مختصر تعارف ِ ذوالنورین ؓ

مختصر تعارف ِ ذوالنورین ؓ

سیدی رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان مبارک ہے:

’’ہر نبی کا جنت میں کوئی نہ کوئی ایک ساتھی ہے اور جنت میں میرے ساتھی (رفیق)عثمان بن عفان ہیں‘‘-[1]

قرآن میں اللہ عزوجل نے جو مؤمنین کی صفات ذکر فرمائی ہیں، اُن تمام جلیل القدر صفات سے متصف ہستی مبارک، جامع القرآن، پیکرشرم و حیاء، کاتب وحی، خلیفہ سوم، دامادِ رسول (ﷺ)، سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورینؓ کی ولادت باسعادت عام الفیل (اَبْرَہَہ بادشاہ کے مکّۂ مکرّمہ پر ہاتھیوں کے ساتھ حملے) کے 6برس بعد(یعنی 47 ق-م، 577ء کو مکہ میں) ہوئی ‘‘-[2] آپؓ عمر میں سیدی رسول اللہ (ﷺ) سے 6 برس چھوٹے ہیں-

نسب مبارک اور سیدی رسول اللہ () سے رشتہ داری :

حضرت عثمان غنی ؓ کے نسب کے بارے میں علامہ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں:

’’عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف اور آپ ؓ کا نسب آقا کریم (ﷺ) سےعبدمناف میں جاکر مل جاتا ہے ‘‘-[3]

والدہ صاحبہ کی طرف سے آپؓ کا نسب نامہ یوں ہے :

’’أروى بنت كُريز بن حبيب بن عبد شمس اور آپؓ کی والدہ کی والدہ (نانی جان)بيضاء بنت عبد المطلب بن ہاشم ہیں (یعنی ننہال کی طرف سے آپ ؓ کا نسب مبارک سیدی رسول اللہ (ﷺ)سے حضرت عبد المطلب اور عبد شمس میں جاکر ملتا ہے ‘‘-[4]

مختصر وضاحت:

آپ ؓ کا اسم مبارک ’عثمان‘ اور لقب ’ذوالنورین‘ ہے-آپ ؓ کا نسب پانچویں پشت میں رسول اﷲ (ﷺ) سے جا ملتا ہے-آپ ؓ کے والدمحترم کا نام عفان اور والدہ محترمہ کا اروی ہے-حضرت اُروی سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی پھوپھی ُامّ حکیم بنت عبدالمطلب کی صاحبزادی تھیں-یہ اُمّ حکیم وہی ہیں، جو سیدنا رسول اﷲ(ﷺ)کے والد حضرت عبد اللہ کے ساتھ توام(جڑواں) پیدا ہوئی تھی-المختصر! حضرت عثمان ؓ ماں اور باپ دونوں کی طرف سے رسول اﷲ (ﷺ) کے ساتھ قریبی قرابت رکھتے تھے-

کنیت و لقب:

امام زہریؓ فرماتے ہیں کہ:

آپ ؓ کی کنیت ابو عبد اللہ،آپؓ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ ؓ کی وجہ سے ہے جو کہ سیدہ رقیہ بنت ِ رسول اللہ (ﷺ) کے لختِ جگر ہیں (اس سے پہلے آپ ؓ کی کنیت ابوعمرو تھی ) اور آپ ؓ کا لقب ’’ذو النورین‘‘ ہے جس کے بارے میں سیدنا علی المرتضیٰ شیرِ خدا  ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ؓ کو آسمانوں میں ’ذو النورین‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے- حضرت مھلب بن ابو صفرہ ؓ سے سوال کیا گیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کو ’ذوالنورین‘کیوں کہتے ہیں تو آپ ؓ نے فرمایا کہ آپ ؓ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی زوجیت میں کسی بھی نبیﷺ کی دو صاحبزادیاں آئی ہوں- آپؓ (سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی دو صاحبزادیوں سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثومؓ سے یکے بعد دیگرے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئےہیں -مزید یہ کہ آپ ؓ کی دو ہجرتوں (ہجرت حبشہ، ہجرت ِ مدینہ)  کی وجہ سے آپ کو ’’صاحب الہجرتين‘‘ بھی کہتے ہیں ‘‘- [5]

شخصیت مبارک:

امام ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کے بارے میں جو ہمیں معلوم ہوا ہے کہ:

’’آپ ؓ کا قدمبارک درمیانہ تھا، حسین چہرہ، داڑھی مبارک بڑی، رنگ مبارک گندم گوں، مضبوط جوڑ اور ہڈیاں، سینہ مبارک کشادہ اور آپ ؓ زرد خضاب استعمال فرمایاکرتے تھے‘‘-[6]

مرویات:

آپ ؓ نے آقا کریم (ﷺ) اورشیخینؒ سے روایات مبارکہ لیں- آپ ؓ سے روایات مبارکہ لکھنے والوں میں آپؓ کے صاحبزادے حضرت ابان، حضرت سعيد اور حضرت عمرو اور دیگر معزز شخصیات میں حضرت حمران، حضرت انس، حضرت ابو أمامۃ بن سہل، حضرت احنف بن قيس، حضرت سعيد بن المسيب، حضرت ابو وائل، حضرت طارق بن شهاب، حضرت علقمہ، حضرت ابو عبد الرحمٰن السلمی، حضرت مالك بن اوس بن حدثانؓ اور دیگر کئی جلیل القدر شخصیات نے احادیث مبارکہ روایات کی ہیں- [7]

ابن عساکر کی روایت کے مطابق:

’’آپ ؓ سے روایت کرنے والوں میں حضرت عبد اللہ بن مسعود،  حضر ت عبد الله بن عباس ، حضر ت عبد الله بن عمر، حضرت عبد الله بن زبير، حضر ت عبد الله (بن) جعفر بن أبی طالب ، حضرت زيد بن ثابت، حضرت عمران بن حصين، حضرت انس بن مالك ، حضرت ابو ہريرہ، حضرت مغيرہ بن شعبہ، حضر ت زيد بن خالد جُهنی، حضرت ابو قتادہ، حضر ت عبد الله بن مغفل، حضرت طارق بن اشيم اشجعی، حضر ت سلمۃ بن الاكوع، حضرت ابو امامۃ، حضر ت عبد الله بن حارث بن نوفل، حضرت ابو ا مامۃ بن سهل بن حنيف، حضرت يوسف بن عبد الله بن سلام، حضرت عبد الله بن عامر بن كريزؓ اور دیگر کئی جلیل القدر شخصیات نے احادیث مبارکہ روایات کی ہیں‘‘-[8]

مختصرخاندانی پس منظر:

حضرت عثمانؓ کا خاندان ایام جاہلیت میں بھی غیر معمولی وُقعت واقتدار رکھتا تھا-آپ ؓ کے جد اعلیٰ امیہ بن عبدشمس قریش کے رئیسوں میں تھے،خلفائے بنوامیہ اسی امیہ بن عبد شمس کی طرف سے منسوب ہو کر ’’امویین‘‘ کے نام سے مشہور ہیں،عقاب یعنی قریش کا قومی علم اسی خاندان کے قبضہ میں تھا،جنگ فجار میں اسی خاندان کا نامور سردار حرب بن امیہ سپہ سالار اعظم کی حیثیت رکھتا تھا، غرض حضرت عثمان ؓ کا خاندان شرافت، ریاست اور غزوات کے لحاظ سے عرب میں نہایت ممتاز تھا اور بنو ہاشم کے سوا دوسرا خاندان اس کا ہمسرنہ تھا-بچپن اورسن رشد کے حالات پردہ خفا میں ہیں؛ لیکن قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے عام اہل عرب کے خلاف اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا، عہد شباب کا آغاز ہوا تو تجارتی کاروبار میں مشغول ہوئے اور اپنی صداقت،دیانت اور راست بازی کے باعث غیر معمولی فروغ حاصل کیا-

قبولِ اسلام و مختصر تعارفی وضاحت:

سیدنا عثمان بن عفان ؓ کی ذاتِ اقدس کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے محدثین و مفسرین نے جہاں ابواب رقم فرمائے وہاں علمائےکرام نے مستقل الگ کتب بھی آپ ؓ کی شانِ اقدس میں تحریرفرمائیں، جن کا کماحقہ احاطہ کرنا ممکن نہیں-یہاں صر ف علامہ ابن عساکرکی مشہور زمانہ 80 جلدوں پہ مشتمل کتاب ’’تاریخِ دمشق “ کی روشنی میں آپؓ کی سیرت و تاریخ کے بارے جاننے کی کوشش کرتے ہیں-

حضرت عثمان غنی ؓ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت زید بن حارثہ کے بعد اسلام قبول فرمانے والے) چوتھے خوش نصیب فرد تھے-سیدنا عثمان بن عفان ؓ پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے اپنی زوجہ محترمہ ) سیدہ رقیہؓ کی معیت میں پہلے حبشہ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی- جب سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے جنگ بدر کی تیاری فرمائی تو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو سیدہ رقیہؓ کی طبیعت مبارک ناساز ہونے کی وجہ سے جنگ بدر میں شرکت سے روک دیا اور جنگ بدر میں فتح کے وقت مالِ غنیمت میں آپ ؓ کاحصہ مقرر فرمایا-(حضور نبی کریم (ﷺ) کے حکم مبارک کی پیروی کی وجہ سے آپ ؓ کو شمولیت کا شرف بخشا  گیا)اور بیعتِ رضوان کے موقع پہ آپ ؓ کے ہاتھ کو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نےا پنا دستِ اقدس قرار دیتے ہوئے بیعت فرمایا اور آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

”یااللہ !بے شک عثما ن اللہ عزوجل اور اس کے رسول (ﷺ)کی اطاعت میں تھے“- (مزید یہ کہ) آپ ؓ نے بئررومہ 20 ہزار درہم میں خریدا، ایک موقع پہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو ہماری مسجد (مسجد نبوی (ﷺ) میں اضافہ کرے گا تو آپؓ  نے پانچ ستونون کی جگہ خرید کراس کو مسجد میں شامل فرمایا اور غزوہ تبوک کے موقع پہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے حکم مبارک پہ آپ ؓ نے ساڑھے نو سو اونٹ اور پچاس گھوڑے پیش فرمائے اور اللہ اور اس کے حبیب مکرم (ﷺ)کی رضا وخوشنودی کواپنے حق میں یقینی بنایا ‘‘-[9]

فضائل ومناقب:

حضور نبی کریم (ﷺ) حضرت عثمان غنی ؓ پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اورآپ ؓ کی اپنے مال کے ذریعے کی گئی نصرت کی انتہائی قدر فرمایا کرتے تھے-آپ ؓ ان خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں سے ہیں جن کو سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے کتابت وحی پہ مامور فرمایا اور زندگی مبارک میں بزبان مصطفٰے (ﷺ) جنت کی خوش خبری سُنائی گئی آپ ؓ کی ذاتِ اقدس کی شان میں بیان کئے گئے فضائل ومناقب میں چند فضائل کو لکھنے کی یہاں سعادت حاصل کرتے ہیں -

داماد رسول (ﷺ)سیدنا عثمان ذوالنورین ؓ ان اولوالعزم ہستیوں میں سے تھے جن کی شہادت کی پیشن گوئی رسول اللہ (ﷺ)نے اپنی زبان گوہرفشاں سے پہلے ہی ارشاد فرما دی تھی جیساکہ روایت میں ہے :

1:ایک مرتبہ حضور نبی کریم (ﷺ) (اپنے غلاموں) حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنیؓ (کے ساتھ) احد پہاڑ پہ قدم رنجہ فرمائے ہوئے تھے - ان (نفوس قدسیہ کی موجودگی)کی محبت میں احد پہاڑ وجد کرنے لگا- رسول اللہ (ﷺ) نے اپنا قدم مبارک احد پر مارکرارشاد فرمایا: ’احد! ٹھہر جا- تیرے اوپر ایک نبی(ﷺ)، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں‘‘- [10]

اس حدیث مبارک کی روشنی میں دوباتیں انتہائی اہم ہیں :

  1. آپ (ﷺ) کا اُحد کو حکم فرمانا اور اُحد کا آپ (ﷺ) کی اطاعت کرنا
  2. حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر دینا

2: حضرت سھل بن سعد ؓ سے مروی ہے کہ :

ایک آدمی نے حضور نبی کریم (ﷺ) سے عرض کی: (یا رسول اللہ (ﷺ)کیا جنت میں بجلی ہوگی؟آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:ہاں !اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدر ت میں میری جان ہے کہ عثمان جب ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہوگا تو پوری جنت اس کی وجہ سے چمک اُٹھے گی ‘‘-[11]

3: سیدناحضرت علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ (حضرت) ابو بکر ؓ پر رحم فرمائے انہوں نے اپنی صاحبزادی میرے نکاح میں دی ہجرت کے وقت مجھے اپنی اونٹنی پر سوار کیا اور اپنے مال سے (حضرت)  بلال ؓ کو آزاد کرایا،اللہ تعالیٰ (حضرت) عمرؓ پر رحم فرمائے وہ حق کہتے ہیں اگرچہ کڑوا ہوحق نے ان کی یہ حالت کردی ہے کہ اب ان کاکوئی دوست نہیں رہا،اللہ تعالیٰ (حضرت) عثمان ؓ پر رحم فرمائے ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ (حضرت) علی ؓ پر رحم فرمائے یا اللہ ! علی جدھر رُخ کریں حق کا رُخ بھی ادھر ہو جائے‘‘- [12]

4:’’حضرت جابر بن عبداﷲؓ سے روایت ہے کہ:

ایک مرتبہ ہم حضور نبی کریم (ﷺ) کے ساتھ مہاجرین کے ایک گروہ میں ایک گھر میں تھے اور اس گروہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی تھے تو حضور نبی کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: ہر آدمی اپنے کفو کی طرف کھڑا ہو جائے اور خود سید دو عالم(ﷺ) حضرت عثمان کی طرف کھڑے ہوگئے اور انہیں اپنے گلے لگایا اور فرمایا : اے عثمان تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے‘‘-[13]

5: ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان ؓ کے نکاح میں تھیں اورارشاد فرمایا:

’’اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کردیتا اور (ان کے ساتھ) عثمان کی شادی وحی الٰہی کے مطابق کی اور بے شک حضور سیدالانبیاء (ﷺ) حضرت عثمان سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا: اے عثمان! یہ جبریل امین ہیں جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (حضور پاک (ﷺ) کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کردی ہے‘‘-[14]

امام بدر الدین عینی بیان فرماتے ہیں کہ:

 ’’یہ شرف حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام سے قیامت تلک کسی بھی شخص کو حاصل نہیں کہ اس کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئیں ہوں‘‘-[15]

6:’’حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ:

’’حضرت ام کلثومؓ سیدی رسول اللہ (ﷺ)کی بارگاہ ِ اقدس میں حاضر ہوئیں اورعرض کی یا رسول اﷲ (ﷺ)! فاطمہؓ کا شوہر میرے شوہر سے بہتر ہے؟ تو حضور نبی کریم(ﷺ)نے تھوڑی دیر کے لئے خاموشی اختیار فرمائی پھر آپ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: اﷲ عزوجل اور اس کے رسول(ﷺ) تمہارے خاوند سے محبت کرتے ہیں اور وہ اﷲ جل جلالہٗ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتے ہیں اور تمہارے لئے میں مزید اضافہ فرماتا ہوں کہ اگر تو جنت میں داخل ہو تو تو ایک ایسا مقام دیکھے گی کہ میرے صحابہ میں سے کسی کو اس مقام پر نہیں پائے گی‘‘ -[16]

7:حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ:

’’حضرت عثمان بن عفان ؓ سر زمین حبشہ کی طرف ہجرت کی غرض سے نکلے اور آپ ؓ کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ بھی تھیں- پس کافی عرصہ تک ان کی خبر سیدی رسول اللہ (ﷺ) کو نہ پہنچی اور آپ(ﷺ) روزانہ ان کی خبر معلوم کرنے کیلئے باہر تشریف لاتے پس ایک دن ایک عورت ان کی خیریت کی خبر لے کر حضور نبی رحمت (ﷺ) کے پاس آئی تو آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: بے شک عثمان حضرت لوط ؑ کے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنی اہلیہ کے ساتھ اﷲعزوجل کی راہ میں ہجرت کی‘‘-[17]

8:’’حضرت عبدﷲ بن عمرؓسے روایت ہے کہ:

’’ہم حضرت عثمان بن عفان ؓ کو اپنے باپ حضرت ابراہیم ؑ سے تشبیہ دیتے ہیں‘‘- [18]

9: حضرت عثمان بن موہبؓ بیان کرتے ہیں کہ:

’’ایک شخص حج بیت اللہ کرنے کے لیے آیا- اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس نے پوچھا یہ کون لوگ بیٹھے ہوئے ہیں؟ لوگوں نے کہا یہ قریش ہیں ،پوچھا یہ بوڑھا آدمی کون ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ ہیں ‘ اس نے کہا میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیا آپ مجھے اس کا جواب دیں گے ؟ میں آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کی قسم دے کر سوال کرتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان بن عفان جنگ احد کے دن میدان چھوڑ کر چلے گئے تھے ؟ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ غزوہ بدر میں بھی حاضر نہیں ہوئے تھے؟ حضرت ابن عمرؓ  نے فرمایا ہاں ! اس کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیابیعتِ رضوان میں وہ غائب نہیں تھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اس نے نعرہ لگایا،اللہ اکبر- حضرت عبداللہ بن عمرؓ نےفرمایا تم نے جن چیزوں کے متعلق سوال کیا تھا اب میں تم کو ان کی وجوہات بیان کرتا ہوں- جنگ احد کے معاملے میں، مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ عزوجل نے انہیں معاف کر دیا اور غزوہ بدر میں غیرحاضر ی کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی صاحبزادی حضرت رقیہؓ ان کے نکاح میں تھیں(وہ ان کی تیمارداری کر رہے تھے) اور رسول اللہ (ﷺ) نے ان سے فرمایا تم کو بدر میں حاضر ہونے والے مسلمانوں سا اجر اور مال غنیمت ملے گا اور بیعت رضوان سے غائب ہونے کا معاملہ یہ ہے کہ بیعت اس وقت ہوئی تھی جب حضرت عثمانؓ مکہ جا چکے تھے-حضور نبی کریم (ﷺ) نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے، پھر اس کو اپنے دوسرے دستِ مبارک پر رکھا اور فرمایا یہ عثمان کی بیعت ہے- پھر حضرت ابن عمر ؓ نے اس شخص سے فرمایا تم نے یہ جوابات سن لیے اب جہاں جانا چاہو چلے جاؤ‘‘- [19]

جامع القرآن والفرقان:

سيدنا حضرت عثمان غنی ؓ کی حیات طیبہ اسلام اور مسلمانوں پر احسانات کے کئی واقعات کو سموئے ہوئے ہے- آپؓ کے دور مبارک میں اسلام دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا- شام کے لوگ حضرت ابی بن کعب ؓ کی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتے تھے، کوفہ والے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قرأت کے مطابق جبکہ بعض علاقہ والے حضرت موسیٰ اشعریؓ کی قرأت کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے تھے- حضرت عثمان غنی ؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپؓ نے امت مسلمہ کو قریشی رسم الخط اور مکہ مکرمہ کی قرأت پر یکجا فرمایا- [20]

حضرت حفصہؓ کے پاس سے قرآن کا نسخۂ صدیقی منگوایا گیا، حضرت زید بن ثابت،عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اورعبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام، مالک بن ابی عامر، کثیر بن افلح،ابی بن کعب،انس بن مالک اور عبداللہ ابن عباس کو مصحف تیار کرنے پر مامور کیا گیا، مصحف سورتوں کے اعتبار سے تیار کروایاگیا- اس نسخہ کومصحف الامام کا نام دیا گیا- بعد ازیں اس مصحف کی نقلیں تیار کی گئیں- [21]

حضرت زید بن حارث خزرجیؓ کاتبِ وحی ہیں اور حضور خاتم النبیین (ﷺ) آپ سے تواتر سے وحی لکھواتے، آپؓ حضور نبی کریم(ﷺ)اور جبریلِ امین علیہ السلام کے دورہ قرآن میں بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ  نے بھی آپؓ سے ہی مصحف لکھوایا تھا- آپ ؓ اگرچہ باقی کبار صحابہؓ  میں جوان تھے مگر آپ ؓ کی قابلیت کی بناپرحضرت عثمان غنیؓ نے آپ کا انتخاب فرمایا -آپؓ قرآن مجید کے پختہ حافظ، اعراب و لغاتِ قرآن کے جید عالم تھے- قرآن کی یہ جمع و تدوین مدینہ منورہ میں ہوئی اس لئے چند کبار صحابہؓ اس کارِ عظیم میں شریک نہ ہوسکے جیسے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ جو اس دوران کوفہ میں موجود تھے-جب مصاحف تیار ہوئے تو انہیں کبار صحابہ کی سند مل جانے کے بعد بلادِ اسلامیہ میں بھجوادیا گیا ، بقیہ نسخہ جات کو جن میں شبہ کی گنجائش تھی، کبار صحابہ کے اجتماع و اجماع اور اتفاق سے دفنائے گئے تھے - اس حکمت کے پیشِ نظرحضرت علی ؓ نے فرمایا تھا کہ اگر عثمانؓ کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو عثمانؓ نے کیا-[22]

 اتحادِ امت اور وحدتِ قرآن کی حکمت کے پیشِ ِ نظر تمام صحابہ کرامؓ مصحفِ عثمانی پر متفق و یکجا ہوگئے-نیز ابن ابی داؤد نے حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ حضرت عثمان ؓ کے متعلق سوائے بھلائی کی بات کے، کچھ نہ کہو- اللہ کی قسم! اُنہوں نے جو کچھ کیا، ہمارے مشورے سے کیا-[23] امتِ مسلمہ کو قرآن کے ایک مصحف پر جمع کرنے کی وجہ سے آپ ؓ کو جامع القرآن کے لقب سے مشہورہیں-

سیدی رسول اللہ () کی قرابت کا حیاء و ادب:

حضرت ابو زناد اپنے والد محترم سے، وہ حضرت ثقہ ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ:

’’حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ جب بھی کبھی حضرت عمر بن خطاب اور حضر ت عثمان بن عفان ؓ کے پاس سے گزرتے اس حال میں کہ یہ دونوں حضرات سواری پہ سوار ہوتے تو یہ حضرت عباس بن عبد المطلب ؓ کے ادب کی وجہ سے سواری سے نیچے اتر آتے یہاں تک آپ گزریں وہ سواری پہ سوار ہوں‘‘-[24]

امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان ؓ   کا مسندخلافت پہ فائز ہونا:

چونکہ سیدناعمربن خطاب ؓ کی شہادت محرم الحرام (24ھ) کو ہوئی، آپ ؓ نے اپنی خلافت کا معاملہ 6 آدمیوں کی مجلس شورٰی کے سپردفرمایا ،جن کے اسماء مبارکہ یہ ہیں:

’’حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ،حضرت زبیربن العوام ،حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ،( کہ ان میں سے کسی ایک کو خلیفہ نامزد کرلیں تقوٰی کا کمال یہ ہے کہ)ان میں اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ اور سعید بن زیدؓ کے نام شامل نہیں فرمائے-بالآخر طویل مشاورت کے بعد حضرت عثمان بن عفانؓ کے نام مبارک پہ اتفاق کرلیا گیا-سیدنا عثمان غنیؓ نے جن حالات میں عہدہ خلافت اٹھایا اگرچہ وہ مشکل ترین حالات تھے لیکن اس کے باوجود آپ ؓ کی فراست، سیاسی شعور اور حکمت عملیوں کی بدولت اسلام کو خوب تقویت ملی- اسلام پھیلا، اسلامی تعلیمات سے زمانہ روشن ہوا-آپ ؓ کےدور مبارک کی فتوحات اور اصلاحات کا امام جلال الدین سیوطیؒ کی تصنیف لطیف ’’تاریخ الخلفاء ‘‘ نے مختصر خاکہ یوں بیان فرمایا :

روم کے قلعوں اور رے کی فتح:

حضرت ابن سعد اور حاکم ابن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ :

’’جب سیدنا عثمان بن عفانؓ ہمارے امیر مقر ر کئے گئے تو ہم نے آپؓ کی پیروی اور امیر بنانے میں کوئی کمی اور کوتاہی نہیں کی-آپ ؓ کی خلافت کے سال ِ اول 24 ھ کو ملک رے فتح ہوا،جو پہلے ہی فتح ہوچکاتھا مگر پھر ہاتھ سے نکل گیا تھا،اسی سال روم کے بہت سے قلعے فتح ہوئے ‘‘-[25]

قبرص پر حملہ ،افریقہ و اندلس کی فتح:

’26 ھ میں حضرت امیر معاویہؓ نے سمندر کے راستے قبرص پہ حملہ کیا،اسی لشکر میں حضرت عبادہ بن صامتؓ اور اُن کی زوجہ محترمہ اُم حرام بنت ملھانؓ بھی ساتھ تھیں جو اس جگہ گھوڑے سے گر کر وصال فرما گئیں اورحضور نبی  کریم(ﷺ)نے انہیں اس لشکر کی پہلے ہی خبر دی تھی اور آپ( ﷺ ) نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی اور اسی سال ارجان اور دار بجرد فتح ہوئے اور اسی سال حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی صراح ؓ نے افریقہ پہ حملہ کیا اور تما م ملک فتح کرلیا،اس کے بعد اسی سال اندلس فتح ہوا‘‘- [26]

توسیع مسجدنبوی ():

’’29 ھ میں اصطخر اورقساء وغیرہ غلبتہ فتح ہوئے، اسی سال مسجدنبوی (ﷺ)میں توسیع فرمائی اور اسے نقش نگار کردہ پتھروں سے بنوایا اورستوں ایک ایک پتھر کے ہی بنوائے اورچھت ساگوان کی لکڑی سے بنوایااورمسجد کا طول 160 ہاتھ اور عرض 150 ہاتھ رکھا‘‘-[27]

رفاہِ عامہ اور دورِعثمانیؓ :

حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ نے ہمیشہ امت کی منفعت کو پیشِ نظر رکھا- نیزخدماتِ عامہ میں بھی فرد کی بجائے امت کا نفع ملحوظِ خاطر رکھتے تھے- [28]

آپؓ کی حیاتِ طیبہ میں سینکڑوں واقعات رفاہِ عامہ کے موجود ہیں، خواہ دورِ نبوی(ﷺ) ہو یا آپؓ سے ماقبل خلفاء کا دور ہو، آپؓ نے عوام کی سہولت کے لئے دل و جان سے خدمات کیں اور لوگوں کو نفع پہنچانے کی کوششیں کیں- اپنے دورِ خلافت میں آپ ؓ نے گھوڑوں اور اونٹوں کے لئے وسیع چراگاہیں بنائیں- ربذہ، نقیع اور ضربہ کے مقامات پر وسیع چراگاہوں کا قیام عمل میں آیا نیز ہر چراگاہ کے قریب چشمے تیار کرائے گئے اور چراگاہوں کے منتظمین کیلئے مکانات بھی تعمیر کرائے-آپؓ نے مختلف حکومتی محکموں کو مزیدمنظم کرکے ترقی دی، آپ کی دور رس نگاہ اور کاوشوں کا ثمر یہ ہواکہ حضرت عمرفاروقؓ کے عہد میں مصر کا خراج 20 لاکھ دینار تھا جو کہ آپ ؓ کے دور میں 40 لاکھ تک پہنچا- [29]

آپؓ نے مدینہ کے راستہ میں جگہ جگہ چوکیاں، سرائے اور چشمے تعمیر کروائے- ایک مختصر بازار بھی لگایا گیا جبکہ بیر السائب نامی میٹھے پانی کا کنواں بھی لگوایا- مدینہ سے کچھ فاصلے پرمدری کےمقام پر ایک بند بندھوایا اور نہر کھدوا ئی تاکہ خیبر کے راستے سے آنے والے سیلاب کا رخ دوسری طرف موڑ دیا جائے- اس بند کا نام بند مہزور ہے- [30]

آپ ؓ کا دورِخلافت چونکہ 12 سال کے عرصہ پر محیط ہے، آپ ؓ نے خلافت کی ذمہ داری 644ء سے 656ء تک انجام دی- علامہ جلال الدین سیوطیؒ کی طرح ہر مؤرخ نے آپ ؓ کی سیرت مبارک، فتوحات اور اصلاحات کے بارے میں قلم اُٹھایا ہے ،کیونکہ آپ ؓ کے ذکر مبارک کے بغیر تاریخ کا باب نامکمل ہے- یہاں اختصار کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے آپ ؓ کی سیرت مبارک میں سے دورِ خلافت کے بارے میں کچھ معروضات لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں :

مدینہ کے قریب ربذہ کے مقام پر دس میل لمبی اور دس میل چوڑی چراگاہ قائم کی، مدینہ سے 20 میل دور مقام نقیع پر، اسی طرح مقام ضربہ پر چھ چھ میل لمبی چوڑی چراہ گاہیں اور چشمے بنوائے-اس وقت فوجی سواریاں اونٹ اور گھوڑے ہوا کرتے تھے اس لیے فوجی سواریوں کیلئے چراہ گاہیں بنائیں- آپؓ کے زمانہ خلافت میں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ضربہ کی چراہ گاہ میں 40 ہزار اونٹ پرورش پاتے تھے-اسلامی بحری بیڑے کی بنیاد حضرت معاویہ ؓ کے اصرار پر سیدنا عثمان غنی ؓ نے رکھی-ملکی نظم و نسق کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کیا، رائے عامہ کا تہہ دل سے احترام فرمایا کرتے تھے ،اداروں کو خود مختار بنایا اور محکموں کو الگ الگ تقسیم فرمایا : سول، فوجی، عدالتی، مالی اور مذہبی محکمے جدا جدا تھے- حضرت عثمان ؓ لوگوں کی بے جا تنقید اور عیب گوئی کی پروا کئے بغیر روزانہ لوگوں میں مال، عطیات اور کھانے پینے کی اشیاءتقسیم فرماتے- یہاں تک کہ گھی اور شہد بھی تقسیم کیا جاتا- اس کے علاوہ امن وخوشحالی میں  عوام سے قرب و ربط، مظلوم کی نصرت و حمایت، فوجی چھاونیوں اور اسلامی مکاتب و تعلیم گاہوں کا جال، تعمیر مساجد اور مسجد نبوی (ﷺ) کی توسیع، تعلیم القرآن کو عام کرنا ، خون وخرابہ سے دارالخلافت کو بچائے رکھنا وغیرہ- سیدنا عثمان ؓ کے دور ِ خلافت میں بعض وہ ممالک جو سیدنا عمرؓ کے زمانہ خلافت میں فتح ہو چکے تھے وہاں بغاوت پر قابو پاکر ان کو دوبارہ فتح کیا گیا- اس سے بڑھ کر آذربائیجان، آرمینیہ ، اسکندریہ کا طبری اور البدایہ والنہایہ میں تفصیلاً ذکر ملتا ہے- بلاد روم اور رومی قلعے، بلاد مغرب، طرابلس، انطاکیہ، طرطوس،شمشاط، ملطیہ، افریقہ، سوڈان، ماوراء النہر ، ایشائے کوچک، ایران، ترکستان، اندلس، اصطخر، قنسرین، قبرص، فارس، سجستان، خراسان،  مکران، طبرستان، قہسستان، ابر شہر، طوس، بیورو، حمران، سرخس، بیہق، مرو، طالقان، مروروذ، فاریاب، طخارستان، جوزجان، بلخ، ہرات، باذغیس،مروین وغیرہ کے ہر علاقے کی تفصیل تاریخ کی کتب میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے-گویا براعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ کے بڑے بڑے ممالک فتح کیے گئے- فارس و روم کی سیاسی قوت کا استیصال کر کے روئے زمین کا بیشتر حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگیں لایا گیا-سیدنا عثمان ؓ نے سرحدوں پر موجود اسلامی افواج کو یہ ہدایات بھیجیں کہ تم لوگ مسلمانوں کی حمایت اور ان کی طرف سے دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے ہو-تمہارے لیے حضرت عمر ؓ نے جو قوانین مقرر فرمائے تھے وہ ہماری مشاورت سے بنائے تھے- اس لیے مجھ تک یہ خبر نہیں پہنچنی چاہیے کہ تم نے ان قوانین میں رد و بدل سے کام لیا ہے اور اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئیں گے- اب تم خود فیصلہ کرو کہ تم نے کیسے بن کے رہنا ہے؟اور جو ذمہ داری مجھ پر ہے مَیں بھی اس کی ادائیگی کی پوری کوشش کر رہا ہوں -

حضرت عثمان غنی ؓ  کے انفرادی خصائل :

حضرت ابن ثورالفہمی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان غنی ؓ کے پاس اس وقت گیا جب آپ محصور تھے، آپؓ نے مجھ سے فرمایا کہ میری دس خصلتیں اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ ہیں:

  1. میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں-
  2. سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے اپنی دو صاحبزادیوں کو میرے عقد میں دیا-
  3. میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا-
  4. میں کبھی لہو و لعب میں مشغول نہیں ہوا-
  5. میں نے کبھی کسی برائی اور بدی کی تمنا نہیں کی-
  6. رسول خدا (ﷺ)سے بیعت کرنے کے بعد میں نے کبھی اپنا سیدھا ہاتھ اپنی شرمگاہ کو نہیں لگایا-
  7. اسلام لانے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اللہ کے لئے ایک غلام آزاد کیا، اگر اس وقت ممکن نہ ہوا تو بعد میں آزاد کیا-
  8. زمانہ جاہلیت یا عہد اسلام میں کبھی زنا کا مرتکب نہیں ہوا-
  9. عہد جاہلیت اور زمانہ اسلام میں کبھی چوری نہیں کی-

10.  رسول خدا (ﷺ) کے زمانہ کے مطابق میں نے قرآن مجید کو جمع کیا- [31]

بغضِ عثمان ؓ  کا نتیجہ نمازِ جنازہ سے محرومی:

بغضِ کسی مسلمان سے بھی ہو اس کی مذمّت کی گئی ہے لیکن یہی بغص اگر خدانخواستہ اللہ اور اس کے محبوب مکرم (ﷺ)یا اللہ عزوجل کے کسی مقرب ولی سے ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ دونوں جہانوں کی ناکامی اورایمان کی محرومی کی صورت میں نکلتاہے- جیساکہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے :

’’سیدی رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس میں ایک جنازہ لایا گیا کہ آپ(ﷺ) اس پر نماز پڑھیں مگر آپ (ﷺ) نے اس پر نماز نہیں پڑھی عرض کیا گیا یا رسول اﷲ (ﷺ)! ہم نے آپ (ﷺ)کو کسی کی نمازِ جنازہ چھوڑتے نہیں دیکھا تو آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ” یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا تو اﷲ نے بھی اس سے بغض رکھا ہے‘‘- [32]

نوٹ:اس روایت میں اُن لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو اللہ عزوجل کے مقربین سے بغض کو نہ صرف ہوا دیتے ہیں بلکہ اسے تبلیغِ دین سمجھتے ہوئے دن رات ایک کردیتے ہیں -

سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ  کا کشف:

حضرت عثمان ذو النورین ؓ کے آزاد کردہ غلام محجنؓ کہتے ہیں :

’’ایک دن میں آپ ؓ کے ساتھ آپ ؓ کی زمین پر گیا، جہاں ایک عورت نے جو کسی تکلیف کا شکار تھی، آپ ؓ کے پاس آکر عرض کیا: اے امیر المؤمنین!مجھ سے زنا کی غلطی ہوگئی ، اس پر آپ ؓ نے مجھ کو حکم فرمایا:اے محجن! اس عورت کو نکال دو، چنانچہ میں نے اس کو بھگادیا ، تھوڑی دیر بعد اس عورت نے آکر پھر کہا کہ میں نے تو زنا کیا ہے ؛ پھرآپ ؓ نے فرمایا :کہ اے محجن !اسے باہر نکال دو، میں نے دور بھگادیا اور تیسری مرتبہ پھر اس عورت نے کہا -(اے خلیفۂ وقت!)میں نے بلا شک و شبہ زنا کیا ہے (اور میرے تین مرتبہ کے اقرار پر حد زنا جاری فرمائی جائے)-پس حضرت عثمان غنی ؓ نے ارشاد فرمایا: تجھ پہ افسو س اے محجن !میں اس عورت کو مصیبت کا شکار دیکھ رہا ہوں اور مصیبت و تکلیف ہمیشہ شرو فساد کا سبب ہوتی ہے- تم جاؤ اور اس کو اپنے ساتھ لے جاکر اس کو پیٹ بھر روٹی اور تن بھر کپڑا دو، پس میں اس کو اپنے ساتھ لے گیا اور اس کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو آپ ؓ نے مجھ کو حکم فرمایا-تھوڑے دنوں بعد جب اس کے ہوش و حواس ٹھکانے لگے اور وہ مطمئن ہوگئی تب حضرت عثما ن غنی نے فرمایا کہ اچھا اب کھجور، آٹا اور کشمش سے ایک گدھا بھر کر کل اس کو جنگل کے باشندوں کے پاس لے جاؤ اور ان بادیہ نشینوں سے کہو کہ اس عورت کو اس کے کنبہ والوں اور اہل و عیال کے پاس پہنچادیں؛ چنانچہ میں کھجور، کشمش اور آٹے سے بھرے ہوئے گدھا لے کر اس کے ساتھ روانہ ہوا ، میں نے راستہ چلتے چلتے کہا کہ کیا اب بھی تم اس کا اقرار کرتی ہو، جس کا تم نے امیر المؤمنین ؓ کے سامنے اقرار کیا تھا ؟ وہ کہنے لگی نہیں ہر گز نہیں ؛ کیونکہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ تو صرف مصیبتوں اور تکلیفوں کے پہاڑ پھٹ پڑنے سے کہا تھا ؛ تاکہ حد لگادی جائے اور مصیبتوں سے نجات پاجاؤں‘‘-[33]

حضرت عثمان ذوالنورین ؓ  کی کرامت:

ایک شخص کا بیان ہے کہ راستے میں میری نظر عورت پر پڑی پھر حضرت عثمان غنیؓ کی خدمتِ اقدس میں حاضرہو اتو آپ ؓ نے فرمایا:

’’کیا دیکھ رہوں کہ تم میرے پاس آتے ہو اورتم پر (نظرِ بد کی وجہ سے)زناکے آثار ہیں؟(اس شخص نے کہا کہ) میں نے عرض کی: کیا رسول اللہ (ﷺ) کے بعد وحی کا نزول ہوتاہے(کیونکہ اس امر پر میرے علاوہ بظاہر کوئی مطلع نہیں تھا تو حضرت عثمان غنی ؓ نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ فراست صادقہ ہے‘‘-[34]

 اسی طرح حضرت ابوذرؓ کی حدیث پاک میں ہے کہ :

’’رسول اللہ (ﷺ) نے 7 کنکریاں اٹھائیں اور ان کنکریوں نے آپ (ﷺ) کے دستِ اقدس میں تسبیح بیان کی یہاں تک کہ میں نے ان کی آواز سنی -پھر آپ (ﷺ) نے ان کنکریوں کو حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ میں رکھا تو انہوں نے تسبیح کی، پھر آپ (ﷺ) نے حضرت عمرفاروق ؓ کے ہاتھ میں رکھا تو انہوں نے تسبیح کی- پھر آپ (ﷺ) نے حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ میں رکھا تو انہوں نے تسبیح کی‘‘-[35]

امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ؓ  کا زہد وتقوٰی:

حضرت ابن سیرین ؓ سے روایت  ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی ؓ کی زوجہ محترمہ فرماتی ہیں:

”یقیناً حضرت عثمان غنی ؓ رات کو زندہ رکھنے والے تھے (اور )ایک رکعت میں مکمل قرآن کریم تلاوت فرمایا کرتے تھے “- [36]

’’المعجم الكبير‘‘میں یہی روایت ان الفاظ مبارک کے ساتھ موجود ہے :

’’فَإِنَّهٗ كَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ كُلَّهٗ فِيْ رَكْعَةٍ يَجْمَعُ فِيْهَا الْقُرْآنَ‘‘

’’پس بے شک ( حضرت عثمان غنیؓ رات کو زندہ رکھنے والے تھے (اور) ہر رکعت میں پورا قرآن مجید تلاوت فرمایا کرتے تھے ‘‘-[37]

شانِ عثمان ذولنورین ؓ  تعلیمات حضرت سلطان باھوؓ  کی روشنی میں:

جس خوش قسمت کواللہ پاک اپنے قرب ووصال سے نوازتا ہے تویہ ہوہی نہیں سکتاکہ ا س کے دل میں انبیاء و رسلؑ،اہل ِ بیت وصحابہ کرامؓ اور اللہ عزوجل کے برگزیدہ بندوں کا ادب و احترام نہ ہو-ذیل میں سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ کی تعلیمات مبارکہ سے چنداقتباسات لکھنے کی سعی سعید کرتے ہیں جن میں دیگر اولو العزم ہستیوں کے ساتھ ’’ذوالنورین سیدنا عثمان ابن عفان ؓ ‘‘کا ذکرخیرملتاہے :

1-صدق صدیق و عدل عمر پُر حیا عثمان بود
گوئی فقرش از محمدؐ شاہِ مرداں می ربود

’’(حضرت) صدیق ؓنے صدق،(حضرت) عمر نے عدل، (حضرت)عثمانؓ نے حیا اور شاہِ مرداں حضرت مولیٰ علیؓ نے حضور نبی کریم( ﷺ) سے فقر کی دولت پائی‘‘-

2-”جب کوئی طالب مجلس ِمحمدی( ﷺ) میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے چار نظریں اُس پر تاثیر کرتی ہیں-حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی نظر سے اُس میں صدق پیدا ہوتا ہے اور اُس کے وجود سے جھوٹ اور منافقت نکل جاتی ہے- حضرت عمر ؓ کی نظر سے اُس کے وجود میں عدل اور محاسبۂ نفس کی قوت پیدا ہوتی ہے اور اُس کے وجود سے خطرات و خواہشات ِ نفسانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے- حضرت عثمان ؓ کی نظر سے اُس کے وجود میں ادب و حیا پید اہوتی ہے اور بے ادبی و بے حیائی ختم ہو جاتی ہے- حضرت علی ؓ کی نظر سے اُس کے وجود میں علم و ہدایت ِ فقر پیدا ہوتی ہے اور جہالت و حُبِّ دنیا ختم ہو جاتی ہے- اِس کے بعد وہ لائق ِ تلقین ہو جاتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) اُسے دست بیعت فرما کر مراتب ِ مرشدی پر پہنچاتے ہیں‘‘-[38]

صحابہ کرامؓ کے بارے میں اکابرین اُمت کا عقیدہ:

جس طرح اللہ عزوجل نے انبیاء کرامؑ  کے مقام و مرتبے میں بھی درجہ بندی فرمائی ہے، اُن میں بھی اولوالعزم رُسل بھی ہیں اور پھر سب سے اعلیٰ ہمارے سردار، تاجدارِ کائنات، سرورِ انبیاء، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) کی ذاتِ بابرکات ہے اس طرح اکابرینِ اُمت نے صحابہ کرامؓ کے مقام و مرتبے کے بارے میں بھی اپنی آراء کا اظہار کیا ہے اور اس (صحابہ کرامؓ کے مقام ومرتبے )کے بارے میں اہل سنت کے عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے صاحب روح البیان علامہ اسماعیل حقی بُرصویؒ لکھتے ہیں کہ:

’’اہل سُنت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سب سے اول چاروں خلفاء راشدین (بالترتیب سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان ذوالنورین، سیدنا علی المرتضی) پھر عشرہ مبشرہ، پھر اصحاب ِ بدر پھر اصحاب اُحد، حدیبیہ کے مقام پہ بیعت رضوان کرنے والے صحابہ کرامؓ  ہیں ‘‘- [39]

وصال مبارک:

’’حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا:

’’جس دن عثمان کی شہادت واقع ہو گی اس دن آسمان کے فرشتے اس پر درود بھیجیں گے میں نے عرض کی: یارسول اللہ (ﷺ)! یہ حضرت عثمان کیلیے خاص ہے یا تمام لوگوں کے لئے-آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا بلکہ خاص طور پر حضرت عثمان کے لیے ہے ‘‘-[40]

آپ ؓ اللہ تعالیٰ کی وہ برگزیدہ ہستی ہیں ،جن کی شہادت کی خبر حضور رسالت مآب (ﷺ) نے اپنی حیات مبارک میں اپنی زبان گوہرفشاں سے فرمادی تھی ،جس کا علم نہ صرف سیدناعثمان ذوالنورینؓ کوتھا بلکہ اکثر صحابہ کرام ؓ کو بھی یقینی علم تھا جیساکہ روایت میں ہے:

’’حضرت کعب بن عُجْرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کے قریب اور شدید ہونے کا بیان کیا- راوی کہتے ہیں پھر وہاں سے ایک آدمی گزرا جس نے چادر میں اپنے سر اور چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا (اس کو دیکھ کر) آپ (ﷺ) نےارشاد فرمایا: اس دن یہ شخص حق پر ہوگا پس میں تیزی سے (اس کی طرف) گیا اور میں نے اس کو اس کی کلائی کے درمیان سے پکڑ لیا پس میں نے عرض کیا یہ ہے وہ شخص یا رسول اﷲ (ﷺ)! (جس کے بارے میں آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ زمانۂ فتنہ میں یہ حق پر ہو گا) آپ(ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ہاں! پس وہ عثمان بن عفان ؓ تھے‘‘-[41]

حضرت عثمان بن عفانؓ کے خادم حضرت مسلم (ابو سعید) سے روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے بیان فرمایاکہ:

’’میں نے گزشتہ رات سيدی رسول اللہ (ﷺ) کی خواب میں زیارت کی آپ (ﷺ) کے ساتھ ابو بکر و عمرؓ بھی ہیں، ان سب نے مجھے کہا ہے (اے عثمان) صبر کرو پس بے شک تم کل افطاری ہمارے پاس کرو گے پھر آپ ؓ نے مصحف منگوایا اور اس کو اپنے سامنے کھول کر تلاوت فرمانے لگے اوراسی اثنا میں آپ ؓ کو شہید کر دیا گیا اور وہ مصحف آپؓ کے سامنے ہی تھا‘‘-[42]

مؤرخین اور محدثین کی کتب میں یہ لکھا ہے کہ جب حضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ ؓ نے ارشاد فرمایا:

’’اے میری قوم مجھے قتل نہ کرو پس بے شک میں والی (امیر المومنین) اور (تمہارا)مسلمان بھائی ہوں-پس خدا کی قسم جتنی میری طاقت ہوتی ہےاس کے مطابق میں صرف تمہاری اصلاح کا ارادہ کرتا ہوں چاہے اس میں مَیں ٹھیک ہوں یا میں خطا کار ہوں اور اگر تم مجھے شہید کرو گے تو کبھی بھی اکٹھے ہو کر نماز نہ پڑھ سکوگے اورنہ کبھی اکٹھے ہوکر جہاد کرسکو گے اور نہ تمہارا مالِ غنیمت تمہارے درمیان تقسیم کیا جائے گا‘‘- [43]

دیگر روایات میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں :

’’وَأَمَّا أَنْ تَقْتُلُوْنِي فَوَاللهِ لَئِنْ قَتَلْتُمُوْنِي لَا تُحَابُّوْنَ بَعْدِيْ أَبَدًا، وَلَا تُقَاتِلُوْنَ بَعْدِيْ عَدُوًّا جَمِيْعًا أَبَدًا‘‘

’’اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تم مجھے شہید کرو گے تو خدا کی قسم !اگر تم مجھے شہید کرو تو میرے بعد کبھی بھی بہم ایک دوسرے سے محبت نہ کر سکوگے اور نہ میرے بعد تم اکٹھے ہوکر کبھی دشمن سے جنگ کرسکو گے‘‘-[44]

 پھر دنیا نے دیکھا کہ سیدناعثمان غنی ؓ کی شہادت کےبعد کیا ہوا کہ تمام مسلمان کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پہ جمع نہ ہوسکے -

یہاں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ سیدنا عثمان غنی ؓ خلافت سے دست بردار ہوجاتے،دراصل یہ بھی ایک فرمان مصطفٰے (ﷺ) کی تکمیل تھی جیساکہ روایت ہے میں ہے:

’’اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: اے عثمان! اگر اﷲ تعالیٰ تمہیں کسی دن امرِ خلافت پر فائز کرے اور منافقین یہ ارادہ کریں کہ وہ تمہاری قمیصِ خلافت جو تمہیں اﷲ تعالیٰ نے پہنائی ہے اس کو تم اتار دو تو اسے ہرگز نہ اتارنا آپ (ﷺ) نے ایسا تین مرتبہ ارشاد فرمایا‘‘-

ابن عساکر کی ایک روایت کے مطابق:

’’18ذوالحج ،35 ھ بروز جمعۃ المبارک آپ ؓ کو 82 سال کی عمر میں شہید کیا گیا-آپ ؓ کی نمازِ جنازہ حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے ادا فرمائی اور آپؓ کی حُش (بنی غرقد کے قریب ایک باغ)کے مقام پہ تدفین کی گئی ‘‘-[45]

خلاصۂ کلام:

حضرت عثمان غنیؓ کی عظمتوں کا کیا کہنا کیونکہ تاریخِ عالم میں ہمیں شاذ ہی کوئی ایسی مثال ملے گی کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ’’کابل‘‘ سے لے کر ’’مراکش‘‘ تک کے تمام علاقوں میں زمین کے طول وعرض میں حکومت دے اور اس کی حکمرانی کے خلاف چند مٹھی بھر لوگ بغاوت کر دیں اور وہ ان باغیوں کی سرکوبی سے صرف اس لیے روک دے کہ کہیں حرمتِ مدینہ پامال نہ ہوجائے اور اس کی ذات کے لیے کوئی جان تلف نہ ہو جائے- جبکہ صورت حال یہ ہو کہ جانثار رفقا، ارکان دولت اور تمام افواج اس کے حامی ہوں اور باغیوں کی سرکوبی کا مطالبہ بھی کر رہے ہوں- آپؓ نے نہ مکہ کی حرمتوں کو خطرے میں پڑنے دیا، نہ مدینۃ الرسول(ﷺ) کو میدان جنگ بننے دیا، نہ آپؓ نے اپنی جان کے تحفظ کے لیے دیارِ رسول (ﷺ)چھوڑا اور نہ اپنے جانثار رفقا کی زندگی کو خطرے میں ڈالا بلکہ  ظلم وستم کے تمام وار اپنی جان اقدس پر جھیلے-

حضرت عثمان غنی ؓ کے طرز حکومت میں عصر حاضر کیلئے بے شمار ر اسباق پنہاں ہیں - آپ ؓ سن 24ھ کی ابتداء میں مجلس شوری کے انتخاب سے تیسرے خلیفہ راشد اور امیر المومنین منتخب ہوئے- آپؓ   کارِ خلافت شیخین کی سنت کے مطابق انجام دیتے تھے-آپ ؓ اپنے نظامِ حکومت میں اسلامی تشریحات کو فوقیت دیتے اور کوشاں رہتے کہ ہر شعبہ حیات میں ان ہی تعلیمات کی پیروی رہے- ان قوانین اسلام کا اولین اطلاق حاکم وقت پر ہوتا- پھر اس کے نامزد والیان، عمال اور قضاۃ (گورنروں، وزرا اور ججوں)  پر ہوتا تاکہ حکام کی سیرت اور قوانین کی پاسداری کا عمل رعایا کے لیے مشعلِ راہ بنے اور وہ قوانین کی پاسداری کریں-آپ ؓ نے سابقہ اسلامی حکومتوں کی اتباع میں اسلامی دنیا کی وحدت کو برقرار رکھا- نظامِ عدل اور نظامِ اقتصاد میں برابری کو ملحوظ رکھا گیا-خلافت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد آپ ؓ نے عصرِ فاروقی کی تمام پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا- آپ ؓ کا یہ عمل اس بات کا شعور دلاتا ہے کہ حکومتیں قومی نوعیت کے قوانین کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر بدلتی نہ پھریں بلکہ قومی مفاد میں وجود میں آئی طویل مدتی پالیسیز کو جاری رکھا جانا چاہیے- عصر حاضر میں بھی اسلامی فلاحی ریاست کے خواہش مند کے لیے لازم ہے کہ وہ ریاستی اصولوں، ترجیحات کے تعین اور عدل و انصاف کی فراہمی میں عہد عثمانی سے رہنمائی لے-

محترم قارئین! حضرت عثمان غنی ؓ اپنی تمام تر صفات میں امت کے لیے راہبر و راہنما ہیں-آپؓ کی زندگی کا جس جہت سے بھی مطالعہ کیا جائے، وہی جہت امت کے لیے بہترین نمونہ ہے- آپؓ کی ذات مقدسہ اپنے اندر بے شمار صفات اور خصائص سمیٹے ہوئے ہے جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا- آپؓ اپنی زندگی میں عزم و استقلال کا کوہِ گراں تھے- آپ ؓ نے اپنی جان تو قربان کردی لیکن رہتی دنیا کیلئے ایک سبق چھوڑگئے کہ آقا کریم(ﷺ) کی ذاتِ اقدس سے عہد وفا پہ حرف نہیں آنا چاہیے اور نہ ہی اصولوں پہ سمجھوتہ کرنا چاہیے-

 اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کریم (ﷺ) کے صدقے ہمیں خلفائے راشدینؓ سے محبت کرنے اور ان کی سیرت کو اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے-آمین!

٭٭٭


[1]ابن ماجة ،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، باب:فَضْلُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،ج:ا،ص:40-رقم الحدیث:109

[2]السیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكر،(المتوفى: 911هـ)،تاریخ الخلفاء، الطبعة الأولى: 1425ه ( الناشر: مكتبة نزار مصطفٰےالباز )،باب: الخليفة الثالث: عثمان بن عفان رضي الله عنه،ج:01،ص:118

[3]عسقلانیؒ ،أحمد بن علي بن حجرؒ، فتح الباري شرح صحيح البخاري،(بیروت: دار المعرفة ، 1379ھ)،بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيُّ،ج:07،ص:54

[4]الذهبي، محمد بن أحمد بن عثمانؒ،(المتوفى: 748هـ)، سير أعلام النبلاء،(دار الحديث،القاهرة،الطبعة: 1427ه)، سيرة ذي النورين عثمان رضي الله عنه،ج-2،ص،499

[5]بدر الدين العينى، محمود بن أحمد بن موسىؒ،(المتوفى: 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري،( دار إحياء التراث العربي – بيروت)، باب مناقب عثمان بن عفان أبي عمر والقرشي رضي الله تعالیٰ عنه،ج،16،ص:201

[6]الذهبي، محمد بن أحمد بن عثمانؒ،(المتوفى: 748هـ)، سير أعلام النبلاء،(دار الحديث،القاهرة،الطبعة: 1427ه)، باب:سيرة ذي النورين عثمان رضي الله عنه،ج-02،ص،449

[7]الذهبي، محمد بن أحمد بن عثمانؒ،(المتوفى: 748هـ)، سير أعلام النبلاء،(دار الحديث،القاهرة،الطبعة: 1427ه)، باب:سيرة ذي النورين عثمان رضي الله عنه،ج-02،ص،449

[8]ابن عساكر، علي بن الحسنؒ، (المتوفى: 571هـ)، تاريخ دمشق،( دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع،عام النشر: 1415 هـ)،باب، عثمان بن عفان بن أبي العاص---،ج،9،ص،116

[9]بن عساكر، علي بن الحسنؒ، (المتوفى: 571هـ)، تاريخ دمشق،( دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع،عام النشر: 1415 هـ)،باب، عثمان بن عفان بن أبي العاص---،ج:39

[10]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)،بَابُ مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ القُرَشِيِّ العَدَوِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ-،ج 05،ص:11،رقم الحدیث:3686

[11]حاکم،محمد بن عبداللہؒ، المستدرك على الصحيحين(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)، فَضَائِلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ذِي النُّورَيْنِ عُثْمَانِ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،ج:03،ص:105،رقم الحدیث: 4540

[12]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ه) ، بَابُ مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،ج5،ص:633- رقم الحدیث:3714

[13]حاکم،محمد بن عبداللہؒ، المستدرك على الصحيحين(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)، فَضَائِلُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ذِي النُّورَيْنِ عُثْمَانِ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،ج:03،ص:104،رقم الحدیث: 4536

[14]الطبرانی، سليمان بن أحمدؒ، المعجم الکبیر،( مكتبة ابن تيمية – القاهرة الطبعة: الثانية)،باب: أم كلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم توفيت في حياته،رقم الحدیث:1086،ج:22،ص:436

[15]بدر الدين العينى، محمود بن أحمد بن موسىؒ،(المتوفى: 855هـ)، عمدة القاري شرح صحيح البخاري،( دار إحياء التراث العربي – بيروت)، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ج: 16، ص: 201

[16]الطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الأوسط،(دارالقاھرۃ،دارالحرمین)،باب:مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ،رقم الحدیث:1764،ج:02،ص:12

[17]الطبرانی، سليمان بن أحمدؒ، المعجم الکبیر،( مكتبة ابن تيمية – القاهرة الطبعة: الثانية)،باب: سن عثمان ووفاته رضي الله عنه، رقم الحدیث:143،ج:01،ص:90

[18]عسقلانیؒ ،أحمد بن علي بن حجرؒ (المتوفى: 852هـ)، لسان الميزان،( الناشر: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات،بيروت،لبنان،الطبعة الثانية، 1390هـ)،ج:04،ص:279

[19]البخاری،محمدبن اسماعیل، الجامع الصحیح،ایڈیشن اولی،(دار:طوق النجاة-1422ھ)،بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو القُرَشِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ،ج 05،ص:15-

[20] الاتقان، ج:1، ص:130-

[21]صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن-

[22] تفسیرِ قرطبی:541

[23] فتح الباری، ج:9، ص:18

[24]ت ابن عساكر، علي بن الحسنؒ، (المتوفى: 571هـ)، تاريخ دمشق،( دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع،عام النشر: 1415 هـ)، باب:العباس بن عبد المطلب بن هاشم رضی اللہ تعالی عنہ،ج:26،ص:354-

[25]السیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكر،(المتوفى: 911هـ)،تاریخ الخلفاء، الطبعة الأولى: 1425ه ( الناشر: مكتبة نزار مصطفٰےالباز )،باب: الخليفة الثالث: عثمان بن عفان رضي الله عنه،ج:01،ص:122

[26]ایضاً

[27]ایضاً،ص:123

[28] السیاسۃ المالیۃ لعثمان، ص: 64

[29] فتوح البلدان، بلاذری، ص:223

[30] خلاصۃ الوفاء، ص: 124

[31]لسیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكر،(المتوفى: 911هـ)،تاریخ الخلفاء، الطبعة الأولى: 1425ه ( الناشر: مكتبة نزار مصطفٰےالباز )،باب: الخليفة الثالث: عثمان بن عفان رضي الله عنه،ج:01

[32]الترمذی ،محمد بن عيسى، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ه) ، بَابٌ فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،ج5،ص:624- رقم الحدیث:3709

[33]السیوطی، عبد الرحمن بن أبي بكرؒ،(المتوفى: 911هـ)، جامع الأحاديث،( ضبط نصوصه وخرج أحاديثه: فريق من الباحثين بإشراف د على جمعة (مفتي الديار المصرية)طبع على نفقة: د حسن عباس زكى)،مسند عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ج،29،ص:220-221-

[34]الرازي،محمد بن عمرؒ،مفاتيح الغيب،ایڈیشن:سوم( بيروت:دار إحياء التراث العربي، 1420هـ) ،ج:21،ص:434-

[35]االطبرانی، سليمان بن أحمد، المعجم الأوسط،(دارالقاھرۃ،دارالحرمین)،باب:مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ،رقم الحدیث:1086،ج:02،ص:59-

[36]ابن أبي شيبة،أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان،الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار (الناشر: مكتبة الرشد، الرياض) باب فِي الرَّجُلِ يَقْرِنُ السُّوَرَ فِي الرَّكْعَةِ مَنْ رَخَّصَ فِيهِ،ج:01،ص:323.رقم الحدیث: 3690-

[37]محک الفقر(کلاں)

[38]کلیدالتوحید(کلاں)

[39]حقی، إسماعيل بن مصطفےٰؒ،(المتوفى: 1127هـ)،روح البیان، زیرِآیت،التوبہ:100،ج:03، ص:492

[40]الأصبهاني ،أحمد بن عبد الله بن أحمد(المتوفى: 430هـ)،فضائل الخلفاء الأربعة)،الناشر: دار البخاري للنشر والتوزيع، المدينة المنورة، الطبعة: الأولى، 1417 هـ ، 1997 م باب:فَضِيلَةٌ لِلْأَخِ الرَّضِيِّ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْہ،ج01،ص:182

[41]احمد بن محمد بن حنبلؒ (المتوفى: 241هـ) ، فضائل الصحابة رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین،(بیروت، مؤسسة الرسالة، الطبعة الأولى، 1403ھ)، فَضَائِلُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ،رقم الحدیث: 721،ج:01،ص:450

[42]احمد بن محمد بن حنبلؒ ، مسند الإمام أحمد بن حنبل ،(بیروت، مؤسسة الرسالة،1421ھ)، مُسْنَدُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ،رقم الحدیث: 426،ج:01،ص:545

[43]ابن سعد، محمد بن سعدؒ(المتوفی:230)، الطبقات الكبرى،( دار الكتب العلمية – بيروت،الطبعة: الأولى، 1410 هـ )باب:عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ج،03،ص:49

[44]ابن ماجة ،محمد بن يزيد،سنن ابن ماجہ،(الحلب: دار إحياء الكتب العربية) ، باب:فَضْلُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ،ج:ا،ص:41-رقم الحدیث:112

[45]ابن عساكر، علي بن الحسنؒ، (المتوفى: 571هـ)، تاريخ دمشق،( دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع،عام النشر: 1415 هـ)،باب، عثمان بن عفان بن أبي العاص---،ج،39،ص،10

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر