اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط اول'

اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط اول'

اسلام میں فلسفہ جہاد 'قسط اول'

مصنف: فائزہ بلال فروری 2016

جہاد کسی بھی ریاست کی بقائ اوراِرتقائ کے لیے ﴿Surrival of the fittest    ﴾نظریہ فطری چنائو کی حیثیت رکھتا ہے-اِنقلاب کے نام پرکانٹ چھانٹ اوراِنتخاب کایہ وہ فطری عمل ہے جس کے بغیر نہ تو کوئی نظام کبھی کامیاب ہوسکتا ہے اورنہ ہی کوئی ریاست استحکام پکڑسکتی ہے-کسی مرکزی نظریہ حیات پر مرتب کردہ لائحہ عمل کسی نظام ِ نو کی صورت اسی وقت متشکل و مؤثر ہوسکتا ہے جب وہ نوزائیدہ ریاست اپنی بقائ اورنشوونما کے لیے سنگین دورِ جہاد سے گزرے    -                              

تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کوئی ہیئت اجتماعیہ کسی انقلابی نظریے پراُٹھی اوراس کے مقابلے میں قدیم انقلاب دشمن طاقتیں صف بستہ ہوئیں تو اس کی بقائ اوردوام واستحکام کے لیے صرف دفاع ہی کافی نہیں تھا بلکہ اس نظام کو مزاحمت کاسامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اپناآپ بھی منوانا پڑا     -

’’اسلامی جہاد کی حد بھی یہیں تک ختم نہیں کہ حملہ آور کامحض سامنا کیا جائے اورچاروناچار دفاع کی سعی کرلی جائے بلکہ اسلام کافلسفہ جنگ و جہاد کل عالم میں اَمن وامان قائم کرنے کاخواہاں اورنظامِ شریعہ نافذ کرنے کامتمنی --یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے داعی نے ایک طرف تواپنی ریاست کے موجودہ وجود کے لیے ایک ایک ذرے کو بچا رکھنے کے لیے بوقت ضرورت جان ومال کی قربانیاں دیں تودوسری طرف لاکھوں بندگان خدا کو ظلم وجہالت ،معاشی خستہ حالی اوراخلاقی پستی سے نکالنے اورانقلاب اسلامی کی تکمیل کرنے کے لیے اسلام دشمن طاقتوں کی سرکوبی بھی کی‘‘ -﴿۱ 

اسلامی فلسفہ ئ جہاد اورنظریہ جنگ کو سمجھنے کے لیے عہدِ نبوی ﷺ میں جہادِ اِسلامی کی معنویت ومقصدیت کاادراک اورنبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات مبارکہ کو بحیثیت ایک مجاہد سمجھنا بہت ضروری ہے - آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اسمائ کریمہ کے تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مقدس شخصیت اسلامی فلسفہ جہاد کے منفر د اوراہم پہلوئوں کی عکس بندی کرتی ہے  -

سیّدنا الملاحمی ﷺ ﴿جنگ جو﴾:

﴿عن حذیفۃ رضی اللّٰہ علنہ أنا امشی فی طریق المدینۃ قال اذا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہٰ وسلم یمشی فسمعتہ یقول أنا محمد ﷺ وأنا احمد ونبی الرحمۃ ونبی التوبۃ والحاشر والمقفی ونبی الملاحم﴾﴿۲

’’حضرت حذیفہ(رض) سے روایت ہے کہ میں مدینہ منورہ کی کسی گلی میں جارہا تھا کہ وہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم بھی تشریف لے جارہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو فرماتے سنا کہ مَیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہوں ،مَیں احمد ہوں ،مَیں نبیٔ رحمت ہوں اورمیں نبی التوبہ اورحاشر اورمقفی اورجنگجو نبی ہوں ‘‘-

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاجنگجو ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی نبوت کے اخت صاص وامتیاز پردلالت کرتاہے-

سیّدنا نبی المحلمۃ ﷺ :﴿جنگ جو نبی ﴾

علامہ نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کااسم گرامی نبی المحلمۃ اس لیے رکھا گیا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم جنگ وجہاد کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے-﴿۳ 

ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے : کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تلوار دے کر بھیجاگیا-﴿۴ 

اسی نسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کااسم مبارکہ سیّدنا المحلمۃ ﷺ ﴿جنگ جو نبی﴾:

ملاحم’’ملحمۃ ‘‘کی جمع کثرہ ہے اوراس میں اِشارہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے بہت سی جنگیں لڑیں یاآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اُمت لڑے گی اوران کاعشرعشیر بھی پہلے اُمتوں میں نہیں پایا گیا حتٰی کہ وہ کانے دجال سے قرب قیامت میں بھی جنگ لڑے گی-﴿۵ 

سیّدنا الضحوک ﷺ:﴿دشمن کاخون بہانے ﴾:

صالحی بیان کرتے ہیں کہ تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کوان ناموں سے مخاطب کیاگیا ہے-

﴿الضحوک القتال یرکب البعیر ویلبس الشملۃ ویجتزی بالکسرۃ وسیفہ علی عاتقہ﴾-﴿۶ 

’’دشمن کاخون بہانے والے جنگ جو ،اونٹ پرسوار ہوں گے اورعمامہ پہنیں گے اورایک لقمہ پر اکتفا کریں گے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے کندھے پر تلواہوگی‘‘-

سیّدنا القتول ﷺ ﴿ماہرِجنگ﴾:

شیخِ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے اِس اسم مبارک کاتذکرہ مدارج النبوۃ میں کیاہے-

القتول :ا لصبورکے وزن پر ہے یعنی جنگ کرنے والے ماہر شخص-﴿۷ 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کااسم گرامی سیّدنا القتال ﷺ بھی ہے-

حکم جہاد کی معنویت ومقصدیت کو پورے طور پراُجاگر کرنے کے لیے نبیٔ اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات مبارکہ کوجہاد و قتال کامکلّف ٹھہرایا گیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم جنگوں کے پیغمبر ہیں اوریہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نبوت کاایک اختصاص ہے-

سیّدنا المجاھد ﷺ:﴿جہاد کرنے والے ﴾:

﴿یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم﴾ ﴿۸ 

’’اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ! کفار اورمنافقین کے ساتھ جہاد کیجئے اوران پر سختی بھی کیجئے ‘‘-

مراد یہ ہے کہ کفار ومشرکین کے ساتھ تو ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کی جائے جب کہ منافقین پرحدوں کو جاری کیاجائے-﴿۹ 

منافق لوگ کہیں نہ کہیں اپنے روّیوں سے منافقت ظاہر کردیتے ہیں خصوصاً آزمائش کی گھڑی میں وہ ثابت قدم نہیں رہتے تو ایسی قوم کے ساتھ جو جہاد مقصود ہے وہ یہ کہ ان کے سامنے اسلام کی حقانیت کے دلائل پیش کیے جائیں اوراُن کو ان کی منافقانہ روش پر خوب زجر وتوبیخ کی جائے- ﴿۰۱ 

درج بالا آیت مبارک میں مقصدیتِ جہاد کی جس خاص جہت کو زیرِ بحث لایا گیا ہے ایک تو یہ ہے کہ کفارومشرکین اورمنافقین سے بیک وقت کس نوعیت کی جنگ مقصود ہے -جہاد کاایک مقصد اگرمسلمانوں میں جذبہ خلوص کونکھارنا ہے تاکہ وہ ہر حال میں مائل بہ جہاد رہیں تو دوسری طرف اس آزمائش کے ذریعے کھرے کھوٹے کی پہچان بھی مقصود ہے کیونکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے -

یعنی مسلمانوں کو ہر حال میں جہاد کے لیے تیار رہنے کا حکم ملا ہے:

﴿انفروا خفافا و ثقالا و جاھدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل اللہ ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون﴾﴿۱۱ 

’’نکل پڑو خواہ تھوڑے سامان کے ساتھ آراستہ ہو یازیادہ سامان کے ساتھ اوراللہ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے ﴿زیادہ﴾بہتر ہے اگر یقین رکھتے ہو‘‘-

درج بالا آیت مبارک میں جہاد کی تین صورتوں پر بحث کی گئی ہے یعنی جہاد بالمال،جہاد بالنفس اور جہاد فی سبیل اللہ اسی حوالے سے باب جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے مختلف اسمائ کاتذکرہ ملتا ہے-

سیّدناالمجاہد بالقرآن ﷺ:﴿قرآن کے ساتھ جہاد کرنے والے﴾،سیّدناالمجاہد باللسان ﷺ:﴿زبان کے ساتھ جہاد کرنے والے ﴾،سیّدناالمجاہد بالنفس ﷺ:﴿جان کے ساتھ جہاد کرنے والے ﴾اور سیّدنا المجاہد فی سبیل اللّٰہ ﷺ:﴿اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے﴾ -﴿۲۱

نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم درجہ بالا اسمائے گرامی سے جہادِ اسلامی کے مختلف مناہج اورصورتیں مستنبط ہوتی ہیں-

﴿جاری ہے﴾ 

حوالہ جات:-

۱-نعیم صدیقی، محسن انسانیت، لاہور: الفیصل ناشران م ص: ۵۵۳

۲-الشیبانی، ابو عبداللہ، احمد بن حنبل، المسند الامام احمد بن حنبل ، موسسۃ الرسالۃ، ۱۲۴۱ھ، باب: حدیث حذیفہ بن الیمان حدیث نمبر۵۴۴۲۳، ۸۳/۶۳۴

۳- ابوالفضل، زین الدین عبدالرحیم ، العراقی، م: ۶۸۵ طرح التثریب فی شرح التقریب ، بیروت لبنان: دارالفکر العربی ، باب اول قاتل الناس، ۷/۰۸۱

۴- فتنی، محمد طاہر،علامہ ، مجمع البحار الانوار، المدینۃ المنورہ: مکتبۃ دارالایمان، ۵۱۴۱ھ، ۳/۸۲۴

۵-القسطلانی، احمد بن شہاب الدین، المواھب اللدنیۃ بالمخ المحمدیہ، القاہرہ، مصر: المکتبۃ التوفیقیۃ، ۳/۴۸۱

۶- صالحی، الشامی، محمدبن یوسف، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرہ خیر العباد، بیروت، لبنان: دارالکتب العلمیۃ م ۴۱۴۱ہجری،۱/۳۸۴

۷-دہلوی، عبدالحق، مدارج النبوۃ، سکھر: مکتبہ نوریہ رضویہ، ۱/۲۱۳

۸-التوبہ: ۳۷

۹- ابوالفدائ، ابن کچیر، عمادالدین، تفسیر القرآن العظیم، بیروت لبنان: مطبوعہ دارالفکر، ۸۱۴۱ ہجری، ۴/۳۹۳

۱۰- سعیدی، غلام رسول، مولانا تبیان القرآن، لاہور، رومی پبلیکیشنز اینڈ پرنٹرز، ۵/۷۹۱

۱۱- التوبہ: ۱۴

۱۲- ابو انیس، محمد برکت علی لدھیانوی، اسمائ النبی الکریم ﷺ، فیصل آباد ، کیمپ دارالاحسان پبلیکیشنز، ۴/۴۶۱۴- ۲۷۴۱

جہاد کسی بھی ریاست کی بقائ اوراِرتقائ کے لیے ﴿Surrival of the fittest﴾نظریہ فطری چنائو کی حیثیت رکھتا ہے-اِنقلاب کے نام پرکانٹ چھانٹ اوراِنتخاب کایہ وہ فطری عمل ہے جس کے بغیر نہ تو کوئی نظام کبھی کامیاب ہوسکتا ہے اورنہ ہی کوئی ریاست استحکام پکڑسکتی ہے-کسی مرکزی نظریہ حیات پر مرتب کردہ لائحہ عمل کسی نظام ِ نو کی صورت اسی وقت متشکل و مؤثر ہوسکتا ہے جب وہ نوزائیدہ ریاست اپنی بقائ اورنشوونما کے لیے سنگین دورِ جہاد سے گزرے-                              

تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کوئی ہیئت اجتماعیہ کسی انقلابی نظریے پراُٹھی اوراس کے مقابلے میں قدیم انقلاب دشمن طاقتیں صف بستہ ہوئیں تو اس کی بقائ اوردوام واستحکام کے لیے صرف دفاع ہی کافی نہیں تھا بلکہ اس نظام کو مزاحمت کاسامنا کرنے کے ساتھ ساتھ اپناآپ بھی منوانا پڑا -

’’اسلامی جہاد کی حد بھی یہیں تک ختم نہیں کہ حملہ آور کامحض سامنا کیا جائے اورچاروناچار دفاع کی سعی کرلی جائے بلکہ اسلام کافلسفہ جنگ و جہاد کل عالم میں اَمن وامان قائم کرنے کاخواہاں اورنظامِ شریعہ نافذ کرنے کامتمنی --یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کے داعی نے ایک طرف تواپنی ریاست کے موجودہ وجود کے لیے ایک ایک ذرے کو بچا رکھنے کے لیے بوقت ضرورت جان ومال کی قربانیاں دیں تودوسری طرف لاکھوں بندگان خدا کو ظلم وجہالت ،معاشی خستہ حالی اوراخلاقی پستی سے نکالنے اورانقلاب اسلامی کی تکمیل کرنے کے لیے اسلام دشمن طاقتوں کی سرکوبی بھی کی‘‘ -﴿۱

اسلامی فلسفہ ئ جہاد اورنظریہ جنگ کو سمجھنے کے لیے عہدِ نبوی


ö میں جہادِ اِسلامی کی معنویت ومقصدیت کاادراک اورنبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات مبارکہ کو بحیثیت ایک مجاہد سمجھنا بہت ضروری ہے - آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے اسمائ کریمہ کے تناظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی مقدس شخصیت اسلامی فلسفہ جہاد کے منفر د اوراہم پہلوئوں کی عکس بندی کرتی ہے-

 

سیّدنا الملاحمی


ö ﴿جنگ جو﴾:

 

﴿عن حذیفۃ رضی اللّٰہ علنہ أنا امشی فی طریق المدینۃ قال اذا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہٰ وسلم یمشی فسمعتہ یقول أنا محمد


ö وأنا احمد ونبی الرحمۃ ونبی التوبۃ والحاشر والمقفی ونبی الملاحم﴾﴿۲

 

’’حضرت حذیفہ(رض) سے روایت ہے کہ میں مدینہ منورہ کی کسی گلی میں جارہا تھا کہ وہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم بھی تشریف لے جارہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کو فرماتے سنا کہ مَیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ہوں ،مَیں احمد ہوں ،مَیں نبیٔ رحمت ہوں اورمیں نبی التوبہ اورحاشر اورمقفی اورجنگجو نبی ہوں ‘‘-

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کاجنگجو ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی نبوت کے اخت صاص وامتیاز پردلالت کرتاہے-

سیّدنا نبی المحلمۃ


ö :﴿جنگ جو نبی ﴾

 

علامہ نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کااسم گرامی نبی المحلمۃ اس لیے رکھا گیا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم جنگ وجہاد کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے-﴿۳

ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے : کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تلوار دے کر بھیجاگیا-﴿۴

اسی نسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کااسم مبارکہ سیّدنا المحلمۃ


ö ﴿جنگ جو نبی﴾:

 

ملاحم’’ملحمۃ ‘‘کی جمع کثرہ ہے اوراس میں اِشارہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے بہت سی جنگیں لڑیں یاآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی اُمت لڑے گی اوران کاعشرعشیر بھی پہلے اُمتوں میں نہیں پایا گیا حتٰی کہ وہ کانے دجال سے قرب قیامت میں بھی جنگ لڑے گی-﴿۵

سیّدنا الضحوک


ö:﴿دشمن کاخون بہانے ﴾:

 

صالحی بیان کرتے ہیں کہ تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کوان ناموں سے مخاطب کیاگیا ہے-

﴿الضحوک القتال یرکب البعیر ویلبس الشملۃ ویجتزی بالکسرۃ وسیفہ علی عاتقہ﴾-﴿۶

’’دشمن کاخون بہانے والے جنگ جو ،اونٹ پرسوار ہوں گے اورعمامہ پہنیں گے اورایک لقمہ پر اکتفا کریں گے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے کندھے پر تلواہوگی‘‘-

سیّدنا القتول


ö ﴿ماہرِجنگ﴾:

 

شیخِ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی نے اِس اسم مبارک کاتذکرہ مدارج النبوۃ میں کیاہے-

القتول :ا لصبورکے وزن پر ہے یعنی جنگ کرنے والے ماہر شخص-﴿۷

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کااسم گرامی سیّدنا القتال


ö بھی ہے-

 

حکم جہاد کی معنویت ومقصدیت کو پورے طور پراُجاگر کرنے کے لیے نبیٔ اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ذات مبارکہ کوجہاد و قتال کامکلّف ٹھہرایا گیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم جنگوں کے پیغمبر ہیں اوریہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نبوت کاایک اختصاص ہے-

سیّدنا المجاھد


ö:﴿جہاد کرنے والے ﴾:

 

﴿یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم﴾ ﴿۸

’’اے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم ! کفار اورمنافقین کے ساتھ جہاد کیجئے اوران پر سختی بھی کیجئے ‘‘-

مراد یہ ہے کہ کفار ومشرکین کے ساتھ تو ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کی جائے جب کہ منافقین پرحدوں کو جاری کیاجائے-﴿۹

منافق لوگ کہیں نہ کہیں اپنے روّیوں سے منافقت ظاہر کردیتے ہیں خصوصاً آزمائش کی گھڑی میں وہ ثابت قدم نہیں رہتے تو ایسی قوم کے ساتھ جو جہاد مقصود ہے وہ یہ کہ ان کے سامنے اسلام کی حقانیت کے دلائل پیش کیے جائیں اوراُن کو ان کی منافقانہ روش پر خوب زجر وتوبیخ کی جائے- ﴿۰۱

درج بالا آیت مبارک میں مقصدیتِ جہاد کی جس خاص جہت کو زیرِ بحث لایا گیا ہے ایک تو یہ ہے کہ کفارومشرکین اورمنافقین سے بیک وقت کس نوعیت کی جنگ مقصود ہے -جہاد کاایک مقصد اگرمسلمانوں میں جذبہ خلوص کونکھارنا ہے تاکہ وہ ہر حال میں مائل بہ جہاد رہیں تو دوسری طرف اس آزمائش کے ذریعے کھرے کھوٹے کی پہچان بھی مقصود ہے کیونکہ جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے -

یعنی مسلمانوں کو ہر حال میں جہاد کے لیے تیار رہنے کا حکم ملا ہے:

﴿انفروا خفافا و ثقالا و جاھدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل اللہ ذالکم خیر لکم ان کنتم تعلمون﴾﴿۱۱

’’نکل پڑو خواہ تھوڑے سامان کے ساتھ آراستہ ہو یازیادہ سامان کے ساتھ اوراللہ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے ﴿زیادہ﴾بہتر ہے اگر یقین رکھتے ہو‘‘-

درج بالا آیت مبارک میں جہاد کی تین صورتوں پر بحث کی گئی ہے یعنی جہاد بالمال،جہاد بالنفس اور جہاد فی سبیل اللہ اسی حوالے سے باب جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کے مختلف اسمائ کاتذکرہ ملتا ہے-

سیّدناالمجاہد بالقرآن


ö:﴿قرآن کے ساتھ جہاد کرنے والے﴾،سیّدناالمجاہد باللسان
ö:
﴿زبان کے ساتھ جہاد کرنے والے ﴾،سیّدناالمجاہد بالنفس
ö:
﴿جان کے ساتھ جہاد کرنے والے ﴾اور سیّدنا المجاہد فی سبیل اللّٰہ
ö:﴿اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے﴾ -﴿۲۱

 

نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم درجہ بالا اسمائے گرامی سے جہادِ اسلامی کے مختلف مناہج اورصورتیں مستنبط ہوتی ہیں-

﴿جاری ہے﴾

حوالہ جات:-

۱-نعیم صدیقی، محسن انسانیت، لاہور: الفیصل ناشران م ص: ۵۵۳

۲-الشیبانی، ابو عبداللہ، احمد بن حنبل، المسند الامام احمد بن حنبل ، موسسۃ الرسالۃ، ۱۲۴۱ھ، باب: حدیث حذیفہ بن الیمان حدیث نمبر۵۴۴۲۳، ۸۳/۶۳۴

۳- ابوالفضل، زین الدین عبدالرحیم ، العراقی، م: ۶۸۵ طرح التثریب فی شرح التقریب ، بیروت لبنان: دارالفکر العربی ، باب اول قاتل الناس، ۷/۰۸۱

۴- فتنی، محمد طاہر،علامہ ، مجمع البحار الانوار، المدینۃ المنورہ: مکتبۃ دارالایمان، ۵۱۴۱ھ، ۳/۸۲۴

۵-القسطلانی، احمد بن شہاب الدین، المواھب اللدنیۃ بالمخ المحمدیہ، القاہرہ، مصر: المکتبۃ التوفیقیۃ، ۳/۴۸۱

۶- صالحی، الشامی، محمدبن یوسف، سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرہ خیر العباد، بیروت، لبنان: دارالکتب العلمیۃ م ۴۱۴۱ہجری،۱/۳۸۴

۷-دہلوی، عبدالحق، مدارج النبوۃ، سکھر: مکتبہ نوریہ رضویہ، ۱/۲۱۳

۸-التوبہ: ۳۷

۹- ابوالفدائ، ابن کچیر، عمادالدین، تفسیر القرآن العظیم، بیروت لبنان: مطبوعہ دارالفکر، ۸۱۴۱ ہجری، ۴/۳۹۳

۰۱- سعیدی، غلام رسول، مولانا تبیان القرآن، لاہور، رومی پبلیکیشنز اینڈ پرنٹرز، ۵/۷۹۱

۱۱- التوبہ: ۱۴

۲۱- ابو انیس، محمد برکت علی لدھیانوی، اسمائ النبی الکریم


ö، فیصل آباد ، کیمپ دارالاحسان پبلیکیشنز، ۴/۴۶۱۴- ۲۷۴۱

 

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر