ابیات باھوؒ : عِشق مَاہی دے لایاں اَگیں اِنہاں لگیاں کون بُجھاوے ھو

ابیات باھوؒ : عِشق مَاہی دے لایاں اَگیں اِنہاں لگیاں کون بُجھاوے ھو

ابیات باھوؒ : عِشق مَاہی دے لایاں اَگیں اِنہاں لگیاں کون بُجھاوے ھو

مصنف: Translated By M.A Khan مارچ 2022

ع: عِشق مَاہی دے لایاں اَگیں اِنہاں لگیاں کون بُجھاوے ھو
مَیں کی جَاناں ذَات عِشق دی جہڑا دَر دَر چَا جھُکاوے ھو
ناں خُود سووے نہ سوون دیوے ہتھوں سُتیاں آن جگاوے ھو
میں قُربان تِنہاندے باھوؒ جہڑا وچھڑے یار مِلاوے ھو

FIshq of beloved kindled the fire, such fire who could put out Hoo

What do I know regarding Essence of ishq you say at every door it bows you out Hoo

It wouldn’t sleep neither lets me sleep even though from my sleep it awakes me Hoo

I sacrifice upon you Bahoo who unites my parted beloved with me Hoo

Ishq mahi day layia’N aggai’N inha’N laggiya’N kon bujhaway Hoo

Main ki jana’N zaat ishq di jeh’Ra dar dar cha jhukaway Hoo

Na’N Khud soway na sowan deway hatho’N aan jagaway Hoo

Main qurban tinha’N day Bahoo jeh’Ra wich’Ray yar milaway Hoo

تشریح: 

1:’’جان لے کہ شروع میں عاشق واصل باللہ عارف ولی اللہ کے وجود میں سات قسم کی آگ پیدا ہو تی ہے جو اُس کے ہر عضو کو رات دن اِس طرح جلاتی ہے جس طرح کہ آگ خشک ایندھن کو جلاتی ہے اور یہ آگ ذکر فکر شوق اِشتیاق مراقبہ محاسبہ اور غرق مع اللہ حضور کی آگ ہے ‘‘-(محک الفقر کلاں)

 عشقِ الٰہی کی آگ جب طالب کے وجود میں بھڑکتی ہے تو وہ تھمنے کا نام نہیں لیتی بلکہ وہ مزید تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے- جیساکہ سُلطان العارفین حضرت سُلطان باھوؒارشاد فرماتے ہیں :

’’اسم اللہ ذات کی تپش اُسے دن رات جلائے رکھتی ہے جس طرح کہ آگ خشک لکڑیوں کو جلاتی ہے اور یہ آگ سرد نہیں ہوتی جب تک کہ وہ بہشت میں داخل ہو کر دیدارِ اِلٰہی سے سیراب نہ ہو جائے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

عشقِ الٰہی کی آگ آدمی کے وجود میں کیسے پیدا ہوتی ہے ؟اس کے بارے میں آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’تصورِ اسم اللہ ذات کی ریاضت سے سخت تر و بہتر ریاضت اور کوئی نہیں جو سر سے لے کر پاؤں تک سارے وجود کو ہمیشہ کیلئے پاک کردیتی ہے کیونکہ تصور ِاسم اللہ ذات سے وجود میں وہ آگ پیدا ہوتی ہے کہ جس کے ایک ہی ذرے سے دوزخ کی آگ بھڑکائی گئی ہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

 2:نفس را رسوا بہ کُن بہر از گدا

 

 برہرد ری قدمی بہر از خدا

’’رضائے اِلٰہی کی خاطر ہر در کا گدابن کر اپنے نفس کو رسوا کر‘‘-

عاشق حقیقی اپنے معبود حقیقی کی رضا کے حصول کے لیے مختلف احوال و کیفیا ت سے گزرتے ہیں ،جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں :

’’جان لے کہ بعض فقراء ایسے ہیں جو کہیں بھی مستقل قیام نہیں رکھتے ، وہ ہمیشہ سیر و سفر میں رہتے ہیں اور کہیں بھی آرام و جمعیت اور سکون و قرار سے نہیں رہتے خواہ کوئی اُن کی ہزار دلداری و غم خواری کرے یا نذر و نیاز سے اُن کی خدمت کرے- وہ ہر جگہ مسافروں کی طرح پریشان حال رہتے ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اَللّٰہُ سے اُنس رکھتے ہیں اور غیر اللہ سے وحشت کھاتے ہیں ،اُن کے کانوں میں ’’ فَفِرُّوْااِلَی اللّٰہِ ‘‘(پس دوڑو ’’اَللّٰہُ‘‘کی طرف ) کی آواز گونجتی رہتی ہے‘‘-(محک الفقر کلاں)

3:دیدہ با دیدار تر بیدار تر

 

با نظر ہرگز نہ بیند سیم و زر

’’جس کی آنکھ دیدار ِالٰہی سے سیراب ہو جائے وہ ہر وقت بیدار رہتا ہے ، پھر وہ سونے چاندی کی طرف نہیں دیکھتا‘‘-(امیرالکونین)

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ آقا کریم (ﷺ) کی کیفیات کو بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتی ہیں:

’’حضور نبی رحمت(ﷺ) ہر وقت مشاہدۂ معرفت اور قربِ اِلٰہی میں غرق رہتے تھے اور مشاہدۂ توحید و نور حضور میں اُن کی محویت اِس قدرہوتی تھی کہ دم بھر کے لیے بھی مشاہدۂ حضورِربانی سے فارغ نہیں ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی لامحدود و بے انداز محبت کا درد اور آتش ِعشقِ توحید کی تپش اُنہیں ایک پل کے لیے بھی آسودہ نہیں رہنے دیتی تھی‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

لیکن یادر ہے کہ شب بیداریاں اور ورد و وظائف کا اصل مغز(معرفت ِ اِلٰہی اور مجلس ِمحمدی ﷺ) تب نصیب ہوتا ہے جب مرشدکامل کی رفافت وتلقین نصیب ہو -جیساکہ آپؒ ارشادفرماتے ہیں:

’’راہبرِ باطن مرشد ہادی کے بغیر طالب ہر گز معرفت ِ اِلٰہی اور مجلس ِمحمدی (ﷺ) کی حضوری سے مشرف نہیں ہو سکتا خواہ عمر بھر تلاوتِ قرآن کرتا رہے یاوِرد وظا ئف میں مشغول رہے یا درود شریف پڑھتا رہے یا علمِ مسائل ِفقہ پڑھتا رہے یا نمازِ نوافل پڑھتا رہے یا ریاضت و مجاہدہ کرتا رہے یا شب بیدار ہو کر نمازِ تہجد پڑھتا رہے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

4: ’’مرد مرشد وہ ہے جو طالب اللہ کو ایسی ہر بلا سے محفوظ رکھے اور حاضراتِ اسم اللہ ذات کی مدد سے ایک ہی دم میں معرفتِ’’اِلَّااللّٰہُ ‘‘ میں غرق کر کے نگاہِ اِلٰہی میں منظور کرا دے اور نور ِ اِلٰہی میں غرق کرکے مجلس ِمحمدی (ﷺ)کی دائمی حضوری سے مشرف کر دے‘‘-(کلیدالتوحیدکلاں)

حضرت سُلطان باھوؒ اپنے بارے میں ارشادفرماتے ہیں :

’’مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے تلقین فرما کر اِس قابل بنا دیا ہے کہ مَیں طالبانِ حق کو بارگاہِ حضورمیں پہنچا سکتا ہوں‘‘-(امیرالکونین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر