دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب، آخری قسط)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب، آخری قسط)

دینِ اسلام : ذاتی معاملہ یا آفاقی نصب العین؟ (فکری خطاب، آخری قسط)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی مئی 2016

مَیں نے شروع سے جو بات کہی تھی کہ ہمارا دین، دینِ فطرت ہے اور یہ شروع سے آخر تک ہر بات کا احاطہ کرتا ہے- اس میں انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر اس کی معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو ڈسکس کیا گیا ہے- اس کا تصورِ خدا آفاقی ہے، اس کا تصورِ انسان آفاقی ہے، اس کا تصورِ کائنات آفاقی ہے، اس میں جزوی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے جو مانے گا وہ پورے دین کو مانے گا، جو منحرف ہو گا وہ پورے دین سے منحرف ہوگا ، ناچیز کی ناقص رائے میں درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم کچھ احکامات کو مان لیں اور بعض احکامات کو چھوڑ دیں ، شاید ایسا نہیں ہو سکتا- مغرب کے تصورِ دین میں اور ہمارے تصورِ دین میں فرق ہے- ان کا تصورِ دین، ان کا تصورِ خدا مختلف ہے ، ہمارا تصورِ خدا مختلف ہے- ہمارا خدا اپنے اسمائ الحسنہ میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مَیں مالک ہوں؛

    ﴿مٰ لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ ’’روزِ جزا کا مالک ہے-‘‘ ﴿ بِیَدِہِ الْمُلْکُ﴾’’ جس کے دستِ ﴿قدرت﴾ میں ﴿تمام جہانوں کی﴾ سلطنت ہے    -‘‘

اس کے ہاتھ میں یہ ملک ہے، اس کے ہاتھ میں یہ کائنات ہے ، وہ چلانا چاہے گا اس کائنات کو ،وہ حق رکھتا ہے اس کائنات کو چلانے کا     -

    ﴿اَلْمُقْتَدِرُ﴾ ’’اقتدار اس کا حق ہے -‘‘ ﴿اَلْعَدْلُ﴾ ’’عدالت اس کا حق ہے    -‘‘

ترازو اس کا ، حکم اس کا ، پیغام اس کا ، نظام اس کا، ہمارے پاس کوئی اختیا نہیں ہے کہ ہم اس کی حاکمیت میں مداخلت کریں- انسان اس زمین پہ حاکم نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا نائب ہوتا ہے، اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے، اس لئے دین جزوی اور فرد کا نجی یا ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ دین فرد کا مکمل اور معاشرتی معاملہ ہے- اگر کوئی فرد دین کے کسی ایک بھی حکم سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہتا ہے تو وہ قرآن و سنت سے بغاوت و غداری کرتا ہے-

آج بد قسمتی یہ ہے کہ منبر و محراب نے بھی دین کو محدود کرنے میں کسر نہیں اُٹھا رکھی کیونکہ ہمارے خطبا ئ و واعظین کے عمومی طور پہ پسندیدہ موضوعات ’’اِختلافی عقائد‘‘ ہوتے ہیں- بہت کم ایسے خطبائ و واعظین جامع مساجد میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے خطابات و مواعظ میں لوگوں کو عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کی تلقین کرتے ہوں، اخلاقیات کا درس دیتے ہوں یا انسانیت کی عظمت کا سبق پڑھاتے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان چاروں چیزوں کو اکٹھا رکھا ہے- مثلاً اگر سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۷۷۱ میں جھانکیں تو قرآن پاک کی ترتیب و تعلیم سمجھنے میں دشواری نہیں رہتی:-

﴿لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَ النَّبِیّٰنَج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٰ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰ ہَدُوْا ج وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓ ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾

’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر ، آخرت پر ، فرشتوں پر ، ﴿اﷲ کی﴾ کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اﷲ کی محبت میں ﴿اپنا﴾ مال قرابت داروں ، یتیموں ، محتاجوں ، مسافروں، مانگنے والوں اور ﴿غلاموں کی﴾ گردنوں ﴿کو آزاد کرانے﴾ میں خرچ کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی ﴿تنگدستی﴾ میں اور مصیبت ﴿بیماری﴾ میں، جنگ کی شدّت ﴿جہاد﴾ کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں‘‘-

آئمۂ تفسیر نے کثیر روایتوں کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی ایک جانب چہرہ کر لیا جائے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے بلکہ اللہ د کے نزدیک اصل نیکی آیت میں بیان کردہ تمام امور و احکامات کو بجا لانے کا نام ہے- اِس آیت میں جو مشرق و مغرب کی جانب منہ پھیرنے کا کہا گیا ہے تو اس سے متعلق عہدِ نزول بھی مدِّ نظر رہے کہ یہ اُس زمانے میں آیت نازل ہوئی ﴿حضرت عبد اللہ ابن عباس ص کے قول کے مطابق ﴾ جب اسلام کی ابتدائ تھی اور کوئی شخص جب اللہ د کی وحدانیت اور نبی پاک شہہِ لولاک ﴿﴾ کی رسالت و نبوت کی گواہی دے دیتا تو کسی بھی سمت رُخ کر کے نماز ادا کر لیتا- اگر اسی معمول پہ اُسے موت آ جاتی تو اس کیلئے جنت لازم ہوتی- ہجرت کے بعد جب مسجد الحرام شریف کو قبلہ بنا دیا گیا اور اللہ د نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ یہ احکامات بجا لانا، اِن پہ عمل پیرا ہونا اصل نیکی ہے-

 

اِس آیت کے اَحکامات دو حِصّوں پہ مشتمل ہیں : ایک کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوقِ معاشرت سے ہے- امام جلال الدین سیوطی ’’دُرِّ منثور‘‘ میں نقل فرماتے ہیں کہ اِس آیت کے متعلق امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابو میسرہ رحمۃاللہ علیہم سے روایت بیان فرمائی ہے کہ وہ فرماتے ہیں :-

﴿مَنْ عَمِلَ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ﴾ یعنی ’’جس نے اِس آیت پر عمل کیا پس تحقیق اُس نے اپنے ایمان کو پایۂ تکمیل پہ پہنچا دیا‘‘-

اِسی طرح اِس آیت سے متعلّق علامہ ابن کثیر نے حضرت سُفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہما کا قول نقل کیا ہے کہ

﴿ھٰذِہِ اَنْوَاعُ الْبِرِّ کُلِّھَا﴾ ’’اِس آیت میں نیکی کی ہر قسم کو بیان کر دیا گیا ہے ‘‘-

اگر دیکھا جائے تو یہ آیۂ شریفہ دینِ مبین اور فلسفۂ نیکی اور انسان کے نظامِ زندگی پہ نہایت جامع بیان ہے بطورِ خاص پانچ پہلو قابلِ غور ہیں :

﴿۱﴾ فلسفۂ نیکی یا فلسفہ دین کیا ہے؟ یعنی دین صرف عبادات کا ہی مرقع نہیں اس سے بڑھ کر بھی کچھ ہے ﴿۲﴾ ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ ایمان کا تعلق جہاں خدا کے ساتھ ہے وہیں خدا کی مخلوق سے بھی ہے - ﴿۳﴾ مُعاملات کیا ہیں؟ اس میں رشتہ داروں ، یتیموں و دیگر کے حقوق کا بیان ہے -              ﴿۴﴾ عبادات کیا ہیں؟ نماز و زکوٰۃ کا حکم اور اس کی انفرادی و اجتماعی اہمیت کا بیان ہے-              ﴿۵﴾ اَخلاق کیا ہیں؟ سختی ، تکلیف ، میدان میں استقامت اختیار کرنا اور انسانیت کا درد اپنے وجود میں محسوس کرنا-

پہلے حصہ ﴿لَیْسَ الْبِرُّ﴾ سے لے کر ﴿وَلٰکِنَّ الْبِرَّ﴾ تک اِس بات کا بیان ہے کہ دین فقط و فقط عبادات کے مرقع کا ہی نام نہیں ہے اور نہ ہی انفرادی و ذاتی معاملہ معاشرتی معاملہ سے الگ ہے جیسا کہ اہلِ مغرب کا ہے - دوسرے حصہ میں ﴿مَنْ اٰمَنَ﴾ سے لے کر ﴿اَلنَّبِیِّیْنَ﴾ تک ایمان کا اصول بیان ہوا- تیسرے حصہ میں ﴿آتَی الْمَالَ﴾ سے لے کر ﴿وَ فِی الرِّقَابِ﴾ تک معاملات و معاشرت کو بیان فرمایا ﴿اس حص ہ میں ﴿اَلرِّقَابْ﴾ سے مراد زیادہ تر مفسرین نے غلاموں کو آزاد کرنا لیا ہے جبکہ بعض مفسرین اور کئی فقہائ نے اِس سے مراد وہ قیدی بھی لئے ہیں جو اپنے جرمانے ادا نہ کرنے کی وجہ سے جیلوں میں ساری عمر سڑتے رہتے ہیں- ایسے قیدیوں کو قید سے آزاد کروانے کیلئے مال خرچ کیا جائے﴾- چو تھے حصہ میں صلوٰۃ و زکوۃ کا ذکر فرمایا - جبکہ پانچویں حصہ میں ﴿وَالْمُوْفُوْنَ﴾ سے لے کر ﴿اَلْمُتَّقُوْنَ﴾ تک انسانیت کے ساتھ اخلاقیات کے تقاضے بتائے -

اَخلاق کے حصہ میں تین چیزوں پہ بالترتیب فرمایا گیا ہے کہ صبر کرنے والے ہوں ﴿اَلْبَأْسَا﴾ یعنی غربت ، تنگدستی ، افلاس ، بے مائیگی، فاقہ کشی ﴿اَلضَّرَّا﴾ یعنی مرض ، مصیبت ، دُکھ ، رنج ، تکلیف اور تیسرا ﴿حِیْنَ الْبَأْسِ﴾ یعنی راہِ جہاد میں قتال کے وقت- اِن تینوں میں ایک سے بڑھ کر ایک ہے- شدتِ فاقہ و غریبی میں صبر بے حد مشکل ہے لیکن اس مرض اور دُکھ میں صبر کرنا اُس سے بھی زیادہ مشکل ہے جبکہ وقتِ قتال میدانِ کار زار میں صبر کرنا، مرض پہ صبر کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے- اس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ قتال میں شدّت نہ اختیار کی جائے تاکہ بوڑھے، بچے، خواتین، بے گناہ لوگ محفوظ رہیں- جہاں یہ بات قوانینِ جنگ و جدال کا حصہ ہے وہیں اللہ تعالیٰ نے اِس کو اخلاقیات کا حصہ بھی بنا دیا ہے کہ قوانینِ جنگ سے تجاوز کرنا اسلام کے اخلاقی تصور کے منافی ہے- اس لیے اسلام میں مغربی نفسیات کی طرح محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا- نیز قتال میں شدت نہ کرنے والے کو دُہرا ثواب ملے گا ، جس طرح کہ ﴿ذَوِی الْقُرْبٰی﴾ کے متعلق آقا ﴿﴾ کے فرامین بکثرت موجود ہیں کہ اس بات پہ صدقہ کرنے والے کو دوہرا اجر ملتا ہے- ایک تو صدقہ کا اجر ملتا ہے اور دوسرا اقربائ کو دینے کا اجر ملتا ہے - اِسی طرح اِس حدیث پاک کو اگر قتال والے حصہ پہ لاگو کیا جائے تو جہاں جہاد فی سبیل اللہ کا اجر مجاہد کو ملے گا وہیں معصوم، بے گناہ، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تلوار کی کاٹ سے محفوظ رکھنے کا اجر بھی ملے گا-

 

آج آقا پاک ﴿﴾ کے میلاد مبارک پہ اگر ہم بیٹھے ہیں، اس میں ہمارے لئے سب سے اہم اور سب سے ضروری ترین عمل یہ ہے کہ ہم نے اپنا احتساب کرنا ہے کہ جس ہستی کی آمد کی خوشی ہم منارہے ہیں اس سے ہمارے تعلق کی بنیادیں کہاں تک پختہ ہیں؟

 

چوں می گویم مسلمانم بلرزم

کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را

’’جب مَیں یہ کہتا ہوںکہ مَیں مسلمان ہوں تو مَیںلرز اٹھتا ہوں کیونکہ مَیں لاالٰہ کی مشکلات کوجانتا ہوں -‘‘

یہ شہادت گہہ اُلفت میں ہے قدم رکھنا

لوگ آسان سمجھتے ہیں ’’مسلمان‘‘ ہونا

میرے نوجوان ساتھیو! مَیں آخری گزارشات کر رہا ہوں- آقا پاک ﴿﴾ سے اگر ہمیں محبت ہے تو اس محبت کی ہمارے پاس دلیل کیا ہے؟ کیا آقا ﴿﴾ سے محبت کی یہ دلیل ہے کہ ہمارے منفی رویّے اور بے حکمتی کی وجہ سے حضور ﴿﴾ کے دین کو اہلِ دُنیا مذاق بنا دیں اور ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ کیا یہ حضور کے دعوٰیٔ محبت کی دلیل ہے؟ آقا پاک ﴿﴾ نے جس دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑا، ہجرت کی، جس دین کے لئے پتھر کھائے ، لہو لہان ہوئے ، حضور کے بدن اطہر سے لہو ٹپکتا رہا، نیزے کھائے ، تلواریں کھائیں، رُخسار زخمی ہوئے، پیشانی زخمی ہوئی ، سر مبارک پہ چوٹ آئی، دَندان مبارک شہید ہوئے- پھر اسی دین کے ذریعے دنیا میں سالہا سال امن قائم رہا- کائنات کی عظیم ترین ، نفیس ترین اور لطیف ترین ہستی جن سے بڑھ کر کوئی لطیف نہیں ہوگا، جن سے بڑھ کے کوئی حسین نہیں ہوگا، جن سے بڑھ کر کو ئی نفیس نہیں ہوگا، آج اُنہی کے دین پہ جن کے لئے یہ سارا کچھ کیا ہے، آج اس پہ مشکل وقت ہے اور ہم اس دین کے رکھوالے نہیں بن رہے- کیا یہ حضور کیساتھ محبت کے دعوےٰ کی دلیل ہے؟ جس دین نے ابتدائ سے لے آخر تک غربائ کو سہارا دیا، معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو مقامِ عزت پر فائز کیا ، وقت کے امرائ اور فرعونوں ، سرمایہ داروں کو ایک توازن والی زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا اسی دین کی خاطر آقا پاک ﴿﴾ نے یہ فرمایا تھا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پہ سورج اور دوسرے پہ چاند رکھ دو، مال و دولت کے انبار لگا دو، مَیں اِس دین کی دعوت سے نہیں رکوں گا- آپ ﴿﴾ کو کوئی اپنی ذاتی دولت نہیں بنانی تھی ، ذاتی جاگیر نہیں بنانی تھی ، وہ سب قربانیاں خدا کے لیے تھیں ، خدا کی مخلوق کے لیے تھیں ، وہ سب ہمارے لیے تھا- آج ہم اس دین کو اپنی چند دُنیاوی خواہشات کی خاطر ترک کر کے بیٹھے ہیں-

 

ہمارے پاس ہمارے دعوٰیٔ محبت کی دلیل کیا ہے؟ حضور کے چچا، حضور کے قریبی رفقائ، حضور کے قریبی ساتھی بے دردی سے شہید کئے جاتے رہے، ان کے مُثلے کئے گئے ﴿ناک کان کاٹے گئے﴾، ان کے کلیجے ان کے سینے سے نکال کے چبائے گئے، آقا پاک ﴿﴾ نے یہ سارے غم کس کے لئے برداشت کئے؟ اس دین کے لئے، آج اس دین پہ مشکل وقت طاری ہے تو ہم دین پہ اپنی ذات کو، دین کے معاملات میں اپنے ذاتی معاملات کو ترجیح دیتے ہیں- کیا یہ حضور سے محبت کے دعویٰ کی دلیل ہے؟ ہمارے پاس کیا دلیل ہے حضور سے محبت کی؟ حضور سے عشق کی؟

 

ساتھیو! اگر حضور سے محبت ہے، اگر حضور سے عشق ہے، اگر حضور سے پیار ہے، تو اس عشق کی، اس محبت کی، اس پیار کی دلیل دیں- یہ زندگی کتنی ہے، یہ کتنی اور رہ جائے گی، کسے معلوم ؟ کیا اس دنیا میں صرف اَسی ﴿۰۸﴾ سال کی عمر کے لوگ مرتے ہیں، اٹھارہ ﴿۸۱﴾ سال کے نہیں مرتے؟ ہم جتنے بھی یہاں بیٹھے ہیں کسی کو یقین ہے کہ اس کے بعد مَیں کب تک زندہ ہوں اور مَیں اپنے گھر بھی خیریت سے پہنچوں گا یا نہیں، کسی کو یقین ہے اپنی موت کا اور اپنی موت کے نہ آنے کا؟ وقت اس کے ہاتھ میں ہے وہ جب آواز دے گا یہ بدن جاتا رہے گا- حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 

لوگ قبر دا کرسن چارا لحد بناون ڈیرا ھُو

 

جب تو مر جائے گا ناں! تو لوگوں کو پھر تیری فکر نہیں ہوگی ، جب رُوح نکل جائے گی تو لوگوں کو تیری فکر نہیں ہوگی، لوگ قبر کی طرف بھاگیں گے، دفناؤ اِسے، میّت بدبو چھوڑ جائے گی، سرائیکی میں کہتے ہیں’’ میّت ترک ویسی پورو اینوں جلدی‘‘ یعنی تعفن پھیلائے گی، بیما ریاں پھیلائے گی، خراب ہو جائے گی، لے جاؤ ، اسے دفناؤ، مٹی میں لے جاؤ ، قبر میں لے جاؤ- چاہے والد ہے، چاہے بھائی ہے، چاہے والدہ ہے، چاہے بچے ہیں، چاہے بہنیں ہیں، جو بھی ہو، سب کو جلدی ہوگی- پھر تیرا گھر تیری قبر ہوگی -

چٹکی بھر مٹی دی پاسن کرسن ڈھیر اُچیرا ھُو

 

ایک چٹکی مٹی کی اس پہ ڈال دیں گے، وہ چٹکی کس کا صلہ ہے؟ تیرے ساتھ ساری زندگی کی محبت کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کے یارانے کا، تیرے ساتھ ساری زندگی کی دوستی کا- تیرے ساتھ ساری زندگی کے تعلق کا صلہ تمہیں لوگ آخر میں کیا دیتے ہیں؟ مٹی! ایک مٹھی بھر کر تیری قبر پہ ڈال دیتے ہیں-

مُٹھیوں میں خاک لے کے دوست آئے بعد ازاں

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دیتے ہیں

اس دُنیا سے اور دنیا داروں سے محبت کرتے ہو جو تجھ پر جاتے ہوئے مٹی پھینکتے ہیں کہ جاؤ اب!

 پڑھ درود گھراں نوں جاسن کوکن شیرا شیرا ھُو

 

جس نے فاتحہ درود پڑھنا ہوگا وہ پڑھے گا اور ایک بار روتا ہوا جائے گا اور کہے گا تُو بڑا شیر تھا، بڑا بہادر تھا -

بے پرواہ درگاہ رب باھُو  نہیں فضلاں باہجھ نبیڑا ھُو

وہ بڑا بے نیاز ہے، کسی کی نہ اونچی ذات دیکھتا ہے، نہ اونچا منصب نہ اونچی شان دیکھتا ہے، اس کی عدالت میں میاں محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: -

عدل کریں تے تھر تھر کنبن اُچیاں شاناں والے

فضل کریں تے بخشے جاون مَیں وَرگے منہ کالے

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ لوگو! اپنے اعمال کا احتساب کرلو اس سے پہلے کہ اللہ تمہارا حساب لے اور ہمارے بزرگوں نے کہا ہے:

در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری

وقت پیری گُرگِ ظالم می شود پرہیزگار

جوانی میں توبہ کرنا ، اپنی لَو اللہ سے لگانا، جوانی میں اپنی چاہت کو اللہ کی چاہت کے سپرد کرنا، اپنی جوان دھڑکنوں کو اللہ کی رضا پہ قربان کرنا، اپنی جوان سانسوں ، اپنے جوان جذبات ، اپنے جوان احساسات کو اللہ کی راہ میں ، اللہ کی رضا میں لگانا، شیوہ ٔپیغمبری، انبیائ کی سنت ہے- تُو کہتا ہے مَیں بڑھاپے میں جاکے سُدھر جاؤں گا- اُوہ خدا کے بندے! بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی ظلم کرنا چھوڑ دیتا ہے، بندہ سُدھر جائے تو کون سی بڑی بات ہے-

نوجوانو! آج تمہیں اللہ نے جوان جذبے دیے ہیں، ہم اللہ کے دین کی حفاظت، اپنے جوان بازوئوں سے کر سکتے ہیں، اپنی جوان زبان سے کرسکتے ہیں، اپنے جوان لفظوں سے کر سکتے ہیں، اپنی جوان دھڑکنوں سے کر سکتے ہیں، اپنے جوان جذبوں سے کر سکتے ہیں، جب یہ سارا کچھ نحیف ہو جاتا ہے، جب یہ سارا کچھ ضعیف ہو جاتا ہے، سوائے حسرت اور سوائے ہاتھ مَلنے کے کچھ نہیں آتا- خدا کی بارگاہ میں حسرت کرتے ہوئے نہ لَوٹو بلکہ اس کی طرف یوں لَوٹو کہ

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم

چو مرگ آید تبسم بر لبِ اُوست

آجا! کہ مَیں تجھے بتاؤں کہ مردِ مومن کی نشانی کیا ہے؟ جب اُس پہ موت آتی ہے تواس کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ کھیل جاتی ہے، وہ حسرت لے کر نہیں جاتا ہے کہ مَیں کچھ کر نہیں سکا بلکہ وہ خوش جاتا ہے کہ یا اللہ تیرے توکل پہ، تیرے بھروسے پہ اس دُنیا کے سامنے تیرا نام بلند کرتا رہا ، تیرے دین کی اِقامت کی جدوجہد کرتا رہا، تیرے دین کے اِحیائ کی جدوجہد کرتا رہا، تیرے دین کے نفاذ کی جدوجہد کرتا رہا، تیرے نبی کے ادب، تیرے نبی کی عظمت کو سَر بلند کرتا رہا-

حضرت علامہ اقبا ل رحمۃ اللہ علیہ جب حضرت ٹیپو سلطان شہید کے مزار پہ ﴿سرنگا پٹم﴾ گئے تو بڑے روئے، وہاںپہ مراقبہ کیا ،قرآن کی دعوت پڑھی ، جب باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ ٹیپوسلطان سے کیا مکالمہ ہوا؟ ٹیپو سلطان بھی ایک فقیر آدمی تھا، ایک فقیر بادشاہ تھا اور اللہ کا بہت نیک آدمی تھا، علامہ اقبال نے کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے کچھ باتیں کی ہیں- یہ کلام حضرت علامہ کے کسی شعری مجموعے میں نہیں لیکن حیاتِ اقبال کی کتب میں موجود ہے -’’ زندہ رُود‘‘ جو جاوید اقبال نے لکھی ہے اس میں بھی موجود ہے، علامہ اقبا ل نے ان لوگوں کو کہا کہ مجھے ٹیپو سلطان نے یہ بات کہی ہے کہ

در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست

ہمچوں مرداں جاں سپردن زندگیست

’’اے اقبال! مسلمانو ں کو یہ پیغام دو کہ اگر زندگی میں وہ مَردوں کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکتے، اگر مومن کی طرح زندگی گزارنا ممکن نہیں پھر مَردوں کی طرح جان پہ کھیل جانا زندگی ہے، جان سے گزر جانا زندگی ہے-‘‘ اس لئے ہمارے پاس یہ وقت ہے ، جو چند سانسیں ہیں، اس اللہ کے نام پہ صَرف کریں ، اس کے ساتھ یہ عہد کریں، اس عہد کے متعلق ہم سے پوچھا جائے گا-

 

’’اصلاحی جماعت‘‘ یہی دعوت لے کے سلطان العارفین کی درگاہ سے آئی ہے- سرپرستِ اعلیٰ اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین جانشین سلطان الفقر حضرت سلطان محمد علی صاحب یہی پیغام لے کے آئے ہیں کہ خدارا، آپ آئیں! اور اللہ کے دین کو نافذ کرنے کیلئے، اللہ کی کتاب و سنتِ رسول کو مروج کرنے کیلئے ہمیں اپنی کوششیں ، اپنی کاوشیں بروئے کار لانی چاہئیں- حضرت ہاجرہ کا کام سعی کرنا تھا، ہمارا کام سعی ﴿کوشش﴾ کرنا ہے- اللہ کا کام یہ ہے کہ وہ ننھے اسماعیل ں کے قدموں سے پانی کا چشمہ جاری کر دے- ہم سعی کریں گے، خلوص سے کریں گے، اللہ پانی کا چشمہ جاری فرمائے گا، وہی قادرِ مطلق ہے، وہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے -اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق عطائ فرمائے -

مَیں نے شروع سے جو بات کہی تھی کہ ہمارا دین، دینِ فطرت ہے اور یہ شروع سے آخر تک ہر بات کا احاطہ کرتا ہے- اس میں انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر اس کی معاشرتی زندگی کے ہر پہلو کو ڈسکس کیا گیا ہے- اس کا تصورِ خدا آفاقی ہے، اس کا تصورِ انسان آفاقی ہے، اس کا تصورِ کائنات آفاقی ہے، اس میں جزوی نوعیت کی کوئی چیز نہیں ہے اس لئے جو مانے گا وہ پورے دین کو مانے گا، جو منحرف ہو گا وہ پورے دین سے منحرف ہوگا ، ناچیز کی ناقص رائے میں درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم کچھ احکامات کو مان لیں اور بعض احکامات کو چھوڑ دیں ، شاید ایسا نہیں ہو سکتا- مغرب کے تصورِ دین میں اور ہمارے تصورِ دین میں فرق ہے- ان کا تصورِ دین، ان کا تصورِ خدا مختلف ہے ، ہمارا تصورِ خدا مختلف ہے- ہمارا خدا اپنے اسمائ الحسنہ میں ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مَیں مالک ہوں؛

﴿مٰ لِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ ’’روزِ جزا کا مالک ہے-‘‘ ﴿ بِیَدِہِ الْمُلْکُ﴾’’ جس کے دستِ ﴿قدرت﴾ میں ﴿تمام جہانوں کی﴾ سلطنت ہے-‘‘

اس کے ہاتھ میں یہ ملک ہے، اس کے ہاتھ میں یہ کائنات ہے ، وہ چلانا چاہے گا اس کائنات کو ،وہ حق رکھتا ہے اس کائنات کو چلانے کا -

﴿اَلْمُقْتَدِرُ﴾ ’’اقتدار اس کا حق ہے -‘‘ ﴿اَلْعَدْلُ﴾ ’’عدالت اس کا حق ہے-‘‘

ترازو اس کا ، حکم اس کا ، پیغام اس کا ، نظام اس کا، ہمارے پاس کوئی اختیا نہیں ہے کہ ہم اس کی حاکمیت میں مداخلت کریں- انسان اس زمین پہ حاکم نہیں ہوتا بلکہ یہ اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا نائب ہوتا ہے، اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے، اس لئے دین جزوی اور فرد کا نجی یا ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ دین فرد کا مکمل اور معاشرتی معاملہ ہے- اگر کوئی فرد دین کے کسی ایک بھی حکم سے اپنے آپ کو آزاد کرانا چاہتا ہے تو وہ قرآن و سنت سے بغاوت و غداری کرتا ہے-

آج بد قسمتی یہ ہے کہ منبر و محراب نے بھی دین کو محدود کرنے میں کسر نہیں اُٹھا رکھی کیونکہ ہمارے خطبا ئ و واعظین کے عمومی طور پہ پسندیدہ موضوعات ’’اِختلافی عقائد‘‘ ہوتے ہیں- بہت کم ایسے خطبائ و واعظین جامع مساجد میں دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنے خطابات و مواعظ میں لوگوں کو عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کی تلقین کرتے ہوں، اخلاقیات کا درس دیتے ہوں یا انسانیت کی عظمت کا سبق پڑھاتے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان چاروں چیزوں کو اکٹھا رکھا ہے- مثلاً اگر سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۷۷۱ میں جھانکیں تو قرآن پاک کی ترتیب و تعلیم سمجھنے میں دشواری نہیں رہتی:-

﴿لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَلٰ کِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَ النَّبِیّٰنَج وَ اٰتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہٰ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ ج وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰ ہَدُوْا ج وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ط اُولٰٓ ئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط وَ اُولٰٓ ئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾

’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اﷲ پر ، آخرت پر ، فرشتوں پر ، ﴿اﷲ کی﴾ کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں، اور اﷲ کی محبت میں ﴿اپنا﴾ مال قرابت داروں ، یتیموں ، محتاجوں ، مسافروں، مانگنے والوں اور ﴿غلاموں کی﴾ گردنوں ﴿کو آزاد کرانے﴾ میں خرچ کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی ﴿تنگدستی﴾ میں اور مصیبت ﴿بیماری﴾ میں، جنگ کی شدّت ﴿جہاد﴾ کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں‘‘-

آئمۂ تفسیر نے کثیر روایتوں کے حوالے سے بیان فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ کسی ایک جانب چہرہ کر لیا جائے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے بلکہ اللہ د کے نزدیک اصل نیکی آیت میں بیان کردہ تمام امور و احکامات کو بجا لانے کا نام ہے- اِس آیت میں جو مشرق و مغرب کی جانب منہ پھیرنے کا کہا گیا ہے تو اس سے متعلق عہدِ نزول بھی مدِّ نظر رہے کہ یہ اُس زمانے میں آیت نازل ہوئی ﴿حضرت عبد اللہ ابن عباس ص کے قول کے مطابق ﴾ جب اسلام کی ابتدائ تھی اور کوئی شخص جب اللہ د کی وحدانیت اور نبی پاک شہہِ لولاک ﴿


ö﴾ کی رسالت و نبوت کی گواہی دے دیتا تو کسی بھی سمت رُخ کر کے نماز ادا کر لیتا- اگر اسی معمول پہ اُسے موت آ جاتی تو اس کیلئے جنت لازم ہوتی- ہجرت کے بعد جب مسجد الحرام شریف کو قبلہ بنا دیا گیا اور اللہ د نے مذکورہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ یہ احکامات بجا لانا، اِن پہ عمل پیرا ہونا اصل نیکی ہے-

 

اِس آیت کے اَحکامات دو حِصّوں پہ مشتمل ہیں : ایک کا تعلق اعتقاد و عقیدہ سے ہے جبکہ دوسرے کا تعلق حقوقِ معاشرت سے ہے- امام جلال الدین سیوطی ’’دُرِّ منثور‘‘ میں نقل فرماتے ہیں کہ اِس آیت کے متعلق امام ابن ابی شیبہ نے حضرت ابو میسرہ رحمۃاللہ علیہم سے روایت بیان فرمائی ہے کہ وہ فرماتے ہیں :-

﴿مَنْ عَمِلَ بِھٰذِہِ الْآیَۃِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ﴾ یعنی ’’جس نے اِس آیت پر عمل کیا پس تحقیق اُس نے اپنے ایمان کو پایۂ تکمیل پہ پہنچا دیا‘‘-

اِسی طرح اِس آیت سے متعلّق علامہ ابن کثیر نے حضرت سُفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہما کا قول نقل کیا ہے کہ

﴿ھٰذِہِ اَنْوَاعُ الْبِرِّ کُلِّھَا﴾ ’’اِس آیت میں نیکی کی ہر قسم کو بیان کر دیا گیا ہے ‘‘-

اگر دیکھا جائے تو یہ آیۂ شریفہ دینِ مبین اور فلسفۂ نیکی اور انسان کے نظامِ زندگی پہ نہایت جامع بیان ہے بطورِ خاص پانچ پہلو قابلِ غور ہیں :

﴿۱﴾ فلسفۂ نیکی یا فلسفہ دین کیا ہے؟ یعنی دین صرف عبادات کا ہی مرقع نہیں اس سے بڑھ کر بھی کچھ ہے ﴿۲﴾ ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ ایمان کا تعلق جہاں خدا کے ساتھ ہے وہیں خدا کی مخلوق سے بھی ہے - ﴿۳﴾ مُعاملات کیا ہیں؟ اس میں رشتہ داروں ، یتیموں و دیگر کے حقوق کا بیان ہے -              ﴿۴

واپس اوپر