شانِ امام اعظمؒ بزبانِ سلطان العارفینؒ

شانِ امام اعظمؒ بزبانِ سلطان العارفینؒ

شانِ امام اعظمؒ بزبانِ سلطان العارفینؒ

مصنف: لئیق احمد جون 2023

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ برصغیر پاک و ہند کے معروف صوفی بزرگ ہیں- آپ ؒ نے اس خطہ میں دعوتِ الی اللہ کو عام کیا اور آج بھی مرجعِ خلائق آپؒ کے فیضان سے مستفیض ہورہے ہیں- زیرِ غور مقالہ کے لئے حضرت سلطان باھو ؒ کی 24تصانیف کا مطالعہ کیا گیا ہے- جن میں سے اِن کتب سے اقتباسات حاصل ہوئے: عین الفقر، محک الفقر کلاں، محبت الاسرار، نور الھدیٰ کلاں، عقل بیدار، کلید التوحید کلاں، نور الہدی خورد، جامع الاسرار- حضرت سلطان باھوؒ حنفی المذہب تھے- جس کا اظہار آپؒ نے اپنی متعدد تصانیف میں فرمایا ہے-آپؒ ایک مقام پہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’میں امام اعظم حضرت نعمان کوفی کے مذہب پر قائم ہوں- حضرت امام اعظم مشرک و کفر و بدعت وسرود سے پاک باطن صفا صوفی تھے ‘‘-[1]

آپؒ جہاں اپنی تصانیف میں امام ابو حنیفہؒ کی عظمت کا ذکر فرماتے ہیں، وہیں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبلؒ کا ذکر بھی محبت سے فرماتےہیں- جیسا کہ ’’کلید التوحید کلاں‘‘ میں ذکر ہے کہ:

’’روایت کے علم میں چار اجتہادی مذاہب کے مجتہد اماموں کے مرتبہ اجتہاد پر سوائے ان چار اماموں کے اور کوئی نہیں پہنچ سکتا اور یہ کہ وہ چاروں اجتہادی مذاہب برحق ہیں‘‘- [2]

امام اعظم :صاحبِ فقر ہستی:

حضرت سلطان باھوؒ اپنی تصنیف لطیف ’’محک الفقر‘‘ میں امام ابو حنیفہ  سے متعلق فرماتے ہیں:

’’یاد رہے کہ اصحابِ پاک ؓ کے بعد فقر کی دولت دو حضرات نے پائی، ایک غوثِ صمدانی محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی قدس سرّہ العزیز اور دوسرے حضرت امام ابو حنیفہ کوفی ؒ جو ایک تارکِ دنیا صوفی تھے- آپ نے ستر سال تک کوئی نماز قضا کی نہ روزہ کیونکہ اِن اعمال کی قضا بندے کو اہلِ دنیا کا ہم نشین بناتی ہے جس سے وجود میں ہوائے نفس پیدا ہوتی ہے‘‘-[3]

امام اعظم امام ابو حنیفہ جہاں فقہ و حدیث و اجتہاد کے میدان میں معروف ہوئے وہیں فقر و محاسبہء نفس میں بھی کمال پایا- امامِ اعظم کے احتسابِ نفس پہ حضرت سلطان باھو ؒاپنی تصنیف لطیف میں حکایت بیان فرماتے ہیں:

’’ایک دفعہ حضرت امام اعظم نے اپنی عمر اور نفس کے ساتھ یوں محاسبہ کیا- اے نفس: تیری عمر ساٹھ سال ہوگئی ہے- اس عرصے میں تیری عمر کے بارہ ہزار چھے سو دن گزرے ہیں- اس مدت میں ہر روز تو نے گناہ تو کیے ہوں گے، کہا : نہیں- فرمایا: دس گناہ ہر روز کہا نہیں فرمایا، پانچ گناہ کہا، نہیں- فرمایا ، تین گناہ کہا، نہیں- فرمایا : دوگناہ کہا نہیں- فرمایا : ایک گناہ تو ہر روز ضرور کیا ہو گا- کہا : ہاں- اس کے بعد آپ نے آہ بھر کر فرمایا: اے نفس! اگر ایک ایک گناہ کے بدلے ایک ایک پتھر رکھتا، تو ایک پہاڑ بن جاتا- اور اگر مٹھی مٹھی خاک ڈالتا ، تو ایک تو دہ بن جاتا ‘‘-[4]

راہِ تصوف میں جب طالب اپنی طلب میں پاک و یکتا ہوکر عالَم کے اسرار کو سمجھنے لگتا ہے اور بباطن حضور (ﷺ) کی نگاہِ رحمت سے سرشار ہو جاتا ہے تو اللہ  تعالیٰ اس پہ یہ فضل فرما دیتا ہے کہ وہ روحانیوں سے ملاقات کرنے کی تاب لے آتا ہے اور مخصوص طریق و مشق سے پاک ارواح سے ملاقات کا شرف حاصل کرسکتا ہے جس کے متعلق حضرت سلطان باھو ؒفرماتے ہیں:

’’سن! عامل کامل وہ ہے جو ہر اسم کے حبسِ دم کی حاضرات سے اہلِ اسم کو اپنے پاس حاضر کر کے اُس سے ہم کلام ہوجائے تاکہ اُس کے دل میں کسی قسم کا افسوس و غم اور آرزو باقی نہ رہے- جو اسمائے الٰہی کے حبسِ دم کی حاضرات سے طالب کو استغراقِ فنا فی اللہ نور کی حضوری بخشے، اسمِ محمد (ﷺ) کے حبسِ دم کی حاضرات سے اُسے مجلسِ محمدی (ﷺ) کی حضوری سے مشرف کر دے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے اُسے تلقینِ ہدایت دلوائے- اِسی طرح حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر بن خطاب، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہٗ، حضرت امام حسن، حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ)، حضرت شاہ محی الدین، حضرات امام اعظم، امام شافعی، امام مالک، امام حنبلؒ کے اسمائے مبارکہ کی حاضرات کے ذریعے اُن سے ملاقات کی جا سکتی ہے- اِسی طرح تمام ارواحِ انبیاء و اولیاء اللہ کے اسمائے مبارکہ سے حبسِ دم کی حاضرات کے ذریعے اُن سے ملاقات کی جا سکتی ہے‘‘-[5]

امامِ اعظم کا اَنوارِ الٰہی سے مشرف ہونا:

امام اعظم علیہ الرحمہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی بشارت ہیں اور اللہ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں- آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری و باطنی علوم میں عروج بخشا، فقر و معرفت کا منبع بنایا آپؒ نے خواب میں بارہا مشاہدہء انوارِالٰہی کی نعمت حاصل کی ہےاور خواب کی حالت میں مشاہدہء انوار و دیدارِ الٰہی ہونا بلاشبہ روایات سے ثابت ہے- حضرت سلطان باھو ؒ امام صاحبؒ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا قائل نہیں اور اس میں شک کرتا ہے، وہ گمراہ ہو جاتا ہے- اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے- کیونکہ حضرت امام المسلمین ابوحنیفہؒ نے اللہ تعالیٰ (کے انوار) کو ستر مرتبہ خواب میں دیکھا اور  اللہ تعالیٰ (کے انوار) کو خواب میں دیکھنا جائز ہے- خواب یا مراقبہ جو اولیاء اللہ کو ہوتا ہے یا پھر وُہ ذکر کے درمیان جو خواب غفلت میں چلے جاتے ہیں، ان کے خواب غفلت نہیں ہوتے، بلکہ اس میں وُہ ہر طرح سے باخبر ہوتے ہیں- البتہ عام لوگ غافل ہوکر سوتے ہیں- اُن کے سونے کو خواب غفلت کہہ سکتے ہیں‘‘-[6]

ایک اور مقام پہ ارشاد ہوا:

’’اگر کوئی شخص خواب میں یا مراقبے میں اللہ تعالیٰ کو دیکھے، جیسا کہ امام المسلمین ابو حنیفہ کوفی ؒ 70 مرتبہ دیدار الٰہی سے مشرف ہوئے اور جواب باصواب سے نوازے  گئے- ان کا خواب، خواب غفلت نہ تھا- گو اللہ تعالیٰ کی کوئی صورت ہم تعین نہیں کر سکتے‘‘-[7]

امام اعظم کے برحق ہونے کی گواہی:

حضرت سلطان باھوؒہاں اصلاحی پہلو بدرجہ اتم ملتا ہے- آپؒ نے بسا مقامات پہ سخت انداز میں وعید فرمائیں اور بعض جگہ باطل کا قلع قمع حق کے بارہا پرچار سے کیا- آپؒ نے امام اعظم کے برحق ہونے کے بارےفرمایا:

’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے : اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے- رافضی خارجی فاسق اہلِ دنیا کا مذہب سے کیا واسطہ؟ حضور علیہ الصلوٰة و السلام کا مذہب حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا مذہب تھا یعنی تارکِ دنیا طالب ربّ جلیل نہ کہ طالبِ دنیا بخیل اہلِ خلل خطرات-اور یہی مذہب امام ابو حنیفہ کا ہے (یعنی کہ تارکِ دنیا طالب ربّ جلیل )‘‘-[8]

فقیہ کی تعریف بزبانِ امام اعظم:

علمِ فقہ شرح قرآن و حدیث ہی ہے اور علمِ شرعی کا اہم حصہ ہے- حضرت سلطان باھو ؒ فقہ کی تعریف بزبانِ امام اعظم اس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’امام اعظم ابو حنیفہ کوفی ؒ  سے پوچھا گیا کہ فقیہ کسے کہتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا فقیہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرے اور اللہ کا خوف کھائے اور اللہ کے ہاں مقبول ہو کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے: ”اور جو اللہ سے ڈریں اور پرہیز گاری اختیار کریں تو وہی لوگ کامیاب ہیں“ -[9]

علوم ِ باطنی اور امام ابوحنیفہ کا منہج:

محض ظاہری عبادات پہ اکتفا کرنے والوں اور روحانی پہلوؤں سے روگردانی کرنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے امام اعظم ؒکے تقویٰ کی مثال پیش فرماتے ہیں:

’’چنانچہ ایک مرتبہ اِمام ابو حنیفہ ؒ کے لباس پر چڑیا کی بیٹ پڑگئی، آپ اُسے دھونے کے لئے اُٹھے تو ایک آدمی نے کہا:”حضرت! آپ کا تو فتویٰ ہے کہ چڑیا کی بیٹ سے لباس نجس نہیں ہوتا“-آپ نے جواب دیا:”وہ میرا فتویٰ ہے اور یہ میرا تقویٰ ہے“ -[10]

امام اعظم کی شہادت اور اہمیتِ معرفت و فقر:

اسلامی تاریخ میں علمائے سُوء کی بیش مقدار میں مثالیں موجود ہیں جنہوں نے بادشاہِ وقت کی فضیلت کی خاطر دین کو بیچ ڈالا اور حق گوئی و بےباکی سے انحراف کیا- ظاہری علم کی کثرت سے وجود میں منصب و مرتبہ کی طمع پیدا ہوسکتی ہے جبکہ علمِ فقر و معرفت رضائے الٰہی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے-امام اعظم علیہ الرحمہ جہاں علومِ فقہ و اجتہاد کے امام ہیں وہیں فقر و فاقہ کے بھی مستحق ٹھہرے- اسی لئے حضرت سلطان باھو ؒآپ کی شہادت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

’’جو شخص ظاہر میں صاحب علم علوم ہے یعنی صرف ظاہری علوم رکھتا ہے، وہ ذکر و فکر و استغراق، معرفت باطنی سے محروم اور بے خبر ہوتا ہے- فضیلت مع وسیلہ کے مفید ہے اور وسیلہ کے بغیر فضیلت کسی کام کی نہیں- چنانچہ فضیلت منصب قضا تک پہنچا دیتی ہے اور وسیلہ فقر و فاقہ سے رضائے الٰہی تک پہنچا دیتا ہے- اسی لیے امام المسلمین حضرت امام اعظم علیہ الرّحمہ نے منصب قضا کوباوجود تشدّد بادشاہِ وقت کے بھی قبول نہیں کیا- اور رضائے الٰہی پر اپنی جان قربان کردی‘‘-[11]

حرفِ آخر:

سلطان العارفین برہان الواصلین حضرت سخی سلطان محمد باھو (قدس اللہ سرہ) نے حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ ؒکا جس طرح مقدمہ اپنی تصانیف میں بیان فرمایا ہے اس سے سالکینِ راہِ تصوف کے لئے کئی نصیحتیں پنہاں ہیں جن پر عمل پیرا ہونا بلاشک و شبہ ضروری ہے-

v     عالم کے لئے ضروری ہے کہ وہ محض علمِ ظاہر پہ اکتفا نہ کرے بلکہ شہباز کے دونوں پروں کی مانند علومِ ظاہری و باطنی دونوں کا اہل ہوکر اپنی پرواز مکمل کرنے کی جدوجہد کرے-

v     نیک طینت صالح لوگوں کو اللہ تعالیٰ حالتِ خواب میں اپنے قرب و وصال سے معمور فرماتا ہے-

v     مومن کی نشانی ہے کہ وہ حق گوئی کا وصف اپناتا ہے اور جابر ظالم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکتا-وہ خوشامدی نہیں ہوتا بلکہ حق کی خاطر دنیا کو ٹھوکر مارتا ہے-

اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء و استغاثہ ہے کہ وہ ہمیں اس نفسانفسی کے پُر فتن دور میں حق کو پہچاننے کی بصارت بخشے اور ہمیں صالحین کی راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے-آمین!

٭٭٭


[1]( کلید التوحید کلاں،ص: 111)

[2](کلید التوحید کلاں،ص: 109)

[3](محک الفقر کلاں،ص:565)

[4](جامع الاسرار، ص:114-115)

[5](عقل بیدار،ص: 321 – 323)

[6](جامع الاسرار،ص:105)

[7]( نور الھدٰی خورد، ص:87)

[8](عین الفقر باب نہم،ص:341)

[9](محک الفقر کلاں ، ص:455)

[10](محک الفقر کلاں،ص:23)

[11](محبت الاسرار، ص: 59)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر