حضرت سلطان باھوؒ کے نظریہ علم میں عقل کی بحث

حضرت سلطان باھوؒ کے نظریہ علم میں عقل کی بحث

حضرت سلطان باھوؒ کے نظریہ علم میں عقل کی بحث

مصنف: لئیق احمد جولائی 2020

نظریۂ علم یا ’’علمیات‘‘ جسے انگریزی زبان میں Epistemology کہتے ہیں- یہ فلسفے کی ایک اہم شاخ ہے اور اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ یہ وہ علم ہے جس میں حاصل کردہ معلومات کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے- اس شاخِ علم کا مقصد خود علم کے اپنے بارے میں جاننا ہے کہ علم فی نفسہٖ کیا ہے؟ علم کے مقاصد کیا ہیں؟ یا کیا ہونے چاہئیں؟ ایک آدمی علم سے کیا حاصل کر سکتا ہے؟ اور علم سے کیا حاصل کیا جانا چاہیے؟ علم کی حقیقی بنیاد کیا ہے؟ علم کے حصول کے ذرائع کیا ہو سکتے ہیں؟ علم کا صحیح یا غلط مصرف و استعمال کیا ہے؟ یہ اِس شاخِ علم کے متعلق محض چند ایک بنیادی سے سوالات ہیں-

اس شاخ علم کی سب سے اہم بحث یہ ہے کہ حصولِ علم کا بنیادی اور سب سے اہم ذریعہ کیا ہے؟ جس پر اہل فلاسفہ کے ہاں ایک طویل بحث ملتی ہے- بعض فلاسفہ جنہیں (rationalists) کہا جاتا ہے کہ نزدیک حصولِ علم کا بنیادی اور سب سے اہم ذریعہ عقل ہےجبکہ بعض فلاسفہ جنہیں (empiricists)کہا جاتا ہے کہ نزدیک حواسِ خمسہ ہے-

عقل کے حوالے سے ایک بات ذہن نشین رہنی چاہئے عقل پسندی اور عقل پرستی دو الگ الگ رویے ہیں - نہ صرف صوفیائے کرام کے ہاں بلکہ اہلِ فلسفہ کے نزدیک بھی یہ دونوں گروہ ہمیشہ موجود رہے ہیں - ہر ذی شعور و ذی عقل بنیادی طور پہ ’’عقل پسند‘‘ ہوتا ہے لیکن جہاں اختلاف ہے وہ مقام عقل پسندی نہیں بلکہ ’’عقل پرستی‘‘ ہے - یہ رویہ نہ صرف صوفیا میں رہا بلکہ فکرِ یونان میں بھی ، فلاسفۂ اسلام میں بھی اور حتّٰی کہ جدید مغرب میں بھی پایا جاتا ہے -

فلاسفۂ یونان میں دو گروہ تھے ایک وہ جو مؤحّد فلسفی تھے جنہیں امام غزالیؒ نے ’’الٰہیّین‘‘ کہا ہے - دوسرا گروہ مُلحد فلسفیوں کا تھا - اوّل الذکر کی نمائندگی افلاطون ، ارسطو اور فلاطینوس کرتے ہیں جبکہ آخر الذکر کی نمائندگی ڈیموکریٹس ، لیو کریٹس اور ایپی کیور کرتے ہیں - پہلا گروہ عقل پسند تھا مگر انسان میں عقل سے بالا تر قوتوں کا بھی اقرار کرتا تھا اور تصورِ خدا کا اثبات کرتا تھا چاہے وہ کسی بھی صورت میں تھا - جبکہ دوسرا گروہ عقل پرست یعنی مُلحد تھا اور عقل سے وریٰ ہر جذبے اور اس کے امکان کی نفی کرتا تھا اور کسی بھی ’’supreme existence‘‘کا انکار کرتا تھا -

اگر اسلام کی فکری تاریخ میں دیکھیں تو یہاں بھی دونوں گروہ ملیں گے، اشاعرہ اور ماتریدیہ نے عقلی دلائل و براہین پہ عقیدہ کو ثابت کیا، قرآن کی تاویل کی اور عقل پسندی کو فروغ دیا- جبکہ معتزلہ اور فلاسفہ کی دیگر ذیلی شاخوں نے عقل پسندی کی بجائے عقل پرستی کو فروغ دیا - حتٰی کہ وہ قرآنی آیات کا بھی یہ کَہ کر انکار کرتے کہ ’’اس آیت کو ماننا خلافِ عقل ہے ‘‘ -  ایسا نظریہ یقیناً انکارِ وحی کی ایک صورت اور ایپی کورئین فلسفے کا تسلسل ہے-

اگر جدید مغرب میں دیکھا جائے تو ان کے ہاں یونانی فلسفیوں میں دوسرے گروہ کو زیادہ اپنایا گیا خاص طور پہ ایپی کیوریئن فلسفہ کو، اِس لئے آگے چل کر جیسے جیسے کلیسا کا اثر ٹوٹا مغربی فکر و دانش نے مکمل طور پہ عقل پرستی اختیار کر لی - جس کو مزید جِلا ڈارون کے نظریے نے دی - جتنے بھی ڈاروینئن مفکرین ہیں وہ عموماً پوری شدت پسندی کے ساتھ ’’عقل پرست‘‘ ہوتے ہیں - جبکہ ڈارون کے نظریات سے اختلاف رکھنے والے مفکرین آج بھی عقل پرستی کی بجائے عقل پسندی کے پیروْ ہیں -

جب ہم صوفیائے کرام کی تعلیمات میں جھانکتے ہیں تو بالیقین یہ کَہ سکتے ہیں کہ ان کے افکار انسانی عقل کا بہترین شاہکار ہیں- صوفیا جس عقل کی نفی کرتے ہیں بنیادی طور پہ وہ ’’عقل پرستی‘‘ ہے جو راہِ خُدا سے دُور لے جاتی ہے اور انسانی مقاصد کو یوں دھندلا دیتی ہے کہ انسان اپنے مقصدِ تخلیق سے غافل ہوجاتا ہے - یہی وہ نقطہ ہے جہاں صوفیا کا ظاہر پرستوں سے اختلاف شروع ہوتا ہے -

صوفیائے کاملین نے عقل پہ بہت نفیس اور لطیف مباحث فرمائے ہیں- صوفیاء کی اکثریت یا تو اشعری تھی یا ماتریدی، اِسلئے وہ عقل پسند تو تھے مگر عقل پرست نہ تھے-  وہ عقل کا انکار نہیں کرتے بلکہ عقل کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں :

1.عقلِ جُز        2. عقلِ کُل

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ عقلِ کُل سے مراد عقلِ صادق کی تائید ہے اور عقلِ جُز سے مراد ایسی عقل ہے جو اپنے خول سے باہر نہیں جا سکتی ، اسی محدودیت کی وجہ سے وہ خود پرستی کا شکار ہوتی ہے -

زیرِ نظر تحریر میں ہم معروف عارف باللہ و صوفی دانشور سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو (قد س سرہ العزیز) کے عقل سے متعلق مباحث بالخصوص عقلِ جُز وعقلِ کُل کا جائزہ لیں گے- تاکہ یہ جان سکیں کہ اس بارے آپؒ کے افکار و خیالات ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں -

عقلِ جز و عقلِ کُل کی بحث :

انسانی جسم میں عقل وہ جوہر ہے جس کے بغیر حواس خمسہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے- مثلاً آنکھ خود فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کوئی نظارہ خوبصورت ہے یا بدصورت، آنکھ کا کام بس یہ ہے کہ وہ ان نظاروں کو محفوظ کر کے عقل کی طرف منتقل کر دیتی ہے، یہ فیصلہ عقل کرتی ہے کہ وہ نظارہ خوبصورت ہے یا نہیں- اسی طرح کان خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس تک پہنچنے والی آواز سریلی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ عقل کرتی ہےاور یہ عمل اتنی تیزی سے ہوتا ہے کہ ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہو پاتا- مختصر یہ کہ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لئے حواس خمسہ عقل کے محتاج ہیں- تعلیماتِ حضرت سلطان باهوؒ کے مطابق عقل کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے- اگر انسان کا نفس بیدار ہو اور قلب مردہ ہو جائے تو عقل کو رہنمائی اور توانائی نفس امارہ کی جانب سے ملتی ہے جس کے باعث عقل شر کو اختیار کر کے جز تک محدود ہو جاتی ہے اور انسان میں بے یقینی کی مقدار بد اعتقادی تک بڑھ جاتی ہے- اگر انسان کے وجود میں قلب زندہ اور نفس مردہ ہو تو اس عقل کو رہنمائی اور توانائی قلب کی جانب سے ملتی ہے جو اس عقل کو خیر کی طرف راغب کرتی ہے- ایسے شخص کے وجود میں عقل کل بیدار ہو جاتی ہے- جیسا کہ حضرت سلطان باهوؒ فرماتے ہیں :

’’جس کی عقل بیدار ہو وہ کلی طور پرمشرف دیدار رہتا ہے-جس نے یہ مرتبہ پالیا وہ جمعیت و اعتبار و یقین سے سرفراز ہو گیا‘‘- [1]

حضرت سلطان باهوؒعقل کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں- (1) عقل جزاور (2)عقل کل-

جیسا کہ حضرت سلطان باهوؒ فرماتے ہیں :

’’جان لے کہ آدمی کے وجود میں دو عقل ہیں، ایک عقل کل ہے اور دوسری عقل جز ہے‘‘-[2]

بعین اسی طرح سائنس بھی عقل کو دو حصّوں میں تقسیم کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عقل کا ایک حصّہ شعور ہے اور ایک لا شعور ہے- آگے بڑھنے سے پہلے ایک بار پھر یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حضرت سُلطان باھُو کے نزدیک عقلِ جُز تو یقیناً عقل پرستی کی ایک شکل ہے- لیکن عقلِ کُل سے مراد صرف عقل پسندی ہی نہیں بلکہ عقل پسندی کے ساتھ ساتھ اپنی عقل کو خالص طلبِ حق میں لگانا ہے تاکہ عقل کا وظیفہ ہی یہی بن جائے کہ ہر وقت مالکِ حقیقی کی طرف اور زندگی کے مقصودِ اصلی کی طرف راغب و متوجہ رہے -

عقل جز کا رد تعلیماتِ حضرت

سلطان باهوؒ کی روشنی میں:

مغربی فکر و فلسفہ زیادہ تر عقلیت پرستی (ایپی کیورئین و ڈارون ازم) پر کھڑا ہے- مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام امور جو انہیں ماورائے عقل نظر آتے ہیں ان کا وہ انکار کردیتے ہیں- حضرت سلطان باهوؒ کے نزدیک مادیت پرست اور نفس پرست عقل جز کے حامل ہوتے ہیں (یعنی سابقہ بحث کی روشنی میں عقل پسند کی بجائے عقل پرست ہوتے ہیں)، چاہے جتنا مرضی علم حاصل کر لیں ان کا علم معرفت حق تعالیٰ (یعنی مقصدِ حیات) تک پہنچنے میں ان کے آگے حجاب بن جاتا ہے-

جیسا کہ حضرت سلطان باهوؒ فرماتے ہیں :

’’وہ عجیب غافل لوگ ہیں جو عقل جز کی قید میں آکر علمِ جز کے مطالعہ میں مصروف رہتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہیں علمِ کل حاصل ہے‘‘-[3]

عقل جز کی نارسائی کی وضاحت میں حضرت سلطان باهوؒ اپنی تصنیف ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں امام غزالیؒ کا ایک قول رقم فرماتے ہیں:

’’جب مجھے تھوڑی سی عقل اور تھوڑا سا علم حاصل ہوا تو میں اس خود فریبی میں مبتلا ہو گیا کہ میں محرم اسرار ہو گیا ہوں لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ عقل بھی غفلت شعار ہے اور علم بھی حجاب اکبر ہے تو میں ان دونوں سے بیزار ہو گیا‘‘-[4]

اپنی اسی کتاب میں آپؒ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :

’’عارفوں کا انتہائی مقام نورِ الٰہی کا استغراق ہے جو حضوری کا مقام ہےوہاں عقل وفکر (یعنی عقل جز و فکرِ خام)کی گنجائش نہیں ‘‘-[5]

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :

’’حضورئ حق سے مشرف کرنے والا علمِ وصال اور چیز ہے اور عقل (عقل جز) و شعور کو جِلا بخشنے والا علم اور چیز ہے‘‘-[6]

بعین اسی طرح سلطان العارفین قدس اللہ سرہٗ نے طالبانِ مولیٰ کی رہنمائی فرماتے ہوئے عشق کو عقلِ جز پر سبقت لے جانے کی نصیحت یوں فرمائی ہے:

رحمت اُس گھر وِچ وَسّے، جِتّھے بَلدے دِیوے ھو
عشق ہوائی چڑھ گیا فلک تے، کِتّھے جہاز گھتیوے ھو
عقل فکر دی بیڑی نوں، چا پہلے پور بوڑیوے ھو
ہر جا جانی دِسے باھو، جِت ول نظر کچیوے ھو

یعنی رحمتِ الٰہی اس دل پر برستی ہے جہاں عشقِ الٰہی کے چراغ روشن ہو گئے ہوں- میرےعشق کا سمندردریائے وحدت تک چلا گیا- اب جہاز کو وہاں کیسے لنگراندازکیا جائے- عقل وفکر (یعنی عقل جز و فکرِ خام) کی کشتی کو توعشق کی راہ پر چلتے وقت ہی ڈبودینا چاہیے-اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ جدھر نظر اٹھائیں ہمیں ہر طرف ذاتِ حق تعالیٰ نظرآتی ہے-

عقل کل تعلیمات حضرت سلطان باهوؒ  کی روشنی میں:

عقل کی اِس حالت کو حضرت سُلطان باھُو نے عقلِ کُل بھی کہا ہے اور عقلِ بیدار بھی کہا ہے - حضرت سلطان باهو ؒعقل کل کو ذات حق تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’عقل (عقل کل) وہ ہے جو خدا تک راہنمائی کرے‘‘-[7]

ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرماتے ہیں :

’’عقلِ کُل دربار حق تک پہنچانے والی سواری کی مثل ہے‘‘- [8]

 عقلِ جز یقین کی دولت سے سرفراز نہیں کرتی- جیسا کہ حضرت سلطان باهوؒ فرماتے ہیں :

’’عقلی دلیل نقل کے موافق ہوتی ہے اور یقینی دلیل یقین کے موافق ہوتی ہے‘‘-[9]

جبکہ صاحب عقل کی کیفیت بیان فرماتے ہوئے آپؒ لکھتے ہیں :

’’جس آدمی کا دل پر جوش ہو، حوصلہ دریا نوش ہو اور وہ لب بستہ خاموش ہو اُسے صاحبِ عقل کل کہتے ہیں یعنی وہ ہر وقت جوشِ دل کے ساتھ خاموش عبادت میں مصروف رہتا ہے‘‘[10]

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :

’’عقلِ کُل اسے کہتے ہیں جو تمام کل وجز پر حاکم ہے‘‘-[11]

اسی لئے آپؒ سالک حق تعالیٰ کو یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ :

’’عقلِ جزوی کو چھوڑ کر عقلِ کلی حاصل کر‘‘-[12]

تعلیماتِ حضرت سلطان باهوؒ  کی روشنی میں صاحبان عقل کون ہیں:

تعلیمات حضرت سلطان باهوؒ کے نزدیک صاحبان عقل وہ ہیں جو اللہ‎ کی معرفت رکھتے ہیں اور اللہ‎ کے احکامات اور شریعت کی پاسداری کرتے ہیں- جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’عقلمند ہے وہ جو سب سے پہلے طالبِ اﷲہو پھر مریدِ محمد (ﷺ)ہو، موافقِ قرآن اور مخالفِ دنیا و نفس و شیطان ہو اور شریعت کا عامل ہو‘‘-[13]

عاقل کی وضاحت کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:

’’علم کے تین حرف ہیں اور عقل کے بھی تین حرف ہیں، علم وعقل یکجا ہو جائیں تو شرفِ انسانیت نصیب ہو جاتا ہے‘‘-

’’عاقل ہمیشہ اﷲ کی طلب میں مستغرق رہتا ہے اور اﷲ کی طلب میں تمام مطالب حل ہوتے ہیں‘‘-

’’انبیاء کی عقل ذاتِ حق کا عطیہ ہے اور اولیاء کی عقل اُنہیں معیتِ حق سے سرفراز کرتی ہے‘‘-

’’عاقل اہل نظر ہوتا ہے جو ہمیشہ مجلس نبوی علیہ الصلوٰۃ و السلام میں حاضر رہتا ہے- عاقل ہمیشہ طالبِ حق ہوتا ہے اور طالبِ دنیا شقی و بدبخت ہوتا ہے‘‘-[14]

صاحبان عقل کے اوصاف کو بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:

  1. عقل نورِ حق ہے جو چاند کی طرح آفتابِ حق سے روشن ہوتی ہے-
  2. دل کا اندھا عقل و رائے سے محروم ہوتا ہے اور وہ وحدتِ حق کی معرفت سے بے خبر رہتا ہے-
  3. عارفوں کی عقل ذاتِ حق کا عطیہ ہے اور وہ اوراقِ دل کے مطالعہ سے علم وحلم حاصل کرتے ہیں-
  4. امرِ کن کی حقیقت سے مَیں نے ایک نکتہ اخذ کیا اور اُس نکتے سے مَیں نے ذاتِ جاوداں کو پایا-
  5. مَیں قرآن کی ایک ایک آیت کی تہہ تک پہنچا اور اُسے اپنا رفیقِ راہ بنایا-
  6. عقل ایک راز ہے اُسے ادب میں تلاش کر، اُس کو پانے کا طریقہ بے عقل و بے ادب سے مت پوچھ-
  7. جس کے پاس عقل ہے وہ ہمیشہ خاموش رہتا ہے کہ اہلِ لاھُوت ہمیشہ لب بستہ خاموش ہی رہتے ہیں- [15]

تعلیمات حضرت سلطان باهو  ؒمیں بے عقل کون ہیں :

تعلیمات حضرت سلطان باهو ؒ کے نزدیک بے عقل وہ ہیں جو اللہ‎ پاک کی ذات سے غافل، نفس و شیطان کی پیروی کرنے والے اور دنیا کی محبّت میں گرفتار ہوں-ایسے لوگ قربِ حق تعالیٰ سے دور ہونے کے سبب ایسے سیاہ دل ہو جاتے ہیں کہ شریعت کا مذاق اڑانے لگتے ہیں اور اسے معمولی جانتے ہیں -جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’اہل بدعت فقیر فقیری کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن فقیر ہوتے نہیں -وہ گدا ہیں اور غلام نفس و ہوا ہیں-محروم از معرفت خدا ہیں اور حصول رزق کی خاطر سائلین بے حیاء ہیں یہ داڑھی منڈے عمر بھر طریقت و معرفت کا ‏منہ نہیں دیکھتے کہ یہ بے دیدہ لقمہ رزق کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں-ایسے اہل بدعت فقیروں کی فقیری دونوں جہاں کی روسیاہی ہے- یہ روسیاہ لوگ رات دن شراب و گناہ میں غرق رہتے ہیں انہیں روحانیت کے احوال کی خبر نہیں ہوتی‘‘- [16]

جیسا کہ حضور نبی کریم (ﷺ)کا فرمانِ عالیشان ہے:

’’دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہ ہو اور اس شخص کا مال ہے جس کے پاس کوئی مال نہ ہو ، اسے وہ شخص جمع کرتا ہے جس کے پاس کوئی عقل نہ ہو ‘‘-[17]

اسی نکتے کو واضح کرتے ہوئے سلطان العارفین ؒفرماتے ہیں :

’’اے درویش! غافل مرد وہ ہے جو ان تین دشمنوں سے با خبر رہے یعنی نفس سے کہ وہ دشمن جان ہے، شیطان سے کہ وہ دشمن ایمان ہے اور دنیا سے کہ وہ دشمن موجبِ زیان ہے-جو لوگ ان تین دشمنوں سے بے خبر ہیں وہ احمق و نادان و بے عقل و بے دانش و مطلق جاہل ہیں‘‘-[18]

دنیا طالبانِ مولیٰ کو بے عقل سمجھتی ہے اور حالانکہ وہ عاقل ہوتے ہیں جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں :

’’سن طالبِ مولا نگاہ خلق میں بے عقل ہوتا ہے مگر علم معرفت کی بدولت اللہ تعالیٰ کے نزدیک عاقل ہوتا ہے‘‘-[19]

خلاصہ بحث :

حضرت سلطان باهوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں عقلِ جز حقیقتِ مطلقہ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ ذاتِ حق تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے جو عقل انسان کی رہنمائی کرتی ہے وہ عقل کل ہے اور یہ عقل تب بیدار ہوتی ہے جب انسان اپنے حقیقی وجود یعنی روح کو اللہ‎ پاک کے قلبی ذکر اسم اللہ‎ ذات سے بیدار کر لیتا ہے- پھر یہ عقل نور حق کا کام دیتی ہے اور اس کے فیصلے معاشرے میں خیر کو رائج کرتے ہیں اور شر کو جڑ سے ختم کرتے ہیں- حضرت سُلطان باھُوؒ کی تعلیمات میں عقل کی بابت جو کہا گیا ہے اُس سے جو بُنیادی نِکات اخذ ہوتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھُو کے نزدیک (1) عقل نور ہے - (2)صاحبِ عقل اہلِ لاہوت ہوتا ہے - (3)عقل شرفِ انسانی ہے - (4)عقل اہلِ ادب سے ملتی ہے- (5)عقل اللہ کا عطیہ ہے - (6) دل کی آنکھ سے محروم عقل سے محروم ہوتا ہے-  (7) اہلِ عقل اہلِ نظر ہیں - (8) صاحبِ عقل طالبِ حق ہوگا - (9) اولیأ اللہ کی عقل انہیں قربِ حق دیتی ہے - (10) اہلِ عقل اہلِ عمل ہوتے ہیں - (11) عاقل کی نشانی خاموشی ہے - (12) حق تک لے جانے والی سواری عقل ہے - (13) عقلِ خام/عقلِ جز قابلِ بھروسہ نہیں - (14) عقل ظاہر پرستی کا نام نہیں -

٭٭٭


[1](عقل بیدار)

[2](محک الفقر کلاں)

[3](عقل بیدار )

[4](محک الفقر کلاں)

[5](ایضاً)

[6](عقل بیدار)

[7](عین الفقر، باب ششم)

[8]( محک الفقر کلاں)

[9](ایضاً)

[10](ایضاً)

[11](عقل بیدار)

[12](عین الفقر ،باب چہارم)

[13](عقل بیدار)

[14](ایضاً)

[15](ایضاً)

[16](امیرالکونین)

[17](شعب الا یمان للبیہقی، رقم الحدیث: 10637)

[18](محک الفقر کلاں)

[19](عقل بیدار)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر