ابیات باھوؒ

ابیات باھوؒ

Bloodthirsty falcon of love only drinks the blood of people with longing pain Hoo

 

Taken dwelling in the breast like lion seizes jungle’s reign Hoo

Like frenzied elephant will charge to attack Hoo

O Bahoo do not worry about such attack, there is no union without such attack Hoo

Dard mandaa’N da Khoon jo peenda berho’N baaz marela Hoo

Chhaati day wich keetas Dera jewai’N sher betha mal bela Hoo

Hathi mast sandori wango’N karda pela pela Hoo

Os pelay da wiswas na kijiye Bahoo pelay bajh na’N honda mela Hoo

تشریح:

درد مند محبت کے اسیر ہوتے ہیں محبت کبھی درد مندوں کو آسُودہ حال ہونے نہیں دیتی-باز سے مراد معشوقِ الٰہی مرشد ہے-معشوقِ الٰہی مرشد طالب کو عاشق بنانے کی فکر میں ہوتا ہے-مرشد عاشق کے قلب و روح کو غیرا للہ مقاصد سے پاک کرتا ہے کہ جیسے صراف سونے کو آگ کی بھٹی میں ڈال کر خالص کرتا ہے-اس لیے مرشد طالب فقیر کو غیر اللہ محبتوں سے پاک کرتا ہے-یہ راہِ فقر کی تربیت ہے جس میں ہرطالب کا کامیاب ہونا ضروی ہے-مرشد کی روحانی تربیت ہی وہ عقاب ہے جو طالب کی نفسانی خواہشات کو اپنے پنجوں سے مار ڈالتا ہے اور اس کے دل کی کھیتی کو معرفتِ الٰہی کے لیے تیار کرتی ہے-حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

’’مرشد کو بلند پرواز شہبازِ قدس ہونا چاہیے جو لامکان میں پرواز کر سکے-یہ چیل صفت لوگ ہر گز مرشد نہیں جن کی نظر ہر وقت دنیائے مردار پر لگی رہتی ہے،یہ تو محض مردہ و مردار بردار چیلیں ہیں-اِسی طرح طالب وہ ہے جو لائق ِ دیدارِ پروردگار ہو،دنیا و اہل ِ دنیا سے بیزار ہو، اُس کی نظر سعادت پر ہو اور وہ عبادت ِ ربانی میں ہوشیار و زندہ دل ذاکر ِبیدار ہو‘‘-[1]

آپ اسی امر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ:

’’فقیرِ محمدی (ﷺ)راہِ فقرفنا فی اللہ میں اِستقامت و مضبوطی سے قدم رکھتا ہے کہ اُس کے سر پر فقر کا نام ہے اور فقر کے سر پر اللہ کا نام ہے یعنی فقرأ اللہ کے نام سے فقیر بنتے ہیں اور اللہ ہی کے نام سے شہباز بنتے ہیں-راہِ فقر میں اگر کوئی ثابت قدم رہتا ہے تو وہ صاحب ِ رازِ حقیقی بن جاتا ہے-اگر کوئی فقر اور اللہ کے نام سے برگشتہ ہوتا ہے اور ہمت و اِستقامت کو چھوڑ کر دنیا و اہل ِدنیا کی طرف مراجعت کرتا ہے تو وہ مرتبۂ شہبازیٔ فقر و راز سے منہ موڑتا ہے-وہ گویا چیل ہے جس کی نظر مردار پر اٹکی ہوئی ہے اِس لئے وہ دونوں جہان میں ذلیل و خوار ہے‘‘-[2]

مرشد کی مذکورہ تربیت رنگ لاتی ہے اورطالب فقیر میں طلبِ الٰہی کی اُمنگ پیدا ہوجاتی ہے-مرشد اِسی اُمنگ کومدِ نظر رکھتے ہوئے طالب فقیر کو تصورِ اسم اللہ ذات کا نقش عطا کرتا ہے اوراُسے مشق وجودیہ کرواتا ہے-جس کی وجہ سے طالب کے دل میں عشق الٰہی ڈیرہ ڈال لیتاہے-آپ قدس اللہ سرہ کی تعلیمات میں عموماً شیر سے مراد تصورِ اسم ذات اورمرشد کامل ہے -یہ دونوں عشقِ الٰہی کی بڑے ذرائع اورمآخذ ہیں -حضرت عشق طالب فقیر کے دل میں یوں براجمان ہوجاتا ہے جیسے جنگل میں شیر اپنی بادشاہت قائم کرتا ہے-جس دل میں عشق الٰہی جاگزین ہوجائے وہاں سے ماسوٰی اللہ اغراض دور ہوجاتیں ہیں-آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

’’سروری قادری مرشد نر شیر جیسا با ہمت شہ سوار ہوتا ہے -لومڑی کی کیا مجال کہ شیر کے سامنے دم مارے‘‘؟[3]

’’یہ کم ہمت ہوس پرست لوگ ترکِ دنیا کہاں کر سکتے ہیں ؟ تجھے چاہیے کہ تُو اہل ِ  ہمت مردوں میں شامل ہو کر شیر مرد ہو جا ‘‘-[4]

مبتدی طالب خواہشاتِ نفس کی وجہ سے مست ہاتھی کی مانند ہوتاہے اورمرشد بھی فیل بان کی طرح اُسے قابوکرنا خوب جانتا ہے-

’’عشق کی رونقوں اوربربادیوں کی مثال تو اُس ہاتھی کی سی ہے جسے ہندو اپنے میلوں میں سندور لگا کرکھلا چھوڑ دیتے ہیں-وہ جہاں جہاں سے گزرتا ہے دکانوں اور اپنے سامنے آنے والی ہرچیز کوتوڑتا اورلتاڑتا چلاجاتا ہے-لوگ کچلے جاتے ہیں مگر میلے میں آنے والے اس سب توڑ پھوڑ کو بھی میلے کی رونق کاحصہ سمجھتے ہیں-یعنی عشق کا میلہ لگتا ہے تو طالب بدمست ہاتھی کی طرح عشق کے میلے سے نکلنا چاہتا ہے لیکن مرشد فیل بان کی طرح اُسے قابومیں رکھتا ہے-اگراِسی دوران طالب سے کچھ نقصان بھی ہوجائے تب بھی مرشد پروا نہیں کرتا اورطالب کی خواہشات کے ہاتھی کورام رام کرکے دم لیتاہے‘‘-

 



[1]  (محک الفقر کلاں)

[2](ایضاً)

[3](کلید توحید کلاں)

[4](محک الفقر)

تشریح:

درد مند محبت کے اسیر ہوتے ہیں محبت کبھی درد مندوں کو آسُودہ حال ہونے نہیں دیتی-باز سے مراد معشوقِ الٰہی مرشد ہے-معشوقِ الٰہی مرشد طالب کو عاشق بنانے کی فکر میں ہوتا ہے-مرشد عاشق کے قلب و روح کو غیرا للہ مقاصد سے پاک کرتا ہے کہ جیسے صراف سونے کو آگ کی بھٹی میں ڈال کر خالص کرتا ہے-اس لیے مرشد طالب فقیر کو غیر اللہ محبتوں سے پاک کرتا ہے-یہ راہِ فقر کی تربیت ہے جس میں ہرطالب کا کامیاب ہونا ضروی ہے-مرشد کی روحانی تربیت ہی وہ عقاب ہے جو طالب کی نفسانی خواہشات کو اپنے پنجوں سے مار ڈالتا ہے اور اس کے دل کی کھیتی کو معرفتِ الٰہی کے لیے تیار کرتی ہے-حضرت سلطان باھُو قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

’’مرشد کو بلند پرواز شہبازِ قدس ہونا چاہیے جو لامکان میں پرواز کر سکے-یہ چیل صفت لوگ ہر گز مرشد نہیں جن کی نظر ہر وقت دنیائے مردار پر لگی رہتی ہے،یہ تو محض مردہ و مردار بردار چیلیں ہیں-اِسی طرح طالب وہ ہے جو لائق ِ دیدارِ پروردگار ہو،دنیا و اہل ِ دنیا سے بیزار ہو، اُس کی نظر سعادت پر ہو اور وہ عبادت ِ ربانی میں ہوشیار و زندہ دل ذاکر ِبیدار ہو‘‘-[1]

آپ اسی امر کے بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ:

’’فقیرِ محمدی (ﷺ)راہِ فقرفنا فی اللہ میں اِستقامت و مضبوطی سے قدم رکھتا ہے کہ اُس کے سر پر فقر کا نام ہے اور فقر کے سر پر اللہ کا نام ہے یعنی فقرأ اللہ کے نام سے فقیر بنتے ہیں اور اللہ ہی کے نام سے شہباز بنتے ہیں-راہِ فقر میں اگر کوئی ثابت قدم رہتا ہے تو وہ صاحب ِ رازِ حقیقی بن جاتا ہے-اگر کوئی فقر اور اللہ کے نام سے برگشتہ ہوتا ہے اور ہمت و اِستقامت کو چھوڑ کر دنیا و اہل ِدنیا کی طرف مراجعت کرتا ہے تو وہ مرتبۂ شہبازیٔ فقر و راز سے منہ موڑتا ہے-وہ گویا چیل ہے جس کی نظر مردار پر اٹکی ہوئی ہے اِس لئے وہ دونوں جہان میں ذلیل و خوار ہے‘‘-[2]

مرشد کی مذکورہ تربیت رنگ لاتی ہے اورطالب فقیر میں طلبِ الٰہی کی اُمنگ پیدا ہوجاتی ہے-مرشد اِسی اُمنگ کومدِ نظر رکھتے ہوئے طالب فقیر کو تصورِ اسم اللہ ذات کا نقش عطا کرتا ہے اوراُسے مشق وجودیہ کرواتا ہے-جس کی وجہ سے طالب کے دل میں عشق الٰہی ڈیرہ ڈال لیتاہے-آپ قدس اللہ سرہ کی تعلیمات میں عموماً شیر سے مراد تصورِ اسم ذات اورمرشد کامل ہے -یہ دونوں عشقِ الٰہی کی بڑے ذرائع اورمآخذ ہیں -حضرت عشق طالب فقیر کے دل میں یوں براجمان ہوجاتا ہے جیسے جنگل میں شیر اپنی بادشاہت قائم کرتا ہے-جس دل میں عشق الٰہی جاگزین ہوجائے وہاں سے ماسوٰی اللہ اغراض دور ہوجاتیں ہیں-آپ قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ:

’’سروری قادری مرشد نر شیر جیسا با ہمت شہ سوار ہوتا ہے -لومڑی کی کیا مجال کہ شیر کے سامنے دم مارے‘‘؟[3]

’’یہ کم ہمت ہوس پرست لوگ ترکِ دنیا کہاں کر سکتے ہیں ؟ تجھے چاہیے کہ تُو اہل ِ  ہمت مردوں میں شامل ہو کر شیر مرد ہو جا ‘‘-[4]

مبتدی طالب خواہشاتِ نفس کی وجہ سے مست ہاتھی کی مانند ہوتاہے اورمرشد بھی فیل بان کی طرح اُسے قابوکرنا خوب جانتا ہے-

’’عشق کی رونقوں اوربربادیوں کی مثال تو اُس ہاتھی کی سی ہے جسے ہندو اپنے میلوں میں سندور لگا کرکھلا چھوڑ دیتے ہیں-وہ جہاں جہاں سے گزرتا ہے دکانوں اور اپنے سامنے آنے والی ہرچیز کوتوڑتا اورلتاڑتا چلاجاتا ہے-لوگ کچلے جاتے ہیں مگر میلے میں آنے والے اس سب توڑ پھوڑ کو بھی میلے کی رونق کاحصہ سمجھتے ہیں-یعنی عشق کا میلہ لگتا ہے تو طالب بدمست ہاتھی کی طرح عشق کے میلے سے نکلنا چاہتا ہے لیکن مرشد فیل بان کی طرح اُسے قابومیں رکھتا ہے-اگراِسی دوران طالب سے کچھ نقصان بھی ہوجائے تب بھی مرشد پروا نہیں کرتا اورطالب کی خواہشات کے ہاتھی کورام رام کرکے دم لیتاہے‘‘-



[1](محک الفقر کلاں)

[2](ایضاً)

[3](کلید توحید کلاں)

[4](محک الفقر)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر