ابیات باھوؒ : عاشق پڑہن نماز پرم دی جیں وچ حرف نہ کائی ھو

ابیات باھوؒ : عاشق پڑہن نماز پرم دی جیں وچ حرف نہ کائی ھو

ابیات باھوؒ : عاشق پڑہن نماز پرم دی جیں وچ حرف نہ کائی ھو

مصنف: Translated By M.A Khan فروری 2021

  ع: عاشق پڑھن نماز پرم دی جیں وچ حَرف نہ کوئی ھو
جیہاں کیہاں نِیت نہ سَکّے اوتھے دردمنداں دِل ڈھوئی ھو
اکھیں نِیر تے خُون جگر دا اوتھے وضو پاک کریوئی ھو
جیبھ نہ ہلّے تے ہوٹھ نہ پھَڑکن باھوؒ خاص نمازی سوئی ھو

Aashiq performed prayer of love, without any words as such Hoo

Prayer intention could not be, because aashiq’s heart has capacity of such Hoo

Performed ablution with tears of eyes and blood of heart Hoo

Tongue would not move nor do lips shudder Bahoo actual praying is such Hoo

Aashiq pa’Rhan namaz param di jai;N wich ‘Harf na koi Hoo

Jehaa’N kehaa’N neet na sakkay oothay dard mandaa’N dil ‘Dhoi Hoo

Aakhee’N neer tay ‘Khoon jigr da oothay wazu paak kroi Hoo

Jeebh na hillay tay hoth na pha’Rkan Bahoo ‘Khas namazi soi Hoo

تشریح:

1-در اصل یہ اللہ پاک کے قرب و وصال کا ایسا مقام ہے جہاں طالب کو اللہ عزوجل کا کامل استغراق نصیب ہوتا ہے اور وہاں الفاظ کی حاجت نہیں ہوتی، بنا کہے سب کچھ عیاں ہوتا ہے اور بنا سُنے سب معلوم ہوتا ہے -جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں :

’’جہاں رازِ الٰہی ہے وہاں صوت و آواز کی ضرورت نہیں کہ کھلی آنکھیں رکھنے والا صاحب ِدید و مشاہدہ بین عالم مجاز سے بے نیاز ہوتا ہے ‘‘-(نورالھدٰی)

یہ بھی ایک علم ہے بلکہ تما م علوم کا منتہی مقام ہے جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’علم بھی دو قسم کا ہے ، ایک رسمی رواجی علم ہے جسے زبان سے پڑھا جاتاہے اور آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، اِس میں سر دردی اور خروشِ فغان ہے- دوسرا توحید ِالٰہی کا باطنی علم ہے جسے بغیر زبان کے پڑھا جاتا ہے اور بغیر آنکھ کے دیکھا جاتا ہے - اِس میں غرقِ مراقبہ ہو کر مکمل خاموشی سے مشاہدہ کیا جاتا ہے ‘‘-(محک الفقر(کلاں)

بی چشم بینم بخوانم بی زبان

 

معرفت لاھُوت اینست لا مکان

’’ مَیں بغیر آنکھوں کے دیکھتا ہواور بغیر زبان کے پڑھتا ہوں کہ اِسی کا نام معرفت ِلاھُوت لامکان ہے‘‘-(امیرالکونین)

2:اس کے دو حصے ہیں جن میں درجہ بندی کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کون لوگ اس نماز کی نیّت تک سے محروم ہیں اور کون لوگ اس نماز کے لطف و اکرام سے بہرہ مند ہیں-پہلا حصہ بیان کرتا ہے یہ نماز ہر ’’ایرے غیرے‘‘ (یعنی رَٹہ باز حافظوں ، فرقہ پرست ملاؤوں ، ریا کار زاہدوں اور خشک مغز منطقیوں ) کا کام نہیں بلکہ صرف اہلِ درد کاملین کو ہی اس نماز کی حقیقی لذت نصیب ہوتی ہے -جیسا کہ حضرت سلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں :

’’زاہد کی تسبیح خوانی مراتب ِقبولیت تک ضرور پہنچ جاتی ہے مگر رندوں کی درد آلود آہوں کی اثر آفرینی کا قرینہ ہی کچھ اور ہے‘‘-(عقل بیدار)

’’اُس راہ میں بے درد آدمی نامرد ہے کہ اہل ِ دل کے لئے درد کی دوا بھی درد ہے اور دل کی دوا بھی درد ہے‘‘-(کلید التوحید کلاں)

درد وسوز طالبان مولیٰ کیلیے وہ زادِ راہ ہے جس کو وہ اپنی جان سے بھی عزیز سمجھتے ہیں -

’’صاحب ِرازفقیر کیلئے رات دن فقرِلایحتاج جیسی جان سوز و پُر دردریاضت سے بہتراور کوئی چیز نہیں‘‘-(محک الفقر(کلاں)

’’ درویش وہ ہیں جو سارے جہان کا درد اپنے دل میں چھپائے رکھتے ہیں ‘‘-(محک الفقر(کلاں)

3: عاشقان ِ الٰہی اپنی اس عبادت وریاضت کو نامکمل وناقص تصورکرتے ہیں جس میں محبت کے آنسو اور خونِ جگر شامل نہ ہواس لیےآپؒ ارشادفرماتے ہیں :

’’جسے ذکر ِقلب نصیب ہو جاتا ہے اُس کے دل میں ذکرِ اَللّٰہُ جاری ہو جاتا ہے جس کی تپش سے اُس کی جان ہر وقت جلتی رہتی ہے، اُس کا گوشت بھن کر کباب ہو جاتا ہے، اُس کی آنکھیں آنسو بہاتی رہتی ہیں‘‘-(محک الفقر(کلاں)

’’آہ! تُو اُس راہِ راز پر چلنے کے لائق تب ہوگا کہ جب تُواپنی جان و جگر کو ہر وقت عشق ِ اِلٰہی کی آگ میں جلائے گا‘‘-(کلید التوحید کلاں)

4: یہاں پہلے مصرعہ کے مضمون کو مزید وضاحت اور ایک منفرد پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ، یہ بات بھی یاد رہے کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ کے طریقِ تربیّت و تزکیہ میں ذکر کا طریقہ کار بھی یہی ہے کہ ہونٹ آواز اور زبان کو بند کر کے سانسوں کے ذریعے ذکر کیا جاتا ہے حتیٰ کہ سانسوں کی آواز بھی نہ آئے-ایک مقام پہ آپ فرماتے ہیں:

نی علم نی صوت و حرفی نی آواز

 

عین بہ رسد عین باشد عین راز

4: ’’وہاں علم ہے نہ حروف ہیں اور نہ ہی صوت و آواز ہے، وہاں پہنچنے والا انوارِ عین میں گم ہو کر رازِ عین بن جاتا ہے‘‘-(امیرالکونین)

بے زبان پڑھنا دراصل سانسوں کو اللہ پاک کے ذکرمیں لگا کر دل سے اللہ عزوجل کی عبادت میں محو کرنا ہے،ایسے ذاکر کو سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے اپنی تعلیمات میں خاص نمازی کہا ہے ایک اورمقام پہ ارشادفرماتے ہیں:

’’لذت ِدیدار اور علمِ لقا کی راہ وہ ہے کہ جس میں پہلے ہی روز بغیر زبان کے تصور ِاسم اللہ ذات کا سبق پڑھنے سے حضوریٔ قرب اللہ نصیب ہوتی ہے اور اسم اللہ ذات کے تصورہی سےتمام وجود لَابَۃُالْقَلْبُ (لوحِ دل )کی قید و تصرف میں آ جاتا ہے- بعد میں اسم اللہ ذات کی توجہ سے تمام احوالات کا مشاہدہ کھل جاتا ہے ‘‘-(عقل بیدار)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر