امن و تصوف انڈونیشیا اور پاکستان کے تاریخی تناظر میں

امن و تصوف انڈونیشیا اور پاکستان کے تاریخی تناظر میں

امن و تصوف انڈونیشیا اور پاکستان کے تاریخی تناظر میں

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ اپریل 2018

مسلم انسٹیٹیوٹ نے ’’تصوف اور امن:انڈونیشیا اور پاکستان کے تناظر میں‘‘کے عنوان پہ راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں کیا-سربرا ہ شعبہ پالیسی اسٹڈیز کامسیٹس انسٹیٹیوٹ فار انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد، سابقہ سفیر محترمہ فوزیہ نسرین صاحبہ نے سیشن کی صدارت کی جبکہ انڈونیشیاء کے سفارت خانہ کے ڈپٹی ہیڈ مشن عزت مآب موسوریفون لاجاوا صاحب مہمان خصوصی تھے-دیگر مقررین میں ریسرچ اسکالر نہضتہ العلماء جناب صفی الدین صاحب، سپریٹنڈنٹ انڈونیشیاء نیشنل پولیس جناب فتوحتی رضا صاحب، ایسوسی ایٹ ڈین نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد، جناب طغرل یامین صاحب، جناب طاہر محمود صاحب (پبلک ریلیشنز کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ ) اور سربراہ شعبہ تاریخ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی جناب ڈاکٹر  مجیب احمد صاحب شامل تھے- ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ جناب احمد القادری نے تعارفی پریزنٹیشن پیش کی اور ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ جناب آصف تنویر اعوان ایڈوکیٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے-‏مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور میڈیا کے افراد نے بھی راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن میں شرکت کی-

مقررین کے اظہار خیال اور وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:

تصوف انسان کے باطن کو حسد، بغض، جھوٹ، حرص اور ان جیسے تمام باطنی امراض سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)جیسے عظیم صوفیاءکا نظریہ برداشت بنی نوع انسان میں پائے جانے والے اختلافات کے خاتمے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے-صوفی ازم فرقہ واریت کی نفی کرتا ہے اور وحدانیتِ الٰہی اور امن کا علمبردار ہے-اقبال کا پیغامِ امن (محبت فاتحِ عالم) صوفیاء کا درسِ الفت ہے-نفرت کا محبت سے مقابلہ وقت کی ضرورت ہے-

صوفیاء نے برِ صغیر اور مشرقِ بعید میں بھی اسلام کی ترویج کے لیے مرکزی کردار ادا کیا-حضرت داتا علی ہجویری، حضرت معین الدین چشتی اجمیری، حضرت سلطان باھو اور علامہ محمد اقبال ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے تصوف اور اس کے نظریات کی تبلیغ میں مؤثر کردار ادا کیا-حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)نے دوسرے صوفیاء کی ما نند اتحاد، امن، اخوت، مساوات اور باطنی سکون کی بات کی-صوفیاء کی تعلیمات کے اصول اقبال کے 1930میں دئیے گئے خطبے میں واضح ہیں-

’’ایسا معاشرہ جو دوسرے معاشروں کے بارے دشمنانہ خیالات کا حامل ہو، قابلِ مذمت ہے-میں دوسرے معاشروں کی رسوم، ضوابط، مذہبی اور معاشرتی اداروں کے لیے دلی احترام رکھتا ہوں- قرآن کی تعلیمات کے مطابق اگر ان(اقلیتوں) کی عبادت گاہوں پر بھی آنچ آئے تو ان کا دفاع میرا فرض ہے‘‘-

صوفیاء نے مشرقِ وسطیٰ اور برصغیر سے بڑی تعداد میں مشرقِ بعید کے ممالک انڈونیشیا وغیرہ میں ہجرت کی اور اسلام کی تبلیغ بالخصوص امن، اتحاد اور اخوت کے پیغامات کی اشاعت میں اپنا کردار ادا کیا-شیخ نور الدین علی الریناری اور شیخ حمزہ فنسوری انڈونیشیا میں قابلِ ذکر صوفی بزرگ ہیں- انہوں نے محبت اور اخوت کی زبان کے ذریعے معاشرے کو اخلاقیات کا درس دیا- انڈونیشیا میں اسلام کی اشاعت کا کریڈٹ اہلِ تصوف کو جاتا ہے جنہوں نے وہاں کی مقامی ثقافت کو سمجھ کر تبلیغ کی-

ہمارے معاشرے میں تصوف اور امن ایک سکے کے دو رخ ہیں-ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اسلام کی ترویج میں صوفیاء کے کردار کو اجاگر کیا جائے-صوفیانہ تعلیمات کا آغاز غارِ حرا سے ہوا-تصوف میں شریعت اور طریقت میں کوئی فرق نہیں ہے اور طریقت دراصل شریعت ہی سے جنم لیتی ہے- علماء کے برعکس، صوفیاء پاکستان کی سیاست میں قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کر رہے - اقبال کے مطابق مذہب سے دوری، سیاست کو چنگیزیت بنا دیتی ہے-ہمیں صوفیاء سے التماس کرنی چاہیے کہ وہ اپنی خانقاہوں سے نکل کر ماضی کی مانند ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور عملی کردار ادا کریں-صوفی ازم کی تعلیمات کو قومی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے کیونکہ صوفیانہ تعلیمات ہماری صحیح تاریخ اور ثقافت کی عکاس ہیں- باطن کی تربیت وقت کی اہم ضرورت ہے- اسی طرح برداشت صوفیاء کا اہم وصف ہے جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ غیر مسلم طبقے سے بھی مثالی تعلقات قائم کیے-صوفیاء کی تعلیمات کا نچوڑ انسانیت کے لیے احترام اور ادب ہے-

مسلمان ممالک کی موجودہ مشکلات اور بدحالی کے دور میں ثقافت ِامن ایک خاص اہمیت کی حامل ہے- پاکستان اور انڈونیشیا دونوں ممالک میں صوفیا نہ روایات صدیوں سے رائج ہیں-امن اور تنازعہ کےعلمی کام کی موجودہ بحث میں جو مسائل کے حل پیش کیے جاتے ہیں مثلاً دوسروں کا احساس، باہمی ربط، سماجی انصاف یہ وہی قدریں ہیں جو کہ صوفیاء نے عرصۂ دراز سے پروان چڑھائی ہیں-صوفیاء نے ان خیالات کو مقامی زبان میں ان لوگوں تک پہنچایا ہے جو اُس زبان سے وابستہ ہیں-اگر بابا بلھے شاہ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت سادہ زبان، تشبیہات،تلمیحات اور ضرب المثال کے ساتھ تلقین کی ہے جو کہ مقامی نوعیت کی ہیں اور لوگ ان کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں-صوفیاء باہمی امن، انسانیت کے لیے محبت، انسانی حرمت اور باہمی تبادلے کی ترویج کرتے ہیں- یہ پہلو آج کے دور میں کافی اہمیت کے حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے شائد یہ ختم ہو رہے ہیں- موجودہ دور میں ہمیں مثبت سوچ کی ضرورت ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیاء کی قدروں کو دوبارہ سے اجاگر کیا جائے-اِس وقت امن کورسسز بشمول صوفی ازم کوتعلیمی اداروں میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے-

صوفیاء اسلام کو اپنے عملی کردار کی طاقت سے پھیلاتے ہیں اور وہ اپنی یہ فکر قرآن و سنت کی روشنی میں عقلی دلائل سے اخذ کرتے ہیں-انڈونیشیاء میں معروف صوفی سلاسل جیسا کہ قادریہ، نقشبندی، شازلیہ اور دیگر موجود ہیں- انڈونیشیاء دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے پر فخر کرتا ہے- انڈونیشیا ء میں ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اسلام کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں-انڈونیشیاء دوسری مذہبی اقلیتوں کا بھی گھر ہے-مختلف شناختوں کے باوجود انڈونیشیاء اپنی یکجہتی برقرار رکھنے میں کامیاب ہے-آج دنیا میں شرپسندی اور دہشت گردی بڑے پیمانے پر موجود ہے اور کوئی بھی ملک اِس کی پہنچ سے باہر نہیں-مسلمان سب سےزیادہ تعداد میں اس دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں - 76فیصد دہشت گرد ی کے واقعات مسلم ممالک میں ہوئے-جیسے جیسے تشدد کا اندھیرا گھنا ہو تا جارہا ہے اس میں تصوف کی روشی ہی ایک امید کی کرن ہے-اِس لیے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم تصوف کے پیغام کو پھیلائیں جو کہ اسلا م کا اصل پیغام ہے-

وقفہ سوال و جواب:

وقفہ سوال و جواب میں سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے-

انتہا پسند طبقوں کی تربیت کے لیے صوفیاء کی تعلیمات بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں-عوام صوفیاء کے حوالے سے بہت پرامید ہیں کیونکہ ہر انسان کسی نہ کسی طور روحانیت کا متلاشی ہے- نوجوان نسل کے لیے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) راہنمائی کے روشن مینار ہیں جو عالم بھی تھے اور صوفی بھی- ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تصوف اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں- قرآن مجید کی یہ خوبصورتی ہے کہ آپ اس کو جتنا پڑھتے جائیں آپ کی سمجھ میں اتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے-قرآن مجید انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ اس طرح راہنمائی کرتا ہے-

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ اللہِ شُھَدَآءَبِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْااِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘[1]

 

’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو-عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے‘‘-

اسلام کے معاشرت کے نظریہ کے مطابق دشمنوں سے بھی انصاف سے پیش آنا چاہیے-

٭٭٭


[1](المائدہ:8)

مسلم انسٹیٹیوٹ نے ’’تصوف اور امن:انڈونیشیا اور پاکستان کے تناظر میں‘‘کے عنوان پہ راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا انعقاد اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں کیا-سربرا ہ شعبہ پالیسی اسٹڈیز کامسیٹس انسٹیٹیوٹ فار انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام آباد، سابقہ سفیر محترمہ فوزیہ نسرین صاحبہ نے سیشن کی صدارت کی جبکہ انڈونیشیاء کے سفارت خانہ کے ڈپٹی ہیڈ مشن عزت مآب موسوریفون لاجاوا صاحب مہمان خصوصی تھے-دیگر مقررین میں ریسرچ اسکالر نہضتہ العلماء جناب صفی الدین صاحب، سپریٹنڈنٹ انڈونیشیاء نیشنل پولیس جناب فتوحتی رضا صاحب، ایسوسی ایٹ ڈین نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد، جناب طغرل یامین صاحب، جناب طاہر محمود صاحب (پبلک ریلیشنز کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ ) اور سربراہ شعبہ تاریخ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی جناب ڈاکٹر  مجیب احمد صاحب شامل تھے- ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ جناب احمد القادری نے تعارفی پریزنٹیشن پیش کی اور ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ جناب آصف تنویر اعوان ایڈوکیٹ نے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے-‏مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور میڈیا کے افراد نے بھی راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن میں شرکت کی-

مقررین کے اظہار خیال اور وقفہ سوال و جواب کا خلاصہ درجہ ذیل ہے:

تصوف انسان کے باطن کو حسد، بغض، جھوٹ، حرص اور ان جیسے تمام باطنی امراض سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے-حضرت سلطان باھُو (قدس اللہ سرّہٗ)جیسے عظیم صوفیاءکا نظریہ برداشت بنی نوع انسان میں پائے جانے والے اختلافات کے خاتمے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے-صوفی ازم فرقہ واریت کی نفی کرتا ہے اور وحدانیتِ الٰہی اور امن کا علمبردار ہے-اقبال کا پیغامِ امن (محبت فاتحِ عالم) صوفیاء کا درسِ الفت ہے-نفرت کا محبت سے مقابلہ وقت کی ضرورت ہے-

صوفیاء نے برِ صغیر اور مشرقِ بعید میں بھی اسلام کی ترویج کے لیے مرکزی کردار ادا کیا-حضرت داتا علی ہجویری، حضرت معین الدین چشتی اجمیری، حضرت سلطان باھو اور علامہ محمد اقبال ان شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے تصوف اور اس کے نظریات کی تبلیغ میں مؤثر کردار ادا کیا-حضرت سلطان باہو (قدس اللہ سرّہٗ)نے دوسرے صوفیاء کی ما نند اتحاد، امن، اخوت، مساوات اور باطنی سکون کی بات کی-صوفیاء کی تعلیمات کے اصول اقبال کے 1930میں دئیے گئے خطبے میں واضح ہیں-

’’ایسا معاشرہ جو دوسرے معاشروں کے بارے دشمنانہ خیالات کا حامل ہو، قابلِ مذمت ہے-میں دوسرے معاشروں کی رسوم، ضوابط، مذہبی اور معاشرتی اداروں کے لیے دلی احترام رکھتا ہوں- قرآن کی تعلیمات کے مطابق اگر ان(اقلیتوں) کی عبادت گاہوں پر بھی آنچ آئے تو ان کا دفاع میرا فرض ہے‘‘-

صوفیاء نے مشرقِ وسطیٰ اور برصغیر سے بڑی تعداد میں مشرقِ بعید کے ممالک انڈونیشیا وغیرہ میں ہجرت کی اور اسلام کی تبلیغ بالخصوص امن، اتحاد اور اخوت کے پیغامات کی اشاعت میں اپنا کردار ادا کیا-شیخ نور الدین علی الریناری اور شیخ حمزہ فنسوری انڈونیشیا میں قابلِ ذکر صوفی بزرگ ہیں- انہوں نے محبت اور اخوت کی زبان کے ذریعے معاشرے کو اخلاقیات کا درس دیا- انڈونیشیا میں اسلام کی اشاعت کا کریڈٹ اہلِ تصوف کو جاتا ہے جنہوں نے وہاں کی مقامی ثقافت کو سمجھ کر تبلیغ کی-

ہمارے معاشرے میں تصوف اور امن ایک سکے کے دو رخ ہیں-ضرورت اس امر کی ہے کہ جنوبی ایشیاء میں اسلام کی ترویج میں صوفیاء کے کردار کو اجاگر کیا جائے-صوفیانہ تعلیمات کا آغاز غارِ حرا سے ہوا-تصوف میں شریعت اور طریقت میں کوئی فرق نہیں ہے اور طریقت دراصل شریعت ہی سے جنم لیتی ہے- علماء کے برعکس، صوفیاء پاکستان کی سیاست میں قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کر رہے - اقبال کے مطابق مذہب سے دوری، سیاست کو چنگیزیت بنا دیتی ہے-ہمیں صوفیاء سے التماس کرنی چاہیے کہ وہ اپنی خانقاہوں سے نکل کر ماضی کی مانند ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور عملی کردار ادا کریں-صوفی ازم کی تعلیمات کو قومی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے کیونکہ صوفیانہ تعلیمات ہماری صحیح تاریخ اور ثقافت کی عکاس ہیں- باطن کی تربیت وقت کی اہم ضرورت ہے- اسی طرح برداشت صوفیاء کا اہم وصف ہے جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ غیر مسلم طبقے سے بھی مثالی تعلقات قائم کیے-صوفیاء کی تعلیمات کا نچوڑ انسانیت کے لیے احترام اور ادب ہے-

مسلمان ممالک کی موجودہ مشکلات اور بدحالی کے دور میں ثقافت ِامن ایک خاص اہمیت کی حامل ہے- پاکستان اور انڈونیشیا دونوں ممالک میں صوفیا نہ روایات صدیوں سے رائج ہیں-امن اور تنازعہ کےعلمی کام کی موجودہ بحث میں جو مسائل کے حل پیش کیے جاتے ہیں مثلاً دوسروں کا احساس، باہمی ربط، سماجی انصاف یہ وہی قدریں ہیں جو کہ صوفیاء نے عرصۂ دراز سے پروان چڑھائی ہیں-صوفیاء نے ان خیالات کو مقامی زبان میں ان لوگوں تک پہنچایا ہے جو اُس زبان سے وابستہ ہیں-اگر بابا بلھے شاہ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت سادہ زبان، تشبیہات،تلمیحات اور ضرب المثال کے ساتھ تلقین کی ہے جو کہ مقامی نوعیت کی ہیں اور لوگ ان کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں-صوفیاء باہمی امن، انسانیت کے لیے محبت، انسانی حرمت اور باہمی تبادلے کی ترویج کرتے ہیں- یہ پہلو آج کے دور میں کافی اہمیت کے حامل ہیں لیکن بدقسمتی سے شائد یہ ختم ہو رہے ہیں- موجودہ دور میں ہمیں مثبت سوچ کی ضرورت ہے-ضرورت اس امر کی ہے کہ صوفیاء کی قدروں کو دوبارہ سے اجاگر کیا جائے-اِس وقت امن کورسسز بشمول صوفی ازم کوتعلیمی اداروں میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے-

صوفیاء اسلام کو اپنے عملی کردار کی طاقت سے پھیلاتے ہیں اور وہ اپنی یہ فکر قرآن و سنت کی روشنی میں عقلی دلائل سے اخذ کرتے ہیں-انڈونیشیاء میں معروف صوفی سلاسل جیسا کہ قادریہ، نقشبندی، شازلیہ اور دیگر موجود ہیں- انڈونیشیاء دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے پر فخر کرتا ہے- انڈونیشیا ء میں ادارے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اسلام کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں-انڈونیشیاء دوسری مذہبی اقلیتوں کا بھی گھر ہے-مختلف شناختوں کے باوجود انڈونیشیاء اپنی یکجہتی برقرار رکھنے میں کامیاب ہے-آج دنیا میں شرپسندی اور دہشت گردی بڑے پیمانے پر موجود ہے اور کوئی بھی ملک اِس کی پہنچ سے باہر نہیں-مسلمان سب سےزیادہ تعداد میں اس دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں - 76فیصد دہشت گرد ی کے واقعات مسلم ممالک میں ہوئے-جیسے جیسے تشدد کا اندھیرا گھنا ہو تا جارہا ہے اس میں تصوف کی روشی ہی ایک امید کی کرن ہے-اِس لیے یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم تصوف کے پیغام کو پھیلائیں جو کہ اسلا م کا اصل پیغام ہے-

وقفہ سوال و جواب:

وقفہ سوال و جواب میں سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے-

انتہا پسند طبقوں کی تربیت کے لیے صوفیاء کی تعلیمات بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں-عوام صوفیاء کے حوالے سے بہت پرامید ہیں کیونکہ ہر انسان کسی نہ کسی طور روحانیت کا متلاشی ہے- نوجوان نسل کے لیے صحابہ کرام (﷢)راہنمائی کے روشن مینار ہیں جو عالم بھی تھے اور صوفی بھی- ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تصوف اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں- قرآن مجید کی یہ خوبصورتی ہے کہ آپ اس کو جتنا پڑھتے جائیں آپ کی سمجھ میں اتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے-قرآن مجید انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ اس طرح راہنمائی کرتا ہے-

’’یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ اللہِ شُھَدَآءَبِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْااِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز وَاتَّقُوا اللہَ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘‘[1]

 

’’اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو-عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے اور اﷲ سے ڈرا کرو! بے شک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے‘‘-

اسلام کے معاشرت کے نظریہ کے مطابق دشمنوں سے بھی انصاف سے پیش آنا چاہیے-

٭٭٭



[1](المائدہ:8)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر