ابیات باھوؒ : زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا دل دا پڑھدا کوئی ھو

ابیات باھوؒ : زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا دل دا پڑھدا کوئی ھو

ابیات باھوؒ : زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا دل دا پڑھدا کوئی ھو

مصنف: Translated By M.A Khan جون 2019

زبانی کلمہ ہر کوئی پَڑھدا دِل دا پَڑھدا کوئی ھو
جِتھے کلمہ دِل دا پڑھیئے اُتھے مِلے زبان ناں ڈھوئی ھو
دِل دا کلمہ عاشق پَڑھدے کی جَانن یار گلوئی ھو
ایہہ کلمہ اسانوں پیر پڑھایا باھوؒ میں سَدا سُوہاگن ہوئی ھو

Everyone is reciting kalima (Islamic creed) verbally but none acknowledges by heart Hoo

Where kalima is recited by heart, speech cannot play any part Hoo

Aashiq recite kalima with their heart how merely talkative could outsmart Hoo

This creed taught by my murshid Bahoo and I remain fortunate from start Hoo

Zabani Kalma har koi paRhda dill da paRhda koi Hoo

Jithay kalma dill da paRhiye othay milay zuban na Dhoi Hoo

Dill daa kalma aashiq paRhday ki janan yaar galoi Hoo

Aeh kalma asanoo pir paRhaya Bahoo mai sada suhagan hoi Hoo

تشریح : 

: جان لے کہ رسم و عاد ت کے طور پر کلمہ طیب پڑھ لینے کا مرتبہ اور ہے اور اللہ حی  ّقیوم کے قربِ حضورمیں کلمہ طیب پڑھنے کا مرتبہ و منصب اور ہے- رسول پاک (ﷺ) کا فرمان ہے  :’’قَا ئِلُوْنَ لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کَثِیْرًاوَّ مُخْلِصُوْنَ قَلِیْلاً ‘‘’’ (رسمی و رواجی طور پر)کلمہ طیب پڑھنے والے تو کثیر ہیں مگر اخلاص سے کلمہ طیب پڑھنے والے بہت قلیل ہیں‘‘ -[1]یاد رہے کہ جب تک کلمہ طیب  ’’لَآاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کو ظاہر میں اقرار ِزبان اور باطن میں تصدیق ِقلب کے ساتھ نہ پڑھا جائے تو نفس ہرگز مسلمان نہیں ہوتا- [2]

تکمیل ایمان کے لیے قلبی تصدیق نہایت ضروری ہے  حضور نبی کریم (ﷺ) کے فرمان مبارک کی روشنی میں ایمان  درحقیقت دو چیزوں ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِ یْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘[3]کے مجموعے کا نام ہے،اخلاص اور تصدیق کی مزید  وضاحت فرماتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:

’’اگر روپیہ کے سکے پر ’’لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کی مہر  درست و صاف ہو مگر اُس کے اندر سیم و زر کھوٹا ہو اور اُسے آگ میں تپا کر پانی میں ڈالا جائے تو کھرا ہونے کی صورت میں جو ش دکھاتا ہے اور اگر کھوٹا ہو تو سیاہ و شرمندہ ہو کر خاموش رہتا ہے- پس ہر چیز کا دارومدار تصدیق ِدل پر ہے‘‘- [4]

کہ  ذ کرِ  خاص  باشد  پاس  انفاس

 

نہ  ذاکر  دلق  پوشاں  مکر  لباس[5]

2-’’ذکر ِخاص وہ ذکر ہے جو ہر سانس کے ساتھ کیا جائے، یہ مکرو فریب کا لباس پہننے والے گدڑی پوش ذاکر نہیں ہوتے‘‘-

قلبی ذکر  کی اہمیت حضور نبی کریم (ﷺ)کی اس فرمان مبارک سےبھی واضح  ہوتی ہے جس میں آپ (ﷺ)نے حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ)کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’ اے علی! آنکھیں بند کر لے اور اپنے دل میں ذکر ِ  لَآاِلٰہَ  اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی آواز سن‘‘[6] کیونکہ جب تک دل سے اللہ پاک کا ذکرنہ کیا جائے، اس وقت تک دل سے نہ حجابات اٹھتے ہیں اورنہ  دوسرے گناہ و عیوب رفع ہوتے ہیں جیسا کہ آقاکریم (ﷺ)کا فرمان  مبارک ہے:’’اپنے دل کو ذکرِ اللہ میں مشغول رکھ، اگر تُو دل کو ذکرِاللہ میں مشغول نہیں رکھے گا تو تُو دنیا کے غم و اندیشوں میں گھرا رہے گا ‘‘- جو دل غم ہائے دنیا میں مشغول رہے گا وہ یادِ حق سے دُور ہو جائے گا - جو دل بیوی بچوں اور کھانے پینے کے لئے غمگین رہے گا وہ باطن کے شغل سے محروم رہے گا - ایسا دل خراب رہے گا اور خراب دل شغل ِباطن نہیں کر سکتا ‘‘-[7]

سیّاح توحید است شد عارف خضر

 

نی علم نی صوت و حرفی نی  آواز[8]

3-’’وہ نورِ توحید کا پاک و طیب مقام ہے جہاں کا سیاح ایک راہنما عارف ہی ہو سکتا ہے-وہاں علم ہے نہ حروف ہیں اور نہ ہی صوت و آواز ہے ‘‘-

’’ذکر ِخفیہ کا تعلق نصیحت و وعظ سے ہے نہ صوت و آواز سے بلکہ ذکر ِخفیہ کا تعلق معرفت ِ الٰہی، مشاہدۂ قربِ حضور اور مشاہدۂ نورِ راز سے ہے- ذاکر ِخفیہ صاحب ِزاد (مالک ِکل )، صاحب ِ آزاد، باطن آباد اور شوقِ شغل ِ اللہ میں شاد ہوتا ہے-ذاکر ِخفیہ علم میں عامل اور فقر و معرفت میں کامل ہوتا ہے، اُس کا حوصلہ وسیع ہوتا ہے اور وہ راہِ حق میں صعوبتیں برداشت کرنے والا ہوتا ہے ‘‘-[9]

4: عالمِ ظاہر شاگرد کو  قُلْ ھُوَ اللّٰہُ  اَحَدٌ  کا زبانی سبق پڑھاتاہے اور فقیر عارف طالب اللہ کو نظر و توجہ سے سبق پڑھاتاہے ا ور طالب اللہ تفکر ِدل کے ساتھ  وَکَفٰی بِا للّٰہِ (میرے لئے اللہ کافی ہے) کہتا ہے اور عین ِعیان سے دیکھ کر  حَسْبِیَ اللّٰہُ ( میرے لئے اللہ کافی ہے) کہتا ہے-[10]  اس لیے آپؒ فرماتے ہیں :تصدیق ِدل ا ور علمِ ارشاد فقیر سے حاصل کر‘‘[11] آپؒ مرشد کی مزید شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :مرشد جامع’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہُ ‘‘o مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا‘‘کا یہ مرتبہ تصور اسم اللہ ذات اور کلمہ طیبات’’ لَآاِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کی حاضرات سے کھول کر دکھا  دیتا ہے-[12]


[1](نور الھدی)

[2](امیر الکونین)

[3](ایضاً)

[4](عین الفقر)

[5](ایضاً)

[6](اسرار القادری)

[7]محک الفقر(کلاں)

[8](امیر الکونین)

[9](محک الفقر کلاں)

[10](امیر الکونین)

[11](عقلِ بیدار)

[12](شمس العارفین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر