روہنگیا مسلمانوں کے موجودہ حالات کا جائزہ

روہنگیا مسلمانوں کے موجودہ حالات کا جائزہ

روہنگیا مسلمانوں کے موجودہ حالات کا جائزہ

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ جنوری 2018

مسلم انسٹیٹیوٹ نے’’روہنگیا مسلمانوں کے موجودہ حالات کا جائزہ‘‘ کے موضوع پر نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام کیا-معزز مہمانوں میں سابق سفیر پاکستان برائے میانمار جناب امجد مجید عباسی اور جناب محمد قربان، صدر روہنگیا فیڈریشن آف اراکان برما جناب فردوس شیخ، اسسٹنٹ پروفیسر شریعہ اینڈ لاء انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر سوزک سیجو شامل تھے- جناب طاہر محمود نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسرز، طلباء، محققین اور صحافیوں نےبھی پروگرام میں شرکت کی-

مقررین کےاظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

اگر روہنگیا کمیونٹی کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ میانمار کی ریاست رکھائن میں ایک المناک انسانی بحران اپنی پوری شدت کے ساتھ برپا ہے-اس ریاست کے 12 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا گیا ہےاور تواتر کے ساتھ ان کو فرقہ ورانہ تصادم اور فوجی آپریشنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے-روہنگیا مسلمانوں پر تشدد کو ئی حالیہ واقعہ نہیں- تشدد کے یہ سلسلے وقفے وقفے سے جاری رہتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے- ان کا آغاز 1960ءاور 1970ء کی دہائی میں ہوا جب فوجی دورِ حکومت میں بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کا انخلا شروع ہوا-یہ لوگ بنیادی انسانی حقوق سےمحروم ہیں اور خستہ حال مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں تعلیم، روزگار ، سفر، شادی، مذہبی آزادی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات نہ صرف ناپید ہیں بلکہ دانستہ طور پہ ختم کی گئی ہیں - قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود رکھائن کا شمار میانمار کی غریب ترین ریاستوں میں ہوتا ہے-

اقوامِ متحدہ نے روہنگیا ز کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے- پچھلے تین ہفتوں میں تقریباً 300000 روہنگیا جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں جہاں پہلے ہی 3 سے 5 لاکھ روہنگیا مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں- 11 ستمبر 2017ء کو اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کےسربراہ کے بیان کے مطابق ’’یہ صورتحال نسل کشی کی واضح مثال نظر آتی ہے-میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر اپنا سفاک ملٹری آپریشن ختم کرے اور تمام بے ضابطگیوں کا کڑا احتساب کرے-جبکہ روہنگیا کمیونٹی سے کیے جانے والے امتیازی سلوک کا فوری تدارک کرے‘‘-اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس کی 3 فروری 2017ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میانمار کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کی نشان دہی کرتی ہے- اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ روہنگیا کمیونٹی کے خلاف قبیح انسانی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے-

70 کی دہائی سے متعدد کریک ڈاؤنز کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور ان کو اکثر عصمت دری، تشدد، قتلِ عام اور ان کی املاک جلانے جیسے گھناؤنے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے- اب تک 50 ہزار سے زائد گھروں کو جلایا جا چکا ہے اورتقریباً 1600 دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں- فوج کی پشت پناہی میں جاری تشدد کا حالیہ سلسلہ 2012ء میں منظرِ عام پر آیا- ایک برمی خاتون کے قتل کے بہانے ہنگامے پھوٹ پڑے لیکن ذمہ داروں کے تعین کے لیے اس قتل کا کیس کبھی کسی عدالت میں نہیں چلایا گیا- جبکہ فوج اور حکومتی پشت پناہی سے 2000 روہنگیا لوگوں کو انتہائی سفاکی سے ذبح کر دیا گیا-اس کی بنیادی وجہ حکومت کےمذموم ارادے تھے تاکہ روہنگیا مسلمانوں کو ریاست رکھائن کے بڑے شہروں سے نکال کر مہاجرین کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے- حکومت اور بدھ مذہبی انتہا پسندوں کا گھناؤنا اتحاد اس المیہ کی بنیادی وجہ ہے- تب سے اب تک حالات پر قابو نہیں پایا جا سکا- روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام اور گھروں سے بے دخلی کا سلسلہ پورے زوروشور سے جاری ہے- ریاست رکھائن کے دارالحکومت سٹوے اور بڑے شہروں میں ایک بھی مسلمان نہیں بچا ہے- ان کو مہاجر کیمپوں اور جنگلوں میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں پر زہریلے سانپوں اور موذی بیماریوں کی بہتات ہے-

میانمار، روہنگیا کیونٹی کو بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی تارکینِ وطن تصور کرتا ہے اور ان کو غیرریاستی عناصر شمار کرتا ہے- برمی حکومت کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برطانوی استعمار بطور مزدور برما میں لایا تھا- اس کے بر عکس، بہت سے ایسے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ روہنگیا مسلمان اراکان (موجودہ نام رکھائن)کے مقامی لوگ ہیں اور برطانیہ کی آمد سے بہت پہلے یہاں آباد تھے- انٹر نیشنل سٹیٹ کرائم انیشی ایٹو (international state crime initiative ) کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق،برما کے پہلے صدر ساؤ شا تھائیکے نے 1959ء میں تسلیم کیا کہ’’اراکان کے مسلمان برما کی مقامی نسلوں میں سے ہیں- اگر وہ مقامی نسلوں میں شمار نہیں ہوتے تو ہم بھی مقامی النسل نہیں ہیں‘‘-برما 1948 میں معرضِ وجود میں آیا- 1962ء تک روہنگیاز کو میانمار کا شہری کسی نہ کسی حیثیت میں تسلیم کیا جاتا رہا- 1962ءکے بعد، فوجی حکومت نے چند قوانین پاس کیے اور دعویٰ کیا کہ روہنگیا مسلمان بنگالی النسل ہیں-میانمار کے 1982ء کے شہریت کے قانون کے ذریعے روہنگیا مسلمانوں کی شہریت ختم کر دی گئی اور ان کو بے ریاست قرار دے دیا گیا-

اگر روہنگیا مسلمانوں کو حقیقی طور پر بے ریاست تسلیم کیا جاتا تو بھی عالمی قوانین کے تحت ان کے حالات بہتر ہوتے- 1954ء میں منظور ہونے والا انٹرنیشنل کنونشن آن سٹیٹ لیس پیپل (International Convention on Stateless People)بے ریاست افراد کو بنیادی انسانی حقوق خصوصاً تعلیم، صحت، آزادانہ نقل و حرکت اور روزگار کی تلاش کے حقوق عطاء کرتا ہے- یہ تمام حقوق روہنگیاز کے لیے شجرِ ممنوعہ بنا دیے گئے ہیں- انسانی حقوق پر اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی شق 15 کے مطابق، ہر شخص شہریت کا حق رکھتا ہے - مہاجرین کنونشن(Refugees Convention) 1951 کے مطابق ، مہاجرین اور مقامی افراد دونوں مساوی حیثیت کے حامل ہیں- کنونشن آف رفیوجیز1954 (Convention of Refugees)ء میں بچوں اور مہاجرین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے- 1966ء میں اختیار کیے گئے انٹرنیشنل کوویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس(International Covenant on Civil and Political Rights) کے مطابق، ہر بچہ بلا تمیز و تفریق شہریت کےحصول کا حق رکھتا ہے-شہریت کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی حکومت کا شہریت عطاء کرنے یا نہ کرنے کا استحقاق حتمی نہیں ہے- اس ضمن میں ریاست کو انسانی حقوق کی پاسداری لازم ہے- اس بارے اقوامِ متحدہ کی بہت سی قراردادیں موجود ہیں جیسا کہ 7/10 (2008)، 10/13 (2009)، 13/2 (2010)،(2012) 20/4، 20/5 (2012)، 26/14 (2014) اور 32/5 (2016) جن میں کونسل برائے انسانی حقوق نے شہریت کی حوصلہ افزائی اور بے ریاستی حیثیت کی حوصلہ شکنی کی ہے- پس، حکومتِ میانمار کے اس مطالبے میں کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے کہ روہنگیا مسلمان شہریت کا حق نہیں رکھتے-

خطے میں عدم توازن کے ذمہ دار کئی محرکات ہیں- یہ جاننا ضروری ہو گا کہ ان ہنگاموں میں عالمی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے- مسلمان رکھائن میں اہم کاروبار کی ملکیت کے حامل ہیں اور حکومت ان کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہے-جبکہ مذہبی رہنما ’آشین وراتھو‘ نامی گرامی مجرم اور دہشتگرد ہے- اس کا پراپیگنڈا فتنہ انگیز ہے- اس نے مسلمانوں کو ٹارگٹ بنا رکھا ہے اس جیسے لوگ ہر طرف نفرت و بغض پھیلارہے ہیں- میانمار کی حکومت زبردستی روہنگیا کمیونٹی کو مہاجر کیمپس کی طرف دھکیل رہی ہے اور وہاں پر بدھ مت کے پیروکار شہریوں کو آباد کرنا چاہتی ہے - اس معاملے میں عالمی طاقتوں کی جانب سے تساہلی کا مظاہرہ بھی دردناک ہے- دوسری جانب، کچھ ممالک اپنے مفادات کے تحت اس تنازعہ کی پشت پناہی کر رہے ہیں- اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی طرح، مسلمان ممالک کا کردار بھی افسوسناک ہے- عالمی برادری پر مظلوم کمیونٹی کی مدد کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے-

ماضی میں پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم میں کمی کے لیے مؤثر کردار ادا کیا- پاکستان کی آزادی کے وقت، روہنگیا کمیونٹی پاکستان میں شامل ہونا چاہتی تھی- آنگ سان سوچی کے والدآن سان کے قائدِ اعظم سے دیرینہ تعلقات تھے- دونوں رہنماوں کے مابین اس معاملے پر تبادلہ خیال ہوا اور آنگ سان نے روہنگیا کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی- پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے روہنگیا کمیونٹی کو اپنے ملک میں بسنے کی اجازت دی- تاہم، موجودہ حکومت کو بھی روہنگیا مسلمانوں کے مصائب میں کمی کے لیے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے-

روہنگیا کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کا کوئی بھی جواز نہیں - یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے اور اس کی جڑ میانمار کے داخلی قوانین ہیں- اس مسئلہ کو روہنگیا کو انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سے جلد از جلد حل کیا جانے چاہیے- آنگ سان سوچی جمہوری اکثریت حاصل ہونے کے باوجود کسی قسم کا قدم اٹھانے سے گریزاں ہے حالانکہ اس پہ عالمی برادری کا دباؤ بھی ہے- عالمی برادری کو فوری طور پہ میانمارکی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کا جلد ازجلد سدباب کرے- مختصراً روہنگیا کے مسلمانوں کے مسئلہ کو عالمی سطح پہ ایک سنگین انسانی المیہ کے طور پہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور روہنگیا کے مسلمانوں کو شہریت کا حق ملنا چاہیے-مسلم ممالک کو میانمار حکومت پہ سفارتی دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ روہنگیا کے مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کو روکے-

سفارشات :

مندرجہ ذیل سفارشات مقررین کی گفتگو سے اخذ کی گئیں:

v     اقوام متحدہ بالخصوص سلامتی کونسل کو روہنگیا کے مسلمانوں پہ ہونے والے مظالم کے خلاف فی الفور اور ٹھوس اقدام اٹھانے چاہیں-

v     اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل UNHCR کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت روہنگیا کے مسلمانوں کو شہریت دلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے-

v     روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ صحت ،تعلیم، سفر اور روزگار کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے-

v     اقوام متحدہ کو جلد از جلد ایک کمیشن قائم کرنا چاہیے جو روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کی تفتیش کرے- اقوام متحدہ کے معائنہ کار مشن کو بھی حالات کا جائزہ لینے کے لیے میا نمار روانہ کیا جا نا چاہئے -

v     اقوام متحدہ کے قیام امن کے مشن کو بھی میانمار بھجوایا جا سکتا ہے جیسا کہ دیگر ممالک میں اقوام متحدہ کے قیام امن کے مشن کام کر رہے ہیں-

v     روہنگیا کے مسئلہ کو مسلمانوں کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسی طور اس مسئلہ کے ساتھ نبردآزما ہونا چاہیے-

v     او آئی سی کے ممبر ممالک کو میانمار پہ سفارتی دباؤ ڈالنا چا ہیے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرے اور وہ مہاجرین جو میانمار چھوڑ کے جا چکے ہیں ان کی واپسی اور محفوظ آباد کاری کو یقینی بنائے-

v     آسیان کی تنظیم کواپنے ممبر ممالک کے شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک وزارتی میٹنگ بلانی چاہیے اور میانمار کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ روہنگیا پہ ڈھائے جانے والے مظالم کو روکے-

 

٭٭٭

مسلم انسٹیٹیوٹ نے’’روہنگیا مسلمانوں کے موجودہ حالات کا جائزہ‘‘ کے موضوع پر نیشنل لائبریری آف پاکستان، اسلام آباد میں راؤنڈ ٹیبل ڈسکشن کا اہتمام کیا-معزز مہمانوں میں سابق سفیر پاکستان برائے میانمار جناب امجد مجید عباسی اور جناب محمد قربان، صدر روہنگیا فیڈریشن آف اراکان برما جناب فردوس شیخ، اسسٹنٹ پروفیسر شریعہ اینڈ لاء انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر سوزک سیجو شامل تھے- جناب طاہر محمود نے ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دیئے-مختلف یونیورسٹیز کے پروفیسرز، طلباء، محققین اور صحافیوں نےبھی پروگرام میں شرکت کی-

مقررین کےاظہار خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے-

اگر روہنگیا کمیونٹی کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ میانمار کی ریاست رکھائن میں ایک المناک انسانی بحران اپنی پوری شدت کے ساتھ برپا ہے-اس ریاست کے 12 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو شہریت سے محروم کر دیا گیا ہےاور تواتر کے ساتھ ان کو فرقہ ورانہ تصادم اور فوجی آپریشنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے-روہنگیا مسلمانوں پر تشدد کو ئی حالیہ واقعہ نہیں- تشدد کے یہ سلسلے وقفے وقفے سے جاری رہتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے- ان کا آغاز 1960ءاور 1970ء کی دہائی میں ہوا جب فوجی دورِ حکومت میں بڑے پیمانے پر روہنگیا مسلمانوں کا انخلا شروع ہوا-یہ لوگ بنیادی انسانی حقوق سےمحروم ہیں اور خستہ حال مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں تعلیم، روزگار ، سفر، شادی، مذہبی آزادی اور صحت جیسی بنیادی سہولیات نہ صرف ناپید ہیں بلکہ دانستہ طور پہ ختم کی گئی ہیں - قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود رکھائن کا شمار میانمار کی غریب ترین ریاستوں میں ہوتا ہے-

اقوامِ متحدہ نے روہنگیا ز کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے- پچھلے تین ہفتوں میں تقریباً 300000 روہنگیا جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچے ہیں جہاں پہلے ہی 3 سے 5 لاکھ روہنگیا مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں- 11 ستمبر 2017ء کو اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کےسربراہ کے بیان کے مطابق ’’یہ صورتحال نسل کشی کی واضح مثال نظر آتی ہے-میں حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر اپنا سفاک ملٹری آپریشن ختم کرے اور تمام بے ضابطگیوں کا کڑا احتساب کرے-جبکہ روہنگیا کمیونٹی سے کیے جانے والے امتیازی سلوک کا فوری تدارک کرے‘‘-اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے آفس کی 3 فروری 2017ء کو جاری ہونے والی رپورٹ میانمار کی سیکورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کی نشان دہی کرتی ہے- اس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ روہنگیا کمیونٹی کے خلاف قبیح انسانی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے-

70 کی دہائی سے متعدد کریک ڈاؤنز کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کو گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور ان کو اکثر عصمت دری، تشدد، قتلِ عام اور ان کی املاک جلانے جیسے گھناؤنے مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے- اب تک 50 ہزار سے زائد گھروں کو جلایا جا چکا ہے اورتقریباً 1600 دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں- فوج کی پشت پناہی میں جاری تشدد کا حالیہ سلسلہ 2012ء میں منظرِ عام پر آیا- ایک برمی خاتون کے قتل کے بہانے ہنگامے پھوٹ پڑے لیکن ذمہ داروں کے تعین کے لیے اس قتل کا کیس کبھی کسی عدالت میں نہیں چلایا گیا- جبکہ فوج اور حکومتی پشت پناہی سے 2000 روہنگیا لوگوں کو انتہائی سفاکی سے ذبح کر دیا گیا-اس کی بنیادی وجہ حکومت کےمذموم ارادے تھے تاکہ روہنگیا مسلمانوں کو ریاست رکھائن کے بڑے شہروں سے نکال کر مہاجرین کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے- حکومت اور بدھ مذہبی انتہا پسندوں کا گھناؤنا اتحاد اس المیہ کی بنیادی وجہ ہے- تب سے اب تک حالات پر قابو نہیں پایا جا سکا- روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام اور گھروں سے بے دخلی کا سلسلہ پورے زوروشور سے جاری ہے- ریاست رکھائن کے دارالحکومت سٹوے اور بڑے شہروں میں ایک بھی مسلمان نہیں بچا ہے- ان کو مہاجر کیمپوں اور جنگلوں میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں پر زہریلے سانپوں اور موذی بیماریوں کی بہتات ہے-

میانمار ، روہنگیا کیونٹی کو بنگلہ دیش سے آئے غیر قانونی تارکینِ وطن تصور کرتا ہے اور ان کو غیرریاستی عناصر شمار کرتا ہے- برمی حکومت کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو برطانوی استعمار بطور مزدور برما میں لایا تھا- اس کے بر عکس، بہت سے ایسے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ روہنگیا مسلمان اراکان (موجودہ نام رکھائن)کے مقامی لوگ ہیں اور برطانیہ کی آمد سے بہت پہلے یہاں آباد تھے- انٹر نیشنل سٹیٹ کرائم انیشی ایٹو (international state crime initiative) کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق،برما کے پہلے صدر ساؤ شا تھائیکے نے 1959ء میں تسلیم کیا کہ’’اراکان کے مسلمان برما کی مقامی نسلوں میں سے ہیں- اگر وہ مقامی نسلوں میں شمار نہیں ہوتے تو ہم بھی مقامی النسل نہیں ہیں‘‘-برما 1948 میں معرضِ وجود میں آیا- 1962ء تک روہنگیاز کو میانمار کا شہری کسی نہ کسی حیثیت میں تسلیم کیا جاتا رہا- 1962ءکے بعد، فوجی حکومت نے چند قوانین پاس کیے اور دعویٰ کیا کہ روہنگیا مسلمان بنگالی النسل ہیں-میانمار کے 1982ء کے شہریت کے قانون کے ذریعے روہنگیا مسلمانوں کی شہریت ختم کر دی گئی اور ان کو بے ریاست قرار دے دیا گیا-

اگر روہنگیا مسلمانوں کو حقیقی طور پر بے ریاست تسلیم کیا جاتا تو بھی عالمی قوانین کے تحت ان کے حالات بہتر ہوتے- 1954ء میں منظور ہونے والا انٹرنیشنل کنونشن آن سٹیٹ لیس پیپل (International Convention on Stateless People)بے ریاست افراد کو بنیادی انسانی حقوق خصوصاً تعلیم، صحت، آزادانہ نقل و حرکت اور روزگار کی تلاش کے حقوق عطاء کرتا ہے- یہ تمام حقوق روہنگیاز کے لیے شجرِ ممنوعہ بنا دیے گئے ہیں- انسانی حقوق پر اقوامِ متحدہ کی قرارداد کی شق 15 کے مطابق، ہر شخص شہریت کا حق رکھتا ہے - مہاجرین کنونشن(Refugees Convention) 1951 کے مطابق ، مہاجرین اور مقامی افراد دونوں مساوی حیثیت کے حامل ہیں- کنونشن آف رفیوجیز1954 (Convention of Refugees)ء میں بچوں اور مہاجرین کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے- 1966ء میں اختیار کیے گئے انٹرنیشنل کوویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس(International Covenant on Civil and Political Rights) کے مطابق، ہر بچہ بلا تمیز و تفریق شہریت کےحصول کا حق رکھتا ہے-شہریت کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی حکومت کا شہریت عطاء کرنے یا نہ کرنے کا استحقاق حتمی نہیں ہے- اس ضمن میں ریاست کو انسانی حقوق کی پاسداری لازم ہے- اس بارے اقوامِ متحدہ کی بہت سی قراردادیں موجود ہیں جیسا کہ 7/10 (2008)، 10/13 (2009)، 13/2 (2010)،(2012) 20/4، 20/5 (2012)، 26/14 (2014) اور 32/5 (2016) جن میں کونسل برائے انسانی حقوق نے شہریت کی حوصلہ افزائی اور بے ریاستی حیثیت کی حوصلہ شکنی کی ہے- پس، حکومتِ میانمار کے اس مطالبے میں کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے کہ روہنگیا مسلمان شہریت کا حق نہیں رکھتے-

خطے میں عدم توازن کے ذمہ دار کئی محرکات ہیں- یہ جاننا ضروری ہو گا کہ ان ہنگاموں میں عالمی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہے- مسلمان رکھائن میں اہم کاروبار کی ملکیت کے حامل ہیں اور حکومت ان کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہے-جبکہ مذہبی رہنما ’آشین وراتھو‘ نامی گرامی مجرم اور دہشتگرد ہے- اس کا پراپیگنڈا فتنہ انگیز ہے- اس نے مسلمانوں کو ٹارگٹ بنا رکھا ہے اس جیسے لوگ ہر طرف نفرت و بغض پھیلارہے ہیں- میانمار کی حکومت زبردستی روہنگیا کمیونٹی کو مہاجر کیمپس کی طرف دھکیل رہی ہے اور وہاں پر بدھ مت کے پیروکار شہریوں کو آباد کرنا چاہتی ہے - اس معاملے میں عالمی طاقتوں کی جانب سے تساہلی کا مظاہرہ بھی دردناک ہے- دوسری جانب، کچھ ممالک اپنے مفادات کے تحت اس تنازعہ کی پشت پناہی کر رہے ہیں- اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کی طرح، مسلمان ممالک کا کردار بھی افسوسناک ہے- عالمی برادری پر مظلوم کمیونٹی کی مدد کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے-

ماضی میں پاکستان نے روہنگیا مسلمانوں پر کیے جانے والے مظالم میں کمی کے لیے مؤثر کردار ادا کیا- پاکستان کی آزادی کے وقت، روہنگیا کمیونٹی پاکستان میں شامل ہونا چاہتی تھی- آنگ سان سوچی کے والدآن سان کے قائدِ اعظم سے دیرینہ تعلقات تھے- دونوں رہنماوں کے مابین اس معاملے پر تبادلہ خیال ہوا اور آنگ سان نے روہنگیا کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی- پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے روہنگیا کمیونٹی کو اپنے ملک میں بسنے کی اجازت دی- تاہم، موجودہ حکومت کو بھی روہنگیا مسلمانوں کے مصائب میں کمی کے لیے متحرک کردار ادا کرنا چاہیے-

روہنگیا کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کا کوئی بھی جواز نہیں - یہ ایک تاریخی مسئلہ ہے اور اس کی جڑ میانمار کے داخلی قوانین ہیں- اس مسئلہ کو روہنگیا کو انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سے جلد از جلد حل کیا جانے چاہیے- آنگ سان سوچی جمہوری اکثریت حاصل ہونے کے باوجود کسی قسم کا قدم اٹھانے سے گریزاں ہے حالانکہ اس پہ عالمی برادری کا دباؤ بھی ہے- عالمی برادری کو فوری طور پہ میانمارکی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کا جلد ازجلد سدباب کرے- مختصراً روہنگیا کے مسلمانوں کے مسئلہ کو عالمی سطح پہ ایک سنگین انسانی المیہ کے طور پہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور روہنگیا کے مسلمانوں کو شہریت کا حق ملنا چاہیے-مسلم ممالک کو میانمار حکومت پہ سفارتی دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ روہنگیا کے مسلمانوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کو روکے-

سفارشات :

مندرجہ ذیل سفارشات مقررین کی گفتگو سے اخذ کی گئیں:

v     اقوام متحدہ بالخصوص سلامتی کونسل کو روہنگیا کے مسلمانوں پہ ہونے والے مظالم کے خلاف فی الفور اور ٹھوس اقدام اٹھانے چاہیں-

v     اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل UNHCR کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت روہنگیا کے مسلمانوں کو شہریت دلوانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے-

v     روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بنیادی انسانی حقوق جیسا کہ صحت ،تعلیم، سفر اور روزگار کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے-

v     اقوام متحدہ کو جلد از جلد ایک کمیشن قائم کرنا چاہیے جو روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے جرائم کی تفتیش کرے- اقوام متحدہ کے معائنہ کار مشن کو بھی حالات کا جائزہ لینے کے لیے میا نمار روانہ کیا جا نا چاہئے -

v     اقوام متحدہ کے قیام امن کے مشن کو بھی میانمار بھجوایا جا سکتا ہے جیسا کہ دیگر ممالک میں اقوام متحدہ کے قیام امن کے مشن کام کر رہے ہیں-

v     روہنگیا کے مسئلہ کو مسلمانوں کا مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اسی طور اس مسئلہ کے ساتھ نبردآزما ہونا چاہیے-

v     او آئی سی کے ممبر ممالک کو میانمار پہ سفارتی دباؤ ڈالنا چا ہیے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرے اور وہ مہاجرین جو میانمار چھوڑ کے جا چکے ہیں ان کی واپسی اور محفوظ آباد کاری کو یقینی بنائے-

v     آسیان کی تنظیم کواپنے ممبر ممالک کے شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک وزارتی میٹنگ بلانی چاہیے اور میانمار کو یہ باور کرایا جائے کہ وہ روہنگیا پہ ڈھائے جانے والے مظالم کو روکے-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر