علم الکلام کی اہمیت و افادیت : قسط 1

علم الکلام کی اہمیت و افادیت : قسط 1

علم الکلام کی اہمیت و افادیت : قسط 1

مصنف: مفتی میاں عابد علی ماتریدی فروری 2021

اصطلاحِ ’’علم الکلام‘‘ کی لغوی بحث:

لغوی اعتبار سے کلام ’’ک،ل،م‘‘ سے لیا گیا ہے- اَکَلَمٌ مصدر ہے اور یہ دو معنی کیلئے آتا ہے-

1-با معنی بات پر دلالت کرنا               2- زخمی کرنا

اصطلاح میں ’’ما یتلفظ به الانسان‘‘ ( انسان جس کے ساتھ تلفظ کرے ) اس کو کلام کہتے ہیں- [1]

علم الکلام ایسا علم ہے جس کا مقصد اسلامی عقائد و نظریات کی حقانیت کو از روئے عقل محکم و مضبوط دلائل سے ثابت کرنا اور ان میں پیش آنے والی خرابیوں اور توہمات کو دور کرنا ہے تاکہ اسلامی عقائد کی اصل شکل برقرار رہے جو حضور نبی کریم (ﷺ)  اور صحابہ کرام و تابعین کے دور میں تھی-

علم الکلام میں عقائد نظریات پہلے سے موجود ہوتے ہیں- فقط عقلی دلائل کے ذریعے ان کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے- اس کی مزید وضاحت کیلئے علم الکلام کی چند تعریفات درج ذیل ہیں:

تعریفاتِ علم الکلام

علم الکلام: اسلامی نظریات کے مطابق وہ علم جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، پیدائش مخلوق اور آخرت کے متعلق بحث کی جائے- [2]

علامہ ابن خلدونؒ لکھتے ہیں:

’’هُوَ عِلْمٌ يَتَضَمَّنُ الحِجَجَ عَنِ الْعَقَائِدِ الْإِيْمَانِيَّةِ بِالْأَدِلَّةِ الْعَقلِيَّةِ وَالرَدُّ عَلى الْمُبْتَدِعَةِ الْمُنْحَرِفيْن فِيْ الْاِعْتِقَادَاتِ عَن مَذَاهِبِ السَّلَفِ وَ أَهْلِ السنَةِ‘‘[3]

’’وہ علم جس میں عقائد ایمانیہ کا دلائل عقلیہ کے ذریعے دفاع کیا جاتا ہے نیز بدعتیوں اور اہل سنت و سلف کے عقیدہ سے انحراف کرنے والوں کا رد کیا جاتا ہے‘‘-

اس کے علاوہ بھی علماء  نے اسی تعریفات لکھی ہیں:

’’ھُوَ عِلْمٌ التَّوْحِيْدِ وَالصَّفَاتِ الْمَوْسُوْمُ بِالْكَلَامِ الْمُنْجِىْ عَنْ غَياهبِ الشُّكُوْكِ وَ ظُلُمَاتِ الْاَوْهَامِ‘‘[4]

’’وہ علم توحید والصفات جس کا نام کلام رکھا گیا ہے (وہ علم الکلام) جو شکوک کے اندھیروں اور وہموں کی تاریکیوں سے نجات دلانے والا ہے‘‘-

’’عِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ ذَاتِ اللهِ تَعَالى و صِفَاتِهِ وَ اَحْوَالِ الْمُمْكِنَاتِ مِنَ الْمُبدَأِ والْمَعَادِ عَلى قَانُونِ الْاِسْلَامِ‘‘[5]

’’علم الكلام وه علم ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور ممکنہ احوال یعنی مبداء و معاد سے قانونِ اسلام کے مطابق بحث کی جاتی ہے‘‘-

’’ھُوَ عِلْمٌ بِالْعَقَائِدِ الدّيْنِيَّةِ عَنِ الْأَدِلَّةِ الْيَقِيْنِيَّةِ‘‘[6]

’’يقینی دلائل سے حاصل ہونے والے دینی عقائد کا جاننا (علم الکلام) ہے-

علم الکلام کے بہت سے نام آئمہ دین  نے بیان کیے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

’’علم الکلام کو علم العقائد، علم اصول الدین ، الفقہ اکبر، علم التوحید و صفات، علم الاستدلال- علم اسماء و صفات، علم الاصول اور جبکہ عصر حاضر میں التصور الاسلامی، الفکر الاسلامی اور علم الکلام کے ناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے‘‘-

علم الکلام کے بعد جو نام سب سے زیادہ معروف ہوا وہ علم العقائد ہے-عقائد - عقیدہ کی جمع ہےاور عقیدہ کی تعریف ہے:

      ’’اَلْقَضِیَّۃُ الَّتِیْ یُصَدَّقُ بِھَا‘‘

’’یعنی عقیدہ اس قضیہ کو کہتے ہیں جس کی تصدیق کی جائے‘‘-

مثلاً: اللہ ایک ہے اور حضور نبی کریم (ﷺ)  اللہ کے رسول ہیں-علم الکلام کو اسلامی عقائد کے قواعد کی بنیاد اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ علم الکلام ان قواعد کا جامع ہے اور ان پر دلائل قائم کرتا ہے-بعض لوگوں کے ہاں عقیدہ نفسِ تصدیق کو بھی کہتے ہیں- [7]

علم الکلام کی غرض و غائیت:

علم الکلام کی غرض و غائیت دلائل عقلیہ سے عقائد اسلامیہ کا اثبات و دفاع کرنا بدعتیوں اور عقیدہ صحیحہ سے انحراف کرنے والوں کا رد اور اسلام پر وارد ہونے والے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا ہے- [8]

’’ھُوَ أَنْ یَصِیْر الاِیْمَانُ وَالتَّصْدِیْقُ بِالْاَحْکَامِ الشَّرْعِیَّةِ مُحْکَماً‘‘[9]

’’اَحکامِ شرعیہ کے ساتھ ایمان اور تصدیق پختہ ہو جائے‘‘-

  1. جس علم میں احکام عملیہ کی معرفت ادلہ تفصیلہ سے حاصل ہوتی ہے اسے فقہ کے نام سے موسوم کر دیا-
  2. جس علم میں احکام کی معرفت اجمالی دلائل سے حاصل ہوتی ہے اسے اصول فقہ کے نام سے موسوم کر دیا-
  3. جس علم میں عقائد کی معرفت ادلہ تفصیلہ سے حاصل ہوتی ہے اس علم کو علم الکلام کے نام سے موسوم کر دیا-

علم الکلام کے ارتقائی مراحل کا جائزہ:

 اسلام کے اولین دور میں اہلِ حق کو علم الکلام کی ضرورت نہ ہوئی کیونکہ ابتدائی وقتوں میں رسولِ کریم (ﷺ) کی صحبت اور تربیت کے سبب صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)اور بعد ازیں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی تربیت کی بدولت تابعین(رضی اللہ عنھم) کو اس علم کی حاجت نہ تھی -

جس کی بنیادی وجہ صحابہ کرام(رضی اللہ عنھم) کے عقائد و نظریات کی پختگی کا ہونا اور رسولِ کریم (ﷺ)کے اسوۂ مارکہ کا عملی مشاہدہ تھا-اسلام کے اس ابتدائی زمانے میں علم الکلام کی ضرورت کے متعلق امام سعد الدین تقازانی لکھتے ہیں:

’’متقدمین یعنی صحابہ کرام  اور تابعین عظام (رضی اللہ عنھم) آقائے دو جہاں (ﷺ) کی صحبت کی برکت اور آپ (ﷺ) (کی ظاہری حیات )کے زمانے کے قریب ہونے کی وجہ سے اور نئے مسائل اور اختلافات کم و بیش آنے کی وجہ سے اور قابل اعتماد شخصیات سے رجوع اور ان سے دریافت کرنے پر قادر ہونے کی وجہ سے ان دونوں علموں ’’علم الشرائع والاحکام‘‘ اور ’’علم التوحید والصفات‘‘ کو مدون کرنے اور باب وار، فعل وار مرتب کرنے اور ان کے مسائل کو جزئیات اور کلیات کی شکل میں بیان کرنے سے مستغنی اور بے نیاز تھے‘‘-[10]

اسلام کے ابتدائی زمانہ میں علم الکلام کی حاجت نہ ہونے کے درج ذیل اسباب تھے:

  1. رسولِ کریم (ﷺ)کی صحبت کی برکت
  2. صحابہ کرام اور تابعین کے عقائد کا پختہ ہونا-
  3. رسولِ کریم (ﷺ)کے زمانے سے قریب ہونا-
  4. اختلافات کا کم ہونا-

 کیونکہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کے قریب عقیدہ صرف اسی بات کا نام تھا کہ قرآنِ کریم نے ایک بات کہہ دی ہے یا حضور نبی کریم (ﷺ)نے ایک بات ارشاد فرما دی ہے - ان کو اس بات سے کوئی غرض نہ ہوتی تھی کہ وہ بات ہماری عقل و فہم کے دائرے میں آتی ہے یا نہیں یا ہمارے محسوسات و مشاہدات اس کو قبول کرتے ہیں یا نہیں- [11]

لیکن جیسے جیسے وقت عہدِ رسالت (ﷺ) سے دور جاتا گیا اور مختلف گمراہ فرقے اور ان کی گمراہ کن تاویلات زور پکڑنے لگیں تو علمائے حق نے ان کی بیخ کنی منطق و استدلالِ عقلیّہ سے کی جس سے علم الکلام تشکیل پاتا گیا-

 (جاری ہے)


[1](المنجد خزینہ علم و ادب لاہور، ص:745)

[2](ایضاً،  ص:766)

[3]( تاریخ ابن خلدون ، ج:1، ص:485 )

[4](غراض شرح عقائد مفتی محمد یوسف القادری، شبیر برادرز ،ص:33 )

[5](الجرجانی، التعریفات، دارالقلم بیروت لبنان 1984،   ص: 458)

[6](علم العقیدةوالکلام، ورلڈ ویو پبلشرز لاہور ، ص:5)

[7](اغراض شرح عقائد، ابو اویس مفتی محمد یوسف القادری، شبیر برادرز لاہور ص : 35)

[8](عثمان جمعۃ الضمیریہ، مدخل لدراسۃ العقیدۃ الاسلامیہ مكتبۃ السوادی للتوزيع جدة 2005، ص:64)

[9](علم العقیدة و الکلام، ورلڈ ویو پبلشرز لاہور، ص:5)

[10](اغراض شرح عقائد علامہ مفتی یوسف القادری شبیر برادرز لاہور، ص: 42-43)

[11](ابو عمار زاہد الراشدی،علم الکلام اور اس کے جدید مباحث ماہنامہ الشریعہ اپریل 2013 ، ص:2)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر