وسیلہ کیا ہے؟

وسیلہ کیا ہے؟

بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت ایک فیشن بن چکی ہے کہ ہم اپنے لئے شدت سے کم کسی درجے کو منتخب نہیں کرتے اور دوسروں کو کافر مشرک اور بدعتی ثابت کرنے کے لئے ایسے ایسے مسئلے تراش لیتے ہیں جن کو دیکھ کر ایک عام آدمی کی عقل دنگ بلکہ تنگ رہ جاتی ہے کہ بس اسی کی کمی رہ گئی تھی ، ہمیں چاہئے کہ ہم ایک اچھے مسلمان اور اچھے شہری کی طرح ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کا ڈھنگ سیکھیں اور ایسی روش نہ اپنائیں کہ ہمارے اختلاف معاشرے میں قتل و غارت اور ایک دوسرے سے نفرت کا سبب بن جائیں – آئمۂ اجتہاد نے بھی ایک دوسرے سے اختلاف کیا مگر ایک دوسرے کو کافر کافر اور واجب القتل نہیں کہا ، بس یہی فرق ہے ہم میں اور اُن میں ، یہی وجہ ہے اُن کے کمال کی اور ہمارے زوال کی – کئی ایک مسائل ایسے ہیں جن میں فکری و فقہی اختلاف دلیل و استدلال کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر اپنے سے مقابل صف میں بیٹھے لوگوں کو شمار کر لینا چاہئے کہ جن کو اس اختلاف کی پاداش میں دین سے خارج قرار دیا جائے گا اُن کا اُمت میں اعتبار و مقام کیا ہے ؟

مثال کے طور پر ’’وسیلہ یا توسل ‘‘کو ہی دیکھ لیں قرآن و سُنت میں اس کا معیار بیان کر دیا گیا ہے کہ ’’وسیلہ‘‘کی دین میں کیا حیثیت ہو گی ؟ 

آئیے! تعصب ، تنگ نظری اور فرقہ وارانہ دھندلاہٹ کی عینک اُتار کر اِس کو قرآن و سنت اور اکابرینِ اُمت کے طریقہ کار اور طرزِ عمل سے دریافت کرتے ہیں کہ اس سلسلہ میں وہ ہماری کیا رہنمائی کرتے ہیں- 

توسل یا وسیلہ کا معنیٰ

’’عبادت و اطاعت یا کسی برگزیدہ مخلوق کو قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ماننا‘‘-

مسلمانوں کے عہدِ عروج میں فقہ اور عربی لُغت کے عظیم و نامور محقق علامہ ابن منظور الافریقی (630ھ تا 711ھ) اپنی شُہرہ آفاق تصنیف ’’لسان العرب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : 

’’اس نے فلان چیز کے ذریعہ اس شخصیت سے توسل کیا یعنی اس نے اس چیز کی حرمت کے ذریعہ اس ذات سے قربت اختیار کی جب کہ اس کی حرمت سے اپنی قلبی محبت کو اپنے اندر محسوس کیا‘‘-[1]

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ:

یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ[2]

’’اےایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ‘‘-

علمائے معانی نے اِس کا ترجمہ کچھ اِس طرح سے بیان کیا ہے کہ :

(اَلْوَسِیْلَۃ مَا یَتَقَرّبُ بہٖ اِلی الْغَیْر)

’’وسیلہ ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ کسی دوسرے کے قریب ہوا جائے‘‘- 

اگر اِس نُقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اِنسان کے نیک اعمال ،حُسنِ اخلاق ،حُسنِ عمل ،نیت،دِل کا اخلاص ،صدق اور صفا، تزکیہ ،دُعا اور جہاد فی سبیل اللہ بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان قرب کا ذریعہ بنتے ہیں اِسی طرح اللہ تعالیٰ کے نیک ،برگزیدہ اور مخلص بندے بھی قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ و وسیلہ قرار پاتے ہیں -

اگر اِسی بات کو سمجھنے کے لئے ہم تین حصوں میں تقسیم کر لیں تو تفہیم اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے یعنی وسیلہ تین طرح سے اختیار کیا جاتا ہےکہ:

v                  نیک اعمال سے

v                  خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے

v                  قرب الہی کے حصول کے لئے اللہ جل شانہ کے اولیا و مقربین سے 

اب اِن تینوں کی شہادت و گواہی قرآن مجید ،رسولِ مکرم )ﷺ (کی احادیث مبارکہ اور آپ)ﷺ( کے صحابہ کرام (﷢) کے طریقِ عمل سے دریافت کرتے ہیں :

۱- نیک اعمال سے توسل اختیار کرنا:

امام جلال الدین سیوطی (﷫)نے اس آیت (وَابْتَغُوا إِلَیْہِ الْوَسِیلَۃَ)کے ضمن میں ایک روایت کا تذکرہ کیا ہے-اس آیت کے متعلق حضرت قتادہ(﷜) کا بیان ہے  کہ :

’’اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کو راضی کرنے والے عمل کے ذریعہ سے اُس کی قربت اختیار کرو ‘‘-[3]

۲- خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل اخیتار کرنا

اللہ جل شانہ نے ’’سورۃ یوسف ‘‘میں بیان فرمایا ہے کہ جہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی قمیص لا کر حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں پر ڈالتے ہیں اور اُن کی بینائی لوٹ آتی ہے تواُس مقام پر بیٹے اُن کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ:

’’قَالُوْا یٰٓـاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیْنَo قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo[4]

’’وہ بولے: اے ہمارے باپ! ہمارے لیے (اﷲ سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجیے، بے شک ہم ہی خطاکار تھے- (یعقوب علیہ السلام نے) فرمایا : میں عنقریب تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا ، بے شک وہی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘-

اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے والد کی دُعا اور اُن کے استغفار سے توسل یعنی وسیلہ اختیار کیا جس پرحضرت یعقوب علیہ السلام نے نہ صرف کوئی اعتراض کیا بلکہ اُن سے یہ وعدہ کیا کہ وہ اُن کے حق میں دُعا اور استغفار کریں گے-اگر یہ عمل قابلِ اعتراض ہوتا یا اِس سے کسی طرح کے خفیف اور معمولی سے شرک کا بھی شائبہ ہوتا تو حضرت یعقوب(علیہ السلام) اِس عمل کی نفی کر دیتے -

۳- قرب الہی کے حصول کے لئے اللہ جل شانہ کے انبیا، اولیا و مقربین سے توسل اختیار کرنا 

ہم اگر تعصب اور تنگ نظری کی عینک اُتار کر دیکھیں تو وسیلہ یا توسل کی اِس تیسری قسم کی مثالیں بکثرت رسولِ اکرم(ﷺ) کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کی زندگیوں اور طریقہ کار سے ہمیں ملتی ہیں - اُن میں سے چند ایک کو مُلاحظہ فرمائیں :

امام احمد بن حنبل (﷜)نے اپنی کتاب ’’المسند‘‘میں حضرت عثمان بن حنیف (﷜)سے یہ روایت نقل کی ہے اور دیگر بھی کئی محدثین کرام نے اِس روایت کو نقل فرمایاکہ:

’’ایک نابینا شخص آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا (یعنی بینائی ) عطا کرے - تو آقا علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں ابھی تمہارے لئے دعا کردیتا ہوں لیکن اگر چاہو تو اس سلسلے میں کچھ تاخیر کردی جائے اور یہی بہتر بھی ہے- اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ﷺ) آپ دعا فرمادیں - تو نبی مہربان علیہ السلام نے اس شخص کو حکم دیا کہ وہ وضو کو اچھے طریقے سے انجام دے اور پھر دو رکعت نماز بجا لائے اور یہ دعا پڑھے :

’’اللّھم اِنيّ أَسْئَلُکَ وَ أَتَوَجَّہ اِلَیْکَ بِنَبِیِّک مُحَمَّدٍ نَبِيّ الرَّحْمَۃ یَا مُحَمَّد اِنيّ تَوجّھت بِکَ اِلیٰ رَبيّ فِي حَاجَتِي ھٰذہ ، فَتَقضي لِي اَللّٰھُم شَفّعہٗ فيّ‘‘

’’اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے پیغمبر نبی رحمت (ﷺ) کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں -اے محمد (ﷺ) میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ آپ میری حاجت کو قبول فرمائیں - اے اللہ! ان کو میرے لئے شفاعت کرنے والا بنا دے ‘‘ -[5]

امام ترمذی (﷜)اور امام ابن ماجہ(﷜) سمیت کئی جلیل القدر محدثین نے اِس حدیث پاک پہ تبصرہ کرتے ہوئے اِسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے -بلکہ اس حدیث پاک کو  بیان کرنے کہ پس منظر میں پورا ایک واقع موجود ہےجس میں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آقا پاک (ﷺ) کے وصال کے بعد بھی صحابہ کرام انہی کلمات سے توسل اختیار کیا کرتے تھے-جیسا کہ امام طبرانی نے ’’معجم الکبیر ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ:

’’حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف (﷢) اپنے چچا حضرت عثمان بن حنیف (﷜) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان(﷜) کے پاس کسی ضرورت سے آتا جاتا تھا-حضرت عثمان (﷜) اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی ضرورت پر غور نہ فرماتے تھے- وہ شخص (عثمان) بن حنیف (﷜)سے ملا اور ان سے اس کی بابت شکایت کی- عثمان بن حنیف (﷜)نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ اور وضو کرو،اس کے بعد مسجد میں آ کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو :

’’ اے اﷲ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف اپنے نبی محمد (ﷺ) کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد(ﷺ)! میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے‘‘-

 

(یہ دعا پڑھ کر حضرت عثمان بن عفان (﷜) کے پاس جاؤ) اور اپنی حاجت بیان کرو اور جاؤ یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ جاؤ- پس وہ آدمی گیا اور اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا- پھر وہ حضرت عثمان بن عفان (﷜) کے دروازے پر آیا تو دربان نے اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان (﷜)کے پاس لے گیا- حضرت عثمان (﷜)نے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور پوچھا : تیری حاجت کیا ہے؟ تو اس نے اپنی حاجت بیان کی اور انہوں نے اسے پورا کیا- پھر انہوں نے اس سے کہا : تو نے اپنی اس حاجت کے بارے میں آج تک کیوں نہ بتایا؟ آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو مجھے بیان کرو- پھر وہ آدمی آپ (﷜) کے پاس سے چلا گیا اور عثمان بن حنیف سے ملا اور ان سے کہا : اﷲ آپ کو بہتر جزا دے، اگر آپ میری حاجت میں میری رہنمائی نہ فرماتے تو نہ تو وہ میری حاجت پر غور کرتے اور نہ میری طرف متوجہ ہوتے‘‘-[6] 

اِس حدیثِ مُبارکہ سے بڑی اچھی طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خود رسول اکرم (ﷺ) کی اپنی سکھائی ہوئی دُعا یہ بتاتی ہے کہ آپ (ﷺ) کو وسیلہ بنا کر ان سے توسل کرنا نہ صرف جائز عمل ہے بلکہ عین طریقِ نبوی (ﷺ)ہے - اگر حضور علیہ السلام کو وسیلہ بنانا یا ماننا شرک ہوتا تو اِس کی تعلیم آپ (ﷺ)خود کیوں اپنے صحابہ کرام (﷢)کو دیتے ؟یہ تو تھا آقا علیہ السلام کا توسل اختیار کرنا - اب ’’صحیح بُخاری شریف ‘‘کی ایک روایت میں دیکھتے ہیں کہ کیا حضور اکرم (ﷺ) کے بعد صحابہ کرام (﷢)نے کسی اور کے توسل کو شرک سمجھا ؟

’’جب کبھی قحط پڑتا تھا تو سیدنا عمر بن خطاب ہمیشہ (آقا علیہ السلام کے چچا) حضرت عباس بن عبد المطلب کے وسیلے سے (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں) بارش کے لئے دعا کیا کرتے تھے اور یہ الفاظ کہتے:

’’اللّھم اِن کنّا نتوسّل اِلیک بنبیّنا فتسقینا و اِنّا نتوسّل اِلیک بعمّ نبیّنا فاسقنا‘‘

’’اے اللہ! ہم اپنے نبی پاک (ﷺ) کے زمانہ میں تو اُنہی کا توسل اختیار کرتے تھے اور تو ہم پہ بارش نازل فرماتا تھا ،اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی محتشم (ﷺ) کے چچا کو وسیلہ پکڑتے ہیں تاکہ تو ہمیں (بارانِ رحمت سے) سیراب فرما دے‘‘-

چنانچہ اُن پہ بارش نازل کی جاتی " - [7]

امام بخاری(﷜) کی روایت سے متعدد محدثین کرام نے یہ حدیث مبارکہ اپنے مجموعات میں شامل کی اور اِسے بالاتفاق ’’حدیثِ صحیح ‘‘قرار دیاہے-اگر توسل اختیار کرنا شرک ہوتا تو امیر المومنین سید نا عمر بن خطاب (﷜) اِس عمل کو اختیار نہ فرماتے - آقا علیہ الصلوۃ و السلام نے نہ صرف صحابہ کرام بلکہ  تبع تابعین تک مسلمانوں کے توسل اختیار کرنے کی پیشین گوئی فرمائی ہے، جیسا کہ بخاری شریف میں ہے کہ:

’’حضرت ابو سعید خدری (﷜) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا :لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم (ﷺ) کی صحبت میں رہا ہو؟پس وہ لوگ کہیں گے :ہاں، تو انہیں (ان صحابہ کرام کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی-پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے رسول اللہ (ﷺ)کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں، تو پھر انہیں (ان تابعین کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی-پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ (ﷺ) کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ ہاں! تو انہیں (تبع تابعین کے توسل سے) فتح دے دی جائے گی‘‘-[8]

یہ حدیث متفق علیہ ہے- اگر آقا پاک (ﷺ)کے بعد  اکابرینِ اُمت کےآقا علیہ الصلوۃ و السلام سے  توسل اختیار کرنے کی بات کی جائے تو اس کے جواز اور روا ہونے کی روایات و اسناد بھی ہمیں ملتی ہیں ،جیسا کہ بخاری شریف کی اس روایت میں ہے کہ:

’’حضرت عبد الرحمن بن سعد (﷜) بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد اﷲ بن عمر (﷠) کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سُن ہوگیا، تو مَیں نے ان سے عرض کیا: اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ توانہوں نے فرمایا : یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں تو مَیں نے عرض کیا : تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہو اسے یاد کریں، تو انہوں نے یا محمد (ﷺ) کا نعرہ بلند کیا (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے‘‘-[9]

اسی طرح ایک اور روایت ہے جس میں آقا علیہ الصلوۃ و السلام کے تبرکات سے بھی توسل  اختیار کرنے کا ثبوت ملتا ہےکہ:

’’عن عبد اللہ مولی اسماء بنت ابی بکر(رضی اللہ عنہما)انھا اخرجت الی جبۃ طیالسۃ  کسروانیۃ لھا لبنۃدیباج، وفرجیھا مکفوفین بالدیباج،فقالت: ھذا کانت عند عائشۃ حتی قبضت،فلما قبضت قبضتھا وکان النبی (ﷺ) یلبسھا، فنحن نغسلھا للمرضی یستشفی بھا‘‘[10]

’’حضرت اسماء (﷞)کے مولی(آزاد کردہ غلام) حضرت عبدا للہ (﷜)سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر(﷞) نے طسیانی کسروان کا جُبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا-کہنے لگیں:یہ حضرت عائشہ (﷞)کے پاس تھا جب وہ فوت ہوئیں تو مَیں نے لیا- نبی کریم (ﷺ) اس کو پہنتے تھے-ہم بیماروں کے لئے اس کو دھوتے اور اس کے (توسل کے)ساتھ بیماروں کے لئے شفاء طلب کرتے‘‘-

امام نووی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

’’وفی ھذا الحدیث دلیل علی استحباب التبرک بآثار الصالحین و ثیابھم‘‘[11]

’’اس حدیث میں صالحین کے آثار اور ان کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کے استحباب پر دلیل ہے‘‘-

ہمیں چاہئے کہ ہم اعتدال کا ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو ہمیں گمراہی سے اور شدت و تعصب سے محفوظ رکھے-دینِ اِسلام میں اِختلاف کی ایک تاریخ ہے کہ عقیدہ ،طریقِ عبادت اور معاملہ کے ادا کرنے کے طریقہ کار میں آئمہ دین کے درمیان اختلاف رہا ہے ،اب بھی اختلاف کا دروازہ بند نہیں کیا جا سکتا لیکن اختلاف کرتے وقت یہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہئے کہ لازمی نہیں میرا مخالف ہر صورت میں کافر ہی ہوگا -یہی تکفیری رویہ اور فرقہ وارانہ تعصب آج شام ،عراق ،یمن ،لیبیا اور تقریباً ہر قابلِ ذکر اسلامی ملک میں افراتفری کا موجب بنا ہوا ہے-

 

ہمیں دوسروں سے اختلاف کا حق اُنہیں کافر کہنے کی اجازت نہیں دیتا -اِسی مسئلہ توسل کو ہی مثال بنا لیں جو اس عمل کو دین سے خارج کہتے ہیں یا اسے کفر و شرک کہتے ہیں اُن کی حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے کیا رائے ہے ؟اور وہ معلمِ کائنات نبی مہربان (ﷺ) کو کیا کہیں گے جنہوں نے خود اپنے صحابہ کرام (﷢)کو اپنا وسیلہ بنانا سکھایا ؟ اور حضرت عمر فاروق (﷜) ،حضرت عباس بن عبد المطلب اور اِس عقیدہ کے لاکھوں صحابہ کرام (﷢)  و اکابرینِ اُمت کو کس صف میں کھڑا کریں گے؟

ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رویوں میں نرمی پیدا کریں، اختلاف کے باوجود احترام کرنا سیکھیں اور قرآن و سُنت میں طے شُدہ اُصولوں پر ایک دوسرے کی تکفیر سے اجتناب کریں -

٭٭٭



[1](لسان العرب، جلد: 11 ص: 734)

[2] (المائدہ:35)

[3](تفسیر درالمنثور، جلد: 2، ص:280)

[4] (سورہ یوسف 97-98)

[5] (مسند احمد بن حنبل ، ج: 4 ص: 138)

[6](معجم الکبیر،ج:1، ص:415، العلمیہ)

[7](صحیح بخاری، کتاب الاستسقا)  

[8](صحیح بخاری،کتاب فضائل الصحابہ)

[9](الأدب المفرد للبخاری)

[10](صحیح مسلم، اللباس و الزینۃ،ص:980)

[11]( صحیح مسلم،امام نووی، ج:14، ص:270) 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر