ زندگانی میں استقرائی طرزِ فکر سے تسخیرِ فطرت کو مقصد حیات گردانتا ہے- بلاشبہ اس دانائے راز نے اپنے انقلابی افکار و تصورات سے جہاں امتِ مسلمہ کی کایا پلٹی، جینےکاڈھنگ سکھایا وہیں ’’شعر را مقصود اگر آدم گری است‘‘ کا فلسفہ اپناتے ہوئے امت ِ مسلمہ کی ہیئت اجتماعیہ کی تشکیل میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور سوزِ درونِ ملت کو سمجھتے ہوئے اسے درپیش بنیادی مسائل جن میں تن آسانی و تسہل پسندی، تجاہل و تغا فل، جمود و تعطل، افلاس، بےعملی، بے یقینی اورمحکومیت (ذہنی و روحانی غلامی)سرِ فہرست ہیں؛ سےنجات دلائی اور تقدیر پرستی کی بجائے حرکت و عمل پر آمادہ کیا بلکہ یہ درس دیاکہ:

خدا آں ملتی را سروری داد
کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت[1]
­

’’خدا دنیا میں ان قوموں کو شان و شوکت و سرفرازی عطا فرماتا ہے جو اپنی تقدیر خود اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں‘‘-

مزید برآں علامہ نےزندگی کی حقیقت اور اسلوب ِ زندگی بتاتے ہوئے فرمایا کہ زندگی آج اور کل کی محتاج نہیں بلکہ اپنی حقیقت میں جا ودانی اورعمل ِ پیہم کا نام ہے-

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی[2]

مزید علامہ صاحب اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ اے انسان! تو اپنی دنیا آپ پیدا کر کہ جو ابو البشر سیدنا حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا راز اور صدائے کن فیکون کی حقیقت ہے- آپؒ  نےزندگانی کی یہ حقیقت اپنی شہرہ آفاق اردو نظم ’’زندگی‘‘میں اس طرح بیان کی ہےکہ:

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سِرِّ آدم ہے، ضمیر ِ کُن فکاں ہے زندگی[3]

اقبال ؒ کی عظمت و انفرادیت کے متعلق ایران کے مشہور انقلابی مفکر اور اقبال شناس ڈاکٹر علی شر یعتی رقم طراز ہیں کہ :

’’اسلام نے روح انسانی کے تمام گو ناگوں ابعاد (Dimensions) میں عظیم انسانوں کو جنم دیا ہے اور نوع بشر کا عظیم خانوادہ اپنی بہت سی نمایاں و برجستہ شخصیات کو اس کا مرہون منت سمجھتا ہے اور اقبالؒ ایسی ہی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں- جو بات اقبال کوعظیم شخصیات سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسے آفت زدہ دور میں میدان میں آئے جب اسلام پہ کڑا وقت آیا ہوا تھا - اقبال نے نہ صرف اپنی شاعری سے بلکہ اپنے ’’وجود‘‘سے بھی اس دور کے استعمار زدہ مسلمانان عالم میں نئی روح پھو نکی - مزید آگے چل کر فرماتے ہیں کہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جوایک روح اور کئی ابعاد کی حامل ہے اور یہ کوئی اتفاقی امر نہیں روح اسلام ہی ایسی ہے - اقبال اس مکتب اسلام کے پروردہ فرزند ہیں ‘‘-[4]

تاریخ عالم میں مقامِ اقبال سےمتعلق سید غلام رضا سعیدی لکھتے ہیں:

’’انسانی تاریخ میں اقبالؒ جیسا کوئی شاعر و فلسفی نظر نہیں آتا جس نے اس اعجاز کے ساتھ اپنی ملت کے نصیبوں کو بیدار کیا ہو اور جو آٹھ (8) کروڑ سے زائد افراد کی قوم کے لئے حصول ِ آزادی و استقلال کی راہ ہموار کر سکا ہو ‘‘- [5]

اقبالیاتی افکار وتصورات کے بے شمار علمی،عملی و انقلابی پہلو ہیں جن پرضخیم کتب کی صورت میں انسانیت کی رہنمائی کے لئے گنج ِ گرامایہ موجود ہے- اقبال ؒ جیسے دانائے راز کے ہاں ایک انوکھی بات جو اسے دیگر شعراء سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ اقبال ؒ انسان سےنت نئی تخلیقی امنگوں اور افکارِ تازہ کا متقاضی ہےتا کہ انسان استقرائی دانش سےتسخیرِ فطرت کا کام سر انجام دیتے ہوئے صحیح معنوں میں نیابت الٰہیہ کا حق ادا کرسکے- شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا کا متلاشی ہے جو دورِ جدید کی ضروریات اور تقاضوں سےہم آہنگ بھی ہو لیکن اس کی روحِ رواں قرآن اور اسلامی تعلیمات کےمدارج عالیہ ہوں جو اقبالؒ کی شخصیت کا مرکز و محور ہیں-اقبالؒ ایسا کیوں چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے مسائل کو عصرِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ دیکھتے ہوئے قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں اس کا حل تلاش کیا جائے؟ کیونکہ اقبال ؒ بعثت نبوی (ﷺ) اور نزولِ قرآن کو سائنسی طلوعِ آفتاب کی خبر قرار دیتا ہے-

ڈاکٹر طالب حسین سیال ہماری توجہ اس طرف مبذول کرواتے ہیں کہ:

’’علامہ محمداقبال کا خیال ہے کہ پیغمبر (ﷺ) کی بعثت اس وقت ہوئی جب قافلہ انسانیت ذہنی لحاظ سے سائنسی دور میں داخل ہونے کیلئے تیار تھا- گویا پیغمبر اسلام (ﷺ) قدیم اور جدید دنیا کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں- اس لئےقر آ نِ حکیم ایک طرف ماضی کی روایات کا تسلسل اور دوسری طرف جدیدسائنسی حقائق کا داعی ہے‘‘- [6]

تاریخی تناظر میں دیکھیں تو بیسویں صدی میں اقبال ؒ کے علاوہ کوئی ایسا دانائے راز نظر نہیں آتا جو اس حقیقت کا فہمِ کامل رکھتے ہوئے اپنے فلسفیانہ انداز میں انسانیت کو یہ باور کروا سکا ہو کہ سائنس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیاہے یا یہ شعور اجاگر کیا ہو کہ سائنس نے انسانی طرزِ فکر بالکل بدل کے رکھ دیا ہے جس سے انسانی سماج نےبالکل ایک نئی سمت کی طرف رخ کیاہے-

اسی لئے اقبال ؒ نے اپنے شا ہکار خطبات ’’تجدیدفکریاتِ اسلام‘‘میں قرآن اور اسلامی تعلیمات کے اصولوں کی تعبیر جن سائنسی، فلسفیانہ اور منطقی انداز میں پیش کرتے ہوئے از سرِنو احیائےدین کافریضہ سر انجام دیا ہے؛ ادبی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور یہ (خطبات) علم کا ایسا بحر بے کراں ہے جس سےانسانیت تا ابد رہنمائی حاصل کرتی رہے گی اور تشنگان علم اپنی پیاس بجھاتے رہیں گے -

بعین اسی طرح اقبال ؒاپنے دور میں ملتِ اسلا میہ کودرپیش مسائل (اقتصادی، معاشرتی، آئینی، قانونی، سیاسی، اخلاقی، تہذیبی و تمدنی مسائل) سائنسی انداز میں بنظرِ غائر مطالعہ کرتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق اپنے پیغام میں اس کا مؤثر اور دائمی حل تجویز کرتے ہیں اور فی الحقیقت اقبالؒ کا سارا ادبی سرمایہ (پیغام )چاہے وہ نثر کی شکل میں موجود ہے یا شاعری کی صورت میں احترامِ آدمیت، خدمتِ خلق، دردِ انسانیت، سوزِ غم ملت، اخلاص فی العمل، عملِ پیہم، عظمت و تکریمِ انسانی، عرفانِ خودی، عشقِ مصطفٰے (ﷺ) سے لبریز، خالق و مخلوق کےمابین تعلق استوار کرنے کا انمول ذریعہ اور اپنی عصری معنویّت میں زندگی گزارنے کا طریق احسن تھامے ہوئے ہے-

مندرجہ بالا تحریر شدہ جملہ ’’دگر دانائے راز آید کہ ناید‘‘ اقبال کی ایک مشہور رباعی سے ماخوذ ہے جو اقبالؒ نے ستمبر 1937ء میں لکھی تھی-محققین کا کہنا ہے کہ اقبال ؒ نےیہ اشعار اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کہے جس میں اقبال ؒامت کی فکرِ فردا کیلئے شدتِ احساس اور مستقبل میں اپنی طرح کےایک دگر دانائے راز کی آمد کے خواہش مند ہیں- رباعی میں اقبال ؒ کا فصیح اظہار ان اشعار میں ڈھلتا ہے :

سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید؟
 نسیمی از حجاز آید کہ ناید؟
سر آمد روز گارِ ایں فقیری
دگر دانائے راز آید کہ ناید؟[7]

اقبالؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ماضی کا نغمہ (زندہ و جاوید نغمہ) پھر سنائی دے یا نہ دے، سرِ زمین حجاز سے کوئی پیغام آئے یا نہ آئے، اس فقیر(اقبالؒ) کا دور اپنے اختتام کو پہنچا، اب کوئی دوسرا دانائے راز (مراد اقبال ؒ کی طرح ملت کا درد رکھنے والا، مرد خود آگاہ، مرد حق آگاہ اور مرد قلندر) آئے یا نہ آئے-

اگر ہم اقبال ؒ کے مذکورہ بالا پیغام پر غور و فکرکریں توپتہ چلتا ہے کہ اقبال ؒ کا تخاطب ملت اسلامیہ کا ہر فرد ہے اور وہ یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ جس طرح اس دانائے راز (اقبالؒ) نے ملت کے سنگین حالات اور آفت زدہ دور میں ملت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور اپنے فکر وعمل سے احیائے دین کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کر دی- اسی طرح جب کبھی ملت و دین پہ کڑا وقت آئے تو کوئی ایسا مسلمان (مردِحر، مردِ مجاہد، مردخود آگاہ) پیدا ہو جو اپنے انقلابی افکار و تصورات اور قوتِ عمل اور تخلیقی صلاحیتوں سےقرآن اور اسلامی تعلیمات کے احیاء کیلئے کام کرے، قدرت کی نشانیوں میں چھپے اسرار و رُموز جانے اور میدان ِ عمل میں آکر ملت کی تقدیر بدل دے کیونکہ اقبال ؒ اس بات پہ یقینِ کامل رکھتے ہیں کہ:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ[8]

گزشتہ چند عشروں سے کشورِ حسین (پاکستان)نے جس طرح اندرونی و بیرونی مسائل کا سامنا کیا ہے اور اسلام مخالف قوتوں نے جس طرح اپنی اندوہناک سازشوں کے ذریعے نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آنے اسلامی ریاست (پاکستان) کی روحانی و نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اور دنیا کے سامنے دینِ اسلام کو بطور دہشت گرد ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کی جس کے اثرات سے یہ چمن (پاکستان) بالخصوص اور دنیائے اسلام بالعموم افسردگی سے دو چار ہوئی اور اقبالؒ جیسے باغبان کی کمی شدت سے محسوس کی کہ اُس جیسا کوئی دانائے راز آئے جو اپنے فکر و عمل اور روحانی قوت سے اس چمن کی حفاظت کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے اس چمن کی آبیاری کرے-بقول علامہ اقبالؒ:

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا [9]

آج ہمیں اپنے ظاہر و باطن میں اقبالیاتی اوصاف پیدا کرنے اور استقامت و اخلاص فی العمل کا دامن تھامے اس قافلہ ملی میں احیائے دین کیلئے انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنا مثالی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اقبالؒ کی تمنائےِ سرود رفتہ اور نسیمِ پیغام ِ حجاز کا کردار ادا کرتے ہوئے اقبال ؒ کا خواب دگر دانائے راز کو عملی شکل دے سکیں-

٭٭٭


[1](ارمغان حجاز)

[2](بانگ درا)

[3](ایضاً)

[4]( اقبال صاحبِ ا فکارِ جاود اں،ایرانی دانشوروں اور نقا دو ں کا علامہ کے فکر و فن پر اظہارِ خیال،ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی،ترتیب،ترجمہ وحواشی،صفحہ 266 وکٹری بک بینک لاہور،2008ء)

[5]( اقبال صاحبِ افکارِ جاوداں،ایرانی دانشوروں اور نقادوں کا علامہ کے فکر و فن پر اظہارِ خیال،ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی،ترتیب،ترجمہ وحواشی، صفحہ ،63وکٹری بک بینک لاہور،2008ء)

[6](تصوف اور عمرانی مسائل اقبال کی نظر میں(تحقیقی و تنقیدی جائزہ)،ڈاکٹر طالب حسین سیال،اقبال اکادمی پاکستان ،صفحہ 101، 2012ء)

[7](ارمغانِ حجاز)

[8](ارمغانِ حجاز،(بڑھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو)

[9](بانگِ درا)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر