مسئلہ فلسطین اور بانیان پاکستان

مسئلہ فلسطین اور بانیان پاکستان

مسئلہ فلسطین اور بانیان پاکستان

مصنف: لئیق احمد دسمبر 2023

پاکستان بنانے کا مقصد مسلمانوں کو تسلط شدہ انگریز سامراج اور ہندو سیاسی حکمرانی سے نجات دلا کر ایک آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا جس کی بنیاد کلمہ طیب پر رکھی گئی تھی جس کی ترجمانی اصغر سودائی نے”پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ“- اس نظم نے نعرے کی شکل اختیار کرکے پاکستان کے عین نظریے کی ترجمانی کی- اسی نظریے کی بنیاد پر بانیانِ پاکستان کا مؤقف فلسطین کے لئے اظہر من الشمس تھا اور بطور سیاسی لیڈران بھی وہ اس چیز کو بخوبی سمجھتے تھے کہ فلسطین پر یہودیوں اور مغرب زدہ طبقے کا قبضہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق قطعاً ناجائز ہے- زیرِ غور مقالہ میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی فلسطین کی خاطر کی گئی خطوط و بیان اور جدوجہد کا جائزہ لیا جائے گا- واضح رہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے مابین مسئلہ فلسطین کو لے کر 1937ء میں خط و کتابت کا سلسلہ بھی روا رہا تھا کیونکہ اقبال چاہتے تھے کہ فلسطین کا مقدمہ مسلم لیگ کے لئے اوج ہو- انھیں امید تھی کہ لیگ اس مسئلے پر ایک مضبوط قرارداد منظور کرے گی اور فلسطینی عربوں کی حمایت میں کوئی مثبت کارروائی ہوگی- وہ اس مقصد کے لئے جیل جانے کو بھی تیار تھے جو اسلام اور ہندوستان دونوں کو متاثر کرتا ہو- [1]

شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اور مسئلہ فلسطین:

جب عالمی جنگِ اول چل رہی تھی تب ایک نیا باب شروع ہوچکا تھا اور عالمی طاقتوں کا مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ ازِ سر نو تشکیل دینا تھا- وقت کے جھروکوں میں سلطنتِ عثمانیہ میں کالی بھیڑوں نے منافرت و منافقت کا ایسا تخم بویا جس نے اندر اندرہی اپنی جڑیں مضبوط کیں اور عالمی جنگ دوم کے خاتمے تک فلسطین میں دنیا بھر سے یہودیوں نے آکر بسنا شروع کر دیا اور پھر برطانوی سامراج کی سوچی سمجھی سازش اور پلاننگ کے نتیجے میں 1948ءمیں فلسطین کے سینے میں خنجر کھونپ کر ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو قائم کر ڈالا لیکن اس تباہی کا خدشہ علامہ اقبال اپنی حیات میں ہی بھانپ چکے تھے اور مسئلہ فلسطین پر آپ کی توجہ مرکوز تھی-مغربی ممالک فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کرکے اپنے وعدوں سے انحراف کر رہے تھے جو انہوں نے فلسطین میں امن اور فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ پر کئے تھے- 30 دسمبر 1919ء کو لاہور میں منعقد اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اقبال نے ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ برطانوی حکومت نے مشرق وسطیٰ میں مسلمانوں کی سرزمین کے حوالے سے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کیا جائے- اقبال نے زور دیا کہ کسی بھی مسلم سرزمین کا کوئی حصہ کسی دوسرے کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے-[2] اسی مدعے پر اقبال نے شعر میں کہا:

رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت
 پر ہے مئے گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا
 ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
 ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
 مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
 قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا

عالمی جنگ اول کےبعدلیگ آف نیشنز امنِ عالم کا بیڑہ اٹھانے کیلئے بنی لیکن عجب مغربی سازش کہ فلسطینی ریاست پر انگشت بدندان اور تعزیتی کلمات کےسوا عملی پیش رفت میں آج تلک کچھ کارگر نہ ہوسکا- اقبال نے اس بارے تنقید کرتے کہا تھا:

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے

اقبال نے اس مغرب زدہ ذہنی قافلے کو قبر سے کفن چوری کرنے والے سے تشبیہ دی:

برفتد تا روش رزم درین بزم کہن
درد مندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازین بیش ندانم کہ کفن دزدی چند
بہر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند

’’جہاں کا دکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لئے ایک انجمن بنائی ہے‘‘-

1924ء اور اس سے قبل سے اقبال کی سرد آہ شعلہ فغاں بنتی رہی - وہ بارہا برطانوی سامراج کو آڑھے ہاتھوں لیتے رہے اور مسلمانانِ ملت کو شعور و آگہی اور تڑپ و تحرک کی دوا دیتے رہے تاکہ قوم مسائلِ مشرقِ وسطیٰ پر یکجا ہوسکے-اقبال لکھتے ہیں:

حضرتِ کرزنؔ کو اب فکرِ مَداوا ہے ضرور
حکم برداری کے معدے میں ہے دردِ لایطاق
وفد ہندوستاں سے کرتے ہیں سرآغاخاں طلب
ہے نیا چورن پئے ہضمِ فلسطین و عراق

یہودیوں کا بڑھتا اثر و رسوخ اقبال کی نگاہ میں مغرب کو بھی لے ڈوبے گی اور آج اس کا عملی نمونہ ہمارے سامنے ہے-امریکہ جیسی بڑی طاقت اور سیاسی جماعتیں یہودیوں کی زیر اثر ہیں-[3] اقبال نے 17نومبر1932ءمیں منعقدہ تیسری گول میز کانفرنس میں بھی یہی بات اٹھائی تھی کہ برطانیہ کو اس سے باز آجانا چاہئےاور اگر عرب سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو واضح رہے کہ فلسطین مسلمانوں کا ہے اسے صیہونیت کو نہیں دیا جاسکتا - [4]اقبال نے کہا تھا:

تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خور
جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ
خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
 دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ

1933ء میں مجلس قانون ساز سے خطاب میں اقبال نے واضح کیا تھا کہ مسلمان دوسرے مسلمان سے ہمدردی رکھتا ہے-انہوں نے برطانوی حکومت کی فلسطین اور وزیرستان میں اختیار کردہ پالیسی کی سخت الفاظ میں تنقید کی-[5] 1936ء میں جب برطانیہ نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سفارش کی تو اقبال نہایت افسردہ ہوئے اور اس سرزنش اور سازش پر برطانوی مارگریٹ فار قورہرسن کے نام 20جولائی 1937 کو مکتوب لکھا:

’’میں بدستور بیمار ہوں اس لیے فلسطین رپورٹ پر اپنی رائے اور وہ عجیب اور غریب حالات اور احساسات جواس نے ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں بالخصوص اور ایشائی مسلمانوں کے دلوں میں بالعموم پیدا کیے ہیں یا کر سکتی ہے ، تفصیل سے تحریر نہیں کر سکتا- لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز ہو کر اس ظلم اور طغیان کے خلاف احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں بلکہ ان وعدوں کو ایفا کریں جو گزشتہ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے حکمرانوں نے عربوں سے کیے تھے- حقیقی طاقت کے نشے سے سرشار ہو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے تو تباہی سے ہمکنار ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا‘‘- [6]

اقبال نے اس سیاسی منظر نامے کے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کرتے کہا تھا کہ یہودی حضرت عمر فاروق کے داخلہ فلسطین سے قبل ہی فلسطین کو خیر باد کر چکے تھے لیکن برطانیہ نے جان کر اس خطے کو یہود و عرب کی کشمکش گاہ بنایا-[7] علامہ صاحب فرماتے ہیں:

’’میں عربوں کے ساتھ نہ انصافی کو شدت سے محسوس کرتا ہوں مجھے یقین ہے کہ مدبرین برطانیہ کے دلوں میں آج بھی ان مواعید کے ایفا کرنے کے احساس کو پیدا کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے انگلستان کے نام پر عربوں سے کیے تھے بہت اچھا ہوا کہ برطانوی پارلیمنٹ نے حال کے مباحثے میں تقسیم فلسطین کے مسئلے کو کھلا رکھا ہے پارلیمنٹ کے اس فیصلے سے مسلمانانِ عالم کو یہ حقیقت با کمالِ وضاحت آشکارا کرنے کا موقع مل گیا ہے کہ فلسطین کی تقسیم کا سوال صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جو تمام عالم اسلام پر یکساں موثر ہے اگر ہم اس مسئلے پر تاریخی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ یہ خاص اسلامی مسئلہ ہے اسرائیلیوں کی تاریخ کی روشنی میں یہ حقیقت واشگاف ہو جاتی ہے کہ یروشلم میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے داخلے سے بہت پہلے مسئلہ فلسطین کا اسرائیلی پہلو ختم ہو چکا تھا- یہودیوں کو فلسطین سے بالجبر خارج نہیں کیا گیا تھا‘‘- [8]

ضربِ کلیم میں انہوں نے اسی متعلق اظہار کیا:

جَلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ میرا دِل
تدبیر سے کھُلتا نہیں یہ عُقدۂ دُشوار
تُرکانِ ’جفاپیشہ‘ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

قائداعظم محمد علی جناح اور مسئلہ فلسطین:

قائداعظم محمد علی جناح اور آپ کی سربراہی میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ فلسطین پر ببانگِ دہل بات کی-1933ءسے1946ءتک فلسطین پر 18 قراردادیں منظور کی گئیں، باقاعدگی سے یومِ فلسطین منایا جاتا، ہر سطح پر فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور اتحاد کا اظہار کیا جاتا رہا- حتیٰ کہ قراردادِ پاکستان کے موقع پر بھی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کی قرار داد منظور کی گئی-قائداعظم بمثلِ اقبال تادمِ مرگ فلسطین کی آواز بنے رہے- 11جولائی1937ء کو اپنے بیان میں کہا:

’’فلسطین رپورٹ عربوں کے ساتھ بے حد شدید ناانصافی کرتی ہے اور اگر برطانوی پارلیمان نے اس پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کردی تو برطانوی قوم عہد شکنی کی مرتکب ہو گی-ایسا کام کرنا جو سراسر نا انصافی پر مبنی ہوغلط ہوتا ہے اور صرف اس لیے کہ اس سے زحمت کم سے کم ہوجائے گی، یا یہ خصوصی مفاد کے حسبِ حال ہے- برطانیہ کو اپنے عہد بے خوفی کے ساتھ پورے کرنے چاہیں ‘‘- [9]

قائد محترم مسلم لیگ رہنماؤں کو مسئلہ فلسطین کے لئے ابھارتے رہے تھے اور 1938ء میں قاہرہ میں ہونے والی کانگرس کے لئے وہ خواہشمندان شرکت کنندگان کو خط بھی لکھتے رہے- سندھ مسلم لیگ کانفرنس میں قائداعظم نے کہا:

جہاں تک فلسطین کے المیے کا تعلق ہے جو فی الوقت جاری ہے اور انتہائی بے رحمانہ طریقے سے عربوں پر ظلم کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنے ملک کی آزادی کی خاطر جدوجہد میں مصروف ہیں- مجھے آپ کو یہ بتانے کی بمشکل ہی ضرورت ہوگی کہ ہمارے پاس ایسے قائل کرنے والے ثبوت موجود ہیں اور جن کا ہند کے طول و عرض میں مظاہرہ کیا گیا کہ عربوں کی دلیرانہ اور قابلِ تعریف جدوجہد میں جو وہ جملہ مخالفت کے باوجود اور بغیر کسی دفاع کے کر رہے ہیں، ہر مسلمان کا دل ان کے ساتھ ہے- آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی قرار داد کے مطابق سارے ہندوستان میں 26 اگست کو ’’یومِ فلسطین‘‘ منایا گیا اور اطلاعات کے مطابق بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ سارے ملک میں ہزار ہا جلسے منعقد ہوئے جن میں ان لوگوں کے ساتھ پوری پوری مخلصانہ ہمدردی کا اظہار کیا گیا جو اپنے ملک کی آزادی کی خاطر لڑ رہے ہیں- مسلمانوں کے دل زخمی اور مجروح ہوجاتے ہیں جب وہ بہادر عربوں پر ظلم و تعدی اور بے رحمی کی خبر اور اس کی تفصیلات سنتے ہیں اور مجھے علم ہے کہ کُل عالَمِ اسلام وہاں برطانیہ کے افعال دیکھ رہا ہے- آل انڈیا مسلم لیگ کے اختیار میں جو کچھ بھی ہوا وہ فلسطین میں عربوں کے مقصدِ عظیم کے ضمن میں مدد کرے گی- [10]

10نومبر1938ء کو بمبئی میں مسئلہ فلسطین پر برطانوی حکمتِ عملی پر قائداعظم نے کہا:

’’میری رائے میں برطانیہ کو عربوں سے عہد شکنی نہیں کرنی چاہیے تھی اور بہت پہلے عربوں کو موعود (وعدہ کی گئی) آزادی دے دینی چاہیے تھی- مزید یہ بہت ظالمانہ بات تھی کہ یہودیوں کو، ان کے زیرِ اثر، بیرونی اقوام کے اشارے پر، کوڑے کرکٹ کی طرح فلسطین میں پھینک دینے کی کوشش کی جائے اور اس طرح خود یہودیوں کے لیے بھی از حد قابلِ رحم صورت حال پیدا کردی جائے جو عربوں کی سرزمین پر جائیں اور اپنے نام نہاد قومی وطن کی دلیل کے تحت وہاں قیام پذیر ہو جائیں‘‘-

1938ء میں قائد اعظم مسلم لیگ اور مسلمانوں کے ہر جلسے اور ہر کانفرنس میں فلسطین کے مسئلے پر بہت زیادہ توجہ دیتے رہے- قائداعظم حالانکہ ابھی کسی آزاد ریاست کے لیڈر نہ تھے لیکن پھر بھی عرب مسلمانوں کی امید افزاء نگاہیں ان کی جانب مبذول تھیں- [11]

30جنوری1939ءکو فلسطین کے معاملے پر قائد اعظم نے برطانوی وزیر کو ٹیلی گرام میں کہا:

’’آل انڈیا مسلم لیگ برطانوی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ مسلم لیگ کو فلسطین کانفرنس میں نمائندگی دے اور ’’فلسطین قومی عرب مطالبات‘‘ کو تسلیم کرے- مسلم ہند نہایت بے قراری کے ساتھ نتائج کا منتظر ہے- میں برقیہ کے ذریعہ سے سارے ہند میں پھیلے ہوئے جذبات کی شدت اور تاثرات کا کماحقہٗ اظہار نہیں کرسکتا- کانفرنس کی ناکامی کا سارے عالَمِ اسلام میں تباہ کن اثر ہوگا اور سنگین نتائج برآمد ہوں گے- میں بھروسہ کرتا ہوں کہ آپ اس مخلصانہ اپیل پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے‘‘- [12]

انہی مراحل کا تسلسل چلتا رہا اور 17فروری1944ء کو وزیراعظم برطانیہ کو قائداعظم نے ٹیلی گرام میں لکھا:

’’بااثر حلقوں کی حمایت سے امریکی اور صہیونی پروپیگنڈا زبردست خوف اور خطرے کو جنم دیتا ہے-وائٹ پیپر اور ان یقین دہانیوں سے کوئی انحراف صریحی نا انصافی اور عہد شکنی کی جانب ایک اور قدم ہوگا‘‘- [13]

1945تا46اسی طرح خطوط اور بیانات کا سلسلہ جاری رہا جس میں قائداعظم نے بھرپور انداز میں مسئلہ فلسطین کو اجاگر کیا اور برطانوی سامراج کو للکارتے رہے-اپریل 1946ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل میں فلسطین پر مدعا اٹھایا گیا اورپھر قراردا دمنظور ہوئی- قائد نے فرمایا:

’’جِس دِن سے برطانیہ کو فلسطین کامینڈیٹ دیا گیا ہے یہ ایک ایسی تاریخ بن گئی ہے جو تاریک تر ہوتی جا رہی ہے- برطانیہ جیسی عظیم طاقت بھی امریکی یہُود کے دباؤ میں آگئی ہے‘‘- [14]

اسی بیان میں قائد نے امریکہ اور برطانیہ کی جنگوں میں تیل ڈالنے والی نحوست کو بھی واضح کیا تھا جو یہ دونوں ممالک آج تک کررہے ہیں کیونکہ انہوں نے بخوبی اندازہ لگالیا تھا کہ مغرب کی دھوکے بازی، فریبی اور جھوٹی باتیں ہر گز فلسطین کا حل نہیں چاہیں گی-قائد نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ مسئلہ گرچہ یہود وعرب کا ہے سو وہ آپس میں خود اسے حل کرلیں گے- 1947ء میں قیامِ پاکستان کے ایک ماہ بعد قائد اعظم نے فلسطین کے مفتی اعظم امیر الحسینی کے نام خط لکھا اور انہیں اعتماد میں لیا کہ پاکستان مسئلہ فلسطین میں صفِ اول میں کھڑا ہے- اسی سال 8دسمبر کو امریکی صدر ہیری ٹرو مین کو لکھے خط میں آپ نے فلسطینی ریاست پر اقوامِ عالم کے جرائم پرسخت الفاظ سے مذمت فرمائی جبکہ قائداعظم مسلسل فلسطینی حکمراں اور فلسطین عرب پارٹی کے رہنماؤں سے بھی رابطے میں رہے اور ہمیشہ مکمل امداد کی یقین دہانی کرائی- [15]

حرفِ آخر:

پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو نظریہ لا الہ پر اپنا وجود رکھتا ہے- جس کا عملی تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے لیے ہر سطح پر اپنی آواز کو بلند کرنا چاہیے- بانیان پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناح نے نہ صرف پاک و ہند  پر اپنی کھل کر پالیسی کو واضح کیا بلکہ فلسطین کے لئے بھی عملی اقدامات اٹھائے- اس لیے بحیثیت قوم ہمیں ہر سطح پر مسئلہ فلسطین کو سپورٹ کرنا چاہیے اور اسرائیل کی دہشت گردی کو دنیا پر واضح کرنا چاہیے -

٭٭٭


[1]Letters of Iqbal by Basheer Ahmed Daar, pg: 264-265

[2]انوار اقبال از بشیر احمد ڈار ،ص: 42-43

[3]اقبال اور جدید دنیائے اسلام، ص:336

[4]ٹائمز لندن مورخہ 25 نومبر 1933، بحوالہ عاشق حسین بٹالوی تصنیف مذکور، ص:209

[5]منصور جعفر، بانیانِ پاکستان اور اسرائیل

[6]مشمولہ اقبالنامہ، ح: 3،ص: 445۔448

[7]اقبال کا سیاسی سفر، ص:310

[8]اقبال کا سیاسی سفر،ص:308

[9]دی ٹائمز،بتاریخ 12جولائی1937

[10]صدارتی خطبہ ،سندھ مسلم لیگ کانفرنس  کراچی: 8اکتوبر1938

[11]تنویر قیصر شاہد، اسرائیل بارے قائداعظم

[12]دی سول اینڈ ملٹری گزٹ، بتاریخ:1 فروری1939

[13]روزنامہ ڈان، 17فروری1944

[14]روزنامہ ڈان ، بتاریخ 11 اپریل1946

[15]میرِ کارواں از میاں محمد افضل

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر