فضائل حضرت عثمان ؓاحادیث صحیحہ کی روشنی میں

فضائل حضرت عثمان ؓاحادیث صحیحہ کی روشنی میں

فضائل حضرت عثمان ؓاحادیث صحیحہ کی روشنی میں

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جولائی 2022

اللہ تعالیٰ نے آقا کریم (ﷺ) کو لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کیلئے اس کائنات میں مبعوث فرمایا-رسول کریم (ﷺ) نے اپنی رسالت کا فرض منصبی اداکرتے ہوئے دعوت ِالی الحق کا آغاز کیا اور لوگوں کو اپنے معبود ِحقیقی کی طرف بلایا- پس جو بھی خوش نصیب اور سعادت مند آپ کی دعوت اور پکار پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی صحبت و رفاقت میں آتے گئے وہ شرف صحابیت سے مشرف ہوتے گئے اور آپ کی نسبت اور صحبت کی وجہ سے دیگر مؤمنین سے مقامات اور مرتبہ میں ممتاز ہوتے گئے تاریخ ان خوش نصیبوں کو صحابہ کے نام سے یادکرتی ہے -

ان صحابہ کرامؓ نے آقاکریم (ﷺ)کی معیت میں دینِ حق کی خاطر جان و مال اور جائیدادو وطن کی قربانیاں پیش کیں اور سفر و حضرمیں دن رات آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے-یہی صحابہ ہیں کہ جو عشق و وفا،اخلاص و محبت، عدل و انصاف،اخوت و مساوات،صبروتحمل کی اس معراج کو پہنچےکہ اللہ نے انہیں ’’رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘ کے تمغے عطاکیے اور رسول اکرم(ﷺ)نے اس دنیا میں ہی انہیں جنت کی بشارت عطاکی-انہوں نے عشق ووفااوراخلاص و محبت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ انہیں آقا کریم (ﷺ) نے امامت و ہدایت کی سند عطاکی اور فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مثل ہیں جوان کی اقتدا کرے گاوہ ہدایت پاجائے گا -

ان صحابہ کرامؓ پر آپ(ﷺ) کے فیضان کا یہ اثر تھا کہ ہر ایک صحابی کسی نہ کسی وصف اور کمال میں منفرد ہوتاگیا-کوئی صداقت میں یکتا نظرآتا ہے تو کوئی عدالت کا علمبردار ہے، کوئی سخاوت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تو کوئی شجاعت میں بے مثال ہے - انہیں جانثار اور وفا شعار صحابہ میں سے سخاوت میں بے مثال، شرم و حیاء کے پیکر، دامادِ رسول (ﷺ) غنی اور ذوالنورین جیسے القابات سے نواز دیئے جانے والے جامع القرآن خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنیؓ کی ذات مبارکہ بھی ہے-جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے منفرداعزازات و انعامات سے نوازا ہے جو کسی اور کے حصے میں نہیں آئے - رسول اکرم (ﷺ)کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپؓ کے نکاح میں آنے کی وجہ سے ذوالنورین کے لقب سے نوازے گئے-

اسی شرف کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان بریلوی ادبی پیرائے میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا

عشق و وفا کے پیکر نے عشق و وفا کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی آج تک نظیر نہیں ملتی- یہی حضرت عثمان غنیؓ ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ (ﷺ)کے حکم پر کفر کے گڑھ میں اپنے آپ کو بطور ایلچی پیشں کردیا اور ان کی شہادت کی افواہ پھیلنےپر آپ (ﷺ) نے ان کی خاطر اپنے تمام صحابہ کرام سے بیعت لی اور اپنے ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قراردیا-یہی حضرت عثمان غنیؓ ہیں جو کہ جنگ بدر کے موقع پر اپنی زوجہ محترمہ جو کہ بنتِ رسول تھیں ان کی عیادت کی خاطر جب پیچھے رہ گئے تو پھر بھی مال غنیمت میں سے حصہ اور جہاد کے اجرکے مستحق قرارپائے -یہی عثمان غنی ہیں کہ جن سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں اوریہی حضرت عثمان غنیؓ کی ذات ہے کہ شہادت کے وقت قرآن سامنے ہوتا ہے اور خون کے قطرے قرآن پاک پر گرتے ہیں-

آئیے ایسے وفاشعار منبع جو دوسخا،پیکر عشق و محبت کے کچھ فضائل احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں-

حضرت ابوموسیٰ اشعریؒ بیان کرتے ہیں کہ:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ (ﷺ) کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہوا تھا پس جب حضرت عثمان آئے تو آپ نے اسے ڈھانپ لیا-[1]

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ:

’’حضور نبی کریم (ﷺ)میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے-اس عالم میں کہ آپ کی دونوں پنڈلیاں مبارک  کچھ ظاہر ہورہی تھیں-حضرت ابوبکرؓ نے اجازت طلب کی تو آپ (ﷺ)نے اجازت دے دی اور آپ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے پھر حضرت عمرؓ نے اجازت طلب کی تو آپ (ﷺ)نے اجازت دےدی اور آپ اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے پھر حضرت عثمانؓ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی کریم (ﷺ) اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست فرما لیے -محمد راوی کہتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے حضرت عثمان آکر باتیں کرتے رہے جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ  ؓنے عرض کیایارسول اللہ(ﷺ) حضرت ابوبکر آئے تو آپ (ﷺ)نے ان کافکر واہتمام نہیں کیا -حضرت عمرؓ آئے تب بھی آپ (ﷺ)نے ان کا  فکر و اہتمام نہیں کیا،اور جب حضرت عثمانؓ آئے تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتےہیں ‘‘-[2]

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ:

’’حضورنبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے ‘‘-[3]

حضرت ابوموسیٰ اشعریؒ بیان کرتے ہیں:

ایک دن حضور نبی اکرم (ﷺ)مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگاکر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک لکڑی جو آپ (ﷺ) کے پاس تھی اس کو پانی اور مٹی میں پھیر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے دروازہ کھولنے کیلیے کہا آپ (ﷺ) نے فرمایا دروازہ کھول کر اسے جنت کی بشارت دے دو،حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا آنے والے حضرت ابوبکرؓتھے میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دےدی ،پھر ایک شخص نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا آپ (ﷺ)نے فرمایا دروازہ کھول کراس کو بھی جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں میں گیا تو وہ حضرت عمرؓتھے-میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دےدی ،پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کےلیے کہا حضورنبی کریم (ﷺ)بیٹھ گئے اور فرمایا دروازہ کھول دو اور اس کو مصائب وآلام کےساتھ جنت کی بشارت دے دو، تووہ حضرت عثمان بن عفان تھے- میں نے دروازہ کھولا اور جنت کی بشارت دے دی اور جو کچھ حضور نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا تھا وہ کہہ دیا، حضرت عثمانؓ نے کہا:اے اللہ صبرعطاءفرما،یا اللہ توہی مستعان ہے -[4]

حضرت سہل بن سعد ساعدیؒ سے روایت ہے:

’’ایک آدمی نےحضوراکرم (ﷺ) سے پوچھا: کیا جنت میں بجلی ہوگی آپ (ﷺ)نے فرمایا ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس کی وجہ سے چمک اٹھے گی ‘‘-[5]

حضرت عبداللہ بن سہرؒ بیان کرتے ہیں کہ بیشک ایک آدمی حضرت سعید بن زید کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ:

’’میں عثمان سے بہت زیادہ بغض رکھتا ہوں اتنا بغض میں نے کسی سے کبھی بھی نہیں رکھا- تو آپ نے فرمایا تو نے بہت ہی بری بات کہی ہے، تو نے ایک ایسے آدمی سے بغض رکھاجو کہ اہل جنت میں سے ہے ‘‘-[6]

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ:

’’حضورنبی کریم(ﷺ)کی خدمت میں ایک جنازہ لایاگیا کہ آپ اس پر نماز پڑھیں مگر آپ نے اس پر نماز نہ پڑھی عرض کیاگیا ،یا رسول اللہ(ﷺ)ہم نے آپ کو کسی کی نمازِجنازہ چھوڑتے نہیں دیکھا آپ (ﷺ)نے فرمایا یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا تو اللہ نے بھی اس سے بغض رکھا ہے‘‘ -[7]

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں:

’’بے شک حضور نبی کریم (ﷺ) بدر والے دن کھڑے ہوئے اور فرمایا: بے شک عثمان اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے کام میں مصروف ہےاور بے شک میں اس کی بیعت کرتا ہوں اور حضور نبی کریم (ﷺ)نے مال غنیمت میں سے بھی آپ کا حصہ مقررکیا اور آپ کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا اس کیلئے حصہ مقررنہیں کیا ‘‘-[8]

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ:

’’جب حضورنبی اکرم(ﷺ)نے بیعت رضوان کا حکم دیا تو اس وقت حضرت عثمان بن عفانؓ سفیربن کر مکہ والوں کے پاس گئےتھے- راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے آقا کریم (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی پس حضور پاک (ﷺ) نے فرمایا: عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام میں مصروف ہے یہ فرماکر آپ(ﷺ) نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا پس حضرت عثمان کے لئے حضور نبی کریم(ﷺ)کا دست مبارک لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے (کئی گنا) اچھاتھا ‘‘-[9]

حضرت عبدالرحمٰن بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ:

’’حضرت عثمان بن عفانؓ ایک ہزار دینار لے کر آقا کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضرہوئے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب جیش عسرہ کی روانگی کا سامان ہو رہا تھا-آپ نے اس رقم کو آقا کریم (ﷺ) کی گودمیں ڈال دیا -حضرت عبد الرحمٰن فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت حضورنبی اکرم(ﷺ)کو دیکھا کہ ان دیناروں کو اپنی گود میں دست مبارک سے الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے، عثمان آج کے بعد جو کچھ بھی کرے گا اسے کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا،آپ(ﷺ) نےیہ جملہ دو بار ارشاد فرمایا -[10]

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ:

’’حضور نبی کریم (ﷺ) کوہِ احد پر تشریف لے گئے آپ (ﷺ)کےساتھ حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ تھے، تو اسے وجد آگیا (وہ خوشی سے جھومنے لگا) پس آپ (ﷺ)نے اسے قدم مبارک سے ٹھوکر بھی لگائی اور فرمایا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوااور کوئی نہیں ہے ‘‘-[11]

حضرت کعب بن عجرہؓ بیان کرتے ہیں کہ:

’’حضور نبی اکرم (ﷺ)نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کے قریب اور شدید ہونے کو بیان کیا راوی کہتےہیں ،پھر وہاں سے ایک آدمی گزرا جس نے چادر میں اپنے سراور چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا (اس کو دیکھ کر)آپ (ﷺ) نے فرمایا: اس دن یہ شخص حق پر ہوگا پس میں تیزی سے (اس کی طرف ) گیااور میں نے اس کو اس کی کلائی کے درمیان سے پکڑ لیا پس میں نے عرض کیا یہ ہے وہ شخص یا رسول اللہ! (جس کے بارے میں آپ(ﷺ)نے فرمایا کہ زمانہ فتنہ میں یہ حق پر ہوگا) آپ (ﷺ)نے فرمایا :ہاں!پس وہ عثمان بن عفان ؓتھے‘‘-[12]

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ:

’’حضرت عثمانؓ جنگ ِبدر میں حاضر نہ ہوئے تھے (اس کی وجہ یہ تھی کہ ) آپؓ کے عقد میں حضور نبی اکرم (ﷺ)کی صاحبزادی تھی اور وہ اس وقت بیمار تھیں، آقا کریم (ﷺ)نے ارشاد فرمایا: اے عثمان بے شک تیرے لیے ہر ا س آدمی کے برابر اجر اور اس کے برابر (مالِ غنیمت کا ) حصہ ہے جو جنگ بدر میں شریک ہوا ہے‘‘-[13]

٭٭٭


[1](صحيح البخاری، جز: 5، ص: 13)

[2](صحيح مسلم، جز: 4، ص: 1866)

[3](حليۃ الأولياء ،جز: 1، ص: 56 وکتاب السنہ جز 2 ص 587)

[4](صحيح مسلم، جز: 4، ص: 1867)

[5](المستدرك على الصحيحين، جز: 3، ص: 105)

[6]( فضائل الصحابة، جز: 2، ص: 570)

[7](سنن الترمذی، جز: 5، ص: 630)

[8](سنن أبی داود، جز: 3، ص:74)

[9](سنن الترمذی، جز :5، ص: 626)

[10](سنن الترمذی، جز: 5، ص: 626)

[11](صحيح البخاری، جز: 5، ص: 15)

[12](مسند الإمام أحمد بن حنبل، جز: 30، ص: 44)

[13](صحيح البخاری، جز: 4، ص: 88)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر