قرآن مجید کے ابتدائی نسخہ جات کی طرزکتابت و خطاطی : ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ

قرآن مجید کے ابتدائی نسخہ جات کی طرزکتابت و خطاطی : ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ

قرآن مجید کے ابتدائی نسخہ جات کی طرزکتابت و خطاطی : ایک تاریخی و تحقیقی جائزہ

مصنف: اُسامہ بن اشرف جون 2019

قرآن مجید پیغمبرِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) پر بارگاہِ الٰہی سے نازل ہونے والے وہ الفاظ مبارکہ ہیں جوایک تواتر کے ساتھ منقول ہیں اورجن کی تلاوت باعث ِ ثواب ہے-قرآن مجید ہجرت سے 13برس قبل 24 رمضان المبارک کو غارِ حرا میں نازل ہونا شروع ہوا اور کم و بیش 23سال کے عرصے میں مکمل ہوا- رسول اللہ حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) ہر سال رمضان المبارک میں جتنا قرآن پاک نازل ہو چکا ہوتا اُس کا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ دور فرمایا کرتے تھے- ایک روایت کے مطابق آقا کریم (ﷺ) نے اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے آخری رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ دو مرتبہ مکمل قرآن پاک کا دور فرمایا تھا-حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیات مبارکہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کا یہ معمول ہوتا تھا کہ جیسے ہی قرآن پاک کی چند آیات یا مکمل سورت نازل ہوتی، وہ اُسے زبانی یاد کر لیا کرتے تھے-بلکہ بعض اصحاب کو آقا پاک (ﷺ) قرآن پاک کی نازل ہونے والی آیات لکھوا دیا کرتے تھے جو زیادہ تر کوفی اور حجازی رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں-حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیاتِ طیبہ میں قرآن پاک ہزاروں حفاظ کرام کے سینوں کے علاوہ مختلف چیزوں پر لکھی ہوئی حالت میں بھی موجود تھا- کتابت و خطاطی پر ناصرف قرآن مجید بلکہ حضور نبی پاک (ﷺ) نے بھی کافی زیادہ توجہ دیتے ہوئے مسلمانو ں میں کتابت کو فروغ عطا فرمایا-آقا پاک (ﷺ) کے وصال مبارک کے بعد دورِ صدیقی (رضی اللہ عنہ) میں قرآن پاک ایک مصحف کی شکل میں یکجا کیا گیا اور دورِ فاروقی (رضی اللہ عنہ) میں قرآن پاک کی طبع و اشاعت پر خصوصی توجہ دی گئی- ابتداً قرآن پاک اعراب و نقاط کے بغیر لکھا گیا تھا لیکن بعد میں اسلامی ریاست کی وسعت اور عرب و عجم کے لہجے و زبان میں فرق کے باعث قرأت قرآن میں پیدا ہونے والے اختلافات کو سامنے رکھتے ہوئے امیر المؤمنین حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کےدور مبارک میں قرأت نبوی (ﷺ) کے مطابق ایک خاص رسم الخط کو بنیاد بنا کر قرآن پاک کے مختلف نسخہ جات تیار کروائے گئے -زیرِ مطالعہ مضمون میں خط و رسم الخط کے مابین فرق ، عربی رسم الخط کی مختصر تاریخ و اقسام ، قرآن و سنت کی روشنی میں فنِ کتابت و خطاطی،قرآن مجید کے متن اور ابتدائی قرآنی نسخہ جات کی طرزِ کتابت و خطاطی کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے-

’’خط‘‘ عربی زبان کا کثیر المعانی لفظ ہے جس کا ایک مطلب کتابت و لکھنا(قلم وغیرہ سے)بھی ہے -بقول طاہر الکروی:

’’الخط و الکتابتہ و التحریر والرقم والسطر و الزبر بمعنی واحد وقد یطلق الخط علی علم الرمل ‘‘[1]

’’خط، کتابت، تحریر، رقم، سطر، زبر ہم معنی الفاظ ہیں اور کبھی خط کا اطلاق علم الرمل پر بھی ہوتا ہے‘‘-

یعنی خط وہ چیز یا آلہ ہے جو ایک انسانی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو لکھنے کا سبب بنتے ہیں-جبکہ دوسری طرف کسی بھی زبان کی تحریری صورت متعین کرنے والی مخصوص علامات و نقوش رسم الخط کہلاتے ہیں -درحقیقت ماضی میں انسان اپنے احساسات، جذبات اور خیالات کے اظہار کیلیے جن چند تصاویری اشکال،علامات و نشانات کی مدد لیا کرتا تھا وہ صدیوں کی مسافت اور انسانی شعور کی ترقی کے مرہونِ منت حروف کی شکل اختیار کر گئے اور آج رسم الخط کے نام سے مشہور ہیں- گو کہ رسم الخط کی ابتداء کے متعلق کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا البتہ محمد بن اسحاق ابن ندیم ؒنے اپنی کتاب ’’الفہرست‘‘میں کعب نامی عربی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:

’’رسم الخط کے موجد حضرت آدم (علیہ السلام)تھے-انہوں نے اپنی وفات سے 300 سال پہلے رسوم خط کچی اینٹوں پر رقم کر کے انہیں آگ میں پکا کر دفن کر دیا تھا-حضرت نوح (علیہ السلام) کے طوفان کے بعد جب یہ اینٹیں برآمد ہوئیں تو ان کے نقوش کو رسم الخط قراردے دیا گیا‘‘-[2]

اسی طرح محمد طاہر الکردی کے مطابق اخنوخ کا کہنا ہے کہ یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی ایجاد ہے[3]-البتہ قیاس ِ محققینِ مغرب کے مطابق ابتداً انسان نے اشاروں کی زبان سے آپس میں رابطہ شروع کیا جو بعد میں تصویری الفاظ یا تصویری رسم الخط کی شکل اختیار کر گیا- رفتہ رفتہ انسان نے ایک مخصوص آواز اور خاص تصویری نشان میں تعلق سے آگاہی حاصل کر لی اور اس طرح آواز و تصویر کے باہمی ملاپِ سے معرض وجود میں آنے والی تصاویر وقت کے ساتھ مختصر ہوتے ہوتے حروف و الفاظ کا روپ اختیار کر گئیں -

عربی رسم الخط عالمِ انسانیت کے چند قدیم ترین رسوم الخطوط میں سے ایک ہے - قدیم مصری خط عربی خط کے چند قدیم ترین ماخذات میں سب سے پہلا ماخذ ہے-جس سے بعد میں خط فنیقی وجود میں آیا او ر خط ِفنیقی سے مزید چار خطوط نے جنم لیا : (1)خط یونانی ، (2)خط عبری قدیم ، (3) مسند حمیری اور (4) آرامی خط- مغربی اور مشرقی محققین میں خطِ مسند اور خطِ آرامی تک اتفاق ہے البتہ ان میں اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا عربی رسم الخط کی بنیادخطِ مسند ہے یا خطِ آرامی - مغربی محققین کی تحقیقات کے مطابق آرامی خط سے خط سریانی اور نبطی خطوط وجود میں آئے- خطِ سریانی کی ایک قسم خط سطرنجیلی سے خط ِحیری یا خط ِکوفی نے جنم لیا اور یہی خط حجاز کے علاقے میں جا کر خطِ حجازی یا نسخی خط کہلایا-[4] جبکہ دوسری جانب محققین عرب کی تحقیقات کے نزدیک اہل حیرہ و انبار سے عربی خط اخذ ہوا جو انہوں نے اہل کندہ و نبط سے اخذ کیاتھا -اور اہل کندہ نے اپنے خط کو خط مسند سے اخذ کیا ہے- مندرجہ ذیل خاکوں میں عربی خط کےاشتقاق کے حوالے سے اہلِ مغرب اور اہلِ عرب کی رائے بآسانی سمجھی جا سکتی ہے - [5]

مغربی مفکرین کے مطابق عربی خط کا اشتقاق

قدیم مصری خط

خط فنیقی

المسند                                         الآرامی

الآرامی

 السریانی                                     النبطی

 السطرنجیلی                                  الحیری والانباری

 الکوفی                                         الحجازی النسخی

عرب راویوں کے مطابق عربی خط کا اشتقاق

قدیم مصری خط

خط فنیقی

المسند                                         الآرامی

جمیع الاقسام

 الکندی والنبطی

 الحیری والانباری

 الحجازی النسخی

 الکوفی

اسلام کی آمد سے قبل اہلِ عرب زیادہ تر خانہ بدوش، شہری زندگی سے دور،ایک غیر مہذب قوم تھے جنہیں کتابت کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی -جیسا کہ ابنِ خلدون لکھتے ہیں:

’’کتابت بھی ایک پیشہ ہے اور پیشے آبادی کے تابع ہوتے ہیں -اس لیے آپ اکثر دیہاتوں میں ان پڑھ لوگ پائیں گے- اگر کوئی دیہاتی لکھنا پڑھنا سیکھ بھی لے تو اس کا خط بے ڈھنگا ہوتا ہے- اس کا پڑھنا، نہ پڑھنا برابر ہے-آپ انتہائی آباد شہروں میں شہریوں کا خط عمدہ ، خوبصورت اور مستحکم پائیں گئے ‘‘-[6]

البتہ عرب کے بعض علاقوں میں کچھ متمدن سلطنتیں بھی موجود تھیں، مثلاً تبابعہ یمن، مناذرہ و غساسنہ وغیرہ جہاں مسند حمیری اور حیری انباری خطوط رائج تھے-تاریخی اعتبار سے اہلِ عرب میں علم الانساب اور شعر و شاعری ایک قدیم روایت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر دلعزیز بھی تھی لیکن ان میں حرف شناسی و تحریر و کتابت نا پید تھی-ایک تحقیق کے مطابق عرب میں سب سے پہلے قبیلہ بنی طلحہ کے تین افراد مرامر بن مرہ، اسلم بن سدرہ اور عامر بن جدرہ نے تحریر و کتابت کی روایت ڈالی- انہوں نے اپنی خداد صلاحیتوں سے سریانی زبان کو سامنے رکھتے ہوئے عربی حروف تہجی مرتب کیا- جب یہ اس پر مہارت حاصل کر چکے تو حیرہ کے چند باشندگان نے اِن سے اس فن کو باضابطہ طور پر سیکھا - حیرہ والوں میں سے ایک بشیر بن ولید نامی شاگرد (جو دومتہ الجندل کا رئیس تھا )کسی غرض سے مکہ مکرمہ گیا اور وہاں حضرت ابو سفیان ؓ ‏ کی بہن صہبا بنتِ حرب سے نکاح کر لیا- چنانچہ حضرت ابو سفیان ؓ ‏ اور ابو قیس بن عبد مناف نے بشیر سے کتابت سیکھی اور بعد میں اہلِ طائف کو فنِ تحریر و کتابت سکھائی-رفتہ رفتہ اہلِ قریش و دیگر قبائلِ مکہ و حجاز میں بھی کتابت کا رواج پروان چڑھنے لگا- ایک اور روایت کے مطابق مکہ میں کتابت سب سے پہلے حرب بن امیہ بن عبد شمس کے ذریعے پہنچی اور یہاں کتابت کو رواج دینے والوں میں ورقہ بن نوفل کا نام زیادہ معروف ہے- آپ تورات اور انجیل کی کتابت کیا کرتے تھے-[7] دوسری طرف مدینہ منورہ میں علم کتا بت مکہ مکرمہ سے پہلے متعارف ہو گیا تھا - مدینہ میں اکثر لوگ تحریر و کتابت جانتے تھے-ایک روایت کے مطابق جب حضور نبی کریم (ﷺ) ہجرت کے بعد مدینہ پہنچے تو ایک یہودی وہاں کے بچوں کو کتابت سکھایا کرتا تھا-[8] المختصر! یہ کہ عربی رسم الخط (حمیری )کی ترقی تبابعہ کے دور میں شروع ہوئی -یہ آلِ منذر (سلاطین حیرہ) سے ہوتا ہوا قریش و طائف پہنچا اور اسلام کی آمد و غلبت کے بعد عرب و عجم میں عام ہو گیا-

اسلام کی آمد کے وقت اہلِ مکہ و حجازمیں چند ایک لوگ عربی رسم الخط کو جانتے تھے-اس وقت مکہ میں خطِ حیری رائج تھا اور اسلام کی ابتدائی خط و کتابت بھی اسی خط میں ہوئی -مکہ کے کاتب حضرات میں حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ، حضرت ابوعبیدہ ، حضرت معاویہ اور خواتین میں الشفاء بنت عبد اللہ (رضی اللہ عنھم)کے نام ملتے ہیں جبکہ مدینہ منورہ کے کاتبین میں زید بن ثابت ، سعیدبن زرارہ، منذر بن عمرو، ابی بن کعب، رافع بن مالک، اسید بن حضیر ، معن بن عدی، اوس بن خولی اور بشیر بن سعد (رضی اللہ عنھم) شامل ہیں[9]-کتب سیرت رسول سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت محمدِ مصطفےٰ (ﷺ) کے دورِ مبارکہ میں معروف بالکتابت اصحاب کی تعداد 43یا 44 اور بعض روایات کے مطابق 56 تھی اور انہیں 5 مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

  1. کاتبین نبی (ﷺ) : وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)جوآقا پاک (ﷺ) کے حکم مبارکہ کے تحت قرآنی آیات اور خطوط نویسی کا کا م کیا کرتے تھےان اصحاب کی تعداد 34 شمار کی جاتی ہے-
  2. کاتبین جامعین: وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) جو بذات خود قرآن مجید کو بذریعہ تحریر و کتابت جمع کرنے کا فریضہ سر انجام دیا کرتے تھے، ان کی تعداد 6ہے-
  3. کاتبین مصاحف:وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) جو مصاحف عثمانی کی تحریر و کتابت میں شامل رہےان کی تعداد 3ہے-
  4. کاتبین حدیث: وہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) جو احادیث نبوی (وحی خفی)کی تحریر و کتابت فر ماتے تھے ان کی تعداد 7ہے -
  5. کاتبین محض: وہ حضرات جو اسلوب ِطرز وتحریر سے بخوبی آگاہ تھے، یہ 6 ہیں -

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بیشتر مقامات پر مسلمانوں کو لکھنے پڑھنے کی طرف رغبت دلائی گئی اور خطاطی پربھی خصوصی توجہ دی گئی -فنِ خطاطی درحقیقت حروف و الفاظ کو خوبصورت انداز اور ایک دلکش تحریر کی صورت میں لکھنے کو کہتے ہیں - عام طور پر خطاطی اور خوشخطی کو مترادف سمجھا جاتا ہے مگر ان میں ایک مختصر مگر فنی فرق ہے- خوشخطی بطور پیشہ اپنانے والے کو کاتب جبکہ شوق و لگاؤ سے کرنے والے کو خطاط کہتے ہیں-[10] قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیشتر مقامات پر مسلمانوں کو ناصرف کتابت و خطاطی کے متعلق آگاہ فرمایا بلکہ ان علوم و فنون کو سیکھنے کی طرف راغب بھی فرمایا- قرآن مجید کی غارِ حرا میں نازل ہونے والی پہلی وحی میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ‘‘[11]

’’پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے-جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا‘‘-

قرآن پاک کی اڑسٹھویں (68) سورۃ ’’القلم‘‘ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے لکھی ہوئی تحریر کی قسم اُٹھا کر کتابت و خطاطی کی اہمیت کو اجاگر فرمایا -ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ‘‘[12]

’’ ن (حقیقی معنی اللہ اور رسول(ﷺ)ہی بہتر جانتے ہیں) قلم کی قسم اور اُس (مضمون) کی قسم جو (فرشتے) لکھتے ہیں‘‘-

اسی طرح سورۃ الاعراف میں ارشادِ ربانی ہے:

’’وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيْلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ ‘‘[13]

’’اور ہم نے اس کیلیے تختیوں میں لکھ دی ہر چیز کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل‘‘-

اسی طرح حضور اکرم (ﷺ) نے بھی کتابت و خطاطی کو خاص اہمیت دی اور مسلمانوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

 ’’الخط الحسن یزید الحق وضحًا‘‘[14]

’’احسن خط حق و سچ کی وضاحت کو چار چاند لگا دیتا ہے ‘‘-

آپ (ﷺ)نے ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا:

’’ان من حق الولد علی والدہ ان یعلمہ الکتابتہ و ان یحسن اسمہٗ و ان یزوجہ اذا بلغ‘‘[15]

’’والد پر بچے کا یہ حق ہے کہ وہ اسے کتابت(لکھائی ) کی تعلیم دے، اس کا اچھا نام رکھے اور جب بالغ ہو جائے اس کی شادی کرے‘‘-

 اسی طرح حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے کاتب سے ارشاد فرمایا:

’’اذاکتبت فضع قلمک علی اذنک فانہ اذکر لک ‘‘[16]

’’جب تو لکھ چکے تو اپنے قلم کو اپنے کان پر رکھ دے کیونکہ یہ یاداشت کیلیے بہت مفید ہے‘‘-

 فنِ کتابت و خطاطی کی اہمیت کو اجاگر فرمانے کیلیے حضور پاک (ﷺ) نے غزوہ بدر میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو ہدایت فرمائی کہ اگر وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو انہیں رہا کر دیا جائے گا- المختصر! یہ کہ اسلام نے اہلِ عرب میں بالخصوص اور تمام عالمِ انسانیت میں بالعموم فنِ کتابت و خطاطی کےفروغ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا -

کتابت و تدوین قرآن کا پہلا دور: دورِ نبوی (ﷺ)

آنحضرت پاک (ﷺ) کا دستور مبارک تھا کہ جب بھی وحی (قرآن کریم) نازل ہوتی، آپ (ﷺ) حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) (پہلے کاتبِ وحی )کو طلب فرما کر لکھوا دیا کرتے تھے اور حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) کی عدم موجودگی میں کسی دوسرے صحابی کو بلوا کر لکھوا دیا کرتے تھے- ’’صحیح بخاری‘‘کی ایک روایت کے مطابق ایک مرتبہ آقا پاک (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:’’زید کو بلاؤ اور اسے کہو کہ اپنی تختی اور دوات لے آئے‘‘-جب حضرت زید (رضی اللہ عنہ) وہاں پہنچے تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:’’لکھو‘‘-

 مکہ میں سب سے پہلے کاتبِ وحی عبداللہ بن ابؤ السرح (رضی اللہ عنہ) تھے جو ہجرت کے بعد مرتد ہو کرمدینہ سے  مکہ بھاگ گئے اور فتح مکہ کے موقع پر دوبارہ مسلمان ہو گئےتھے -مدینہ منورہ میں پہلے کاتبِ وحی سیدنا ابی بن کعب (رضی اللہ عنہ) تھے- البتہ ہجرت کے بعد حضرت سیدنا زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) مستقل طور پرقرآن پاک کی کتابت کیا کرتے تھے اور فتح مکہ کے بعد حضرت امیر معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) بھی کتابتِ وحی میں شریک رہے- یہ تمام اصحاب (رضی اللہ عنھم)کاغذ کی نایابی کے باعث کھجور کے پتوں، ٹہنی یا چھال، جانوروں کی ہڈیوں، چمڑے اور پتھر کی ہموار تختی پر لکھ لیا کرتے تھے-اس طرح عہدِ رسالت (ﷺ) میں ہی مکمل قرآن پاک سورتوں کی ترتیب کے بغیر متفرق جگہوں پر لکھا ہوا موجود تھا- البتہ مختلف حکمتوں کے پیشِ نظر آپ (ﷺ) نے قرآن پاک کو ترتیب کے ساتھ ایک جگہ کتابی صورت میں اکٹھا نہیں فرمایا تھا-اس کے علاوہ بہت سے حفاظ کرام نے خداداد قوت سے محض سن کر مکمل قرآن پاک حفظ کر لیا تھا- آپ (ﷺ) نے قرآن پاک لکھواتے وقت جو رسم الخط اختیار فرمایا وہ کوفی اور حجازی رسم الخط ہوا کرتا تھا - آپ (ﷺ) نے اپنے دورِ مبارک میں خالد بن سعید بن العاص کو ایک خط لکھوایا جس کی انفرادیت و خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ’’کان‘‘ کو ’’کون‘‘ اور ’’حتی‘‘کو ’’حتا‘‘ لکھا گیا تھا-المختصر! یہ کہ آپ (ﷺ) کے دور مبارک میں استعمال ہونے والے رسم الخط کو دورِ عثمانی میں مزید واضح کر کے پیش کیا گیا تا کہ تمام اسلامی ریاست میں ایک ہی طرزِ رسم الخط کا قرآن پاک موجود ہو-[17]

کتابت و تدوین قرآن کا دوسرادور:

دورِ صدیقی (رضی اللہ عنہ)

آپ (ﷺ) کے ظاہری وصال مبارکہ کے نتیجہ میں وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور نسخ و درمیانی اضافہ جات کی گنجائش ختم ہو گئی-خلیفۂ اوّل حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے دورِ خلافت میں مسلمانوں کی یمامہ کے مقام پر مسیلمہ کذاب سے ہولناک جنگ ہوئی جس میں مسلمان فوج کی قیادت حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) فرما رہے تھے- اس معرکے میں کم و بیش 1200 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں کم و بیش 700حفاظ کرام تھے-’’صحیح بخاری، ص: 475‘‘ پر حاشیہ کے مطابق:

 ’’کان عدۃ من القراءِ سبع مائۃ‘‘[18]

’’یعنی اس جنگ میں شہید ہونے والے حفاظ وقراء کی تعداد 700تھی‘‘-

مزید یہ کہ ان شہید ہونے والے حفاظ و قراء میں حضرت سالم (رضی اللہ عنہ) بھی شامل تھے-حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) نے چار جلیل القدر حفاظ و قراء سے قرآن پاک سیکھنے کا حکم مبارک فرمایا تھا اور حضرت سالم (رضی اللہ عنہ) ا ن چار میں سے دوسرے نمبر پر تھے- مزید یہ کہ حضرت سالم (رضی اللہ عنہ)کے فوجی دستے میں دیگرایسے کئی جلیل القدر قراء و حفاظ بھی شامل تھے جن کے پاس قرآن پاک تحریری شکل میں بھی موجود تھا -چنانچہ اس پُر درد واقعہ کے بعد حالات کی نزاکت اور مستقبل میں ممکنہ مسائل کا بروقت ادراک کرتے ہوئے جلالِ اِسلام حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کو قرآن پاک کو ایک کتابی شکل میں اکٹھا کرنے کی سعی کا مشورہ دیا-[19] پس سیدنا حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے اس عظیم منصوبہ کی ذمہ داری حضرت سیدنا زید بن حارث (رضی اللہ عنہ)کو سونپتے ہوئے انہیں تتبع قرآن کا حکم مبارک فرمایا - حضرت زید بن حارث (رضی اللہ عنہ)نے قرآن لکھنے اور حضرت اُبی بن کعب (رضی اللہ عنہ)نے قرآن لکھوانے کی ڈیوٹی سر انجام دی- قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان اصحاب نے قرآن پاک کو جمع کرنے میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لیا-جس بھی صحابی رسول (ﷺ) سے قرآن مجید اکٹھا کیا جاتا، ان سے دو گواہان کی گواہی لی جاتی کہ انہوں نے متعلقہ حصہ ِ قرآن آقا پاک (ﷺ)کے بتائے ہوئے رسم الخط کے مطابق تحریر کیا تھا- اس طرح نہایت محتاط انداز میں قرآن پاک کا ایک نسخہ مبارک جمع کر لیا گیا جو حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے پاس اور آپ کے وصال کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس محفوظ رہا اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ)کی شہادت کے بعد وہ صحیفہ اُم المومنین حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہ)کے پاس محفوظ رہا-[20] حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم(رضی اللہ عنہ)نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کے اس عظیم کارنامے کے متعلق ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ ابوبکر(رضی اللہ عنہ) پر رحم فرمائے وہ اولین ہستی تھے جنہوں نے قرآن کو کتابی صورت میں جمع فرمایا‘‘-[21]

جلد ہی اس تیار شدہ و تصدیق شدہ مصحف کی بیشتر نقلیں تیار کروا کر مختلف علاقوں میں تقسیم کروا دی گئیں -

کتابت و تدوین قرآن کا تیسرا دور:

دورِ فاروقی (رضی اللہ عنہ)

امیر المؤمنین جلالِ اسلام حضرت عمر ِ فاروق (رضی اللہ عنہ)نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن پاک کی نشر و اشاعت پر خاص توجہ دی- امام ابن حزم اُندلسیؒ کے مطابق حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)کے عہد خلافت میں امت اسلامیہ کے پاس کم و بیش ایک لاکھ سے زائد قرآن پاک کے تحریر شدہ نسخے موجود تھے-مزید یہ کہ آپ (رضی اللہ عنہ) نے حفظِ قُرآن کی روایت کو فروغ بخشنے کیلئے رمضان المبارک میں ناصرف باجماعت نمازِ تراویح کی بنیاد رکھی بلکہ اسے پوری امت میں نافذ بھی فرمایا جس کی وجہ سے حفاظتِ قرآن کو بہت فائدہ ہوا ، آج تک ہر مسلمان پورا رمضان تلاوتِ قرآن کی سماعت کا جو چاشنی حاصل کرتا ہے یہ فیضِ فاروقی (رضی اللہ عنہ) ہی کا تسلسل ہے -

کتابت و تدوین قرآن کا چوتھا دور: دورِ عثمانی(رضی اللہ عنہ)

دورِ فاروقی (رضی اللہ عنہ)میں اسلامی خلافت کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا اور کم و بیش 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی ریاست قائم ہو گئی-چونکہ مختلف علاقوں اور زبانوں کے نئے مسلمان ہونے والے لوگ عجمی و غیر زبان (عربی) ہونے کے باعث قرآن پاک کے الفاظ کی صحیح ادائیگی و قرأت نہیں کر پاتے تھے اور مختلف علاقوں کے لوگوں میں قرآن پاک کی قرأت کے متعلق اختلافات پائے جاتے تھے بلکہ بعض عرب قبائل کے مابین بھی لب و لہجہ اور تلفظ و رسم الخط کا اختلاف پایا جاتا تھا - مزید یہ کہ اکثر مسلمان حکم نبوی (ﷺ) کے عین مطابق بعض معلمین سے قرآن پاک سیکھا کرتے تھے -دوران ِ درس اکثر معلمین قرآن پاک کے احکامات کو سمجھانے کے لیے کچھ تشریحی و توضیحی الفاظ کا استعمال کیا کرتے تھے جنہیں متعلمین قرآن پاک کا حصہ سمجھ کر لکھ لیتے تھے جو بعد میں بہت شدید مسائل کا سبب بن سکتے تھے- مثلاًحضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے اپنے ذاتی نسخہ مبارک میں ’’لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ‘‘ ،’’تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو‘‘،کے ساتھ ’’فی مواسمِ الحج‘‘ (یعنی ایام حج میں تجارت کرکے کچھ مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے)کے الفاظ کا اضافہ کر رکھا تھا جو محض تشریح و توضیح کے لیے تھا- گو کہ یہ اختلافات دورِ فاروقی (رضی اللہ عنہ) میں بھی تھے لیکن دورِ عثمانی (رضی اللہ عنہ) کے حالات کے برعکس دورِ فاروقی (رضی اللہ عنہ) میں اختلافات ’’کَفَّرَ بعضُہم بعضًا‘‘ تک نہیں پہنچے تھے-

حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے دورِ خلافت میں حضرت حذیفہ بن یمان (رضی اللہ عنہ) آرمینیہ اور آذربائیجان جانے والی افواج کا حصہ تھے -انہوں نے اپنے سفر کے دوران دیکھا کہ ایک مقام پر شام اور عراق کی فوجیں جمع ہیں اور ان میں قرأت قرآن پاک پر شدید اختلافات ہیں اور ہر جماعت اپنی قرأت کو دوسری جماعت پر افضل قرار دے رہی ہے-[22] حضرت حذیفہ (رضی اللہ عنہ) نے اپنی پریشانی و تشویش کا اظہار حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) سے کیا اور عرض کی کہ اُمتِ محمدی (ﷺ) کو یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح کتابِ الٰہی پر اختلاف میں مبتلا ہونے سے پہلے کوئی تدبیر کیجیئے -[23] حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے اس وقت کے کم و بیش 12 ہزار صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کو مشاورت کے لیے جمع فرمایا اور مکمل صورتحال سے آگاہ فرمایا - باہمی مشاورت کے بعد یہ طے پایا کہ تمام لوگوں کو ایک مصحف (مخصوص قرأت و واحد رسم الخط) پر جمع کیا جائے تاکہ اختلافات کا خاتمہ ہو سکے- پس حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس موجود عہدِ صدیقی (رضی اللہ عنہ) میں لکھا جانے والا مصحف قرآن منگوایا اور   4 صحابہ کرام، حضرت زید بن حارث، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت سعید بن عاص اور عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشام (رضی اللہ عنہ) کو یہ فریضہ سر انجام دینے کا حکم مبارک فرمایا- حضرت زید بن حارث (رضی اللہ عنہ)کو اس کمیٹی کا انچارج بنایا گیا چونکہ آپ ہمیشہ حضور نبی کریم(ﷺ)کے ساتھ کتابت پر معمور رہے اور عہدِ صدیقی میں لکھے جانے والے صحیفوں میں بھی پیش پیش تھے -[24]  (اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اِس نوعیّت کے بڑے مسائل اور عظیم معمے حل کرنے کیلئے ایک طاقتور حکومت اور ایک با صلاحیت حکمران کی اُمّت کو کس قدر ضرورت رہتی ہے، مسلمانوں کی سیاسی وحدت و مرکزیت کے بغیر قرأت و کتابتِ قرآن کا یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا) - بعض روایات کے مطابق چند دیگر جلیل القدر صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کی ایک جماعت بھی اس کمیٹی کی معاونت فرمایا کرتی تھی جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص، حضرت ابی بن کعب اور حضرت سیدنا ایوب الانصاری (رضی اللہ عنہ)وغیرہ سرِ فہرست ہیں -

حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے اس عظیم فریضہ کو سر انجام دینے پر معمور صحابہ کرام کو واضح طور پر تاکید فرمائی کہ اس صحیفے کی کتابت میں استعمال ہونے والے رسم الخط میں قرآن پاک کی تمام قرأت متواترہ ثابت ہوں - تمام قرأت متواترہ کو محفوظ رکھنے کی وجہ آقا پاک (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے جس میں آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’إِن ھذا القرآن أُنزل علٰی سبعۃ أحرف فاقرؤا ماتیسر منہ‘‘[25]

’’یہ قرآن مجید 7 حروف پر نازل کیا گیا ہے لہٰذا جو حرف تمہیں آسان معلوم ہو-اس پر قرآن کی تلاوت کرو‘‘-

یہی وجہ ہے کہ تمام مشہور قرأتیں مصاحفِ عثمانی میں موجودتھیں جس کا ثبوت حضرت امام جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی معرکۃ الارأ تصنیف ’’الاتقان‘‘میں بڑی شرح و بست سے بیان فرمایا[26]- حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے مزید یہ تاکید بھی فرمائی کہ تما م مشکلات و اختلافات میں لغتِ قریش کو اہمیت دی جائے کیونکہ نزولِ قرآن لغتِ قریش میں ہوا ہے -[27] مثلاً جب ایک دفعہ کلمہ ’’التابوت‘‘کی کتابت پر کمیٹی کا اختلاف ہو گیا کہ اسے الطاغوت کی طرح لمبی تاء(ت) کے ساتھ لکھا جائےیا التوریٰۃ کی طرح گول تاء (ۃ) سے لکھا جائے- جب یہ معاملہ حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ نے لغتِ قریش کی رو سے فیصلہ فرمایا کہ الطاغوت والی لمبی تاء(ت ) کے ساتھ لکھا جائے-[28] مصاحفِ عثمانی میں سورتوں کی ترتیب لوحِ محفوظ میں مکتوب ترتیب کے عین مطابق تھی- اس کی کتابت میں اعراب و نقاط استعمال نہیں کیے گئے تھے-یہ قرآن مجید کوفی قدیم (خطِ حیری )میں لکھے گئے تھے -ابتدائی نسخہ جات میں ایک سورۃ کو دوسری سورۃ سے الگ کرنے کا کائی خاص انتظام نہیں کیا گیا تھا مگر ہر سورۃ کے آغاز سے قبل ’’﷽ ‘‘ واضح طور پر لکھا ہوتا تھا -جلد ہی سورۃ کے نام کو الگ کر کے بقیہ سورۃکی نسبت مختلف روشنائی سے لکھا جانے لگا تا کہ نئی شروع ہونے والی سورۃ کا مختصر تعارف ہوجائے-

مزید یہ کہ قرآن پاک ایک مکمل کتاب کی صورت میں جمع کر لینے کے بعد اس کا نام ’’مصحف‘‘رکھا گیا اور حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) والا صحیفہ انہیں واپس کر دیا اور دیگر صحیفہ جات کو نسخ کر دیا گیا- حضرت حفصہ(رضی اللہ عنہا) کے وصال کے بعد مروان نے آپ کے بھائی عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) سے وہ صحیفہ بھی منگوا کرنسخ کر دیا تاکہ اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رہے-امام السیوطی ؒکی کتاب ’’الاتقان‘‘کے مطابق کم و بیش 6 نسخے تیار کیے گئے جن میں سے 5 دیگر علاقوں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، شام، بصرہ اور کوفہ میں بھجوا دئیے گئے -آپ نے صرف قرآنی نسخہ جات پر ہی قناعت نہیں فرمایا بلکہ ہر علاقے میں ایک جید صحابی الرسول (ﷺ) کو معلم بنا کر بھیجا تاکہ ہر طرح کے اختلاف کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے- حضرت زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ)کو مدینہ منورہ ، حضرت عبد اللہ بن سائب (رضی اللہ عنہ) کو مکہ مکرمہ، حضرت مغیرہ بن شہاب (رضی اللہ عنہ)کو شام میں، حضرت عامر بن عبداللہ القیس (رضی اللہ عنہ)کو بصرہ میں حضرت عبد الرحمٰن السملی کو کوفہ میں معلم بنا کر روانہ فرمایا- آپ نے اُن علاقوں میں پہلے سے موجود تمام قرآن پاک منگوا کر نسخ کروا دئیے - اس طرح امتِ محمدی ایک بہت بڑے فتنہ نما اختلاف سے محفوظ رہے- آج بھی قرآنیت کا بنیادی اصول ہے کہ جس قرآن کا رسم الخط مصاحفِ عثمانی کے مطابق ہو گا وہی قرآن کہلائے گا-

کتابت و تدوین قرآن کا پانچواں دور:

دورِ حیدری (رضی اللہ عنہ)

امیر المؤمنین سُلطانِ ولایت حضرت علی (رضی اللہ عنہ)کے دورِ خلافت تک قرآن پاک کی کتابت اعراب و نقاط کے بغیر کی جاتی تھی-مختلف روایات کے مطابق جب حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنے دورِ خلافت میں لوگوں کو قرآن مجید کی تلاوت کے دوران تلفظ و اعراب کی غلطیاں کرتے دیکھا تواپنے شاگرد ابو الاسود الدوئیلی (رضی اللہ عنہ) کو زبان، خط اور کتابت کی غلطیوں کی درستگی کیلیے عربی زبان کی گرائمر مرتب کرنے کا فریضہ سر انجام دینے پر مامور فرمایا-ابو الاسود الدوئیلی (رضی اللہ عنہ) نے دل و جان سے اس ذمہ داری کو قبول فرمایا اور پہلی دفعہ عربی صرف و نحو کے قواعد بنائے- الدوئیلی نے حروف کی پہچان کے لیے نقاط ایجاد کیے- عین ممکن ہے کہ اس نے نقاط کلدانیوں اور سیرانیوں کے رسم الخط سے متاثر ہو کر لگائے ہوں جو نقاط کا استعمال کیا کرتے تھے - الدوئیلی کے ایجاد کردہ نقاط درحقیقت اعراب (زیر، زبر اور پیش ) کا کام کرتے تھے -ابو الاسود اور اس کے معاونین نے اصول طے کیے کہ جن حروف کو ادا کرنے میں پورا منہ کھل جائے اُن کے اوپر ایک نقطہ لگایا جائے گا، جن حروف کو ادا کرتے وقت دونوں لب کناروں سے مل جائیں گئےاور منہ گول ہو جائے اُن کے آگے دائیں جانب ایک نقطہ اور جن کے ادا کرنے میں آواز کا رُخ نیچے کی جانب ہو اُن کے آگے ایک نقطہ لگایا جائے گا-[29]المختصر یہ کہ شیرِ خُدا حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) کے دور ِخلافت میں قرآن مجید کے حروف و الفاظ کی پہچان و وضاحت کے لیے نقاط متعارف کروائے گئے- ’’ب، ت، ث اور جِ، ح، خ، د، ذ، ر، ز ‘‘وغیرہ پر نقاط لگا کر قرآن کی تلاوت کو مزید آسان اور دلکش بنا دیا گیا-

اسی طرح حجاج بن یوسف کے دور ِ حکومت میں سلطنت مزید وسیع ہوئی اور بیشتر غیر عرب بھی مسلمان ہو گئے-عربی زبان سے نا واقفیت کے باعث جب لوگوں نے اعراب میں غلطیاں کرنا شروع کر دیں تو حجاج بن یوسف کے حکم پر قرآن کے الفاظ پر اعراب کا اضافہ کیا گیا-مزید یہ کہ ایک ہفتہ میں ختمِ قرآن کی نیت سے قرآن مجید کو 7 منزلوں میں تقسیم کر لیا گیا اور بعد میں ایک ماہ میں ختمِ قرآن کی نیت سے اسے 30 پاروں میں تقسیم کر دیا گیا تھا-

قرآن پاک سیّد الانبیأ حضرت محمد الرسول اللہ (ﷺ) پر بارگاہِ الٰہی سےنازل ہونے والی وہ کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اٹھایا ہے -قرآن مجید آج 1400سال گزر جانے کے باوجود اپنی حقیقی حالت میں موجود ہے- یہ قرآن پاک کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے -

٭٭٭


[1]( الکر دی ، محمد طاہر، تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی، 1939ء ، ص:7)

[2]( ابن ندیم، محمد بن اسحاق، کتاب الفہرست (ترجمہ محمد اسحاق بھٹی) ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، 1969ء ص:10)

[3]( الکر دی ، محمد طاہر، تاریخ الخط العربی و آدا بہ، ص:16)

[4]( الکر دی ، محمد طاہر، تاریخ الخط العربی و آدا بہ، ص:40)

[5]( عبدالحئی عابد، عربی خط کی تاریخ و ارتقاء ، مقالہ برائے ایم-اے -عربی، بہاءالدین زکریا یونیوورسٹی ملتان)

[6]( عبدالرحمٰن ابنِ خلدون ، مقدمہ ابن خلدون، نفیس اکیڈمی کراچی، جلد :2، ص :306)

[7]( جرجی زیدان، تاریخ اداب اللغۃ العربیۃ، منشورات دار مکتبہ الحیاۃ بیروت، 1978ء)

[8]( الکر دی ، محمد طاہر، تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی، 1939ء ، ص:60)

[9]( عبد الحئی عابد، علم الخط، 2009ء)

[10]( عبدالحئی عابد، عربی خط کی تاریخ و ارتقاء ، مقالہ برائے ایم-اے -عربی، بہاءالدین زکریا یونیوورسٹی ملتان، 1990ء)

[11]( العلق: 4-3)

[12](القلم:1)

[13](الاعراف: 145)

[14](الکر دی، محمد طاہر، تاریخ الخط العربی و آدا بہ، المطبعۃ التجاریہ بالسکاکینی، 1939ء، ص:10)

[15](ایضاً)

[16]( ایضاً ؛ عبدالحئی عابد، عربی خط کی تاریخ و ارتقاء ، ص: 93)

[17]( بو داؤد سلیمان ابن اشعث الازدی السجستانی، کتاب المصاحف، ص:104)

[18]( بخاری شریف، جلد:2، ص:748)

[19]( بخاری شریف، جلد:2، ص: 745)

[20](النشر،ج:1، ص:7)

[21]( البرہان، ج:1،ص:239)

[22]( بخاری شریف صفحہ :746 ؛ مشکوۃ شریف ، باب فضائل القرآن، ص:193)

[23]( بخاری شریف، حدیث نمبر:4987)

[24]( بخاری شریف، ج:2، ص:784)

[25]( متفق علیہ ، بخاری،ج:2، ص:747؛ مسلم، ج:1، ص:272)

[26]( امام سیوطی، الاتقان،جلد:2 ،صفحہ:289)

[27]( امام سیوطی، الاتقان،ج:1،ص:104)

[28](سنن الترمذی:أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللہِ (ﷺ)، (تفسیر خازن، مقدمہ)

[29]( السابع عبدالعلم، الخط العربی، وزارہ التربیۃو التعلیم المصر، دسمبر 1961ء)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر