امیر الکونین قسط 45

امیر الکونین قسط 45

 عجیب احمق ہیں وہ لوگ کہ جن کے مرشد و طالب سیاہ دل ہیں اور معرفت ِ قرب اللہ سے بے خبر ہیں ، ایسے طالب بے شعور و خام و نام کے طالب ہیں-معلوم ہوا کہ اِس قسم کے طالب و مرشد دونوں اہل ِتقلید اور عوام الناس ہیں-

ابیات: (1)’’ مرشد اگر مرد ہے تو اُس کے طالب بھی مرد ِکامل ہوں گے-ایسا مرد مرشد طالبوں کو خزائن ِ سیم و زر کا تصرف بخشتا ہے‘‘- (2)’’یا اُنہیں معرفت ِوحدت ِحضور بخش دیتا ہے - مرشد و طالب کو اِس طرح کا باتوفیق ہونا ضروری ہے‘‘-(3)’’ خام مرشد طالبوں سے مال و زر طلب کرتا ہے، ایسا مرشد دونوں جہان میں گمراہ ہوتا ہے‘‘-(4)’’کامل مرشد طالبوں سے جو کچھ بھی لے وہ اُس کے لئے روا ہے لیکن مرشد کے لئے راہبرِ خدا ہونا ضروری ہے‘‘- (5)فقیر باھُو طالبوں کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے جس طرح کہ زرگر سونے اور چاندی کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے‘‘-

طالب کو قُوت (غذا)و قوت مرشد کی توفیق سے حاصل ہوتی ہے-اگر طالب ظاہر باطن میں صاحب ِتحقیق ہے تو مرشد ِکامل پہلے ہی روز اُسے ہر عمل کا تصرف بخش کر اُس کا حق اپنی گردن سے ساقط کر دیتا ہے بشرطیکہ طالب وسیع حوصلہ رکھتا ہو کیونکہ کم حوصلہ طالب کسی کام کا نہیں ہوتا -

بیت: ’’ مَیں طالب بھی ہوں، مرشد بھی ہوں اور راز بین بھی ہوں اِس لئے مَیں طالبوں کو خوب اچھی طرح پہچان لیتا ہوں‘‘-

انجان کی راہ دراز ہوتی ہے ، وہ تمام عمر چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ اُس کی جان لبوں تک آ پہنچتی ہے لیکن مرشد ِکامل طالب اللہ کو ایک ہی نظر میں مرتبہ بخش کر مشرفِ دیدار کر دیتا ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’ اور اپنے ربّ کی عبادت کرتے رہو حتیٰ کہ تم مراتب ِ یقین پر پہنچ جاؤ  ‘‘-

ابیات: (1)’’عبادت ِ دیدار کو دیدار سے آراستہ کر تاکہ تُویقین و ایمان کے ساتھ قبر میں جائے‘‘- (2)’’ یہ عبادتِ رحمۃ للعٰلمین ہے جو یقینا معرفت ِتوحید ہے‘‘- (3)’’یہ عبادت اللہ تعالیٰ کے فضل و عفو و کرم سے نصیب ہوتی ہے، جو لقائے حق کا منکر ہے وہ بت پرست ہے‘‘- (4)’’ہر عبادت کا مقصود دیدار ِالٰہی ہے کہ مخلوق کو پیدا ہی دیدار ِحق کے لئے کیا گیا ہے‘‘- (5)’’ مرشد ِکامل طالب اللہ کو لقائے حق کی تلقین کرتا ہے اور علمِ حضوری بخش کر اُسے معیت ِ خدا میں پہنچاتا ہے‘‘-(6)’’یہ دائمی عبادت طاعت طلب ہے اور طاعت حضوری ٔراز ِ رب ہے‘‘- فرما نِ حق تعالیٰ ہے: ’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اپنی عبادت کے لئے یعنی اپنی معرفت و پہچان کے لئے‘‘-

بیت: ’’ میرا دل اُس کے دیدار سے زندہ ہو گیا اور میری آنکھیں اُس کی دید کے قابل ہو گئیں‘‘-

جو آدمی تصور ِ عین العلم اسم اللہ ذات کو جا ن لیتا ہے وہ پل بھر کے لئے بھی دیدار ِ پروردگار سے غافل نہیں رہتا -یہ چشمِ ظاہر اور ہے جسے سر میں دیدار ِخلق کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ چشمِ سرّ اور ہے جو دیدار ِخالق کے لئے دیدۂ نور ِعیانی قدرت ِ ربانی اسرار ِسبحانی کی مظہر ہے-جو طالب لقائے حق کی طلب میں جان فدا کرنے کے لئے عمر بھر سر پر کفن باندھ کر حضوری ٔ لقائے پروردگار کی پیاس میں ہر وقت مرنے کے لئے تیار رہتا ہے اُسے دم بھر میں ایک ہی قدم پر دیدار ِالٰہی سے مشرف کر دینا کون سا مشکل کام ہے، مرشد ِکامل کے لئے یہ کچھ بھی دشوار نہیں ہے -

 

ابیات: (1)’’ مَیں نے کسی بھی طالب کو معرفت ِ دیدار کی طلب کا پیاسا نہیں پایا اور نہ ہی کسی آنکھ کو راز ِ ربّ کی طلب کا منتظر پایاہے‘‘-(2)’’جو بھی طالب ہیں وہ اپنے مطلب کے یار ہیں، وہ احمق خود نما و بے ادب و بے حیا ہیں‘‘-(3)’’اگر طالب خضر علیہ السلام کے سامنے موسیٰ علیہ السلام کی مثل ہو تو اُس کی نظر نیک و بد کی طرف متوجہ رہتی ہے‘‘- (4)’’موسیٰ علیہ السلام نے ظاہری نظر سے دیکھا تو اُنھیں ہر ثواب گناہ نظر آیا حالانکہ خضر علیہ السلام کا ہر کام راہ ِخاص سے متعلق ثواب تھا‘‘- (5)’’ اُمت ِرسول اللہ (ﷺ)کے عارف خضر و موسی (علیھم السلام)سے فائق تر ہیں کہ وہ اہل ِدیدار اہل الوصول ہیں‘‘-(جاری ہے)

 عجیب احمق ہیں وہ لوگ کہ جن کے مرشد و طالب سیاہ دل ہیں اور معرفت ِ قرب اللہ سے بے خبر ہیں ، ایسے طالب بے شعور و خام و نام کے طالب ہیں-معلوم ہوا کہ اِس قسم کے طالب و مرشد دونوں اہل ِتقلید اور عوام الناس ہیں-

ابیات: (1)’’ مرشد اگر مرد ہے تو اُس کے طالب بھی مرد ِکامل ہوں گے-ایسا مرد مرشد طالبوں کو خزائن ِ سیم و زر کا تصرف بخشتا ہے‘‘- (2)’’یا اُنہیں معرفت ِوحدت ِحضور بخش دیتا ہے - مرشد و طالب کو اِس طرح کا باتوفیق ہونا ضروری ہے‘‘-(3)’’ خام مرشد طالبوں سے مال و زر طلب کرتا ہے، ایسا مرشد دونوں جہان میں گمراہ ہوتا ہے‘‘-(4)’’کامل مرشد طالبوں سے جو کچھ بھی لے وہ اُس کے لئے روا ہے لیکن مرشد کے لئے راہبرِ خدا ہونا ضروری ہے‘‘- (5)فقیر باھُو طالبوں کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے جس طرح کہ زرگر سونے اور چاندی کو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہے‘‘-

طالب کو قُوت (غذا)و قوت مرشد کی توفیق سے حاصل ہوتی ہے-اگر طالب ظاہر باطن میں صاحب ِتحقیق ہے تو مرشد ِکامل پہلے ہی روز اُسے ہر عمل کا تصرف بخش کر اُس کا حق اپنی گردن سے ساقط کر دیتا ہے بشرطیکہ طالب وسیع حوصلہ رکھتا ہو کیونکہ کم حوصلہ طالب کسی کام کا نہیں ہوتا -

بیت: ’’ مَیں طالب بھی ہوں، مرشد بھی ہوں اور راز بین بھی ہوں اِس لئے مَیں طالبوں کو خوب اچھی طرح پہچان لیتا ہوں‘‘-

انجان کی راہ دراز ہوتی ہے ، وہ تمام عمر چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ اُس کی جان لبوں تک آ پہنچتی ہے لیکن مرشد ِکامل طالب اللہ کو ایک ہی نظر میں مرتبہ بخش کر مشرفِ دیدار کر دیتا ہے- فرمانِ حق تعالیٰ ہے : ’’ اور اپنے ربّ کی عبادت کرتے رہو حتیٰ کہ تم مراتب ِ یقین پر پہنچ جاؤ  ‘‘-

ابیات: (1)’’عبادت ِ دیدار کو دیدار سے آراستہ کر تاکہ تُویقین و ایمان کے ساتھ قبر میں جائے‘‘- (2)’’ یہ عبادتِ رحمۃ للعٰلمین ہے جو یقینا معرفت ِتوحید ہے‘‘- (3)’’یہ عبادت اللہ تعالیٰ کے فضل و عفو و کرم سے نصیب ہوتی ہے، جو لقائے حق کا منکر ہے وہ بت پرست ہے‘‘- (4)’’ہر عبادت کا مقصود دیدار ِالٰہی ہے کہ مخلوق کو پیدا ہی دیدار ِحق کے لئے کیا گیا ہے‘‘- (5)’’ مرشد ِکامل طالب اللہ کو لقائے حق کی تلقین کرتا ہے اور علمِ حضوری بخش کر اُسے معیت ِ خدا میں پہنچاتا ہے‘‘-(6)’’یہ دائمی عبادت طاعت طلب ہے اور طاعت حضوری ٔراز ِ رب ہے‘‘- فرما نِ حق تعالیٰ ہے: ’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اپنی عبادت کے لئے یعنی اپنی معرفت و پہچان کے لئے‘‘-

بیت: ’’ میرا دل اُس کے دیدار سے زندہ ہو گیا اور میری آنکھیں اُس کی دید کے قابل ہو گئیں‘‘-

جو آدمی تصور ِ عین العلم اسم اللہ ذات کو جا ن لیتا ہے وہ پل بھر کے لئے بھی دیدار ِ پروردگار سے غافل نہیں رہتا -یہ چشمِ ظاہر اور ہے جسے سر میں دیدار ِخلق کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور وہ چشمِ سرّ اور ہے جو دیدار ِخالق کے لئے دیدۂ نور ِعیانی قدرت ِ ربانی اسرار ِسبحانی کی مظہر ہے-جو طالب لقائے حق کی طلب میں جان فدا کرنے کے لئے عمر بھر سر پر کفن باندھ کر حضوری ٔ لقائے پروردگار کی پیاس میں ہر وقت مرنے کے لئے تیار رہتا ہے اُسے دم بھر میں ایک ہی قدم پر دیدار ِالٰہی سے مشرف کر دینا کون سا مشکل کام ہے، مرشد ِکامل کے لئے یہ کچھ بھی دشوار نہیں ہے -

ابیات: (1)’’ مَیں نے کسی بھی طالب کو معرفت ِ دیدار کی طلب کا پیاسا نہیں پایا اور نہ ہی کسی آنکھ کو راز ِ ربّ کی طلب کا منتظر پایاہے‘‘-(2)’’جو بھی طالب ہیں وہ اپنے مطلب کے یار ہیں، وہ احمق خود نما و بے ادب و بے حیا ہیں‘‘-(3)’’اگر طالب خضر علیہ السلام کے سامنے موسیٰ علیہ السلام کی مثل ہو تو اُس کی نظر نیک و بد کی طرف متوجہ رہتی ہے‘‘- (4)’’موسیٰ علیہ السلام نے ظاہری نظر سے دیکھا تو اُنھیں ہر ثواب گناہ نظر آیا حالانکہ خضر علیہ السلام کا ہر کام راہ ِخاص سے متعلق ثواب تھا‘‘- (5)’’ اُمت ِرسول اللہ (ﷺ)کے عارف خضر و موسی (﷩)سے فائق تر ہیں کہ وہ اہل ِدیدار اہل الوصول ہیں‘‘-(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر