ابیات باھوؒ : قَلب ہلیا تاں کیا کُجھ ہویا کِیا ہویا ذِکر زَبانی ھو

ابیات باھوؒ : قَلب ہلیا تاں کیا کُجھ ہویا کِیا ہویا ذِکر زَبانی ھو

ابیات باھوؒ : قَلب ہلیا تاں کیا کُجھ ہویا کِیا ہویا ذِکر زَبانی ھو

مصنف: Translated By M.A Khan نومبر 2022

قَلب ہلیا تاں کیا کُجھ ہویا کِیا ہویا ذِکر زَبانی ھو
قَلبی، رُوحی، خَفّی، سرّی سبّھے راہ حیرانی ھو
شہ رگ تھیں نزدیک جلینْدا یار نہ مِلیوس جانی ھو
نام فقیر تنہاندا باھوؒ جِہڑے وَسدے لامَکانی ھو

If heart palpitates than what happened what you have gained from verbal dhikr Hoo

Qalbi, ruhi, khafi and sirri are paths of confusion Hoo

He lives closer than jugular vein yet you could not unite with beloved Hoo

Faqeer is your name Hazrat Bahoo ra who resides in la-makani Hoo

Qalb hilya ta’N kia kujh hoya kiya hoya zikr zabani Hoo

Qalbi, roohi, ‘Khafi, sirri sabhay rah ‘Herani Hoo

Shah rag thei’N nazdeek  jalainda yaar na milous jaani Hoo

Naam faqeer tinhaanda Bahoo jeh’Ray wasday laa maqani Hoo

تشریح: 

ما ز ما و مِنّی جدا ماندہ

 

من و تُو رفتہ و خدا ماندہ

1-’’ ہم ’’ ہماری اور میری‘‘ کے فرق سے پاک ہو چکے ہیں ، ہمارے وجود سے جب عالَمِ مَن و  تُو مٹ گیا تو باقی خدا رہ گیا‘‘-(محک الفقرکلاں)

سیدی رسول اللہ (ﷺ)کا فرمان مبارک ہے :

’’قَا ئِلُوْنَ لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کَثِیْرًاوَّ مُخْلِصُوْنَ قَلِیْلًا‘‘

 

’’ (رسمی و رواجی طور پر)کلمہ طیب پڑھنے والے تو کثیر ہیں مگر اخلاص سے کلمہ طیب پڑھنے والے بہت قلیل ہیں‘‘-(نورالھدٰی)

صوفیاء کرام خود زبانی اورقلبی ذکر کے بہت بڑے داعی  ہیں، اُن کی خانقاہوں پہ   آج بھی بڑی شان وشوکت  اور تزک واحتشام  کے ساتھ   زبانی وقلبی  ذکراللہ کی محافل   کا انعقاد ہونا اس چیزکا واضح ثبوت ہے-لیکن صوفیاءکرام محض اس پہ نہ خود اکتفا کرتے ہیں اور نہ اپنے طالبوں کو اس کی تلقین کرتے ہیں بلکہ ان کی تعلیمات   مبارکہ کا خلاصہ ظاہر کو شریعت مطہرہ اور باطن کو انوار وتجلیاتِ الٰہی سے مزین کرنا ہوتا ہے -اُن کے  مبارک آستانوں پہ تکرار کے ساتھ طالبان ِ مولیٰ کو یہ درس دیاجاتا ہے کہ    ’’ باہجھ وصال اللہ دے سبھ کہانیاں قصّے ھُو‘‘-

2- سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’جو فقیر چار افکار یعنی فکر ِازل، فکر ِابد، فکر ِدنیا ، فکر ِعقبیٰ،چار اذکار یعنی ذکر ِ ِزبانی جومحض عادت ہے ، ذکر ِقلبی جو اِرادت ہے،ذکر ِروحی جو عبادت ہے اورذکر ِسرّی جو عین سعادت ہے، چار دموں یعنی دمِ ناسوت،دمِ ملکوت،دمِ جبروت اوردمِ لاھُوت،چار نفسوں یعنی نفس ِامارہ، نفس ِملہمہ، نفس ِلوامہ اور نفس ِمطمئنہ،چار مقامات یعنی مقامِ شریعت،مقامِ طریقت،مقامِ حقیقت اور مقامِ معرفت میں سے ہر مقام کو طے کر کے پس ِ پشت نہیں ڈال دیتا ،ہر ایک کو بھلا نہیں دیتا ، اپنا رخ نورِاَللہُ   کی طرف کر کے غرق فنا فی اللہ، فنا فی فنا ،بقا فی بقا اور مغفور فی مغفور نہیں ہو جاتا اور مراتب ِقرب و وصال حاصل کر کے عین بعین صاحب ِحضور نہیں ہو جاتا اُسے فقیر نہیں کہا جا سکتا کہ ابھی تک اُس میں’’ ہم اور مَیں‘‘ کی بُو سمائی ہوئی ہے‘‘-(محک الفقرکلاں)

3-اگر طالب اللہ اپنے آپ کو محض زبانی ذکر ،فکر اورکشف وکرامات تک محدود رکھے گا تو اللہ تعالیٰ کے شہ رگ سے قریب ہونے باوجود  وہ اُس ذاتِ اقدس کے قرب ووصال سے محروم رہے گا۔اس لیے  آپؒ طالب اللہ  کونصیحت کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں :

’’ وِرد وظائف کو چھوڑ اور استغراقِ وحدت طلب کر کہ اُس سے تُو قرب ِحق کا عارف بن جائے گا‘‘-(امیرالکونین)

4- سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒ کی تعلیمات  مبارکہ کے مطابق فقیر ساکنِ لامکانی(لامکان کا باسی ورہائشی  )ہوتا ہے- جیسا  کہ آپؒ ا رشادفرماتے ہیں:

’’جو فقیر تصدیق ِدل اور اقرارِ زبان کے ساتھ شوق و محبت سے اسم اَللّٰہُ کا ذکر کرتا ہے اور ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ تصور ِ اسم اَللّٰہُ  میں مشغول رہتاہے وہ گویا ہر سانس کے ساتھ قرآن مجید کے چار ہزار ختم کرتا ہے- ایسا حافظ ِرحمانی، حافظ ِقرآنی، ساکن ِلامکانی، زندہ جاودانی ذاکر اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے جو اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اُس سے محبت کرتا ہے‘‘-(عین الفقر)

لامکان کیا چیز ہےاور اس کا حصول کس طرح ممکن ہے؟ اس کے بارے میں آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’معرفت ِ ذات کی اِبتدا تصورِ اسم اﷲذات کی مدد سے لامکان میں پہنچ کر چشمِ باطن سے نورِ توحید ِذات کے مشاہدے سے ہوتی ہے -اِس میں مقام و مکان کی بجائے نورِ ذاتِ لامکان پایا جاتا ہے-جو آدمی یہ کہے کہ معرفت ِتوحید ِذات سے مراد مرتبہ و مکان ہے وہ باطن سے بے خبر و محروم آوارہ حیوان ہے-یہ مراتب ِمعرفت ِذات حضور نبی کریم (ﷺ) کی رفاقت اور شریعت ِمطہرہ اور کلمہ طیب لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں- یہ ہے را ہِ تحقیق ِ لامکان ،جو کوئی اِس میں شک کرے وہ زندیق ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

اس کے حصول کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے آپؒ ارشادفرماتے ہیں :’’جب خدا کسی کو چاہتا ہے اور اُسے اپنی طرف جذب کرتا ہے تو وہ اپنے وجود کے ساتوں اندام سے نور بن کر لامکان میں پہنچ جاتا ہے اور لامکان غیر مخلوق ہے - یہ مرتبہ جسے بھی نصیب ہوتا ہے تصورِ اسم اَللّٰہُ  سے نصیب ہوتا ہے کیونکہ اسم اَللّٰہُ  صاحب ِتصور کو اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچاتا ہے‘‘-(عقلِ بیدار)

  آپؒ اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں: ’’ مَیں راہِ حق میں سر قربان کر کے بے سر ہو چکا ہوں، میرا جسم یہاں ہے لیکن جان اللہ کے پاس ہے‘‘-(عین الفقر)

مزید ارشادفرمایا:’’میرا جسم یہاں ہوتا ہے اور جان لامکان میں اُس کی دید میں غرق ہوتی ہے‘‘-(عقلِ بیدار)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر