مصنوعی ذہانت اور عقلِ انسانی کےقرآنی معیار

مصنوعی ذہانت اور عقلِ انسانی کےقرآنی معیار

مصنوعی ذہانت اور عقلِ انسانی کےقرآنی معیار

مصنف: سیدعزیزاللہ شاہ ایڈووکیٹ مئی 2023

مصنوعی ذہانت کی حقیقت: 

آج سے تین دہائی قبل عام آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا جہان کی معلومات و ترسیلات کا بنیادی ذریعہ اس کے پاس موبائل، انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل میڈیا کی صورت میں ہوگا- لمحے بھر میں شرق سے غرب میں رابطے استوار کرنا ممکن ہو گا- لیکن 1960ء کی دہائی کی ابتداء میں سماجی سائنسدان مارشل مکلوہن نے ایک نظریہ پیش کیا تھا کہ دنیا ٹیکنالوجی اور ترسیلات کی بدولت ایک عالمی گاؤں بن جائے گی-[1] عالم تو یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ metaاورvirtual reality میں انسان حقیقت اورفریب میں تمیز کرنےسے قاصر ہے- مردہ لوگوں کو دوبارہ دیکھنا اور sensory tech کی مدد سے محسوس کرنا دنیا کو ایک الگ نہج پہ پہنچا چکا ہے-[2]

مکلوہن نے کہا تھا کہ برقیاتی دور میں ہر عضو کی کوئی نہ کوئی توسیع (extension)موجود ہوگی جو اس کی ترقی میں معاونت کرےگی- جیسے پیروں کیلئے پہیے توسیع کے زمرے میں آتے ہیں- اسی طرح انسانی خواہشات اور تسکین کی extension سوشل میڈیا اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی صورت میں موجود ہے- مصنوعی ذہانت کو اس صدی کی سب سے عمدہ ایجاد سمجھا جا رہا ہے- اس نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کی رفتار کو بڑھا یا ہے بلکہ اسکی مدد سے کام کرنے میں آسانی بھی پیدا ہورہی ہے-

تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے اپنے تخیل میں ایک نئی کائنات کو جنم دیا جس میں وہ ایک ایسی چیز کا مؤجد ٹھہرا جو انسانی دماغ کی طرح پیچیدہ معلومات کوپراسیس(process) کر سکنے کی صلاحیت رکھتی ہے- الغرض! کہانیوں کی صورت میں اس کی طرزِ نقاشی دیومالائی کرداروں کی شکل میں بیان ہوتی آئی ہے- انسان کا یہ تخیل ایک طویل عرصے بعد عملاً کمپیوٹر کی صورت میں سامنے آیا- وقتاً فوقتاً روبوٹک سائنسز کی ترقی کے بعد صنعتوں میں انسانوں کی جگہ مشینیں آن پہنچی ہیں جو انسان کی بہ نسبت زیادہ کام قلیل وقت میں سرانجام دیتی ہیں- البتہ یہ مشینیں انسان کی طرح سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھیں- پھر تحقیقات کے طویل عرصے بعد کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں ہارڈوئیر اور سافٹ وئیر کے میلاپ سے ایک ایسی ٹیکنالوجی کو بنایا گیا جسے مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا نام دیا گیا جس کا مخفف AI ہے- ان تحقیقات میں قابلِ ذکر تحقیق ٹیورنگ ٹیسٹ (Turing Test) ہے جو اس بنا پر سرانجام دیا گیا کہ”کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں؟“اس میں ایک شخص نے کمپیوٹر اور انسان سے جوابات حاصل کئے جبکہ کمپیوٹر اور انسان دونوں کو علیحدہ کمرے میں رکھا گیا اور سوالی کو بےخبر رکھا گیا کہ کون کمپیوٹر ہے اور کون انسان- اس ٹیسٹ کو بارہا دہرایا گیا اورنتیجتاً کمپیوٹر کےدرست جوابات اس کی ذہانت کے ثبوت کے طور پہ ظاہر ہوئے-[3] اوکسفرڈ لغت کے مطابق مصنوعی ذہانت کی تعریف یہ ہے :

’’مصنوعی ذہانت ایک ایسا تکنیکی نظام ہے جو معطیات (Data) سے حاصل کردہ ہدایات کے مطابق عمل کرتا ہے اور موجودہ معطیات سے سیکھنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے‘‘- [4]

یہ تکنیک فراہم کردہ معطیات کا جائزہ لے کر خودکار طریقے سے کامیابی کے امکانات میں اضافے کی کوشش کرتی ہے-یہ کمپیوٹر سسٹم انسانی ذہانت والے کاموں کو انجام دینے کے قابل ہے - جیسے بصری ادراک، تقریر کی شناخت، فیصلہ سازی اور زبانوں کے مابین ترجمہ کرنا وغیرہ- یہ سسٹم ڈیٹا بائٹس کے ذریعے کام کرتا ہے- نیز معلوم ہوا کہ جس طرح انسانی دماغ مختلف معطیات و مشاہدات سے علم حاصل کرتا ہے اسی طرح مصنوعی ذہانت بھی اپنے معطیات (Data) کے علم کے ذریعے سیکھتی ہے-

اسے سادہ انداز میں سمجھنے کیلئے 2015ءمیں کئے گئے گوگل مقابلے کا جائزہ لیتے ہیں جسے چین کے قدیم ترین کھیل گو کے ماہرین اور الفاگومشین (Alpha Go Machine) کے درمیان کیا گیا- یہ کھیل شطرنج کی طرح لگتا ہے- اس کھیل میں استعمال ہونے والے بورڈ کی جسامت جوں جوں بڑھائی جاتی ہے،اس کی چالوں کی تعداد اربوں کھربوں تک جا سکتی ہے- الفا گو مشین کو گوگل کے مصنوعی ذہانت کے پروگرام ڈِیپ مائنڈ سے تیار کیا گیا تھا جس میں”گو“ کھیل کی کروڑہا چالوں کے معطیات کا اندراج کیا گیاتھا- اس کھیل میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ مشینی ذہانت نے انسانی ذہانت کو شکست دے دی-[5] واضح رہے کہ عصرِ حاضر میں AI کو عوامی سطح پر بھی خاصہ مقبولیت حاصل ہوتی جارہی ہے- ایپل کے آلات میں مصنوعی ذہانت والی سِیری، ایمازون کی الیکسا، آئی بی ایم کا واٹسن اورخودمختار گاڑیاں ہمارے ارد گرد کی عام مثالیں ہیں- حال ہی میں مصنوعی ذہانت کے تحت Chat GPT کا فیچر متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت مضمون نویسی، مصوری، خیالی کردار سے مقالہ اور دیگر آپشنز دستیاب کئے گئے ہیں- سوال یہ ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کا ابتدائی مرحلہ ہے- مستقبل میں یہ مزید کس طرف جائے گا؟ اورغیر حقیقی کو حقیقت کے روپ میں کس قدر پیش کرسکے گا؟ اور اس کی انتہا کیا  ہوگی؟

عقلِ انسانی کی صلاحیت:

انسانی دماغ میں ایک ارب نیورون نامی خلیات ہوتے ہیں اور ہر نیورون دوسرے سے چار ہزار روابط کا سلسلہ قائم رکھتا ہے-[6] دماغ کے باطن کو عقل کہا جاتا ہے اور اہلِ علم کے نزدیک عقل دو قسم پہ مبنی ہوتی ہے- عقلِ جز اور عقلِ کل- یہ ایک طویل بحث ہے کہ ایسے کون سے عناصر ہیں جو عقل کی معراج میں موجب ٹھہرتے ہیں-اسِ کل۔ معروف ہے کہ عام انسانی  انسان نے اپنی عقل کے استعمال سے خورد اشیاء سے لے کر وسیع کائنات کی تسخیر کرنا شروع کی- سمندر کی تہوں سے لے کر کائنات میں پھیلے سیاروں  اور ستاروں کے بارے میں جانا، خلیہ سے لے کر ایٹم کی ساخت اور اس کے بھی اندر موجود دنیا کو جان لیا ہے- البتہ انسانی عقل اب بھی قدرت کے رازوں کو سمجھنے میں عاجز ہی ہے- کائنات کے جتنے حصے کو اب تلک تسخیر کیا گیا ہے وہ گوکہ کل کا محض مختصر ہے- لیکن عقلِ انسانی کے کارناموں کی کمال مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں مثلاً ساڑھے چار ہزار سال قبل اہرامِ مصر کی تعمیر ہوش ربا سائنسی ڈھانچوں اور جدت آمیز کاری گری کو اپناتے ہوئے کیونکر ممکن ہوسکی ہوگی، آج بھی اس کے سراغ کی تلاش جاری ہے- اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ سب کچھ انسان کی عقلی صلاحیت کی بنیاد پہ ہی ممکن ہوسکا ہے-

عقلِ انسانی اور قرآن کے متعین کردہ معیارات:

قرآن مجید رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بن کر نازل ہوا- اس آخری مقدس کتاب میں غور و خوض کرنے والوں کے لئے رہنمائی کا سامان رکھ دیا گیا ہے- جو معیار قرآن نے مہیا کیا وہ جستجو، فہم، ادراک اور مشاہدہ پر مبنی ہے جس کے باعث انسان اپنے باطن اور اس وسیع و عریض کائنات کی تسخیر کرسکتا ہے- انسان ظاہری جسم، عقل اور روح کے مجموعے کو  کہتے ہیں- انسان اپنے شعور اور تدبر و تفکر کے باعث دیگر مخلوقات سے ممتاز ٹھہرتا ہے کہ یہ عقل اسے بارگاہِ الہیٰ تک پہنچانے کا ذریعہ بھی ہے- عقل کی بدولت علم کا حصول ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ یہ افہام و تفہیم کا کام سرانجام دیتی ہے اور  ظاہر میں موجود باطن کا ادراک ممکن بناتی ہے- انسان کو اللہ تعالیٰ نے علم سے نوازا- نسلِ انسانی کا آغاز حضرت آدم (ع) سے ہوا اور آپ (ع)کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوا:

’’وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا‘‘[7]

’’اور اللہ نے آدم (ع)کو کل اسماء کا علم سکھادیا‘‘-

اللہ تعالیٰ نے انبیاء (﷩) کو مختلف علوم عطا فرمائے جیسے کہ حضرت نوح (﷤) کو کشتی کا علم دیا - حضرت داؤد (﷤) کو لوہے کی ایجادات پہ قدرت عطا کی -حضرت سلیمان (﷤) کو پرندوں کی بولی سمجھائی، جنوں پر حکمرانی عطا فرمائی-حضرت خضر (﷤)کو باطن کا علم عطا کیا - نیز عقل، علم اور حلم کی عطا سے ترقی اور بہتری کا سامان ہوتا چلا آیا اور حضور خاتم النبیین (ﷺ) کی ذات پاک پہ تمام علوم قرآن مجید کی صورت میں مکمل فرمادئیےگئے- انسان نے اپنی عقل کی بنا پر جن علوم و فنون کو ایجاد واختراع کیا وہ تمام شواہدات بہرصورت قرآن و حدیث کی روشنی میں بھی ملتے ہیں- مسلم سائنسدانوں کی طویل فہرست موجود ہے جنہوں نے قرآن میں غوطہ زن ہوکر ایسے ایسے کارنامے پیش کئے جنہیں عصرِ حاضر کے علوم و فنون کی ابتداء یا بنیاد بھی سمجھا جاتا ہے- ابنِ سینا نے طب میں نام کمایا، محمد ابن موسیٰ الخوارزمی کی تخلیقات نے ہندی عربی اعداد اور الجبرا ءکے تصورات کو یورپی ریاضی میں متعارف کرایا، عمر خیام ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ریاضی دان، ماہر فلکیات اور شمسی کیلنڈر کے بانی بھی تھے، ثابت بن قرۃ بطلیمی نظام کے پہلےمصلح اور جامدات (statistics) کےبانی ہیں، حکیم محمد ابوبکر محمد بن زکریا الرازی تاریخ کے عظیم ترین طبیبوں میں سے ایک تھے، کیمیاء اور دھات کاری میں جابر بن حیان کا نام سرِ فہرست آتا ہے،حسن بن ہیثم کو آپٹکس کے اصولوں اور سائنسی تجربات کے استعمال میں کی گئیں اہم خدمات کے لئے جانا جاتا ہے-ابنِ خلدون کو جدید تاریخ نویسی، سماجیات اور معاشیات کے پیش روؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے- علامہ ابن العربی نے ایک انوکھا کائناتی نمونہ تیار کیا جو ہمارے مشاہدات کے ساتھ ساتھ طبیعیات اور کائنات میں بہت سے مظاہر کی وضاحت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے- اسی طرح ایسےسینکڑوں ہزاروں نام موجود ہیں جو آج بھی اپنے اپنے متعلقہ شعبہ جات میں جانے جاتے ہیں- اس پورے مقدمے کی بنیاد عقل کے استعمال پہ محیط ہے اور عقلِ انسانی کا معیار قرآن مجید نے تدبر اور تفکر پہ ہی استوار کیا ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ط اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ‘‘[8]

’’بیشک ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہاری نصیحت ( کا سامان) ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے ‘‘-

عقل والوں کو قرآن مجید میں 60 سے زائد مقامات پر مخاطب کیا گیا ہے اور انہیں کائنات میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دلائی گئی- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ ص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ‘‘[9]

’’بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں‘‘-

زیرِ غور مقالہ کے مقدمہ میں جہاں تفصیل سے مصنوعی ذہانت کی بات کی گئی اور اس کے حیران کن کارناموں کا تجزیہ کیا گیا، اس سے یہ اندازہ لگانا محال نہیں ہے کہ یہ جدید ٹیکنالوجی مستقبل میں انسانوں کے لئے کن کن مشکلات کا باعث بھی بن کر ابھر سکتی ہے- حال ہی میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ ممکن پایا ہے کہ انسان کمپیوٹر میں شامل کردہ (data feed) کسی بھی تحریر کو معروف شخصیات کی آواز میں بلوا سکتا ہے- ویڈیوز میں انسان کے اواتار میں virtual reality کے تناظر میں کچھ بھی بلوایا اور کروا یا جاسکتا ہے- اس عمل کا جہاں مثبت انداز میں کام لیا جاسکتا ہےوہیں اس کے منفی پہلو بھی دنیا کی نظر سے اوجھل نہیں ہیں- جیسے پاس ورڈ ہیکنگ، آواز اور لہجے کی نقل وغیرہ-[10] ماہرین اور اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کسی کے لئے کس حد تک تکلیف یا نقصان کا باعث بن سکتی ہے- اس موضوع پہ سائنس فکشن میں ہزاروں ناول لکھے گئے ہیں کہ کس طرح آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ہاتھوں مستقبل میں انسانوں کو ضرر پہنچ سکتا ہے - یووال نوح ہراری کی کتاب ’’Sapeins‘‘ دنیا میں بہت زیادہ فروخت ہوئی، اس میں بھی ہراری کا مقدمہ یہی تھا کہ روبوٹس اور مصنوعی ذہانت بنی نوعِ بشر کو غلام بنا لیں گے یا کرۂ ارضی سے مکمل طور پہ ختم کر دیں گے جیسے کہ ہماری نوع سے قبل کی انواع نیست و نابود ہوئی ہیں - ایک ناول سٹوری کی حد تک تو یہ باتیں خائف کرنے والی نہیں ہیں لیکن اگر انہیں سنجیدہ مستقبل بینی کے ساتھ اس قدر متوقع سمجھا جا رہا ہے تو یہ انسانوں کےلئے ایک ہنگامی صورتحال بھی ہو سکتی ہے -

اگر اس سارے پسِ منظر میں قرآن مجید میں غور و تدبر کیا جائے تو کوئی ابہام نہیں رہ جاتا کہ قرآن مجید میں انسانی جان اور اس کے تحفظ کو بے پناہ اہمیت دی گئی ہے - ذیل میں ہم اس کی چند ایک مثالیں دیکھ سکتے ہیں -

سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

’’قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘ [11]

’’آپ کہیے کہ میری طرف جو وحی کی گئی ہے مَیں اس میں کسی کھانے والے پر ان چیزوں کے سوا اور کوئی چیز حرام نہیں پاتا، وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو، یاخنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ نجس ہے یا بہ طور نافرمانی کے اس پر (ذبح کے وقت) غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو، پھر جو شخص (بھوک کے باعث) سخت مجبور ہو جائے اور نہ وہ سرکشی کرنے والا ہو نہ حد سے بڑھنے والا ہو تو بیشک آپ کا رب بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے‘‘-

ان آیات کی تفسیر میں برصغیر پاک و ہند کے عظیم مفسر اور محدث علامہ غلام رسول سعیدی (رح)لکھتے ہیں کہ :

’’جان کو بچانا اور صحت کو قائم رکھنا فرض ہے اور یہ فرض باقی تمام فرائض پر مقدم ہے ،خواہ جان بچانا اور مرض سے محفوظ رکھنا کسی ظنی امر پر موقوف ہو، اُس کیلئے فرض قطعی کو ترک کر دیا جائے گا-قرآن مجید میں ہے:

’’وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ طاِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ‘‘[12]

’’اوراپنی جانیں قتل نہ کرو-بے شک اللہ تم پر مہربان ہے‘‘-

’’وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ‘‘[13]

’’اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو‘‘‘-

رمضان میں روزہ رکھنا فرض قطعی ہے، لیکن اگر روزہ رکھنے سے بیمار پڑنے یا مرض بڑھنے کا خدشہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے رمضان کا روزہ نہ رکھنے اور بعد میں اس کو قضاء کرنے کا حکم دیا ہے:

’’فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ ز وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ‘‘[14]

’’تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو ‘‘-

روزہ رکھنے سے بیماری لاحق ہونا، یا بیماری کا بڑھنا، اسی طرح سفر سے مشقت کا لاحق ہونا ایک امر ظنی ہے لیکن اس ظنی امر کی وجہ سے فرض قطعی کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے- اس سے واضح ہو گیا کہ زندگی اور صحت کی حفاظت کرنے کا حکم باقی تمام فرائض پر مقدم ہے اور اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کے حکم پر عمل کرنے کو صحت کی حفاظت پر مقدم کرے اور سفر کی مشقت برداشت کر کےروزہ رکھے تو وہ گناہگار ہوگا-

ان امور سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انسان کی حفاظت ہر چیز پر مقدم ہو جاتی ہے ، انسان کی اپنی ایجادات اسکے لئے خطرہ بھی بن کر ابھرتی رہی ہیں- وہ تمام ہتھیار جن سے عالمی جنگیں لڑی گئیں اور آج بھی بے حساب معصوم جانوں کے نقصان کا ذریعہ بن رہے ہیں ، انکا مقصد حفاظت تھا لیکن اسے دوسرے پیرائے میں استعمال کیا جائے تو وہ دہشت کا ذریعہ بن جاتے ہیں- یہ تمام معاملات قرآنی نقطۂ نظر سے ہمارے لئے غور و فکر کے دروازے کھولتے ہیں کہ انسان کیلئے محفوظ مستقبل کی تلاش میں مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال پہ بھی غور کیا جائے- کیونکہ اس سے پہلے کی کوئی ٹیکنالوجی خودکار یا ذہین نہیں تھی لیکن مصنوعی ذہانت از خود نت نئے طریقے اور چیزیں سیکھ سکتی ہے-

انسانی عقل اگر نفس کے تابع ہوجائے تو یہ شیطانی محرکات کا مرکز بن جاتی ہےاور خدا سے دوری کا سبب بن سکتی ہے- یہی وجہ ہے کہ محض عقل کو بنیاد بنا کر حاصل کردہ کامیاب نتائج پہ بعض لوگوں نے خالقِ کائنات کی ذات کا بھی انکار کیا- جبکہ عقل اگر ظاہری حسیات کے ساتھ الہام و مشاہدہ سے بھی متصل رہے تو یہ انسان کو اس کے خالق کے قریب بھی کر دیتی ہے- مصنوعی ذہانت جس طرح خود کار جوابات اور لوگوں کے احساسات و جذبات کو سمجھنے لگی ہے، کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں اس کے منفی استعمال سے لامحدود جھڑپوں کا فروغ بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی ایسے مسائل پر جو فی الحال صرف سائنس فکشن کا موضوع ہیں - اس میں اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا انسان ایسی خود کار ذہین مشینوں کے ہاتھوں مہلک مقاصد کیلئے استعمال ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب اس آیت سے استدلال میں موجود ہے کہ خیر سے ہٹانے، فساد برپا کرنے اور انسان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکانے کیلئے شیطان نے بارگاہِ الٰہی سے مہلت لے رکھی ہے- قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

’’قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ ‘‘[15]

’’اس نے کہا، سو تیری عزّت کی قسم! میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا‘‘-

اگر یہ تناظر درست ہے تو پھر عقلِ انسانی کے فرائض میں دو باتیں بہر حال وثوق سے کہی جا سکتی ہیں - ایک تو یہ کہ اسے غور و فکر کے ذریعے ایجاد و دریافت کے عمل میں اپنا سفر جاری رکھنا چاہئے دوسری بات یہ کہ اس جاری سفر میں اسے یہ بات یقینی بنانی چاہئے کہ اس ایجاد و دریافت کے عمل سے پیدا ہونے والے نتائج اس کی اپنی نوع کیلئے مثبت ہی بر آمد ہوں اور یہ شیطان کے ہاتھوں اغوا ہو کر کسی ایسے عالمگیر فساد کا حصہ نہ بنے جو نہ صرف اس کی اپنی نوع کی بقا کے منافی ہو بلکہ مجموعی طور پہ اس کرۂ ارض پہ موجود زندگی کیلئے خطرہ ہو-

قرآن نےجہاں عقل والوں کو گہرائی میں اتر کر غور و فکر کرنے کی دعوت دی وہیں عاقل انسان کا معیار بھی بیان فرمایا ہے- آیا ہر عقل رکھنے والا قرآن کی نگاہ میں ایک عاقل انسان ہے یا نہیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَط اِنْ ہُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا‘‘ [16]

’’کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے یا سمجھتے ہیں؟ ( نہیں ) وہ تو چوپایوں کی مانند ( ہو چکے ) ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر گمراہ ہیں‘‘-

انسان کی عقلِ کُل کا تعلق محض اس کے دماغ سے نہیں بلکہ اس کے قلب سے بھی ہے- انسان اگرچہ آج cloning کے ذریعے انسانی اعضاء کو مصنوعی انداز میں تیار کرنے کی اہلیت رکھتا ہے یامشینی اعضاء کی ترسیل میں کامیابی حاصل کرچکا ہے یا مصنوعی ذہانت کی صورت میں انسانی ذہن کا مقابل لانے کی کوشش کررہا ہے لیکن وہ ان سب کے باوجود بھی divine intellect کے قریب ترین بھی نہیں ہے - قرآن ہم پہ واضح کرتا ہے کہ انسانی عقل کی غفلت نے خدائی دعوے بھی کئے اور انسانی عقل کی غفلت نے ہی ان دعوؤں کو حقیقت سمجھا اور پھر عذابِ الٰہی کے مرتکب ٹھہرے- حضرت موسیٰ (ع) جب کوہِ طور پہ تشریف لے کر گئے تو پیچھے ان کی قوم میں اندھی عقل رکھنے والوں نے سونے کا بچھڑا بنایا اور لوگوں نے اس کی پرستش کرنا شروع کردی یعنی ایسا عمل کیا جو اس کے اپنے شرف کے منافی تھا دوسرے لفظوں میں یہ عمل انسان پر ایک چوپائے کی برتری کو تسلیم کرنا ہے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ خطر ناک - فرعون نےعقل پہ تالے پڑنے کے باعث خدائی دعویٰ کیا اس کے دعوے کو تسلیم کرنے والے بھی ایسے ہی لوگ تھے جو ایک فسادی طاقت کے پیرو ہو گئے تھے ایک ایسی فسادی طاقت جو اپنے نتائج کے اعتبار سے مکمل طور پہ منفی تھی - ایسی عقل رکھنے والوں کو جانوروں سے تشبیہ دی گئی ہے جو بظاہر عقل والے ہیں لیکن درحقیقت عقل سے محروم ہیں- انسان کو چوپائیوں سے مشابہت دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جس دور یا معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں خود پر محض نفسانی جذبات، شہوات و تعصبات کے لباس ڈھانپے ہوئے ہوں یا خیر و شر کی تمیز سے خود کو بےخبر رکھے ہوئے ہوں یا اللہ تعالیٰ نے انسان میں تدبر و تفکر کا جو مادہ رکھا ہے اس کو بروئے کار لانے کی بجائے باطل کو حق تسلیم کر رہے ہوں- ایسے انسانوں کا اشرف کیا ہوسکتا ہے جو جانوروں والا معمول اپنائے رکھیں اور شعور کا بیج ہونے کے باوجود بھی اسے ایمانی مشاہدے کے پانی سے تناور درخت نہ بنائیں-

مصنوعی ذہانت اور روبوٹ کے میلاپ سے انسانی شکل و صورت، قد و قامت والے ڈھانچے تیار ہوچکے ہیں جو انسان کی طرح سوچتے سمجھتے ہیں اور احساس و جذبات کی شناخت اور ان کا ردعمل دینے کے بھی قابل ہوگئے ہیں-صوفیہ(Sophia) نامی روبوٹ جسے 2016ء میں دنیا بھر کے سامنے متعارف کروایا گیا اسے AI کے مستقبل کاترجمان کہا جارہا ہے- [17]جبکہ سب اس بات کا بھی بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ AIسائنس کی اب تلک کی سب سے بڑی ایجاد تصور کی جاتی ہے اور اس کی مرہونِ منت دنیا بھر میں کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ان گنت لوگوں کو فراڈ کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ جرائم کے شعبہ میں بھی اس کی معاونت نے اضافہ کیا ہے- قرآن مجید میں ارشاد ہوا :

’’وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا لا وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا ط كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ ‘‘[18]

’’اور بیشک ہم نے تم سے پہلے (بھی بہت سی) قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو (ان کے عمل کی) سزا دیتے ہیں‘‘-

اس ترقی کے دور میں انسان پہ جس قدر ظلم بڑھتا جارہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی- جیسا کہ پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ خود سائنسدانوں نے بھی یہ عندیہ دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی مستقبل میں محکم ہو کر انسانی نسل کا خاتمہ بھی کرسکتی ہے-[19] کیونکہ جب انسان اپنی عقل کو عقلِ کُل تسلیم کرلے اور divine authority کا منکر ہو جائے تو یہ انسانیت پہ بہت بڑا ظلم و جبر ہی ہے-مصنوعی ذہانت انسان کی تخلیق ہے، جسے اس نے بارہا کام کر کے بنایا اور وہ انسان کے متبادل کام کرتی ہے- ایسی صنعت کاری کو عربی زبان میں صَنَعَ کے صیغے میں بیان کیا جاتا ہے- قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

’’قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ؁ اَعْمَالًا اَلَّـذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُـمْ فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَهُـمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّـهُـمْ يُحْسِنُـوْنَ صُنْعًا‘‘ [20]

’’کہہ دو کیا میں تمہیں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل خسارے میں ہیں- وہ جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں کھو گئی اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں‘‘-

اس میں کوئی بعید نہیں کہ انسانی عقل چونکہ ظاہر کا افہام کرتی ہے اور توفیقِ ایزدی کے بغیر فقط خام خیالی اور گمراہی کی راہ اختیار کرسکتی ہے تو مصنوعی ذہانت جیسی جدت جو مستقبل میں مزید توانا اور وسعت پانے کے قوی امکانات رکھتی ہے، کے اقدامات اور حرکات و سکنات سے خود کو اس کے زیر کرکے تباہی کا ساماں نہ کرلیں- قرآن مجید اسی بابت اشارہ فرماتا ہے:

’’وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً ط صُمٌّۢ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ‘‘[21]

’’اور ان کافروں کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کسی ایسے کو پکارے جو سوائے پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتا ، یہ لوگ بہرے، گونگے، اندھے ہیں سو اِنہیں کوئی سمجھ نہیں‘‘-

خلاصۂ کلام:

حال ہی میں خبر رساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری بینک گولڈمین ساکس کے مطابق مصنوعی ذہانت 30 کروڑ ملازمتوں کی جگہ لے سکتی ہے- لیکن یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس سے نئی ملازمتیں اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے-[22]نومبر 2022 سے اب تک مصنوعی ذہانت کے ٹُول میں سے ایک، ChatGPT کو اب تک کئی لاکھ لوگ استعمال کرچکے ہیں اور مائیکروسافٹ نے اس پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں- البتہ، پرائیویسی خدشات کی بنا پر اٹلی میں اس پر پابندی لگا دی گئی-[23] ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایلون مسک سمیت دیگر اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ طاقتور AI سسٹمز کی تربیت انسانیت کے لیے خطرے کے خدشات پیدا کرسکتے ہیں - نامور سائنسدان سٹیفن ہاکنگ اسے ’’انسان کی تاریخی بیوقوفی‘‘کہتے تھے - ان تمام باتوں کے پیشِ نظر انسانی عقل کی اس ایجاد کو ایک نعمت سمجھا جائے اور اسے مثبت طریقوں میں بروئےکار لایا جائے تو یہ صحت اور ادویات کے میدان ، تعلیمی میدان، تکنیکی میدان سمیت دیگر شعبہ جات میں ترقی کی رفتار کو مہمیز عطا کرسکتا ہے- لیکن اس کا انحصار اب انسان پر ہی ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت کا حاکم بنے گا یا محکوم؟

٭٭٭



[1]https://study.com/academy/lesson/marshall-mcluhan-the-global-village-concept.html

[2]Wang, Q. J., et, al. (2021). Getting started with virtual reality for sensory and consumer science: Current practices and future perspectives. Food Research International, 145, 110410.

https://doi.org/10.1016/j.foodres.2021.110410

[3]https://www.ibm.com/topics/artificial-intelligence

[4]https://www.oxfordlearnersdictionaries.com/definition/english/artificial-intelligence

[5]Silver, D. et, al. (2016). Mastering the game of Go with deep neural networks and tree search. Nature, https://doi.org/10.1038/nature16961

[6]https://neurotray.com/how-much-does-my-brain-weigh

[7](البقرہ:31)

[8](الانبياء:10)

[9](البقرہ: 164)

[10]https://www.youtube.com/watch?v=62J2A5G3ItI

[11](الانعام : 145)

[12](النساء:29)

[13](النساء:195)

[14](البقرۃ:185)

[15](سورة ص: 82)

[16]( الفرقان: 44)

[17]https://www.hansonrobotics.com/sophia/

[18]( یونس:13)

[19]https://www.bbc.com/news/technology-30290540

[20]( الکہف: 103-104)

[21](البقرہ:171 )

[22]https://www.bbc.com/news/technology-65102150

[23]https://www.bbc.com/news/technology-65139406

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر