امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہ) کی سائنسی علوم میں خد مات

امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہ) کی سائنسی علوم میں خد مات

امام جعفرصادق(رضی اللہ عنہ) کی سائنسی علوم میں خد مات

مصنف: ذیشان القادری اپریل 2024

  تعارف:

حضرت شیخ عبدالقادرؒ اپنی مشہور تصنیفِ لطیف ’’سر الاسرار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا جس سے مراد حقیقت محمدی ہے چونکہ آپ (ﷺ)کی ذات علم کو منتقل کرنے کا ذریعہ ہے جیسا کہ قلم عالمِ حروفات میں علم نقل کرنے کا ذریعہ ہے- یعنی کہ تمام علوم (خواہ وہ ظاہری ہوں یا باطنی) حضور نبی کریم (ﷺ) کے صدقے سے انسانیت کو نصیب ہوئے- علم نور و عرفان اور حقیقی مادی و روحا نی ترقی و کامرانی کا موجب اس صورت میں بن سکتا ہے جب وہ بارگاہِ نبوی اور گھرانہ نبوی کے فیضانِ مقدسہ کے زیرِ اثر ہو جن کی تقدیس و پاکیزگی کا خود رب العزت شاہد ہے-

بابِ علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جاری یہ نورِ علم کا بے کراں سمندر حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کے پڑپوتے حضرت امام جعفر صادق (بن امام باقر بن امام زین العابدین ) میں موجزن نظر آیا - آپؓ مختلف علوم کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں جس کی واضح جھلک آپؓ کے ہونہار شاگردوں میں نظر آتی ہے- فارس و عرب کے طول و عرض سے چار ہزار طلباء آپؓ کی درسگاہ سے وابستہ ہوئے-[1] مدینہ منورہ میں قائم آپؓ کی درسگاہ میں علمی تنوع اور علم دوستی پائی جاتی تھی- عباسی اور اموی سیاسی اختلافات سے الگ تھلگ آپؓ کی توجہ علم و تحقیق کی جانب مبذول تھی-

قرآن کریم کے مطابق فطرت اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے لبریز ہے اور ان نشانیوں کو عقل و وجدان اور معروضی تحقیق کو بروئےکار لا کر بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے- نتیجتاً اسلام کی سائنسی علوم کے حصول میں رغبت ایک فطری امر ہے- جیسے علمِ فقہ کے امامین امام ابو حنیفہ اور امام مالک (رضی اللہ عنہ) آپؓ سے فیض یاب ہوئے- اسی طرح سائنسی علوم کی جید شخصیت جابر بن حیان بھی آپ سے مستفیض ہوئی- آپؓ کے شاگردوں نے حصولِ علم کے بعد مختلف علاقوں میں علم کی شمع جلائی اور نہ صرف دینی علوم میں بلکہ دنیاوی علوم میں بھی خدمات سر انجام دیں- ذیل میں مختلف سائنسی علوم میں سیدنا امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے-

کیمیا (Chemistry):

کیمیا میں مظاہر اور مقداریں معلوم و معین کرنے میں امام جعفرصادق (رضی اللہ عنہ) کا کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے- اس سے قبل کیمیا کو جادو اور عجیب و غریب شے سمجھا جاتا تھا چونکہ اشیاء کے وقوع ہونے کے اسباب معلوم نہیں ہوا کرتے تھے- [2]آپؓ نے ہوا کو مختلف عناصر کا مجموعہ قرار دیا جس میں موجود اجزاء حیاتیات کے عمل ِتنفس(Respiration) اور اشیاء کے عملِ احتراق(Combustion) میں مدد دیتے ہیں-

مشہور کیمیا دان اور ریاضی دان جابر بن حیان جنہیں دنیا بابائے کیمیا (Father of Chemistry)کے نام سے جانتی ہے، آپؓ کے نمایاں شاگرد تھے- [3]جابر بن حیان نے امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کے زیرِ سایہ علم کیمیا پر کئی کتب و رسائل تحریر کیے جن میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) نے انہیں رہنمائی فراہم کی کہ علم کیمیا میں درجہ بندی کیسے کی جائے، معنی کی وضاحت بہتر طریقے سے کیسے کی جائے، تجربہ کیسے کیا جائے تاکہ نتائج میں سچ اور جھوٹ خلط ملط نہ ہوں اور کس طرح صبر اور جہدِ مسلسل حقائق جاننے میں مدد کرتے ہیں-[4] جابر بن حیان نے کیمیا پر سینکڑوں کتابیں تحریر کیں-مشہور اسلامی مؤرخ ابن خلکان کے مطابق جابر بن حیان کی دو ہزار صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہے جس میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کے 500 رسائل شامل ہیں-[5] جابر بن حیان نے کیمیا میں تجرباتی طریقوں کو پروان چڑھایا-[6] کئی کیمیائی مرکبات سلفیورک ایسڈ، نائٹرک ایسڈ، ہائڈروکلورک ایسڈ، کاسٹک سوڈا،  کئی سلفیٹس، نائٹریٹس  اور سوڈیم، پوٹاشیم کاربونیٹس دریافت کیے- اس کے علاوہ؛

 Sublimation, Crystallization, Distillation, Evaporation, and Filtration

جیسے کیمیائی طریقوں کو بہتر انداز میں کرنے کا سہرا بھی آپ ہی کو جاتا ہے - آپ نے ایسے صفحات ایجاد کیے جو آگ مزاحم (Fire Resistant)ہوں اور ایسی سیاہی بنائی جس سے رات کو بھی پڑھا جا سکے-[7] آپ نے قرع انبیق (Distilling Apparatus) بھی ایجاد کیا- جابر بن حیان نے ماء الملوک یا آبِ سلطانی(Aqua Regia) تیار کیا جس میں سونا حل ہو جاتا ہے -اس کے علاوہ آپ نے زنگ سے بچنے کا طریقہ بھی بتایا- جابر بن حیان کے مطابق ہر شے کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے-[8] آپ نےاشیا میں میزان کا تصور دیا جس کے مطابق حروف کو اعداد اور مزاج (گرم، سرد ، خشک، ٹھنڈا) تفویض کیے جاتے ہیں اور عناصر کی مقدار ان کے ناموں میں حروف کے متناسب ہوتی ہے- [9]

ہشام بن الحکم بھی امام صادق کے شاگرد تھے جنہوں نے رنگ، ذائقہ، اور بو کا ذرات پر مشتمل ہونے کا نظریہ پیش کیا-[10] محمد یحییٰ الہاشمی نے ایک کتاب ”الامام الصادق ملھم الکیمیا“ تحریر کی جس میں علم کیمیا میں آپ کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے- [11]

طب(Medicine):

دوسری صدی ہجری تک طب میں عملی سے زیادہ نظریاتی عنصر شامل تھا جس میں تفصیل اور تجرباتی جانچ پڑتال کی کمی تھی-[12] طب کے متعلق امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کے متعدد فرمودات ملتے ہیں-[13] آپؓ نے کھانے کی چیزوں کے فوائد و نقصانات بیان کیے، عمومی بیماریوں کا علاج تجویز کیا اور مختلف روایتی طبی طریقوں کی تائید بھی کی- آپؓ نے پھلوں میں سیب، ناشپاتی، انار، انگور، تربوز، کھجور، اخروٹ، کشمش اور زیتون کے فوائد کو بیان کیا- [14]جبکہ سبزیوں، دالوں اور اناج میں پیاز، بینگن، کدو، گاجر، مولی، شلجم، لہسن، سلاد پتہ، سبز پیاز ، کلونجی، ہرمل، مسور کی دال، جو اور چاول کے استعمال کے فوائد بیان کیے - اس کے علاوہ مختلف مشروبات پانی، دودھ، سرکہ، شہد اور عرقِ گلاب کے فوائد کا ذکر کیا- گوشت اور حیوانی مصنوعات کی مفید قسموں پر روشنی ڈالی- مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے زیرہ، سماق اور شہد تجویز کیا- آپؓ نے جڑی بوٹیوں سے علاج (Herbal Medicine) پر بھی زور دیا- سرمہ اور حجامہ کی اہمیت و افادیت پر بھی بات کی- مختلف جسمانی و روحانی بیماریوں کا علاج تجویز کیا-[15] دسویں صدی عیسوی کے سوانح نگار ابن ندیم کے مطابق آپ کے شاگرد جابر بن حیان نے طب پر سینکڑوں کتب تحریر کیں - [16]

طبیعات (Physics):

طیبعات کے میدان میں امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)نے اپنے والد امام باقر کے مکتب میں کائنات کی ابتدا کے بارے میں ارسطو کی رائے سنی کہ کائنات اربعہ عناصر مٹی، پانی، ہوا اور آگ پر مشتمل ہے تو آپ نے اربعہ عناصر کو مزید قابل تقسیم اور مٹی کو بہت سے عناصر کا مجموعہ قرار دیا-[17] امام صادق نے دریافت کیا کہ روشنی اشیاء سے منعکس ہو کر آنکھوں میں آتی ہے-[18] روشنی کی رفتار بہت تیز ہے جبکہ روشنی چیزوں میں حرکت بھی پیدا کر سکتی ہے جیسا کہ جدید سائنس نے ثابت کیا ہے-[19]امام جعفر صادق(رضی اللہ عنہ) نے یہ بھی فرمایا کہ در اصل ہر شے حرکت میں ہے خواہ وہ بے جان ہی کیوں نہ ہو-

فلکیات(Astronomy):

زمانہ قدیم میں علم فلکیات سے خشکی و تری میں رستے ڈھونڈ ے جاتے تھے- امام صادق زمین کی حرکت اور ستاروں کی روشنی کے متعلق اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے -[20] روایات کے مطابق ایک یمنی اور ایک عراقی شخص سے سیاروں کی روشنی کی مقدار اور ستاروں کے جھرمٹ کے متعلق آپ کی گفتگو ملتی ہے- ایک اہم چیز جو امام جعفر(رضی اللہ عنہ) نے دریافت فرمائی کہ کئی ستارے سورج سے بھی زیادہ بڑے ہیں- امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)کے شاگرد ابواسحاق ابراہیم بن حبیب الفزازیؒ نے اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے اسطرلاب پر کام کیا- ’’کتاب العمل بالاسطرلاب ذوات الحلق‘‘ اور ’’کتاب العمل بالاسطرلاب المسطح‘‘ تحریرکیں[21] دوسرے شاگرد احمد بن حسن بن ابی الحسن الفلکی الطوسی ہیں، جنہوں نے علم فلکیات میں مہارت حاصل کی اور اسی نام سے مشہور بھی ہوئے، آپ نے کئی کتب تحریر کیں جن میں کتاب ریحان المجالس و تحفۃ المؤانس قابل ذکر ہے-

جفر (Numerology):

علم الجفر میں حروف تہجی کو اعداد تفویض کیے جاتے ہیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے کائنات کے اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے- [22]علم جفر پر دینِ اسلام کےمتعدد ممتاز علماء نے کتابیں تحریر کیں-[23] اس علم کی بنیاد قرآن کریم میں بیان کردہ حضرت موسیٰؑ کو دی گئی الواح [24]اور بر و بحر کی تمام تفصیلات کے قرآن کریم میں موجودگی سے منسوب ہے-[25] امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ) کوعلمِ جفر میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے- قرآن کریم سے فال نکالنے کے حوالے سے (مفاتیح الغیب کے نام سےشائع شدہ)کتاب امام جعفر صادق (رضی اللہ عنہ)سے منسوب ہے- [26]

دیگرعلوم:

مندرجہ بالا علوم کے علاوہ آپؓ نے اپنے شاگرد مفضل بن عمر سے انسان، حیوانات، نباتات، جمادات اور کائنات کی تخلیق کی حکمتوں پر تفصیلاً خطاب کیا جسے ”توحیدِ مفضل“ کتاب کی صورت دی گئی- امام صاحب کی تعلیم میں سے چند موتی سمیٹنے کی غرض سے انسان کے جسم کی تخلیق میں حکمت پر اس کتاب کے کچھ اقتباسات ذیل میں دئیے گئے ہیں :[27]

”امام صادق نے فرمایا ذرا آنکھوں ہی پر غور کرو کہ آنکھیں کس طرح جسم کے ایک خاص مقام پربنائی گئیں- دیکھو! یہ آنکھیں جسم کے سب سے بلند اور مناسب مقام پر بنائی گئیں اور سامنے کی طرف بنائی گئیں- جس طرح چراغ دان میں چراغ رکھا ہوتا ہے تاکہ سامنے کی طرف موجود ہر چیز کو دیکھا جا سکے- یہ آنکھیں جسم کے نچلے حصے میں نہیں بنائی گئیں- اگر یہ آنکھیں ہاتھوں میں ہوتیں یا انہیں پیروں کے اندر لگا دیا جاتا،آنکھیں اگر ان مقامات پر ہوتیں تو آگے دیکھنے کے لیے انسان کو بار بار اچھلنا پڑتا- ان مقامات پر آنکھیں ہوتیں تو بہت جلد خراب ہو جاتیں- انسان کےلیے یہ ممکن نہ ہوتا کہ وہ سامنے اور اطراف کے منظر کو دیکھ پاتا- اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی آنکھیں جسم کے سب سے بلند اور محفوظ مقام پر بنائیں اور انہیں ہڈیوں کے خول میں اس طرح رکھا جس طرح چراغ کو چراغ دان میں رکھا جاتاہے“-

”دیکھو مفضل آنکھیں اس لئے عطا کی گئیں کہ ہم ہر طرح کے رنگوں کو محسوس کر سکیں- اب دیکھو اگر آنکھیں ہوتیں لیکن رنگ نہ ہوتے، یا اس کے برعکس رنگ ہوتے اور آنکھیں نہ ہوتیں تو پھر پہلی صورت میں آنکھوں اور دوسری صورت میں رنگوں کا ہونا بےفائدہ ہوتا“-

”تو مفضل ذرا غور تو کرو اس بات پر کہ خالق و مالک اللہ نے کس طرح یہ مقدر کر دیا کہ ایک چیز دوسرے کو محسوس کرے اور ہر حاسے کے لیے کسی محسوس کو مقرر کر دیا جو اس میں اپنا عمل کرے اور اس کے بارے میں بتائے“-

”دیکھو مفضل! یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حاسوں اور محسوس کی جانے والی چیزوں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے کچھ واسطے قرار دیئے- جیسے روشنی اور ہوا- اگر روشنی کا وجود نہ ہوتا تو آنکھیں کسی بھی رنگ کو محسوس نہیں کر سکتی تھیں اور اگر ہوا نہ ہوتی جو آوازوں کو کانوں تک پہنچاتی ہے تو کان کسی بھی قسم کی آواز سننے سے قاصر رہتے “-

حرف آخر:

حضرت امام جعفر صادق کی سائنسی خدمات اور کاوشیں اس بات کا غماز ہیں کہ علم مسلمانوں کی میراث ہے- اسلام کی متبرک ہستیاں دینی و دنیوی علوم کا سر چشمہ ہیں- اہل بیت اطہار سے محبت و مودت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہمیں مختلف علوم حاصل کرنے کی طرف رحجان دینا ہو گا - اگر ہم اوجِ ثریا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اسلاف کا منہج بروئے کار لا کر علم و تحقیق کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنا ہو گی ، اسی صورت ہم دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتے ہیں-

٭٭٭


[1]https://pakobserver.net/imam-jafar-al-sadiq-the-fountain-head-of-knowledge-by-abdul-rasool-syed

[2]العلوم العقلية عند الإمام جعفر الصادق( ؓ)، سولاف فیض الله حسن؛مجلة دراسات فی التاريخ والآثار ؛ عدد77 ، لسنة 2021، ص: 582

[3]الامام الصادق، محمد ابو زہرہ مصری،ص:101

[4]جعفر بن محمد الامام الصادق علیہ السلام،عبدالعزیز سید الاھل، دارالشرق الجدید، بیروت، ص:48

[5]The Imam Jaafar As-Sadik, Ibn Khallikan’s Biographical Dictionary, Vol. I, Page No. 300

[6]https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC6077026

[7]https://muslimheritage.com/the-advent-of-experimental-chemistry

[8]https://www.britannica.com/biography/Abu-Musa-Jabir-ibn-Hayyan

[9]Alchemy in Islam by Karin Ryding; Encyclopaedia of the History of Science, Technology, and Medicine in Non-Western Cultures, Editors (Third Edition): Helaine Selin; Springer; Page No. 182

[10]العلوم العقلية، عدد77 ، لسنة 2021، ص: 582

[11]الامام الصادق ملھم الکیمیا ، ڈاکٹرمحمد یحییٰ ھاشمی؛مطبع النجاح ،بغداد؛ طبع دوم  1950

[12]العلوم العقلية،  عدد77 ، لسنة 2021، ص: 576

[13]طب الامام الصادق، محمد كاظم القزويني؛ منشورات قلم الشرق

[14]https://referenceworks.brillonline.com/entries/encyclopaedia-iranica-online/jafar-al-sadeq-COM_3796

[15]https://alkafeel.net/islamiclibrary/public/sadiqmedicine/index.html

[16]The Fihrist of al-Nadīm; Translator: Bayard Dodge; Columbia University Press; 1970, Page No. 862

[17]الإمام الصادق كما عرفه علماء الغرب، نور الدين آل علي، دار الذخائر للمطبوعات، ص: 120-121

[18]العلوم العقلية ، عدد77 ، لسنة 2021، ص: 583

[19]ایضاً،ص: 584

[20]ایضاً،ص: 585-587

[21]الإمام الصادق كما عرفه علماء الغرب، نور الدين آل علي، دار الذخائر للمطبوعات، ص: 59-60

[22]https://hurqalya.ucmerced.edu/node/706

[23]https://www.roohanialoom.com/archives/2828

[24] الاعراف: 145

[25] الانعام: 59

[26]مفاتیح الغیب، مصنف حضرت امام جعفر صادق، مترجم: حکیم حاجی قاضی سید محمد کرم حسین

[27]توحیدِ مفضل، جلد اول (موضوع انسان)،ص:106-113؛ ترجمہ: مولانا سید محمد ہارون زنگی پوری، اسلام اینڈ سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن، پاکستان

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر