امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہ) کے متصوفانہ افکار

امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہ) کے متصوفانہ افکار

امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہ) کے متصوفانہ افکار

مصنف: لیئق احمد اپریل 2024

علم و فقر کے شہ تاج سیدنا امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) سید الشہداء سیدنا امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے پڑ پوتے، سیدنا زین العابدین (رضی اللہ عنہ) کے پوتے، سیدنا امام باقر (رضی اللہ عنہ) کے فرزند ہیں-آپ کی ولادت باسعادت شہرِ سید الانبیاء (ﷺ) میں سن 80ھ  کو ماہِ ربیع النور میں ہوئی-آپ کااسمِ مبارک جعفر، کنیت ابو عبداللہ اور ابو اسماعیل اور معروف ترین لقب صادق ہے-آپ کا پدری سلسلہ جہاں حیدر کرار ابو تراب سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم سے جا ملتا ہے وہیں مادری سلسلہ صدیق اکبر حضور سیدنا ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)سے منسوب ہے- [1]سیدنا صدیق اکبر کی بابت آپؓ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی قرابت سےنفع عطا فرمائے گا-[2]

شیخ المشائخ امام علیہ الرحمہ کی شخصیت علم ظاہر و باطن میں حجت و مشعلِ راہ اور علوم مصطفوی و مرتضوی کی امین ہے- بدایونی آپ کی شان میں کہتے ہیں:

ہے بزمِ مئے کشاں میرِ نجف ہے میرِ میخانہ
مئے عرفاں سے ہے لبریز جامِ جعفرِ صادق

سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کی شان میں امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کا فرمان ہے کہ آپ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے-[3] امام اعظم نے حضور سیدنا امام جعفر صادق کی شاگردی بھی اختیار فرمائی اور بلاشبہ اس پر آپ کو افتخاربھی تھا-آپ کے مقام کو سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ نے حضرت امام ابو حنیفہ کو سلطان الفقر کا لقب عطا فرمایا ہے اور امام ابو حنیفہ کا فرمان ہے کہ اگر نعمان بن ثابت(امام ابو حنیفہ) کو امام جعفر (رضی اللہ عنہ)کی صحبت نصیب نہ ہوتی تو وہ  ہلاک ہوجاتا- [4]اس بات میں کوئی شک، شبہ،جھجھک نہیں کہ سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)میدانِ فقر کے شہسوار ہیں اور فقراء کے سردار ہیں-

حضرت مالک بن انس(رضی اللہ عنہ) بیان فرماتے ہیں کہ :

’’آپ جب بھی حدیثِ نبوی (ﷺ) بیان فرماتے تو پہلے وضو فرمایا کرتے – آپ کی مجلس علم و حکمت کی مجلس ہوا کرتی‘‘- [5]

آپ نے جہاں علوم ظاہریہ کی ترویج کی وہیں علومِ باطنیہ کا دریا بھی آپ کے سینہ اطہر سے پھوٹا جس سے سالکانِ راہِ حق آج تک مستفیض ہو رہے ہیں اور تا قیامت ہوتے رہیں گے-

امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کے متعلق حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ بیان فرماتے ہیں کہ:

’’آپ اپنی عبادتوں کی وجہ سے ریاست سے بالکل الگ تھے-جبکہ امام مالک نے فرمایا کہ انہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو تین امور میں محو پایا-اول صلوۃ، دوم صوم اور سوم تلاوتِ قرآن‘‘- [6]

امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کے متصوفانہ افکار کے متعلق عاشقِ رسول مولانا عبدالرحمان جامی نے کئی واقعات کی جمع تدوین فرمائی ہے-آپ امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) کی وجاہت اور برکتِ اسم اعظم کے متعلق واقعہ بیان فرماتے ہیں:

’’ایک دن منصور نے اپنے دربان کو ہدایت کی کہ حضرت جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کو میرے پاس پہنچنے سے پہلے شہید کر دینا- اسی دن حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اور منصور کے پاس آکر بیٹھ گئے - منصور نے دربان کو بلایا ، اس نے دیکھا کہ حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ) تشریف فرما ہیں- جب آپ واپس تشریف لے گئے تو منصور نے دربان کو بلا کر کہا میں نے تجھے کس بات کا حکم دیا تھا؟ دربان بولا: خداکی قسم میں نے حضرت جعفر (رضی اللہ عنہ)کو آپ کے پاس آتے دیکھا ہے نہ جاتے بس اتنا نظر آیا کہ وہ آپ کے پاس بیٹھے تھے‘‘- [7]

دنیا و مافیہا کی محبت اگر دل میں بس جائے تو آنکھوں کے سامنے حجاب آجاتے ہیں اور انسان اپنے اصل سے بےخبر ہوجاتا ہے- اسی لئے حضور نبی کریم (ﷺ)نے بھی دنیا کو پسند نہ فرمایا اور ایسی صحبت سے بھی اجتناب کا حکم دیا جس نےمحض ظاہر کو ترجیح دی- امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) صحبتِ صالح اور صحبتِ طالع کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

’’جو بُرے آدمی کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ خود بھی برائی میں مبتلا ہو جاتا ہے، جو بری جگہوں پر آتا جاتا ہے وہ لوگوں میں بد نام ہو جاتا ہے اور جو اپنی زبان پر قابو نہیں پاتا وہ شرمندگی کا سامنا کرتا ہے ‘‘- [8]

مولاناجامی نے اپنی تصنیف میں امام جعفر (رضی اللہ عنہ) اور منصور سے منسوب ایک اور واقعہ درج فرمایا ہے :

’’منصور کے ایک درباری کا بیان ہے کہ اس نے جلاد کو بلاکر حکم دیا کہ جونہی جعفر بن محمد (رضی اللہ عنہ)آئے ، میں اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھ لوں گا تم اُسے شہید کر دینا- پھر حضرت جعفر صادق کو بلایا - میں آپ کے ساتھ ساتھ ہو لیا- میں نے دیکھا کہ آپ زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے جس کا مجھے پتا نہ چلا لیکن میں نے اس چیز کا مشاہدہ ضرور کیا کہ منصور کے محلوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا وہ ان سے اس طرح باہر نکلا جیسے ایک کشتی سمندر کی تند و تیز لہروں سے باہر آتی ہے- اس کا عجیب حلیہ تھا ، وہ لرزہ بر اندام، برہنہ سر اور برہنہ پا حضرت جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)  کے استقبال کے لیے آیا اور آپ کے بازو کو پکڑ کراپنے ساتھ تکیہ پر بٹھایا اور کہنے لگا، اے ابن رسول اللہ (ﷺ) آپ کیسے تشریف لائے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تو نے بلایا اور میں آگیا- پھر کہنے لگا کسی چیز کی ضرورت ہو تو فرمائیں، آپ نے فرمایا، مجھےبجز اس کے کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ تم مجھے یہاں بلایا نہ کرو میں جس وقت خود چا ہوں آجایا کروں گا- آپ اُٹھ کر باہر تشریف لے گئے تو منصور نے اسی وقت جامہائےخواب طلب کیا اور رات گئے تک سوتا رہا یہاں تک کہ اس کی نماز قضا ہو گئی، بیدار ہوا تو نماز ادا کر کے مجھے بلایا اور کہا جس وقت میں نے جعفر بن محمد (رضی اللہ عنہ)کو بلایا تو میں نے ایک اژ دہا دیکھا جس کے منہ کاایک حصّہ زمین پر تھا اور دُوسرا حصّہ میرے محل پر- وہ مجھے فصیح و بلیغ زبان میں کہہ رہا تھا مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اگر تم سے امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کو کوئی گزند پہنچی تو تجھے تیرے محل سمیت فنا کردوں گا- اس لئے میری طبیعت غیر ہوگئی جو تم نے دیکھ ہی لی ہے- میں نے کہا یہ جادو یا سحِر نہیں ہے یہ تو اس اسم اعظم کی خاصیت ہےجو حضور علیہ السّلام پر نازل ہوا تھا- چنانچہ آپ نے جو چاہا وہی ہوتا رہا‘‘- [9]

تصوف میں مقامِ خوف و رجا پر کافی مباحث موجود ہیں- بالاختصار یہ حکم ہے کہ سالک کو خوف اور امید کے درمیان رہنا چاہئے کہ اتنا خوف نہ ہو کہ مایوسی پیدا ہونے لگے اور اتنی امید نہ بڑھے کہ بےخوفی غالب آجائے-اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے ہمیشہ امید رکھنے اور مایوسی سے اجتناب کرنے کے متعلق امام جعفر (رضی اللہ عنہ)کی نسبت ایک واقعہ نقل ہے:

’’ایک تاجر جس کو آپؓ سے بہت لگاؤ تھا اور وہ مالی لحاظ سے بھی بہت خوشحال تھا، آپؓ کے پاس اکثر آتا جاتا رہتا تھا- ایک دفعہ وہ کچھ مدت گزرنے کے بعد آیا  اور بہت پریشان تھا، اس کے مالی حالات یکسر تبدیل ہوگئے تھے- اس نے اپنی اس زبوں حالی اور تنگدستی کی شکایت کی تو آپؒ نے دو اشعار فرما کر اسےنصیحت کی:

فَلَا تَجزَّعْ وَ اِنْ اَعسَرتَ یوما
فقد أیسَرتَ بِالزَّمَنْ الطویل
ولا تیأَسْ فَاِنَّ الْیَاسَ کَفرْ
لَعَلَ اللّٰهَ یُغْنِی عن قلیل

’’گھبراؤ نہیں ، اگر آج تم غریب ہوگئے ہو تو ایک عرصۂ دراز تک امیر بھی رہے ہو اور اللہ کی رحمت سے مایوسی میں نہ پڑو کیونکہ اس کی رحمت سے نا امیدی کفر ہے، کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ہی پھر تمہیں مالدار کر دے‘‘-[10]

امام جعفر (رضی اللہ عنہ) کی بصیرت کے متعلق امام جامیؒ نے بیان کیا:

’’جناب ابُو بصیر ؒ کا بیان ہے کہ میں مدینہ منّورہ گیا دیکھا کہ بہت سے حضرات امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی  زیارت کے لیے اُن کے مکان پر جا رہے ہیں - میں بھی اُن کے ہمراہ ہو لیا ، جب امام جعفر (رضی اللہ عنہ) کے دولت کدہ پر حاضر ہُوئے تو آپ کی نظر مجھ پر پڑی آپؓ نے فرمایا: اے بصیر ؒ تمہیں شاید پتا نہیں کہ پیغمبروں اور اُن کی آل و اولاد کی قیام گاہوں پر جنابت کی حالت میں نہیں آتے- میں نے کہا: اے ابن رسول اللہ (ﷺ)، میں نے احباب کو آپؓ کی طرف آتے دیکھا تو مجھے اندیشہ ہُوا کہ شاید آپ کی زیارت کی دولت پھر ہاتھ نہ آئے اس لیے میں آگیا- یہ کہہ کر میں نے توبہ کی کہ میں آئندہ ایسا نہ کروں گا اور پھر باہر آگیا‘‘- [11]

عطائے خداوندی سے فیضانِ فقر کا عالم یہ تھا کہ جہاں امام جعفر (رضی اللہ عنہ) مستجاب الدعوات تھے وہیں نگاہِ حیدری اور قم باذن اللہ کا اثر خوب غالب تھا- ایک راوی کا بیان ہے کہ :

’’ایک دن وہ مکہ معظمہ میں حضرت جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی معیّت میں جا رہا تھا کہ ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہُوا جس کے سامنے ایک مردہ گائے پڑی ہُوئی تھی اور وہ عورت اپنے بچّوں کے ساتھ گریہ و زاری میں مصروف تھی- امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: کیا تم چاہتی ہو کہ خداوند تعالیٰ گائے کو زندہ کر دے، وُہ بولی : آپ مذاق کیوں کرتے ہیں ، میں تو پہلے ہی مصیبت زدہ ہُوں -آپ نے فرمایا : میں مذاق نہیں کرتا- بعد ازاں آپؓ نے دعا فرمائی ، گائے کے سر اور پاؤں کو چُھوا ، پھر اُسے بُلایا تو وہ جلدی سےاُٹھ کھڑی ہُوئی - بعد ازاں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) لوگوں میں ملِ جُل گئے اور وُہ عورت آپ کو پہچان نہ سکی‘‘- [12]

سلوکِ تصوف میں بارہا صوفیاء کرام نے قرآن مجید کا ایک واقعہ بکثرت بیان فرمایا ہے جس میں سیدنا ابراہیمؑ اور چار پرندوں کا ذکر ہے[13] جس سے دنیا اور نفسانی خواہشات کے متعلق اہم سبق دیا جاتا ہے-اسی واقعہ کی نسبت سے  امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کے متعلق ایک راوی کہتاہےکہ:

’’ایک دن مَیں بہت سے آدمیوں کےساتھ امام جعفر (رضی اللہ عنہ) کی خدمت میں حاضرتھا- آپؓ نےفرمایا: جب خداوند نے حضرت ابراہیمؑ کو”خُذْ اَرْبَعَةً مِّنَ الطَّیْرِفَصُرْھُنَّ اِلَیْك“کا حکم فرمایاتھا توکیا وُہ پرندے ہم جنس تھے یاایک دُوسرے سےمختلف؟ پھرفرمایا: اگرتم چاہو توتمہیں ویساہی کر کےدکھاؤں؟ ہم نے کہا: ہاں- آپ نے فرمایا: اے مور! ادھر آجاؤ- اسی وقت ایک مورحاضر ہوگیا- پھرکہا:اے کوّے ادھر آؤ، فوراً ایک کوّاآگیا-پھر کہا:اے باز ادھرآؤ،  اُسی وقت ایک باز حاضر ہو گیا-پھر فرمایا: اے کبوترادھرآؤ،  فوراًایک کبوترآگیا- چاروں پرندےآگئے تو آپ نےفرمایا: اُن کو ذبح کر کےٹکڑےٹکڑے کردو، اور ایک کاگوشت دوسرے میں ملا دو- لیکن ہر ایک کے سر کو محفوظ رکھو-اس کے بعد آپ نے مور کے سر کو پکڑ کر کہا :اے مور!ہم نے دیکھا کہ اس کی ہڈیاں، سراور گوشت اس کے سر کے ساتھ مل گئےاور وہ ایک صحیح و سالم مور بن گیا-اسی طرح دوسرے پرندوں کے ساتھ معاملہ کیا وہ بھی زندہ ہوگئے‘‘- [14]

تصوف اورسخاوت کا آپسی تعلق بعین ایسے ہی ہے جیسے جسم اور روح کا- صوفی سخی ہوتا ہے نہ کہ بخیل اور امام پاک تو اس عظیم خانوادے سے ہیں جہاں رحمۃ اللعالمین (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے خزانوں کے قاسم اور سخی اعظم تھے- مولا علی پاک کرم اللہ وجہہ الکریم معروف بہ لقب السخی العربی (عربوں کا سخی آدمی ) تھے اور حضور سیدنا امام زین العابدین (رضی اللہ عنہ) اہلِ مدینہ کے سو  گھرانوں کے خفیہ کفیل تھے- سخاوت کا یہ عالم امام پاک میں بھی اسی قدر تھا کہ رات کی تاریکی میں اپنے پیٹھ پر بوری لادتے جس میں درہم اور کھانے پینے کا سامان ہوتا اور جاکر اہل مدینہ کے حاجت مند لوگوں کو دے آتے اور کسی کو پتا بھی نہ چلتا- جب آپؓ کا انتقال ہوا اور ان حاجت مند لوگوں کے پاس سامان آنا بند ہو گیا تو اس وقت آپ کا یہ راز لوگوں پر ظاہر ہوا- [15]

راہِ تصوف میں صبر و شکر کرنے پر کافی زور دیا جاتا ہے اور منشائے ایزدی پر راضی رہنے کا بھی مصمم حکم وارد ہے- اس متعلق سیدنا امام جعفرصادق (رضی اللہ عنہ)کا ایک واقعہ منقول ہے:

’’آپؓ کے سامنے آپؓ کے چھوٹے صاحبزادے کے گلے میں کوئی چیز اٹکی اور وہ اسی وقت اس دنیا سے رخصت ہو گئے- اس اچانک اور دل ہلا دینے والے صدمے سے آپؓ کی انکھوں سے آنسو تو جاری ہوئے لیکن آپ نے اس وقت میں بھی اللہ کی دوسری نعمتوں کو یاد رکھا اور فرمایا اگر ایک طرف مجھ سے کسی چیز (یعنی اس بیٹے) کو لے لیا گیا ہے تو دوسری طرف کتنی ساری چیزیں میرے پاس باقی بھی تو چھوڑ دی گئی ہیں اور اگر ایک شے کے ذریعے مجھےآزمائش میں ڈالا بھی گیا ہے تو دوسری جانب کتنی ہی چیزوں میں مجھے راحت بھی تو دے رکھی ہے- تدفین کے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ پاک ہے وہ ذات جو ہماری اولادیں واپس بلا لیتی ہے،اس ذات کی محبت اور بڑھ جاتی ہے اور تدفین مکمل ہو جانے کے بعد فرمایا ہم اللہ سے اپنے پیاروں کے بارے میں اپنی پسندیدہ چیز مانگتے ہیں اور وہ ہماری دعائیں قبول فرما کر وہ چیز عطا فرماتا ہےاور اگر وہ ہماری پسند کے خلاف فیصلہ فرما دیتا ہے تو ہم اس پر دل و جان سے راضی ہوتے ہیں ‘‘- [16]

آپ کی طبیعت میں عاجزی و انکساری تھی اور آپ اپنی ذات کے لئے ’’مَیں‘‘ کا لفظ پسند نہ فرماتے تھے- ایک روایت میں درج ہے:

’’آپؓ نے کسی قبیلہ کے ایک شخص سے پوچھا اس قبیلہ کا سر دارکون ہے؟ اس نے کہا:مَیں - آپؓ نے فرمایا: اگر میں اس قبیلہ کا سردار ہوتا تو میں یہ لفظ (میں) کبھی نہ کہتا‘‘- [17]

تکبر اور انا کے متعلق آپؓ کا فرمان مبارک ہے:

’’اللہ تعالیٰ چھ کو چھ کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے-حکمرانوں کو ظلم کی وجہ سے، عربوں کو عصبیت کی وجہ سے، زمینداروں کو تکبر کی وجہ سے، تاجروں کو خیانت کی وجہ سے، دیہات والوں کو دین سے ناواقفیت کی وجہ اور علماء کو حسد کی وجہ سے‘‘- [18]

آپؓ نے جہاں ظاہر کو شریعت مطہرہ سے سنوارنے کا حکم فرمایا وہیں باطن کی پاکیزگی کے متعلق بھی ارشاد فرمایا کہ جب انسان کا اندر یعنی باطن درست ہو جاتا ہے تو ظاہر طاقتور ہو جاتا ہے-[19] بلکہ معرفتِ الٰہی کے حصول کی اہمیت کے متعلق آپؓ کا ایک واقعہ منقول ہے:

’’کسی نے آپؓ سے پوچھا: کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں مگر ہماری دعا قبول نہیں ہوتی؟ فرمایا: کیونکہ جس سے تم دعا کرتے ہو اُسےتم پہچانتے ہی نہیں ‘‘- [20]

سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) سے صوفیاء کرامؒ نے فیض پایا اور آپ کی ہستی پاک سے اولیاء اتقیاء صوفیاء و علماء نے فیضان پایا- آپؒ نے 68برس کی عمر پائی اور مدینہ پاک میں بروز سومواربمطابق 15 رجب 148ھ کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور آپ کو جنت البقیع میں اپنے والد و دادا بزرگوار اور نواسہ رسول (ﷺ)خلیفۃ الاسلام حضور سیدنا امام حسن (رضی اللہ عنہ)کے پہلو میں دفن فرمایا گیا- [21]

اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ بیت اطہار اور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی محبت اور ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اپنے ظاہر اور باطن کوسنوار کر دین و دنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے- آمین!

٭٭٭


[1](کشف الغمہ فی معرفۃ الآئمہ، ص:376)

[2]( التاریخ الکبیر لابی خیثمہ، ج:2، ص: 333)

[3](سير اعلام النبلاء، ج: 6، ص: 258)

[4](عبدالحلیم جندی،حضرت ابو زہرہ،الامام جعفر الصادق، ص:162)

[5](ترتیب المدارک و تقریب المسالک،ج:2، ص:52)

[6]( صفوۃ الصفوۃ ، ج:2 ،ص: 94)

[7](شواہد النبوۃ از مولانا عبدالرحمن جامی،ترجمہ بشیر احمد ناظم،ص: 229-330)

[8]( طبقات الصوفیة للمناؤی 1/252، وأسعاف الراغین للصبّان ص:228)

[9]( شواہد النبوۃ از مولانا عبدالرحمن جامی،ترجمہ بشیر احمد ناظم،ص: 330-331)

[10]( الفصول المھمه فی معرفة احوال الأئمة؛ ص: 217)

[11]( شواہد النبوۃ از مولانا عبدالرحمن جامی،ترجمہ بشیر احمد ناظم،ص:332)

[12](ایضاً، ص:333)

[13](البقرۃ:260)

[14]( شواہد النبوۃ از مولانا عبدالرحمن جامی،ترجمہ بشیر احمد ناظم،ص:335)

[15]( علماء أهل البيت في عصر التابعين، ص: 384)

[16]( گلدستہ اہل بیت، امام جعفر صادق، ص: 470)

[17]( الطبقات الكبرى للشعراني، ج:1، ص:23)

[18]( نثر الدر فی المحاضرات، ج:1، ص:258)

[19](ایضاً، ص:245)

[20]( گلدستہ اہل بیت، امام جعفر صادق،ص: 475)

[21](ایضاً، ص:471)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر