کیٹالونیا صورتحال پہ ایک نظر

کیٹالونیا صورتحال پہ ایک نظر

کیٹالونیا صورتحال پہ ایک نظر

مصنف: احمد القادری جنوری 2018

کیٹالونیا، 7.5 ملین آبادی کے ساتھ سپین کی 16فیصد آبادی پر مشتمل، ملک کی دوسری گنجان آباد خود مختار ریاست ہے-آٹھویں صدی عیسوی میں چار لمانگے کی فوجوں نے موجودہ کیٹالونیا کو  “Iberian Peninsula”کے مسلمانوں سے الگ کرکے کیٹالن قوم کی بنیاد رکھی-کیٹالونیا ایک ریاست کے طور پر بارہویں صدی عیسوی میں ابھرا-بادشاہ جیمی کے دور میں کیٹالونیا کی ریاست میں توسیع ہوتی رہی اور سترہویں صدی تک کیٹالونیا ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود رہی-اٹھارہویں صدی کے آغاز میں سپین کے بادشاہ فلپ 5 نے فوج کشی کر کے کیٹالونیا کی ریاست پر قبضہ کر کے اسے سپین کا حصہ بنا دیا-کیٹالونیا کے لوگوں نے اپنی الگ زبان، ثقافت اور شناخت کو برقرار رکھا ہے-1931ءمیں سپین میں جمہوریت کے نفاذ کے بعد کیٹالونیا کو بھی سیاسی خودمختاری اور سپین کی ریاست میں رہتے ہوئے ہی اپنی الگ شناخت برقرار رکھنے کی آزادی مل گئی-لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا-1939ء میں فرانسسکو فرانکو نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا-فرانکو نے کیٹالونیا کی سیاسی خودمحتاری ختم کر کے ان پر اپنی کیٹالن زبان بولنے اور حتیٰ کہ کیٹالن ثقافت پر بھی پابندی عائد کردی-

تحریکِ آزادی ِکیٹالان کا آغاز 1922ء میں ہوتا ہے جب فرانسیس میکاہ (Francesc Macià) نے سیاسی جماعت ’’کیٹالان سٹیٹ‘‘ (Estat Català) تشکیل دی-1931ء میں اس سیاسی جماعت نے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ریپبلیکن لیفٹ آف کیٹالونیا (Esquerra Republicana de Catalunya; ERC)کے نام سے ایک اتحادی تنظیم بنائی-کیٹالونیا کے صدر فرانسیس میکاہ (Francesc Macià)نے 1931ء میں کیٹالونین ریپبلک کا اعلان بھی کر دیا لیکن دوسری ہسپانوی جمہوریہ(Second Spanish Republic) کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہسپانوی ریاست میں خود مختاری کو منظور کر لیا- ہسپانوی خانہ جنگی (Spanish Civil War) کے دوران جنرل فرانسسکو فرانکو نے 1938ء میں کیٹالونیا کی خود مختاری کو منسوخ کر دیا-اسی لیے 1975ء میں فرانکو کی موت کے بعد کیٹالان کی سیاسی جماعتوں نے آزادی کے بجائے خود مختاری پر اپنی توجہ مرکوز رکھی-

جنرل فرانسسکو فرانکو کی 22 نومبر 1975ء کو وفات کے بعد سپین میں جمہوریت قائم ہوئی-فرانکو کے بعد اقتدار میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں بننے والے سربراہ ریاست، ایڈولفو سواریز نے ہسپانوی پارلیمان (جسے کورٹس-Cortes کہتے ہیں)کو قانون برائے سیاسی اصلاحات منظور کرنے پر قائل کیا جس میں اُس وقت موجودہ پارلیمان کے تحلیل اور بائی کیمرل مقننہ کے قیام کا تصور پیش کیا گیا -اُس قانون کے حق میں پارلیمان کے 425 ممبرز نے ووٹ دیا جبکہ 59 نے مخالفت کی اور قانون کامیابی سے منظور کر لیا گیا جس کی وجہ سے پہلے آزادانہ الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکا اور تمام سیاسی جماعتوں کو قانونی طور پر تسلیم کئے جانے کے عمل کا آغاز ہوا-عوامی استصوابِ رائے کے لیے 15 دسمبر 1976ء کو یہ قانون عوام کی عدالت میں پیش کیا گیا-ایسا پچھلے کئی عشروں بعدممکن ہوا تھا کہ عوام سے رائے لی گئی ہو-ہسپانوی وزارتِ داخلہ کے کوائف کے مطابق سپین میں اوسط  77 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ94 فیصد عوام نے اصلاحات کے حق میں ووٹ دیا جبکہ کیٹالونیا میں 74 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ 97 فیصد لوگوں نے اصلاحات کے حق میں ووٹ دیا - ریفرنڈم کے فوراً بعد آمریت کے خاتمے کا مرحلہ شروع ہو گیا اور جمہوری نظام نافذ کر دیا گیا- 6 دسمبر 1978ء کو ہسپانوی آئین ریفرنڈم کے لیے پیش کیا گیا جسے 67.1 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ 91.8 فیصد ووٹوں کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا-ہسپانوی آئین کو ان علاقوں میں بھی بھاری اکثریت سے قبول کر لیا گیا جہاں دوسری قومیت کا اثر زیادہ تھا- کیٹالونیا میں بھی نئے آئین کو 67.9 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ 95.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا-[1]ہسپانوی آئین کے نافذ العمل ہوتے ہی کیٹالونیا کی خود مختاری کا قانون (Statute of Autonomy) مذاکرات کے بعد ریفرنڈم کے لیے پیش کر دیا گیا-اُس وقت کیٹالونیا کے پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں میں سے صرف ایک انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’’نیو فورس‘‘ (Fuerza Nueva) نے خودمختاری کے قانون کی مخالفت کی جو در حقیقت مجموعی طور پر خود مختاری کے مخالف تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ خودمختاری دینے سے سپین کے اتحاد کو خطرہ ہے-جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے خود مختاری کی تائید کی اور کہا کہ یہ ان تمام مسائل کا حل ہےجو مرکزیت پر مبنی نظام ِ حکومت حل کرنے میں ناکام رہی ہے-عوامی استصوابِ رائے میں قانونِ خود مختاری کو 59.3 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ 88.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا جس کا مطلب تھا کہ کیٹالان کی پارلیمان اور ایگزیکٹو حکومت کی تشکیل کی جائے-1980ءمیں کیٹالان پارلیمان کا پہلی بار الیکشن ہوا اور کیٹالان کی خودمختاری کا سفر شروع ہو گیا-کیٹالونیا کی 135رکنی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن بھی منعقد کروائے گئے- اس قانون سازی کے ذریعے کیٹالن ثقافت اور زبان کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا-

کیٹالونیا کی آزادی کی تحریک نے 2008ءمیں دوبارہ زور پکڑنا شروع کیا، جب مالیاتی بحران نے سپین کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچادیا-معاشی اعتبار سے کیٹالونیا باقی سپین سے زیادہ خوشحال اور مستحکم ہے-کیٹالونیا کا سب سے بڑا شہر بارسلونا سیاحتی اعتبار سے پوری دنیا میں اپنی شہرت رکھتا ہے-کیٹالونیا کا سپین کی برآمدات میں 25.6 فیصد حصہ ہے-سپین کی مجموعی ملکی پیداوار میں کیٹالونیا کا 19 فیصد حصہ ہے-سپین میں کل غیر ملکی سرمایہ کاری کا 20.7 فیصد کیٹالونیا میں ہے-موجودہ اعداد کے مطابق سپین کے GDP میں تقریباً 19 فیصد تک کیٹالونیا کا حصہ ہوتا ہےاوراِس کی فی کس جی ڈی پی (GDP ) یورپی یونین کی اوسط (EU-27)سے زیادہ ہے- کیٹالونیا کے لوگوں میں اکثر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سپین کیٹالونیا کی معیشت پر گزارا کر رہا ہے اور اسے مرکزی حکومت سے کوئی معاشی معاونت نہیں ملتی-آزادی کی تحریک کو مزید تقویت 2010ءمیں ملی جب آئینی عدالت نے 2006ءکی اس توسیع کا خاتمہ کردیا جس نے کیٹالونیا کو ایک قوم قرار دیا تھا اور ریاست کے دیگر امور میں بھی توسیع دی تھی، جن میں ٹیکس اور عدالتی نظام کی آزادی شامل تھی - 2006ء کی یہ قرارداد کیٹالونیا میں ریفرنڈم اور سپین کی پارلیمنٹ کی منطوری سے نافذ العمل ہوئی تھی اور اس کے خاتمے نے علیحدگی کی تحریک کو سرگرم کردیا-اس عدالتی فیصلے کے ردِ عمل میں ہونے والے شدید احتجاجی مظاہرے آزادی کے مطالبات میں تبدیل ہو گئے-کیٹالونیا کے علاقے آرینیس دی مونٹ(Arenys de Munt) سے آزادی کے لیے علامتی ریفرنڈم شروع ہوئے اور 2009ء سے 2011ء کے مختصر وقت میں کیٹالونیا کی 550 میونسیپلیٹیز میں علامتی ریفرنڈم منعقد کیے گئے- ووٹ دینے کے اہل لوگوں میں سے 30 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیے-2010ء میں ثقافتی تنظیم ’’اومنیم کلچرل‘‘ (Òmnium Cultural) کی طرف سے عدالتی فیصلے کی مخالفت میں منعقد کردہ احتجاج میں دس (10)لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگوں میں ریاست اور عدالت کے لیے کس قدر غم و غصہ بھرا ہوا ہے-عام لو گوں کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے کیٹالونیا کے سیاست دانوں نے بھی موقعہ غنیمت جانتے ہوئے اپنی سیاست چمکانی شروع کی اور کیٹالونیا کے قومی دن، 11 ستمبر 2012ء کو ایک بہت بڑے احتجاجی مظاہرے میں کیٹالونیا کی حکومت سے واضح طور پر درخواست کی گئی کہ وہ کیٹالونیا کی آزادی کی باقاعدہ کوشش شروع کریں -کیٹالان کے صدر، آرٹر میس (Artur Mas) نے اچانک عام انتخابات کا اعلان کر دیا اور خطے کی تاریخ میں پہلی دفعہ آزادی نواز اکثریت نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی-نئی منتخب شدہ پارلیمان نے 2013ء کے آغاز میں کیٹالان کے اقتدار اعلیٰ کا اعلامیہ (Catalan Sovereignty Declaration) اختیار کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کیٹالان کے لوگوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا مکمل حق حاصل ہے-

کیٹالان کی گورنمنٹ نے نومبر 2014ء میں ریاست کے آزادانہ تشخص کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عوامی استصوابِ رائے کا اعلان کیا جس میں دو سوالات پوچھے جانے تھے-پہلا یہ کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ کیٹالونیا ایک ریاست بن جائے ؟ اگر ہاں تو دوسرا سوال ہونا تھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ نئی ریاست آزاد ہو؟ ہسپانوی حکومت نے مجوزہ ریفرنڈم کے مسئلہ کو ہسپانوی آئینی عدالت میں تفویض کر دیا جہاں عدالت نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا-کیٹالونین حکومت نے اس عوامی استصواب ِ رائے کو بائنڈنگ ریفرنڈم کی بجائے نان بائنڈنگ ’’ مشاورت‘‘ قرار دے دیا مگر اس کے باوجود ہسپانوی عدالت نےغیر پابند مشاورت (non-binding consultation)پر بھی پابندی لگا دی- عدالتی پابندیوں کے باوجود کیٹالونین خودارایت ریفرنڈم(Catalan self-determination referendum) 9نومبر 2014ء کو منعقد ہوا اور 42 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ ’’ہاں-ہاں‘‘ ووٹ کا نتیجہ 81 فیصد رہا-آرٹر میس (Artur Mas) نے ستمبر 2015ء میں مزید ایک الیکشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخابات آزادی پر عوامی رائے شماری ہو گی-نئی پارلیمان نے ایک قرار داد منظور کی جس میں طے پایا کہ نومبر 2015ء میں کیٹالونیا کی آزادی کے عمل کا آغاز کیا جائے گا-

2017ء جولائی میں ہوئے ایک سروے کے مطابق کیٹالونیا کے 41فیصد لوگوں نے علیحدگی اور49فیصد لوگوں نے سپین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی-کیٹالونیا کے صدر کارلس پیو گڈمانٹ نے یکم اکتوبر 2017ء کو سپین سے علیحدگی کے لئے باقاعدہ ریفرنڈم کا اعلان کیا-سپین کی مرکزی حکومت اور عدالت نے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دے دیا- ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی سپین کی مرکزی حکومت نے کیٹالونیا میں پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کردیا- پولنگ کے دن پولیس نے کئی پولنگ اسٹیشنز کو بند کروادیا اور بیلٹ پپپرز کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا-کئی مقامات پر پولیس اور ووٹرز کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی-ان سب رکاوٹوں کے باوجود بھاری تعداد میں لوگوں نے اس ریفرنڈم میں اپنے حق رائے دہی کا اظہار کیا-اس ریفرنڈم میں90فیصد لوگوں نے سپین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا، گو کہ ووٹرز کا کل ٹرن آؤٹ صرف 42فیصد تھا- اس کے بعد کیٹالونیا کے صدر نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں سپین سے علیحدگی کا اعلان کردیا-سپین کی مرکزی حکومت نے سپین کے آئین کے آرٹیکل 155کے تحت کیٹالونیا کی حکومت کو برخاست کر دیا-آرٹیکل 155 کے تحت نہ صرف کیٹالونیا کے باغی رہنماؤں کو حراست میں لینے کے احکامات جاری کر دیے گئے بلکہ کیٹالونیا کی سول سروس ،پولیس، فنانس اور پبلک میڈیا کو ہسپانوی صدر ماریانو راجوئے (Mariano Rajoy)نے اپنے کنٹرول میں کر لیا ہے- کیٹالونیا کے باغی، اشتہاری (کیونکہ انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے بیلجئم وغیرہ جیسے ممالک میں پناہ لے رکھی ہے) صفِ اول کے رہنماؤں میں کارلیس پوئج ڈیمونٹ، ٹونی کومن ، کلاراپونساتی، لوئس پوئگ اور میری ٹکسیل سیررت وغیرہ شامل ہیں جن کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہیں یعنی جیسے ہی وہ سپین کی سرزمین پر قدم رکھیں گیں انہیں گرفتار کر لیا جائے گا- چند دن قبل سپین سپریم کورٹ کے جج پابلو لارینا (Pablo Llarena) ان رہنماؤں کے یورپی وارنٹ گرفتاری تو واپس لے لیے ہیں لیکن قومی وارنٹ گرفتاری ابھی بھی موجود ہیں-

ہزاروں کی تعداد میں لوگ حکومتی مخالفت اور ان رہنماؤں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں مثلاً 7 دسمبر کو 50000 سے زائد لوگ برسلز (Brussels) کے ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے- یورپیئن افیئرز کے ماہرین کہتے ہیں کہ سپین کی حکومت کو جلد از جلد ان حالات کو قابو میں کرتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنانا ہو گا ورنہ اس کے منفی اثرات نہ صرف سپین پر ہوں گے بلکہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی ہو گا-اس کے علاوہ سپین اور کیٹالونیا پر ان کشیدہ حالات کی وجہ سے کثیر الجہت اثرات مرتب ہو رہے ہیں-مثلاً سپین و کیٹالونیا کی معیشت پر بہت زیادہ منفی اثرات ہو رہے ہیں کیونکہ بہت سی قومی و بین الاقوامی کمپنیوں نے کیٹالونیا سے انخلاء شروع کر دیا ہے جس سے ایک افراتفری کی فضا قائم ہے-ابھی تک کم و بیش 2200 سے زائد کمپنیاں اپنے ہیڈ کوارٹرز کیٹالونیا سے سپین کے دوسرے علاقوں میں منتقل کر چکی ہیں-ان مسائل کی وجہ سے سپین کی سیاحت بھی متاثر ہو رہی ہے- 2016ء میں سپین کے 75.3 ملین سیاحوں میں سے 18 ملین کیٹالونیا میں آئے تھے اور اس تناسب سے کیٹالونیا سپین کی سیاحت میں بہت اہم مقام رکھتا ہے لیکن اگر موجودہ غیر یقینی کی صورت حال برقرار رہی تو سپین کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی وجہ سے بے روزگاری مزید بڑھ جائے گی اور حالات کو مزید منفی طور پر متاثر کرے گی-بنک آف سپین نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ اگر حالات زیادہ دیر تک خراب رہے تو 2019ء-2018ء کے دوران جی ڈی پی 0.3 سے 2.5 پوائنٹس تک کم ہو جائے گا-اکتوبر 2017ء تک کیٹالونیا میں رجسٹرڈ بے روزگار لوگوں کی تعداد 14698 سے بڑھ چکی ہے جو کہ اکتوبر 2008ءکے بعد پہلی دفعہ اس حد تک پہنچی ہےاور حالیہ ایک تحقیق کے مطابق بے روزگاری میں ماہانہ سطح پر 3.67 فیصد اضافہ ہو رہا ہے- اگر یہی حالات جاری رہے تو معاشی بحران اور امان و امان کی صورتحال حکومتی کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے-

ان تمام حالات کے سبب خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے- سپین کے قانون دانوں کو علیحدگی کی اس تحریک کی بنیادوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے-سیاسی محقق اور مورخ بینیڈکٹ اینڈرسن یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ مو جودہ دور کی تمام علیحدگی کی تحریکیں، یورپ اور امریکہ کی ان قوم پرست تحریکوں کی تقلید ہیں جنہوں نے بطور سیاسی قوت غالب آنے کے لئے ’’تصوراتی برادریوں‘‘ میں قومی شناخت کے نعرے کو بنیاد بنایا-سویت یونین کے خاتمے کے بعد جمہوری نظامِ حکومت ہی بنیادی بین الاقوامی معیار ہے اور یہ اقوام متحدہ کی بنیادی دستاویزات میں موجود ہے - نوآبادیاتی اور سرد جنگ کے عرصے کے بعد شروع ہونے والی تمام آزادی کی تحریکوں نے قومیت کے علاوہ انہی نمائندگی کے دلائل کو آگے بڑھایا- جبکہ مائیکل کیٹنگ اپنی کتاب میں تفصیلی بحث کرتے ہیں کہ کسی بھی نیشنلزم کے ظہور و نمود کی تین بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں-پہلی قسم میں مخصوص نسلی جہت کو لیا جا سکتا ہے جس کا ماضی میں بہت زیادہ عمل دخل ملتا ہے جبکہ مضبوط جمہوریت پسند معاشروں میں عمل دخل بہت کم نظر آتا ہے-دوسری وجہ لوگوں کی مرضی اور رائے پر منحصر ہے- جبکہ تیسری وجہ سیاسی اشرافیہ کا ریاست کے قیام یا اسے تقویت دینے کیلئے قومیت کو بطور مخصوص آلہ کار استعمال کرنا ہے[2]- یعنی کسی بھی نیشنلزم کے ظہور و نمود کے محرکات مختلف الجہت اور انتہائی پیچیدہ قسم کے ہوتے ہیں جس کی واضح مثال کیٹالونیا میں زور پکڑتی قومیت پرست تحریک دی جا سکتی ہے-

کوئی بھی علیحدگی کی تحریک جو کہ اتنی مقبولیت حاصل کر تی ہے، اس کی عمومی دلیل یہی ہوتی ہے کہ مرکزی حکومت عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہی اور ان کی شکوے شکایتوں کو مناسب وقت پہ حل نہیں کیا جارہا-اسی نمائندگی کے بحران پر علیحدگی کی تحریکیں وجود میں آتی ہیں اور یہی بحران قومی وجوہات کی شکل اختیار کر جاتے ہیں-کیٹالونیا کی مثال بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور علیحدگی پسند رہنماؤں نے بہت سے لوگوں کو اس بات پر باور کرایا ہے کہ ان کا مستقبل سپین سے علیحدگی میں ہی ہے، گو کہ آزاد ریاست کو کافی مشکلات کا سامنا ہوگا-

کیٹالونیا کی قانون ساز اسمبلی کے 21دسمبر 2017ء کو ہونے والے الیکشن میں متحدہ سپین کی حامی ’’Ciutadans‘‘ جماعت نے انفرادی حیثیت میں 135 رکنی اسمبلی کی سب سے زیادہ 37نشستیں حاصل کی ہیں تاہم وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے- جبکہ مجموعی طور پر علیحدگی پسند جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہوئی اور علیحدگی پسند تین جماعتوں نے کُل 70 نشستیں حاصل کی ہیں- اس وقت کیٹالینیا کے جلاوطن سابق صدر کی جماعت Together for Cataloniaنے 34 نشستیں حاصل کی ہیں چنانچہ وہ علیحدگی پسند 32نشستیں حاصل کرنے والی Republican Left اور چار نشستیں حاصل کرنے والی Popular Unity Candidacy کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی ممکنہ پوزیشن میں ہیں- سپین کے صدر ماریانو راجوئے کی پارٹی ان انتخابات میں صرف تین نشستیں ہی جیت سکی ہے- سپین کے صدر نے تمام پارٹیوں سے مذاکرات کا اعلان کیا ہے، تاہم انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ تمام بات چیت سپین میں رہتے ہوئے ہی ہوسکتی ہے اور اگر دوبارہ علیحدگی کی کوشش کی گئی تو آئین کے آرٹیکل 155کے تحت نئی منتخب حکومت کو دوبارہ برخاست کردیا جائے گا- چنانچہ نئے الیکشن کے باوجود کیٹالونیا میں غیر یقینی کی صورتحال برقرار ہے-

ان سب حالات میں یورپی یونین کو اپنا کرادار ادا کرنے کی ضرورت ہے-برسلز اور یورپی یونین کے تمام ممالک نے کیٹا لونیا کے اس علیحدگی کے اقدام کی مخالفت کی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیا ہے-لیکن اس کایہ جواب یورپی یونین کی وسیع حکمت عملی کا یک عنصر ہونا چاہیئے-یورپی یونین نے سپین کی حکومت کی ہر اقدام میں مکمل حمائیت کی - کیٹالونیا کی حکومت کو برخاست کرنا سپین کا آئینی حق ہے تاہم اس سے سیاسی مسائل نے بھی جنم لیا ہے-یورپی یونین نے بھی سپین کے صدر کی غیر مشروط حمائیت کی ہے جس کی وجہ سے سپین کی جانب سے کیٹالونیا کے خلاف سخت اقدامات کئے گئے ہیں- خدشہ ہے کہ خطے میں مایوسی اور تقسیم بڑھے گی-اس سے کیٹالونیا کی عوام میں ناپسندیدگی بڑھے گی اور یہ تنازعہ اگلے کئی سال تک جاری رہ سکتا ہے-

سویت یونین اور یوگو سلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی یورپ میں کئی ممالک معرض وجود میں آئے- اس کے برعکس مغربی یورپ میں کوئی جغرافیائی تبدیلی نہیں آئی-کیٹالونیا کے علاوہ سپین میں موجود Basqueکا علاقہ بھی سپین سے علیحدگی چاہتا ہے، یہ سپین کا وہ واحد علاقہ ہے جو ٹیکس کی مد میں مرکزی حکومت کو کوئی رقم نہیں بجھواتا - برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کافی عرصے سے آزادی کی کوششیں کر رہا ہے، 2014ءمیں سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لئے ریفرنڈم منعقد ہوا لیکن اس میں علیحدگی کے لئے 44فیصدآئے اور علیحدگی کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی- اس کے علاہ بیلجیم میں فلانڈرز کا علاقہ بیلجیم سے علیحدگی چاہتا ہے-اٹلی میں پادانیا اور جنوبی ٹائرول کے علاقے علیحدگی چاہتے ہیں-فرانس میں کورسیقہ کے لوگ فرانس سے علیحدگی چاہتے ہیں-ان سب تحریکوں میں یورپی یونین نے ہمیشہ سے قومی حکومتوں کی حمائیت کی ہے-کیٹالونیا کا معاملہ یورپی یونین کے لئے ٹیسٹ کیس ہے اور یہ یورپی یونین کے اپنے مستقبل کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے-اگر یورپی یونین سپین کے حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا تو باقی تمام یورپ میں بھی لوگ یورپی یونین کی بجائے اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوتوں کی طرف زیادہ مائل ہو سکتے ہیں اور اس پس منظر میں یورپ ایک اور تنازعے پر اپنی آنکھیں بند رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا-

برسلز کو اس میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا- یورپی یونین کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس مسئلہ کے حل میں یہ ایک فریق بنے اور اس تنازعے کے حل کی کوشش کی جائے- اس تنازعے کے حل میں سب سے کلیدی شے یہ ہے کہ کوئی ایسا انتظام کیا جائے جس سے کیٹالونیا کو سپین میں رہتے ہوئے ہی مکمل خودمختاری مل سکے- یورپی یونین اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس کی بنیاد حق خود ارادیت اور اتحاد پر قائم ہے تو لازمی طور پر کیٹالونیا کے تنازعے کو بھی اسی تناظر میں حل کر نا چاہئے-یورپی یونین کے پاس ایک حل یہ بھی موجود ہے کہ وہ کیٹالونیا کو ایک ممبر خود مختار علاقے کا سٹیٹس دے کر اسے ممبر ریاستوں کے مقابلے میں کچھ حقوق دے سکتا ہے-کیٹالونیا کو بغیر آزادی کے اس طرح تسلیم کرنے سے اس کو یورپی یونین کی میز پر جگہ مل جائے گی اور اسی فارمولہ کو باقی متنازعہ ریاستوں میں بھی لاگو کیا جاسکتا ہے- تمام متنازعہ ریاستوں میں ٹھوس خود مختاری کی آفر سے یورپ میں علیحدگی کی لہر کو روکا جاسکتا ہے -

سپین کی حکومت کو فوری طور پر مسئلہ کے حل کیلئے گرفتار رہنماؤں کو رہا کرنا چاہئے اور تمام فریقین کو معاملات بات چیت سے حل کرنے چاہئیں- کیٹالونیا کے زیادہ تر لوگ سپین میں رہتے ہوئے زیادہ خودمختاری کے حامی ہیں اور سپین کی جانب سے حکومت کے خاتمے اور طاقت کے استعمال سے مزید لوگ علیحدگی کی تحریک میں شامل ہو جائیں گے-چنانچہ معاملہ کو دور اندیشی سے حل کیا جانا چاہئے-کیٹالونیا کے مستقبل کا فیصلہ اس کی عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور تمام فریقین کو عوامی رائے دہی کا احترام کرنا چاہئے-

٭٭

 

[1](Spain Boletín Oficial del Estado 1978)

[2](Michael Keating, Nations against the State: The New Politics of Nationalism in Quebec, Catalonia and Scotland (London: Palgrave Macmillan, 1996), pp 39-59.)

کیٹالونیا، 7.5 ملین آبادی کے ساتھ سپین کی 16فیصد آبادی پر مشتمل، ملک کی دوسری گنجان آباد خود مختار ریاست ہے-آٹھویں صدی عیسوی میں چار لمانگے کی فوجوں نے موجودہ کیٹالونیا کو “Iberian Peninsula”کے مسلمانوں سے الگ کرکے کیٹالن قوم کی بنیاد رکھی-کیٹالونیا ایک ریاست کے طور پر بارہویں صدی عیسوی میں ابھرا-بادشاہ جیمی کے دور میں کیٹالونیا کی ریاست میں توسیع ہوتی رہی اور سترہویں صدی تک کیٹالونیا ایک آزاد ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود رہی-اٹھارہویں صدی کے آغاز میں سپین کے بادشاہ فلپ 5 نے فوج کشی کر کے کیٹالونیا کی ریاست پر قبضہ کر کے اسے سپین کا حصہ بنا دیا-کیٹالونیا کے لوگوں نے اپنی الگ زبان، ثقافت اور شناخت کو برقرار رکھا ہے-1931ءمیں سپین میں جمہوریت کے نفاذ کے بعد کیٹالونیا کو بھی سیاسی خودمختاری اور سپین کی ریاست میں رہتے ہوئے ہی اپنی الگ شناخت برقرار رکھنے کی آزادی مل گئی-لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا-1939ء میں فرانسسکو فرانکو نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا-فرانکو نے کیٹالونیا کی سیاسی خودمحتاری ختم کر کے ان پر اپنی کیٹالن زبان بولنے اور حتیٰ کہ کیٹالن ثقافت پر بھی پابندی عائد کردی-

تحریکِ آزادی ِکیٹالان کا آغاز 1922ء میں ہوتا ہے جب فرانسیس میکاہ (Francesc Macià) نے سیاسی جماعت ’’کیٹالان سٹیٹ‘‘ (Estat Català) تشکیل دی-1931ء میں اس سیاسی جماعت نے دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ریپبلیکن لیفٹ آف کیٹالونیا (Esquerra Republicana de Catalunya; ERC)کے نام سے ایک اتحادی تنظیم بنائی-کیٹالونیا کے صدر فرانسیس میکاہ (Francesc Macià)نے 1931ء میں کیٹالونین ریپبلک کا اعلان بھی کر دیا لیکن دوسری ہسپانوی جمہوریہ(Second Spanish Republic) کے قائدین کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہسپانوی ریاست میں خود مختاری کو منظور کر لیا- ہسپانوی خانہ جنگی (Spanish Civil War) کے دوران جنرل فرانسسکو فرانکو نے 1938ء میں کیٹالونیا کی خود مختاری کو منسوخ کر دیا-اسی لیے 1975ء میں فرانکو کی موت کے بعد کیٹالان کی سیاسی جماعتوں نے آزادی کے بجائے خود مختاری پر اپنی توجہ مرکوز رکھی-

جنرل فرانسسکو فرانکو کی 22 نومبر 1975ء کو وفات کے بعد سپین میں جمہوریت قائم ہوئی-فرانکو کے بعد اقتدار میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں بننے والے سربراہ ریاست، ایڈولفو سواریز نے ہسپانوی پارلیمان (جسے کورٹس-Cortes کہتے ہیں)کو قانون برائے سیاسی اصلاحات منظور کرنے پر قائل کیا جس میں اُس وقت موجودہ پارلیمان کے تحلیل اور بائی کیمرل مقننہ کے قیام کا تصور پیش کیا گیا -اُس قانون کے حق میں پارلیمان کے 425 ممبرز نے ووٹ دیا جبکہ 59 نے مخالفت کی اور قانون کامیابی سے منظور کر لیا گیا جس کی وجہ سے پہلے آزادانہ الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکا اور تمام سیاسی جماعتوں کو قانونی طور پر تسلیم کئے جانے کے عمل کا آغاز ہوا-عوامی استصوابِ رائے کے لیے 15 دسمبر 1976ء کو یہ قانون عوام کی عدالت میں پیش کیا گیا-ایسا پچھلے کئی عشروں بعدممکن ہوا تھا کہ عوام سے رائے لی گئی ہو-ہسپانوی وزارتِ داخلہ کے کوائف کے مطابق سپین میں اوسط  77 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ94 فیصد عوام نے اصلاحات کے حق میں ووٹ دیا جبکہ کیٹالونیا میں 74 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ 97 فیصد لوگوں نے اصلاحات کے حق میں ووٹ دیا - ریفرنڈم کے فوراً بعد آمریت کے خاتمے کا مرحلہ شروع ہو گیا اور جمہوری نظام نافذ کر دیا گیا- 6 دسمبر 1978ء کو ہسپانوی آئین ریفرنڈم کے لیے پیش کیا گیا جسے 67.1 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ 91.8 فیصد ووٹوں کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا-ہسپانوی آئین کو ان علاقوں میں بھی بھاری اکثریت سے قبول کر لیا گیا جہاں دوسری قومیت کا اثر زیادہ تھا- کیٹالونیا میں بھی نئے آئین کو 67.9 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ 95.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا-[1]ہسپانوی آئین کے نافذ العمل ہوتے ہی کیٹالونیا کی خود مختاری کا قانون (Statute of Autonomy) مذاکرات کے بعد ریفرنڈم کے لیے پیش کر دیا گیا-اُس وقت کیٹالونیا کے پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں میں سے صرف ایک انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ’’نیو فورس‘‘ (Fuerza Nueva) نے خودمختاری کے قانون کی مخالفت کی جو در حقیقت مجموعی طور پر خود مختاری کے مخالف تھی کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ خودمختاری دینے سے سپین کے اتحاد کو خطرہ ہے-جبکہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں نے خود مختاری کی تائید کی اور کہا کہ یہ ان تمام مسائل کا حل ہےجو مرکزیت پر مبنی نظام ِ حکومت حل کرنے میں ناکام رہی ہے-عوامی استصوابِ رائے میں قانونِ خود مختاری کو 59.3 فیصد ٹرن آوٹ کے ساتھ 88.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ تسلیم کر لیا گیا جس کا مطلب تھا کہ کیٹالان کی پارلیمان اور ایگزیکٹو حکومت کی تشکیل کی جائے-1980ءمیں کیٹالان پارلیمان کا پہلی بار الیکشن ہوا اور کیٹالان کی خودمختاری کا سفر شروع ہو گیا-کیٹالونیا کی 135رکنی قانون ساز اسمبلی کے الیکشن بھی منعقد کروائے گئے- اس قانون سازی کے ذریعے کیٹالن ثقافت اور زبان کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا-

کیٹالونیا کی آزادی کی تحریک نے 2008ءمیں دوبارہ زور پکڑنا شروع کیا، جب مالیاتی بحران نے سپین کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچادیا-معاشی اعتبار سے کیٹالونیا باقی سپین سے زیادہ خوشحال اور مستحکم ہے-کیٹالونیا کا سب سے بڑا شہر بارسلونا سیاحتی اعتبار سے پوری دنیا میں اپنی شہرت رکھتا ہے-کیٹالونیا کا سپین کی برآمدات میں 25.6 فیصد حصہ ہے-سپین کی مجموعی ملکی پیداوار میں کیٹالونیا کا 19 فیصد حصہ ہے-سپین میں کل غیر ملکی سرمایہ کاری کا 20.7 فیصد کیٹالونیا میں ہے-موجودہ اعداد کے مطابق سپین کے GDP میں تقریباً 19 فیصد تک کیٹالونیا کا حصہ ہوتا ہےاوراِس کی فی کس جی ڈی پی (GDP ) یورپی یونین کی اوسط (EU-27)سے زیادہ ہے- کیٹالونیا کے لوگوں میں اکثر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سپین کیٹالونیا کی معیشت پر گزارا کر رہا ہے اور اسے مرکزی حکومت سے کوئی معاشی معاونت نہیں ملتی-آزادی کی تحریک کو مزید تقویت 2010ءمیں ملی جب آئینی عدالت نے 2006ءکی اس توسیع کا خاتمہ کردیا جس نے کیٹالونیا کو ایک قوم قرار دیا تھا اور ریاست کے دیگر امور میں بھی توسیع دی تھی، جن میں ٹیکس اور عدالتی نظام کی آزادی شامل تھی - 2006ء کی یہ قرارداد کیٹالونیا میں ریفرنڈم اور سپین کی پارلیمنٹ کی منطوری سے نافذ العمل ہوئی تھی اور اس کے خاتمے نے علیحدگی کی تحریک کو سرگرم کردیا-اس عدالتی فیصلے کے ردِ عمل میں ہونے والے شدید احتجاجی مظاہرے آزادی کے مطالبات میں تبدیل ہو گئے-کیٹالونیا کے علاقے آرینیس دی مونٹ(Arenys de Munt) سے آزادی کے لیے علامتی ریفرنڈم شروع ہوئے اور 2009ء سے 2011ء کے مختصر وقت میں کیٹالونیا کی 550 میونسیپلیٹیز میں علامتی ریفرنڈم منعقد کیے گئے- ووٹ دینے کے اہل لوگوں میں سے 30 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیے-2010ء میں ثقافتی تنظیم ’’اومنیم کلچرل‘‘ (Òmnium Cultural) کی طرف سے عدالتی فیصلے کی مخالفت میں منعقد کردہ احتجاج میں دس (10)لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگوں میں ریاست اور عدالت کے لیے کس قدر غم و غصہ بھرا ہوا ہے-عام لو گوں کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے کیٹالونیا کے سیاست دانوں نے بھی موقعہ غنیمت جانتے ہوئے اپنی سیاست چمکانی شروع کی اور کیٹالونیا کے قومی دن، 11 ستمبر 2012ء کو ایک بہت بڑے احتجاجی مظاہرے میں کیٹالونیا کی حکومت سے واضح طور پر درخواست کی گئی کہ وہ کیٹالونیا کی آزادی کی باقاعدہ کوشش شروع کریں -کیٹالان کے صدر، آرٹر میس (Artur Mas) نے اچانک عام انتخابات کا اعلان کر دیا اور خطے کی تاریخ میں پہلی دفعہ آزادی نواز اکثریت نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی-نئی منتخب شدہ پارلیمان نے 2013ء کے آغاز میں کیٹالان کے اقتدار اعلیٰ کا اعلامیہ (Catalan Sovereignty Declaration) اختیار کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کیٹالان کے لوگوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا مکمل حق حاصل ہے-

کیٹالان کی گورنمنٹ نے نومبر 2014ء میں ریاست کے آزادانہ تشخص کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عوامی استصوابِ رائے کا اعلان کیا جس میں دو سوالات پوچھے جانے تھے-پہلا یہ کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ کیٹالونیا ایک ریاست بن جائے ؟ اگر ہاں تو دوسرا سوال ہونا تھا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ نئی ریاست آزاد ہو؟ ہسپانوی حکومت نے مجوزہ ریفرنڈم کے مسئلہ کو ہسپانوی آئینی عدالت میں تفویض کر دیا جہاں عدالت نے ریفرنڈم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا-کیٹالونین حکومت نے اس عوامی استصواب ِ رائے کو بائنڈنگ ریفرنڈم کی بجائے نان بائنڈنگ ’’ مشاورت‘‘ قرار دے دیا مگر اس کے باوجود ہسپانوی عدالت نےغیر پابند مشاورت (non-binding consultation)پر بھی پابندی لگا دی- عدالتی پابندیوں کے باوجود کیٹالونین خودارایت ریفرنڈم(Catalan self-determination referendum) 9نومبر 2014ء کو منعقد ہوا اور 42 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ ’’ہاں-ہاں‘‘ ووٹ کا نتیجہ 81 فیصد رہا-آرٹر میس (Artur Mas) نے ستمبر 2015ء میں مزید ایک الیکشن کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتخابات آزادی پر عوامی رائے شماری ہو گی-نئی پارلیمان نے ایک قرار داد منظور کی جس میں طے پایا کہ نومبر 2015ء میں کیٹالونیا کی آزادی کے عمل کا آغاز کیا جائے گا-

2017ء جولائی میں ہوئے ایک سروے کے مطابق کیٹالونیا کے 41فیصد لوگوں نے علیحدگی اور49فیصد لوگوں نے سپین کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی-کیٹالونیا کے صدر کارلس پیو گڈمانٹ نے یکم اکتوبر 2017ء کو سپین سے علیحدگی کے لئے باقاعدہ ریفرنڈم کا اعلان کیا-سپین کی مرکزی حکومت اور عدالت نے اس ریفرنڈم کو غیر قانونی قرار دے دیا- ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی سپین کی مرکزی حکومت نے کیٹالونیا میں پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کردیا- پولنگ کے دن پولیس نے کئی پولنگ اسٹیشنز کو بند کروادیا اور بیلٹ پپپرز کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا-کئی مقامات پر پولیس اور ووٹرز کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی-ان سب رکاوٹوں کے باوجود بھاری تعداد میں لوگوں نے اس ریفرنڈم میں اپنے حق رائے دہی کا اظہار کیا-اس ریفرنڈم میں90فیصد لوگوں نے سپین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا، گو کہ ووٹرز کا کل ٹرن آؤٹ صرف 42فیصد تھا- اس کے بعد کیٹالونیا کے صدر نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں سپین سے علیحدگی کا اعلان کردیا-سپین کی مرکزی حکومت نے سپین کے آئین کے آرٹیکل 155کے تحت کیٹالونیا کی حکومت کو برخاست کر دیا-آرٹیکل 155 کے تحت نہ صرف کیٹالونیا کے باغی رہنماؤں کو حراست میں لینے کے احکامات جاری کر دیے گئے بلکہ کیٹالونیا کی سول سروس ،پولیس، فنانس اور پبلک میڈیا کو ہسپانوی صدر ماریانو راجوئے (Mariano Rajoy)نے اپنے کنٹرول میں کر لیا ہے- کیٹالونیا کے باغی، اشتہاری (کیونکہ انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے بیلجئم وغیرہ جیسے ممالک میں پناہ لے رکھی ہے) صفِ اول کے رہنماؤں میں کارلیس پوئج ڈیمونٹ، ٹونی کومن ، کلاراپونساتی، لوئس پوئگ اور میری ٹکسیل سیررت وغیرہ شامل ہیں جن کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا چکے ہیں یعنی جیسے ہی وہ سپین کی سرزمین پر قدم رکھیں گیں انہیں گرفتار کر لیا جائے گا- چند دن قبل سپین سپریم کورٹ کے جج پابلو لارینا (Pablo Llarena) ان رہنماؤں کے یورپی وارنٹ گرفتاری تو واپس لے لیے ہیں لیکن قومی وارنٹ گرفتاری ابھی بھی موجود ہیں-

ہزاروں کی تعداد میں لوگ حکومتی مخالفت اور ان رہنماؤں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں مثلاً 7 دسمبر کو 50000 سے زائد لوگ برسلز (Brussels) کے ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے- یورپیئن افیئرز کے ماہرین کہتے ہیں کہ سپین کی حکومت کو جلد از جلد ان حالات کو قابو میں کرتے ہوئے امن و امان کو یقینی بنانا ہو گا ورنہ اس کے منفی اثرات نہ صرف سپین پر ہوں گے بلکہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی ہو گا-اس کے علاوہ سپین اور کیٹالونیا پر ان کشیدہ حالات کی وجہ سے کثیر الجہت اثرات مرتب ہو رہے ہیں-مثلاً سپین و کیٹالونیا کی معیشت پر بہت زیادہ منفی اثرات ہو رہے ہیں کیونکہ بہت سی قومی و بین الاقوامی کمپنیوں نے کیٹالونیا سے انخلاء شروع کر دیا ہے جس سے ایک افراتفری کی فضا قائم ہے-ابھی تک کم و بیش 2200 سے زائد کمپنیاں اپنے ہیڈ کوارٹرز کیٹالونیا سے سپین کے دوسرے علاقوں میں منتقل کر چکی ہیں-ان مسائل کی وجہ سے سپین کی سیاحت بھی متاثر ہو رہی ہے- 2016ء میں سپین کے 75.3 ملین سیاحوں میں سے 18 ملین کیٹالونیا میں آئے تھے اور اس تناسب سے کیٹالونیا سپین کی سیاحت میں بہت اہم مقام رکھتا ہے لیکن اگر موجودہ غیر یقینی کی صورت حال برقرار رہی تو سپین کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی وجہ سے بے روزگاری مزید بڑھ جائے گی اور حالات کو مزید منفی طور پر متاثر کرے گی-بنک آف سپین نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے کہ اگر حالات زیادہ دیر تک خراب رہے تو 2019ء-2018ء کے دوران جی ڈی پی 0.3 سے 2.5 پوائنٹس تک کم ہو جائے گا-اکتوبر 2017ء تک کیٹالونیا میں رجسٹرڈ بے روزگار لوگوں کی تعداد 14698 سے بڑھ چکی ہے جو کہ اکتوبر 2008ءکے بعد پہلی دفعہ اس حد تک پہنچی ہےاور حالیہ ایک تحقیق کے مطابق بے روزگاری میں ماہانہ سطح پر 3.67 فیصد اضافہ ہو رہا ہے- اگر یہی حالات جاری رہے تو معاشی بحران اور امان و امان کی صورتحال حکومتی کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے-

ان تمام حالات کے سبب خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے- سپین کے قانون دانوں کو علیحدگی کی اس تحریک کی بنیادوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے-سیاسی محقق اور مورخ بینیڈکٹ اینڈرسن یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ مو جودہ دور کی تمام علیحدگی کی تحریکیں، یورپ اور امریکہ کی ان قوم پرست تحریکوں کی تقلید ہیں جنہوں نے بطور سیاسی قوت غالب آنے کے لئے ’’تصوراتی برادریوں‘‘ میں قومی شناخت کے نعرے کو بنیاد بنایا-سویت یونین کے خاتمے کے بعد جمہوری نظامِ حکومت ہی بنیادی بین الاقوامی معیار ہے اور یہ اقوام متحدہ کی بنیادی دستاویزات میں موجود ہے - نوآبادیاتی اور سرد جنگ کے عرصے کے بعد شروع ہونے والی تمام آزادی کی تحریکوں نے قومیت کے علاوہ انہی نمائندگی کے دلائل کو آگے بڑھایا- جبکہ مائیکل کیٹنگ اپنی کتاب میں تفصیلی بحث کرتے ہیں کہ کسی بھی نیشنلزم کے ظہور و نمود کی تین بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں-پہلی قسم میں مخصوص نسلی جہت کو لیا جا سکتا ہے جس کا ماضی میں بہت زیادہ عمل دخل ملتا ہے جبکہ مضبوط جمہوریت پسند معاشروں میں عمل دخل بہت کم نظر آتا ہے-دوسری وجہ لوگوں کی مرضی اور رائے پر منحصر ہے- جبکہ تیسری وجہ سیاسی اشرافیہ کا ریاست کے قیام یا اسے تقویت دینے کیلئے قومیت کو بطور مخصوص آلہ کار استعمال کرنا ہے[2]- یعنی کسی بھی نیشنلزم کے ظہور و نمود کے محرکات مختلف الجہت اور انتہائی پیچیدہ قسم کے ہوتے ہیں جس کی واضح مثال کیٹالونیا میں زور پکڑتی قومیت پرست تحریک دی جا سکتی ہے-

کوئی بھی علیحدگی کی تحریک جو کہ اتنی مقبولیت حاصل کر تی ہے، اس کی عمومی دلیل یہی ہوتی ہے کہ مرکزی حکومت عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر رہی اور ان کی شکوے شکایتوں کو مناسب وقت پہ حل نہیں کیا جارہا-اسی نمائندگی کے بحران پر علیحدگی کی تحریکیں وجود میں آتی ہیں اور یہی بحران قومی وجوہات کی شکل اختیار کر جاتے ہیں-کیٹالونیا کی مثال بھی اس سے مختلف نہیں ہے اور علیحدگی پسند رہنماؤں نے بہت سے لوگوں کو اس بات پر باور کرایا ہے کہ ان کا مستقبل سپین سے علیحدگی میں ہی ہے، گو کہ آزاد ریاست کو کافی مشکلات کا سامنا ہوگا-

کیٹالونیا کی قانون ساز اسمبلی کے 21دسمبر 2017ء کو ہونے والے الیکشن میں متحدہ سپین کی حامی ’’Ciutadans‘‘ جماعت نے انفرادی حیثیت میں 135 رکنی اسمبلی کی سب سے زیادہ 37نشستیں حاصل کی ہیں تاہم وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے- جبکہ مجموعی طور پر علیحدگی پسند جماعتوں کو واضح اکثریت حاصل ہوئی اور علیحدگی پسند تین جماعتوں نے کُل 70 نشستیں حاصل کی ہیں- اس وقت کیٹالینیا کے جلاوطن سابق صدر کی جماعت Together for Cataloniaنے 34 نشستیں حاصل کی ہیں چنانچہ وہ علیحدگی پسند 32نشستیں حاصل کرنے والی Republican Left اور چار نشستیں حاصل کرنے والی Popular Unity Candidacy کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی ممکنہ پوزیشن میں ہیں- سپین کے صدر ماریانو راجوئے کی پارٹی ان انتخابات میں صرف تین نشستیں ہی جیت سکی ہے- سپین کے صدر نے تمام پارٹیوں سے مذاکرات کا اعلان کیا ہے، تاہم انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ تمام بات چیت سپین میں رہتے ہوئے ہی ہوسکتی ہے اور اگر دوبارہ علیحدگی کی کوشش کی گئی تو آئین کے آرٹیکل 155کے تحت نئی منتخب حکومت کو دوبارہ برخاست کردیا جائے گا- چنانچہ نئے الیکشن کے باوجود کیٹالونیا میں غیر یقینی کی صورتحال برقرار ہے-

ان سب حالات میں یورپی یونین کو اپنا کرادار ادا کرنے کی ضرورت ہے-برسلز اور یورپی یونین کے تمام ممالک نے کیٹا لونیا کے اس علیحدگی کے اقدام کی مخالفت کی ہے اور اسے غیر قانونی قرار دیا ہے-لیکن اس کایہ جواب یورپی یونین کی وسیع حکمت عملی کا یک عنصر ہونا چاہیئے-یورپی یونین نے سپین کی حکومت کی ہر اقدام میں مکمل حمائیت کی - کیٹالونیا کی حکومت کو برخاست کرنا سپین کا آئینی حق ہے تاہم اس سے سیاسی مسائل نے بھی جنم لیا ہے-یورپی یونین نے بھی سپین کے صدر کی غیر مشروط حمائیت کی ہے جس کی وجہ سے سپین کی جانب سے کیٹالونیا کے خلاف سخت اقدامات کئے گئے ہیں- خدشہ ہے کہ خطے میں مایوسی اور تقسیم بڑھے گی-اس سے کیٹالونیا کی عوام میں ناپسندیدگی بڑھے گی اور یہ تنازعہ اگلے کئی سال تک جاری رہ سکتا ہے-

سویت یونین اور یوگو سلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی یورپ میں کئی ممالک معرض وجود میں آئے- اس کے برعکس مغربی یورپ میں کوئی جغرافیائی تبدیلی نہیں آئی-کیٹالونیا کے علاوہ سپین میں موجود Basqueکا علاقہ بھی سپین سے علیحدگی چاہتا ہے، یہ سپین کا وہ واحد علاقہ ہے جو ٹیکس کی مد میں مرکزی حکومت کو کوئی رقم نہیں بجھواتا - برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کافی عرصے سے آزادی کی کوششیں کر رہا ہے، 2014ءمیں سکاٹ لینڈ کی آزادی کے لئے ریفرنڈم منعقد ہوا لیکن اس میں علیحدگی کے لئے 44فیصدآئے اور علیحدگی کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی- اس کے علاہ بیلجیم میں فلانڈرز کا علاقہ بیلجیم سے علیحدگی چاہتا ہے-اٹلی میں پادانیا اور جنوبی ٹائرول کے علاقے علیحدگی چاہتے ہیں-فرانس میں کورسیقہ کے لوگ فرانس سے علیحدگی چاہتے ہیں-ان سب تحریکوں میں یورپی یونین نے ہمیشہ سے قومی حکومتوں کی حمائیت کی ہے-کیٹالونیا کا معاملہ یورپی یونین کے لئے ٹیسٹ کیس ہے اور یہ یورپی یونین کے اپنے مستقبل کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے-اگر یورپی یونین سپین کے حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا تو باقی تمام یورپ میں بھی لوگ یورپی یونین کی بجائے اینٹی اسٹیبلشمنٹ قوتوں کی طرف زیادہ مائل ہو سکتے ہیں اور اس پس منظر میں یورپ ایک اور تنازعے پر اپنی آنکھیں بند رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا-

برسلز کو اس میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا- یورپی یونین کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس مسئلہ کے حل میں یہ ایک فریق بنے اور اس تنازعے کے حل کی کوشش کی جائے- اس تنازعے کے حل میں سب سے کلیدی شے یہ ہے کہ کوئی ایسا انتظام کیا جائے جس سے کیٹالونیا کو سپین میں رہتے ہوئے ہی مکمل خودمختاری مل سکے- یورپی یونین اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس کی بنیاد حق خود ارادیت اور اتحاد پر قائم ہے تو لازمی طور پر کیٹالونیا کے تنازعے کو بھی اسی تناظر میں حل کر نا چاہئے-یورپی یونین کے پاس ایک حل یہ بھی موجود ہے کہ وہ کیٹالونیا کو ایک ممبر خود مختار علاقے کا سٹیٹس دے کر اسے ممبر ریاستوں کے مقابلے میں کچھ حقوق دے سکتا ہے-کیٹالونیا کو بغیر آزادی کے اس طرح تسلیم کرنے سے اس کو یورپی یونین کی میز پر جگہ مل جائے گی اور اسی فارمولہ کو باقی متنازعہ ریاستوں میں بھی لاگو کیا جاسکتا ہے- تمام متنازعہ ریاستوں میں ٹھوس خود مختاری کی آفر سے یورپ میں علیحدگی کی لہر کو روکا جاسکتا ہے -

سپین کی حکومت کو فوری طور پر مسئلہ کے حل کیلئے گرفتار رہنماؤں کو رہا کرنا چاہئے اور تمام فریقین کو معاملات بات چیت سے حل کرنے چاہئیں- کیٹالونیا کے زیادہ تر لوگ سپین میں رہتے ہوئے زیادہ خودمختاری کے حامی ہیں اور سپین کی جانب سے حکومت کے خاتمے اور طاقت کے استعمال سے مزید لوگ علیحدگی کی تحریک میں شامل ہو جائیں گے-چنانچہ معاملہ کو دور اندیشی سے حل کیا جانا چاہئے-کیٹالونیا کے مستقبل کا فیصلہ اس کی عوام کے ہاتھ میں ہونا چ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر