اقبال کا پیغام محبت وامن: نوجوانوں کے نام

اقبال کا پیغام محبت وامن: نوجوانوں کے نام

اقبال کا پیغام محبت وامن: نوجوانوں کے نام

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ دسمبر 2016

چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ ،صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے خصوصی لیکچر  کا خلاصہ جو کہ ۲۵اکتوبر۲۰۱۶ء کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں طلباء اور استاذہ کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں  دیا گیا-

اسلامی دنیا میں اس چیز کی بڑی ضرورت ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں امن،محبت اور استحکام کو فروغ دے سکیں-علامہ محمد   اقبال(﷫) اسلام کے  شاعر  ہیں اور یہ آپ(﷫) کی عظمت کی دلیل ہے کہ انسانیت کو جو تحفظ ہے،انسانیت کو جو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلائی ہے،انسانیت کے اندر جو احترامِ انسانیت پیدا کیا،باپ کا احترام، ماں کا احترام،بیٹی کا احترام،عزیز و اقارب کا احترام،مسکین کا احترام،بیوہ کا احترام،راہ چلتے مسافر کا احترام یہ سب کچھ تو اسلام نے انسانیت کو دیا ہے-کیونکہ اسلام نے انسانیت کو حقوق سکھائے،اسلام نے انسانیت کو نکھارا،اسلام نے انسانیت کے چہرے سے غلامی کا بدنما داغ دھویااور اسلام نے انسانیت کو مساوات کا درس دیا-اقبال کا پیغام ایک متعین مقدار میں ہے جو ایک سمت میں چلتا ہے اور آپ کو آوارہ نہیں چھوڑتا اور قدم بہ قدم وہ آپ کی رہنمائی کرتا ہوا آپ کو منزل کی جانب لے جاتا ہے-اقبال کے نزدیک جنسی جبلّت اور ہوس کبھی بھی عشق کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی-اقبال (﷫)فرماتے  ہیں کہ:

عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثلِ ہوس
پرِ شہباز سے ممکن نہیں پروازِ مگس[1]

ہمارے ہاں یہ غلط فہمی ہے کہ اقبال مطلقاً مغرب سے عناد رکھتے تھے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے مغرب کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو اقبال (﷫)نے سراہا ہے-ان میں خصوصاًتین چیزیں ایسی ہیں جن کی تعریف علامہ اقبال (﷫)نے فرمائی مثلاً  مغرب کا تعلیمی ڈھانچہ،ان کی  لائبریریز اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں جو ترقی ہو رہی ہے -اقبال (﷫)فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہ تین چیزین مغرب سے اپنانی چاہیں لیکن مغرب نے ہمیں اپنی اس تہذیب سے بہت دور رکھا ہے- اقبال (﷫) نے اس مغربی جمہوریت کی مخالفت کی جو کہ سرمائے سے کنٹرول ہوتی ہے اور یہ استبداد کا دیو ہے جو آزادی کے لبادے میں چھپی نیلم پری نظر آتی ہے-

مسلمانوں میں زوال کے اسباب ،فرقہ واریت ،قومیت پرستی ،ذات پات کا نظام اور دین سے دوری ہے،لہٰذا اقبال (﷫)نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فرقہ واریت کو چھوڑ کر ملی یکجہتی،قومیت پرستی سے الگ ہو کر اتحاد امت، ذات پات کے نظام سے دستبردار ہو کر مساوات کی خواہش کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا جس کے بعد ہی امن قائم ہوگا- اقبال (﷫) نے ہر جگہ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے بات کی ہے اور ان کی امیدوں کا مرکز اور محور اُس وقت بھی نوجوان تھے اور آج بھی نوجوان ہیں - اقبال (﷫)خوابیدہ ملت میں ہوشیار اور بیدار تھے جس کی وجہ سے اپنے افکار کے باعث انگریز اور گاندھی سامراج کو شکست دی- اقبال (﷫) ہمیں تواتر سے اسلاف کی طرف بلاتے ہیں اور علم و ہنر کا راستہ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں-

اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے روحانی زوال کے موجب مُلائیت،ملوکیت اور رسمی خانقاہئیت ہے-مسلمانوں میں جو اچھی صفات کے حکمران آئے ہیں اقبال (﷫)ان کےمخالف نہیں ہیں بلکہ ملوکانہ نفسیات کے مخالف ہیں-  پھر اقبال (﷫)  نے اپنے خطبات میں بے شمار علماء کی تعریف کی لیکن اقبال (﷫) ملائیت میں فرقہ وارانہ تعصب کی مخالفت کرتے ہیں-اسی طرح اقبال (﷫)  نے بیشتر صوفیاء کی تعریف کی ہے لیکن  ہندوستان اور دیگر کئی ممالک میں رائج  خانقاہی سلسلہ  جو ملت سے بالکل بیزار ہے جن میں کوئی ملی تحرک نہیں ہے اقبال (﷫)  نے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا-

اس لئے اقبال (﷫)  نوجوانوں کو بار بار تن آسانی اور تساہل پسندی سے جان چھڑا کر سخت محنت اور جہد مسلسل کی ترغیب دیتے ہیں،کیونکہ جس قوم کے نوجوان تن آسان ہو جائیں وہ قوم تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے-تنزلی سے بچنے اور ترقی کرنے کے لئے جہاں محنت ضروری ہے وہاں اتحاد کا ہونا بھی ضروری ہےاور اسلامی شناخت کو مقدم کرنا اس  میں مددگار ہے،اگر اس اسلامی شناخت کو حاصل کرنا ہے تو اسلاف کی طرف لوٹنا ہوگا،ان کے طریق پر عمل کرنے سے اختلافات ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ،بس شرط یہ ہے کہ ہم میں نفرت نہ ہو بلکہ احترام اور برداشت کرنے کا حوصلہ اور ہمت ہو،اس سے باہمی ہمت اور یگانگت میں اضافہ ہو گا-

آج سارک (جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم)کی بات کی جاتی ہے،آسیان (جنوبی ایشیائی اقوام کی تنظیم)کی بات کی جاتی ہے لیکن ایشین یونین کی بات کیوں نہیں کی جاتی جس سے مغربی استعمار کو روکا جائے، عالمی طاقتیں چائنا کو  روکنے  کے لیے سارک کی حمایت کرتی ہیں- ایشین یونین  جو کہ اقبال (﷫)  کا خواب تھا جیسا کہ دورہ افغانستان کہ موقع پر آپ نے افغانستان کے حکمران امان اللہ خان کو ریلوے ٹریک کے ذریعے کابل کو استنبول سے منسلک کرنے کا مشورہ دیا- اگر آج کابل کو گوادر سے منسلک کر دیا جائے تو عرب و عجم اور روس   و چائنا  پر مشتمل ایک اکنامک بلاک کھڑا ہو جائے گا جو مغرب کی آنکھ کا کانٹا ہے-اس لیے اقبال (﷫)  مسلمانوں کو تقسیم کر دینے والے ’’نیشنلزم‘‘کے نظریہ سے وسیع تر اسلامی شناخت کی طرف لے جانا چاہتے تھے جو کہ ایشیاء کی ترقی کی ضامن ہے- اقبال (﷫)  کے بقول اسلام میں دین وطن پرستی پر مقدم ہے جیسا کہ رسول اللہ(ﷺ) نے دین کی خاطر وطن چھوڑا اور اسی بنیاد پر اسلامیان ہند نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی کہ اپنی اسلامی شناخت کو محفوظ کیا جا سکے-لیکن آج مسلمان زوال کا شکار ہیں کیونکہ وہ ہنود و یہود کے برعکس اصول تجارت سے واقف نہیں ہیں اگر انارکلی بازار کے ایک کونے پہ ایک ہندو کی اور دوسرے پہ ایک یہودی کی دکان کھل جائے تو بیچ کے تاجروں کی چھٹی ہو جائے گی کیونکہ ہمارے ہاں تجارتی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے جس وجہ سے عالمی منڈیوں میں بھی ہماری رسائی نہیں ہے ، اور اسی تجارتی اخلاقیات کی زبوں حالی کیوجہ سے ہم غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں - اقبال (﷫)  کے بقول نوجوان قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں-  اگر مسلمان اپنے اسلاف کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا اور یہ طے کرنا ہو گا کہ ہمیں کس شناخت پر چلنا ہے- اسلامی شناخت اپنانے کی راہ میں فرقہ واریت،لسانی تعصب اور نیشنلزم بنیادی رکاوٹیں ہیں-ہمارے اسلاف اختلافات کے باوجود جسدِ واحد کی طرح رہتے رہے ہیں- صوفیاء اور علماء اختلاف کے باوجود ایک دوسرے سے اکتساب فیض بھی کرتے رہے ہیں اور آپس کا احترام بھی برقرار رہا ہے- اقبال (﷫)  کے بقول ہم ایک متحد  قوم کے طور پر رہ سکتے ہیں لیکن جس طرح مسلمان رسول اللہ (ﷺ)کو دیکھے بغیر،حتیٰ کہ بعض ان کی سیرت کو جانے بغیر ان سے محبت کرتے ہیں  اسی  طرح محبت اور امن بھی  آرزو کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں جن سے مسلمانوں میں ترقی اور خوشحالی آئے گی- اقبال (﷫)  کا پیغام قرآن و سنت اور دین کا پیغام ہے جس کو ہمیں لے کے چلنا ہو گا-

عشق حقیقی اس لامحدود ذات سے لامحدود عشق کو کہتے ہیں جس میں عروج کی کوئی حد نہیں ہے-آپ جتنی استعداد سے عشق کو بڑھاتے جاتے ہیں اتنا زیادہ آپ کا بارگاہ الہیٰ میں رتبہ بلند ہوتا جاتا ہے- جاوید نامہ میں اقبال سنتِ الہیٰ سے قوت تخلیق حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں جس کا اظہار انسان کے جمالیاتی ذوق میں ہوتا ہے-انسان میں ایسی قوت پیدا ہوتی ہے کہ جہاں وہ رک جائے وہاں مشکل کا حل تخلیق کر سکے-ایک مردِ کامل ثبات و دوام قائم کرنے کا اختیار رکھتا ہے- بقول اقبال (﷫)  یہ قوت تخلیق جس کو حاصل نہیں وہ تباہی کے دہانے پر جا پہنچتا ہے-امتِ محمدیہ (ﷺ)ہونے کے باوجود ہماری رسوائی کا سبب ان کے ’’اوامرونواہی‘‘ کی گانٹھ سے ہماری گانٹھ کا نہ لگے ہونا ہے-حضرت سُلطان باھُو ، حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ (﷭)کی طرح اقبال (﷫)  کا کام بھی معاشرے کو جگانا ہے- اقبال (﷫)  نے آدمی کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے اذان دی ہےکہ معاشرے کا جمود نوجوانوں کی بیکاری  کا سبب ہے-جمود کا شکار معاشرہ سوچ،فکر اور شخصیت نہیں پیدا کر سکتا  کیونکہ شخصیت کو پیدا کرنے کے لیے خودی اور اندر کی روحانی قوت کو بیدار کرنا ضروری ہے-

اقبال (﷫)  کی امید سامراجی پشت پناہی حاصل کرنے والے حکمرانوں کی بجائے ایک عام مسلمان سے وابستہ ہے کہ ایک فرد ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے- فرد کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ میرا کوئی عمل کارخانہ قدرت میں ضائع نہیں ہو سکتا- اقبال (﷫)  کے بقول مسلمانوں کو سرمایہ درانہ نظام،جاگیرداری سسٹم اور ملازم سے نجات حاصل کرنی چاہیے-لیکچر میں طلباء کے علاوہ فیکلٹی ممبرز نے بھی بھر پور انداز میں شرکت کی-لیکچر کے اختتام پر سوال  و جوابات کا سیشن بھی ہوا- ڈاکٹر توصیف اقبال (فیکلٹی آف شریعہ اینڈ لاء) نے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب کے یونیورسٹی میں خطاب کے لیے تشریف آوری پر  فیکلٹی ممبرز کی جانب سے شکرانے کے کلمات ادا کیے اور مزید ایسے لیکچرز  کے لیے یونیورسٹی میں تشریف لانے کے لیے مدعو کیا-صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب  نے یونیورسٹی کے  اساتذہ کرام  کے ہمراہ سنٹرل  لائبریری کا دورہ بھی فرمایا-

٭٭٭



[1](ضربِ کلیم)

 

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر