حضورغوث الاعظم اور حضرت سُلطان العارفین

حضورغوث الاعظم اور حضرت سُلطان العارفین

حضورغوث الاعظم اور حضرت سُلطان العارفین

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری جنوری 2018

سَیدُ المرسلین، خاتم النبیین، رحمت العالمین حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’مثل المؤمنين في توادهم و تراحمهم و تعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى‘‘[1]

’’مومنین کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بےخوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہوتا ہے ‘‘-

دوسری روایت میں ہے کہ ’’رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’المسلمون كرجل واحد إن اشتكى عينه اشتكى كله وإن اشتكى رأسه اشتكى كله‘‘[2]

’’مسلمان (باہم)ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے ‘‘-

فَرامین ِ رَسُول (ﷺ)سے یہ بات مترشح ہوتی ہےکہ تمام اعضاء میں (فیلنگ)،محسوسات اور احساسات کا پایا جانا، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ رکھنا،ایک عضوء کی تکلیف سے بر وقت تمام اعضاء کا باخبر ہو جانا، وجود کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے تمام اعضاء کا دفائی صورت میں سراپا احتجاج بن جانا اور ہر ممکن وجود کو راحت وآرام دینے تک تمام اعضاء کا مسلسل بے قرار رہنا یہ ایک مکمل نظام پر دلالت کرتا ہے جس کوا للہ تعالیٰ نے ’’وجودِ انسانی‘‘کے تحفظ کے لئےآدمی کے وجود میں ہی رکھ دیا ہے-قابل توجہ بات یہ ہے اعضاء کا ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرنا، تکلیف میں برابر کا شریک ہونا اور ایک دوسرے کی تکلیف سے بروقت باخبر ہوجانا یہ نظام کا انٹیلی جنس سسٹم ہے -جو نظام روحانیت پر دلالت کرتی ہے اور پورے وجود کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے تمام اعضاء کا دفائی صورت میں سراپا احتجاج بن جانا ہے اور وجود کو مکمل آرام وسکون دلانے تک مُسلسل مُتحرک رہنا یہ نظام کی عسکری وِنگ ہے جو نظام ِ مادیت پر دلات کرتی ہے-نتیجتاً یہ بات سامنے آئی کہ کسی چیز کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے نظام کی دونوں ونگز کا پایا جانا ضروری ہے یہ ونگز جتنی مضبوط ہونگی وہ چیز اتنی ہی محفوظ ہوگی اِس کو ذہن نشین کرلینے کے بعداِس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمان قوم کا وجود کیا ہے؟ اور اِس کو کیسے تحفظ دیا جاسکتا ہے؟ بقول اقبالؒ:

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں[3]

گویا مُسلمان قوم کا وجود ’’اسلامی تشخص کے وجود‘‘ سے مشروط ہے جب تک اسلامی تشخص کا وجود محفوظ نہیں ہوگا اُس وقت تک مُسلمان قوم کا وجودمحفوظ نہیں رہ سکتا-اسلامی تشخص کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے مذکورہ نظام کی ضرورت ہے-یہی وجہ تھی کہ صُوفیاء، اُولیاء، فقہاء اور آئمہ دین نے ہر وقت ہر جگہ اور ہر حال میں اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے دن رات کام کیا کیونکہ اُن کے جینے کا مقصد دین اسلام کی سر بلندی تھا-جب بھی، جہاں بھی اور جیسے بھی اسلامی تشخص کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا بروقت اُس کو جانچا اور قلع قمع کیا گیا گویا کہ ہمارے اسلاف اسلامی تشخص کے وجود کے اعضاء کی مانند تھے اسی وجہ سے ان تمام کی سوچ وفکر میں مساوی پن اور حقائق کو جانچنے کی فیلنگ میں اس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ جب آدمی اُن کی کتب کو پڑھتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے اکھٹے بیٹھ کر لکھی ہوں-ان کی تحریروں میں اصلاح ِ امت کا جذبہ اور ایک دوسرے کے ساتھ ادب و احترام کا رشتہ ایسے کمال کا جس کی مثال نہیں -

حالانکہ زمانی اعتبار سے کئی صدیوں کا فرق ہے اور مکانی اعتبار سے سینکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے ممکن ہے کہ زندگی میں کبھی ملاقات بھی نہ ہوئی ہو،  نہ ہی دوسرے کی کتب تک رسائی ہوئی ہو، لیکن بطور فیلنگ اور احساسات دیکھا جائے تو ایک جسم کے اعضاء کی طرح دکھائی دیتے ہیں-اسی مناسبت سے اسلاف میں سے دو شخصیات کا ذکر بطور نمونہ کے کرنا چاہوں گا-

1.       حضور سیدی شیخ عبد القادر جیلانی الحسن الحسینی القادری الحنبلی البغدادی  (قدس اللہ سرّہٗ) (المتوفی:561ھ)

2.       حضور سیدی سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھُو القادری الحنفی الہندی (قدس سرہ العزیز) (المتوفی:1102ھ)

ان دو شخصیات کے درمیان فرقِ زمانی 541 سال اور فرق مکانی سیکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے-شاہ جیلان (قدس اللہ سرّہٗ)کی زبان عربی جبکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی زبان پنجابی اور فارسی ہے -فقہ اور مسلک بھی مختلف ہے، شاہ جیلان (قدس اللہ سرّہٗ) فقہ حنبلی سے منسلک ہیں اور آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فقہ حنفی کے پیروکار ہیں لیکن دونوں شخصیات کی سوچ وفکر میں اتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ کہیں یہ ہم زماں اور ہم مجلس تو نہیں ہیں؟ بطور نمونہ چند اقتباسات قارئین کرام کی نظر کرنا چاہوں گا

1-حضور شہنشاہِ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ)’’معیت ِحق کاطریق اور اس کے قرب کے حصول‘‘سے متعلق تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’خدائے یگانہ کے ساتھ اس طرح اخلاص و حضور کے ساتھ رہو گویا مخلوق کا وجود ہی نہیں اور رعایت ِ حق اور حفاظت ِحدودِ شرع کرتے ہو ئے مخلوق کے ساتھ اس طرح رہو گویا نفس ناپید ہے پس جب تم مخلوق کے وجود کو نظر انداز کرتے ہوئے خدا کے ساتھ رہو گے تو اُسے پا لو گے اور ہر چیز سے خالی ہوجاو گے اور جب نفس کی مداخلت کے بغیر مخلوق کے ساتھ رہو گے تو عدل وانصاف سے کام لو گے اور حق پر استقامت اور خلافِ حق سے پرہیز کرو گے تو انجام ِ بدسے محفوظ ہوجاو گے-خَلق ونَفس خلوت کے دروازے پر چھوڑ کر خلوت میں تنہا داخل ہو جاو،تم خلوت کی تنہائیوں میں چشم ِ باطن سے اپنے مونس کو دیکھ لو گے اور چشم ِ سر سے نظر آنے والی موجودات اعیان واشخاص کے ماوراء کا عین الیقین سے مشاہدہ کر لو گے اور نفس زائل ہوجائے گا اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کا قرب و امر جگہ لے لے گا اس حالت میں تمہارا جہل علم بن جائے گا اور بعد قرب کی جگہ لے لے گا[4]-

حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) ’’عین الفقر ‘‘میں اِسی موضوع کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

’’سن اے حق شناس! معیت ِخدا حاصل کر اور اللہ کے سوا ہر چیز کا نقش دل سے مٹا دے تاکہ ذاتِ حق کے سوا دل میں کچھ بھی باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o ج وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُ والْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ‘‘کے مطابق صرف اُسی کے ہی جلوے تیرے دل میں باقی رہ جائیں‘‘-

آپ قدس سرہ العزیزاسی حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

خُدا یکی دل یکی یکی رابجو
بایکی یک شوی چوں عین اُو

’’خُدا ایک ہے،دل بھی ایک ہے،اُس ایک کو ڈھونڈ اور اُس کے ساتھ مل کر ایک ہو جا تاکہ عین وہی ایک رہ جائے‘‘-[5]

2-حضور شاہِ جیلان (قدس اللہ سرّہٗ)’’للہیت اور شریعت کی پاسداری‘‘ سے متعلق فرماتے ہیں:

’’جب تو نے لاالہ الاللہ کہا کہ کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے، تو تُو توحید کا مدعی بن گیا اب کہا جائے گا کہ بتا تیرا کوئی گواہ بھی ہے؟ وہ گواہ کیا ہے؟ حکم ماننا،ممنوعات سے باز رہنا، مصیبتوں پر صبر کرنا اور تقدیر کے سامنے گردن جھکانا یہ اس دعویٰ کے گواہ ہیں اور یہ بھی حق تعالیٰ کیلئے اخلاص کے بغیر مقبول نہیں ہونگے کیونکہ کوئی قول قبول نہیں ہوتا بلا عمل کے اور کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا بغیر اخلاص اور سنت کی موافقت کے‘‘[6]-

حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف لطیف ’’عین الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’’آنرا اولیٰ تر آنست کہ از اد بِ محمدی () بجہتِ شریعت نماز روزہ فرض قضا نکند‘‘

’’ایسے صاحب ِمراقبہ کے لئے لازم ہے کہ وہ ادب ِمحمدی (ﷺ) میں شریعت ِمطہرہ پر کاربند رہے اور نماز و روزہ جیسے فرائض قضا نہ کرے‘‘-

’’اگر تُو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی رہے تو شغلِ توحید ِمعر فت (تصورِاسم اللہ ذات)سے پورے اخلاص کے ساتھ معیت ِالٰہی اختیار کر اور اگر تُو چاہتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تجھ سے راضی رہیں تو ترکِ دنیا اختیار کر کے شریعت ِنبوی (ﷺ)کی پاسداری میں کوشش کر ‘‘-

’’کامل و پختہ مرد وہ ہے جو کسی بھی حالت میں شریعت سے قدم باہر نہ رکھے خواہ وہ وقت ِالست سے صاحب ِاسرار ہو کر حالت ِسکر و مستی میں ہو یا حالت ِقبض و بسط میں ہو یا حالت ِعشق و محبت میں ہو-اگر وہ شریعت سے باہر قدم رکھے گا تو اُس کے تمام مراتب ِخاص سلب ہو جائیں گے‘‘-

خدا از کرم فضلش عبد خوانی
نہ انصاف است تو در جرم مانی

’’خدا جب اپنے فضل و کرم سے تجھے اپنا بندہ قرار دیتا ہے تو تیرا معصیت و گناہ میں مبتلا ہونا سراسر ناانصافی ہے‘‘-

خدا با تو ترا بین چشم باید
بہ چشمِ معرفت حق رو نماید

’’خدا تو ہر وقت تیرے ساتھ ہے لیکن تجھے چشمِ بینا کی ضرورت ہے کہ صرف چشمِ بینا ہی معرفت ِحق کے قابل ہوتی ہے‘‘-

3-حضور شہنشاہِ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ)’’قضاءو قدر‘‘کے حوالے سے لکھتےہیں:

’’نزولِ تقدیر کے وقت حق تعالیٰ شانہ پر اعتراض کرنا موت ہے (بندے کے)دین کی، موت ہے(بندہ کے عقیدہ) توحید کی، موت ہے توکل و اخلاص کی، ایمان والا قلب لفظ،کیوں اور ’’کس طرح‘‘ کو نہیں جانتا وہ نہیں جانتا کہ ’’بلکہ‘‘ کیا ہے اس کا قول تو ’’ہاں‘‘ ہے - (یعنی حکمِ تقدیری کی موافقت کرتا ہے اور چوں و چراں کے ساتھ رائے زنی نہیں کرتا‘‘-[7]

پھر آگے لکھتے ہیں:

’’صاحبو! آؤ ہم سب عزوجل اور اس کے فعل اور تقدیر کے سامنے جھکیں اور اپنے ظاہر اور باطن سروں کو جھکا دیں اور تقدیر کی موافقت کریں اور ہم رکاب بن کر چلیں (یعنی ہم شکوہ و شکایت نہ کریں )‘‘[8]-

اِسی حوالے سے حضور سلطان صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) ’’کلید التوحیدکلاں‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

شبنم نہ کرد داغِ دلِ لالہ را علاج
نتواں بہ گریہ شست خط سرِ نوشت را

’’گل ِلالہ کے دل کا داغ شبنم سے نہیں دھویا جا سکتا، نہ ہی تقدیر کا لکھا رونے دھونے سے مٹایا جاسکتاہے‘‘-

مکش رو د رہم ازحکم قضاچہ میکشی پردہ
چہ پرواہ آتش از چین بچینِ بوریا را

’’حکمِ قضا سے سامنا کرتے وقت چہرے کو شکن آلود نہ کر اور نہ ہی حکمِ قضا سے خود کوچھپا کہ آگ جب چٹائی کو جلاتی ہے تو چٹائی کی چیں بچیں کی پرواہ نہیں کرتی‘‘-

مصنف کہتاہے :

باھُو ارضا بر قضا غالب چو گردد
ز کردہ از خدا ہرگز نہ لرزد

’’اے باھُو ! رضا جب قضا پر غالب آتی ہے تو تقدیرِ خداوندی کا خوف ختم ہوجاتاہے‘‘-

چرا لرزد کہ قربِ او تمام است
ہرآں لرزد کہ ناقص عام خام است

’’تقدیراِلٰہی سے وہ کیوں ڈرے کہ جسے اﷲتعالیٰ کا قر بِ تمام حاصل ہو، ڈرے تو وہ جو ناقص و عام و خام ہو‘‘-

رضا قاضی قضا در حکم بہ او
بہ جُز حکمش نہ گیرد جان از مو

’’رضا قاضی ہے اور قضا اُس کی غلا م ہے، حکمِ رضا کے بغیر قضا ایک بال کی بھی جا ن نہیں لے سکتی‘‘-

جان لے! کہ بندہ اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتا کہ ہر کام اُس کی مرضی سے ہو- حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کا فرمان ہے:’’مَیں نے اپنے ربّ کو اپنے عزائم کی ناکامی سے پہچانا‘‘-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’حکیم کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘-پس بہتر یہ ہے کہ ہر کام خدا کے سپرد کر دیا جائے اور خود کو درمیا ن سے نکال دیاجائے‘‘-

4-حضور غوث پاک (قدس اللہ سرّہٗ)میں انسان کو محاسبہ نفس کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’اے مسلمان تجھ پر افسوس ہے کہ تیری زبان تو مسلمان ہے مگر قلب مسلمان نہیں، تیرا قول مسلمان ہے مگر فعل مسلمان نہیں تو اپنی جلوت میں مسلمان ہے مگر خلوت میں مسلمان نہیں کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب تو نماز پڑھے گا روزہ بھی رکھے گا اور سارے نیک کام کرے گا مگر ان اعمال سے اللہ تعالیٰ کی ذات مقصود نہ سمجھے گا تو تُومنافق ہے اور اللہ عزوجل سے دور ہے‘‘[9]-

پھر آگے لکھتے ہیں :

’’تیری زبان پرہیز گار ہے مگر قلب فاجر، تیری زبان اللہ کی حمد کرتی ہے مگر قلب تیرا اس پر اعتراض کررہا ہے تیرا ظاہر مسلمان ہے مگر اندرون کافر ہے تیرا بیرون موحد ہے مگر باطن مشرک، تیرا زہد تیرے ظاہر پر ہی ہے، تیرا دین صرف ظاہر ہی پرہے اور باطن تیرا خراب ہے ‘‘[10]-

حضرت سُلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) عین الفقر شریف میں اسی موضوع سے متعلق فرماتے ہیں:

باھُوا! نفس پلید بر تن جامۂ پاک چہ سود
در دل ہمہ شرک است سجدہ بر خاک چہ سود
[11]

’’اے باھُو! نفس اگر پلید ہے تو تن پر پاکیزہ لباس پہننے کا کیا فائدہ؟ دل میں شرک ہی شرک بھرا ہے تو خاک پر سجدہ ریزی کا کیا فائدہ؟‘‘

بر زبان تسبیح در دل گاؤخر
این چنین تسبیح کی دارد اثر
[12]

’’زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل بیل و گدھے کے خیال میں مستغرق ہوتو ایسی تسبیح کیا اثر دکھائے گی ‘‘؟

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں :

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا تے دل دا پڑھدا کوئی ہو

5-حضرت غوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ) ’’قلب‘‘سے متعلق نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’اپنے قلوب کی اصلاح کر لو کیو نکہ قلوب ہی ایسی چیز ہیں جب وہ سنور جاتے ہیں تو سارے حالات سنور جاتے ہیں‘‘-[13]

اسی کتاب میں آگے لکھتے ہیں کہ:

’’(اے مخاطب ) ا پنے دل کو ا پنے رب کیلئے خالی کر‘‘-

حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اسی حوالے سے متعلق ’’عین الفقر‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

دل کعبہ اعظم است بکن خالی از بتاں
بیت المقدّس است مکن جائِ بت گراں

’’دل کعبۂ اعظم ہے، اِسے بتوں(خیالِ غیر)سے پاک کر، دل بیت المقدس ہے اِسے بت گروں کی دکان مت بنا‘‘-

دل کہ از اسرارِ خدا غافل است
دل نتواں گفت کہ مُشتِ گِل است

’’جو دل اسرارِ الٰہی سے غافل ہو اُسے دل نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تو محض ایک مشت ِخاک ہے‘‘-

دل یکی خانہ ایست ربّانی
خانۂ دیو راچہ دل خوانی

’’دل تو خانۂ خدا ہے تُوجن بھوت کے گھر کو دل کیوں سمجھتا ہے‘‘-

ما سویٰ اللہ ز دلِ خود دُور کُن
دل بوحدت عشقِ حق پُرنور کُن

’’اپنے دل کو طلب ِالٰہی کے سوا ہر طلب سے پاک کر کے عشقِ وحدت ِ حق کے نُور سے روشن کر لے‘‘-

باھُوا الف کافی بود ’’ب‘‘ را مجو
ہرچہ خوانی غیر اللہ زان دل بشو

’’اے باھُو! الف (اللہ)ہی تیرے لئے کافی ہے، تُو’’ب‘‘(غیر حق ) کی جستجو مت کر- اللہ کے سوا ہر چیز کا نقش اپنے دل سے مٹا دے‘‘-

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں اپنے اسلاف کی طرز زندگی سے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ ہمارا وقار، قوت اور رعب و دبدبہ دینِ اسلام کی وابستگی میں پوشیدہ ہے اسلامی تشخص کوبرقرار رکھے بغیر غیرت اور جرات کے ساتھ زندہ رہنا بہت مشکل ہے-مفکرِاسلام علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کے زوال کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا :

سبب کچھ اور ہے تُو جس کو خود سمجھتا ہے
 زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں[14]

مسلمانوں کا عروج و زوال دین کے ساتھ مشروط ہے، دین سے دوری زوال کو مقدر بنا دیتی ہے- دین سے وابستگی عروج کو مقدر بنا دیتی ہے- کسی شاعر نے کیا خوب کہا :

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اس لئے مسلماں، میں اس لئے نمازی

٭٭٭


[1](صحيح مسلم،كتاب البر والصلة والآداب)

[2](ایضاً)

[3](بانگِ درا)

[4](شرح فتوح الغیب ،ص:757)

[5](عین الفقر)

[6](الفتح الربانی:22)

[7](الفتح الربانی، ص:10)

[8](الفتح الربانی، ص:14)

[9](الفتح الربانی،ص:28)

[10](فتح الربانی، ص:64)

[11](عین الفقر)

[12](امیر الکونین)

[13](الفتح الربانی،ص:11)

[14](ضربِ کلیم)

سَیدُ المرسلین، خاتم النبیین، رحمت العالمین حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا :

’’مثل المؤمنين في توادهم و تراحمهم و تعاطفهم مثل الجسد إذا اشتكى منه عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى‘‘[1]

’’مومنین کی آپس میں دوستی، رحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بےخوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہوتا ہے ‘‘-

دوسری روایت میں ہے کہ ’’رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’المسلمون كرجل واحد إن اشتكى عينه اشتكى كله وإن اشتكى رأسه اشتكى كله‘‘[2]

’’مسلمان (باہم)ایک شخص کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر اس کے سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے ‘‘-

فَرامین ِ رَسُول (ﷺ)سے یہ بات مترشح ہوتی ہےکہ تمام اعضاء میں (فیلنگ)،محسوسات اور احساسات کا پایا جانا، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ رکھنا،ایک عضوء کی تکلیف سے بر وقت تمام اعضاء کا باخبر ہو جانا، وجود کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے تمام اعضاء کا دفائی صورت میں سراپا احتجاج بن جانا اور ہر ممکن وجود کو راحت وآرام دینے تک تمام اعضاء کا مسلسل بے قرار رہنا یہ ایک مکمل نظام پر دلالت کرتا ہے جس کوا للہ تعالیٰ نے ’’وجودِ انسانی‘‘کے تحفظ کے لئےآدمی کے وجود میں ہی رکھ دیا ہے-قابل توجہ بات یہ ہے اعضاء کا ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرنا، تکلیف میں برابر کا شریک ہونا اور ایک دوسرے کی تکلیف سے بروقت باخبر ہوجانا یہ نظام کا انٹیلی جنس سسٹم ہے -جو نظام روحانیت پر دلالت کرتی ہے اور پورے وجود کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے تمام اعضاء کا دفائی صورت میں سراپا احتجاج بن جانا ہے اور وجود کو مکمل آرام وسکون دلانے تک مُسلسل مُتحرک رہنا یہ نظام کی عسکری وِنگ ہے جو نظام ِ مادیت پر دلات کرتی ہے-نتیجتاً یہ بات سامنے آئی کہ کسی چیز کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے نظام کی دونوں ونگز کا پایا جانا ضروری ہے یہ ونگز جتنی مضبوط ہونگی وہ چیز اتنی ہی محفوظ ہوگی اِس کو ذہن نشین کرلینے کے بعداِس بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمان قوم کا وجود کیا ہے؟ اور اِس کو کیسے تحفظ دیا جاسکتا ہے؟ بقول اقبال (﷫):

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں[3]

گویا مُسلمان قوم کا وجود ’’اسلامی تشخص کے وجود‘‘ سے مشروط ہے جب تک اسلامی تشخص کا وجود محفوظ نہیں ہوگا اُس وقت تک مُسلمان قوم کا وجودمحفوظ نہیں رہ سکتا-اسلامی تشخص کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے مذکورہ نظام کی ضرورت ہے-یہی وجہ تھی کہ صُوفیاء، اُولیاء، فقہاء اور آئمہ دین نے ہر وقت ہر جگہ اور ہر حال میں اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لئے دن رات کام کیا کیونکہ اُن کے جینے کا مقصد دین اسلام کی سر بلندی تھا-جب بھی، جہاں بھی اور جیسے بھی اسلامی تشخص کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا بروقت اُس کو جانچا اور قلع قمع کیا گیا گویا کہ ہمارے اسلاف اسلامی تشخص کے وجود کے اعضاء کی مانند تھے اسی وجہ سے ان تمام کی سوچ وفکر میں مساوی پن اور حقائق کو جانچنے کی فیلنگ میں اس قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ جب آدمی اُن کی کتب کو پڑھتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے انہوں نے اکھٹے بیٹھ کر لکھی ہوں-ان کی تحریروں میں اصلاح ِ امت کا جذبہ اور ایک دوسرے کے ساتھ ادب و احترام کا رشتہ ایسے کمال کا جس کی مثال نہیں -

حالانکہ زمانی اعتبار سے کئی صدیوں کا فرق ہے اور مکانی اعتبار سے سینکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے ممکن ہے کہ زندگی میں کبھی ملاقات بھی نہ ہوئی ہو،  نہ ہی دوسرے کی کتب تک رسائی ہوئی ہو، لیکن بطور فیلنگ اور احساسات دیکھا جائے تو ایک جسم کے اعضاء کی طرح دکھائی دیتے ہیں-اسی مناسبت سے اسلاف میں سے دو شخصیات کا ذکر بطور نمونہ کے کرنا چاہوں گا-

1.       حضور سیدی شیخ عبد القادر جیلانی الحسن الحسینی القادری الحنبلی البغدادی  (قدس اللہ سرّہٗ) (المتوفی:561ھ)

2.       حضور سیدی سُلطان العارفین حضرت سخی سُلطان باھُو القادری الحنفی الہندی (قدس سرہ العزیز) (المتوفی:1102ھ)

ان دو شخصیات کے درمیان فرقِ زمانی 541 سال اور فرق مکانی سیکڑوں میلوں کا فاصلہ ہے-شاہ جیلان (قدس اللہ سرّہٗ)کی زبان عربی جبکہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کی زبان پنجابی اور فارسی ہے -فقہ اور مسلک بھی مختلف ہے، شاہ جیلان (قدس اللہ سرّہٗ) فقہ حنبلی سے منسلک ہیں اور آپ (قدس اللہ سرّہٗ) فقہ حنفی کے پیروکار ہیں لیکن دونوں شخصیات کی سوچ وفکر میں اتنی ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ آپ کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ کہیں یہ ہم زماں اور ہم مجلس تو نہیں ہیں؟ بطور نمونہ چند اقتباسات قارئین کرام کی نظر کرنا چاہوں گا

1-حضور شہنشاہِ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ)’’معیت ِحق کاطریق اور اس کے قرب کے حصول‘‘سے متعلق تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’خدائے یگانہ کے ساتھ اس طرح اخلاص و حضور کے ساتھ رہو گویا مخلوق کا وجود ہی نہیں اور رعایت ِ حق اور حفاظت ِحدودِ شرع کرتے ہو ئے مخلوق کے ساتھ اس طرح رہو گویا نفس ناپید ہے پس جب تم مخلوق کے وجود کو نظر انداز کرتے ہوئے خدا کے ساتھ رہو گے تو اُسے پا لو گے اور ہر چیز سے خالی ہوجاو گے اور جب نفس کی مداخلت کے بغیر مخلوق کے ساتھ رہو گے تو عدل وانصاف سے کام لو گے اور حق پر استقامت اور خلافِ حق سے پرہیز کرو گے تو انجام ِ بدسے محفوظ ہوجاو گے-خَلق ونَفس خلوت کے دروازے پر چھوڑ کر خلوت میں تنہا داخل ہو جاو،تم خلوت کی تنہائیوں میں چشم ِ باطن سے اپنے مونس کو دیکھ لو گے اور چشم ِ سر سے نظر آنے والی موجودات اعیان واشخاص کے ماوراء کا عین الیقین سے مشاہدہ کر لو گے اور نفس زائل ہوجائے گا اس کی جگہ اللہ تعالیٰ کا قرب و امر جگہ لے لے گا اس حالت میں تمہارا جہل علم بن جائے گا اور بعد قرب کی جگہ لے لے گا[4]-

حضرت سُلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ) ’’عین الفقر ‘‘میں اِسی موضوع کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

’’سن اے حق شناس! معیت ِخدا حاصل کر اور اللہ کے سوا ہر چیز کا نقش دل سے مٹا دے تاکہ ذاتِ حق کے سوا دل میں کچھ بھی باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ o ج وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُ والْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ‘‘کے مطابق صرف اُسی کے ہی جلوے تیرے دل میں باقی رہ جائیں‘‘-

آپ قدس سرہ العزیزاسی حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

خُدا یکی دل یکی یکی رابجو
بایکی یک شوی چوں عین اُو

’’خُدا ایک ہے،دل بھی ایک ہے،اُس ایک کو ڈھونڈ اور اُس کے ساتھ مل کر ایک ہو جا تاکہ عین وہی ایک رہ جائے‘‘-[5]

2-حضور شاہِ جیلان (قدس اللہ سرّہٗ)’’للہیت اور شریعت کی پاسداری‘‘ سے متعلق فرماتے ہیں:

’’جب تو نے لاالہ الاللہ کہا کہ کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے، تو تُو توحید کا مدعی بن گیا اب کہا جائے گا کہ بتا تیرا کوئی گواہ بھی ہے؟ وہ گواہ کیا ہے؟ حکم ماننا،ممنوعات سے باز رہنا، مصیبتوں پر صبر کرنا اور تقدیر کے سامنے گردن جھکانا یہ اس دعویٰ کے گواہ ہیں اور یہ بھی حق تعالیٰ کیلئے اخلاص کے بغیر مقبول نہیں ہونگے کیونکہ کوئی قول قبول نہیں ہوتا بلا عمل کے اور کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا بغیر اخلاص اور سنت کی موافقت کے‘‘[6]-

حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) اپنی تصنیف لطیف ’’عین الفقر‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’’آنرا اولیٰ تر آنست کہ از اد بِ محمدی () بجہتِ شریعت نماز روزہ فرض قضا نکند‘‘

’’ایسے صاحب ِمراقبہ کے لئے لازم ہے کہ وہ ادب ِمحمدی (ﷺ) میں شریعت ِمطہرہ پر کاربند رہے اور نماز و روزہ جیسے فرائض قضا نہ کرے‘‘-

’’اگر تُو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی رہے تو شغلِ توحید ِمعر فت (تصورِاسم اللہ ذات)سے پورے اخلاص کے ساتھ معیت ِالٰہی اختیار کر اور اگر تُو چاہتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تجھ سے راضی رہیں تو ترکِ دنیا اختیار کر کے شریعت ِنبوی (ﷺ)کی پاسداری میں کوشش کر ‘‘-

’’کامل و پختہ مرد وہ ہے جو کسی بھی حالت میں شریعت سے قدم باہر نہ رکھے خواہ وہ وقت ِالست سے صاحب ِاسرار ہو کر حالت ِسکر و مستی میں ہو یا حالت ِقبض و بسط میں ہو یا حالت ِعشق و محبت میں ہو-اگر وہ شریعت سے باہر قدم رکھے گا تو اُس کے تمام مراتب ِخاص سلب ہو جائیں گے‘‘-

خدا از کرم فضلش عبد خوانی
نہ انصاف است تو در جرم مانی

’’خدا جب اپنے فضل و کرم سے تجھے اپنا بندہ قرار دیتا ہے تو تیرا معصیت و گناہ میں مبتلا ہونا سراسر ناانصافی ہے‘‘-

خدا با تو ترا بین چشم باید
بہ چشمِ معرفت حق رو نماید

’’خدا تو ہر وقت تیرے ساتھ ہے لیکن تجھے چشمِ بینا کی ضرورت ہے کہ صرف چشمِ بینا ہی معرفت ِحق کے قابل ہوتی ہے‘‘-

3-حضور شہنشاہِ بغداد (قدس اللہ سرّہٗ)’’قضاءو قدر‘‘کے حوالے سے لکھتےہیں:

’’نزولِ تقدیر کے وقت حق تعالیٰ شانہ پر اعتراض کرنا موت ہے (بندے کے)دین کی، موت ہے(بندہ کے عقیدہ) توحید کی، موت ہے توکل و اخلاص کی، ایمان والا قلب لفظ،کیوں اور ’’کس طرح‘‘ کو نہیں جانتا وہ نہیں جانتا کہ ’’بلکہ‘‘ کیا ہے اس کا قول تو ’’ہاں‘‘ ہے - (یعنی حکمِ تقدیری کی موافقت کرتا ہے اور چوں و چراں کے ساتھ رائے زنی نہیں کرتا‘‘-[7]

پھر آگے لکھتے ہیں:

’’صاحبو! آؤ ہم سب عزوجل اور اس کے فعل اور تقدیر کے سامنے جھکیں اور اپنے ظاہر اور باطن سروں کو جھکا دیں اور تقدیر کی موافقت کریں اور ہم رکاب بن کر چلیں (یعنی ہم شکوہ و شکایت نہ کریں )‘‘[8]-

اِسی حوالے سے حضور سلطان صاحب (قدس اللہ سرّہٗ) ’’کلید التوحیدکلاں‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

شبنم نہ کرد داغِ دلِ لالہ را علاج
نتواں بہ گریہ شست خط سرِ نوشت را

’’گل ِلالہ کے دل کا داغ شبنم سے نہیں دھویا جا سکتا، نہ ہی تقدیر کا لکھا رونے دھونے سے مٹایا جاسکتاہے‘‘-

مکش رو د رہم ازحکم قضاچہ میکشی پردہ
چہ پرواہ آتش از چین بچینِ بوریا را

’’حکمِ قضا سے سامنا کرتے وقت چہرے کو شکن آلود نہ کر اور نہ ہی حکمِ قضا سے خود کوچھپا کہ آگ جب چٹائی کو جلاتی ہے تو چٹائی کی چیں بچیں کی پرواہ نہیں کرتی‘‘-

مصنف کہتاہے :

باھُو ارضا بر قضا غالب چو گردد
ز کردہ از خدا ہرگز نہ لرزد

’’اے باھُو ! رضا جب قضا پر غالب آتی ہے تو تقدیرِ خداوندی کا خوف ختم ہوجاتاہے‘‘-

چرا لرزد کہ قربِ او تمام است
ہرآں لرزد کہ ناقص عام خام است

’’تقدیراِلٰہی سے وہ کیوں ڈرے کہ جسے اﷲتعالیٰ کا قر بِ تمام حاصل ہو، ڈرے تو وہ جو ناقص و عام و خام ہو‘‘-

رضا قاضی قضا در حکم بہ او
بہ جُز حکمش نہ گیرد جان از مو

’’رضا قاضی ہے اور قضا اُس کی غلا م ہے، حکمِ رضا کے بغیر قضا ایک بال کی بھی جا ن نہیں لے سکتی‘‘-

جان لے! کہ بندہ اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتا کہ ہر کام اُس کی مرضی سے ہو- حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کا فرمان ہے:’’مَیں نے اپنے ربّ کو اپنے عزائم کی ناکامی سے پہچانا‘‘-حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے: ’’حکیم کا کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتا‘‘-پس بہتر یہ ہے کہ ہر کام خدا کے سپرد کر دیا جائے اور خود کو درمیا ن سے نکال دیاجائے‘‘-

4-حضور غوث پاک (قدس اللہ سرّہٗ)میں انسان کو محاسبہ نفس کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’اے مسلمان تجھ پر افسوس ہے کہ تیری زبان تو مسلمان ہے مگر قلب مسلمان نہیں، تیرا قول مسلمان ہے مگر فعل مسلمان نہیں تو اپنی جلوت میں مسلمان ہے مگر خلوت میں مسلمان نہیں کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب تو نماز پڑھے گا روزہ بھی رکھے گا اور سارے نیک کام کرے گا مگر ان اعمال سے اللہ تعالیٰ کی ذات مقصود نہ سمجھے گا تو تُومنافق ہے اور اللہ عزوجل سے دور ہے‘‘[9]-

پھر آگے لکھتے ہیں :

’’تیری زبان پرہیز گار ہے مگر قلب فاجر، تیری زبان اللہ کی حمد کرتی ہے مگر قلب تیرا اس پر اعتراض کررہا ہے تیرا ظاہر مسلمان ہے مگر اندرون کافر ہے تیرا بیرون موحد ہے مگر باطن مشرک، تیرا زہد تیرے ظاہر پر ہی ہے، تیرا دین صرف ظاہر ہی پرہے اور باطن تیرا خراب ہے ‘‘[10]-

حضرت سُلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ) عین الفقر شریف میں اسی موضوع سے متعلق فرماتے ہیں:

باھُوا! نفس پلید بر تن جامۂ پاک چہ سود
در دل ہمہ شرک است سجدہ بر خاک چہ سود
[11]

’’اے باھُو! نفس اگر پلید ہے تو تن پر پاکیزہ لباس پہننے کا کیا فائدہ؟ دل میں شرک ہی شرک بھرا ہے تو خاک پر سجدہ ریزی کا کیا فائدہ؟‘‘

بر زبان تسبیح در دل گاؤخر
این چنین تسبیح کی دارد اثر
[12]

’’زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل بیل و گدھے کے خیال میں مستغرق ہوتو ایسی تسبیح کیا اثر دکھائے گی ‘‘؟

آپ (قدس اللہ سرّہٗ) اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں :

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا تے دل دا پڑھدا کوئی ہو

5-حضرت غوث الاعظم (قدس اللہ سرّہٗ) ’’قلب‘‘سے متعلق نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’اپنے قلوب کی اصلاح کر لو کیو نکہ قلوب ہی ایسی چیز ہیں جب وہ سنور جاتے ہیں تو سارے حالات سنور جاتے ہیں‘‘-[13]

اسی کتاب میں آگے لکھتے ہیں کہ:

’’(اے مخاطب ) ا پنے دل کو ا پنے رب کیلئے خالی کر‘‘-

حضور سلطان العارفین (قدس اللہ سرّہٗ)اسی حوالے سے متعلق ’’عین الفقر‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

دل کعبہ اعظم است بکن خالی از بتاں
بیت المقدّس است مکن جائِ بت گراں

’’دل کعبۂ اعظم ہے، اِسے بتوں(خیالِ غیر)سے پاک کر، دل بیت المقدس ہے اِسے بت گروں کی دکان مت بنا‘‘-

دل کہ از اسرارِ خدا غافل است
دل نتواں گفت کہ مُشتِ گِل است

’’جو دل اسرارِ الٰہی سے غافل ہو اُسے دل نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تو محض ایک مشت ِخاک ہے‘‘-

دل یکی خانہ ایست ربّانی
خانۂ دیو راچہ دل خوانی

’’دل تو خانۂ خدا ہے تُوجن بھوت کے گھر کو دل کیوں سمجھتا ہے‘‘-