پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کا سیاسی اور معاشی کردار

پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کا سیاسی اور معاشی کردار

پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کا سیاسی اور معاشی کردار

مصنف: ندا کنول مارچ 2022

زیرِ نظر مضمون میں تقسیمِ ہند سے لے کر آج تک پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کے کردار کی وضاحت کی گئی ہے-

ریاست ِجوناگڑھ کی تاریخ:

جوناگڑھ ریاست برطانوی ہندوستان کی 562 شاہی ریاستوں میں سے ایک تھی جسے برطانوی ہندوستان نے بالواسطہ طور پر کنٹرول کیا ہوا تھااور یہ ریاست کاٹھیاواڑ جزیرہ نما کے جنوب مغرب میں واقع تھی-اس کا رقبہ 3337 مربع میل اور 700000 آبادی تھی-آبادی کے لحاظ سے ، ریاست میں 80 فیصد ہندو آبادی اور تقریبا ً20 فیصد مسلم آبادی تھی- جوناگڑھ ریاست کاٹھیاواڑ کی اولین ریاست تھی اور جوناگڑھ کے ارد گرد کی (Peripheral) ریاستیں اسے ٹیکس ادا کرتی تھیں-  [1]

آدم جی ، دادا بھوئے ، داؤد گروپ جیسے مشہور کاروباری گروہ جونا گڑھ برادری سے تعلق رکھتےہیں- جوناگڑھ کے لوگ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی گجرات کاٹھیاواڑ سے تھا - دراصل نسب ، زبان اور مذہب کی وجہ سے جونا گڑھ کمیونٹی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے درمیان گہری وابستگی تھی اور یہ اُس کردار کا آغاز تھا جو جونا گڑھ کمیونٹی نے پاکستان کی تاریخ میں ادا کیا- قائداعظم کے قائم کردہ مسلم پریس فنڈز اور مسلم لیگ فنڈز میں میمن کمیونٹی نے دل کھول کر حصہ ڈالا- 1940ء میں قائداعظم نے فنڈز کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کیلئے خود گجرات کاٹھیاواڑ کے ہر کنارے اور مناوادر ، راجکوٹ، کٹیانہ ، پوربندر ، راناواو ، بانٹوا، جیٹ پور اور وانتھلی کا دورہ کیا اور اشتہار دیا- کمیونٹی نے انہیں عطیات پیش کیے-یہ قائد اعظم ؒ کی گجرات سے ذاتی وابستگی اور علاقے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے-

20 ویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں جوناگڑھ کمیونٹی قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کھڑی رہی تاکہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف ان کے اقدامات کی حمایت کریں- 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی شکست کے بعد یہ میمن کمیونٹی ہی تھی جس نے اُ ن کی مالی،اخلاقی اور عملی طور پر مدد کی- مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ بھی جونا گڑھ کمیونٹی کی مدد سے تشکیل دیا گیا- زیادہ تر مسلم لیگ کے کنونشن اور کانفرنسز کمیونٹی کی طرف سے منعقد کی جاتی تھیں اور فنڈنگ کی جاتی تھی -

پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کا سیاسی کردار:

جوناگڑھ سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان ہجرت کی جس میں مختلف برادریوں کے لوگ شامل تھے- ان لوگوں میں مسلم آبادی کی اکثریت تجارتی برادری سے تعلق رکھتی تھی جسے میمن کہا جاتا ہے-لیون اور تھاپلاوالا کے مطابق میمن 14 ویں اور 15 ویں صدی کے درمیان معروف ہوئے - جب سندھ کے ٹھٹھہ سے 700 لوہانہ ہندو خاندانوں کے ایک گروپ نے 1422 یا 1350 میں اس وقت کے صوفی سید یوسف الدین کی کوششوں سے اسلام قبول کیا جسے پیر یوسف سندھی بھی کہا جاتا ہے اور یہ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے خلیفہ تھے- پیر یوسف سندھی نے انہیں ’’مومن‘‘ کا نام دیا جو مقامی لسانی لہجہ کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ ’’میمن‘‘ میں بدل گیا- میمن بنیادی طور پر اپنی دو نمایاں خصوصیات کی وجہ سے مشہور تھے- پہلی اپنے مذہبی تقویٰ اور عقیدت جوموجودہ وقت کے میمن میں بھی دیکھی جاسکتی ہے اور دوسری تجارت اور کاروبار میں میمن کمیونٹی کی خوبیاں جو پوری ذات کی منفرد خصوصیت ہے- [2]

انتظامی کردار:

تقسیم کے ابتدائی دور میں جوناگڑھ کمیونٹی نے پاکستان کی انتظامیہ میں اہم کردار ادا کیا- جوناگڑھ برادری کے لوگ بڑی تعداد میں کراچی میں آباد ہوئے جنہوں نے نہ صرف اپنے لوگوں کو بلکہ دیگر صوبوں کے لوگوں کو سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا- وہ بحری جہازوں کے ذریعے کراچی پہنچنے میں لوگوں کی مدد اور انہیں راستے میں پناہ اور خوراک مہیا کر رہے تھے-[3]  مزید برآں! پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی سے کچھ لوگوں نے ایک اوکھائی میمن جماعت تشکیل دی جو ہجرت کرنے والوں کیلئے رہائش کا انتظام کرتی تھی- نومبر 1947ء میں جب ہزاروں تارکینِ وطن کراچی کے ساحل پر پہنچے تو کراچی انتظامیہ ان کے تحفظ اور بقا کیلئے فنڈز کا انتظام کرنے کے لیے پریشان تھی- انتظامیہ نے مہاجرین کیلئے چندہ اکٹھا کرنے کی غرض سے میمن کمیونٹی کی ایک میٹنگ کا اہتمام کیا جس کے نتیجے میں ایک میمن ریلیف کمیٹی بنائی گئی جس کا انتظامی ادارہ کاٹھیاواڑ کے میمن سے تعلق رکھنے والی سیاسی و سماجی شخصیات سے منتخب کیا گیا- کمیٹی نے اپنی خدمات کا آغاز کھوکھراپار ، سندھ اور راجھستان کی حدود میں واقع بنجر ریلوے اسٹیشن پر آنے والے لوگوں کو پناہ اور خوراک فراہم کر کے کیا- اس کمیٹی نے مہاجرین کو کراچی لانے کیلئے ایک ٹرین شروع کی اور ان کی سہولت کے لیے کیمپس قائم کیے- میمن کمیونٹی نے ایک رضاکار کور بھی بنایا جو کیمپوں میں رہنے والے تارکین وطن کی بنیادی ضروریات کا انتظام کرتا تھا- [4] کمیٹی نےپہلے سال میں 150000 روپے خرچ کیے جوبعد میں بڑھ کر 600000 روپے ہو گئے- اس کمیٹی نے 1955ء تک اپنی خدمات جاری رکھیں اور تقریباً 2 سے 2.5 ملین تارکین وطن کو فائدہ پہنچایا- [5]

سیاسی کردار:

نومبر 1960ء میں نواب ریاستِ جونا گڑھ نواب مہابت خانجی کا انتقال ہوا تو نواب دلاور خانجی نے جوناگڑھ کے شاہی خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے کام کیا- 1961ءمیں صدر پاکستان ایوب خان نے انہیں پاکستان کی جانب سے ریاست کے نواب کے طور پر تسلیم کیا- نواب دلاور خانجی نے پاکستان کی سیاست اور جوناگڑھ کے مسئلے میں نمایاں کردار ادا کیا- وہ 1976ءسے 1979ء تک سندھ کے گورنر رہے- انہوں نے جوناگڑھ کے مسئلے کو قومی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے جوناگڑھ اسٹیٹ مسلم فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی- پاک فوج کے ایک مشہور جنرل اے-او مہتا کا تعلق میمن کمیونٹی سے تھا- اسپیشل سروسز گروپ آف پاکستان کی تخلیق کے پیچھے ان کا بنیادی کردار تھا-1969ءمیں انہیں پولیس اصلاحات کے لیے نیشنل پولیس کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا- اشرف ڈبلیو تابانی ایک مشہور میمن بزنس مین تھے جو 1981ء سے 1984ء تک گورنر سندھ اور صوبائی وزیر خزانہ صنعت و ٹیکسیشن رہے- محمود ہارون پاکستان کے ایک تجربہ کار سیاستدان تھے جن کا تعلق میمن برادری سے تھا- انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ، گورنر سندھ، وفاقی وزیر دفاع ، کراچی کے میئر اور ڈان میڈیا گروپ کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں- وہ خلیج ٹائمز اخبار کے بانی بھی تھے- علاوہ ازیں یوسف ہارون پاکستان کی سیاست میں ایک نمایاں میمن شخصیت تھے- وہ مسلم لیگ کے رکن اور قائد اعظم کے قریبی معاون تھے- انہوں نے سندھ کے وزیر اعلیٰ اور مغربی پاکستان کے گورنر کے طور پر خدمات انجام دیں-مزید نثار میمن سینیٹ آف پاکستان اور ان کی بیٹی ماروی میمن نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں-سیاسی سطح پر الحاق کے بعد وہ پاکستان کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی کے ساتھ کھڑے رہے اور بھارتی حکام کے دباؤ کے باوجود کبھی اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا -  [6]

جوناگڑھ کمیونٹی کا معاشی کردار:

تخلیقِ پاکستان کے وقت مہاجرین کی بستیاں اور مالی مشکلات سمیت کئی بڑے چیلنجز تھے- میمن کمیونٹی نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں تجارتی فرمیں جبکہ کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں صنعتی یونٹ قائم کیے- 1954ءمیں کراچی اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری 48.3 فیصد میمن اور 17.7 فیصد دیگر گجراتی برادریوں کی تھی- اس وقت 22 کاروباری خاندان تھے جن میں سے 7 کا تعلق میمن کمیونٹی سے تھا- 1971ء تک پاکستان کے مختلف شعبوں میں میمنز کی سرمایہ کاری میں بینکنگ اینڈ انشورنس 13 فیصد ، وولن ٹیکسٹائل 72 فیصد ، کاٹن ٹیکسٹائل 26 فیصد، مصنوعی ٹیکسٹائل 50 فیصد ، پیپر انڈسٹری 29 فیصد ، جیوٹ انڈسٹری 33 فیصد، سیمنٹ اور کیمیکلز  45 فیصد، سبزیوں کا تیل 18 فیصد رہا-مزید میمنز نے اُسی سال اپنے مختلف کاروباری ذرائع سے 961 ملین روپے بطور ٹیکس ادا کیے جو اس وقت کل ٹیکس وصولی کا 27 فیصد تھا - معاشی طور پر جوناگڑھ کمیونٹی نے نہ صرف تقسیم کے وقت حمایت کی بلکہ پاکستان کی صنعتی ترقی کے ذریعے نمایاں آمدنی بھی فراہم کی- [7]

آدم جی گروپ:

آدم جی گروپ برصغیر پاک و ہند کے قدیم ترین کاروباری گروپس میں سے ایک ہے جس نے مالی بحران کے وقت پاکستان کو بھاری رقوم فراہم کیں- قائداعظم نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ ’’اگر ہمارے پاس سر آدم جی جیسے درجن آدمی ہوتے تو پاکستان پہلے ہی حاصل کر لیا جاتا‘‘-[8]

داؤد گروپ:

داؤد گروپ نے کاٹھیاواڑسے پاکستان ہجرت کی- اس گروپ نے مشرقی پاکستان میں کارنافولی میں پیپر مل حاصل کی جس نے 1971ء تک ملک کی اخباری ضروریات پوری کیں-[9]

رنگون والا گروپ:

محمد علی رنگون والا پاکستان کی تحریک آزادی میں شامل تھے- وہ پاکستان میں صنعت کے قیام میں بہت دلچسپی رکھتے تھے وہ پاکستان کے معروف مالیاتی اداروں کے بانی اور چیئرمین تھے جس میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری شامل ہیں -اس کے علاوہ محمد علی رنگون والا کا شمار اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈائریکٹر اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کے بانیوں میں ہوتا ہے- [10]

ایم ایچ دادا بھوئے گروپ:

عبدالغنی دادابھوئے جو قائداعظم کے بلانے پر پاکستان ہجرت کر آئے اور 1946ءمیں اپنا خاندانی کاروبار قائم کیا- اس گروپ نے بھی پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں مسلم لیگ اور حکومت پاکستان کی بہت زیادہ مدد کی- [11]

باوانی گروپ:

باوانی گروپ کی بنیاد سیٹھ احمد ابراہیم باوانی نے رکھی اس گروپ نے بھی پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں مسلم لیگ اور حکومت پاکستان کی بہت زیادہ مدد کی- [12]

اے کے ڈی گروپ:

اے کے ڈی گروپ کی بنیاد عبدالکریم ڈھیدی نے رکھی - اس گروپ نے بھی پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں مسلم لیگ اور حکومت پاکستان کی بہت زیادہ مدد کی-[13]

اے آر وائی گروپ:

اے آر وائی گروپ کی بنیاد عبد الرزاق یعقوب نے 1972ء میں رکھی - یہ گروپ 1960 ء سے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہا ہے-

پردیسی گروپ:

پردیسی گروپ بھی جونا گڑھی میمن کمیونٹی کا ایک نامور گروپ ہے جن کے کاروباری مراسم دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں- حاجی رفیق پردیسی، نجیب امین پردیسی اور سجاد پردیسی اس گروپ کے سرکردہ ناموں میں سے ہیں-مدینہ منورہ اور بغداد شریف میں اس گروپ کے زیرِ اہتمام اب بھی ہر سال وسیع لنگر چلائے جاتے ہیں -

پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کا سماجی کردار:

سماجی طور پر جوناگڑھ کے لوگوں نے پاکستانی معاشرے کے تمام سماجی شعبوں جیسے تعلیم، فن اور فن تعمیر، ادب، تعلیم ،صحت اور میڈیا میں خدمات انجام دیں-

تعلیم:

جونا گڑھ کمیونٹی نے پاکستان کے لوگوں کی تعلیم میں مثالی کردار ادا کیا-یہ عمل ایم اے رنگون والا نے شروع کیا تھا جنہیں کمیونٹی میں ’’فادر آف ایجوکیشن‘‘ کہا جاتا ہے- ان میں میمن ایجوکیشنل بورڈ، پاکستان میمن ویمن ایجوکیشنل سوسائٹی، جیٹ پور اور کٹیانا میمن ایسوسی ایشن شامل ہیں یہ ادارے اب بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں -[14]

فن اور فنِ تعمیر:

میمن کمیونٹی میں آرٹ کے سفر کا ذوق اور اندازہ اردو کے مشہور شاعر ولی دکنی سے لگایا جا سکتا ہے جو گجرات کی میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے- محمد عمر میمن اسلامی، فارسی، عربی اور اردو ادب میں ایک مشہور پاکستانی نام ہے- انہوں نے بہت سی کتابوں کا انگریزی اور عربی سے اردو اور اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا- اردو افسانوں پر ان کی تخلیقات نے بہت سے اردو ادیبوں کو دنیا کے دوسرے حصوں میں متعارف کرایا-

1987ء میں رنگون والا ٹرسٹ نے آصف رنگون والا کی سربراہی میں وی ایم آرٹ گیلری بنائی تاکہ پاکستان میں فنون لطیفہ اور فن کی تعلیم کو فروغ دیا جا سکے- 2004 ءمیں داؤد فاؤنڈیشن نے مریم داؤد سکول آف ویژول آرٹس تعمیر کیا تاکہ علم کی دیگر شاخوں کے ساتھ آرٹس کی تعلیم کو فروغ دیا جا سکے- فن تعمیر کے حوالے سے یہ کمیونٹی مساجد کی تعمیر کے لیے مشہور ہے-

صحت:

صحت کے شعبے میں جونا گڑھ کمیونٹی نے پاکستان کیلئے غیر معمولی سرگرمیاں کی ہیں- کمیونٹی نے بالخصوص صحت کی دیکھ بھال کے لیے بہت سے ہیلتھ کیئر ادارے بنائے ہیں جیسا کہ سیلانی ہسپتال، بانٹوا خدمت کمیٹی ہسپتال اور میمن جنرل ہسپتال وغیرہ- ان میں سے کچھ کو میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹس تک بڑھا دیا گیا ہے-

سماجی بہبود:

جونا گڑھ کمیونٹی پاکستان میں سماجی فلاح بہبود کے کاموں کیلئے مشہور ہے- پاکستان میں اس کمیونٹی کے زیرِ اہتمام بہت سی چھوٹی اور بڑی سماجی فلاح و بہبود کی تنظیمیں اور ٹرسٹ ہیں -

ایدھی فاؤنڈیشن:

ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد عبدالستار ایدھی نے رکھی جو کہ جوناگڑھ ریاست کے بانٹوا مناوادر سے تعلق رکھتے تھے- یہ پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم رہی ہے - 1997ء میں ایدھی فاؤنڈیشن نے گینز بک ریکارڈ قائم کر کے سب سے بڑی رضاکار ایمبولینس تنظیم بنائی- [15]

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ:

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی بنیاد ایک مشہور پاکستانی مذہبی اور روحانی سکالر مولانا بشیر فاروق قادری نے 1999ء میں رکھی تھی- ٹرسٹ اپنے تقریباً 100مراکز کے ذریعے روزانہ 30000 سے زائد لوگوں کو کھانا فراہم کر رہا  ہے-

عزیز تابا فاؤنڈیشن :

عزیز تابا فاؤنڈیشن 1987ء میں دل اور گردوں کے امراض کے علاج اور سہولت کے لیے قائم کی گئی - اس نے اپنی خدمات کا دائرہ صحت سے لے کر تعلیم اور سماجی بہبود تک بڑھایا-[16]

داؤد فاؤنڈیشن:

داؤد فاؤنڈیشن کی بنیاد داؤد گروپ کے بانی احمد داؤد نے 1960ء میں رکھی یہ بنیادی طور پر پاکستان میں تعلیم کے فروغ اور معاونت کیلئے تعلیمی منصوبوں پر کام کر رہا تھا- [17]

بانٹوا میمن جماعت:

بانٹوا میمن جماعت سماجی بہبود کا ادارہ ہے جو 2 جون 1950ءکو قائم کیا گیا- یہ پاکستان میں میمن برادری کے مہاجرین کی مدد اور سہولت کیلئے بنایا گیا جوزندگی کے ہر شعبے میں کمیونٹی کے لوگوں کی مدد کر رہا ہے-

جوناگڑھ کمیونٹی کا مذ ہبی کردار:

یوں تو جونا گڑھ علم و عرفان کیلئے ایک ذرخیز خطہ رہا ہے جہاں ہزاروں نامور علماء اور سینکڑوں برگزیدہ اولیاء  اللہ پیدا ہوئے جن کی ایک طویل فہرست مؤرخین نے لکھی ہے-شخصیات کی قد آوری انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے مثلاً اہلحدیث مکتبِ فکر کے پہلے مترجمِ قرآن مولانا محمد جونا گڑھی کا تعلق بھی جونا گڑھ سے تھا-سنی تحریک کے بانی مولانا سلیم قادری شہید کا تعلق بھی جونا گڑھ سے تھا- بین الاقوامی مذہبی تنظیم دعوت اسلامی کے بانی حضرت مولانا الیاس قادری صاحب  کا تعلق اسی میمن کمیونٹی سے ہے- ان کے آباؤ اجداد کا تعلق کٹیانہ جوناگڑھ سے تھا- وہ تقسیم کے بعد کراچی چلے گئے- اس کے علاوہ انجمن طلباء اسلام اور نظام مصطفےٰ پارٹی کے بانی سربراہ حاجی حنیف طیب صاحب کا تعلق بھی اسی جونا گڑھی میمن کمیونٹی ہے- اس کے علاوہ مشہور نعت خوان صدیق اسماعیل کا تعلق بھی جو نا گڑھ کمیونٹی سے ہے- [18]

کھیل/سپورٹس:

سپورٹس کی بات کی جائے تو محمد خاندان(حنیف محمد ، رئیس محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد) کا تعلق جوناگڑھ سے تھا- انہیں پاکستانی کرکٹ کے علمبردار سمجھا جاتا ہے- حنیف محمد پاکستان کے لیجنڈری کرکٹر تھے - ای ایس پی این کرکٹ کی معلومات نے انہیں ’’اوریجنل لٹل ماسٹر‘‘ کہا- معروف پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر جاوید میانداد کا تعلق بھی جونا گڑھ سے ہے- 2015ء میں اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے سی ای او سلمان اقبال نے کراچی کنگز کی فرنچائز خرید کر پاکستان سپر لیگ کی حمایت کی جو اب بھی ان کی ملکیت میں ہے- اے کے ڈی گروپ کے چیئرمین عقیل کریم ڈھیدی نے 2016 ءمیں فرنچائز کی سرپرستی کی- [19]

خلاصہ بحث:

جوناگڑھ کمیونٹی کے تاریخی حقائق اور موجودہ کردار سے عیاں ہے کہ جوناگڑھ اور پاکستان کے لوگوں کے درمیان کس قدر گہرے تعلقات ہیں جن کا عملی اظہار تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال جوناگڑھ کے لوگوں کا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ تھا- جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کے پسِ منظر میں بہت سے محرکات اور پہلو (جیسے نظریاتی وابستگی، مشترکہ مذہبی ، سماجی وثقافتی اقدار ) شامل تھے -مزید یہ کہ جوناگڑھ کے لوگ نواب سر محمد مہابت خانجی کی قیادت سے بہت زیادہ متاثر اور متحد تھے اس لیے انہوں نے نواب مہابت خانجی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ جس ملک سے الحاق کرنا بہتر سمجھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں-نواب مہابت خانجی نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان سے محبت اور وابستگی کے لیے اپنا تمام سامان اور جائیداد تک قربان کر دی-

جب جونا گڑھ کمیونٹی نے پاکستان ہجرت کی تو اس وقت پاکستان کو بہت سی مشکلات کا سامنا تھا جیسے معاشی وسائل کی کمی اور انتظامی انفراسٹرکچر وغیرہ - جوناگڑھ کے لوگوں نے پاکستان کی انتظامیہ کے ساتھ باہمی تعاون کیا اور پاکستان کی معاشی مشکلات کو ختم کرنے کیلئے مالی وسائل بھی پیش کیے- اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جوناگڑھ کمیونٹی نے پاکستان سے وابستگی کا نہ صرف دعویٰ کیا بلکہ اپنے عملی کردار سے اسے ثابت بھی کیا-

الغرض ! جوناگڑ ھ کمیونٹی نے بہت سے شعبہ جات میں پاکستان کیلئے خدمات سر انجام دیں ہیں اور پاکستان میں جوناگڑھ کمیونٹی کا کردار متاثر کن ہے-آج ہمیں جوناگڑھ کمیونٹی اور نواب آف جوناگڑھ کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر نواب آف جوناگڑھ مضبوط ہے توجونا گڑھ کا کیس مضبوط ہے اور اگر نواب کمزور ہے تو جوناگڑھ کا کیس کمزور ہوگا - لہذا ! حکومت ِ پاکستان کو نہ صرف جوناگڑھ کمیونٹی کے لوگوں کی شکایات دور کرنی چاہئیں بلکہ قومی و بین الاقوامی سطح پر نواب آف جوناگڑھ کو ریاستِ جوناگڑھ کا مقدمہ لڑنے کیلئے بھر پور تعاون بھی فراہم کرنا چاہیے-

٭٭٭


[1]Hodson, H. V. (1969). The great divide: Britain, India, Pakistan. London: Hutchinson.

[2]Memon World. (2021). A brief history of Memons Retrieved on 25 August 2021

[3]Dawn. (August 2, 2009). The forgotten hero

[4]Dr A.Q.Khan. (Pakistanlink, 2004). Pakistan ’s Memon Benefactors

[5]Dawn. (November 7, 2008). Mahmoud Haroon passes away

[6]Khaleej Times. (November 8,2008). Founder Editor of KT Passes Away

[7]Lewis, S. R., & Organisation for Economic Co-operation and Development. (1970). Pakistan: Industrialization and trade policies. London: Published for the Development Centre of the Organisation for Economic Co-operation and Development by Oxford University Press.

[8]Adamjee Group of Companies. (2021). Retrieved 25 August 2021, from http://www.adamjees.com/AdamjeeJinnah.html

[9]Parekh, Sattar. (2003). Enterprising Philanthropists, Karachi: Ahmed Abdullah Foundation, (N.D.)

[10]Levin, S. (1974). The Upper Bourgeoisie from the Muslim Commercial Community of Memons in Pakistan, 1947 to 1971. Asian Survey, 14(3), 231-243. doi:10.2307/2643012

[11]M h dadabhoy (2021). About Us. Retrieved 25 August 2021.

[12]Buwanyair (2021). Tribute to Our Chairman Retrieved 25 August 2021, from https://bawanyair.com/?page_id=15

[13]AKD Securities. (2021). Retrieved 25 August 2021.

[14]The Dawood Foundation. (2021). Mariam Dawood School of Visual Arts. Retrieved 26 August 2021, from https://www.dawoodfoundation.org/mariam-dawood-school-of-visual-arts/

[15]Tribune. (August 14, 2010). Minarets defining a city’s heritage

[16]Dawn. (July 22, 2014b). Quantum jump in donations to charities

[17]The Dawood Foundation. (2021). Mariam Dawood School of Visual Arts. Retrieved 26 August 2021, from https://www.dawoodfoundation.org/mariam-dawood-school-of-visual-arts/

[18]Muhammad Qasim. (2019). Introduction to Dawateislami. Medium Retrieved on 25 August.

[19]The News. (May 24, 2020). Cricketing Dynasties: The twenty-two families of Pakistan Test cricket

Espncricinfo. (August 11, 2016). The original 'Little Master', Pakistan's Hanif Mohammad dies aged 81.

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر