قائداعظم تحریکِ پاکستان اور نریندرمودی

قائداعظم تحریکِ پاکستان اور نریندرمودی

قائداعظم تحریکِ پاکستان اور نریندرمودی

مصنف: طارق اسمٰعیل ساگر دسمبر 2014

محمد علی جناح رہنما، قائد، رہبر،لیڈر، قانون دان، سیاستدان اور سب سے بڑھ کر اسلامیان ہند کے نجات دہندہ- ایک  ایسی شخصیت جو جہاں بھی موجود ہوتی اپنی موجودگی کا مسلسل احساس دلاتی رہتی تھی- ایسا مرد حریت جس نے برصغیر کے مسلمانوںکو آئینی جدوجہد اور مذاکرات کی میز پر آزادی جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کروایا- اس سیاسی اور آئینی کاوشوں کے دوران کئی پیچ و خم آئے لیکن آہنی عزم اور کمزور جسم والے قائد اعظم کی پیشانی پر کبھی شکن تک نمودار نہ ہوئی-

تحریک پاکستان کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ 1906ء سے لیکر 1930 تک اور بعد ازاں بھی اپنے تنظیمی مسائل سے چھٹکارہ پانے میں ناکام رہی- علامہ محمد اقبال کا مشہور خطبہ الٰہ آباد کہ جس میں انہوں نے علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیش کرنا تھا اس میں تنظیمی عہدیداران اراکین کی تعداد 75 رکھی گئی تھی لیکن اسے کم کرکے 50 کرنا پڑا کہ آل انڈیا مسلم لیگ 25 سال (ربع صدی) بعد بھی اس قابل نہ ہو سکی تھی کہ اپنے اہم ترین اجلاس میں تنظیمی عہدیداران کی کم از کم تعداد کو چھو سکے- ایسی گھمبیر صورت حال میں جب بڑے دل گردے والے بھی پس ہمتی کا شکار ہو کر رہ جاتے ایسے میں قائد اعظم محمد علی جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے اندرونی تنظیمی اختلافات کی وجہ سے کچھ عرصہ کیلئے لندن قیام پذیر ہو کر ان تنازعات کا حل سوچنے لگتے ہیں اسی دوران علامہ اقبال کے اصرار پر یہ مرد ِدانا 1934ء میں برصغیر واپس آتے ہیں مگر ایک نئے ولولے کے اور نئے جذبے کے ساتھ کیونکہ تقریباً 13سال بعد برصغیر کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی مملکت کا باب کھلنے والا ہے- حالات مگر ابھی اتنے موافق نہیں کہ ایک نیا اسلامی ملک فوراً وجود میں آ جائے- 1937ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کو کوئی اُمیدوار نہیں مل رہا کہ اسے اپنی طرف سے میدان میں اتارے اور برصغیر کے مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت ہونے کے دعویٰ میں جان ڈال سکے- ہزار مشکلات کے بعد سات اُمیدوار ملے، ان میں سے دو کے حصے میں کامیابی آئی اور ایک نے وفاداری بدل کر آل انڈیا مسلم لیگ کے ہچکولے کھاتی کشتی میں سوراخ کر دیا-

آگ ہے،  اولادِ ابراہیمؑ ہے،نمرود ہے!

کیا  کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے؟

قائد اعظم محمد علی جناح جن کا قول ہے کہ ’’مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا‘‘ وہ ایسے دلبرداشتہ حالات میں بھی اپنے اعصاب کو مضبوط کرتے ہوئے 1937ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی کانگریسی وزارتوں کا طرزِ حکمرانی دیکھتے رہے- 1939ء میں اس حکومت کے خاتمے کے بعد جب 23مارچ کے عظیم الشان جلسے سے قبل لاہور میں خاکساروں کے خون کی قیمت پر جلسے کو ملتوی کروانے کی مذموم کوشش کی گئی- قائد اعظم نے دیدۂ بینا سے اس سازش کو بھانپ لیا، انہوں نے نہ صرف لاہور ریلوے اسٹیشن پر آنے والے مسلم لیگی استقبالیہ جلوس کو نظر انداز کر دیا بلکہ خاکسار جماعت سے تعلق رکھنے والے زخمی کارکنوں کی عیادت کیلئے ہسپتال پہنچ گئے- اس عمل کے ذریعے انہوں نے اپنا طرزِ سیاست اپنے حلیفوں، حریفوں اور پیروکاروں پر خوب واضح کر دیا-

قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد آزادی سرتاپا آئینی اور قانونی ہے، انہوں نے اگر اس کو خونی انقلاب کے ذریعے حاصل کرنا ہوتا تو وہ اعلانیہ یا خفیہ مسلمانوں کو، مسلم لیگیوں کو مسلح رہنے کی ہدایت کرتے- ہم تحریک پاکستان میں برصغیر کے مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی آزاد زندگی گزارنے کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی- انہوں نے زیارت میں تحریک پاکستان کے کارکن کے سوال پر جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ چھوٹی ذمہ داری والا شخص اگر غلط فیصلہ کرے تو تھوڑا نقصان ہوتا لیکن اگر بڑے عہدے پر فائز شخصیت کوئی غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کا نقصان بھی زیادہ اٹھانا پڑتا ہے-

1946ء کے انتخابات میں فقید المثال 95% کامیابی کے بعد کا حضرت قائد اعظم، صف اوّل کے دیگر رہنما، کارکنان، طلبہ و طالبات، گھریلو خواتین، نیشنل گارڈ، ایم ایس ایف، بچہ مسلم لیگ اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں موجود مسلمان ملازمین (کی قلیل تعداد) غرض ہر کوئی اس احساس سے سرشار تھا کہ پاکستان کی منزل دن بدن قریب آ رہی ہے- ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا: ’’سینے پہ گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے‘‘ لیکن خود مسلمانوں کی صفوں میں اغیار کے مفادات کی پشت پناہی کرنے والے بھی موجود تھے- اس کے ساتھ ساتھ تقسیم ہند کے مخالفین کا سرخیل لارڈ مائونٹ بیٹن، آل انڈیا کانگریس کی مرکزی قیادت، ماسٹر تارا سنگھ کا پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر لگایا گیا للکارہ، بعض علمأ و دیگر مسلمان رہنمائوں کا آل انڈیا مسلم لیگ ا ور تحریک پاکستان کی مخالفت کرنا، یہ سب عناصراس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور برصغیر میں اس کے مفادات کے نگہبان کسی قیمت نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کا ظہور عمل میں آئے لیکن مسلمانان ہند پر ابتلا و آزامائش کا امتحان ختم ہو چکا تھا- ان کی دعا، منت، مراد اور مناجات کے پورے ہونے کا وقت قریب آ چکا تھا- یہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور لہجے کا ہی اثر تھا کہ وہ مسلم لیگ جو کبھی شدید تنظیمی مسائل کا شکار تھی اس نے 1946ء کے انتخابات میں عظیم پیمان پر کامیابی حاصل کرکے بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا تھا- حضرت قائد اعظم کی شخصیت نہ صرف ان کے ہم عصروں کے لیے ایک رول ماڈل تھی بلکہ اپنی دنیا تک ان کا نام عظیم سیاسی و قانونی ماہرین میں شمار ہو گا- ایک ایسے سیاسی رہنما جو بدیسی زبان بات کرتے لیکن لوگ موسم کی شدت کی پرواہ کیے بغیر گھنٹوں ان کا دیدار کرنے کے لیے جلسہ گاہ میں موجود رہے-

قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی زندگی کا آغاز 1906ء سے ہوا جب انہوں نے کلکتہ کانگریس کے اجلاس میں اپنی پہلی سیاسی تقریر کی لیکن دراصل ان کی سیاسی زندگی کی ابتدا 1909ء سے ہوتی ہے جب بمبئی کے مسلمانوں نے ایکٹ 1909ء کے تحت نو تشکیل شدہ برطانوی آئین ساز کونسل کے لیے ان کو اپنا ممبر منتخب کیا اس کے علاوہ 1947ء تک وہ مرکزی مجلس قانون ساز کے بھی ممبر رہے-

ایک ماہر پارلیمنٹ اور چوٹی کے سیاستدان کی حیثیت سے بہت کم لوگ ان کے مد مقابل تھے- یوں تو دنیا کے سیاستدانوں میں ان کا مقابلہ جارج واشنگٹن، بسمارک، لینن ، مؤزے تنگ اور اتاترک سے کیا جاتا ہے مگر جو چیز ان کو ان سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک خاص دائرے میں رہ کر روایتی قسم کی رہبری کے فرائض انجام دیئے- اس طور پر کہ قومی تشخص و شعور کو واضح کرکے قوم کو آزادی سے ہمکنار کیا جبکہ محمد علی جناح نے ایک پس ماندہ، نامکمل اور ادھوری مسلم اقلیت کے لیے ایک ا لگ ملک و قوم کی طرح نظر ڈالی تاکہ ان کی تہذیب پروان چڑھے اور وہ اپنے لیے ایک جہان تازہ پیدا کر سکیں-

یوں تو قائد اعظم 1906ء سے 1920ء تک اور 1920 ء سے 1935ء تک مختلف طریقے سے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کرتے رہے لیکن ان کا اصل سیاسی کردار 1937ء میں زیادہ گہرے طور پر منظر عام پر آیا جب لکھنو میں اکتوبر 1937ء میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا اور انہوں نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کی- یہ اجلاس مسلم انڈیا کی تاریخ اور مسلم تنظیم کے بارے میں ایک اہم باب کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس اجلاس میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کے لیے عملی اقدامات کیے گئے- مسلم لیگ کا پرچم اختیار کیا گیا جو مسلمانوں کی عظمت اور قومی نشان کی حیثیت سے پنڈال پر لہرایا گیا- ایک والنٹیئر دستہ کی بھی تشکیل ہوئی، لیگ کا ایک ترانہ منظور ہوا جو خاص طور سے اس اجلاس کے لیے لکھا گیا تھا اور اس کو گایا گیا- یہ سب قائد اعظم کی اس للکار کا نتیجہ تھا جو انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے لیے دی تھی- یہ خوش قسمتی تھی کہ وقت نے ان کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کی اکثریت نے ان کی آواز پر لبیک کہا-یہاں تک کہ تین مہینے کے اندر اندر مسلم لیگ کی 170 نئی شاخیں قائم ہو گئیں اور صرف یو-پی میں ایک لاکھ ممبر بنے-1924ء میں قائد اعظم نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ آخر کار کامیاب ہو گئی اور ہندوستان کے مسلمانوں نے نہ صرف ان کی لیڈر شپ کو قبول کیا بلکہ مسلم لیگ اس وقت سے مسلمانوں کی مستند نمائندہ جماعت بن گئی- یہ ان کے سیاسی کردار کا کارنامہ تھا کہ وہ مسلمانوں میں اس قدر مقبول ہوئے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت نے ان کی سیاسی رہبری پر اعتماد کیا- یہاں تک کہ قوم نے ان کو قائد اعظم کا خطاب دیا-

کانگریس سے قائد اعظم کی بیزاری کا سبب یہ تھا کہ کانگریس مسلمانوں کو نگاہ میں نہیں لائی تھی بلکہ مسلمانوں کو نہایت حقارت سے دیکھتی تھی قائد اعظم کو یہ بات سخت ناگوار تھی اور وہ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کوہندوستانی سماج میں باعزت مقام ملنا چاہیے اور یہ کہ وہ ہندوستان کے نقشے میں ایک قوم بن کر ابھریں- ان کو تسلیم کیا جائے، ان کے سیاسی کردار کا ااہم رول یہی ہے کہ وہ زندگی بھر اپنی بات منوانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک الگ قوم تسلیم کیا جائے اور انسانی سوسائٹی میں ان کو باعزت مقام دیا جائے، وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے یہی ان کے سیاسی کردار کا اہم پہلو ہے-

سونے پر سہاگہ یہ کہ کانگریس نے اپنی وزارتوں کے زمانے میں (1937ء) ایسے اقدامات کیے جو مسلمانوں کو دکھ پہنچانے کے مترادف تھے- مثال کے طور پر اس نے مسلم آزاد ترانہ، بندے ماترم اختیار کیا- گورنمنٹ سکولوں میں اردو کی بجائے ہندی کو متبادل قرار دیا- گائو کشی کے خلاف قانون پاس کیا، ملازمتوں میں مسلمانوں کے خلاف ناانصافی کی حد تک امتیاز برتا گیا، اس کے ساتھ ساتھ ملک میں 57جگہوں پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں 130 اموات اور 1700 افراد زخمی ہوئے، ان سب باتوں سے قائد اعظم کو یہ اندازہ ہو گیا کہ کانگریس مسلمانوں کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کر رہی ہے جو انگریزوں نے ہندوستانیوں کے ساتھ روا رکھا تھا- یہ ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قائدانہ سیاسی کردار کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ایسے نازک موڑ پر مسلمانوں کی رہنمائی کی اور صحیح منزل کی طرف نشاندہی کی-

ہندو رہنمائوں کو قلق تھا کہ مسلمانوں نے اپنی قومی تشخص کا کھوج کیوں کر لگا لیا اور ان میں سے ایک الگ قوم بننے کی بیداری کیسے آ گئی- اگر اس بات کا غور سے مطالعہ کیا جائے کہ یہ بیداری مسلمانوں میں کہاں سے آئی اور کس نے روح پھونکی تو معلوم ہو گا کہ قائد اعظم نے ان میں یہ بیداری پیدا کی اور ان میں صحیح قومی روح پھونکی- کیونکہ مسلم سیاست کا رخ، پاکستان کی طرف موڑنے میں اور 1947ء میں پاکستان بننے تک قائد اعظم سے زیادہ کسی نے فیصلہ کن رول ادا نہیں کیا، یہ انہی کی عقل و فراست اور طاقتور کردار کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کے مطالبہ کو فارمولے کی شکل دی- خاص طور سے دوسری جنگ عظیم کے بعد جب پاکستان ناگزیر ہو گیا اور آخر کار پاکستان وجود میں آیا-

23مارچ 1940ء کو قائد اعظم نے قرار داد پاکستان کا اعلان کیا، اس اعلان کے فوراً بعد انہوں نے جو اقدام کیا وہ یہ تھا کہ وائس رائے سے اس بات کی یقین دہانی لی کہ ان کی حکومت موجودہ ذمہ داریاں کسی ایسی پارٹی کو منتقل نہیں کرے گی جس کو ملک کی ایک بہت بڑی اقلیتی اکثریت (مسلمان) کی تائید حاصل نہیں ہے-

اس کے بعد اپریل 1942ء میں کرپس مشن کی پیشکش اگرچہ پاکستان کی طرف پیش قدمی تھی مگر مسلم  لیگ نے اس کو اس لیے مسترد کر دیا کہ اس سے مسلم مطالبات پورے نہیں ہوتے تھے-

کرپس مشن کی ناکامی کے بعد، ہندوستان کے مشترقی دروازوں کو جاپانیوں کے کھٹکھٹانے پر کانگریس نے اگست 1942ء میں اپنی مشہور منصوبہ بند سکیم، ہندستان چھوڑ دو والی مہم شروع کی، اگرچہ اس تحریک کو ہندوستان کی آزادی پر منظم کیا گیا تھا مگر اس کا مطلب یہ تھا کہ برطانیہ کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ تمام طاقت اور اختیارات کانگریس کو سونپ دے اور کسی دوسری پارٹی کو نہ دے- اہم بات یہ ہے کہ کانگریس نے اس سلسلے میں کسی پارٹی سے مشورہ نہیں کیا اور نہ کسی کا تعاون حاصل کیا-قائد اعظم کانگریس کے اس کھیل کو دیکھ رہے تھے اس لیے انہوں نے مسلمانوں کو الگ رہنے کا مشورہ دیا- انجام کار یہ ہوا کہ کانگریس کی توقعات کے برعکس حکومت برطانیہ نے کانگریس کے الٹی میٹم کے سامنے جھکنے کی بجائے ایک پیش اقدام کیا اور وہ یہ کہ ان کے تمام سرکردہ لیڈروں کو گرفتار کر لیا- اس طرح کانگریس کی مرکزی لیڈر شپ سے محروم ہو کر یہ تحریک بہت جلد فنا ہو گئی-

یہاں پر قائد اعظم کی سوجھ بوجھ کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بروقت مسلمانوں کو الگ رہنے کا مشورہ دیا اور نتیجہ میں انہی کی بات درست نکلی کہ کانگریس اپنے منصوبے میں ناکام رہی یہ ان کے سیاسی کردار کا روشن پہلو ہے-

جہاں قائدِ اعظم اور اُن کے ساتھی ’’خیر کی قُوَّت‘‘ کے طور پہ کام کر رہے تھے وہیں ’’شَر کی قُوتیں‘‘ بھی اپنا کام کر رہی تھیں فکرِ اقبال کے وسیع مُطالعہ کے تناظر میں اگر قائد اعظم کی جد و جہد کا تجزیّہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کے کسی } آف دی ریکارڈ{ اجلاس میں یہ طے پایا تھا کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونے دینا تاکہ مہا بھارت کا خواب پورا کیا جا سکے اور دھرتی ماتا سے مسلمانوں کا وجود مٹا دیا جائے جس طرح کہ صلیبیوں نے ہسپانیہ (اسپین) سے مسلمانوں کا وجود مِٹا دیا تھا - اِبلیس نے یہ بھی طے کردیا تھا کہ دُشمنانِ ابلیس و عدُوّانِ نظام ِ اِبلیس اگر تقسیم کی اِس ’’سازش‘‘میں کامیاب ہو بھی گئے تو دھرتی ماتا کے وجود کے دوبارہ ایک ہوجانے تک ابلیسی کارندے چین سے نہیں بیٹھیں گے وہ ہمیشہ ہندوستانی سیاستدانوں کے سینہ میں لگے زخم ِ تقسیم پہ نمک پاشی کرتے رہیں گے اور انہیں یہ اشتعال دِلاتے رہیں گے کہ وہ قوم جس پہ حکمرانی کا خواب تم ہزار سال تک دیکھتے رہے آج یوں ترقّی کی راہ پہ گامزن ہے کچھ تو کرو کہ یہ ناکام ہو جائیں اور ان کے درمیان پھوٹ پڑ جائے یہ آپس میں اُلجھ پڑیں ایک دوسرے کا خُون کرنے لگیں - ابلیس ہی یہ آتش پھونکتا ہے اُن بھارتی حکمرانوں کے دِلوں میں مسلمانوں کی نفرت کو بھڑکاتا ہے جِس کا اِظہار مختلف صورتوں میں ہوتا رہتا ہے جس کا ایک زِندہ ثبوت سابقہ بھارتی وزیرِ اعظم اِندرا گاندھی نے ۱۹۷۱ ء کی تقسیمِ پاکستان کے وقت یہ کہہ کر کیا کہ ’’ ہم نے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ اقتدار کا بدلے لیا ہے ‘‘ - ہندوستان میں آج تک مسلمانوں کو قبول نہیں کیا گیا -

نوجوان قارئین ! اگر یہ سب باتیں پڑھ کر آپ کے ذہن میں کوئی شک و شُبہ آرہا ہے تو اُن بزرگوں سے چند ایک سوالات کر لیں جنہوں نے تقسیمِ ہند سے پہلے کا وقت دیکھا ہے ، اُن سے پوچھیں کہ ہندو لوگوں کا اِن کے ساتھ کیا رویّہ ہوتا تھا ؟ کیا اُن کے برتنوں میں کسی کو کھانا کھانے یا کچھ پینے کی اِجازت تھی ؟ کیا ایک پڑوسی کے طور پہ یہ اُن کے گھروں میں آ جا سکتے تھے ؟

اِس نفرت نے مسلمانوں کا اقتدار ٹوٹتے ہی شدّت پسندانہ رویّہ اختیار کیا اور برطانوی سامراجی حُکمرانوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خِلاف جابرانہ و ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرنا شُروع کئے جس کے نتیجے میں تحریکِ پاکستان کی ضرورت محسُوس کی گئی - ہندوستان کے جتنے بھی حکمران آئے ہیں سب ہی پاکستان سے شدید نفرت کرنے والے ، ہِذیان بکنے والے اور پاکستان کے خلاف مسلسل سازشیں کرنے والے ہیں - اِس کا اَندازہ آپ اِس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی گزشتہ دِنوں جب پاکستان کے دورہ پہ آئے ہیں تو پی پی پی کے وَفد سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں کئی مرتبہ پاکستان آیا ہوں جب افغانستان کا وزیرِ خزانہ تھا تو آنا جانا تواتر سے رہا ہے مگر میں پاکستان کو اتنا نہیں جانتا تھا جتنا تعارُف مجھے ہندوستان میں ایک ہفتہ قیّام کے دوران پاکستان کا کرایا گیا - اِس سے یہ اَندازہ لگانا مُشکِل نہیں کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں پاکستان کے خلاف مسلسل سازشیں کرنا شامل ہے - پاکستان کا قیام نظریاتی بنیادوں پر عمل میں آیا جو پاکستان دشمنوں کے لیے کبھی بھی پسندیدہ عمل نہیں رہا- قیام پاکستان کے فوراً بعد وہ بھاجپائی ذہنیت جس نے مسلمانوں کو علیحدہ مملکت بنا کے زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا پاکستان کی تحریک کے میدان عمل میں اتر آئی- اس ذہانیت کا موجودہ دور میں سب سے بڑا نمائندہ بھارتی وزیراعظم نریندر بھائی مودی ہے- جو بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک قصائی کی شہرت بھی رکھتا ہے دُکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا میں مودی کے متعلق حقائق پہ مبنی خبروں کو بہت کم شائع کیا جاتا ہے کہ کس طرح ہندوستان کی اقلیتیں مودی سے تنگ اور اس کی پالیسیوں کی شدید مخالف اور اس کی حکمرانی کے خِلاف ہیں - چاہے مسلمان ہوں ، سکھ ہوں ، عیسائی ہوں یا بدھ مت ہوں یا دوسرے چھوٹے مذاہب کے ماننے والے ہوں وہ سب مودی کے خِلاف مسلسل بولتے ہیں اور لوگوں کو باوَر کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح ایک مخصوص مذہب کو بذریعہ دھونس مسلط کرنے اور سرکاری و غیر سرکاری عہدوں پہ ترجیح دی جاتی ہے اور دیگر کو بُری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے کئی سرکاری نیم سرکاری و غیر سرکاری ادرے ایسے ہیں جن میں مودی سرکار کے آنے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بھرتیاں ہوئی ہیں مگر اُن میں غیرِ ہندُو کسی بھی مذہب کا کوئی ایک شخص بھی بھرتی نہیں کیا گیا - جس شخص کا اپنے ہی مُلک کی اقلیتوں سے یہ رویّہ ہے وہ بھلا مہا بھارت کے سینے پہ لگے زخم پاکستان کو کِس طرح برداشت کرے گا یا اس کا ترقی کرتا وجود کس طرح گوارا کرے گا - نریندر مودی اور اس قبیل کے تمام پاکستان دشمنوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ وہ خاکم بدہن پاکستان کو توڑ کر دوبارہ اسے ویشال بھارت کا حصہ بنا لیں جو انشاء اللہ کبھی ممکن نہیں ہو گا- جس مملکت کی بنیاد میں لاکھوں شہیدوں کا خون ہو اور جس کی نظریاتی بنیادیں اسلامی اساس پر رکھی گئی ہوں وہ انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم دائم رہے گی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر