کلاسیک اردو شعراء کے کلام میں تذکرہ امام حسین(رضی اللہ عنہ)

کلاسیک اردو شعراء کے کلام میں تذکرہ امام حسین(رضی اللہ عنہ)

کلاسیک اردو شعراء کے کلام میں تذکرہ امام حسین(رضی اللہ عنہ)

مصنف: مستحسن رضا جامی جولائی 2024

کلاسیک ادب اردو زبان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے-کلاسیک ادب نے اردو زبان پر ایسے گہرے نقوش چھوڑے ہیں کہ آج کا قاری اساتذہ کی فکر اور اسلوب کا مطالعہ کر کے مبہوت رہ جاتاہے-اساتذہ کے کلام میں زبان دانی کے ایسے شاہکار نمونے موجود ہیں جن کو دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کے ادب کے برابر رکھا جا سکتا ہے- کلاسیک ادب میں غزل کا میدان بے حد زرخیز اور وسیع ہے- غزل کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس نے ہر قسم کے موضوع کو اپنے دامن میں پناہ دی ہے- انہی موضوعات میں سے ایک بڑا، نمایاں اور کامل ترین موضوع شان امام حُسین (رضی اللہ عنہ) و بیانِ واقعاتِ کرب و بلا ہے- اردو ادب کی روایت میں شاید ہی کوئی ایسا شاعر گزرا ہو جس نے اپنے کلام استعاروں یا موضوعات میں امام حُسین یا اہل بیت اطہار(رضی اللہ عنھم) کا تذکرہ نہ کیا ہو-دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ کلاسیک شعراء نے کئی اصناف میں امام حسین (رضی اللہ عنہ) کو خراج عقیدت پیش کیا-جس میں قصیدہ، قطعہ، رباعی، سلام، مثنوی، غزل اور سب سے زیادہ مرثیہ کی ہیئت میں کلام لکھا گیا-اس سارے عہد میں زبان دانی عروج پر تھی شعراء تو درکنار عام سامعین بھی زبان دانی کا اور شعر فہمی کا خصوصی ملکہ رکھتے تھے- بارگاہ امام حسین(رضی اللہ عنہ)  میں خراج عقیدت کی بڑی وجہ عقیدت اور محبت کا رنگ بھی ہے- جن چنیدہ شعراء کے اشعار کا انتخاب ہم نے اپنے اس مضمون میں شامل کیا ہے ان کی تفصیل اگلی سطور میں آئے گی- اردو غزل میں موضوعات اور فکر کے حوالے سے سعید عباس سعید کا نقطہ نظر ملاحظہ ہو:

’’اردو غزل کی دنیا احساس کی دنیا ہے، جذبات کی دنیا ہے اور کوئی بھی حساس اور گداز دل واقعہ کربلا سے متاثر ہونے سے خود کو نہیں روک سکتا- اُردو غزل میں ذکر کربلا کے حامل اشعار کو اگر جمع کیا جائے تو ایک اچھی خاصی ضخیم کتاب وجود میں آ جائے- اُردو غزل جوں جوں ترقی کرے گی ذکر حسینؓ و بیان کربلا کی ایسی مثالوں میں توں توں مزید اضافہ ہوتا جائے گا‘‘-[1]

میر تقی میر (المتوفی 20 ستمبر 1810ء) اردو زبان کے واحد ایسے شاعر ہیں جنہیں خدائے سُخن کہا جاتا ہے-میرؔ اردو غزل کے بڑے شعراء میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں ناسؔخ کے فتوے پر غالؔب کی مُہرِ تصدیق موجود ہے کہ’’آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میؔر نہیں‘‘- میر تقی میرؔ کے ہاں امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی محبت اور عقیدت کا پہلو بہت الگ اور نکھرا ہوا نظر آتا ہے-میرؔ نے امام حُسین(رضی اللہ عنہ)  کی پیاس، آپ (رضی اللہ عنہ)  کے صبر اور آپ(رضی اللہ عنہ)  کے سجدہ شکر کا ذکر کیا ہے جس کی مثالیں عملی طور پر ان کے اشعار میں موجود ہیں-

تشنہ لب مر گئے ترے عاشق
نہ ملی ایک بُوند پانی کی
بارِ سجدہ ادا کیا تہہ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جُدا ہوا
شکرِ خدا کہ حقِ محبت ادا ہوا
اگر طالع کرے یاری تو مرئیے کربلا جا کر
عبیر اپنے کفن کی خاک ہو اس آستانے کی
تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں اس طرح
فریادی ہوں گے مَل کے لہو کو جبیں سے ہم

محمد طفیل احمد مصباحی کی میر تقی میرؔ کی قصیدہ گوئی کے حوالے سے رائے ملاحظہ ہو:

’’کلیاتِ میر میں چوتھا قصیدۂ منقبت سید الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ)کی مدح و ثنا میں ہے ، جو 52 اشعار پر مشتمل ہے - میر صاحب نے اس منقبت میں امام عالی مقام کی شایانِ شان توصیف ، ان کی ہمت و شجاعت ، درد ناک شہادت ، نیز ان کی خاکِ در کو ’’کحلِ جواہر الابصار ‘‘ اور روضۂ پاک سے نکلنے والی شعاؤں کو شبِ تاریک کے لیے موجبِ ذلت گردانا ہے‘‘-[2]

جس قصیدہ کا اوپر ذکر ہوا ہے اس کے کچھ اشعار:

امامِ ہر دو جہاں جس کے آستانے کی خاک
رکھے  ہے  رتبۂ  کحلِ  جواہر الابصار
زہے وہ روضہ جہاں دیدۂ ملک ہیں فرش
قدم کو رکھتے ہوئے ان پہ آتے ہیں زوّار
شعاع روضے کے قبّے کی ہوگی عالم گیر
پھرے گا سایۂ شب اب جہاں میں ہوتا خوار

مرزا رفیع سوداؔ (متوفی:1781) کلاسیک شعراء میں غزل اور قصیدہ گوئی دونوں حوالوں سے جانے جاتے ہیں- ان کا آبائی پیشہ تیغ آزمائی تھا- سوداؔ نے مرثیے بھی لکھے ہیں اردو ادب کے معروف مورخ  و محقق ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول سوداؔ نے 91 مرثیے لکھے ہیں-اُن کے ہاں مدحتِ امام عالی مقام کس رنگ میں جلوہ گر ہے ان کے مرثیہ سے عملی مثال دیکھیں-

بڑا کیا تھا محمد (ﷺ) نے جس کو گود میں پال
پھرے تھا ساقیِ کوثر کے دوش پر مہ و سال
گیا جہان سے پیاسا وہ فاطمہ کا لال
عطش ہے تن سے ہوئی روح کی سبب رم کا
ہزار طرح کے دریا رواں تھے دنیا میں
جو کوئی تھا سو وہ سیراب تھا ہر اک جا میں
کئی غریب جو تھے کربلا کے صحرا میں
نصیب اُن کے نہ قطرہ ہوا کسی یم کا

کلاسیک شعرا میں اپنی الگ پہچان اور نمایاں اسلوب کے طور پر جانے والے ایک اور اہم شاعر غلام ہمدانی مصحفیؔ (متوفی:1824) ہیں-مصحفیؔ نے غزل کے آٹھ دیوان چھوڑے ہیں-مصحفیؔ ایک جگہ پہ امام حُسین (رضی اللہ عنہ) کی شان بیان کرتے ہوئے اپنا رنگ عقیدت کچھ اس انداز میں بیان کرتے ہیں-

مصحفیؔ دشتِ بلا کا سفر آسان ہے کیا
سینکڑوں بصرہ و شیراز میں مر جاتے ہیں
کچھ میں شاعر نہیں اے مصحفیؔ ہوں مرثیہ خواں
سوز پڑھ پڑھ کے محبوں کو رلا جاتا ہوں
کربلائے عشق کی عشاق کی
تیغ و خنجر پر ہے مہمانی صریح
رہتا ہے روز و شب انہیں ہر ماہ تعزیہ
کب اہل درد کو ہے محرم کی احتیاج

شیخ امام بخش ناسخؔ (متوفی 15 اگست 1838) کلاسیک ادب میں نویکلے لہجے کے شعراء کے طور پر شمار ہوتے ہیں- ان کی شاعری میں سادگی اور روانی کے ساتھ ساتھ گہرا فلسفہ بھی بین السطور موجود ہے- ناسخ کا عقیدہ یہ ہے کہ غم شبیر میں اشک بہائے بغیر میں خدا کی بارگاہ میں کیسے جاؤں گا- شعر میں عقیدت کا رنگ دیکھئے-

گر نہ ہوتا سرخ رُو اشکِ غمِ شبیرؑ سے
حشر میں کس منہ سے ناسخؔ میں شفاعت مانگتا
فکر کر یعنی تو ناسخؔ کا نہ غم کھا واعظا
شافع اِس کا بادشاہِ کربلا ہو جائے گا
ناسخؔ کی یہ التجا ہے یا رب
مر جاؤں تو خاکِ کربلا ہوں

خواجہ حیدر علی آتش (متوفی 13 جنوری 1847ء) کلاسیک شعر و ادب میں ممتاز اور منفرد غزل گو کے طور پر جانے جاتے ہیں- ان کی غزل کا نمایاں پہلو رجائی انداز بیان ہے-ان کی غزلیات میں کئی جگہوں پر ایسے اشعار ملتے ہیں جو براہ راست امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی محبت اور عقیدت کے عکاس ہیں- آتش کا شعری وفور اور ذوق اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ امام حُسین  (رضی اللہ عنہ) کے دشمن سے کنارہ کشی اختیار کرو- ان کے کلام سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

دشمن جو ہو امام علیہ السلام کا
آتشؔ نہ کم سمجھ اسے ابنِ زیاد سے
دعائے آتشِؔ خستہ یہی ہے روزِ محشر کو
یہ مشتِ خاک ہوئے کربلا کی خاک سے پیدا

بہادر شاہ ظفرؔ (متوفی 7 نومبر 1862ء) آخری مغل بادشاہ تھے- اردو شعر و ادب سے گہری دلچسپی ان کی شخصیت کی آئینہ دار تھی- بہادر شاہ ظفرؔ خود بھی باکمال شاعر تھے- ان کا یہ شعر دیکھیں:

میں ڈھونڈوں ظفرؔ اور کا کیوں ظلِ حمایت
کافی ہے مجھے حیدر و شبیر کا سایہ

شیخ ابراہیم ذوقؔ (متوفی 15 نومبر 1854ء) کو خاقانئ ہند بھی کہا جاتا ہے- بہترین فکرِ سخن اور اسلوب بیان ان کی شاعری کا خاصہ ہے- شیخ ابراہیم ذوقؔ غالبؔ کے ہم عصر بھی تھے اور شاہی دربارسے بھی وابستگی رہی- ان کے ہاں بارگاہِ امام حُسین(رضی اللہ عنہ) سے عقیدت کا نرالا انداز ملاحظہ ہو:

لکھوں جس میں کوئی مضمونِ ظلم چرخِ بریں
تو کربلا کی زمیں ہو مری غزل کی زمیں

مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ (متوفی 15 فروری 1869ء) کا اردو زبان و ادب کے عظیم شعراء میں شمار ہوتا ہے- جن کے کلام کی خوبی مفرس لہجہ و گہرا فکر و فلسفہ ہے-غالبؔ کے کلام میں امام عالی مقام(رضی اللہ عنہ) سے محبت کا انداز ملاحظہ ہو:

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اُس کو
نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟
غمِ شبیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں

اردو دُنیا فنِ مرثیہ گوئی میں میر انیسؔ (متوفی 10 دسمبر 1874ء) کو سب سے معتبر حوالہ کے طور پر جانتی ہے- میر انیسؔ کے ہاں منظر نگاری، تراکیب، تلمیحات، فنی ہنر مندی اور استعارات کا استعمال اپنے جوبن پر نظر آتا ہے- میر انیسؔ کی منظر نگاری کا یہ کمال ہے کہ دوران مطالعہ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سارا واقعہ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے- میر انیسؔ کے مرثیہ سے سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بند کافی ہے -

کیا فوج تھی حسینؓ کی اس فوج کے نثار
ایک ایک آبروئے عرب فخرِ روزگار
جرار و دیں پناہ نمودار نامدار
لڑکوں میں سبزہ رنگ کوئی، کوئی گل عذار
فوجیں کوئی سماتی تھیں ان کی نگاہ میں
وہ سب پلے تھے بیشہءِ شیر الہٰ میں

میر انیسؔ کی مرثیہ گوئی کے ضمن میں شبلی نعمانی کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے:

’’شاعری درحقیقت مصوری ہے- ایک درخت کی تصویر کھینچنی ہو تو کسی قسم کی تخیل اور دیدہ وری کی ضرورت نہیں، ٹہنیاں، پھل، پھول، پتے سب سامنے ہیں اور ہر شخص ان کو محسوس کرسکتا ہے- لیکن رنج، غم، جوش، محبت، غیظ، بیقراری، بیتابی، مسرت، خوشی، محسوس اور مادی چیزیں نہیں ہیں، آنکھ ان کو محسوس نہیں کرسکتی، البتہ دل پر ان کا اثر ہوتاہے- لیکن یہ اثر سب پر یکساں نہیں ہوتا، اس لیے ان کی ہو بہو اور اصلی تصویر اتارنا مشکل ہے-میر انیس کا اصل جوہر یہیں پر کھلتاہے-میر انیس کے مرثیوں میں نہایت کثرت سے ان جذبات کا اور ان کے مختلف مدارج کا ذکر ہے، لیکن جس جگہ جس چیز کو لیا ہے اس کمال کے ساتھ اس کی تصویر کھینچی ہے کہ پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرجاتا ہے‘‘-[3]

میر انیسؔ کے ہی ہم عصر مرثیہ کے ایک اور اہم اور فقید المثال شاعر کا نام مرزا سلامت علی دبیرؔ (متوفی مارچ 1875ء)  ہے- فنی چابکدستی اور قادر الکلامی سے لبریز اس شاعر نے بھی لازوال مرثیے لکھے ہیں- چند مثالیں دیکھیں:

ہونے کو تو جہان میں کیا کیا نہیں ہوا​
پر حضرتِ حسین سا آقا نہیں ہوا​
عباس سا حسین کا شیدا نہیں ہوا​
سقہ شہید نہر پہ پیاسا نہیں ہوا​
یہ آب و گِل میں حبِ شہِ نیک خو ملی​
جتنی تھی پیاس اس کے سوا آبرو ملی​

مومن خاں مومنؔ (متوفی 14 مئی 1852ء) کلاسیک ادب میں بطور غزل گو اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں- وہ طب، نجوم، رمل،موسیقی، شطرنج اور عملیات کے ماہر تھے- ان علوم و فنون کی گونج ان کی شاعری میں بھی سنائی دیتی ہے، دہلی کے کارزارِ فکر میں سید احمد شہید کے زبردست حامی و مؤیّد تھے - بارگاہ امام حُسین (رضی اللہ عنہ) میں محبت و عقیدت کا انداز بھی مومن نے جدا پایا ہے-

سو زندگی نثار کروں ایسی موت پر
یوں روئے زار زار تو اہلِ عزا کے ساتھ

اردو ادب کے مورخین اور نقادوں کے مُطابق کلاسیک ادب کا آخری اور اہم ترین شاعر داغؔ دہلوی (متوفی 16 فروری 1905ء) ہے- یہ وہی داغؔ دہلوی ہیں جن سے شروع میں اقبالؔ نے شاعری میں اصلاح لی- داغؔ دہلوی کی غزل سادہ رواں اور خوبصورت اسلوب کی حامل ہے- داغ کے ہاں اکثر و بیشتر اشعار ایسے ہیں جن میں بارگاہ امام حسین (رضی اللہ عنہ)  میں عقیدت اور محبت کا رنگ جھلکتا ہے-

غمِ حُسینؑ میں اُٹھے گا سرخ رُو اے داغؔ
یہ بوجھ تُو نے اٹھایا علی علی کر کے
دشمن کے آگے سر نہ جھکے کا کسی طرح
یہ آسماں زمیں سے ملایا نہ جائے گا

امیر مینائی (متوفی 13 اکتوبر 1900ء) کا سلسلہ نسب حضرت عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ)  سے ملتا ہے- منطق، فلسفہ، فقہ ،اصول فقہ اور علم جفر میں مہارت حاصل کی- امیر مینائی اردو ادب میں اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں- ہدیہ عقیدت ملاحظہ ہو:

جو کربلا میں شاہِ شہیداں سے پھِر گئے
کعبہ سے منحرف ہوئے قرآں سے پھِر گئے
امیرؔ اپنا دلِ پُر داغ سوئے کربلا لے چل
یہ گلدستہ ہے نذرِ روضۂ شبیر کے قابل

یہ وہ چنیدہ شعراء ہیں جن کا ہم نے موضوع کی مناسبت سے اپنے مضمون میں جامع طور پر ذکر کیا- ان شعراء کے علاوہ بھی کلاسیکی ادب میں درجنوں ایسے نام موجود ہیں جن کے کلام میں ہدیہ عقیدت بارگاہ امام حُسین (رضی اللہ عنہ) شد و مد کے ساتھ ملتا ہے-  حضرت علامہ اقبال کے اشعار پہ اختتام کرتے ہیں:

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حُسین، ابتدا ہے اسماعیل
صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبرِ حسین بھی ہے عشق
معرکہءِ وجود میں بدر و حُنین بھی ہے عشق

٭٭٭


[1]اردو غزل میں ذکر کربلا ، سعید احمد سعید https://www.alifyar.com/urdu-ghazal-main-zikr-e-karbala

[2]میر تقی میر کی منقبت نگاری ، محمد طفیل احمد مصباحی

http://www.mushahidrazvi.com/2020/01/meer-taqi-meer-ki-manqabat-nigari.html?m=1

[3]موازنہ انیس ودبیر، شبلی نعمانی، مطبوعہ لالہ رام نرائن لعل بکسیلر، آلہ آباد 1936، ص: 118

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر