امام ابو حنیفہ او ران کی فقہ کی وُسعت و جامعیّت

امام ابو حنیفہ او ران کی فقہ کی وُسعت و جامعیّت

امام ابو حنیفہ او ران کی فقہ کی وُسعت و جامعیّت

مصنف: مفتی محمد اسماعیل خان نیازی جون 2023

سراج الامّہ،امام الائمہ،مجتہدِاعظم، بانیٔ فقہ حنفی حضرت نعمان بن ثابت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ قرنِ اول کے آخر میں پیدا ہوئے جو صحابہ کرام(رضی اللہ عنہ) کا زمانہ مبارک ہے- آپؒ نے تعلیم قرنِ ثانی (دوسری صدی) میں کی جو تابعین کی صدی ہے- صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی تینوں صدیوں کو سیّدی رسول اللہ (ﷺ) نے بہترین صدیاں (خیر القرون) فرمایا  ہے اور ان لوگوں کی افضلیت اور عدالت کی شہادت دی جو ان تینوں صدیوں میں ہوں-

امام ابو حنیفہ دلائل، منطق اور استدلال میں بڑے قوی تھے- ان کا فتوی، استنباط اور استخراج اس قدر مضبوط اور جامع ہوتا تھا کہ حضرت امام شافعی ؒفرماتے ہیں کہ :

’’امام مالک ؒسے سوال کیا گیا کہ کیا آپ نے امام ابو حنیفہ ؒکو دیکھا ہے؟ تو امام مالکؒ  نے فرمایا: بالکل- میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ تجھ سے یہ کہہ دیتے کہ اس ستون کو سونے کا بنایا گیا ہے تو ضرور اس پر اپنی دلیل قائم کرتے(یعنی دلائل سے ثابت کر دیتے اور تجھے سوائے اقرار  کے کوئی چارہ کار نہ ہوتا) ‘‘- [1]

کسی بھی شخصیت کو دیکھنے کا ایک زاویہ ہوتا ہےاور ہمیشہ عظیم لوگ ہی عظیم کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں- جو کا م جتنا عظیم ہوگا اس کو سرانجام دینے والا بھی ایک عظیم انسان ہوگا- اما م ابوحنیفہ ؒ کی ذات ِ اقدس چونکہ فقہ کے حوالے سے مشہور و معروف ہے- یہا ں چندروایات علم ِ فقہ کے حوالے سے لکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

’’یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا‘‘ [2]

’’اللہ حکمت دیتا ہےجسے چاہے اور جسے حکمت مِلی اُسے بہت بھلائی ملی ‘‘-

اس آیت مبارک کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے حکمت سے مراد ’علم فقہ‘لیا ہے -فقہ کا علم اور دین کا فہم اتنا اہم اور غیرمعمولی ہے کہ حضورنبی کریم )ﷺ( کی اس کی فضیلت میں کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں-

1-سیّدنا معاویہ (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’مَنْ يُّرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُّفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَاللهُ المُعْطِي وَأَنَا القَاسِمُ‘‘ [3]

’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہےاور میں (علم ) کو تقسیم کرنے والا ہوں عطا کرنے والا تو اللہ ہی ہے‘‘-

2-حضرت عبداللہ بن عمر و(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ :

’’ایک مرتبہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ) اپنی مسجد کی دو مجالس کے پاس سے تشریف لے گئے، آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ دونوں نیکی پر ہیں- لیکن ایک دوسری سے افضل ہے (جوجماعت دعا و ذکر ومراقبہ میں مشغول ہے) یہ اللہ عزوجل کو پکارتے اور اس کی رحمت میں رغبت کرتے ہیں-اگر اللہ عزوجل چاہیں توا ن کو نوازیں اور چاہیں تو محروم فرما دیں -مگر یہ دوسری فقہ وعلم کی تحصیل میں مصروف ہیں اور جاہل کو (احکام ومسائل) سکھاتے ہیں، پس یہ افضل ہیں اور میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور راوی فرماتے ہیں کہ آپ (ﷺ) ان کے ساتھ تشریف فرما ہوگئے ‘‘-[4]

3-حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیّدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ:

’’اللہ عزوجل کی فقاہت فی الدین سے بہتر دوسری کسی بھی طریقہ سے اچھی عبادت نہیں کی جاتی -ایک فقیہہ، شیطان پر ایک ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے اور ہرچیز کیلئے ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون فقہ ہے اور حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ گھڑی بھر بیٹھ کر فقہ کی تعلیم میرے نزدیک رات بھر عبادت سے بہتر ہے ‘‘-[5]

4-حضرت محمد بن حنفیہ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے والد حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان کی ہے، فرماتے ہیں کہ:

مَیں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)!

’’إِنْ نَّزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَّيْسَ فِيهِ بَيَانٌ: أَمْرٌ وَّ لَا نَهْيٌ، فَمَا تَأْمُرُنَا؟

’’اگر ہمیں ایسے معاملے کا سامنا ہو جس کے متعلق (قرآن و سنت میں) بیان یعنی امر اورنہی موجود نہ ہو تو آپ (ﷺ)ہمیں کیا حکم ارشاد فرمائیں گے؟

آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’تُشَاوِرُونَ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِينَ، وَلَا تُمْضُوا فِيهِ رَأْيَ خَاصَّةٍ‘‘ [6]

’’تم فقہاء و عابدین سے مشورہ کرو اور ایک خاص (فرد واحد) کی رائے کو نافذ نہ کرو‘‘-

یعنی مشاورت و شوریٰ سے کام لینا- جوکہ فقہ حنفی کی تدوین میں بنیادی اور اساس چیز نظر آتی ہے-

5- حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے:

’’سیّدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں ایک شخص حاضر ہو ا اور عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ)!  اللہ عزوجل کے ہاں عبادت گزار افضل ہیں یا فقہاء؟ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل کے ہاں ایک فقیہہ ہزار عبادت گزاروں سے افضل ہے‘‘- [7]

مذہب ِحنفی کی تاسیس:

فقہ حنفی کی منفرد اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پہلی باقاعدہ اور باضابطہ مدوّن فقہ ہے-فقہافرماتے ہیں کہ:

’’فقہ کا کھیت حضرت عبد اللہ بن مسعودؒ نے بویا-حضرت علقہؒ نے اس کو سینچا، حضرت ابراہیم نخعی نے اس کو کاٹا، حضرت حماد نے اس کو گاہیا(یعنی بھوسے سے اناج الگ کیا)امام ابوحنیفہ  نے اس کو پیسا اور امام ابو یوسف  نے اس کو گوندھا اور اما م محمدؒ نے اس کی روٹیاں پکائیں اور باقی سب لوگ کھانے والے ہیں ‘‘-[8]

اس کی مختصر تشریح کچھ یوں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) مکہ مکرمہ میں رسول اکرم (ﷺ) کے خادم تھے اور مدینہ منورہ میں وصالِ نبوی(ﷺ) تک آپ (ﷺ) کے خادم رہے- انہوں نے اپنی ساری زندگی سفر اور حضر میں رسول اکرم (ﷺ)کی خدمت میں گزاری یعنی عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کا پیشہ صرف خدمتِ رسول (ﷺ) ہے- اس لیے وہ دین کے بہت بڑے عالم اور فقیہ بنے - عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ)کی اس خوبی کے تحت عراق کے فتح ہونے کے بعد عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) نے آپؒ کو کوفہ میں تعلیم و تدریس اور قضاء کے لیے منتخب فرمایا، عہدِ عثمانی میں مدینہ منورہ میں عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی کمی محسوس کی گئی تو حضرت عثمان ذوالنورین (رضی اللہ عنہ) نے آپ (رضی اللہ عنہ)  کو وہاں بلایا، پھر مسجد نبوی (ﷺ) میں درس دیتے رہے اور وفات کے بعد جنت البقیع میں دفن ہوئے-عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کے بعد آپؓ  کے شاگردوں حضرت علقمہ نخعی، مسروق الہمدانی، ابی قاضی شریح اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں ابراہیم النخعی، عامر الشعبی، حاد بن ابی سلیمان، پھر ان کے شاگرد امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (رضی اللہ عنہ) نے ابن مسعود(رضی اللہ عنہ)کی وہ اسلامی تعلیم لوگوں کو سکھائی جو اس جلیل القدر صحابی رسول (ﷺ) نے اپنی ساری زندگی میں رسول اکرم(ﷺ)سے سیکھی تھی- یہی اسلامی تعلیم مذہب حنفی کے نام سے مشہور ہوئی-اس لیے مذہب حنفی کوئی نیا طریقہ نہیں تھا بلکہ رسول اکرم (ﷺ) کا وہ دین ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) پر نازل فرمایا اور صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں کے ذریعے امام اعظم تک پہنچا - اس لئے سب سے پہلے فقہ کی تدوین کا سہرا اما م ابوحنیفہ ؒ کے سر ہے اور فقہ کی باضابطہ تدوین کا شرف بھی امام اعظم ابوحنیفہ ؒکوحاصل ہوا-

علامہ ابن عابدین شامی ؒ، علامہ ابن حجر مکیؒ کا قول مبارک نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’امام الائمۃ ،سراج الائمۃ ابوحنیفۃ نعمانؒ،بے شک آپؒ وہ پہلے شخص ہیں؛ جنہوں نے علم فقہ کو مدوّن کیا اور کتاب اور باب پر اس کومرتب فرمایا، جیسا کہ آج موجود ہے اور امام مالک ؒ نے اپنی مؤطا میں آپؒ کی اتباع کی ہے‘‘- [9]

اساتذہ و شاگرد:

شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ کے شیوخ کی تعداد چار ہزار کے قریب بتائی ہے- حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ آپؒ کے تلامذہ کی بابت فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒکے شاگردوں کا احاطہ دشوار ہے- امام شافعی ؒ، آپؒ کے شاگردوں کے بھی شاگرد یعنی اما م محمد ؒ کے شاگرد ہیں (کیونکہ امام محمد ؒ نے امام شافعی ؒ کی والدہ (جو بیوہ ہوچکی تھیں)سے شادی کی اور اپنی ساری کتابیں اورمال اما م شافعی ؒ کے حوالے کیا- تاہم ان میں مشہور و معروف قاضی امام ابو یوسف، امام محمد، حماد بن ابوحنیفہ ، عبداﷲ بن مبارک، امام زفر، امام حسن بن زیاد، لیث بن سعد، مکی بن ابراہیم، فضیل بن عیاض، مسعر بن کدام اور داؤد طائیؒ وغیرہ شامل ہیں-

یہاں صرف نہایت اختصار کے ساتھ اما م محمدؒ کی خدمات کا ذکر کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہے -امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ نے فقہ حنفی کو عام کرنے میں اہم خدمت کی اور انہوں نے کئی کتابیں تالیف کیں- جن کتابوں کو ثقہ اور معتمد علماء جو عوام میں مشہور و معروف تھے انہوں نے امام محمد ؒ سے روایت کیا- وہ کتب ظاہر الروایۃ یا اصول کے نام سے موسوم ہیں- وہ چھ کتابیں ہیں:(۱) المبسوط (الاصل) (۲) الجامع الکبیر (۳) الجامع الصغیر (۴) کتاب السیر الکبیر (۵) کتاب السیر الصغیر (۶) الزیادات-

’’یہاں تک کہ کہاجاتا ہے کہ آپ ؒ نے علوم دینیہ میں نو سو ننانوے کتابیں لکھیں ‘‘-[10]

یہ کتب ظاہر الروایۃ، احادیث آثار (اقوال صحابہؓ اور اقوال تابعینؒ) پر مشتمل ہیں- علماء امت نے مذہب حنفی کو باقی مذاہب اہل السنۃ والجماعۃ سے زیادہ صحیح پایا اور اسے اختیار کیا- انہوں نے ان کتابوں کی شروحات لکھیں اور بعض علماء نے انہیں مختصر کیا جنہیں متونِ اربعہ کہتے ہیں:

(۱) کنز الدقائق (۲) مختصر الوقایہ (۳) مختصر القدوری (۴) المختار، جس کے مصنف عبد اللہ بن محمود موصلی الحنفی ہیں- یہ چاروں کتب علماء اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک نہایت ہی مستند ہیں لیکن آخری کتاب ’’المختار‘‘ باقی تینوں کتب سے افضل اس لیے ہے کہ وہ مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کے اقوال کو ذکر کرتی ہے اور پھر خود ہی اس کتاب کی شرح ’’والاختیار لتعلیل المختار‘‘ کے نام سے لکھی اور ہر مسئلہ کیلئے قرآن و حدیث سے دلیلیں لکھیں- جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امام اعظمؒ  کا کوئی قول بھی بغیر دلیل کے نہیں ہے، اور یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ امام ابوحنیفہؒ رائے پر عمل نہیں کرتے بلکہ قرآن و حدیث سے حاصل شدہ علم کو امام ابوحنیفہؒ نے ’’رائے‘‘ سے تعبیر کیا-

امام ابوحنیفہؒ نے کبھی کسی صحیح حدیث کو رد نہیں کیا بلکہ ضعیف حدیث کے لیے بھی قیاس کو چھوڑا ، گویا یہ فقہی امتیاز صرف امام اعظم کی فقہ میں ہے جس میں حدیث ضعیف کو قیاس پر اہمیت حاصل ہے بر خلاف دیگر فقہی مذاہب کے -

شورائی طریقے سے فقہ کی تدوین:

اللہ عزوجل کا فرمان مبار ک ہے:

’’وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ص وَ اَمْرُہُمْ شُورٰی بَیْنَہُمْ ص وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ‘‘[11]

’’اور وہ جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم رکھی اور ان کا کام ان کے آپس کے مشورے سے ہے اور ہمارے دیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں‘‘-

امام ابوحنیفہ ؒ کی سیرت مبارک کا مطالعہ کرنے سے عیاں ہوتا ہے کہ آپ ؒ کی ذاتِ اقدس مندرجہ بالا آیت مبارکہ کی آئینہ دار تھی- کیونکہ آپ ؒ جہاں صوم وصلوٰۃ میں اپنی مثال آپ تھے وہاں فقہ کے مسائل کے استنباط اور ان کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی تھی جس کے بارے میں امام زیلعیؒ فرماتے ہیں:

’’یہ امام ابوحنیفہ ؒ کے امتیازی خصوصیات میں سے ہے کہ یہ(فقہ) مذہب شورٰی ہے اور اس کو ایک ایسی پوری جماعت سے روایت کیا ہے جس جماعت نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے روایت کیا ہے بخلاف دیگر مذاہب (فقہ)   کے کہ وہ مکمل اپنے اپنے امام کی آراء پر مشتمل ہے- حضرت مغیرہ بن حمزہ ؒ فرماتے ہیں کہ وہ علماء کرام جنہوں نے اما م ابوحنیفہ ؒ کے ساتھ مل کر(فقہ کی) کتب مرتب کیں ہیں ان کی تعداد 40 ہے اور یہ سب نہایت عظمت و شان والے تھے اور ان میں 10سابقین میں سے: ابویوسف، زفر بن ہذیل، داؤد طائی، اسد بن عمرو، یوسف بن خالد سمتی، یحییٰ بن زکریا بن ابو زائدہ (رحمتہ اللہ علیہم) ہیں- مزید فرماتے ہیں کہ ہم آپ ؒ کے پاس کسی مسئلے میں اختلاف کرتے اور بعض اوقا ت ایک مسئلے پر تین تین دن تک بحث و گفتگو کرتے رہتے (جب سب مطمئن ہوتے تو اس کو دیوان میں لکھتے) ‘‘-[12]

فقہ مالکی کے بانی اورمدوّن امام مالک ؒ ،فقہ حنبلی کے بانی ومدوّن امام احمد بن حنبل ؒ جبکہ فقہ شافعی کے مرتب امام شافعی ؒ ہیں یعنی چار جلیل القدر فقہوں میں سے تین فقہوں کی ترتیب وتدوین ایک ایک شخص کی مرہون منت اور اس کی شبانہ روز کاوشوں کا نتیجہ ہے لیکن فقہ حنفی شورائی فقہ ہے - اگرچہ امام ابو حنیفہ ؒ علم وعمل میں ایک نمایا ں مقام رکھتے تھے - لیکن آپؒ  نےفقہی مسائل کو ترتیب و تشکیل دینے کےلیے ایک کمیٹی اور مجلس شورٰی تشکیل دے رکھی تھی جس کے بارے میں مسند خوارزمی میں ہے :

’’امام ابوحنیفہ ؒکےپاس ایک ہزار عظیم اصحاب کی جماعت موجودتھی ان میں سے چالیس افراد مرتبہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے (اور باقاعدہ مجتہد تھے)‘‘- [13]

حضرت شفیق بلخی ؒ فرماتے ہیں کہ:

’’اما م ابوحنیفہ ؒ لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیز گار،عبادت گزار اور معزز تھے اوردین کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط تھے اوراللہ عزوجل کے دین کے بارے میں اپنی رائے دینے سے احتیاط فرماتے،آپؒ  کسی بھی پیش آمدہ  مسئلے پر اپنے اصحاب کو جمع فرماتے ایک مجلس منعقد فرماتے-آپؒ ان سے فرمایا کرتے  تھے لوگوں نے مجھے دوزخ کے اوپر پل بنا دیا ہے، سارا بوجھ میرے اوپر ہے، اس لیے میرے ساتھیو! میری مدد کرو- (اس طرح آپؒ  ان سے مکالمہ و مشاورت فرماتے اور کئی مرتبہ بعض مسائل پر مہینہ بحث چلتی رہتی) جب تسلی ہو جاتی تو فرماتے ’’اے ابویوسف !اس مسئلہ کو فلاں باب میں لکھ دو‘‘- [14]

اس مجلس تدوین میں جو مسائل مرتب ہوئے اور جو زیرِ بحث آئے ان کی تعداد کیا تھی؟ اس سلسلہ میں تذکرہ نگاروں کے مختلف بیانات ملتے ہیں، مسانید امام ابوحنیفہؒ کے جامع علامہ خوارزمی نے 83 ہزار کی تعداد لکھی ہے، جس میں 38 ہزار کا تعلق عبادات سے تھا اور باقی کا معاملات سے-

مجلس شورٰی کی خصوصیات:

امام ابوحنیفہ ؒ کی مجلس شوریٰ کی امتیازی خصوصیات کا جائزہ لیا جائے تو چند چیزیں ابھر کر سامنے آتی ہیں:

  1. آپؒ نے تدوین فقہ کا کام اجتماعی کوشش کے ذریعہ انجام دینے کا فیصلہ کیا-امام صاحب سے پہلے بھی تدوین فقہ کا کام انجام دیا جارہا تھا لیکن یہ سب کوششیں انفرادی تھیں اور اجتماعی کوشش میں انفرادی سعی کے مقابلے میں غلطی کا امکان بہت کم رہتا ہے-فقہ کی تدوین میں جن جن علوم وفنون کے ماہرین کی ضرورت تھی امام صاحب نے تمام لوگوں کو جمع کرلیا تھا- اس لئے آپ ؒ کی شوریٰ میں جامعیت اور کمال پایا جاتا تھا-
  2. آپؒ  کی مجلسِ فقہ کا ایک ا متیاز یہ بھی تھا کہ آپؒ کے ہاں تمام اراکین کو بحث و مباحثہ کی کھلی آزادی تھی -تمام اراکین اگرچہ آپؒ کے شاگرد تھے لیکن آپؒ نے انہیں کھل کر بحث و مباحثہ کا عادی بنادیا تھا-اس لئے وہ لوگ امام صاحب کی دلیل پر بھی کھل کر تنقید کیا کرتے تھے اور بہت سے مسائل میں ان کا اختلاف باقی رہا-
  3. جن مسائل میں نصوص موجود نہیں تھے اور قیاس کی بھی بظاہر گنجائش نہیں تھی وہاں امام صاحب تجربہ اور عرف کی بنا پر فیصلہ کیا کرتے تھے-
  4. آپؒ کا یہ شورائی نظام خلفائے راشدین کے شورائی نظام کے مشابہ تھا اور جو انداز خلفاء راشدین کے ہاں مسائل کو حل کرنے کا تھا وہی نظام امام صاحب  نے بھی رائج فرمایا تھا- گویا آپؒ نے اپنے اس عمل میں حضرات شیخین سیّدنا ابوبکر صدیق اور  سیّدنا عمر فاروق (رضی اللہ عنھم)کی پیروی کی تھی-
  5. اس شورائی نظام میں صرف پیش آمدہ مسائل ہی حل نہیں کئے جاتے؛ بلکہ غیر پیش آمدہ مسائل اور ان مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دی جاتی تھی جس کا کسی زمانے میں بھی پیش آنے کا امکان تھا-
  6. قرآن وحدیث کی تعلیمات کی طرح آپؒ  کی تعلیمات بھی آج سے کم و بیش 1400 برس قبل نافذ العمل اور اس دور کے تقاضوں کے مطابق تھیں اور آج بھی پوری آب وتاب سے چمک رہی ہیں کیونکہ آج بھی آپؒ کی فقہی تصریحات سے یاتو مِن وعَن استفادہ کیا جاتا ہے یا پھر اس سے استنباط کرکے مسائل کو اخذ کر لیا جاتا ہے -آج فقہ حنفی میں تمام مسائل کے اولین مآخذمیں آپ ؒ کے تخریج کردہ فقہی مسائل ہیں -

روایت اور درایت میں توازن:

فقہ حنفی کا ایک بہت بڑا امتیاز روایت و درایت میں توازن یعنی وحی اور عقل سے اپنے اپنے موقع پر صحیح استفادہ ہے - ہماری بنیاد وحی پر ہے لیکن عقل سے انکار بھی نہیں ہے بلکہ ایک معاون کے طور پر عقل کا صحیح استعمال خود دین کا تقاضا ہے جس کا اہتمام اَحناف کے ہاں بے مثال پایا جاتا ہے-

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نے اعتدال کے ساتھ روایت اور درایت کا رشتہ جوڑ کر دنیا کو یہ بتایا کہ روایت تو ہماری بنیاد ہے ہی لیکن درایت بھی ہماری ناگزیر ضرورت ہے-

ایک مسئلہ میں چھ اصلاحات:

امام ابوحنیفہ ؒ نے کئی مرتبہ مشکل فقہی مسئلہ کی اس انداز میں اصلاح فرمائی کہ آج تک اہلِ عدالت کیلئے فہم و ادراک کی قابلِ تقلید مثال ہیں -  امام طبری ؒ ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جسےمفہوماً یہاں لکھتے ہیں:

ایک پاگل عورت نے کسی شخص کو کہا: 

’’یَا ابْنَ الزَّانِیَّیْنِ‘‘’’اے دو زنا کرنے والوں کے بیٹے !‘‘

اتفاق سے قاضی ابن ابی لیلیٰ نے سن لیا، انہوں نے حکم دیا کہ اس کو پکڑلاوٴ، ابن ابی لیلیٰ نے اس کو مسجد میں داخل کرا کر دو حدیں لگوائیں، ایک ماں پرتہمت لگانے کی، دوسری باپ پر تہمت لگانے کی-امام صاحب کو معلوم ہوا تو فرمایا: ابن ابی لیلیٰ نے اس فیصلے میں چھ غلطیاں کی ہیں:اول یہ کہ وہ مجنونہ تھی اورمجنونہ پر حد نہیں ہے، دوسری مسجد میں حد لگوائی اور حدود مسجد میں نہیں لگائی جاتیں، تیسری غلطی یہ کہ اسے کھڑی کر کے حد لگوائی جبکہ عورتوں پرحد بیٹھا کر لگائی جاتی ہے، چوتھی یہ کہ اس پر دو حدیں لگوائیں؛ جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی پوری قوم پر تہمت لگائے تواس پر ایک حد لگائی جاتی ہے، پانچویں غلطی یہ کہ حد لگانے کہ وقت اس عورت کے ماں اور باپ موجود نہیں تھے حالانکہ ان کا حاضر ہونا ضروری تھا، چھٹی غلطی یہ کہ دونوں حدوں کو جمع کر دیا؛ حالانکہ جس پر دو حد واجب ہوں،جب تک پہلی خشک نہ ہوجائے دوسری نہیں لگاسکتے‘‘-[15]

فقیہانہ بصیرت:

ایک مسئلہ پیش آیا کہ:

’’ایک آدمی نے اپنے دوست سے کہا کہ اگر میں تجھ سے کلام کی ابتداء کروں تو میری بیوی کو طلاق تو اس کے ساتھی نے کہا کہ اگر میں تجھ سے کلام کی ابتداء کروں تو کیا خیال ہے؟ امام ابوحنیفہ ؒ سے جب اس معاملے میں پوچھا گیا ،تو آپ ؒ نے ارشادفرمایا تم دونوں جاؤ،تم پر کوئی قسم نہیں کیونکہ اس نے جب کہا:اگر میں تجھ سے کلام کی ابتداء کروں تو میری بیوی کو طلاق تو قسم پوری ہو گئی ‘‘-[16]

حکیمانہ و فلسفیانہ طرزِ استدلال:

امام ابوحنیفہ کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ آپؒ   نے دین مبین کے ابلاغ کیلئے حکیمانہ و فلسفیانہ انداز اختیار فرمایا – آپؒ نے اپنی زندگی مبارک میں اہل باطل، دہریوں اورگمراہوں سے کئی مرتبہ مناظرے کرکے ان کو شکست فاش دی-آپؒ کے حکیمانہ طرز عمل کی بدولت اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت عطا فرمائی، جیسا کہ ابو ولید طیالسی سے مروی ہے کہ:

’’ضحاک شاری کوفہ آیا اور امام صاحب سے کہا: توبہ کرو، امام صاحبؒ  نے فرمایا: کس چیز سے ؟اس نے کہا حَکَم کو جائز قرار دینے سے- امام ابوحنیفہ ؒنے اس سے فرمایا: تو مجھے قتل کرے گا یا مناظرہ؟ اس نے کہا:مَیں آپؒ سے اس پر مناظرہ  کروں گا-تو آپؒ  نے فرمایا اگر کسی چیز میں ہمارا، تمہارا اختلاف ہو تو فیصلہ کون کرے گا ؟ اس پر ضحاک نے کہا: تم جس کو چاہو  فیصل بنا لو- امام صاحب نے اس کے ساتھیوں میں سے ایک شخص سے کہا: بیٹھ جاوٴ جس چیز میں ہمارا اختلاف ہو فیصلہ کرنا! پھر ضحاک شاری سے فرمایا: میرے اور اپنے درمیان اس کے حکم ہونے پر راضی ہو؟ اس نے کہا ہاں-تو امام صاحبؒ نے فرمایا: پھر تو تم نے خود ہی تحکیم کو جائز قرار دے دیا، اس پر ضحاک ہکّا بکّا رہ گیا‘‘-[17]

وصال مبارک:

دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بُوئے اسدؒ اللّٰہی
 آئینِ جوان مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

ویسے تو آپ ؒ کی ذات ِ اقدس ہر لحاظ سے باعثِ تقلید ہے لیکن دوچیزیں انسان کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں-پہلی یہ کہ آپؒ  نے علمِ دین کو آسان اور عقلی اندازمیں لوگوں تک پہنچایا اور آپؒ  کا طرق استدلال نہایت فلسفیانہ اور حکیمانہ تھا-آپؒ نے ایسے مضبوط دلائل سےعلم دین کو پیش فرمایا کہ مد مقابل کو سوائے قبول کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا-

دوسری یہ کہ آپ ؒ کی جرأت و بہادری کہ آپؒ نے جان قربان کردی لیکن ایک لمحہ کیلئے کسی سے مرعوب نہیں ہوئے-آپؒ نے کبھی کسی سے کوئی مالی اعانت یا عہدہ قبول نہیں کیا- بلکہ اپنی گزر بسر اور دوسروں کی کفالت تجارت سے کیا کرتے تھے-یہی وجہ ہے کہ آپؒ کو جب بھی کوئی عہدہ پیش کیا گیا تو آپؒ نے انکار کر دیا-

حضرت مُغیث بن بُدیل ؒفرماتے ہیں کہ:

’’خلیفہ ابو جعفر نے امام ابوحنیفہ ؒ کو  عہدہ قضاء یعنی چیف جسٹس کا منصب پیش کیا، لیکن آپؒ نے انکار کردیا، تو بادشاہ (شدید غصے میں آکر) کہنے لگا کیا تو اس سے اعراض کرتا ہے جو جس کو ہم کرنا چاہتے ہیں؟تو آپؒ  نے فرمایا کہ میں عہد قضاء  کے لیے اہل نہیں -تو بادشاہ نے کہا تو نے جھوٹ بولا، تو آپؒ نے فرمایا: پس امیر المؤمنین نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ میں اس اہل نہیں ہوں کیونکہ آپ نے میری طرف جھوٹ کی نسبت کی- پس اگر میں جھوٹا ہوں تو میں صلاحیت نہیں رکھتا اوراگر سچا ہوں تو میں کہہ چکا ہوں کہ میں صلاحیت نہیں رکھتا، تو خلیفہ نے آپؒ کو قید کردیا-[18] پہلے کوڑے مرواتا رہا پھر زہر دے کر شہید کردیا-آپؒ نے 150ھ میں ستر سال کی عمر میں وصال مبارک فرمایا‘‘-[19]

علامہ ابن کثیر ؒ کی روایت کے مطابق  کے لوگوں کی کثرت کی وجہ سے آپؒ  کی نمازجنارہ چھ مرتبہ ادا کی گئی -

٭٭٭


[1]ملا علي القاري، علي بن (سلطان) محمدؒ (المتوفى: 1014هـ)مرقاة المفاتيح ، مقدمہ،ج:1،ص:31

[2]البقرہ:269

[3]البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ، رقم الحدیث:3116

[4]الدارمیؒ، أبو محمد عبد الله بن عبد الرحمن المتوفى: 255هـ،ج:01،ص:365۔کتاب العلم،

[5]دارقطنی، علي بن عمر بن أحمد، سنن الدارقطني،كِتَابُ الْبُيُوعِ،ج: 6،ص:194۔رقم الحدیث:3085

[6]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الاوسط،باب:مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ،رقم الحدیث:1618،ج:02،ص:172

[7]أحمد بن علي بن ثابتؒ (المتوفى: 463هـ)، الفقيه و المتفقه،ج:1،ص:105

[8]ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز، رد المحتار على الدر المختار، ایڈیشن دوم۔ ج1:ص:50

[9]ایضاً

[10]ایضاً

[11]الشورٰی:38

[12]الزيلعي، أبو محمد عبد الله بن يوسف بن محمدؒ المتوفى: 762هـ، نصب الراية لأحاديث الهداية،باب: طَريقَة أبي حنيفَة فِي التفقيه

[13]ابن عابدين ،محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز،رد المحتار على الدر المختار،ایڈیشن دوم، ج:1،ص:67

[14]ایضاً

[15]القرطبیؒ، محمد بن أحمدؒ، الجامع لأحكام القرآ ن،ایڈیشن دوم،ج:15،ص:163۔164

[16] السبكي، عبد الوهاب بن تقي الدين المتوفى: 771هـ، الأشباه والنظائر،(الناشر: دار الكتب العلمية،الطبعة: الأولى 1411هـ)،ج:02،ص:323۔

[17] القرطبي، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البرؒ(المتوفى: 463هـ)، الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء مالك والشافعي وأبي حنيفة، ج: 1،ص:159۔

[18]الذھبی،أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمانؒ المتوفی :748ھ، مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، ج: 1،ص:26

[19]الخطيب البغدادي، أحمد بن علي بن ثابت بن أحمدؒالمتوفى: 463هـ تاريخ بغداد ،ج:15،ص:444

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر