(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ "اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین"

(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ

(رپورٹ) سالانہ ملک گیر دورہ "اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین"

مصنف: ادارہ جنوری 2018

ایک ایسا دور جس میں بے راہ روی عام ہو چکی ہے، گمراہی جنسِ ارزاں کی طرح ہر کوچہ و بازار میں کھلی ملتی ہے، ظُلمت کو نُور پہ اور اندھیرے کو روشنی پہ مقدم سمجھا جاتا ہے، چراغِ بدن کی لَو تو کاسمیٹکس کے روغن سے روشن ہو رہی ہے مگر رُوح کی شمع ٹمٹماتے ٹمٹماتے بجھی جا رہی ہے، معلومات کو علم پہ فوقیت حاصل ہے، خیالات کو عمل سے زیادہ قیمتی گردانا جاتا ہے، لوگ جَلوت کو مشینی زندگی اور خلوت کو آئیسولیشن کَہ کر جھٹلاتے ہیں، کہیں بے کارگی اور کہیں زہرِ منشیات کو سکونِ زندگی سمجھا جاتا ہے، علم و حکمت کے موتی کردار کی انگوٹھی میں جَڑنے کی بجائے سمارٹ فون کی سکرین پہ ضائع کئے جاتے ہیں، ریت کے بے وُقعت ذروں کی طرح وقت کے قیمتی لمحوں کو ہوا میں اُڑا دیا جاتا ہے، اُمید و یقین کی سوغات کی بجائے نا امیدی و مایوسی کی نجاست تقسیم کی جاتی ہے -شباب اڑانے ، جوانی کمانے اور بڑھاپا دھکے کھانے کیلئے بِتایا جاتا ہے-حیا و شرافت، انکساری و سخاوت اور درگزر و مروّت کو اخلاقی عظمت کی بجائے شخصی کمزوری سمجھا جاتا ہے-بے حیائی و بد معاشی، تکبُّر و بخل اور انتقام و بد تمیزی کو ’’سٹائل‘‘اور ’’اسٹیٹس‘‘ سمجھا جاتا ہے- ذکر پہ غفلت کو ، سخاوت پہ بخل کو ، اطاعت پہ سرکشی کو ، عاجزی پہ تکبر کو ، سچائی پہ جھوٹ کو ، وفا پہ مفاد کو ترجیح حاصل ہے-جہاں تاریکی کے یہ بادل ہمارے سروں پہ منڈلا رہے ہیں وہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ کی نسبتِ خاص اور نسبتِ پاک سے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین میدانِ عمل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ ایسے دور میں انسان کو ایک ایسی راہنمائی کی ضرورت ہے جو اِسے محاسبۂ نفس کی تربیت دے تاکہ یہ بے راہ روی و گمراہی سے محفوظ رہے، اپنی بصیرت کی روشنی اور باطن کے نُور کو اُجاگر کر سکے، رُوح و بدن کی خلیج کم کر کے ان میں ہم آہنگی و یکسانیت پیدا کرے تا کہ ’’زباں ہو دل کی رفیق‘‘-علم و عمل کے ارتباط و اختلاط سے زندگی کی ان اُلجھی گتھیوں کو سُلجھا سکے، اُمید و یقین کا پیکر و پیامبر بن سکے اور اخلاقِ نبوت کے فیض سے مشامِ جان کو معطر کر سکے-انسان کے اندر خیر کی قُوّت کو اُجاگر کیا جائے اور شر سے بچایا جائے، مثبت انرجی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور منفی روشوں کی سرکوبی کی جائے-اِن عظیم مقاصد کی تکمیل اور ان عظیم انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے عارفِ بااللہ جانشینِ سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد علی صاحب کی سرپرستی میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے ہزاروں نوجوان راہِ فلاح و ہدایت پہ گامزن ہیں اور الحمد للہ! یہ فیض روز افزوں قبولیّتِ عام پا رہا ہے جو کہ اللہ کریم کے خاص فضل کی نشانی ہے- 

یاد رکھیں! کہ اس کائنات میں انسانِ کامل مرد خود آگاہ،عارفِ با اللہ خلافت الٰہیہ کا حامل ہوتاہے جس کی پوری کی پوری زندگی قرآن وسنت کی عملی تفسیر و ترجمانی ہوا کرتی ہے اور درحقیقت ایسی ہستیاں اور ایسے وجود دنیا میں مخلوق خدا کے لئے رحمت و راحت اور ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں اور ان کا وجود مسعود حضور رسالت مآب(ﷺ) کی حیاتِ طیبہ اور سیرت طیبہ کا عکس جمیل ہوا کرتا ہے-اسی طرح جب ہم سلطان الفقر ششم بانی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب(قدس اللہ سرّہٗ) کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی پوری کی پوری زندگی مبارکہ آقا علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ کی عکاس نظر آتی ہے کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی شریعت مطہرہ سے باہر نہیں گزارا بلکہ انسانیت کی ہدایت اور شریعت مطہرہ کے عملی نفاذ کے لئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تمام تر زندگی وقف فرما رکھی تھی- آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اس پیغام حق اور قرآن و سنت کو عملی جامہ پہنانے کے لئےاصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی بنیاد رکھی اور مختلف انداز میں قرآن و سنت کی درست تفہیم اور دعوتِ حق کو عام کرنے اور ہر خاص و عام تک اس پیغام کو پہنچانے کے لئےنا صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ممالک کے سفر فرمائے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) ہمیشہ انسان سے محبت کا درس دیتے، فرقہ واریت، لسانیت، جغرافیت، علاقائیت اور اس طرح کے تعصبات سے پاک خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی ترغیب دیتے اوراتحادِ امت کے لئے کاوش فرماتے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے اسی پیغام حق اور دعوتِ حق کے نفاذ کے لئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کے جانشین آج بھی اس طریق کو مل کر آگے بڑھا رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو اس فیض سے فیض یاب فرمارہے ہیں-

ہر سال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کےپہلے راؤنڈ کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ہرضلع میں پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول ()سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی خطاب ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب اور مفتی منظور حسین صاحب کرتے ہیں-

پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر عکس سلطان الفقر حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت و تجدیدِ عہد کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت و تجدیدِ عہد کرنے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-

پہلے راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

ڈیرہ غازی خان              01-12-2017                                           سلطانیہ گارڈن

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’آج کا دن کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ آج کے دن بارہ ربیع الاول کوسید المرسلین، خاتم النبین، رحمۃ اللعلمین سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی ولادت باسعادت ہوئی-اللہ رب العزت نے اہل ایمان پر احسانِ عظیم فرمایا کہ ان میں اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کومبعوث فرما کرآپ (ﷺ) کے طریق کو عالم انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ بنایا-آپ (ﷺ)کی ولادت باسعادت کا ذکر کرتے ہوئے آپ (ﷺ)کی والدہ ماجدہ سیدہ حضرت آمنہ(رضی اللہ عنہما) فرماتی ہیں:

’’و ان ام رسول اللہ () رات حین و ضعتہ نوراً أضاءت لہ قصور الشام‘‘[1]

 

’’اور بیشک جب رسول اللہ () کی ولادت مبارک ہوئی تو آپ (ﷺ)کی والدہ محترمہ نے ایک ایسا نور دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے‘‘-

آپ (ﷺ)کی آمد مبارک ہوتے ہی چہاردانگ عالم روشن ہو گئے، ظلمتیں چھٹ گئیں، تاریکیاں اور اندھیرے ختم ہو گئے اور ہر طرف اجالاہی اجالا ہوگیا، چہرے مسکرانے لگے، دل روشن ہو نے لگے، بے جانوں میں جان آگئی اورآج پھر سے ہمیں اسی روشنی کی ضرورت ہے جس سے دل روشن ہوں-اس کے لئے آقا علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے فرمایا:

’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُاللہِ تَعَالٰی‘‘[2]

 

’’ ہر چیز کو صاف کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘-

بہاول پور                                        02-12-2017                              بینکوئیٹ ہال

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ولادت باسعادت سےپہلے بھی آپ (ﷺ) کی ذات و صفات کے تذکرے ہو رہے تھے جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ لا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘[3]

 

(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول(ﷺ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo

دوسرے مقام پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ (ﷺ)کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا:

’’وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ‘‘[4]

 

’’اور اُس رسولِ (معظّم(ﷺ) کی آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ) ہے ‘‘-

گویا اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اس قدر عظمت و شرف سے نوازا کہ آپ (ﷺ) کی آمد کے چرچے آپ (ﷺ) کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے کروائےگئے-آپ (ﷺ) بے سہاروں کا آسرا بن کر تشریف لائے غمزدوں کے غم بانٹنے کے لئے تشریف لائے-بقول ابو الاثرحفیظ جالندھری:

وہ دن آیا کہ پورے ہوگئے تورات کے وعدے
مرادیں بھر کے دامن میں مناجاتِ زبور آئی
نظر آئی بالآخر معنیٔ انجیل کی صورت

 

خدا نے آج ایفاء کر دیے ہر بات کے وعدے
امیدوں کی سحر پڑھتی ہوئی آیات نور آئی
ودیعت ہوگئی انسان کی تکمیل کی صورت[5]

ساہیوال                                        03-12-2017                              جناح ہال

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی حیاتِ طیبہ کو اگر تین حصوں میں دیکھا جائےتو بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے-

1.       میلاد مصطفےٰ ()

2.       عظمت و شانِ مصطفےٰ ()

3.       پیغامِ مصطفےٰ ()

اس وقت ولادت باسعادت کا تذکرہ بھی ہورہا ہے اور عظمت وشان کو بھی پیش کیا جارہا ہے مگرافسوس صد افسوس! کہ ہم پیغامِ مصطفےٰ (ﷺ)کوبھول بیٹھے ہیں جو کہ تعلقِ باللہ کو قائم کرنا اور آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پیروی کو اختیار کرناہےکیونکہ رسول اللہ (ﷺ) کی پیروی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی پیروی قرار دیا ہے:

’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ‘‘[6]

 

’’جس نے رسول (ﷺ) کی اطاعت کی پس تحقیق اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی‘‘-

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے اندر اختلافات کو فروغ دیا حالانکہ آقا پاک (ﷺ) دنیا سے اختلافات مٹانے کے لئے تشریف لائے جیسا کہ آپ (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ’’تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے تھے مسلمان مسلمان کا بھائی ہےجاہلیت کے تمام دعوے باطل کردیے گئے ، اب تمہارے خون، عزتیں اور اموال ایک دوسرے پر حرام کردیے گئے میرے بعد گمراہی میں پڑ کر ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنا‘‘-آج ہم اپنے طرزِ عمل پرغور کریں کہ کیا ہم نے اپنے پیارے نبی (ﷺ) کی تعلیمات کو فراموش تو نہیں کردیا جس کی بدولت زوال ہمارا مقدر بن گیاہے-اس سے نکلنے کا واحد راستہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کامل اطاعت ہے-

بہاول نگر                               04-12-2017                              قصر فرید ہال، چشتیاں

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

صاحب قرآن حضور رسالت مآب (ﷺ) اپنے ساتھ قرآن مجید جیسی عظیم کتاب لے کر تشریف لائے جس میں مکمل ضابطہ حیات ہے اور جو ظاہری و باطنی بیماریوں کے لئے شفا ہے اور جو دنیا وآخرت کی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے جس کو عملی جامہ پہنائے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے اور کامیابی و کامرانی کو سمیٹ نہیں سکتے-آقا علیہ الصلوٰۃ و السلام نے قرآن مجید سے متعلق حدیث پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

’’خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ‘‘[7]

 

’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور سکھائے ‘‘-

لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم قرآن پاک کو ہدایت کے لئے کم اور ثواب کیلئےزیادہ پڑھتے ہیں اور اس کے معنی و مفہوم کو بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ کردار کی تکمیل کیلئے قرآن پاک کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں-بقول علامہ اقبالؒ:

گر تو می خواہی مسلماں زیستن

 

نیست ممکن جز بقرآں زیستن[8

’’اگر تو مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتا ہےتو ایسی زندگی قرآن پاک کے بغیر ممکن نہیں‘‘-

انسان اللہ تعالیٰ کی انمول تخلیق ہے جس کی عظمت و شان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لاریب کلام میں بارہا بیان فرمایا-انسان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی رہنمائی کیلئے قرآن مجید نازل فرمایا،آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے کردار کوقرآن کے سانچے میں ڈھالا جائے- بقول علامہ اقبالؒ:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں

 

اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار[9]

پاکپتن                                      05-12-2017                              زینت گرینڈ مارکی

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

آقا پاک (ﷺ) کی ولادت باسعادت کا امتیاز دیکھیں کہ جب آقا پاک (ﷺ)کی ولادت باسعادت ہوئی تو آپ (ﷺ) نے آتے ہی سجدہ کیا اور پہلا پیغام یہ دیا کہ مَیں پیدائشی طور پر پاک صاف اور طیب و طاہر ہوں- دوسرا پیغام یہ دیا کہ مَیں پاک کرنے والا ہوں کیونکہ آپ (ﷺ) کی ولادت باسعادت پر پوری زمین کو آپ (ﷺ) کی خاطر مسجد بنادیا گیا-فرمانِ نبوی (ﷺ) ہے:

’’جعلت لی الارض مسجدا و طہورا‘‘

 

میرےلئے پوری زمین کو مسجد اور پاکیزہ بنادیا گیا-

تیسرا پیغام یہ کہ جب والدہ ماجدہ نے ولادت باسعادت کے وقت آپ (ﷺ) کی زیارت کی تو آپ (رضی اللہ عنہ)پر یہ اثر ہوا کہ آپ(رضی اللہ عنہ) نے بند کمرے میں شام کے محلات دیکھ لیے-گویا آپ (ﷺ) کی وجہ سے آپ (رضی اللہ عنہ )کے دل کی آنکھیں کھول دی گئیں اور آپ(رضی اللہ عنہ)نے کائنات کا مشاہدہ کر لیا-

 

مزید چوتھا پیغام یہ دیا کہ جب دائی حلیمہ(رضی اللہ عنہما) نے جب آپ (ﷺ) کو کمزور اونٹنی پر سوار کیا تو وہ تیز رفتار بن گئی اور اس میں جان آگئی-گویاآپ (ﷺ) نے مردہ دلوں میں روح پھونکی اور تمام جہان کی رونقیں آپ (ﷺ) کے دم قدم سے ہیں-بقول اقبالؒ:

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

 

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے[10]

اگر آپ (ﷺ) کی سیرت مبارک میں ہمیں آپ (ﷺ) کے باقی اوصافِ حمیدہ کے ساتھ ساتھ توکل علی اللہ کا وصف ہر قدم پر نظر آتا ہے-آپ (ﷺ) کا اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پرتوکل کا یہ عالم تھا کہ آپ (ﷺ)اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے علاوہ کسی چیز کو خاطر میں نہ لاتے تھے حتیٰ کہ ہجرتِ مدینہ کے وقت جب دشمن غارِ حرا کے دہانے پہنچا اور حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے آپ(ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) دشمن بالکل غارِ کے دہانے پہنچ گیا ہے اگر اس نے ذرا بھی نیچے جھانکا تو ہمیں دیکھ لے گا تو آپ (ﷺ) نے ذرا بھر بھی غم و فکر کا اظہار نہ کیا بلکہ آپ (ﷺ) نے اپنے یارِ غار کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہَ مَعَنَا‘‘[11]

 

’’غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘-

اوکاڑہ                                        06-12-2017                              شیش محل میرج ہال

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو دلوں کی سلامتی کا نسخہ ٔ کیمیاء دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:

’’اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ ‘‘[12]

 

’’خبردار !اللہ پاک کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ‘‘-

مزیداس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:

’’اَلَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ‘‘[13]

 

’’جو ذکر کرتا ہے اور جو ذکر نہیں کرتا وہ زندہ اور مردہ کی مثل ہے‘‘-

اللہ رب العزت نے انسان کی فلاح و ہدایت کے لئے قرآں مجید میں ارشادفرمایا:

’’ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَo اِلَّا مَنْ اَتَی اللہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ‘‘[14]

 

’’قیامت کے دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے بلکہ قلبِ سلیم کام آئے گا‘‘-

اب غور کرنے کا مقام یہ ہےکہ قلبِ سلیم کسے کہتے ہیں کیا قلبِ سلیم وہی ہوتاہے جو دنیا کی ہرقسم کی محبت اور خواہشات سے بھرا ہو یا پھر وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی یادکے علاوہ کچھ نہ ہو-میرے دوستو! یہ دنیا امتحان گاہ ہے اس میں ہم نے اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ کیا ہمارا دل قلبِ سلیم بن چکا ہے جس کا تقاضا ہم سے اللہ رب العزت نے فرمایا ہے یا ہمیں مزید کچھ کرنا ہے-اگر دل سے غیر نکل چکا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد کے علاوہ اس میں کچھ نہیں ہے تو مبارکباد!-اگر نہیں تو آئیے! ’’اسم اللہ ذات ‘‘کے ذکر کے ذریعے اپنے دل کو قلبِ سلیم بنائیں کیونکہ قلبِ سلیم کے بغیر وصالِ یار نصیب ہو ہی نہیں سکتا-بقول حضرت سلطان باھوؒ:

جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا تاں ملدا ڈوڈواں مچھیاں ھُو
جے رب راتیں جاگیاں ملدا تاں ملدا کال کڑچھیاں ھُو
انہاں گلاں رب حاصل ناہیں باھُوؔ رب ملدا دلیاں ہچھیاں ھُو

 

جے رب لمیاں والاں ملدا تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھُو
جے رب جتیاں ستیاں ملدا تاں ملدا ڈانداں خصیاں ھُو

ٹوبہ ٹیک سنگھ                            07-0-12-2017                           فٹبال اسٹیدیم

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

اللہ رب العزت نے حضور رسالت مآب (ﷺ)کو خاتم النبیین فرماکر مبعوث فرمایا اور آپ (ﷺ) کی ذاتِ گرامی کو اس قدر قدرِ و منزلت سے نوازا کہ پوری کائنات میں اس قدر کسی اور کو نہیں نوازا-اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اتنے بلند شان سے اختیارات عطا فرمائے کہ آپ (ﷺ) کے فرمان مبارک کو وحی قرار دیا اور آپ (ﷺ) کے عمل مبارک کو اپنا عمل قرار دیا یہاں تک کہ آپ (ﷺ) کی اطاعت و اتباع کو اپنی اطاعت و اتباع قرار دیا اور آپ (ﷺ) کی امت کوبھی بلندشرف و قدر ومنزلت سے نوازا-مگر افسوس! یہ ہے کہ آج ہمیں اپنے دامن میں وہ شرف و قدر و منزلت نظر نہیں آتی جس کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:

’’وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ‘‘ [15]

 

’’اورتحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت والا بنایا ‘‘-

اگرانسان آج اپنے آپ سے واقف و باخبر ہوجائے تو اپنی عظمتِ رفتہ کو پالے گا-لیکن اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنی پہچان کیسے کی جائے؟ میرے بھائیو! کسی بھی ہنر کو سیکھنے کے لئے استاد چاہیے تو معرفت کے حصول و تکمیل کے لئے بھی ایک روحانی استاد کی ضرورت ہوتی ہے جسے مرشدِ کامل کے اسم سے موسو م کیا جاتا ہے-


[1](خصائص الکبریٰ، ج:1،ص:110)

[2](مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الدعوات، ص:۲۰۱)

[3](الاعراف:157)

[4](الصف:6)

[5](شاہنامہ اسلام، حصہ: 1ص:88-89 )

[6](النساء:80)

[7](صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن)

[8](رموزِ بیخودی)

[9](ضربِ کلیم)

[10](بانگِ درا)

[11](التوبہ:40)

[12](الرعد:28)

[13](صحیح بخاری، صحیح مسلم)

[14](الشعراء:88-89)

[15](بنی اسرائیل:70)

ایک ایسا دور جس میں بے راہ روی عام ہو چکی ہے، گمراہی جنسِ ارزاں کی طرح ہر کوچہ و بازار میں کھلی ملتی ہے، ظُلمت کو نُور پہ اور اندھیرے کو روشنی پہ مقدم سمجھا جاتا ہے، چراغِ بدن کی لَو تو کاسمیٹکس کے روغن سے روشن ہو رہی ہے مگر رُوح کی شمع ٹمٹماتے ٹمٹماتے بجھی جا رہی ہے، معلومات کو علم پہ فوقیت حاصل ہے، خیالات کو عمل سے زیادہ قیمتی گردانا جاتا ہے، لوگ جَلوت کو مشینی زندگی اور خلوت کو آئیسولیشن کَہ کر جھٹلاتے ہیں، کہیں بے کارگی اور کہیں زہرِ منشیات کو سکونِ زندگی سمجھا جاتا ہے، علم و حکمت کے موتی کردار کی انگوٹھی میں جَڑنے کی بجائے سمارٹ فون کی سکرین پہ ضائع کئے جاتے ہیں، ریت کے بے وُقعت ذروں کی طرح وقت کے قیمتی لمحوں کو ہوا میں اُڑا دیا جاتا ہے، اُمید و یقین کی سوغات کی بجائے نا امیدی و مایوسی کی نجاست تقسیم کی جاتی ہے-شباب اڑانے ، جوانی کمانے اور بڑھاپا دھکے کھانے کیلئے بِتایا جاتا ہے-حیا و شرافت، انکساری و سخاوت اور درگزر و مروّت کو اخلاقی عظمت کی بجائے شخصی کمزوری سمجھا جاتا ہے-بے حیائی و بد معاشی، تکبُّر و بخل اور انتقام و بد تمیزی کو ’’سٹائل‘‘اور ’’اسٹیٹس‘‘ سمجھا جاتا ہے- ذکر پہ غفلت کو ، سخاوت پہ بخل کو ، اطاعت پہ سرکشی کو ، عاجزی پہ تکبر کو ، سچائی پہ جھوٹ کو ، وفا پہ مفاد کو ترجیح حاصل ہے-جہاں تاریکی کے یہ بادل ہمارے سروں پہ منڈلا رہے ہیں وہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو قدس اللہ سرہ کی نسبتِ خاص اور نسبتِ پاک سے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین میدانِ عمل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ ایسے دور میں انسان کو ایک ایسی راہنمائی کی ضرورت ہے جو اِسے محاسبۂ نفس کی تربیت دے تاکہ یہ بے راہ روی و گمراہی سے محفوظ رہے، اپنی بصیرت کی روشنی اور باطن کے نُور کو اُجاگر کر سکے، رُوح و بدن کی خلیج کم کر کے ان میں ہم آہنگی و یکسانیت پیدا کرے تا کہ ’’زباں ہو دل کی رفیق‘‘-علم و عمل کے ارتباط و اختلاط سے زندگی کی ان اُلجھی گتھیوں کو سُلجھا سکے، اُمید و یقین کا پیکر و پیامبر بن سکے اور اخلاقِ نبوت کے فیض سے مشامِ جان کو معطر کر سکے-انسان کے اندر خیر کی قُوّت کو اُجاگر کیا جائے اور شر سے بچایا جائے، مثبت انرجی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور منفی روشوں کی سرکوبی کی جائے-اِن عظیم مقاصد کی تکمیل اور ان عظیم انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے عارفِ بااللہ جانشینِ سُلطان الفقر حضرت سُلطان محمد علی صاحب کی سرپرستی میں اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے پلیٹ فارم سے ہزاروں نوجوان راہِ فلاح و ہدایت پہ گامزن ہیں اور الحمد للہ! یہ فیض روز افزوں قبولیّتِ عام پا رہا ہے جو کہ اللہ کریم کے خاص فضل کی نشانی ہے-

یاد رکھیں! کہ اس کائنات میں انسانِ کامل مرد خود آگاہ،عارفِ با اللہ خلافت الٰہیہ کا حامل ہوتاہے جس کی پوری کی پوری زندگی قرآن وسنت کی عملی تفسیر و ترجمانی ہوا کرتی ہے اور درحقیقت ایسی ہستیاں اور ایسے وجود دنیا میں مخلوق خدا کے لئے رحمت و راحت اور ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہوا کرتے ہیں اور ان کا وجود مسعود حضور رسالت مآب(ﷺ) کی حیاتِ طیبہ اور سیرت طیبہ کا عکس جمیل ہوا کرتا ہے-اسی طرح جب ہم سلطان الفقر ششم بانی اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی صاحب(قدس اللہ سرّہٗ) کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی پوری کی پوری زندگی مبارکہ آقا علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ کی عکاس نظر آتی ہے کہ آپ (قدس اللہ سرّہٗ) نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی شریعت مطہرہ سے باہر نہیں گزارا بلکہ انسانیت کی ہدایت اور شریعت مطہرہ کے عملی نفاذ کے لئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اپنی تمام تر زندگی وقف فرما رکھی تھی- آپ (قدس اللہ سرّہٗ)نے اس پیغام حق اور قرآن و سنت کو عملی جامہ پہنانے کے لئےاصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کی بنیاد رکھی اور مختلف انداز میں قرآن و سنت کی درست تفہیم اور دعوتِ حق کو عام کرنے اور ہر خاص و عام تک اس پیغام کو پہنچانے کے لئےنا صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ممالک کے سفر فرمائے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) ہمیشہ انسان سے محبت کا درس دیتے، فرقہ واریت، لسانیت، جغرافیت، علاقائیت اور اس طرح کے تعصبات سے پاک خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی ترغیب دیتے اوراتحادِ امت کے لئے کاوش فرماتے-آپ (قدس اللہ سرّہٗ) کے اسی پیغام حق اور دعوتِ حق کے نفاذ کے لئے آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کے جانشین آج بھی اس طریق کو مل کر آگے بڑھا رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو اس فیض سے فیض یاب فرمارہے ہیں-

ہر سال انعقاد پذیر ہونے والے ان شاندار تربیّتی و اِصلاحی اجتماعات کےپہلے راؤنڈ کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ ہرضلع میں پروگرام کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتِ رسول مقبول ()سے ہوتا ہے-اس کے بعد نہایت ہی خوبصورت انداز میں حضرت سلطان باھو(قدس اللہ سرّہٗ) کا عارفانہ کلام پیش کیا جاتا ہے- خصوصی خطاب ناظم اعلیٰ ’’اصلاحی جماعت‘‘ الحاج محمد نواز القادری صاحب اور مفتی منظور حسین صاحب کرتے ہیں-

پروگرام میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں -جو لوگ اِس دعوتِ بقائے اِنسانیت کو قبول کرتے ہیں اور بیعت ہونا چاہتے ہیں تو وہ پروگرام کے اختتام پر عکس سلطان الفقر حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس) کے دستِ مبارک پر بیعت و تجدیدِ عہد کرنے کا شرف حاصل کرتے ہیں اور ’’اسم اللہ ذات‘‘ کی لازوال دولت سے سرفراز ہوتے ہیں-بیعت و تجدیدِ عہد کرنے والوں کی تعداد بعض مقامات پر سینکڑوں اور بعض مقامات پر ہزاروں میں ہوتی ہے-پروگرام کےآخر میں صلوٰۃ و السلام کے بعد ملک و قوم اور اُمّتِ مسلمہ کی سلامتی کے لئے دعائے خیر کی جاتی ہے-


پہلے راؤنڈ کی تفصیل اور خطابات کی مختصر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں:

ڈیرہ غازی خان                                      01-12-2017                              سلطانیہ گارڈن

صدارت: عکس سلطان الفقرششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

’’آج کا دن کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ آج کے دن بارہ ربیع الاول کوسید المرسلین، خاتم النبین، رحمۃ اللعلمین سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ (ﷺ) کی ولادت باسعادت ہوئی-اللہ رب العزت نے اہل ایمان پر احسانِ عظیم فرمایا کہ ان میں اپنے حبیب مکرم (ﷺ) کومبعوث فرما کرآپ (ﷺ) کے طریق کو عالم انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ بنایا-آپ (ﷺ)کی ولادت باسعادت کا ذکر کرتے ہوئے آپ (ﷺ)کی والدہ ماجدہ سیدہ حضرت آمنہ(﷞) فرماتی ہیں:

’’و ان ام رسول اللہ () رات حین و ضعتہ نوراً أضاءت لہ قصور الشام‘‘[1]

 

’’اور بیشک جب رسول اللہ () کی ولادت مبارک ہوئی تو آپ (ﷺ)کی والدہ محترمہ نے ایک ایسا نور دیکھا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے‘‘-

آپ (ﷺ)کی آمد مبارک ہوتے ہی چہاردانگ عالم روشن ہو گئے، ظلمتیں چھٹ گئیں، تاریکیاں اور اندھیرے ختم ہو گئے اور ہر طرف اجالاہی اجالا ہوگیا، چہرے مسکرانے لگے، دل روشن ہو نے لگے، بے جانوں میں جان آگئی اورآج پھر سے ہمیں اسی روشنی کی ضرورت ہے جس سے دل روشن ہوں-اس کے لئے آقا علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے فرمایا:

’’لِکُلِّ شَیٍٔ صِقَالَۃٌ وَّ صِقَالَۃُ الْقُلُوْبِ ذِکْرُاللہِ تَعَالٰی‘‘[2]

 

’’ ہر چیز کو صاف کرنے کےلئے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے دل کو صاف کرنے کےلئے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے‘‘-

بہاول پور                                                       02-12-2017                              بینکوئیٹ ہال

صدارت: عکس سلطان الفقر ششم حضرت سلطان محمد بہادر عزیز صاحب (مدظلہ الاقدس)

خطاب: الحاج محمد نواز القادری

حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ولادت باسعادت سےپہلے بھی آپ (ﷺ) کی ذات و صفات کے تذکرے ہو رہے تھے جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ لا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘[3]

 

(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول(ﷺ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo

دوس

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں