قومی حضرت سلطان باھو کانفرنس

قومی حضرت سلطان باھو کانفرنس

قومی حضرت سلطان باھو کانفرنس

مصنف: مسلم انسٹیٹیوٹ مارچ 2022

افتتاحی سیشن

مسلم انسٹیٹیوٹ اور یونیورسٹی آف جھنگ کے باہمی تعاون سے 20 جنوری 2022ء کو چناب کالج جھنگ میں ’’قومی حضرت سلطان باھو کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا-کانفرنس تین سیشنز پہ مشتمل تھی، افتتاحی سیشن، اکیڈیمک سیشن اور کلام باھُو سیشن- افتتاحی سیشن میں صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب  (دیوان آف جوناگڑھ سٹیٹ و چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ) نے افتتاحی خطاب کیا- جبکہ پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر (وائس چانسلر، یونیورسٹی آف جھنگ) نے اختتامی کلمات ادا کئے ڈاکٹر محترمہ انعم سلیم لیکچرر یونیورسٹی آف جھنگ نے افتتاحی سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سر انجام دئیے- کانفرنس میں پروفیسرز، محققین، تاریخ دان، پارلیمنٹیرئینز کے علاوہ نوجوان طلباء و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی-

مقررین کی جانب سے کیے گئے اظہارِ خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:

افتتاحی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی

دیوان آف جوناگڑھ اسٹیٹ و چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ

اس اکیڈیمک کانفرنس کی بنیادی وجہ یہ ہے کے حضرت سلطان باھُوؒ کی شخصیت اور آپؒ کی تعلیمات کا تاریخ، ثقافت، مذہب اور فلسفیانہ لحاظ سے جائزہ لیا جائے اور اس آپ کی زندگی اور افکار کو موجودہ دور کے تناظر میں سمجھا جا سکے- جس طرح ہر خطے کی اپنی تاریخ و ثقافت ہوتی ہے اسی طرح وادیٔ سندھ کی بھی ایک صوفی تہذیب ہے  کیونکہ اس صوفی ادب ایک نصاب کی حیثیت رکھتا ہے جو مقامی زبان سے تشکیل دیا گیا- اگر ہم حضرت سلطان باھُوؒ کے کُل 200 ابیات پر غور کریں اور اسے مروجہ عالمی معیار کے مطابق مرتب کریں تو یہ 23 صفحات پر مشتمل ایک مختصر سی کتاب بنتی ہے- یہ اس قدر مختصر کتاب 17ویں صدی میں لکھی گئی اور اس کا آج تک کوئی متبادل نہیں-2013ء میں مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام حضرت سلطان باھُوؒ پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں پروفیسر گرہارڈبورنگ، ییل یونیورسٹی سے تشریف لائے اور انہوں نے بتایا کہ حضرت سلطان باھُوؒ کی کتب پر بیرون ممالک بھی تحقیق کا کام جاری ہے - حضرت سلطان باھُوؒ نے انتہائی گہرے فلسفیانہ مباحث کو منفرد انداز میں پیش کیا جو محققین کی توجہ کا مرکز بنیں جیسا کہ ’’ڈیتھ بفور ڈائنگ‘‘ یعنی موت سے پہلے موت جس کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے شائع کیا- حضرت سلطان باھُوؒ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے-

معزز مہمان

 سید مہدی شاہ

) پرنسپل ، چناب کالج جھنگ)

حضرت سلطان باھُوؒ  ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حق و صداقت کی واضح دعوت سے لوگوں کی تقدیر بدل دی کیونکہ ان کے کلام کا تعلق آفاقیت سے ہے- حضرت سلطان باھُوؒ کا کلام ادب اور روحانیت کا حسین امتزاج ہے اور انسانی روح اس کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ آپؒ کا کلام دلوں میں اتر کر روح تک پہنچتا ہے اور ہمیں ایمان کی تازگی بخشتا ہے- حضرت سلطان باھُوؒ ایک عظیم انسان تھے اور انہوں نے انسانیت کیلئے بہت کچھ کیا- جہاں تک ان کے کلام کا تعلق ہے تو آپ جانتے ہیں کہ ایک لفظ ’’ھُو‘‘ جو ان کی شاعری میں غالب ہے یہ ادبی لحاظ سے شاید شاعرانہ تصنع ہے لیکن روحانی لحاظ سے یہ رب کریم اور رسول  کریم(ﷺ) سےہمارے تعلق کو جوڑتا ہے- ہم جھنگ کے لوگ خوش قسمت ہیں کہ ہم حضرت سلطان باھوؒ کی سرزمین پر پیدا ہوئے اور میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیم و تبلیغ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے-

معزز مہمان (بذریعہ ویڈیو لنک )

پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب

 چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل

اس افراتفری پر مشتمل آج کل کی زندگی میں ہمارا صوفی ثقافت کی طرف رجوع قابل تحسین ہے- ہماری یہ بنیادی ضرورت ہے کے ہم لوگ اپنے نوجوانوں میں اپنی تاریخ کو زندہ رکھیں کہ ہمارے آباءواجداد صوفی ثقافت سے کس قدر متاثر رہے ہیں- اسی طرح ایک وقت تھا جب مسلمان اپنے عروج پر تھے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب مسلمانوں نے اپنی سب سے بڑی سلطنت، عباسی سلطنت زوال کا شکار ہوتی دیکھی- اس کے بعد منگول اور تاتار سلطنت نے دنیا کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا- اس مشکل وقت میں علماء کرام اور صوفیاء کرام ہی تھے جنہوں نے اسلامی اقدار کو زندہ رکھا- 1917ء میں وسطی ایشیاء کی کچھ ریاستوں پر اشتراکی (سوشلسٹ) حکومت کے نے قبضہ کر لیا تھا- اس وقت اسلامی ثقافت اور اقدار کو روزمرہ کی زندگی سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی اس کے علاوہ مساجد بند کر دی گئی تھی- اس سنگین صورتحال میں صوفیاء کرام نے اسلامی تشخص کو محفوظ رکھا یہی وجہ ہے کہ سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد ہمیں وسطی ایشیائی ممالک میں دوبارہ اسلام نظر آ رہا ہے- حضرت سلطان باھُوؒ 17ویں صدی میں جھنگ شہر میں پیدا ہوئے اور ان کی تعلیمات محبت کا پیغام دیتی ہیں- ان کی تعلیمات میں قرآن اور رسول اللہ (ﷺ) کی تعلیمات کی عکاسی کرتی ہے-

معزز مہمان (بذریعہ ویڈیو لنک )

ڈاکٹر بصیرہ عزیز علیوف

 آذربائیجان نیشنل اکیڈمی آف سائنسز

جب بھی ’’اسلام‘‘ یا ’’تصوف‘‘ جیسے الفاظ کسی کے غور و فکر کے عمل میں داخل ہوتے ہیں تو انسان کو ایک اندرونی سکون محسوس ہوتا ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کے اس فانی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انسانیت نے بہت سے صوفیائے کرام کو دیکھا ہے جو باطنی سکون کے حصول کیلئے رسول اللہ (ﷺ)کے راستے کی تبلیغ کرتے رہے- حضرت سلطان باھُوؒ ان بلند پایہ ہستیوں میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں- سلطان باھُوؒ نے 140 سے زائد کتابیں لکھیں جو صوفیانہ اسرار و رموز سے مالا مال ہیں- دوسرے صوفیاء کی طرح سلطان باھُوؒ کہتے ہیں کہ کامیابی انسان کے باطن کی صفائی میں پنہاں ہے-

دِل کالے کولوں مُنْہ کالا چَنگا جے کوئی اُس نوں جانی  ھو
مُنہ کالا دِل اچھا ہووے تاں دِل یار پِچھانی ھو
اِیہہ دل یار دے پِچھے ہووے مَتّاں یار وی کَدی پِچھانی   ھو
سَے عالم چھوڑ مَسِیتاں نَٹھّے باھوؒ جَد لگے نیں دِل ٹِکانی ھو

عصر حاضر کے معاشرتی برائیوں کے مسائل کا حل تصوف پر عمل کرنے میں چھپا ہے- آذربائیجان اور پاکستان کی دوستی کی تاریخ دونوں خطوں میں تصوف کی قبولیت کی وجہ سے ہے-

پروفیسر ڈاکٹر زیڈ اے اعوان

حضرت سلطان باھُوؒ پہ مصنف، امریکہ

میں تمام نوجوان بیٹیوں کو ڈاکٹر اینی میری شمل کے بارے میں پڑھنے کا مشورہ دوں گا- وہ ایک جرمن محققہ تھیں جو علامہ محمد اقبال کی تعلیمات سے متاثر ہو کر عاشقِ رسول کریم (ﷺ) بن گئیں- وہ بہت سادہ سی خاتون تھیں لیکن روحانیت کی ایک مثال تھیں- مزید یہ کہ حضرت سلطان باھوؒ کے بارے میں امریکہ میں بھی تحقیق ہورہی ہے، خواہ وہ کچھ محدود ہی کیوں نہ ہوں لیکن امریکہ کے لوگ سلطان باھوؒ کی تعلیمات سے مستفید ہو رہے ہیں- حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کو فلسفے کے ساتھ ساتھ موسیقی میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے لیکن لوگ موسیقی میں ان کی شاعری سن کر ان کی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہیں- حضرت سلطان باھوؒ اس فانی دنیا کی حقیقت کو کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ :

عمر بندے دی اینویں وہانی جیویں پانی وچ پتاسا ھو

انسان کی زندگی اس طرح ہے جیسے پانی میں پتاسا- اگر اس حقیقت کو ذہن میں رکھا جائے تو انسان ہمیشہ صحیح راستے کا انتخاب کرتا ہے-

صدارتی کلمات

پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر

وائس چانسلر،یونیورسٹی آف جھنگ

حضرت سلطان باھُو ؒ کا پیغام آفاقی ہے جو پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے- اس خطے کی خوش قسمتی ہے کہ حضرت سلطان باھُو ؒ کا تعلق جھنگ کی دھرتی سے ہے اور آپؒ سے ھنگ کی شناخت وابستہ ہے- اگر آپ حضرت سلطان باھُو ؒ کے لٹریچر اور اشعار کو پڑھیں تو آپ کو ان کے مقام کا اندازہ ہو گا- جیسے ولیم شیکسپیئر، شیلے، جان ملٹن، انگریزی ادب اور دوسری زبانوں کے فلسفہ کو ہم پڑھتے ہیں لیکن بلھے شاہ، وارث شاہ، رحمان بابا، خواجہ فرید اور حضرت سلطان باھُوؒ کے افکار پر ہماری ریسرچ اور توجہ کم ہے- حضرت سلطان باھُو ؒ کا پیغام کیا تھا؟ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

’’ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى‘‘

’’پس فلاح پا گیا وہ جس کا تذکیہ ہوا‘‘-

 پس معلوم ہوا مسلمانوں کے لئے فلاح تزکیہ میں ہے- اگر وہ تزکیہ کر لیں گے تو فلاح پا جائیں گے-

’’وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا‘‘

’’اور پس برباد ہو گیا وہ جس نے خواہشات کی پیروی کی‘‘-

اکیڈیمک سیشن

کانفرنس کے اکیڈیمک سیشن میں مہمانِ خصوصی صاحبزادہ محمد محبوب سلطان (وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور) تھے- سیشن کی صدارت صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب (دیوان آف جوناگڑھ سٹیٹ و چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ ) نے کی- سیشن کے اختتام پہ وقفہ سوال و جواب بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں شرکاء نے معزز مقرین سے موضوع سے متعلق سوالات کئے جن کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے- مدثر ایوب ریسرچ ایسوسی ایٹ مسلم انسٹیٹیوٹ نے سیشن میں ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دئیے -

معزز مہمان

ڈاکٹر عثمان جمشید

لیکچرر ایگریکلچرل یونیورسٹی ملتان

حضرت سلطان باھُو ؒ کے نزدیک زندگی میں علم کا دامن تھامے بغیر کسی بھی منزل تک رسائی ناممکن ہے- جیسا کہ ایک علم ظاہر ہے اور دوسرا علم باطن ہے- علم ظاہر مادی علوم کا علم ہے جو ہمیں مختلف قسم کے اداروں سے حاصل ہوتا ہے علم باطن کو دیکھا جائے تو صوفیائے کرام کے ہاں علم ظاہر کے ساتھ ساتھ علم باطن پر بھی مفصل بحث ملتی ہے- جس کا ذکر حضرت سلطان باھُو ؒ یوں فرماتے ہیں:

عِلموں بَاجھوں فَقر کماوے کافِر مَرے دیوانہ ھو

علم حاصل کیے بغیر کسی بھی منزل ومقام کی جستجو انسان کو راہ راست سے ہٹا دیتی ہے اور نہ ہی انسان ظاہری دنیا میں کوئی مقام و مرتبہ پیدا کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے باطن کی دنیا آباد کر سکتا ہے- حضرت سلطان باھُو ؒ نے اپنی فارسی کتب میں علم کی حقیقت  یوں بیان کی ہے کہ :

علم حق نور است روشن مثل او انوار نیست
علم باید با عمل علمش کہ ہر خربار نیست

’’علم حق روشن نور ہے اس کی مثل اور کوئی نور نہیں- علم ہو تو باعمل ہو ورنہ بے عمل علم کی ضرورت نہیں جو محض گدھے پر لدے ہوئے بوجھ کی مثل ہے‘‘-

اسی طرح آپؒ مزید ارشاد فرماتے ہیں کہ:

علمی کہ راہ بدوست برد در کتاب نیست
اینہا کہ خواندہ ایم ھمہ در حساب نیست

’’یار سے یار ملانے والا علم کتابوں سے نہیں ملتا کہ راہ وصل میں درسی علم کسی کام نہیں آتا‘‘-

حضرت سلطان باھوؒ نے یہاں بنیادی طور پر باطنی علم کی طرف اشارہ کیاہے- جس کا تعلق انسان کی روح سے ہے کیونکہ محض علم ظاہر انسانیت کی تعمیر کیلئے کافی نہیں ہے- اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ نے علم ظاہر کی تردید کی ہے بلکہ آپؒ  علم کی حقیقت واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’دو عقل ہیں، ایک عقل کل ہے اور دوسری عقل جز ہے- ظاہری علم کا تعلق نفس سے ہے اور نفس کے پاس عقل جز ہے- باطنی علم عرفان بااللہ کا علم ہے جس کا تعلق روح سے ہے اور روح کے پاس عقل کل ہے پس عالم روحانی تمام علمائے نفسانی پر غالب ہے‘‘-

معزز مہمان

جناب منظور احمد خان

لیوٹن ،یو کے، انگریزی مترجم تصانیفِ حضرت سلطان باھوؒ

حضرت سلطان باھوؒ نے فرمایا:

نَفی اَثبات دَا پَانی مِلیس ہَر رَگے ہَر جَائی ھو

مزید یہ کہ جب ہم اسم اللہ ذات کا ذکر کرتے ہیں اور تصور میں اپنے دل پر توجہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر اسم اللہ لکھا ہوا ہے- یہاں دل سے مراد وہ روحانی قلب جس کا ذکر قرآن میں ’’الفواد‘‘ کے نام سے آیا ہے- اسی طرح یہ ایک اصول ہے کہ جب انسان کسی چیز کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کا اثرDNA پر محسوس ہوتا ہے- خون جسم  میں ایک ٹیلی کمیونیکیشن سسٹم ہے- لہٰذا جب ہم ذکر کے ساتھ سانس لیتے ہیں تو یہ ہمارے خلیوں کو مثبت توانائی فراہم کرتا ہے- ایک اصول ہے کہ DNA صرف اس وقت خلیے کی جھلی کو کھلنے کی اجازت دیتا ہے جب اسے محسوس ہو کہ آنے والی توانائی مثبت ہے- لہٰذا، ہم اس بات کو حضرت سلطان باھوؒ کے اس بیت سے سمجھ سکتے ہیں کہ:

اَندر بُوٹی مُشک مَچایا جَاں پھُلّاں تے آئی ھو

جب ہم ذکر اللہ میں سانس لیتے ہیں تو ہمارا جسم مثبت توانائی کے ساتھ پھولتا ہے- غم ماضی کے بارے میں ہے اور خوف وہ ہے جب ہم مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں- ایسا کرتے ہوئے ہم اپنے حال کو بھول جاتے ہیں- تو یہ ذکر ہمیں اطمینان فراہم کرتا ہے جب ہم اس ذکر کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں- ذکر اللہ ہمارے اندر صبر و تحمل اور معاشرے میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے-

معزز مہمان

پروفیسر ڈاکٹر غلام شمس الرحمٰن

شعبہ تعلیمات اسلامی، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد

آج مسلم معاشرہ اور خاص طور پر پاکستان کے رہنے والوں کے بارے میں ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ پڑھے لکھے اور ترقی پسند نہیں ہیں- اس تاثر کی جڑیں نوآبادیاتی نظام میں پائی جاتی ہیں- یہ وہ زمین جس کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا جس میں علم، فلسفہ، تصوف، شاعری اور دیگر علوم پروان چڑھے- فیض احمد فیض سے پوچھا گیا کہ مسلمانوں نے ہندوستان کو کیا دیا ہے تو آپ نے جواب دیا جو امیر خسرو دیا ہے کیا وہ کافی نہیں- سیاسی زوال کے بعد نوآبادیات کا نظام رائج ہوا اور ہم دو چیزوں سے محروم ہو گئے- ان میں سے پہلی چیز ہماری بنیاد فارسی زبان تھی- جس کی وجہ سے ہم اپنی ثقافت سے مکمل طور پر جدا ہو گئے اور اس کا متبادل ہم نے آج تک نہیں سوچا- ستم کی انتہا ہے کہ ہم مستشرقین کی زبانی جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری ثقافت، تہذیب و تمدن کیا تھی- ہماری قوم آج تک نوآبادیاتی سوچ سے باہر نہیں نکل سکے-

ہمیں علاقائی ثقافت کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے- جس طرح حضرت سلطان باھُوؒ صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ آپ نے 140 کے قریب کتابیں لکھی ہیں - آپ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ خود کو توحید رحمانی میں فنا کرنے سے فقیری حاصل ہوتی ہے-

معزز مہمان

ڈاکٹر عبد القادر مشتاق

چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری اینڈ پاکستان سٹڈیز، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد

حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق مرشد وہ ہے جو علم شریعت سے مکمل طور پر واقف ہو، شریعت کا پابند ہو، عمل شریعت کا عکس اس کی زندگی میں موجود ہو، اس کی زندگی طریقت کے مطابق گزر رہی ہو، وہ معرفت کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہو، مقامِ حقیقت تک اس کی رسائی ممکن ہو اور سالک کو یہ تمام منازل طے کرائے- صوفی کی صحبت آپ کی مٹی کو اکسیر بنا دیتی ہے کیونکہ وہ ہر دل پر اپنا اثر چھوڑتی ہے- فیض دو طرح کا ہے ایک ناسوتی فیض جس کا تعلق ہمارے ظاہر سے ہے ( یعنی دَم ، تعویذ اور دعا وغیرہ) اور دوسرا ملکوتی فیض ہے جس کا تعلق ہمارے باطن سے ہے (یعنی روحانی فیض، منازلِ سلوک اور اخلاقی تربیت)- ہمیں مرشد کی صحبت اس لیے اختیار کرنی چاہیے تاکہ وہ ہمارا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑ دے- ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ناسوتی فیض کے لئے مرشد کی صحبت میں جاتے ہیں اور تصوف کی اصل روح سے محروم رہتے ہیں- اولیاء کرام کا جو کردار رہا ہے وہ ملکوتی فیض والا تھا جب تک ہمارے اسلاف ملکوتی فیض کے لئے صحبت اولیاء اختیار کرتے رہے اس وقت تک معاشرے میں رواداری، امن، پیار اور برداشت قائم رہا اور ان معاشروں میں لوگوں کے رویے آج سے مختلف تھے- جب ہم نے دنیاوی معاملات کے لئے صحبت مرشد میں جا کر ناسوتی فیض لینا شروع کر دیا تو اس پر ہمارا کردار اور تعلقات پہلے سے مختلف ہو گئے- حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق طلب دنیا اور خواہشات نفس راہ خدا میں رکاوٹ ہے- اگر قرب الٰہی کی طرف جانا ہے تو خواہش نفس اور حب دنیا کو دل سے نکال کر محبت الٰہی کو جگہ دینی ہو گی تبھی ہم تصوف کی اصل روح تک پہنچ سکتے ہیں-

مہمانِ خصوصی

 صاحبزادہ محمد محبوب سلطان

 وفاقی وزیر برائے ریاستی و سرحدی امور

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس کی بنیادیں صوفیائے کرام نے رکھی ہیں- اس سرزمین پہ کلمہ حق کی صدا بلند کرنے میں صوفیاء کا انتہائی اہم کردار رہا ہے-آج کے جدید دور میں بھی اگر ہمارا معاشرہ قائم ہے تو صوفیائے کرام کی مہیا کی ہوئی اخلاقی و روحانی تربیت کی بنیاد پہ ہے- حضرت سلطان باھُو فرماتے ہیں:

جیوندیاں مَر رہناں  ہووے تاں ویس فَقیراں بَہیے ھو
جے کوئی سٹے گوڈر کُوڑا وانگ اَرُوڑی سَہیے ھو
جے کوئی کَڈھے گاہلاں مِہنی اُس نوں جِی جِی کَہیے ھو
گِلا اُلاہماں بھَنڈی خُواری یار دے پَاروں سَہیے ھو
قادر دے ہَتھ ڈور اساڈی باھوؒ جیوں رکھے تیوں رہیے ھو

روح کی پرورش اور باطنی زندگی انسان کو حق و باطل میں تمیز سکھاتی ہے، بے باکی سکھاتی ہے- یہ وہ عملی طریق ہے جو مسلم تہذیب اور معاشروں کی اساس ہے- ایسے حُسنِ اخلاق اور کردار سے صوفیاء نے لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد کے دل نورِ ایمان سے منور کئے- صوفیاء انبیا ء کرام (﷩)کے نقش قدم پہ چلتے تھے چنانچہ وہ مقامی زبانوں کو بہت اہمیت دیتے تھے- ہمارا ثقاتی ورثہ دنیا میں کسی بھی قوم یا خطے سے کم نہیں ہے-ہمیں اپنی تاریخ پہ فخر کرتے ہوئے اپنی روایات اور کلچر کو اگلی نسل تک پہنچانا ہے -

صدارتی کلمات

صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب

دیوان آف جوناگڑھ سٹیٹ و چیئر مین مسلم انسٹیٹیوٹ

آج کی کانفرنس کی وساطت سے میں تمام طلباء کے لیے ایک نصیحت کرنا چاہوں گا کہ اگر ہم روزانہ 30 منٹ لگا کر 10 صفحات پڑھیں تو اس کے مطابق 1 ہفتہ میں 70 صفحات بنتے ہیں- اسی طرح 1 ماہ میں 280 صفحات بنتے ہیں اور عمومی طور پر 1 کتاب کے صفحات کی تعداد کم و بیش 250 ہوتی ہے - اس کا مطلب یہ ہے کے آپ 1 ماہ میں 1 کتاب مکمل کر لیتے ہیں- سال کے آخر میں صرف 30 منٹ کی محنت سے سال میں 12 کتابیں مکمل ہوتی ہیں- 5 سال میں 60 کتابیں مکمل ہو جاتی ہیں- ان کتب میں اگر حضرت سلطان باھُوؒ یا کسی اور صوفی بزرگ کی کتب بھی کتب شامل ہوں تو ہم اپنی تاریخ سے وابستہ ہو سکتے ہیں -

وقفہ سوال و جواب:

سوال: حضرت سلطان باھوؒ کے کلام میں گھوڑوں، دوسرے جانوروں اور پرندوں کے بارے بھی کچھ ہے ؟

 جواب: ’’منطق الطیر‘‘ جو حضرت فرید الدین عطار نے لکھی اس کتاب میں انہوں نے پرندوں کی مثالیں دے کر زندگی کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی ہے- صوفی پرندوں اور فطرت کے بارے میں گہرائی سے پڑھتے ہیں اور ان کے بارے میں مختلف حقائق بیان کرتے ہیں- حضرت سلطان باھُوؒ نے اپنی شاعری میں گھوڑے، شیر، شہباز اور پرندوں کے حوالے سے زندگی کی مختلف پہلووں کی وضاحت کی ہے-

سوال: کیا عشق مجازی کیلئے عشق حقیقی ضروری ہے؟

جواب: عشق کی صرف ایک شکل ہے اور وہ ہے عشق حقیقی- دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں محبت پیدا کی ہے جس کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے سے محبت کرتی ہے- تاہم، ہوس کا شکار افسانہ نویسوں، شاعروں اور فلم نگاروں نے ہوس جیسی ناپاک چیز کو محبت جیسے پاکیزہ نام میں پیش کیا - مغربی معاشرے میں ایک جملہ عام ہے کہ اگر آپ خوبصورت ہیں تو اسے (یعنی خوبصورتی کو)  استعمال کریں- یہ جملہ دراصل خواتین کی تذلیل ہے- ظاہری حسن کی طرف ہوس آمادہ ہوتی ہے محبت نہیں-کہانیاں صوفیائے کرام نے بھی لکھی ہیں مگر ان میں ہوس نہیں بلکہ عشق حقیقی ہے -

صوفی جوکہانیاں لکھتے ہیں وہ سبق آموز ہوتی ہیں اور اس میں گہرے معنی ہوتے ہیں- مثال کے طور پر سوہنی اور ماہیوال کی کہانی میں پانچ کردار ہیں- ماہیوال، سوہنی،اس کی بھابھی، گھڑا اور دریا - حقیقت میں، پانچوں کرداروں کے مختلف معنی ہیں- سوہنی سچی محبت کی متلاشی (طالب) ہے- ماہیوال مطلوب ہے ، بھابھی نفس ہے، کچا گھڑا ایسی طبیعت ہے جو ابھی عشق حقیقی کی آگ پر پکی نہیں اور دریا کی مثال دنیا اور اس کی آزمائشیں ہیں -  یہ کہانیاں عوام الناس کیلئے عشقِ حقیقی تک پہنچنے کی علامتیں ہیں-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر