پاکستانی قانون ، فقہ حنفی اور عدالتی نظام

پاکستانی قانون ، فقہ حنفی اور عدالتی نظام

پاکستانی قانون ، فقہ حنفی اور عدالتی نظام

مصنف: جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل جون 2023

زیر بحث مضمون دیکھنے میں نہایت آسان اور سادہ نظر آتا ہے ، مگر اتنا ہے نہیں جتنا کہ نظر آتا ہے-کوشش یہ کی جارہی ہے کہ پاکستانی قانون، فقہ حنفی اور اس سلسلہ میں عدالتی نظام کا مختصر مگر جامع، احاطہ کیا جائے-ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان آئین جو کہ 14 اگست 1973ء سے نافذ العمل ہے اور اس سال اس کی گولڈن جوبلی کی تقریبات بھی منعقد کی جارہی ہیں-اس کا دیباچہ شروع ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ تمام کائنات پر اللہ تعالیٰ کی ہے-آگے چل کر لکھا گیا ہے کہ اس مملکت خداداد ہی پاکستان کے لوگ اپنے اختیارات کا استعمال اللہ کی مقرر کر دہ حدود میں رہتے ہوئے کریں گے-

یہ بھی درج ہے کہ جمہوری اصول، آزادی، مساوات ، برداشت اور سماجی انصاف (Social Justice)اسلام میں وضع کردہ اصولوں کے مطابق ہونگے-جہاں مسلمان اپنی نجی اور اجتماعی زندگی اسلام میں وضع کر دہ اور قرآن مجید و سنت مبارکہ کے مطابق زندگی گزاریں گے-اسی طرح 1985ء صدارتی حکم (Presidential Order) کے ذریعے قرار دادِ مقاصد کو آئین کا جزو بنایا گیا اور بطور “Article-2A” شامل کیا گیا-جس میں تقریباً اسی قسم کے الفاظ میں اس طرح یہ اتنے واضح بنیادی اصول قانون کا حصہ بنادیے گئے-اس واضح نشاندھی کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ایک پاکستانی بہ حیثیت مسلمان اپنی رہنمائی کےلئے کسی اور مکتبہ ٔ فکر و مذہب کے بارے میں سوچے یا عمل پیرا ہو-

باقی دنیاوی علوم کے حصول کی رتی بھر ممانعت نہیں-میں یہاں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کیا ہماری قوم بالخصوص وہ طبقہ اور ادارے جن کے پاس اپنی حد تک اختیار اور طاقت ہے وہ ان وضع کردہ بنیادی اصولوں کے مطابق خود یا ان کے ماتحت ادارے زندگی گزار رہے ہیں-عدالتی نظام کا حصہ رہتے ہوئے اور آئین و قانون کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاں ان وضع کردہ بنیادی اصولوں کے منافی عمل ہورہا ہے وہاں میرے نزدیک آئینی خلاف ورزی اور آئین شکنی بھی ہو رہی ہے-

مَیں موضوع سے تھوڑا ہٹ گیا تھا اور وہ بھی اس لئے کہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہر ذی شعور شہری اندر سے دکھی ہے اور ہماری نئی نسل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے-ہم اگر اپنے دین اسلام پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ اصولوں سے ہٹ کر ہمیں کوئی حکم نہیں دیتا-جس میں نظام حیات، انفرادی اور اجتماعی انسانی بنیادی حقوق، معاشرت اور ریاست کا انتظام و انصرام تک شامل ہیں-

ہمارے ملک کا آئین ان بنیادی اسلامی اصولوں پر مبنی ہے-مزید برآں دیگر رائج الوقت قوانین کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کے لئے فیڈرل شریعت کورٹ کا قیام 1980ء کو (Presidential Order) عمل میں آیا اور جن مروجہ قوانین میں اسلامی نقطہ نظر سے ابہام نظر آیا تو فیڈرل شریعت کورٹ نے رہنمائی کی-

مشہور تقابلی جائزے میں سے چند ایک بیان کئے جاتے ہیں-دفعہ 4، قانون مزارعت موروثی کو اسلام کے شعائر سے متصادم قرار دیا-اسی طرح دفعہ 4، اسلامی عائلی قوانین آرڈیننس 1961ء اسلام کے وراثتی اصولوں سے متصادم ہونے پر ایک تفصیلی فیصلہ جو کہ PLD 2000 FCS P/1 میں شائع ہونا، کالعدم قرار دیا-

میری معلومات کے مطابق اس فیصلہ کےخلاف اپیل تا حال فیصلہ طلب ہے اور Art. 203 (2) Proviso کے مطابق فیصلہ تا فیصلہ اپیل ناقابل عمل ہے اور اس کے نتیجے میں وہی پرانی صورت حال قائم ہے-اسی طرح سود کی حرمت کا فیصلہ بھی فیڈرل شریعت کورٹ (وفاقی شرعی عدالت) کا اہم فیصلہ ہے-میری معلومات کے مطابق وفاقی حکومت اس فیصلہ کے خلاف اپنی درخواست واپس لے چکی ہے اور اس فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے حکومتی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے اور اس پر کام جاری ہے-

اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل رائج الوقت قوانین کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور حکومت کو اپنی سفارشات پیش کرتی ہے-چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر مکتبۂ فکر اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں جنہیں اپنے مسلک اور مذہب پر عمل پیرا ہونے اور دیگر جملہ بنیادی حقوق جو آئین میں دب گئے ہیں، حاصل ہیں-

میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں بلکہ میرا عقیدہ ہے کہ انسانی بنیادی حقوق سب سے پہلے ہمارے حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنی عملی زندگی میں عمل پیرا ہو کر اور پھر آخر میں اپنے آخری خطبہ میں واضح کر دیے تھے-میرا دعوٰی ہے کہ اہل مغرب نے یہ تمام حقوق ، اصولِ دین اسلام سے اخذ کئے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہو کر آج مغرب دوہرے معیار میں ان اصولوں ، بنیادی حقوق کا استعمال وہ اپنی مرضی اور من مانی کے مطابق کرتے ہیں-جبکہ ہم مسلم امہ مغرب کی اندھی تقلید میں زوال کے آخری درجوں پر ہیں گو کہ مغرب کی اخلاقی پَستی بھی اپنی آخری حدوں کو چھور ہی ہے-لیکن ہمارے معاشرے کا وہ طبقہ جو کہ اُن کے زیر اثر ہے،اُن سے کسی درجہ کم نہیں ہے-

اوپر کی گئی بحث سے میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا کہ اسلامی بنیادی اصولوں سے انحراف بھی آئینی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے-ان تلخ حقائق کی بنا پر میرا قلم مجھے موضوع سے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے-

چونکہ ہمارے ملک کی کثیر آبادی امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی کے اصول فقہ کی پیروکار ہے جنہیں امام اعظم کا درجہ بھی حاصل ہے-امام اعظم ابو حنیفہ کا زمانہ فقہی مذاہب میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے زمانے سے زیادہ قریب کا زمانہ ہے اور اس فقہ کی ایک خاص بات جو کہ باقی آئمہ میں کم نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس فقہ کے اصول و ضوابط شورٰی کے ذریعے طے کئے ہوتے تھے اور امام صاحبؒ اپنی ذاتی رائے سے مسئلہ نہیں لکھواتے تھے-بلکہ شورٰی کی بحث و مباحثہ کے بعد جو آخری رائے قائم ہوتی تو اس کو اصول اور قوانین کی کتابوں میں درج کیا جاتا اور کئی بار ایسا ہوا کہ مجلس شورٰی میں ایسے پیچیدہ مسائل درپیش ہوتے کہ کئی کئی روز ان پر غور و خوض ہوتا رہتا اور یہ عمل نتیجہ اخذ ہونے تک جاری رہتا-

ہمارے ملک کے قوانین خاص طور پر عائلی قوانین، وارث، شادی بیاہ، طلاق، معاشرت وغیرہ فقہ حنفی کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہیں-جہاں کہیں ایسی کمی یا خامی نظر آئی وفاقی شرعی عدالت نے اس قانون کو دیکھا اور اپنی رائے اور فیصلہ دیا-

اختلافِ رائے ایک فطری اور انسانی عمل ہے -دیگر فقہاء کرام جیسے امام احمد بن حنبل، امام شافعی، اور دیگر آئمہ (رحمتہ اللہ علیہم) نے اگر کہیں اختلاف کیا تو انہوں نے بھی ہمارے سب کے بنیادی ذرائع (sources) قرآن و سنت کی روشنی میں کیا-یہ بات میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ کوئی فقہی اختلاف کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا-میرا مشاہدہ ہے کہ اس فقہی اختلاف کو بنیاد بنا کر عدم برداشت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور بات گالم گلوچ، قتل و غارت سے بڑھ کر کفر کے فتوٰی تک پہنچ جاتی ہے-میرے علم وفہم ِ دین کے مطابق ان فقہی اختلافات کی بنیاد پر کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ کفر کے فتوے لگاسکے-

میرے نزدیک یہ بہت اہم مسئلہ ہے اور ا س سلسلہ میں سب سے بڑی ذمہ داری ان کی ہے جن کی آواز منبرِ رسول (ﷺ) سےہم جیسے کم فہم اور کم علم لوگوں تک پہنچی ہے-عقائد و اخلاقیات کی درستگی کے لئے علمائے کرام پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اس بنا پر ان کی باز پرس بھی شاید ان کی ذمہ داری کے حساب سے زیادہ ہوگی-

٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر