اردوشاعری میں مسئلہ فلسطین

اردوشاعری میں مسئلہ فلسطین

اردوشاعری میں مسئلہ فلسطین

مصنف: مستحسن رضا جامی دسمبر 2023

شاعر اور تخلیق کار معاشرے کا سب سے حساس اور ذمہ دار فرد ہوتا ہے- عام آدمی کی سوچ جب انتہا پر پہنچتی ہے تو تخلیق کار کی سوچ کا آغاز ہوتا ہے- عام آدمی کسی واقعہ یا سانحہ کو دیکھ کر وقتی طور پر مغموم ہوتا ہے اور چند گھنٹوں یا دنوں بعد اس کیفیت سے نکل آتا ہے لیکن شاعر کسی بھی سطح کے سانحہ کے کرب کو نہایت شدت سے محسوس کرتا ہے اور مسلسل مضطرب رہتا ہےاور بالآخر کرب کا اظہار اپنے الفاظ میں کرتا ہے- اس کرب میں اتنی شدت ہوتی ہے کہ عام فرد بھی اس شدت کو محسوس کر سکتا ہے- دُنیا کی کسی بھی زبان کے تخلیق کاروں کا یہ وطیرہ رہا ہے- دنیا کے کسی بھی خطہ سے منسلک افراد جن کا تعلق شعر و ادب سے ہو وہ انسانیت کے غم پہ خاموشی برداشت نہیں کر سکتے- اس کی روایت صدیوں پر محیط ہے- جہاں شاعر عشق و محبت کی داستانیں اپنے موضوعات میں سمیٹ لاتا ہے وہیں انسانی مسائل پر بھی اس کا دل شدت سے دھڑکتا ہے- مسئلہ فلسطین کے پیشِ نظر اردو زبان و ادب میں بیشتر تخلیق کاروں نے اپنے الفاظ میں اس ظلمِ عظیم کا نوحہ لکھنے کی پر خلوص کاوش وسعی کی ہے-

مزاحمت کیا ہے ؟ اس کی ادب میں ضرورت کیوں پیش آتی ہے-یہ اپنی جگہ پر ایک اہم بحث اور سوال ہے-اس کے بارے میں فلسطین کے قومی شاعر محمود درویش کا کہنا ہے:

’’مزاحمت کی شاعری جیسا کہ میں سمجھتا ہوں وطن کی مدافعت کے مقصد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے- ایسی قوتوں کے خلاف مدافعت جو وطن کو اپنے جبر و تسلط میں لانا  چاہتی ہیں- چنانچہ میں جو کچھ بھی لکھتا ہوں اگر اس کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے ایک ایسا انسان ابھر کے سامنے آئے گا جو مختلف صورتوں اور مختلف لبادوں میں وطن کا دفاع ہی کر رہا ہوتا ہے اور میں اس ہر طاقت کا مد مقابل ٹھہرتا ہوں جو مجھ سے میرا حق چھیننا چاہتی ہے‘‘-[1]

اردو زبان میں نمایاں طور پر خطۂ فلسطین کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال کا نام اولین معنوں میں لیا جاتا ہے- اقبال کی طویل نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کا اصل سیاق و سباق بھی مسئلہ فلسطین ہے - اقبال نے سرزمینِ فلسطین و قبلۂ اول سے اپنی روحانی و جذباتی وابستگی کا اظہار ان الفاظ میں کیا-

ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ میرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عُقدہء دُشوار
تُرکانِ جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پنجے میں گرفتار

مسئلہ فلسطین کے حوالہ سے اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد علی جناح سے اپنے جذبات اور کرب کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’میں فلسطین کے مسئلے کیلئے جیل جانے کیلئے تیار ہوں، اس لیے کہ مَیں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندستان کیلئے، بلکہ اسلام کیلئے بہت عظیم ہے یہ ایشیا کا دروازہ ہے، جس پر بُری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں‘‘-[2]

آبروئے صحافت مولانا ظفر علی خان اپنی کتاب ’’چمنستان‘‘ میں تقسیمِ فلسطین پہ مسجدِ اقصیٰ کے محافظوں کو ڈھونڈتے ہیں :

لندن کے کمیشن کی سفارش سے پریشان
سب شیخِ فلسطین ہیں سب شابِ فلسطین
زینت جسے دی سُرخیِ خونِ شُہدا نے
اسلام کے قصے میں ہے وہ بابِ فلسطین
ہیں آج کہاں مسجدِ اقصیٰ کے محافظ
دیتے ہیں نِدا منبر و محرابِ فلسطین

مولانا ظفر علی خان اپنی نظم ’’غازیانِ فلسطین‘‘میں نغمہ سرا ہیں:

کفن باندھے ہوئے صحرا سے نکلے
فلسطیں کے شہادت پیشہ غازی
عزیمت اُن کی نَخ نَخ میں ہے تُرکی
حرارت اُن کی رگ رگ میں ہے تازی
لگا رکھی ہے آزادی کی خاطر
انہوں نے ہر طرف سر دھڑ کی بازی
رَسَن سازانِ مغرب سے یہ کہہ دو
کہ گزری حد سے رسی کی درازی
کہاں تک قدس کی تخریب کا شوق
کہاں تک یہ پرانی خاکبازی
حمایت تا بکے صہیونیوں کی؟
کہاں تک یہ یہودیت نوازی

ترقی پسند ادباء میں نمایاں ترین شخصیت فیض احمد فیض کی ہے- فیض احمد فیض نے اُس وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعدد نظمیں کہیں تھیں- مزاحمت و انصاف پسندی کی آواز فیضؔ کے ہاں بڑے پیمانے پر موجود ہے- وہ سماجی و انسانی کرب پہ چیخ اٹھتے ہیں- فلسطین کی جنگ آزادی پر فیض احمد فیض منفرد اظہارِ سخن کرتے ہیں-فیض کی نظم ’’فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے‘‘ سے کچھ حصہ ملاحظہ ہو-

میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد
میں جہاں پر بھی گیا ارض وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لیے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لیے
جس زمیں پر بھی کھلا میرے لہو کا پرچم
لہلہاتا ہے وہاں ارض فلسطیں کا علم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطیں آباد

احمد ندیم قاسمی نے خود کو اردو کے نامور افسانہ نگار اور شاعر کے طور پر منوایا-احمد ندیمؔ قاسمی کا تعلق بھی ترقی پسند تحریک سے تھا ان کے ہاں بھی سماجی اور معاشرتی اقدار و افکار کے قتل پر بیشتر نظمیں موجود ہیں- ان کا یہ شعر زبان زدِ عام ہے جس میں دعائیہ اظہار ہے-

ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا

فلسطین کے ادب کا جب تذکرہ ہوگا تو محمود درویش کا نام لازم و ملزوم ہوگا- انہیں فلسطین کا قومی شاعر کہا جاتا ہے- 1912ء میں فلسطین کے ایک گاؤں الروہ میں پیدا ہوئے جبکہ وفات 2008ء میں ہوئی- محمود درویش کی شاعری کے اردو سمیت 20 سے زائد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں اور انہیں متعدد بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے-

محمود درویش کے جذبات کا تلاطم اس نظم میں دیکھئے:

ہم کہاں جائیں آخری سرحدوں کے بعد
پرندے کہاں اڑیں آخری آسمان کے بعد
پودے کہاں سوئیں ہوا کے آخری سانس کے بعد
ہم اپنے نام سرخ ندی سے لکھیں گے
اُس گیت کے ہاتھ کاٹ دیں گے
جو ہماری لاشوں پر ختم ہوگاہم یہاں مریں گے
یہاں آخری رستے میں، یہاں اور یہاں
ہمارے خون سے زیتون کا درخت اگے گا[3]

ایک اور نظم میں سخن کے در یوں وا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو کہ عربی سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے-

’’ہم آئے روز دو سے آٹھ لاشیں اٹھاتے ہیں دس زخمیوں کو مرہم کرتے ہیں ہمارے بیس کے قریب مکانات ملیا میٹ کر دیے جاتے ہیں صرف یہی نہیں ہر روز پچاس لگ بھگ زیتون کے درخت بھی اکھیڑ دیے جاتے ہیں‘‘- [4]

ابنِ انشاء کی نظم ’’دیوارِ گریہ‘‘ کسی نوحہ سے کم نہیں اس نظم میں امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پہ ابنِ انشاء نے واشگاف الفاظ میں بات کی ہے-

دیکھ بیت المقدس کی پرچھائیاں
اجنبی ہو گئیں جس کی پہنائیاں
ہر طرف پرچم نجم داؤد ہے
راہ صخرہ کے گنبد کی مسدود ہے
سجدہ گاہ عمرؓ مسجد پاک میں
آج خالی مصلّے اٹے خاک میں

فلسطین پر حبیب جالب کی کئی نظمیں ہیں جن کے نام ’’یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی بچے‘‘، ’’اے جہاں دیکھ لے (فلسطین پر)‘‘ اور ’’اے اہل عرب اے اہل جہاں‘‘ وغیرہ ہیں- ان کی نظم ’’یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی بچے‘‘ سے کچھ اشعار :

یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی
اٹھائے ہاتھوں میں اپنے حسینیت کا علم
ادیبو، شاعرو، دانشورو، سُخن دانو
کرو حَکایتِ بیروت خون دل سے رقم
شکست جہل کو ہو گی شعور جیتے گا
کرے گا جہل کہاں تک سرِ شعور قلم

معروف غزل گو شاعر شہزاد احمد کے ہاں بھی فلسطینیوں اور قبلہ اول کے استحصال کا تذکرہ موجود ہے- اپنی نظم ’’حُسین علیہ السلام کا سبق‘‘ میں اپنے کرب کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

آگ کی سُن کر خبر سینے ہمارے ہوئے شق
ہم کو تو مسجدِ اقصی بھی ہے قرآں کا ورق
کاٹ دو قبلۂ اول پہ جو ہاتھ اٹھے ہیں
ہے اگر دل میں تمہارے ابھی ایماں کی رمق
سر کٹا دینا جھکانے سے کہیں بہتر ہے
ہے ابھی یاد حسین ابن علی کا یہ سبق

ماہر القادری کی نظم ’’ مشہدِ اکبر ‘‘ کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو-

یہ قبلۂ اول پہ عجب وقت پڑا ہے
تکبیر کے نغمے نہ موذن کی صدا ہے
اردن ہے کہ ہے مشہدِ اکبر کا نمونہ
پانی کی طرح خون مسلماں کا بہا ہے
فرعون کی اولاد سے امید یہی تھی
ناصر کی قیادت سے نہ شکوہ نہ گلہ ہے
بے عیب ہے اللہ کا قانونِ مکافات
جو کچھ بھی ہوا اپنے گناہوں کی سزا ہے

سرور انبالوی ممتاز شاعر ہیں- ان کی نظم ’’ارضِ فلسطین کی فریاد ‘‘ ایک حساس قاری پر گہرے نقش چھوڑتی ہے-

آتش و آہن کی بارش اور دھواں بارود کا
عقل حیراں امن کی دیوی کو آخر کیا ہوا
رستے بستے شہر بمباری سے کھنڈر ہو گئے
آدمی نے آدمیت کو بھی ننگا کر دیا
ہو گا آزاد ایک دن آخر فلسطیں دیکھنا
ٹل نہیں سکتا کسی صورت بھی لکھا وقت کا
آخرش بازو کٹے گا ایک دن صیاد کا
اور سفینہ غرق ہوگا جبر و استبداد کا

یوسف ظفر کا یہ کلام بھی بھر پور شدت احساس اور کرب کے پہلوؤں کو لیے ہوئے ہے:

دیکھ اے چشمِ زلیخا قدر اپنے پیار کی
آج پھر یوسف کے بھائی ہیں خریداروں کے ساتھ
دین سے کٹ کر ہوا مالِ عرب پیشِ عرب
اور عصا بھی ہے یدِ بیضا میں ہتھیاروں کے ساتھ
قبلۂ اول صلاح الدین ایوبی کو ڈھونڈ
آ ملی دیوارِ گریہ تیری دیواروں کے ساتھ

ادا جعفری نسائی لب و لہجہ کی منفرد شاعرہ ہیں ان کی غزلیں و نظمیں بہت مقبول ہیں- سماجی و انسانی مسائل کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہوئی ان کے ہاں بہت سی نظمیں موجود ہیں-مسجد اقصی کے حوالے سے ان کے جذبات و احساسات ملاحظہ ہوں-

ایسا اندھیرا تو پہلے نہ ہوا تھا لوگو!
لو چراغوں کی تو ہم نے بھی لرزتے دیکھی
قافلے لُٹتے ہی رہتے ہیں گزرگاہوں میں
لُوٹنے والوں نے کیا عزمِ سفر بھی لُوٹا؟

محترم ہے مجھے اِس خاک کا ذرہ ذرہ
ہے یہاں سرورِ کونینؐ کے سجدے کا نشاں
اِس ہوا میں مِرے آقا کے نفس کی خوشبُو
اِس حَرم میں مِرے مولا کی سواری ٹھہری
اِس کی عظمت کی قسم اَرض و سما نے کھائی
تم نے کچھ قبلۂ اوّل کے نگہبان ! سُنا
حُرمتِ سجدہ گہہِ شاہ کا فرمان سُنا؟

خار زاروں کو کِسی آبلہ پا کی ہے تلاش
وادیٔ گل سے ببوُلوں کا خریدار آئے
دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاندار آئے
پا پیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے
ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن آجائے
ہوش والو! کوئی تلقینِ جُنوں فرمائے

گوہر ملیسانی ادبی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں-اُن کی نظم ’’ایک ہوں مسلم‘‘ میں پُر تاثیر پیغام موجود ہے-

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
سر زمین قدس کی پھر ضوفشانی کے لیے
اہل ایماں کی پریشاں زندگانی کے لیے
نور قرآں کی مقدس ترجمانی کے لیے
نوع انساں کی حیات جاودانی کے لیے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

اسی نظم کے دوسرے حصہ میں اجتماعی ضمیر کو کچھ یوں جھنجھوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں-

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
عظمت اسلام کا پھر سے بجائیں اب گجر
مشرکوں کا بیتِ اقدس میں رہے نہ جو شرر
پھر صلاح الدین ایوبی کا تاباں ہو قمر
باندھ لو سر پر کفن اب کامرانی کے لیے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

محمد ایوب بسمل کی فلسطین پر طویل نظم جس کا پہلا بند کچھ یوں ہے:

کفر ہے برسر پیکار یہاں برسوں سے
گرم ہے ظلم کا بازار یہاں برسوں سے
امن ہے نقش بہ دیوار یہاں برسوں سے
حق عدالت میں سرِ دار یہاں برسوں سے
دے گئی تحفۂ نایاب تجھے جنگ عظیم
کر گئی ارض مقدس کو بالآخر تقسیم

عائشہ مسرور کی نظم ’’نئی لوری‘‘ مسئلہ فلسطین کے پس منظر میں کئی پرسوز جذبات کا مرقع ہے:

اے میرے نور عین! جاگ
اے میرے دل کے چین! جاگ
تیرا شفیق باپ تو جنگ میں کام آگیا
تشنہ دہن کے ہاتھ میں موت کا جام آگیا
دشت و دمن لہو لہو سارا وطن لہو لہو,
صحن چمن لہو لہو، قوم بچھڑ کے رہ گئی
ساکھ بگڑ کے رہ گئی، مانگ اُجڑ کے رہ گئی

نعیم صدیقی کی نظم ’’یروشلم‘‘اپنے مزاج کی بہت منفرد مزاحمتی نظم ہے-

لہو اگل رہا ہے آج، میرا پُرفنوں قلم
شکست آرزو کا کیا، فسانہ ہوسکے رقم
خیال پرزے پرزے ہیں ، کروں میں کس طرح بہم
یروشلم، یروشلم!
یہیں سے ہو کے عرش کو، سواریٔ نبیؐ گئی
ابھی تک اِن فضاؤں میں ہے اک مہک بسی ہوئی
یہاں کی خاک پر ٹکے، براقِ نور کے قدم
یروشلم، یروشلم!
نمازِ بے مثال یاں، وہ کی گئی ہے اک ادا
بہ اقتدائے مصطفےٰؐ، حبیبِ خاص کبریا
کھڑے تھے اک قطار میں ملا کے انبیاء قدم
یروشلم، یروشلم!

عصر حاضر کے بیشتر بزرگ و نوجوان شعراء کے ہاں بھی مزاحمتی عناصر پائے جاتے ہیں- فلسطینی عوام اور بیت المقدس کے استحصال پہ عہدِ حاضر کے کچھ شعراء کا منتخب کلام ملاحظہ ہو-

جلیل عالی اپنی نظم ’’فلسطینی بھائیوں کیلئے‘‘ کے اندر فکر و فن کے حسین موتی پروتے ہیں:

یہ اتفاق نہیں اہتمام ہے اُس کا
جلال کو بھی جو جزوِ جمال کر دیا ہے
بہشتِ شوق پہ بارود بارشوں کے ہیں دن
سو حرف حرف کو شعلہ مثال کر دیا ہے
دفاعِ شہرِ تمنا کی آخری حد پر
بموں کے سامنے سینوں کو ڈھال کر دیا ہے

اپنی ایک غزل میں جس طرح جلیل عالی نے اسرائیلی و امریکی استبداد کے تکبر کو للکارا ہے اس نے اقبال کی یاد تازہ کر دی ہے :

وہ کسی کا کبھی ہوا ہی نہیں
اُس کے شر سے کوئی بچا ہی نہیں
اس نے انسانیت بھی وِیٹو کی
اُس کو تہذیب نے چھوا ہی نہیں
وہ زمیں پر خدا بنا ہوا ہے
جیسے اوپر کوئی خدا ہی نہیں
جتنا وہ گر چکا، کبھی اتنا
کوئی تاریخ میں گرا ہی نہیں
خوں میں نہلا دیے گئے لاکھوں
وہ سمجھتا ہے کچھ ہوا ہی نہیں
اُس کا انجام ہو چکا آغاز
اُس کو اِس بھید کا پتا ہی نہیں

شوکت عابد کے الفاظ میں جس طرح کا اظہار ہے وہ اپنی مثال آپ ہے- ان کی طویل نظم سے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:

جس آگ میں جلتے ہیں در و بام فلسطیں
کل اپنے گھروں تک نہ پہنچ جائے یہی آگ
آتی ہے فلسطین کی گلیوں سے صدا آج
اے مردِ جواں اُمتِ مسلم کے ذرا جاگ
دل جس کا پھٹا غم سے وہ اک باپ بھی میں ہوں
بارود سے جھلسا ہوا چہرہ بھی مرا ہے
وہ بھائی ہوں پوشاک ہے تر جس کی لہو میں
سینے سے لگے باپ کا لاشہ بھی مرا ہے
مسمار ہوا ہے جو مکاں میرا مکاں ہے
اجڑا ہے جو بے دردی سے میرا ہی چمن ہے
دل اپنا فلسطیں سے جدا کر نہیں کر سکتا
یہ ارض فلسطین بھی میرا ہی وطن ہے
مجبور ہوُں اتنا کہ بجز نالہء و فریاد
بارِ غمِ دل اپنا میں کم کر نہیں سکتا
دل گیر ہوں اتنا کہ نہیں طاقتِ اظہار
رودادِ فلسطین رقم کر نہیں سکتا

سردار سلیم کے اشعار میں فلسطین سے محبت کا اظہار-

اے فلسطین تری خاک کے ذروں کو سلام
تیرے جلتے ہوئے زخموں کی شعاؤں کو سلام
تیرے بچوں ترے بوڑھوں کو جوانوں کو سلام
ان کی رگ رگ میں مچلتے ہوئے جذبوں کو سلام

آغا سروش نے عصرِ حاضر کے مسلمانوں کے خوابیدہ ضمیر کو مسئلہ فلسطین کے پیش نظر اس انداز میں ہدف بنایا ہے:

مشہور تھی دنیا میں جو عربوں کی حمیت
کیا جانے دبے پاؤں وہ کب ہوگئی رخصت
ایماں کو بہا لے گئی پٹرول کی دولت
ڈر یہ ہے کہ لٹ جائے نہ کعبے کی بھی حرمت

سعود عثمانی نے مختلف پیرائے میں اظہار کیا ہے:

اپنی طاقت کے نشے میں بدمست ہیں مقتدِر صاحب مال و زر بھیڑیے
انبیاء کی زمینوں میں ہیں آج کل چار جانب بحد نظر بھیڑیے

اشفاق غوری نے بہت خوب صورت انداز میں جذبات رقم کئے ہیں:

اے فاتحِ غزوات کریں آپ ہی امداد، فریاد ہے فریاد
نبیوں کی زمیں کر دی ہے بارود نے برباد، فریاد ہے فریاد
اقصیٰ کی زمیں آپ کی آمد کی ہے خواہاں، اے سرورِ شاہاں
معراج کی شب آپ کی آمد ہے اسے یاد، فریاد ہے فریاد
امیدِ کرم رکھتا ہے مجبور فلسطین، محصور فلسطین
فرما دیں اسے پنجۂ شیطان سے آزاد، فریاد ہے فریاد

ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر ڈاکٹر منظر پھلوری لکھتے ہیں:

افراد ترے قتل ہوئے گھر بھی لئے چھین ، اے ارضِ فلسطین
ہیں مدِ مقابل ترے دنیا کے فراعین ، اے ارض فلسطین
برسوں سے تو الحاد سے ہے بر سر پیکار ، سب کرتے ہیں اقرار
ہر ذرہ تری مٹی کا ہے خون سے رنگین ، اے ارضِ فلسطین

امریکہ سے تنویر پھول کا اظہارِ وابستگی بہت منفرد ہے:

فریاد ہے، فریاد ہے اے قادر و قیوم
خوں رنگ فلسطین، مسلمان ہیں مظلوم
ڈھاتی ہے ستم قدس میں ذریت مرحب
اسلام کے فرزند عبادت سے ہیں محروم
خود کو جو کہیں موسوی، فرعون بنے ہیں
ان کو بھی نہیں چھوڑتے جو طفل ہیں معصوم

مسعود نقوی لکھتے ہیں:

اے خدا قبلہ اول کے تحفظ کے لئے
پھر سے اک بار ابابیل کو کنکر دے دے
ظلم کے آہنی پنجے کو کچلنے کے لئے
اب فلسطین کو تو بازوئے حیدر دے دے

احساس نصیر آبادی کا اظہارِ سخن :

آہِ دلدوز سے قلب غمگین ہے
خون سے سرخ دیکھو فلسطین ہے

کبیر والا سے تعلق رکھنے والی معروف شاعرہ کومل جوئیہ لکھتی ہیں:

ہونگے یہ نصابوں میں مضامین، فلسطین
تاریخ ترے خون سے رنگین، فلسطین
پکڑیں گی قیامت کو گریبان ہمارا
لاشوں کی عزادار خواتین، فلسطین
بچوں کی صداؤں سے بھی کانپے نہیں سینے
گم عیش میں امت کے سلاطین، فلسطین
خود طوق میں لپٹے ہیں غلامی کے مسلسل
کر سکتے ہیں بس صبر کی تلقین، فلسطین
لفظوں کی حدوں تک ہیں یہاں امن کی باتیں
ٹھوکر پہ ہیں ورنہ یہ قوانین، فلسطین

سیدہ صائمہ کامران نے پرسوز جذبات کچھ یوں رقم کئے ہیں:

سارے جہاں نے دیکھا فلسطین جل گیا
ماتم کناں ہے اقصیٰ فلسطین جل گیا
بچوں کا قتل ہو گیا ماؤں کے سامنے
طاری ہے سب پہ سکتہ فلسطین جل گیا

ہندوستان کے نوجوان شاعر عمران پرتاب گڑھی کی نظم ’’میں فلسطین ہوں‘‘ کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو:

میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں
یہ میری قوم کے حکمراں بھی سنیں
میری اجڑی ہوئی داستاں بھی سنیں
جو مجھے ملک تک مانتے ہی نہیں
ساری دنیا کے وہ رہنما بھی سنیں
صرف لاشیں ہی لاشیں میری گود میں
کوئی پوچھے میں کیوں اتنا غمگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر سعید شارق کا اظہار خیال بھی قابل توجہ ہے:

ہم سب تماش بین ہیں اِن تین کے لیے
کشمیر، پاک اور فلسطین کے لیے
شعلوں میں راکھ ہوتے غزہ پر بھی اک نظر
کیا کوئی کیمرا نہیں اِس سِین کے لیے؟

راقم الحروف کا ایک شعر:

قربان جان و دل میں حسینوں پہ کیوں کروں
جامیؔ کا خُون مسجدِ اقصی میں چاہیے

مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کے موضوع کو لے کر اردو زبان میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پردرد خیالات کی ترسیل کا سلسلہ پورے اخلاص سے جاری ہے اور کیوں نہ ہو کوئی بھی زبان بالعموم اور شاعری بالخصوص جذبات کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے- اُردو زبان سے منسلک ادباء آخری دم تک استحصالی و ظلم پر مبنی رویوں پر اپنی تخلیقات میں احتجاج کرتے نظر آئیں گے- دُعا ہے کہ ارضِ فلسطین میں ظلم و بربریت کا سیاہ باب ختم ہو اور امن و آشتی کا دور دورہ ہو‍-

٭٭٭


[1]محمد کاظم ، اخوان الصفا ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ، 2003 ، ص: 254

[2]پروفیسر حمید رضا صدیقی: اقبال کی سیاسی بصیرت- ملتان: بیکن بکس، 2005 ،ص: 41

[3]عبد الحق حقانی القاسمی، فلسطین کا ممتاز مزاحمتی شاعر، محمود درویش، فکر و نظر، ص:57

[4]محمود درویش، جالتہ الحصار، موسہ محمود درویش، دارالناشر، عمان، 2013، الطبعتہ الاولی، ص:15

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر