سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کو ادبیات فارسی میں خراج تحسین

سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کو ادبیات فارسی میں خراج تحسین

سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کو ادبیات فارسی میں خراج تحسین

مصنف: محمد عظیم جولائی 2022

بلا شک و شبہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے(ﷺ) کی مثل کائنات ِخدا وندی میں نہ کوئی ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ہو گا- اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذات بابرکات کو ایسا کامل و مکمل بنایا ہے کہ آپ (ﷺ) کی صحبت و تربیت میں رہنے والے زمانے کے پیشوا و امام بن گئے- حضور نبی کریم (ﷺ) کے بعد اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں خلفاء راشدین، صحابہ کرام، تابعین اور سلف صالحین نے لازوال کردار ادا کیا اور اپنی سیرت و عمل سے انسانیت کیلئے رہنمائی کے ان گنت نقش چھوڑے ہیں - بالخصوص خلفاء راشدین جو ابتدائی ایام میں حلقہ اسلام میں داخل ہوئے دین اسلام کی حفاظت و تبلیغ و اشاعت کے لئے کسی بھی قسم کی جانی و مالی آل و اولاد کی قربانی سے دریغ نہ فرمایا تمام خلفاء راشدین کا اپنا اپنا مقام و مرتبہ ہے جو منفرد ہے- خلفائے راشدین کی بدولت نورِ اسلام جو مکہ و مدینہ سے روشن ہوا ، دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے طول عرض میں پھیل گیا جس نے تاریکی و غفلت میں ڈوبے قلوب واذہان کو محبت ورحمتِ مصطفوی(ﷺ) سے منور و معطر فرمادیا -الغرض! خلفائے راشدین کا عہد اسلامی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے-

مسلمان مفکرین، محدثین، محقیقین، علماء و صوفیاء کرام اور مختلف زبانوں کے شعراء نے اپنے اپنے انداز میں جہاں حضور رسالت ِ مآب (ﷺ) کی بارگاہ ِ قدسیہ میں محبت و عقیدت کا نذرانہ پیش کیا، اہلِ بیتِ اطہار (رضی اللہ عنھم) کی مدح سرائی کی، وہیں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی سیرت و مناقب کو بھی بطریقِ احسن بیان کیا ہے- اس ضمن میں فارسی زبان و ادبیات کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ بزرگان دین نے فارسی زبان میں بڑی نایاب تفاسیر، فقہی، ادبی، تاریخی، علمی اور عرفانی کتب مرتب کیں- دنیائے اسلام میں فارسی زبان کو اسلامی افکار کا بہترین مرکز تسلیم کیا جا سکتاہے اس کی تمدنی روایات صدیوں پرانی ہیں- فارسی/ دری ادب روحانی تصورات اور تعلیمات کے سبب، اخلاقی اور انسانی اقدار کے تحفظ و فروغ کا ذریعہ ہے-

حضرت عثمان غنیؓ کے اوصاف ِ حمیدہ اور درخشاں عہد خلافت :

ابو عبداللہ عثمان بن عفان اموی قریشیؓ (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء – 656ء) آپ بے شمار اوصافِ حمیدہ کے مالک تھے جن میں سے شرم وحیا اور سخاوت آپ کا وصفِ خاص ہے- حضور نبی کریم (ﷺ) کا ارشاد مبارک ہے:

’’عثمانؓ کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں‘‘- [1]

آپؓ کاتب وحی ہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن اور آیاتِ قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے- بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرۂ امتیاز تھا- نرم خو اور فکرِ آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے- رسول اللہ (ﷺ)  نے فرمایا کہ’’جنت میں ہر نبی کا ساتھی و رفیق ہوتا ہے میرا ساتھی ”عثمانؓ “ ہو گا‘‘-[2]

آپ کے عہددرخشاں خلافت میں مسجدحرام اور مسجد نبوی(ﷺ) کی توسیع ہوئی، قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقہ اور قبرص فتح ہوکراسلامی سلطنت میں شامل ہوئے- نیز آپ نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی-

فارسی ادب میں حضرت عثمانؓ کے مناقب:

فارسی ادب میں بے شمار مصنفین نے منظوم و منثور کتب کی ابتداء میں حمد باری تعالیٰ، نعتِ سرور کونین (ﷺ) اور اس کے بعد خلفائے راشدین کے فضائل لکھے ہیں- زیرِ نظر مضمون میں اسلام کے خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنیؓ کے فضائل کوعناوین کے اعتبار سے بیان کیا گیا ہے-

فارسی ادب میں خلفائے راشدین کا تذکرہ:

تمام بڑے بڑے شعراء اور نثر نگاروں نے خلفاء راشدین کی ستائش میں کلام لکھا ہے- حکیم ابو القاسم فردوسی طوسی (940ء - 1020ء ) اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’شاہنامہ فردوسی‘‘ میں خلفائے راشدین کی ستائش میں فرماتے ہیں:

چه گفت آن خداوند تنزیل و وحی
خداوند امر و خداوند نهی
که خورشید بعد از رسولان مه
نتابید بر کس ز بوبکر به‏
عمر کرد اسلام را آشکار
بیاراست گیتی چو باغ بهار
پس از هر دو آن بود عثمان گزین
خداوند شرم و خداوند دین

’’اس صاحب تنزیل و وحی اور صاحبِ امر و نہی (رسول اکرم (ﷺ) نے کیا فرمایا ہے؟ عظیم رسولوں کے بعد خورشید حضرت ابوبکر صدیقؓ سے بہتر کسی شخص پر نہیں چمکا - حضرت عمرفاروقؓ نے اسلام کو آشکار کیا اور دنیا کو باغ بہار کی طرح آراستہ کیا- اُن دونوں کے بعد حضرت عثمان غنیؓ منتخب ہوئے جو صاحب حیا و صاحب دین تھے‘‘-

اشرف‌الدین ابو محمد حسن بن محمد حسینی غزنوی (۵۳۵ ق/1140ء–۵۶۵ق/ 1170ء ) ’’دیوان اشعار‘‘ میں لکھتے ہیں :

صدق بوبکریت بر عدل عمر دارد همی
شرم عثمانیت سوی علم حیدر می کشد

’’حضرت ابوبکر صدیقؓ پرصدق اور حضرت عمر فاروقؓ پر عدل تمام ہوا، شرم وحیا میں حضرت عثمان غنیؓ اور علم میں حضرت علیؓکریم نے کمال حاصل کیا ‘‘-

 اوحدالدین محمد ابن محمد انوری (1126ء- 1190ء) ’’دیوان اشعار ‘‘ میں لکھتے ہیں:

به اعتقاد ابوبکر و صولت فاروق
به ترسکاری عثمان و حکمت حیدر

’’حضرت ابوبکرؓاعتقاد اور حضرت عمر فاروقؓ حشمت و رعب و ہیبت، حضرت عثمان غنیؓ ترس و نرم دلی اور حضرت علیؓ حکمت کا اعلیٰ نمونہ تھے ‘‘-

افضل‌الدین بدیل بن علی خاقانی شروانی ،تخلص خاقانی (1126ء –1198ء)مثنوی ’’تحفۃ العراقین‘‘ میں لکھتے ہیں :

چهار یارش تا تاج اصفیا نشدند
نداشت ساعد دین یاره داشتن یارا

جب تک رسول اللہ (ﷺ) کے چار یار تاج برگزیدگاں نہ ہو گئے، دین کی کلائی زیورِ دست بند رکھنے کی قوت و جرات نہ رکھتی تھی- (یعنی چار یارِ رسول کے باعث دین زیور سے مزین ہوا-)

شاہزادہ بایزید شاہی، عثمانی (۱۵۲۶ء– ۱۵۶۲ء)  لکھتے ہیں:

’’محب چار یار و آل و اصحاب محمد شو‘‘

’’حضرت محمد (ﷺ) کے چار یار اور اُن کی آل و اصحاب کے محب بن جاؤ‘‘-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ (1039ھ  1629ء / 1102ھ 1692ء ) ’’عین الفقر اور  محک الفقر کلاں‘‘میں فرماتے ہیں:

صدیق صدق و عدل عمر و پُر حیا عثمان بود
گوئی فقرش از پیغمبرؐ شاہِ مردان می ربود

’’صدیق اکبر ؓ صاحب صدق ہوئے، حضرت عمر فاروق ؓ صاحب عدل ہوئے، حضرت عثمان ؓ صاحب ِحیا ہوئے اور شاہِ مردان حضرت علی ؓ نے فقر کی بازی جیتی‘‘-

حضرت عثمان غنی ؓ    کی قرآن مجید سے محبت:

حضرت عثمان بن عفان ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:

’’ افضلكم من تعلم القرآن وعلمه ‘‘

’’تم میں سب سے افضل وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے“-(بخاری)

 اس حدیث مبارکہ کے راوی، حافظ قرآن، جامع قرآن، ناشر قرآن حضرت عثمان بن عفان ؓ ہیں قرآن مجید کا عملی نمونہ تھے، قرآن مجید سے عشق و محبت آپ کے لوں لوں میں سمایا ہوا تھا-

حکیم ابوالمجد مجدود ‌بن آدم سنائی غزنوی( 1080ء - 1131ء)اپنی تصنیف’’ طریق التحقیق ‘‘میں لکھتے ہیں :

منبع جود و جامع قرآنؔ
صدف دُر مکرمت عثمان
آنکه همت ورای کیوان داشت
جیب جان نور نقد قرآن داشت

’’حضرت عثمان ؓ کے اعزاز میں صدف (گوہر نایاب) وجود میں آیا، آپ قرآن مجید کا جامع ماخذ و منبع ہیں – آپ وہ ہیں جس کی زحل ستارے سے آگے ہمت و کوشش تھی، جس کی جان کی نقدی نور قرآن تھی‘‘-

خاقانی شِروانی (1126ء –1198ء) مثنوی ’’تحفۃ العراقین‘‘ میں لکھتے ہیں:

بر گنج بسی کنند قربان
قربان شو پیشِ گنجِ قرآن
عثمان که به احمد اقتدا کرد
نه بر سرِ گنج جان فدا کرد
گلگونه نمود خونِ عثمان
بر روی مخدراتِ قرآن
خود خونِ مطهر چنان کس
گلگونهٔ قدسیان سزد بس

’’خزانے پر کئی چیزیں قربان کرتے ہیں، تم خزانۂ قرآن کے آگے قربان ہو جاؤ-حضرت عثمان ؓ نے حضرت محمد(ﷺ) کی نہ صرف اقتدا کی بلکہ آپ نے گنج قرآن پر جان کو فدا کر دیا- حضرت عثمانؓ کے خون نے قرآن کی پردہ نشینوں (آیتوں) کے چہرے پر سرخی مَل دی- ایسے کسی بزرگ شخص کا خون مطہر خود اس چیز کا لائق و سزاوار ہے کہ اُس کو فقط قدسیوں کا غازہ بنایا جائے‘‘-

ابوحمید ابن ابوبکر ابراہیم قلمی نام فرید الدین اور شیخ فرید الدین عطار کے نام سے مشہور ہیں (۵۴۰ - ۶۱۸ھ) تصنیف ’’خسرونامہ ‘‘میں لکھتے ہیں:

چو او مقبول قرآن و رسولست
ترا گر نیست مغزت بر فضولست
چنان آن گوهر پاکش صفا داشت
که در دریای قرآن آشنا داشت
دل پاکش چو جان پاک در باخت
بپاکی با کلام پاک در ساخت

’’کیونکہ آپؓ مقبول قرآن و مقبول رسول اللہ (ﷺ) ہیں، اگر تمہیں عقل و تمیز نہیں پھر تو فضول ہے-اس پاک گوہر/ جواہر کی پاکیزگی ایسی تھی، جو قرآن مجید کے سمندر سے مکمل آشنا تھے-آپ کا پاک دل، پاک جان میں تھا، پاکیزگی کو پاک کلام (قرآن مجید) سے پروان چڑھایا‘‘-

شیخ فریدالدین عطارؒ اپنی کتاب’’ مصیبت نامہ‘‘ کے آغاز میں امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفّانؓ کی فضیلت میں لکھتے ہیں:

چون پیمبر عین ایمان خواندش
هم دم خود قاف قرآن خواندش
او بقرآن خواندن بنشسته بود
کشتی دریای قرآن بسته بود
لاجرم چون کرد بی سر دشمنش
کرد قرآن ختم آن سر بی تنش
چون بآخر برد قرآن تن بزد
دشمنان خویش را گردن بزد
عشق قرآن چون رگی با جانش داشت
هم رگ و هم تن همه قرآنش داشت
از رگش چندانکه دایم خون چکید
تا اجل در عشق قرآن خون دوید
لاجرم قران چو شاهد بر جمال
تا ابد آن قطره خونش کرد خال

’’پیغمبر (ﷺ) نے آپ کو عین ایمان فرمایا ہے، آپ ہر سانس کے ساتھ قاف قرآن کو پڑھتے تھے-  جب قرآن کی تلاوت کرنے بیٹھتے، تو قرآن مجید کے سمندر کی کشتی میں بند ہو جاتے - آپؓ کے دشمن نے جب بغیر کسی جرم کے شہید کر دیا، تو آپؓ نے سر تن سے جدا ہو کر بھی قرآن مجید کا ختم فرمایا- بالآخر آپ ؓ نے قرآن مجید کو قبول کر لیا اور دشمنوں کو اپنی گردن پیش کر دی-آپؓ کی جان میں قرآن مجید سے عشق رگوں کی مانند تھا، آپؓ کا جسم اور رگیں مکمل قرآن مجید تھیں- آپؓ کی رگوں سے خون مسلسل ٹپک رہا تھا، قرآن کی محبت میں خون آخر تک دوڑتا رہا - لامحالہ قرآن مجید آپؓ کے جمال کا گواہ ہے، آپؓ کے خون کےقطرے نے ابد تک کے لئے تل کی مانند نشان چھوڑا‘‘-

ذوالنّورین :

حضرت عثمان غنی ؓ کا لقب ذوالنورین ہے، حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ)  تک حضرت عثمان غنیؓ کےعلاوہ کسی شخص کے نکاح میں کسی بھی نبی(علیہ السلام) کی دوصاحبزادیاں نہیں رہیں اسی واسطے سے آپ ؓ کا لقب ذوالنورین ہے-

شیخ فریدالدین عطارؒ اپنی تصنیف ’’مظہر العجائب‘‘  میں فرماتے ہیں :

چون خلیفه بود عثمان در جهان
خوانده ذوالنورین خلق او را عیان

’’جب جہاں میں حضرت عثمان غنی ؓ خلیفہ تھے، مخلوق خدا آپ کو ذوالنورین کے لقب سے یاد فرماتی تھی‘‘-

آپؒ اپنی ایک اور کتاب مصیبت نامہ میں فرماتے ہیں:

چون پسند خواجه کونین شد
در دو دامادیش ذی النورین شد
آن دو نورش چون دو چشم جان او
بل دو قطب عالم عرفان او
آن دو نورش چون دو کونش معتبر
پیش هر یک هر دو کونش مختصر

’’کیونکہ حضرت محمد (ﷺ) کے آپ محبوب تھے، آپ  (ﷺ) کے داماد ذوالنورین بنے-آپ (ﷺ) کے وہ دو نور آپ کی آنکھیں اور جان ہیں، بلکہ اس ذات پاک کے عالم عرفان کے دو قطب ہیں -آپ (ﷺ) کے وہ دو نور دو کونین سے بھی معتبر اور ہر ایک کے سامنے دو کونین بھی مختصر ہیں ‘‘-

مولانا احمد رضا خان قادریؒ (1856ء –1921ء) اپنے نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ میں لکھتے ہیں:

نور کی، سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا

حکیم ابوالمجد مجدود ‌بن آدم سنائی غزنوی( 1080ء - 1131ء)اپنی تصنیف ’’طریق التحقیق‘‘ میں لکھتے ہیں :

دین شرف یافته و دنیا زین
از جمال وجود ذوالنورین

’’دین کی عزت اور دنیا کی زینت ذوالنورین کے وجود کے جمال سے قائم ہے‘‘-

صاحبِ شرم و حیا:

حضرت عثمان غنی ؓ شرم و حیا کا پیکر تھے، آپ ؓ کی ذات گرامی شریف النفسی کی معراج پر فائز تھی، اسی طرح حیاء آپؓ سے خاص ہو گئی-

حکیم ابوالمجد مجدود ‌بن آدم سنائی غزنوی( 1080ء - 1131ء)اپنی تصنیف طریق التحقیق میں لکھتے ہیں :

طلعتش بوده نور هر دیده
سرمهٔ شرم داشت در دیده

’’ہر اس کی آنکھ کا نور آپ ؓ کی ہی اطاعت کرتا ہے جو آنکھوں میں شرم و حیا کا سرمہ رکھتے ہیں‘‘-

شیخ فریدالدین عطارؒ اپنی تصنیف مصیبت نامہ میں لکھتے ہیں :

بود دریای حیا و کوه حلم
جان پاکش غرقه دریای علم

’’آپؓ کی ذات حیا کا سمندر اور حلم کا پہاڑ تھی، آپ ؓ کی پاک روح علم کے سمندر میں غوطہ زن تھی‘‘-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھوؒ (1039ھ، 1629ء / 1102ھ، 1692ء ) فرماتے ہیں:

’’و از نظرِ حضرت عثمان (ؓ) در وجودِ او ادب و حیا پیدا شود و بی ادبی و بی حیائی از وجودِ او برخیزد‘‘[3]

’’حضرت عثمانؓ کی تاثیرِ نظرسے سالک کے وجود میں ادب و حیا پیدا ہو جاتی ہے اور بے ادبی و بے حیائی اُس کے وجود سے نکل جاتی ہے‘‘-

سخاوت:

 حضرت عثمان ؓ کا لقب غنی تھا -آپ ؓ ہمہ تن دین اسلام کی فلا ح و بہبود کے لئے کوشاں رہے اور اپنا مال و دولت مشکل ترین حالات میں ہمیشہ مسلمانوں کی ضروریات کے لئے خرچ کیا خصوصاً ٹھنڈے میٹھے پانی کے کنویں، غزوات میں اسلحہ، سواریاں اور غذا کا بندوبست اور مسجد نبوی کی توسیع کے لئے زمین کی خریداری میں آپ سب سے نمایاں تھے-

شیخ فریدالدین عطارؒ اپنی تصنیف ’’مصیبت نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں :

در سخا همتاش در عالم نبود
در وفای دین نظیرش هم نبود

’’دنیا میں کوئی بھی سخاوت کا آپ کے ہم منصب نہ تھا، دین کی وفا/تکمیل میں آپ بے مثال تھے‘‘-

سلطان العارفین حضرت سلطان باھُوؒ ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:

"اَلدُّنْیَا مِزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ این است کہ شب و روز تصرّف فی سبیل اللہ از دل و جانست چنانچہ دنیائِ حضرت عثمان(ؓ) ہر کہ دنیا را جمع کند و بہ راہِ خدا ندہد ثانیٔ شیطان بود–

’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے لیکن آخرت کی کھیتی یہ تب بنتی ہے جب بندہ اِسے دل و جان سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے جس طرح کہ حضرت عثمانِ غنی ؓ خرچ کیا کرتے تھے- جو آدمی دنیا جمع کرتا ہے اور راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتا وہ شیطانِ ثانی ہے‘‘-

عظمتِ عثمان غنی ؓ   :

حضرت عثمان غنیؓ کی عظمت و رفعت کا شمار نہیں کیا جا سکتا- آپ ؓ کی زندگی کا ایک ایک پہلو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے- آپؓ عشرہ مبشرہ صحابہ کرام میں سے ایک ہیں- آپؓ کا شمار حضور نبی کریم(ﷺ) کے اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے- اخلاقِ عالیہ و اوصفات حمیدہ، عاداتِ شریفہ اور خصائل کریمہ آپ کا خاصہ ہیں-

حکیم ابوالمجد مجدود ‌بن آدم سنائی غزنوی( 1080ء - 1131ء)اپنی تصنیف طریق التحقیق میں لکھتے ہیں :

دلش از حرص و حقد خالی بود
فلکش اختر معالی بود

’’آپؓ کا دل حرص و کینہ و عناد سے پاک تھا، اورستاروں بھرے آسمان کی مانند بلند تھا‘‘-

شیخ فریدالدین عطارؒ اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’خسرونامہ‘‘ میں لکھتے ہیں :

جهان معرفت دریای عرفان
امیر المؤمنین عثمان عفّان
حیا بحریست کورا پا و سر نیست
ولی دروی به جز عثمان گهر نیست

’’معرفت کا جہاں اور تصوف و عرفان کا سمندر امیر المؤمنین عثمان بن عفانؓ ہیں-حیا بحر بیکراں ہے جس کی نہ ابتداء ہے اور نہ ہی انتہا، مگر اس میں حضرت عثمان غنی ؓ کے علاوہ کوئی گوہر نہیں ہے‘‘-

شیخ فریدالدین عطارؒ اپنی تصنیف’’مصیبت نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں :

چون خلافت رونق از عثمان گرفت
شرق تا غرب جهان ایمان گرفت
از کمال فضل حق وز جهد او
شد جهان بر دین حق در عهد او

’’حضرت عثمان ؓ جب خلیفہ اسلام مقرر ہوئے، تو جہاں شرق تاغرب ایمان کی دولت سے سرفراز ہوا- اللہ تعالیٰ کے فضل کمال اور آپ ؓ کے جہدو جہد سے آپؓ کے عہد میں دین ِحق جہاں میں قائم ہو گیا‘‘-

مولانا محمد جلال الدین رومیؒ (1207ء –1273ء ) مثنوی معنوی میں ایک ’’ قصهٔ آغاز خلافت عثمانؓ  و خطبهٔ وی در بیان آنک ناصح فعال به فعل به از ناصح قوال به قول‘‘ نقل فرماتے ہیں :

قصهٔ عثمان که بر منبر برفت
چون خلافت یافت بشتابید تفت
منبر مهتر که سه‌ پایه بدست
رفت بوبکر و دوم پایه نشست
بر سوم پایه عمر در دور خویش
از برای حرمت اسلام و کیش
دور عثمان آمد او بالای تخت
بر شد و بنشست آن محمود بخت
پس سؤالش کرد شخصی بو الفضول
که آن دو ننشستند بر جای رسول
پس تو چون جستی ازیشان برتری
چون برتبت تو ازیشان کمتری
گفت اگر پایهٔ سوم را بسپرم
وهم آید که مثال عمرم
بر دوم پایه شوم من جای‌جو
گویی بوبکرست و این هم مثل او
هست این بالا مقام مصطفی
وهم مثلی نیست با آن شه مرا

’’حضرت عثمان ؓ کا قصہ کہ منبر پر پہنچے جب خلافت پائی تیزی سے عمل کیا-شہنشاہ مکرم حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) کا منبر جو تین درجوں کا تھا حضرت ابوبکر ؓ اپنے دور خلافت میں اس کے دوسرے درجہ پر تشریف فرما ہوئے-حضرت عمر ؓ اپنے دور میں تیسرے درجہ پر اسلام اور مذہب کی حرمت کے لیے بیٹھے-حضرت عثمان ؓ کا زمانہ آیا وہ تخت کےسب سے اوپر والے درجہ پر وہ خوش نصیب تشریف فرما ہوئے-ان سے ایک سادہ لوح شخص نے دریافت کیا کہ وہ دونوں رسول(ﷺ) کی جگہ پر نہ بیٹھے -تو آپ نے ان سے برتری کیوں چاہی؟ جبکہ آپ ان سے رتبہ میں کم ہیں(یعنی ان کے بعدخلیفہ مقرر ہوئے)آپ نے فرمایا اگر میں تیسرے درجہ پر ٹھہروں شبہ ہو گا کہ میں عمرؓ جیسا ہوں اور اگر میں دوسرے درجہ پر جگہ تلاش کروں لوگ مجھے کہیں گے کہ وہ ابوبکرؓ جیسا ہے یہ اونچا درجہ مصطفےٰ (ﷺ) کی جگہ ہے میرے متعلق اس شہنشاہ جیسا ہونے کا وہم نہیں ہو سکتا-

شہادت حضرت عثمان غنی ؓ   :

حضرت عثمان غنی ؓ (بروز جمعہ 18 ذی الحجہ،سنہ 35 ھ، 656ء عمر بیاسی سال) گھر میں قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے کہ آپؓ کو شہید کر دیا گیا- جس نے بھی اس کوخبر کو سنا انگشت بدنداں رہ گیا،آپؓ کی شہادت کی خبر عالم اسلام میں ایک بہت بڑی صدمہ تھی،آپؓ کا مقبرہ جنت البقیع مدینہ منورہ میں ہے-

حکیم ابوالمجد مجدود ‌بن آدم سنائی غزنوی( 1080ء - 1131ء)اپنے ’’دیوان اشعار‘‘ میں لکھتے ہیں :

گفتم: ای عثمان بنا گه کشتهٔ غوغا شدی
گفت: خلخال عروس عاشقان ز آندم بود

’’میں نے عرض کی، اے عثمانؓ آپ ؓ ہنگامہ آرائی میں شہید ہو گئےاور آپ ؓ نے فرمایا تن، بدن عاشقوں کی دلہن کی پائل ہے‘‘-

خلاصہ کلام :

خلفائے راشدین کی سیرت کو اپنی زندگی کا عملی حصہ بنائیں اور ان کےاوصاف وکمالات کو اپناتے ہوئے بحیثیتِ فرد و قوم اپنی اپنی اصلاح کریں- کوشش کریں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے صدق، حضرت عمر فاروق ؓ سے عدل، حضرت عثمان غنی ؓ کی پیروی کرتے ہوئے سخاوت و حیا اورحضرت علیؓ سے علم و فقر کا فیض حاصل کریں تاکہ ہمیں بھی خلفائے راشدین کے فیض سے دین محمدی ؓ میں ثابت قدمی و استقامت اور فلاح دائمی نصیب ہو-آمین!

٭٭٭


[1](مشكوة المصابيح، رقم الحدیث: 6069)

[2](سنن ترمذی، رقم الحدیث: 3698)

[3]( کلید ا لتّوحید کلاں/ کلید ا لتّوحید خورد/ شمس العارفین)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر